ہفتہ، 2 مئی، 2015

داستان مجاہد آخری قسط

0 comments



جزا اور سزا


  عبد اللہ معلوم تھا کہ خلیفہ ابن صادق کی تلاش میں ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اور اسے زندہ رکھنا خطرناک ہے مگر وہ ایسے ذلیل انسان کے خون سے ہاتھ رنگنا بہادر کی شان کے شایاں نہ سمجھتا تھا۔ جب قسطنطنیہ کے راستے میں اس کی فوج نے قونیہ کے مقام پر قیام کیا تو عبد اللہ عامل شہر سے ملا اور اس کے سامنے اپنے قیمتی سامان کی حفاظت کے لیے ایک مکان حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ عامل شہر نے عبد اللہ کو ایک پرانا اور غیرآباد مکان دے دیا۔ عبد اللہ نے ابن صادق کو اس مکان کے تہ خانے میں بند کیا اور برمک اور زیاد کو اس کی حفاظت کے لیے چھوڑ کر فوج کے ساتھ قسطنطنیہ کا راستہ لیا۔
زیاد کو اپنی زندگی پہلے سے دلچسپ نظر آتی تھی۔ پہلے وہ محض ایک غلام تھا لیکن اب اسے ایک شخص کے جسم اور جان پر پورا پورا اختیار تھا۔ وہ جب چاہتا ابن صادق کے ساتھ دل بہلا لیتا۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ ابن صادق اس کے لیے ایک کھولنا ہے اور اس کھلونے کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس کا جی کبھی سیر نہ ہوتا۔ اس کی بے لطف زندگی میں ابن صادق پہلی اور آخری دلچسپی تھی۔ اسے اس کے ساتھ چڑ تھی یا پیار۔ بہر صورت وہ ہر روز اسے تھپڑ لگانے، اس کی ڈاڑھی نوچنے اور اس کے منہ پر تھوکنے کے لیے کوئی نہ کوئی موقع ضرور نکال لیتا۔ برمک اپنی موجودگی میں اسے ان حرکات کی اجازت نہ دیتا لیکن جب وہ کھانے کی چیزیں لینے کے لیے بازار جاتا تو زیاد اپنا جی خوش کر لیتا۔
عبد اللہ کے حکم کے مطابق ابن صادق کو اچھے سے اچھا کھانا دیا جاتا۔ اس کا یہ بھی حکم تھا کہ ابن صادق کو کوئی تکلیف نہ دی جائے لیکن زیاد اس حکم کو اتنا ضروری خیال نہ کرتا۔ اگرچہ عربی زبان سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا لیکن ابن صادق کے ساتھ وہ ہمیشہ اپنی مادری زبان میں گفتگو کرتا۔ ابن صادق کو شروع شروع میں دقت ہوئی لیکن چند مہینوں کے بعد وہ زیاد کی باتیں سمجھنے کے قابل ہو گیا۔
ایک دن برمک بازار سے کھانے پینے کی چیزیں لینے گیا۔ زیاد مکان کے ایک کمرے میں کھڑا کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا کہ اسے اپنا ایک ہم نسل ایک گدھے پر سوار شہر سے باہر نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ دیو ہیکل حبشی کے بوجھ سے نحیف گدھے کی کمر دوہری ہو رہی تھی۔ گدھا چلتے چلتے لیٹ گیا اور حبشی اس پر کوڑے برسانے لگا۔ گدھا مجبوراً اٹھ کھڑا ہوا اور حبشی اس پر سوار ہو گیا۔ گدھا تھوڑی دور چل کر پھر بیٹھ گیا اور حبشی پھر کوڑے برسانے لگا۔ زیاد قہقہہ لگاتا ہوا کمرے سے ایک کوڑا اٹھا کر نیچے اترا اور ابن صادق کے قید خانے کا دروازہ کھل کر اندر داخل ہوا۔
ابن صادق زیاد کو دیکھتے ہی حسب معمول ڈاڑھی نچوانے اور کوڑے کھانے کے لیے تیار ہو گیا لیکن زیاد اس کی توقع کے خلاف کچھ دیر خاموش کھڑا رہا۔ بالآخر اس نے آگے جھک کر دونوں ہاتھ زمین پرپر ٹیک دیے اور یک چوپائے کی طرح ہاتھ اور پاؤں کے بل دو تین گز چلنے کے بعد ابن صادق سے کہا۔’’آؤ!‘‘
ابن صادق اس کا مطلب نہ سمجھا۔ آج کسی نئی دل لگی کے خوف نے اسے بد حواس کر دیا تھا۔ وہ اتنا گھبرایا کہ اس کی پیشانی پر پسینہ آگیا۔
زیاد نے پھر کہا۔’’آؤ مجھ پر سواری کرو!‘‘
ابن صادق جانتا تھا کہ اسکے جائز اور نا جائز احکام کی اندھا دھند تکمیل ہی میں بہتری ہے اور اس کی حکم عدولی کی سزا اس کے لیے نا قابل برداشت ہو گی۔اس لیے ڈرتے ڈرتے زیاد کی پیٹھ پر سوار ہو گیا۔ زیاد نے تہہ خانے کی دیوار کے ساتھ دو تین چکر لگائے اور ابن صادق کو نیچے اتار دیا۔ اس نے زیاد کو خوش کرنے کے لیے خوشامدانہ لہجے میں کہا۔’’آپ بہت طاقتور ہیں !‘‘
  لیکن زیاد نے اس کے ان الفاظ پر کوئی توجہ نہ دی اور اٹھتے ہی اپنے ہاتھ جھاڑنے کے بعد ابن صادق کو پکڑ کر نیچے جھکاتے ہوئے کہا۔’’اب میری باری ہے!‘‘
ابن صادق کو معلوم تھا کہ وہ اس بھاری بھرکم دیو کے بوجھ تلے دب کر پس جائے گا لیکن اس نے مجبوراً اپنے آپ کو سپرد تقدیر کر دیا۔
زیاد اپنا کوڑا ہاتھ میں لے کر ابن صادق کی پیٹھ پر سوار ہوا۔ ابن صادق کی کمر دوہری ہو گئی۔ اس کے لیے اس قدر بوجھ لے کر چلنا ناممکن تھا۔ وہ بصد مشکل دو تین قدم اٹھانے کے بعد گر پڑا۔ زیاد نے کوڑے برسانے شروع کر دیے یہاں تک کہ ابن صادق بے ہوش ہو  گیا۔ زیاد نے اسے اٹھایا اور دیوار کا سہارا دے کر بٹھا دیا اور خود بھاگتا ہوا باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد قید خانے کا دروازہ پھر کھلا اور زیاد ایک طشتری میں چند سیب اور انگور لے کر اندر داخل ہوا۔ ابن صادق نے ہوش میں آ کر آنکھیں کھولیں۔ زیاد نے اپنے ہاتھ سے چند انگور اس کے منہ میں ڈالے۔اس کے بعد اس نے اپنے خنجر کے ساتھ ایک سیب چیرا اور اس میں سے آدھا ابن صادق کو دیا۔ جب ابن صادق نے اپنا حصہ ختم کر لیا تو زیاد نے اسے ایک اور سیب کاٹ کر دیا۔
ابن صادق کو معلوم تھا کہ زیاد کبھی کبھی ضرورت سے زیادہ مہربان بھی ہو جایا کرتا ہے، اس لیے اس نے دوسرا سیب ختم کرنے کے بعد خود ہی تیسرا سیب اٹھا لیا۔ زیادہ نے اپنا خنجر سیبوں کے درمیان رکھا ہوا تھا۔ ابن صادق نے قدرے بے پرواہی ظاہر کرتے ہوئے اس کا خنجر اٹھایا اور سیب کا چھلکا اتارنا شروع کر دیا۔ زیاد اس کی ہر حرکت کو غور سے دیکھتا رہا۔ ابن صادق نے خنجر پھر وہیں رکھ دیا اور بولا ’’یہ چھلکا نقصان دہ ہوتا ہے!‘‘
’’ہوں !‘‘ زیاد نے سر ہلاتے ہوئے کہا اور ایک سیب اٹھا کر خود بھی ابن صادق کی طرح اس کا چھلکا اتارنے لگا۔ زیاد کے ہاتھ پر ایک معمولی سا زخم آگیا۔ وہ ہاتھ منہ میں ڈال کر چوسنے لگا۔
’’لائیے۔ میں اتار دوں !‘‘ ابن صادق نے کہا۔
زیاد نے سر ہلایا اور اپنا سیب اور خنجر اسے دے دیا۔
ابن صادق نے سیب کا چھلکا اتارا کر اسے دیا اور پوچھا۔’’اور کھائیں گے آپ؟‘‘
زیاد نے سر ہلایا اور ابن صادق نے ایک اور سیب اٹھا کر اس کا چھلکا اتارنا شروع کیا۔ ابن صادق کے ہاتھ میں خنجر تھا اور اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک دفعہ قسمت آزمائی کر کے دیکھ لے لیکن اسے یہ خوف تھا کہ زیاد اسے حملہ کرنے سے پہلے دبوچ لے گا۔ اسے نے کچھ سوچ کر اچانک دروازے کی طرف مڑ کر دیکھا اور پریشان سا منہ بنا کر کہا۔’’کوئی آ رہا ہے!‘‘ زیاد نے بھی جلدی سے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔ ابن صادق نے نظر بچاتے ہی چمکتا ہوا خنجر اس کے سینے میں قبضے تک گھونپ دیا اور فوراً کود کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ زیاد غصے سے کانپتا ہوا اٹھا اور دونوں ہاتھ آگے کی طرف بڑھا کر ابن صادق کا گلا دبوچنے کے لیے آگے بڑھا۔ابن صادق اس کے مقابلے میں بہت پھرتیلا تھا۔ فوراً بھاگ کر اس کی زد سے باہر نکلا اور تہہ خانے کے دوسرے کونے میں جا کھڑا ہوا۔ زیاد اس کی طرف بڑھا تو وہ تیسرے کونے میں جا پہنچا۔ زیاد نے اسے چاروں طرف سے گھیرنا چاہا لیکن وہ قابو میں نہ آیا۔
زیاد کے قدم لحظہ بہ لحظہ ڈھیلے پڑ رہے تھے۔ زخم کا خون تمام کپڑوں کو تر کرنے کے بعد زمین پر گر رہا تھا۔ طاقت جواب دے چکی تھی۔ وہ سینے کو دونوں ہاتھوں میں دبا کر جھکتے جھکتے زمین پر بیٹھا اور بیٹھتے ہی نیچے لیٹ گیا۔ ابن صادق ایک کونے میں کھڑا کانپ رہا تھا۔ جب اسے تسلی ہوئی کہ وہ مر چکا ہے  بے ہوش ہو گیا ہے تو آگے بڑھ کر اس کی جیب سے چابی نکالی اور دروازہ کھول باہر نکل گیا۔
برمک ابھی تک بازار سے نہیں آیا تھا۔ ابن صادق یہاں سے خلاصی پا کر چند قدم بھاگا لیکن تھوڑی دور کر یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اسے شہر میں کوئی خطرہ نہیں، اطمینان سے چلنے لگا اور شہر کے لوگوں سے باہر کی دنیا کے حالات معلوم کرنے کے بعد وہ خلیفہ کو اپنی آب بیتی سنانے کے لیے رملہ روانہ ہو گیا۔
ابن صادق کے رہائی کے چند دن بعد یہ خبر سنی گئی کہ خلیفہ نے عبد اللہ کو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کر دیا ہے اور وہ پا بہ زنجیر رملہ کی طرف لایا جا رہا ہے۔
  ابن صادق کے متعلق یہ خبر مشہور ہوئی کہ اسے سپین کا مفتی اعظم کا عہدہ دے کر بھیجا جا رہا ہے۔

(۲)

۹۹ھ میں سلیمان نے اپنی فوج کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے کر قسطنطنیہ پر حملہ کر دیا لیکن ابھی فتح کی حسرت پوری نہ ہوئی تھی کہ وہ دنیا سے چل بسا اور عمرؒ بن عبد العزیز تخت خلافت پر رونق افروز ہوئے۔ عمرؒ بن عبد العزیز عادات و خصائل میں بنو امیہ کے تمام خلفا سے مختلف تھے۔ ان کا عہد خلافت اموی دور حکومت کا روشن ترین زمانہ تھا۔ نئے خلیفہ کا پہلا حکم مظلوموں کی داد رسی کرنا تھا۔ بڑے بڑے مجاہدین جو سلیمان بن عبد المالک کے جذبہ حقارت کا شکار ہو کر قید خانے کی تاریک کوٹھڑیوں میں پڑے ہوئے تھے، فورا رہا کر دیے گئے۔ سخت گیر حاکموں کو معزول کر دیا گیا اور ان کی جگہ نیک دل اور عادل حکام بھیجے گئے۔ عبد اللہ جو ابھی تک رملہ کے قید خانے میں محبوس تھا، وہاں سے رہا کر کے دربار خلافت میں بلایا گیا۔
عبد اللہ نے دربار خلافت میں حاضر ہو کر اپنی رہائی کے لیے شکریہ ادا کیا۔
امیر المومنین نے پوچھا۔’’اب تم کہاں جاؤ گے؟
’’امیر المومنین! مجھے گھر سے نکلے ہوئے بہت دیر ہو گئی ہے۔ میں اب وہاں جاؤں گا۔‘‘
’’میں تمہارے متعلق ایک حکم نافذ کر چکا ہوں ‘‘
’’امیر المومنین! میں خوشی سے آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔‘‘
عمرؒ ثانی نے ایک کاغذ عبد اللہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔’’میں تمہیں خراسان کا گورنر مقرر کر  چکا ہوں۔ تم ایک مہینے کے لیے گھر رہ آؤ۔ اس کے بعد فوراً خراسان پہنچ جاؤ!‘‘
عبد اللہ سلام کر کے چند قدم چلا لیکن پھر رک کر امیر المومنین کی طرف دیکھنے لگا۔
’’تم کچھ اور کہنا چاہتے ہو؟‘‘ امیر المؤمنین نے سوال کیا۔
’’امیر المومنین! میں اپنے بھائی کے متعلق عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اسے میں نے دمشق کے قید خانے سے نکالنے کی سازش کی تھی۔ وہ بے قصور تھا۔ اگر قصور کچھ تھا تو یہ کہ وہ قتیبہؒ بن مسلم اور محمدؒ بن قاسم کا دست راست تھا اور اس نے دربار خلافت میں حاضر ہو کر امیر المومنین کو قتیبہؒ کے قتل کے ارادے سے منع کیا تھا۔‘‘
عمرؒ ثانی نے پوچھا۔ ’’تم نعیم بن عبدالرحمن کا ذکر کر رہے ہو؟‘‘
’’ہاں امیر المومنین! وہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔‘‘
’’اب وہ کہاں ہے؟‘‘
’’سپین میں۔ میں نے اسے ابو عبید کے پاس بھیج دیا تھا لیکن مجھے ڈر ہے کہ پہلے خلیفہ ابن صادق کا وہاں کا مفتی اعظم بنا کر بھیج چکے ہیں اور وہ نعیم کے خون کا پیاسا ہے۔‘‘
امیر المومنین نے کہا۔ ’’ابن صادق کے متعلق میں آج ہی والی سپین کو یہ حکم لکھ رہا ہوں کہ اسے پا بہ زنجیر دمشق بھیجا جائے اور میں تمہارے بھائی کے متعلق بھی خیال رکھوں گا۔‘‘
’’امیر المؤمنین نعیم کے ساتھ اسکا ایک دوست بھی ہے اور وہ آپ کی نظر کرم کا مستحق ہے۔‘‘
امیر المؤمنین نے کاغذ اٹھا کر والی سپین کے نام خط لکھا اور ایک سپاہی کے حوالے کرتے ہوئے کہا:
’’اب آپ خوش ہیں۔ میں نے آپ کے بھائی کو جنوبی پرتگال کا گورنر مقرر کر دیا ہے اور اس کے دوست کو فوج میں اعلیٰ عہدہ دینے کی سفارش کر دی ہے اور ابن صادق کے متعلق بھی لکھ دیا ہے۔‘‘
عبداللہ ادب سے سلام کر رخصت ہوا۔
  والی اندلس قرطبہ میں مقیم تھا۔ وہ جنوبی پرتگال میں ایک نئے جرنیل زبیر کی فتوحات کا سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے ابوعبید کے نام خط لکھا اور زبیر سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ نعیم قرطبہ پہنچا اور والی اندلس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ والی اندلس نے گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا اور اپنے دائیں ہاتھ بٹھا لیا۔
والی اندلس نے کہا ’’مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ابو عبید نے اپنے خط میں آپ کی بہت تعریف کی ہے۔ چند دن ہوئے مجھے یہ خبر ملی تھی کہ شمال کے پہاڑی لوگوں نے بغاوت کر دی ہے۔ میں آپ کو ان کی سرکوبی کے لیے بھیجنا چاہتا ہوں۔ آپ کل تک تیار ہو جائیں گے؟‘‘
’’اگر بغاوت ہے تو مجھے آج ہی جانا چاہیے اور بغاوت کی آگ کو پھیلنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔‘‘
’’بہت اچھا۔ میں ابھی امیر عسا کر کو مشورے کے لیے بلاتا ہوں۔‘‘
نعیم اور والی اندلس آپس میں یہ باتیں کر رہے تھے کہ ایک سپاہی نے آ کر کہا۔’’مفتی اعظم آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
گورنر نے کہا۔ انہیں کہو تشریف لے آئیں !‘‘
’’آپ شاید ان سے نہیں ملے!‘‘ اس نے نعیم کو مخاطب کر کے کہا۔ ’’انہیں آئے ایک ہفتے سے زیادہ نہیں ہوا۔ وہ امیر المؤمنین کے خاص احباب میں سے معلوم ہوتے ہیں اور مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ وہ اس منصب کے اہل نہیں۔‘‘
’’ان کا نام کیا ہے؟‘‘
’’ابن صادق۔ ‘‘ گورنر نے جواب دیا۔
نعیم نے چونک کر پوچھا۔ ’’ابن صادق؟‘‘
’’آپ انہیں جانتے ہیں ؟‘‘
اتنے میں ابن صادق اندر داخل ہوا اور اسے دیکھتے ہی نعیم کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کوئی تازہ مصیبت سر پر کھڑی ہے۔
ابن صادق نے بھی اپنے پرانے حریف کو دیکھا اور ٹھٹھک کر رہ گیا۔
’’آپ انہیں نہیں جانتے؟‘‘ گورنر نے ابن صادق کو مخاطب کیا۔’’ان کا نام زبیر ہے اور ہماری فوج کے بہت بہادر سالار ہیں۔‘‘
’’خوب! ابن صادق نے یہ کہہ کر نعیم کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن نعیم نے مصافحہ نہ کیا۔
’’شاید آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں آپ کا پرانا دوست ہوں۔ ‘‘ ابن صادق نے کہا۔
نعیم نے ابن صادق کی طرف توجہ نہ کی اور گورنر سے کہا۔’’آپ مجھے اجازت دیں !‘‘
’’ٹھہریے۔ میں سالار کے نام حکم نامہ لکھ دیتا ہوں۔ وہ آپ کے ساتھ جتنی فوج درکار ہو گی روانہ کر دے گا اور آپ بھی تشریف رکھیں !‘‘ اس نے ابن صادق کو ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ابن صادق گورنر کے قریب بیٹھ گیا اور گورنر نے کاغذ پر حکم نامہ لکھ کر نعیم کو دینا چاہا۔
’’میں دیکھ سکتا ہوں ؟‘‘ ابن صادق نے کہا۔
’’خوشی سے۔‘‘ گورنر نے کہا اور کاغذ ابن صادق کے ہاتھ میں دے دیا۔
ابن صادق نے کاغذ لے کر پڑھا اور گورنر کو واپس دیتے ہوئے کہا۔’’اب اس شخص کی خدمات کی ضرورت نہیں۔ آپ اس کی جگہ کوئی اور آدمی بھیج دیں !‘‘
گورنر نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’آپ کو انکے متعلق کیسا شبہ ہو گیا۔یہ تو ہماری فوج کے بہترین سالار ہیں !‘‘
’’لیکن آپ کو یہ معلوم نہیں کہ یہ امیر المومنین کے بدترین دشمن ہیں اور ان کا نام زبیر نہیں نعیم ہے اور یہ دمشق کے قید خانے سے فرار ہو کر یہاں تشریف لائے ہیں۔‘‘
  ’’کیا یہ سچ ہے؟‘‘ گورنر نے پریشان ہو کر سوال کیا۔
نعیم خاموش رہا۔
ابن صادق نے کہا۔’’آپ فوراً اسے گرفتار کر لیں اور آج ہی میری عدالت میں پیش کریں۔‘‘
’’میں ایک سالار کو بغیر کسی ثبوت کے گرفتار نہیں کر سکتا۔ آپ ایک دوسرے کے ساتھ پہلی ہی ملاقات میں اس طرح پیش آئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے درمیان کوئی پرانی رنجش ہے اور اس صورت میں اگر یہ مجرم بھی ہوں تو بھی میں ان کا مقدمہ آپ کے سپرد نہیں کروں گا۔‘‘
’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ سپین کے مفتی اعظم سے باتیں کر رہے ہیں۔‘‘
’’اور آپ کو معلوم ہے کہ میں سپین کا عامل ہوں۔‘‘
’’ٹھیک۔ لیکن آپ کو معلوم نہیں کہ میں سپین کے مفتی اعظم کے علاوہ اور بھی کچھ ہوں۔‘‘
نعیم نے کہا۔’’یہ نہیں جانتے میں بتا دیتا ہوں۔ آپ امیر المومنین کے دوست قتیبہؒ بن مسلم، محمدؒ بن قاسم اور ابی عامرؒ کے قاتل ہیں۔ ترکستان کی کی بغاوت آپ کی کرم فرمائی کا نتیجہ تھی اور آپ وہ سفاک انسان ہیں جس نے اپنے بھائی اور بھتیجی کے قتل سے بھی دریغ نہیں کیا لیکن اس وقت آپ میرے مجرم ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر نعیم نے بجلی کی سی پھرتی کے ساتھ نیام سے تلوار نکال لی اور اس کی نوک ابن صادق کے سینے پر رکھتے ہوئے کہا۔’’ میں نے تمہیں بہت تلاش کیا لیکن تم نہ ملے۔ آج قدرت خود ہی تمہیں یہاں لے آئی۔ تم امیر المؤمنین کے دوست ہو۔ انہیں تمہارے اس انجام سے صدمہ تو بہت ہو گا لیکن اسلام کا مستقبل مجھے خلیفہ کی خوشی سے زیادہ عزیز ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر نعیم نے تلوار اوپر اٹھائی۔ ابن صادق بید کی طرح کانپ رہا تھا۔ موت سر پر دیکھ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ نعیم یہ حالت دیکھ کر تلوار نیچے کر لی اور کہا۔’’اس تلوار سے میں نے سندھ اور ترکستان کے مغرور شہزادوں کی گردنیں اڑا چکا ہوں۔ میں اسے تم ایسے ذلیل اور بزدل انسان کے خون سے تر نہیں کروں گا۔ نعیم نے تلوار نیام میں ڈال لی اور کمرے میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔
ایک فوجی افسر کی مداخلت نے اس سکوت کو توڑا۔ اس نے آتے ہی والی سپین کی خدمت میں ایک خط پیش کیا۔ والی سپین نے جلدی سے خط کھولا اور دو تین مرتبہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر پڑھنے کے بعد نعیم کی طرف دیکھا اور کہا:
’’اگر آپ کا نام زبیر نہیں نعیم ہے تو اس خط میں آپ کے متعلق بھی کچھ ارشاد ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے نعیم کی طرف خط بڑھا دیا۔ نعیم نے خط پڑھنا شروع کر دیا۔
یہ خط امیر المومنین عمرؒ بن عبد العزیز کی طرف سے تھا۔
والی سپین نے تا لی بجائی۔ چند سپاہی نمودار ہوئے۔
’’اسے گرفتار کر لو!‘‘ اس نے ابن صادق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
ابن صادق کو وہم تک بھی نہیں تھا کہ اس کے مقدر کا ستارہ طلوع ہوتے ہی سیاہ بادلوں میں چھپ جائے گا۔
ادھر نعیم جنوبی پرتگال کی طرف گورنر کی حیثیت سے جا رہا تھا اور ادھر چند سپاہی ابن صادق کو پا بہ زنجیر دمشق کی کی طرف لے جا رہے تھے۔
چند دنوں بعد نعیم کو معلوم ہوا کہ ابن صادق نے دمشق پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ہے۔
نعیم نے عبد اللہ کو خط لکھ کر گھر کی خیریت دریافت کی۔ اس خط کا جواب دیر تک نہ آیا۔نعیم تنگ آگیا اور تین مہینے کی رخصت پر بصرہ کی طرف روانہ ہوا۔ چونکہ نرگس اس کے ہمراہ تھی اس لیے سفر میں دیر لگ گئی۔گھر پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ عبد اللہ خراسان جا چکا ہے اور عذرا کو بھی ساتھ لے گیا ہے۔ نعیم خراسان جانا چاہتا تھا لیکن سپین کے شمال کی طرف اسلامی افواج کی پیش قدمی کی وجہ سے اپنا ارادہ ملتوی کر کے واپس آنا پڑا۔




آخری فرض


  وقت دنوں سے مہینوں اور مہینوں سے برسوں میں تبدیل ہو کر گزرتا چلا گیا۔ نعیم کو جنوبی پرتگال کی گورنری پر فائر ہوئے اٹھارہ سال گزر چکے تھے۔ اس کی جوانی بڑھاپے میں تبدیل ہو چکی تھی۔ نرگس کی عمر بھی چا لیس سے تجاویز کر چکی تھی لیکن اس کے حسیں چہرے کی جاذبیت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہ آتی تھی۔
عبد اللہ بن نعیم، ان کا بڑا بیٹا عمر کے پندرھویں برس میں قدم رکھتے ہی سپین کی فوج میں بھرتی ہو چکا تھا۔ تین سال کے اندر اندر اس نے اس قدر شہرت حاصل کر لی تھی کہ نرگس اور نعیم اپنے ہونہار لال پر بجا طور پر فخر کر سکتے تھے۔ دوسرا بیٹا حسین اپنے بڑے بھائی سے آٹھ سال چھوٹا تھا۔
ایک دن حسین بن نعیم مکان کے صحن میں کھڑا لکڑی کے ایک تختے کو ہدف بنا کر تیر اندازی کی مشق کر رہا تھا۔ نرگس اور نعیم برآمدے میں کھڑے اپنے لخت جگر کو دیکھ رہے تھے۔ حسین کے چند تیر نشانے پر نہ لگے۔ نعیم مسکراتا ہوا آگے بڑھا اور حسین کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔ حسین نے تیر چڑھا کر باپ کی طرف دیکھا اور ہدف کا نشانہ لیا۔
’’بیٹا! تمہارے ہاتھ کانپتے ہیں اور تم گردن ذرا بلند رکھتے ہو!‘‘
’’ابا! جب آپ میری طرح تھے۔ آپ کے ہاتھ نہیں کانپا کرتے تھے؟‘‘
’’بیٹا! جب میں تمہاری عمر میں تھا تو اڑتے ہوئے پرندوں کو گرا لیا کرتا تھا اور جب میں تم سے چار سال بڑا تھا تو بصرہ کے لڑکوں میں سب سے اچھا تیر انداز مانا جاتا تھا۔‘‘
’’ابا جان! آپ نشانہ لگا کر دیکھیں !‘‘
نعیم نے اس کے ہاتھ سے کمان لے کر تیر چلایا تو وہ ہدف کے عین درمیان میں جا کر لگا۔ اس کے بعد نعیم اسے نشانہ لگانے کا طریقہ سمجھانے لگا۔ نرگس بھی ان کے قریب آ کھڑی ہوئی۔
ایک نوجوان گھوڑا بھگاتا ہوا مکان کے پھاٹک پرا کر رکا۔ نوکر نے پھاٹک کھولا۔ سوار گھوڑا نوکر کے حوالے کر کے بھاگتا ہوا صحن کے اندر داخل ہوا۔
نعیم نے ’’عبد اللہ‘‘ کہہ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ نرگس اپنی نگاہ کی ہر جنبش میں ہزاروں دعائیں لیے آگے بڑھی۔ ’’بیٹا! تم آ گئے۔ الحمد للہ!‘‘
نعیم نے سوال کیا۔ ’’کیا خبر لائے ہو بیٹا؟‘‘
’’ابا جان! عبد اللہ بن نعیم نے سر جھکا کر غمگین سا چہرہ بناتے ہوئے کہا۔’’کوئی اچھی خبر نہیں۔ فرانس کے معرکے میں ہمیں سخت نقصان اٹھا کر واپس ہونا پڑا۔ ہم سرحدی علاقے فتح کرنے کے بعد مزید پیشقدمی کی تیاری کر رہے تھے کہ ہمیں فرانس کی ایک لاکھ فوج کا سامنا کرنا پڑا۔ ہماری فوج اٹھارہ ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ہمارے سپہ سالار عقبہ نے قرطبہ سے مدد طلب کی لیکن وہاں سے خبر آئی کہ مراکش میں بغاوت ہو گئی ہے۔
   اس لیے فرانس کی طرف زیادہ فوجیں نہیں بھیجی جا سکتیں۔ ہمیں مجبوراً شاہ فرانس کے مقابلے میں صف آرا ہونا پڑا اور ہماری فوج کے نصف سے زیادہ سپاہی میدان میں کام آئے۔‘‘
’’اور اب عقبہ کہاں ہے؟‘‘ نعیم نے سوال کیا۔
’’وہ قرطبہ پہنچ چکا ہے اور عنقریب مراکش کی طرف کوچ کرنے والا ہے۔ بغاوت کی آگ کے شعلے مراکش سے تیونس تک بلند ہو رہے ہیں۔ بربریوں نے تمام مسلمان حکام قتل کر دیے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ اس بغاوت میں خارجیوں اور رومیوں کا ہاتھ ہے۔‘‘
نعیم نے کہا۔’’عقبہ ایک بہادر سپاہی ہے لیکن قابل سپہ سالار نہیں۔ میں نے والی سپین کو لکھا کہ مجھے فوج میں لیا جائے لیکن وہ مانتے نہیں۔‘‘
’’اچھا  ابا جان! مجھے اجازت دیجئے۔‘‘
’’اجازت! کہاں جاؤ گے؟‘‘ نرگس نے پوچھا۔
’’امی جان! میں فقط آپ کو اور ابا جان کو دیکھنے کے لیے آیا تھا۔ مجھے فوج کے ساتھ مراکش جانا ہے۔‘‘
’’اچھا اللہ تمہاری حفاظت کرے!‘‘ نعیم نے کہا۔
’’اچھا امی خدا حافظ!‘‘ یہ کہہ کر عبد اللہ نے حسین کو گلے لگایا اور وہ جس تیزی سے آیا تھا اسی طرح گھوڑا دوڑاتا ہوا واپس چلا گیا۔

(۲)

بربریوں کی بغاوت میں مسلمانوں کی ہزاروں جانیں تلف ہوئیں۔ انہوں نے مسلمان حکام کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا۔
عقبہ مراکش کے ساحل پر اترا اور ۳۲۱ھ میں شام سے کچھ فوجیں اس کی اعانت کے لیے پہنچ گئیں۔ مراکش میں ایک گھمسان کا معرکہ ہوا۔ نیم عریاں بربریوں کی افواج چاروں طرف سے ایک سیلاب کی طرح نمودار ہوئیں۔ ہسپانیہ اور شام کی افواج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن حریف کی لاتعداد فوج کے سامنے پیش نہ گئی۔عقبہ اس لڑائی میں شہید ہوا اور مسلمانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ بربریوں نے انہیں گھیر گھیر کر قتل کرنا شروع کر دیا۔
نعیم کا بیٹا عبد اللہ دشمن کی صفوں کو چیرتا ہوا بہت دور نکل گیا اور زخمی ہو کر اپنے گھوڑے سے گرنے کو تھا کہ ایک عربی جرنیل نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا اور میدان جنگ سے باہر ایک محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔
ہسپانیہ اور شام کے لشکر کا قریباً تین چوتھائی حصہ قتل ہو چکا تھا۔ رہے سہے سپاہی ایک طرف سمٹنے لگے۔ بربریوں نے انہیں پسپا ہوتے دیکھ کر کئی میل تک تعاقب کیا۔ شکست خورد فوج نے الجزائر میں جا کر دم لیا۔
والی سپین کو جب اس شکست کی خبر پہنچی تو اس نے ہسپانیہ کے تمام صوبوں سے نئی فوج فراہم کرنے کی کوشش کی اور اس نئے لشکر کی قیادت کے لیے نعیم کو منتخب کیا۔ نعیم کو اپنے بیٹے کے خط سے اسکے زخمی ہونے اور ایک مجاہد کے ایثار سے اس کی جان بچ جانے کا حال معلوم ہو چکا تھا۔ ۵۲۱ھ میں جب بربری تمام شما لی افریقہ میں مظالم برپا کر رہے تھے، نعیم اچانک دس ہزار سپاہیوں کے ساتھ افریقہ کے ساحل پر اترا۔ بربری اس کی آمد سے بے خبر تھے۔نعیم انہیں شکست پر شکست دیتا ہوا مشرق کی طرف بڑھا۔
ادھر الجزائز سے شکست خوردہ افواج نے پیش قدمی کی اور بربریوں کی طرف سے سرکوبی ہونے لگی۔ ایک مہینے میں مراکش میں بغاوت کی آگ ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ لیکن افریقہ کے شمال مشرق میں ابھی یہ فتنہ کہیں کہیں جاگ رہا تھا۔ خارجیوں اور بربریوں نے مراکش شے پسپا ہو کر تیونس کو اپنا مرکز بنا لیا تھا۔ نعیم مراکش کے نظم و نسق میں مصروف تھا۔ اس لیے پیشقدمی نہ کر سکا۔ اس نے فوج کے چیدہ چیدہ افسروں کو اپنے خیمے میں اکٹھا کیا اور ایک پر جوش تقریر کرتے ہوئے کہا۔’’تیونس پر حملہ کرنے کے لیے ایک سرفروش جرنیل کی ضرورت ہے۔ آپ میں سے کون ہے جو اس خدمت کا ذمہ لے گا!‘‘
   نعیم نے اپنا فقرہ پورا نہ کیا تھا کہ تین جرنیل اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے ایک اس کا پرانا دوست یوسف تھا۔ دوسرا اس کا نوجوان بیٹا عبد اللہ۔ تیسرے نوجوان کی شکل عبد اللہ سے ملتی جلتی تھی لیکن نعیم اسے ناواقف تھا۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ نعیم نے سوال کیا۔
’’میرا نام نعیم ہے۔‘‘ نوجوان نے جواب دیا۔
’’عبد اللہ؟ عبد اللہ بن عبدالرحمن؟‘‘ نعیم نے پوچھا۔
’’جی ہاں !‘‘
نعیم نے آگے بڑھ کر نوجوان کو گلے لگا لیا اور کہا۔’’تم مجھے جانتے ہو؟‘‘
’’جی ہاں ! آپ ہمارے سالار ہیں۔‘‘
’’میں اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہوں۔‘‘ نعیم نے جوان کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔’’میں تمہارا چچا ہوں۔ عبد اللہ یہ تمہارا بھائی ہے!‘‘
’’ابا جان! انہی نے مراکش کی لڑائی میں میری جان بچائی تھی۔‘‘
’’بھائی جان کیسے ہیں ؟‘‘ نعیم نے سوال کیا۔
’’انہیں شہید ہوئے دو سال ہو گئے ہیں۔ انہیں ایک خارجی نے قتل کر ڈالا تھا۔
نعیم کے دل پر ایک چرکا لگا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر ہاتھ اٹھا کر دعائے مغفرت کی اور پوچھا۔’’تمہاری والدہ؟‘‘
’’وہ اچھی ہیں۔‘‘
’’تمہارے بھائی کتنے ہیں ؟‘‘
’’ایک بھائی اور چھوٹی ہمشیرہ ہے۔‘‘
نعیم نے باقی افسروں کو رخصت کیا اور ان کے چلے جانے کے بعد اپنی کمر سے تلوار نکال کر نعیم بن عبد اللہ کو دیتے ہوئے کہا۔’’تم اس امانت کے حقدار ہو اور تم یہیں رہو۔ میں خود تیونس کی طرف جاؤں گا۔‘‘
’’چچا جان! آپ مجھے کیوں نہیں بھیجتے؟‘‘
’’بیٹا! تم جوان ہو۔ دنیا کو تمہاری ضرورت پڑے گی۔ آج سے تم یہاں کی افواج کے سپہ سالار ہو۔ عبد اللہ یہ تمہارے بڑے بھائی ہیں۔ انکا حکم دل و جان سے بجا لانا!‘‘
نعیم بن عبد اللہ نے کہا۔’’چچا جان میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں !‘‘
’’کہو بیٹا!‘‘
’’آپ گھر نہیں جائیں گے؟‘‘
’’بیٹا! تیونس کی مہم کے بعد میں فوراً وہاں جاؤں گا۔‘‘
’’چچا جان۔ آپ ضرور جائیں۔ امی جان اکثر آپ کا تذکرہ کیا کرتی ہیں۔ میری چھوٹی بہن اور بھائی بھی آپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔‘‘
’’انہیں معلوم ہے کہ میں زندہ ہوں ؟‘‘
’’امی کو یقین تھا کہ آپ زندہ رہیں۔ انہوں نے مجھے تاکید کی تھی کہ میں مراکش کی مہم کے بعد آپ کو سپین جا کر تلاش کروں اور آپ سے یہ کہوں کہ آپ چچی کے ہمراہ گھر تشریف لائیں !‘‘
’’میں بہت جلد وہاں پہنچ جاؤں گا۔ عبد اللہ تم اندلس جاؤ اور اپنی والدہ کو لے کر بہت جلد گھر پہنچ جاؤ۔ میں تیونس سے فراغت پاتے ہی آ جاؤں گا۔ میں والی اندلس کو خط لکھ دیتا ہوں۔ وہ تمہارے لیے بحری سفر کا انتظام کر دے گا۔‘‘

(۳)

تیونس میں باغیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے نعیم کو اپنی توقع کے خلاف بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بربری ایک جگہ سے شکست کھا کر بھاگتے تھے اور دوسری جگہ لوٹ مار شروع کر دیتے تھے۔نعیم چند مہینوں میں کئی جنگیں لڑنے کے بعد تیونس کی بغاوت فرو کرنے میں کامیاب ہوا۔ تیونس سے باغی جماعتیں پسپا ہو کر مشرق کی طرف پھیل گئیں۔ نعیم باغیوں کی سرکوبی کا تہیہ کر کے آگے بڑھتا گیا۔ تیونس اور قیروان کے درمیان باغی جماعتوں نے کئی بار نعیم کا مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی۔ قیروان کے قریب آخری جنگ میں نعیم بری طرح زخمی ہوا۔ وہ بے ہوشی کی حالت میں قیرون لایا گیا اور وہاں کے عامل نے اسے اپنے پاس ٹھہرایا اور اس کے علاج کے لیے ایک تجربہ کار طبیب بلا بھیجا۔ نعیم کو دیر کے بعد ہوش آیا لیکن بہت زیادہ خون بہ جانے کی وجہ سے وہ اس قدر کمزور ہو چکا تھا کہ اسے دن میں کئی بار غش آتا تھا۔ ایک ہفتے تک نعیم موت و حیات کی کشمکش میں بسترپر پڑا رہا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر والی قیروان نے فسطاط سے ایک مشہور طبیب کو بلا بھیجا۔ طبیب نے نعیم کے زخم دیکھ کر اسے تسلی دی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انہیں دیر تک آرام کرنا پڑے گا!
تین ہفتوں کے بعد نعیم کی حالت میں قدرے افاقہ ہوا اور اس نے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی لیکن طبیب نے کہا۔’’زخم ابھی تک اچھے نہیں ہوئے۔ سفر میں ان کے دوبارہ پھٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے آپ کو کم از کم ایک مہینہ زیر علاج رہنا چاہیے۔مجھے ڈر ہے کہ یہ زخم زہر آلود ہتھیاروں لے لگے ہیں اور ممکن ہے کہ خون کی خرابی سے پھر ایک بار بگڑ جائیں !‘‘
نعیم نے ایک ہفتہ اور صبر کیا لیکن گھر جانے کے لیے اس بے قراری میں ہر لحظہ اضافہ ہو رہا تھا۔ وہ ساری رات بستر پر کروٹیں بدلتے گزار دیتا۔ جی میں آتی کہ ایک بار اڑ کر اس جنت ارضی میں پہنچ جائے۔
اسے یقین تھا کہ نرگس وہاں پہنچ چکی ہو گی اور عذرا کے ساتھ ریت کے ٹیلوں پر کھڑی اس کی راہ دیکھتی ہو گی۔
بیس دن اور گزر جانے پر اس کے زخم جو کسی حد تک اچھے ہو چکے تھے بگڑنے لگے اور ہلکا ہلکا بخار آنے لگا۔ طبیب نے اسے بتایا کہ یہ تمام زہر آلود ہتھیاروں کا اثر ہے۔ زہر اس کے رگ و ریشے میں سرایت کر گیا ہے اور اسے کافی دیر تک یہاں ٹھہر کر علاج کرنے پڑے گا۔
ایک روز آدھی رات کے قریب نعیم اپنے بستر پر لیٹا ہوا سوچ رہا تھا کہ وہ گھر پہنچ کر عذرا کو کس حالت میں دیکھے گا۔ وقت نے اس کے معصوم چہرے پر کیا کیا تغیرات پیدا کر دیے ہوں گے۔ اس کی مغموم صورت دیکھنے پر اس کے دل کیا کیفیت ہو گی۔ اسے یہ خیال بھی پیدا ہوا کہ شاید قدرت کو اب بھی اس کا گھر جانا منظور نہیں۔ وہ پہلے بھی کئی بار زخمی ہوا تھا لیکن ان زخموں کی کیفیت کچھ اور تھی۔ اس نے اپنے دل میں کہا ’’ہو سکتا ہے کہ یہ زخم مجھے موت کی آغوش میں لے جائیں۔ لیکن مجھے نرگس اور عذرا سے بہت کچھ کہنا ہے۔اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کو چند وصیتیں کرنی ہیں۔ مجھے موت کا ڈر نہیں۔ میں ہمیشہ موت سے کھیلتا رہا ہوں لیکن یہاں لیٹے لیٹے موت کا انتظار کرنا میرے لیے مناسب نہیں۔ مجھے عذرا نے گھر آنے کا پیغام بھیجا ہے....وہ عذرا جس کی معمولی خوشی کے لیے میں کبھی جان پر کھیل جانا آسان سمجھتا تھا اور اس کے علاوہ نرگس کے دل کی کیا حالت ہو گی؟ میں ضرور جاؤں گا۔ مجھے کوئی نہیں روک سکتا!‘‘
نعیم یہ کہتا ہوا بستر سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ مجاہد کا عزم جسمانی کمزوری پر غالب آنے لگا اور وہ عمل کے ایک بے پناہ جذبے سے بے تاب ہو کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔ وہ بھول چکا تھا کہ وہ زخمی ہے اور اس کی جسمانی حالت ایک لمبا سفر اختیار کرنے کے قابل نہیں۔ اس وقت اس کے دماغ میں فقط نرگس، عذرا، عبد اللہ کے کمسن بچے اور بستی کے حسین نخلستانوں کا تصور تھا۔ میں ضرور جاؤں گا! یہ اس کا آخری فیصلہ تھا۔
وہ اچانک کمرے میں ٹہلتا ٹہلتا رک گیا۔ اس نے اپنے میزبان کے نوکر کو آواز دی۔ نوکر بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور نعیم کو بستر پر  دیکھنے کی بجائے کمرے میں چکر لگتا دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے کہا۔ طبیب کا حکم ہے کہ آپ چلنے پھرنے سے گریز کریں !‘‘
’’تم میرا گھوڑا تیار کرو۔جاؤ!‘‘
’’آپ کہاں جانا چاہتے ہیں ؟‘‘
’’تم گھوڑا تیار کرو!‘‘
’’لیکن اس وقت؟‘‘
’’فوراً! نعیم نے سختی سے کہا۔
’’رات کے وقت آپ کہاں جائیں گے؟‘‘
’’تہیں جو کچھ کہا گیا ہے وہ کر۔ فضول سوالات کا جواب میرے پاس نہیں !‘‘
نوکر گھبرا کر کمرے سے باہر نکلا۔
نعیم پھر بستر پر بیٹھ کر خیالات کی دنیا میں کھو گیا۔
تھوڑی دیر بعد نوکر واپس آیا اور بولا۔’’گھوڑا تیار ہے لیکن....!!‘‘
نعیم نے بات کاٹ کر جواب دیا ’’تم جو کچھ کہنا چاہتے ہو۔ میں جانتا ہوں مجھے ایک ضروری کام ہے۔ اپنے مالک سے کہنا کہ میں نے اجازت حاصل کرنے کے لیے انہیں رات کے وقت جگانا مناسب خیال نہیں کیا۔‘‘

(۴)

صبح ہونے سے پہلے نعیم قیروان سے کوئی دو منازل پگے جا چکا تھا۔ اس لمبے سفر میں اس نے یہ احتیاط ضرور برتی کہ گھوڑے کو تیز نہ کیا۔ اور تھوڑی تھوڑی منازل کے بعد آرام کرتا تھا۔ فسطاط پہنچ کر اس نے دور دن قیام کیا۔ وہاں کے گورنر نے پہلے تو نعیم کو اپنے پاس ٹھہرانے کے لیے اصرار کیا لیکن جب نعیم کسی صورت میں بھی رضا مند نہ ہوا تو اس نے راستے کی تمام چوکیوں کو اس کی آمد سے مطلع کرتے ہوئے اس کے لیے ہر ممکن سہولت مہیا کرنے کا حکم صادر کر دیا۔
نعیم جوں جوں منزل کے نزدیک پہنچ رہا تھا اسے اپنی جسمانی تکلیف میں افاقہ محسوس ہو رہا تھا۔ کئی دنوں بعد ایک شام وہ ایک صحرائی خطے میں سے گزر رہا تھا۔ اس کی بستی فقط چند کوس کے فاصلے پر تھے۔ ہر نئے قدم پر نئی امنگیں بیدار ہو رہی تھیں۔اس کا دل مسرت کے سمندر میں غوطے لگا رہا تھا۔اچانک اسے افق مغرب پر ایک غبار سا اٹھتا ہوا دکھائی دیا۔ ایک ساعت کے اندر اندر یہ غبار چاروں طرف پھیل گیا اور فضا میں تاریکی چھا گئی۔نعیم ریگستان کے طوفانوں سے اچھی طرح واقف تھا۔ وہ طوفان کی مصیبت میں مبتلا ہونے سے پہلے گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ اس نے گھوڑے کی رفتار تیز کر دی اور ہوا کا پہلا جھونکا محسوس کرتے ہی اسے سرپٹ چھوڑ دیا۔ ہوا کی تیزی اور فضا کی تاریکی بڑھتی گئی۔ گھوڑا بھگانے کی وجہ سے نعیم کے سینے کے زخم پھٹ گئے اور خون بہنے لگا۔ اس نے اس حالت میں کوئی دو کوس فاصلہ طے کیا ہو گا کہ طوفان نے اسے پوری طاقت کے ساتھ گھیرا۔چاروں طرف سے جھلستی ہوئی ریت برسنے لگی۔ گھوڑا آگے نہ بڑھنے کا راستہ پا کر رک گیا۔ نعیم مجبوراً گھوڑے سے اترا اور ہوا کے مخالف پیٹھ کر کے کھڑا ہو گیا۔ گھوڑا بھی اپنے مالک کی طرح سر نیچا کر کے کھڑا تھا۔ نعیم نے اپنے چہرے کو جھلستی ہوئی ریت سے بچانے کے لیے نقاب اوڑھ کانٹے دار جھاڑیاں ہوا میں اڑتی ہوئی آتیں اور اس کے جسم میں کانٹے پیوست کرتی ہوئی گر جاتیں۔ نعیم ایک ہاتھ سے گھوڑے کی باگ تھامے، دوسرے ہاتھ سے اپنے دامن سے چمٹی ہوئی خاردار ٹہنیوں کو جدا کر رہا تھا۔گھوڑے کی باگ پر اس کے ہاتھ کی گرفت قدرے ڈھیلی تھی۔ببول کی ایک خشک ٹہنی اڑتی ہوئی گھوڑے کی پیٹھ پر زورسے آ  کر لگی۔ گھوڑے نے بدحواس ہو کر ایک جست لگائی اور نعیم کے ہاتھ سے باگ چھڑا کر کچھ دور جا کھڑا ہوا۔ ایک اور ٹہنی گھوڑے کے کانوں میں کانٹے پیوست کرتی ہوئی گزر گئی اور وہ بدحواس ہو کر ایک طرف بھاگ نکلا۔ نعیم دیر تک اسی جگہ بے بسی کی حالت میں کھڑا رہا۔  سینے کا زخم پھٹ جانے سے خون کے قطرے آہستہ آہستہ بہہ کراس کے گریبان کو تر کر رہے تھے۔ اور اس کی جسمانی طاقت لحظہ بہ لحظہ جواب دے رہی تھی۔ وہ مجبوراً ریت پر بیٹھ گیا۔ کبھی کبھی وہ ریت کے اس بے پناہ سیلاب میں دب جانے کے خوف سے اٹھ کر کپڑے جھاڑتا اور پھر بیٹھ جاتا۔ کچھ دیر بعد رات کی سیاہی طوفان کی تاریکی میں اضافہ کرنے لگی۔ ایک پہر سے زیادہ رات گزر جانے پر ہوا کا زور ختم ہوا۔ آہستہ آہستہ مطلع صاف ہو گیا اور آسمان پر جگمگاتے ہوئے ستارے نظر آنے لگے۔
نعیم اپنی بستی سے آٹھ کوس دور تھا۔ اس کا گھوڑا ہاتھ سے جا چکا تھا اور ٹانگوں میں چلنے کی طاقت نہ تھی۔ وہ پیاس محسوس کر رہا تھا۔ اسے خیال گزرا کہ اگر صبح ہونے سے پہلے وہ ریت کے اس سمندر کو عبور کے محفوظ مقام پر نہ پہنچ گیا تو دن کی دھوپ میں اسے تڑپ تڑپ کر جان دینی پڑے گی۔
وہ ستاروں کی سمت کا اندازہ لگاتے ہوئے پیدل چل دیا۔ ایک کوس چلنے کے بعد اس کی طاقت نے جواب دے دیا اور وہ مایوس ہو کر ریت پر لیٹ گیا۔ منزل سے اتنا قریب آ کر ہمت ہار دینا مجاہد کے عزم و استقلال کے منافی تھا۔ وہ ایک بار لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور منزل مقصود کی طرف قدم اٹھانے لگا۔ ریت میں گھٹنوں تک اس کے پاؤں دھنسے جارے تھے۔ وہ چلتے چلتے تین بار گرا، لیکن پھر اسی عزم کے ساتھ اٹھا اور آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ پیاس کی شدت سے اس کا گلا خشک ہو رہا تھا اور کمزوری سے اس کی آنکھوں کے سامنے سیاہی طاری ہو رہی تھی۔ سر چکرا رہا تھا۔ بستی ابھی چار کوس دور تھی۔ اسے معلوم تھا کہ بستی کی طرف جانے والی ندی یہاں سے قریب ہے۔ اس نے ڈگمگاتے، گرتے اور سنبھلتے ایک کورس اور طے کیا تو ایک چھوٹی سی ندی دکھائی دی۔
ندی کا پانی طوفان کے گرد و غبار سے گدلا ہو رہا تھا اور سطح پر جھاڑیوں کی بیشمار ٹہنیاں تیر رہی تھی۔ نعیم نے جی بھر کر ندی سے پانی پیا۔ کچھ دیر ندی کے کنارے لیٹنے کے بعد کچھ تقویت محسوس ہوئی اور وہ اٹھ کر چل دیا۔
ندی کو عبور کرتے ہی بستی کے ارد گرد نخلستان دکھائی دینے لگے۔ نعیم کے دل سے تھکاوٹ اور جسمانی کمزوری کا احساس کم ہونے لگا اور ہر قدم پر اس کی رفتار زیادہ ہونے لگی۔ چند ساعتوں کے بعد وہ ریت کے اس ٹیلے کو عبور کر رہا تھا۔ جس پر بچپن میں وہ اور عذرا کھیلا کرتے تھے اور ریت کے چھوٹے چھوٹے گھر تعمیر کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد وہ کھجور کے بلند درختوں میں سے گزرتا ہوا اپنے مکان کی طرف بڑھا۔ دروازے پر کچھ دیر دھڑکتے ہوئے دل کو دبائے کھڑا رہا۔ بالآخر اس نے ہمت کر کے دروازہ کھٹکھٹایا۔ گھر والے ایک دوسرے کو جگانے لگ گئے۔ ایک نوجوان لڑکی نے آ کر دروازہ کھولا۔نعیم نوجوان لڑکی کو متحیر ہو کر دیکھنے لگا۔ اس کی شکل ہو بہو عذرا جیسی تھی۔ لڑکی نعیم کو دیکھ کر کچھ کہے بغیر واپس اندر چلی گئی۔ تھوڑا دیر بعد اس کا بیٹا عبد اللہ اور نرگس نعیم کے استقبال کے لیے آ موجود ہوئے۔ عذرا، عبد اللہ اور نرگس کے پیچھے جھجکتی ہوئی آ رہی تھی۔
نعیم نے چاند کی روشنی میں دیکھا کہ کائناتِ حسن کی ملکہ کا شباب اگر چہ گردش ایام کی نذر ہو چکا تھا لیکن ابھی تک اس کے پژمردہ چہرے پر ایک غیر معمولی رعب دار اور وقار کی جھلک باقی تھی۔
’’بہن! نعیم نے ایک دردناک لہجے میں کہا۔
’’بھائی!‘‘ عذرا نے خوف زدہ چہرہ بنا کر کہا۔
وہ جسمانی طاقت جسے نعیم نے محض اپنے عزم کی بدولت ابھی تک قائم رکھا ہوا تھا۔ یکلخت جواب دے گئی۔
اس نے کہا۔’’عبد اللہ! بیٹا، مجھے سہارا دینا!‘‘
عبد اللہ اسے سہارا دے کر اندر لے گیا۔
صبح کے وقت نعیم بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ نرگس، عبد اللہ بن نعیم، حسین بن نعیم، خالد عذرا کا چھوٹا اور آمنہ عذرا کی لڑکی اس کے گرد کھڑے تھے۔ نعیم نے آنکھیں کھولیں۔ سب پر نگاہ دوڑائی اور اشارے سے خالد اور آمنہ کو بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا۔
  ’’خالد۔ چچا جان۔‘‘
’’اور تمہارا؟‘‘ لڑکی کی طرف دیکھ کر نعیم نے سوال کیا۔
’’آمنہ۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
خالد کی عمر سترہ سال کے لگ بھگ معلوم ہوتی تھی اور آمنہ اپنی شکل و شباہت سے چودہ پندرہ برس کی معلوم ہوتی تھی۔
نعیم نے خالد کی طرف دیکھ کر کہا:’’بیٹا! مجھے قرآن سناؤ!‘‘
خالد نے اپنی شیریں آواز میں سورہ یٰسین کی تلاوت شروع کی۔
دوسرے دن پھٹے ہوئے زخم زیادہ تکلیف دینے لگے اور نعیم کو سخت بخار ہو گیا۔ سینے کے زخم سے خون برابر جاری تھا۔ خون کی کمی کی وجہ سے اسے غش پر غش آنے لگے۔ ایک ہفتے تک اس کی یہی حالت رہی۔ عبد اللہ بصرہ سے ایک طبیب لے آیا۔ وہ مرہم پٹی کر کے چلا گیا مگر اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔
ایک دن نعیم نے خالد سے پوچھا۔’’بیٹا! تم ابھی تک جہاد پر نہیں گئے؟‘‘
’’چچا جان! میں رخصت پر آیا تھا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔’’اور اب جانے والا تھا کہ........!‘‘
’’تم جانے والے تھے تو گئے کیوں نہیں ؟‘‘
’’چچا جان۔ آپ کو اس حالت میں چھوڑ کر....!‘‘
’’بیٹا! جہاد کے لیے ایک مسلمان کو دنیا کی عزیز ترین چیزوں سے جدا ہونا پڑتا ہے۔ تم میری فکر نہ کرو۔ اپنا فرض پورا کرو! تمہاری والدہ نے تمہیں یہ سبق نہیں دیا کہ جہاد مسلمان کا سب اہم فرض ہے؟‘‘
’’چچا جان! امی ہمیں بچپن ہی سے یہ سبق دیتی رہی ہیں۔ میں صرف چند دن آپ کی تیمار داری کے لیے ٹھہر گیا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر میں آپ کو اس حالت میں چھوڑ کر چلا گیا تھا تو آپ شاید خفا ہو جائیں گے۔‘‘
’’میری خوشی اسی بات میں ہے کہ جس میں میرے مولیٰ کی خوشی ہو۔ جاؤ عبد اللہ کو بلا تاؤ!‘‘
خالد دوسرے کمرے سے عبد اللہ کو بلا لیا۔
نعیم نے سوال کیا۔’’تمہارا بیٹا تمہاری رخصت ابھی ختم نہیں ہوئی؟‘‘
’’ابا جان! میری رخصت ختم ہوئے پانچ دن ہو چکے ہیں۔‘‘
’’تم گئے کیوں نہیں بیٹا؟‘‘
’’ابا جان! میں آپ کے حکم کا انتظار کر رہا تھا۔‘‘
نعیم نے کہا۔’’خدا اور خدا کے رسولﷺ کے حکم کے بعد تمہیں کسی کے حکم کی ضرورت نہیں بیٹا! جاؤ‘‘ ’’ابا جان! آپکی طبیعت کیسی ہے؟‘‘
’’میں اچھا ہوں بیٹا!‘‘ نعیم نے اپنے چہرے کو بشاش بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔’’تم جاؤ!‘‘
’’ابا جان! ہم تیار ہیں۔‘‘

(۵)

خالد اور عبد اللہ اپنے اپنے گھوڑوں پر زین ڈال رہے تھے۔ دونوں کی مائیں ان کے قریب کھڑی تھیں۔ نعیم نے اپنے بھتیجے اور بیٹے کو جہاد پر رخصت ہوتے ہوئے دیکھنے کے لیے اپنے کمرے کا دروازہ کھلا رکھنے کا حکم دیا۔ وہ بستر پر لیٹے لیٹے صحن کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آمنہ نے پہلے اپنے بھائی خالد اور پھر شرماتے ہوئے عبد اللہ کی کمر میں تلوار باندھ دی۔ نعیم نے اٹھ کر کمرے سے باہر نکلنا چاہا لیکن دو تین قدم چلنے کے بعد چکر آیا اور گر پڑا۔
عبد اللہ اور خالد اسے اٹھانے کے لیے بھاگے لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے نعیم اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
اس نے کہا۔’’میں ٹھیک ہوں۔ مجھے پانی لا دو!‘‘
آمنہ نے پانی کا پیالہ لا کر دیا۔نعیم پانی پی کر صحن میں آ کھڑا ہوا۔
’’بیٹا! میں تمہیں گھوڑوں کو بھگاتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ تم جلدی سے سوار ہو جاؤ!‘‘
خالد اور عبد اللہ سوار ہو کر گھر کے احاطے سے باہر نکلے۔نعیم بھی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا مکان سے باہر آیا۔
نرگس نے کہا، ’’آپ آرام کریں۔ آپ کے لیے بستر سے اٹھنا مناسب نہیں۔‘‘
نعیم نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔’’ نرگس! میں اچھا ہوں۔ فکر مت کرو۔‘‘
نخلستان سے باہر نکل کر خالد اور عبد اللہ نے خدا حافظ کہہ کر گھوڑوں کو سرپٹ چھوڑ دیا۔ نعیم انہیں دیکھنے کے لیے ریت کے ٹیلے پر چڑھا۔ نرگس اور عذرا نے اسے منع کیا لیکن نعیم نے پرواہ نہ کی۔ اس لیے وہ بھی نعیم کے ساتھ ٹیلے پر چڑھ گئیں۔ جب تک کم سن مجاہدوں کی آخری جھلک نظر آتی رہی نعیم وہاں کھڑا رہا اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے تو زمین پر بیٹھ کر سر بسجود ہو گیا۔
جب نعیم کو سر بسجود ہوئے بہت دیر ہو گئی تو عذرا گھبرا کر اس کے قریب آئی اور سہمی ہوئی آواز میں اسے بھائی کہہ کر پکارا۔ جب نعیم نے اس کی آواز پر سر اوپر نہ اٹھایا تو نرگس نے خوف زدہ ہو کر نعیم کے بازو کو پکڑ کر ہلایا۔نعیم نے جسم نے حرکت نہ کی۔ نرگس نے اس کا سر اٹھا کر گود میں رکھ لیا اور بے اختیار ہو کر کہا:
’’میرے آقا! میرے آقا!‘‘
عذرا نے نبض دیکھ کر آمنہ سے کہا۔’’بیٹی ! یہ بے ہوش ہیں، جاؤ جلدی سے پانی لاؤ!‘‘
آمنہ بھاگ کر گئی اور تھوڑی دیر سے گھر سے پانی کا ایک پیالہ بھر لائی۔ عذرا نے نعیم کے منہ پر پانی چھڑکا۔ نعیم نے ہوش میں آ کر آنکھیں کھول دیں اور پیالہ منہ سے لگا لیا۔
عذرا نے کہا۔’’حسین بیٹا! جاؤ اور بستی سے چند آدمیوں کو بلا لاؤ تاکہ انہیں گھر لے چلیں۔‘‘
نعیم نے کہا۔’’نہیں نہیں ٹھہرو۔ میں چل سکوں گا۔‘‘
نعیم نے اٹھنا چاہا لیکن اٹھ نہ سکا اور دل پر ہاتھ رکھ کر پھر لیٹ گیا۔
’’میرے آقا! میرے مالک! نرگس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
نعیم نے نرگس کے چہرے سے آنکھیں ہٹا کر عذرا، آمنہ اور حسین کی طرف دیکھا۔ ان سب کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ اس نے نحیف آواز میں کہا:
’’حسین بیٹا! تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مجھے بے حد تکلیف ہوتی ہے۔ مجاہدوں کے بیٹے اس زمین پر آنسو نہیں بلکہ خون بہایا کرتے ہیں۔ نرگس! تم بھی ضبط سے کام لو۔ عذرا! میرے لیے دعا کرنا۔‘‘
زندگی کی ناؤ موت کے طوفان کی موجوں میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ نعیم کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد نہایت
 کمزور آواز میں چند مبہم الفاظ کہہ کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔

ختم شد





٭٭٭
ماخذ:
http://www.kitaabghar.com/bookbase/naseemhijazi/dastanemujahid-1.html

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔