جمعرات، 7 مئی، 2015

’’حجاز کی آندھی‘‘ پارٹ فور

0 comments


وہ عبداﷲ بن زید تھا جو جسر کی لڑائی سے نکل کر مدینہ پہنچا، اوروہ پہلا شخص تھا جس نے مسلمان لشکر کی تباہی اور پسپائی کی تفصیل امیر المومنین حضرت عمرؓ کو سنائی تھی۔ حضرت عمرؓ نے یہ روح فرسا تفصیل مسجد کے دروازے میں کھڑے کھڑے سنی تھی۔ ’’خدا کی قسم!‘‘حضرت عمر ؓنے کہا تھا۔’’ میں نے ابو عبید کو صحابیوں پر سپہ سالار مقرر کر کے غلطی تو نہیں کی تھی۔‘‘ تفصیل سے پڑھئے

محمد حسنین ہیکل مختلف مؤرخوں کے حوالے سے لکھتا ہے کہ عبداﷲ بن زید خلیفہ کے عتاب سے کانپ کر اور بے قابو ہو کر رو رہا تھا ۔خلیفہ عمرؓ نے اس نے طرف دیکھا تو ا ن کے چہرے پر غصے ،پریشانی اور اضطراب کا جو ملا جلا تاثر تھا وہ یکسر غائب ہو گیا۔ اور اس مبارک چہرے پر جلالی تاثر آگیا۔

’’ابنِ زید!‘‘ حضرت عمرؓ نے عبداﷲ سے یہ الفاظ کہے جو تاریخ میں محفوظ ہیں۔’’ مت رو۔ تو میرے پاس آگیا ہے۔ تیرا ذمہ دار میں ہوں۔اﷲ ابو عبید پر رحم فرمائے‘ اگر وہ بھی میرے پاس آجاتا تو میں اس کا بھی ذمہ دار ہوتا۔‘‘

امیرالمومنین حضرت عمر ؓکا مطلب یہ تھا کہ معرکہ جہاد میں کسی سالار یا سپاہی سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو اس کا ذمہ دار میں ہوں اور اﷲ کے حضور ا س کی لغزش کا جواب میں ہی دوں گا۔

’’امیر المومنین! ‘‘عبداﷲ بن زید نے حوصلے میں آکر کہا۔’’ میں اکیلا بھاگ کر نہیں آیا۔ سینکڑوں آدمی بھاگے چلے آرہے ہیں لیکن وہ شرم و ندامت سے مدینہ میں داخل نہیں ہوں گے۔‘‘

’’اﷲ ان کی شرم و ندامت قبول فرمائے۔‘‘ امیر المومنین ؓنے مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا۔’’ سب سن لو اور باہر جاکر ہر کسی سے کہہ دو کہ جو مجاہدین محاذسے بھاگ کر آئے ہیں ،ان کا استقبال کرو، اور ان سے طنز و ملامت کی گفتگو نہ کرو۔ اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔ تم تو اﷲ کے بندے ہو۔‘‘

ابو حنیفہ دینوری اور طبری نے مدینہ کے رہنے والے ایک مجاہد معاذ قاری کا واقعہ لکھا ہے۔ یہ مجاہد بنی نجار سے تعلق رکھتا تھا ۔وہ بھی عبداﷲ بن زید کی طرح سیدھا حضرت عمر ؓکے پاس پہنچ گیا اور وہ بھی بہت رویا۔ حضرت عمرؓ نے اسے بھی انہیں الفاظ میں حوصلہ دیا۔ جن الفاظ میں عبداﷲ بن زید کو دیا تھا۔

ان مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اسی روز یا اگلے روز مغرب یا عشاء کی نمازمیں حضرت عمرؓ نے سورہ انفال پڑھی۔ جب یہ آیت پڑھی جا رہی تھی ’’اور آج کے دن جو)میدانِ جنگ میں(پیٹھ پھیرے گا سوائے اس کے کہ وہ جنگی مصلحت کیلئے پیچھے ہٹے تو اس پر اﷲ کا غضب نازل ہو گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہو گا جو بہت برا ٹھکانہ ہے۔‘‘تو نماز میں ہی معاذ قاری ایسا روئے کہ ان کی ہچکیاں نکلنے لگیں ۔یہ آیت غزوۂ بدر کے وقت نازل ہوئی تھی۔

’’معاذ مت رو۔‘‘ نماز کے بعد حضرت عمرؓ نے اسے کہا۔’’ مت رو معاذ! تو میری پناہ میں آگیا ہے۔ میں تیرا ذمہ دار ہوں۔‘‘

یہ تینوں مؤرخ لکھتے ہیں کہ امیر المومنینؓ کے اس مشفقانہ سلوک کے باوجود معاذ قاری کی جذباتی حالت یہ رہی کہ جب کبھی یہ آیت سنتا تو زار و قطار رونے لگتا۔ دوبارہ محاذ پر جا کر اس کی یہ کیفیت ختم ہوئی تھی۔

فاروق اعظمؓ میں محمد حسنین ہیکل نے لکھا ہے کہ جسر کی لڑائی میں سے جو مسلمان بھاگ کر مدینہ اور اپنے گھروں میں آگئے تھے ۔ان کی تعداد دو ہزار تھی۔ کچھ مؤرخوں نے تعداد لکھی ہی نہیں، اور جنہوں نے لکھی ہے انہوں نے سینکڑوں لکھی ہے۔ اس طرح بھاگ آنے والوں کی تعداد کا صحیح تعین نہیں کیاجا سکتا۔ بہرحال یہ تعداد کچھ کم بھی نہیں تھی۔

مبصر لکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد کیا تھا تو کئی ایک سرداروں نے حضرت عمرؓ کی مخالفت میں یہ رائے دی تھی کہ عمرؓ سخت مزاج اور غصیلا ہے اور کسی کو معاف نہیں کرتا۔ حضرت عمرؓ نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی اپنے خلاف سب کے شکوے رفع کر دیئے تھے اور مخالفین مطمئن ہو گئے تھے ۔لیکن معرکہ جسر سے بھاگ آنے والوں کے ساتھ حضرت عمرؓ نے جو مشفقانہ سلوک اختیار کیا، اس نے ان کے دشمنوں کے دل بھی موہ لیے۔ سب کو یہ توقع تھی کہ امیر المومنین ؓان بھگوڑوں کو اگر دُرّے نہیں مروائیں گے تو ان پر اپنا عتاب نازل کریں گے اور انہیں لعنت و ملامت کا نشانہ بنائیں گے۔ لیکن حضرت عمرؓ کی زبان سے یہی الفاظ نکلتے تھے ۔’’ان کا ذمہ دار میں ہوں۔ یہ دوبارہ محاذ پر جائیں گے۔‘‘

٭

اور وہ جو محاذ سے بھاگ آئے اور اپنے ان تین ہزار ساتھیوں کا ساتھ چھوڑ آئے تھے جو مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ تھے ۔وہ کس حال میں تھے؟ان کی جذباتی کیفیت کیا تھی؟

مستند مؤرخوں نے اس سوال کا بڑا واضح جواب دیا ہے۔ ایک مثال ابوشداد کی ہے جس کا تعلق بنی تمیم سے ہے۔ وہ مدینہ سے کچھ دور چھوٹے سے ایک گاؤں کا رہنے والا تھا۔ اس قبیلے کے چند ایک ہی آدمی عراق کے محاذ پر گئے تھے۔ جن میں ادھیڑ عمر ابو شداد بھی تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا جس کی عمر سولہ سترہ سال تھی ۔ اس سے چھوٹی تین یا چار بیٹیاں تھیں۔

’’میں تیرے بیٹے کو تیرے لیے زندہ رکھوں گا۔‘‘ ابو شداد نے اپنی بیوی سے کہا تھا۔’’ میں نہ رہا تو تیرے اور تیری بیٹیوں کے سر پر ا س بیٹے کا ہاتھ ہو گا۔ اس پر جہاد کا جو فرض عائد ہوتا ہے وہ میں ادا کروں گا۔ اکلوتے بیٹے کا میرے بعد زندہ رہنا ضروری ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ اس لشکر کے ساتھ عراق کے محاذ پر چلا گیا تھا جو ابو عبید کے ساتھ گیا تھا۔

معرکہ جسرکے بہت دنوں بعد ایک رات ابو شداد کے دروازے پر دستک ہوئی اور اس کے ساتھ گھوڑا ہنہنایا۔ ابوشداد کی بیوی جاگ اٹھی اور بیٹے کو جھنجھوڑ کر جگاتے ہوئے کہا۔’’ دیکھ ‘تیرا باپ آیا ہے۔ میں نے گھوڑے کی آواز بھی سنی ہے۔‘‘

ماں بیٹا دوڑے گئے اور دروازہ کھولا۔ باہر ابو شداد گھوڑے سے اترا کھڑا تھا۔ بیٹا باپ سے لپٹ گیا لیکن فوراً پیچھے ہٹ گیا۔

’’خون! ‘‘بیٹے نے کہا۔ ’’کیا یہ خون آپ کا ہے یا دشمن کا خون آپ کے کپڑوں پر پڑ اہو اہے ؟‘‘بیٹے نے باپ کے گھوڑے کی باگ پکڑتے ہوئے کہا۔’’ اندر آجائیں۔ میں گھوڑا باندھتاہوں۔‘‘

’’آپ خاموش کیوں ہیں؟‘‘ابو شداد کی بیوی نے اس سے پوچھا۔’’ کیا آپ بہت زیادہ زخمی ہیں؟‘‘

’’نہیں!‘‘ابو شداد نے جواب دیا۔’’ جسم کا زخم معمولی ہے۔ روح کا زخم گہرا ہے ۔میں اندر نہیں آؤں گا۔میری بات سن بیٹے! میں عراق کے محاذ سے شکست کھا کر آیا ہوں۔ وہ لڑائی بہت ہی ظالم تھی۔ شاید ہی کوئی مسلمان زندہ رہا ہوگا۔ زندہ مجھ جیسے رہے جو بھاگ آئے ہیں ۔لیکن راستے میں اس احساس نے میرا گلا دبا لیا ہے کہ باقی مارے گئے ہیں تو مجھے بھی ان کے ساتھ ہی مر جانا چاہیے تھا ۔پھر راستے میں مجھے اپنے کچھ ساتھی مل گئے جو میری طرح بھاگ کر آ رہے تھے۔ میری ہی طرح محاذ سے دور آکر انہیں شرمندگی کا احساس ہونے لگا۔ ان سب نے بتایا کہ اپنے گھروں میں داخل نہیں ہوں گے ورنہ گھر کا ہر فرد انہیں شکست خوردہ بھگوڑا کہے گا۔‘‘

’’اندر آؤ!‘‘بیوی نے ابو شداد کا بازو پکڑ کر کہا۔’’ تمہیں کوئی طعنہ نہیں دے گا۔‘‘

’’میں د ن کے وقت یہاں آسکتا تھا۔‘‘ ابو شداد نے کہا۔’’ لیکن رات کے اندھیرے میں آیا ہوں تاکہ تم میرا چہرہ نہ دیکھ سکو۔ میں اپنے بیٹے کے ساتھ ایک بات کرنے آیا ہوں ……اچھی طرح سن لے بیٹا!میں کہیں منہ چھپا کر زندہ رہنے کی کوشش کروں گا۔ اگر زندہ رہا تو اپنی شکست کا انتقام لے کر آؤں گا۔ میں چاہتا تھا کہ تو اپنی ماں اور بہنوں کے سروں پر موجود رہے لیکن اب سوچتا ہوں کہ مسلمانوں کو ایسی ہی بری شکست ایک اور ہو گئی تو اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ میں شدید بوڑھا ہو گیا ہوں۔ اب میری جگہ تو لے لے بیٹا! میں گھوڑا چھوڑ چلا ہوں۔ جب بھی مدینہ سے کسی محاذ پر جانے کا بلاوا آئے‘ فوراً پہنچنا اورجس محاذ پر بھیجیں وہاں چلے جانا۔ دل میں یہ جذبہ رکھ کر لڑنا کہ اپنے بزدل باپ کی شکست کا انتقام لینا ہے اور دشمن کو شکست دے کر اﷲ سے اپنے باپ کا یہ گناہ بخشوانا ہے کہ وہ محاذ سے بھاگ آیا تھا۔ اپنی ماں اور بہنوں کو اﷲ کے حوالے کر جانا۔‘‘

وہ گھوڑا اپنے بیٹے کے حوالے کرکے چلا گیا۔ اس کی بیوی اس کے پیچھے دوڑی۔ ابو شداد نے اسے دھمکی دے کر روک دیا اور رات کی تاریکی میں غائب ہو گیا۔

علامہ شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ تاریخِ اسلام میں میدان ِجنگ سے فرار نہایت شاذونادر ہی ہوا ہے ۔معرکہ جسر ہی ایک ایسی مثال ہے جس نے تاریخ میں جگہ پا لی کیونکہ مفرورین کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ لیکن ان بھگوڑوں کا یہ عالم تھا کہ مہینوں خانہ بدوش پھرتے رہے۔ شرم کے مارے اپنے گھروں کو نہیں جاتے تھے۔ اکثر روتے اور کفِ افسوس ملتے تھے۔

تاریخوں میں یہ شہادت بھی ملی ہے کہ حضرت عمر ؓکو پتا چلا کہ مدینہ اور قرب و جوار کے کچھ مفرو ر اپنے گھروں میں چھپ گئے ہیں اور احساسِ ندامت سے باہر نہیں نکلتے اور جذباتی طور پر وہ بحالتِ ماتم رہتے ہیں تو حضرت عمرؓ ذاتی طور پر ہر ایک کے گھر گئے اور انہیں تسلیاں دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی۔

٭

الیس میں مثنیٰ پریشانی اور اضطراب کے عالم میں کبھی کمرے میں جا کر لیٹ جاتے، کبھی اٹھ کر ٹہلنے لگتے، باہر نکل آتے اور بار بار اپنے ماتھے کو ہتھیلی سے رگڑتے اور جب ان کے پہلو کا زخم درد کرنے لگتا تو پھر کمرے میں جا کر لیٹ جاتے۔ آخر انہوں نے دربان کو بلا کر کہا کہ پہلے طبیب کو لے آئے ۔پھر اشعر بن اوصامہ کوبلائے۔

طبیب قریب ہی تھا۔ دوڑا آیا۔ اپنے زخم کی بات کرنے سے پہلے انہوں نے طبیب سے صہیب کے متعلق پوچھا۔

’’معجزہ ہو گیا ہے ابنِ حارثہ!‘‘ طبیب نے کہا۔ ’’اس کے جسم میں خون تو رہا نہیں تھا۔ الحمد اﷲ خون کی کمی پوری ہو رہی ہے اور زخم بھی مل رہے ہیں ۔ پاؤں کی ایک ہڈی ٹوٹ گئی تھی وہ جوڑ تو دی ہے۔ لیکن ٹھیک ہوتے وقت لگے گا ۔وہ لڑکی جو اسے لائی تھی ہر وقت اس کے پاس بیٹھی رہتی ہے۔‘‘

’’اﷲ نے اس مجاہد کو زندہ رکھنے کا معجزہ دکھایا ہے ۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’ مجھے امید ہے کہ اﷲ اس کے ہاتھوں معجزہ کرائے گا۔ میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ آئندہ آپ مجھے یہ نہیں کہیں گے کہ میں آرام کروں۔ اگر میں اپنے زخم کو چاٹنے بیٹھ گیا تو سلطنت ِاسلامیہ کو ایسا زخم آئے گا کہ سنبھلنا ناممکن ہو جائے گا ۔آپ بزرگ ہیں۔ آپ سمجھتے ہوں گے کہ آتش پرست مدائن میں آرام سے نہیں بیٹھ گئے ہوں گے۔ انہوں نے ہمیں جسر میں جو نقصان پہنچایا ہے اس سے وہ فوراً فائدہ اٹھائیں گے ۔ وہ کسی بھی دن حملہ کر دیں گے۔ ان کے ساتھ ہاتھی بھی ہوں گے اور ان کے پاس تازہ دم فوج کی بھی کمی نہیں ۔ میں بہت پریشان ہوں۔‘‘

’’اﷲ مدد کرے گا ابنِ حارثہ! ‘‘طبیب نے کہا ۔’’دل چھوٹا نہ کر۔ امیر المومنین کو اطلاع دے اور کمک منگوا لے۔‘‘

’’کمک آتے آتے دو چاند طلوع اور غروب ہو جائیں گے۔‘‘ مثنیٰ نے کہا۔ ’’کمک اکٹھی کرتے بھی دن لگیں گے ۔اگر فارسیوں نے پہلے ہی حملہ کر دیا تو ہمیں یہاں سے نکلنا پڑے گا۔ محترم بزرگ‘ میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ میرے ساتھی سالار اور نائب شہید ہو گئے ہیں ۔صحابہ کرام بھی شہید ہو گئے ہیں ۔کوئی نہیں رہا جس سے مشورہ لوں ۔میں فارس کی زمین سے ایک بالشت بھی پیچھے ہٹنا نہیں چاہتا ۔‘‘

’’ایک تو امیر المومنین کو لکھ کہ کمک فوراً بھیجیں ۔‘‘طبیب نے کہا ۔’’اور اپنی طرف سے اپنے تمام قبیلوں کو سرداروں کو پیغام بھیج کہ محاذ بہت کمزور ہو گیا ہے ۔آدمی بھیجو ۔مایوس نہ ہو مثنیٰ!‘‘

مثنیٰ بن حارثہ کو تنہائی پریشان کررہی تھی۔ ان کے ساتھ کوئی تجربہ کار سالار نہیں رہ گیا تھا۔ مجاہدین کے پاس جوش و جذبہ تھا۔ وہ بے جگری سے لڑ سکتے تھے لیکن قیادت کے لیے جنگی فہم و فراست کی ضرورت تھی اور وہ اس لحاظ سے کمزور تھی کہ مثنیٰ کا کوئی ساتھی نہ تھا۔

طبیب چلا گیا تو اشعر بن اوصامہ آگیا۔ یہ مجاہد تجربہ کار جاسوس تھا جو پہلے ایک بار پاگل کے بہروپ میں اور دودسری بار یہودی ربی )مذہبی پیشوا( بن کر مدائن گیا اور دونوں بار کچھ عرصہ وہاں رہ کر بڑی کارآمد معلومات لے آیا تھا ۔جس سے مسلمانوں کے لشکر کو بہت فائدہ پہنچا تھا۔

’’ابنِ اوصامہ!‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے اسے کہا ۔’’تو دیکھ رہا ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں رہا۔ اگرمدائن سے فوج اچانک آگئی تو ہم یہاں سے نکل بھاگنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے۔ اپنا کمال ایک بار پھر دکھا دے۔ تو بہتر جانتا ہے کس بہروپ میں وہاں جائے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ مدائن سے فوج نکلے تو مجھے ایک دن پہلے خبر ہو جائے۔میں تین چار جگہوں پر گھات لگا کر اس فوج کو راستے میں ختم کر سکتا ہوں۔‘‘

’’ایسا ہی ہوگا سپہ سالار!‘‘ اشعر بن اوصامہ نے کہا ۔’’انشاء اﷲ ایساہی ہو گا۔ میں اگر واپس نہ آؤں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مدائن میں فوج کی کوئی نقل و حرکت نہیں۔ آپ اطمینان سے تیاری کر تے رہیں۔

٭

مثنیٰ بن حارثہ نے امیر المومنین ؓکے نام پیغام لکھوایا جس میں زیادہ سے زیادہ کمک کی درخواست کی اور لکھا کہ کمک نہ پہنچنے کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہ ہو گا کہ ہمیں فارس سے جانیں بچا کر نکلنا پڑے گا۔ اور اگر مقابلہ کیا تو ہم میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں رہے گا۔ امیر المومنین ؓکو جسر کی لڑائی ،اپنی تباہی اور پسپائی کی ہر ایک بات بتانا۔ مثنیٰ نے قاصد سے کہا۔ یہ بھی بتانا کہ ہم نے الیس میں اپنی شکست کا انتقام تو لے لیا ہے۔ لیکن تین ہزار کی نفری سے ہم کب تک اتنی بڑی فوج کا مقابلہ کر سکیں گے اور راستے میں بہت کم رکنا۔ جتنی جلدی پہنچ سکو اتنا ہی بہتر ہے ۔حالات تمہارے سامنے ہیں ۔

قاصد کو رخصت کر کے مثنیٰ نے اپنے لشکر میں مختلف قبائل کے ایک ایک ایسے آدمیوں کو بلایا جو قبیلے کا سردار تھا یا قبیلے میں پر اثر حیثیت رکھتا تھا۔ ان سب کو مثنیٰ نے کہا کہ صورتِ حال ان کے سامنے ہے۔ ہر میدان میں فتح حاصل کرتے کرتے مدائن کے قریب پہنچ گئے تو ایسی شکست ہوئی کہ اس زمین پر ٹھہرنا محال ہو گیا ہے۔

’’اور یہ تمہاری بزدلی نہیں تھی۔‘‘ مثنیٰ نے کہا ۔’’میں نے تمہیں پسپا کرایا تھا اور یہ سپہ سالار ابو عبید کی غلطی تھی جس کی سزا تم سب کو ملی ۔ تم نے ہاتھیوں کا مقابلہ کیا اور تمام ہاتھیوں کو اگلی لڑائیوں کیلئے بے کار کر دیا۔ میں نے امیر المومنین کو پیغام بھیج دیا ہے۔ میں نے لکھا ہے کہ جو مجاہدین پیچھے ہٹ آئے تھے وہ بھاگ کر نہیں آئے ۔‘‘

’’میرے رفیقو!‘‘ اگر ہمیں ایسی ایک اور شکست ہو ئی تو تم میں سے بہت سے مارے جائیں گے اور جو زندہ رہیں گے وہ باقی عمر آتش پرستوں کی غلامی میں ان کی جوتیاں چاٹتے گزاریں گے اور اپنے ان بھائیوں کی طرف بھی دیکھو جو رومیوں پر غالب آکر شام کو سلطنتِ اسلامیہ میں شامل کر چکے ہیں۔ کیا وہ ہمیں بزدل نہیں کہیں گے ۔اپنے قبیلوں میں جاؤ اور لوگوں کو بتاؤ کہ تم ہماری مدد کو نہ آئے تو عرب کی مقدس سر زمین پر آتش پرستوں کی بادشاہی ہو گی اور پھر تم جانتے ہو اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ ہم اﷲ اور رسول اﷲﷺ کے مجرم ہوں گے۔‘‘

مثنیٰ نے قبیلوں کے ان سرکردہ افرادکو مشتعل کر کے ان کے قبیلوں کو بھیج دیا۔ مثنیٰ نے محسوس کیا کہ الیس محفوظ مقام نہیں ۔انہوں نے اپنے لشکر کو ایک روز سباخ کی طرف کوچ کا حکم دیا۔ سباخ خفان اور قادسیہ کے درمیان ایک مقام تھا جو عراق اور عرب کی سرحد کے قریب تھا۔

٭

’’میں فارس کی سلامتی کی خاطر تخت سے دستبردارہوجاؤں گی۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ لیکن کسریٰ کے خاندان کا وہ کون سا مرد رہ گیا ہے جسے تم لوگ تخت پر بٹھاؤ گے؟‘‘

’’ایک مرد ہے۔‘‘ وفد کے لیڈر نے کہا۔’’ وہ کسریٰ پرویز کی ایک بیوی کا بیٹا ہے جسے ماں نے روپوش رکھا ہوا ہے۔ ہم تین آدمی ہیں جنہیں معلوم ہے کہ وہ کہاں ہے۔ ہم اسے لے آئیں گے۔‘‘

’’اسے لے آئیں۔‘‘ پوران نے کہا۔

’’فارس کے تخت پر آپ جانتی ہیں، کتنے جانشین قتل ہو چکے ہیں۔‘‘ وفدکے لیڈر نے کہا۔’’کسریٰ پرویز کے بعد اس کے خاندان کا جو آدمی تخت نشین ہوا ،وہ قتل ہو گیا۔ کسریٰ پرویز کی ایک بیوی اپنے اکلوتے بچے کو لے کر بھاگ گئی تھی کہ اس بچے کو تخت کا وارث ہونے کی وجہ سے قتل کر دیا جائے گا……میں اسے لے آؤں گا۔ لیکن یہ سن لیں کہ اسے قتل کر دیا گیا تو ہم شاہی محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔‘‘

٭

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ کسریٰ پرویز مر گیا تو اس کا جو بھی جانشین تخت پر بیٹھا وہ قتل ہو گیا۔ مرد ختم ہو گئے تو عورتیں بھی تخت نشین ہوئیں مگر سازش کا شکار ہو گئیں۔ آخر پوران وطن کی سلامتی کا جذبہ اور رستم کا سہارا لے کر تخت نشین ہوئی۔عام خیال یہی تھا کہ کسریٰ پرویز کی نسل ختم ہو چکی ہے۔ لیکن اس کی ایک بیوی نے اس کا بچہ بچا لیا اور مدائن سے غائب ہو گئی تھی۔

کسریٰ پرویز کی متعدد بیویاں تھیں۔ کسی بھی مؤرخ نے تعداد نہیں لکھی۔ یہ سب بیویاں اِدھر اُدھر بھاگ گئی تھیں ۔انہیں ڈر تھا کہ قتل کر دی جائیں گی۔ اولاد نرینہ صرف ایک بیوی کی زندہ تھی۔ صرف ایک لڑکا ماں کو تخت کی بجائے بیٹا زیادہ عزیز تھا۔ اسے بچائے رکھنے کیلئے وہ مدائن سے کہیں دور جا کر روپوش ہو گئی۔

یہ شخص جو وفد کا قائد بن کر پوران اور رستم کے پاس گیاتھاکوئی معمولی آدمی نہیں تھا اور وہ عام قسم کا درباری بھی نہیں تھا ۔کسریٰ پرویز کے زمانے میں شاہی خاندان کے ساتھ اس کے خصوصی مراسم تھے ۔تاریخ میں اس شخص کا نام ساران لکھا ہے۔ دو مؤرخوں نے اسارس لکھا ہے ۔وہ کسی پر اثر حیثیت کا آدمی معلوم ہوتا ہے۔ جس کے آگے رستم جیسا جرنیل نہ بول سکا اور پوران دخت نے بھی اس کی بات مان لی ۔ حالانکہ پوران ملکہ تھی۔

یہ شخص مدائن سے دور ایک بستی میں چلا گیا۔ اس کے ساتھ پانچ محافظ تھے۔ یہ کوئی گمنام بستی تھی، جہاں وہ رات کو پہنچا۔ دو تین بار دستک دینے کے بعد ایک بڑھیا نے دروازہ کھولا۔اس آدمی نے کہا کہ وہ نورین سے ملنے آیا ہے ۔بڑھیا نے کہا کہ یہاں کوئی نورین نہیں رہتی۔

’’مت ڈرو بڑھیا!‘‘اس شخص نے اپنا نام بتا کر کہا۔’’ نورین کو میرا نام بتاؤ اور اسے کہو کہ میں کوئی دھوکہ دینے نہیں آیا ،میں رات کو اسی لیے آیا ہوں کہ کوئی دیکھ نہ لے۔‘‘

’’آنے دو اسے!‘‘اندر سے ایک عورت کی آواز آئی۔

وہ اندر چلا گیا۔ ایک بڑی خوبصورت ادھیڑ عمر عورت نے اس کا استقبال کیا۔ عورت کے چہرے پر اداسی تھی۔

’’کیوں آئے ہو؟‘‘عورت نے سنجیدگی سے پوچھا ۔جیسے وہ اس آدمی کو دیکھ کر خوش نہ ہوئی ہو۔’’ تمہارے ساتھ اور کون ہے؟‘‘

’’مت ڈرو نورین!‘‘ ساران نے کہا۔’’ میرے ساتھ میرے اپنے محافظ ہیں۔ انہیں بستی سے کچھ دور چھوڑ آیا ہوں۔ اپنا گھوڑا بھی بستی میں نہیں لایا۔ میں نے پوری احتیاط کی ہے……میں تمہیں اور یزدگرد کو لینے آیا ہوں۔‘‘

’’کہاں لے جاؤ گے؟‘‘

’’مدائن ۔‘‘ساران نے جواب دیا۔’’ فارس کا تخت تمہارے بیٹے یزدگرد کا منتظر ہے نورین! میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

کسریٰ پرویز کے اس بیٹے کی عمر اکیس سال تھی۔ ابو حنیفہ دینوری نے اس کی عمر سولہ سال لکھی ہے ۔طبری زیادہ مستند ہے۔ اس نے عمر اکیس سال لکھی ہے اور زیادہ مؤرخ اکیس سال پر ہی متفق ہیں ۔آگے چل کر ہم اس نوجوان کا کردار اور گفتار دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر بالغ ہی نہیں بلکہ اس کا ذہن خاصا پختہ تھا۔ اس کا نام ’’یزدگرد‘‘ تھا۔

’’میں اپنے بیٹے کو مدائن نہیں جانے دوں گی۔‘‘ نورین نے ڈرے ڈرے سے لہجے میں کہا۔’’میرا یزدی مدائن نہیں جائے گا۔ مجھے فارس کا تخت نہیں اپنا بیٹا چاہیے ۔میں اپنے یزدی کو زندہ رکھنا چاہتی ہوں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ فارس کا تخت کتنے جانشینوں کا خون پی چکا ہے؟ کتنی جانیں لے چکا ہے ؟میں نے اپنے یزدی کو چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ وہ اسی مکان کے ایک کمرے میں سویا ہوا ہے۔ ذرا آہستہ بولو، اس کی آنکھ نہ کھل جائے۔‘‘

’’نورین!‘‘ ساران نے اپنی آواز دھیمی کرکے کہا۔’’ آج میں یہاں چوتھی مرتبہ آیا ہوں۔ اگر میں نے تمہیں دھوکا دینا ہوتا تو کبھی کا دے چکا ہوتا……اور تم یہ کیوں بھول رہی ہو کہ یزدی کو صرف تم ہی زندہ رکھنا چاہتی ہو؟میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ یہ خوبصورت جوان زندہ رہے۔ یہ ہماری محبت کی یادگار ہے۔ یہ صرف تم جانتی ہو اور میں جانتا ہوں کہ کہ کسریٰ پرویز اس لڑکے کا باپ کس طرح بنا۔‘‘

دو مؤرخوں ولیم سکاٹ اور ابنِ خلکان نے لکھا ہے کہ کسریٰ پرویز کی ہر بیوی اولادِ نرینہ چاہتی تھی۔ یہ تخت کی وراثت کا لالچ تھا ۔ان بیویوں نے پرویز کو انیس بیٹے دیئے ۔سب سے بڑے بیٹے کا نام شیرویہ تھا۔ نورین کی ساران کے ساتھ درپردہ دوستی تھی اور ساران کسریٰ کا منظورِ نظر بھی تھا۔ ان دونوں مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یزدگرد ساران اور نورین کی دوستی کی پیداوار تھا۔ تین مؤرخوں نے ایک اور روایت بیان کی ہے۔

ان کی روایت یہ ہے کہ نورین ایک بھی بیٹا پیدا نہ کر سکی۔ اس کی دوستی ساران کے ساتھ تھی ،جو بظاہر کسریٰ پرویز کا دوست تھا۔ نورین نے ساران سے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ اسے ایک بیٹا چاہیے ۔اس کا ذریعہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ۔ ساران کو پتا چلا کہ مدائن سے کچھ دور پہاڑی جنگلوں میں ایک یہودی جادوگر رہتا ہے جو معجزہ نما کام کر دکھاتا ہے۔

ساران اس کی تلاش میں نکلا اور کم و بیش دو مہینے بعد اسے وہ یہودی جادوگر اور عامل مل گیا۔ ساران نے اسے بتایا کہ فارس کے بادشاہ کسریٰ پرویز کی ایک بیوی اولادِ نرینہ کی طلب گار ہے ۔ صرف ایک بیٹاچاہتی ہے۔

’’اگر تم اس کی یہ مراد پوری کر دو تو وہ تمہیں انعام و اکرام سے مالامال کردے گی۔‘‘ ساران نے اسے کہا۔

یہودی نے پانسہ پھینکا ۔پھر بیس پچیس دانوں کی ایک تسبیح ہاتھ میں لے کر اس کا ایک ایک دانہ دیکھا۔ اسے مٹی میں لے کر پھونک ماری اور آنکھیں بند کر کے مراقبے میں چلا گیا۔

’’اوہ!‘‘ اس نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔ ’’خون کا مینہ برس رہا ہے۔ فارس کا تخت اس میں تیر رہا ہے۔ یہ تخت ڈوب جائے گا۔‘‘

’’میں ایک لڑکے کی بات کر رہا ہوں۔‘‘ ساران نے یہودی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’تم یہ کام کر سکتے ہو؟‘‘

’’کیا تم کسی نوزائیدہ بچے کا چُلّو بھر خون حاصل کرسکتے ہو؟‘‘یہودی نے پوچھا۔

’’کوشش کروں گا۔‘‘ ساران نے کہا۔’’ کام بہت مشکل ہے۔‘‘

’’اس کے بغیر میرا کام آسان نہیں ہو سکتا۔‘‘ یہودی نے کہا۔’’ بچہ پیدا ہوتے ہی اس کا خون نکال لیا جائے تو زیادہ مفید ہوگا۔ اگر نہیں ‘تو بچے کی عمر ایک دن اور ایک رات سے زیادہ نہ ۔ہو ایک سورج نکلنے کے بعد دوسرا سورج نکل آیا تو خون بیکار ہو گا۔ یہ خون صرف ایک رات میرے پاس رہے گا۔ پھر یہ خون پانی میں ملا کر یہ عورت غسل کرے گی ۔مراد پوری ہو جائے گی۔

ساران واپس آگیا اور نورین کو بتایا۔ نورین نے کہا کہ وہ نوزائیدہ بچے کے چلو بھر خون کی قیمت اس سے زیادہ دے گی جو بچے کی ماں مانگے گی۔ ساران نے گھوم پھر کر ایک غریب عورت ڈھونڈ نکالی جس کا بچہ پیدا ہونے میں کچھ ہی دن رہ گئے تھے ۔ساران اس عورت اور اس کے خاوند کو بڑی اچھی اجرت اور ملازمت کا لالچ دے کر اپنے گھر لے آیا۔

اس عورت نے بچے کو جنم دیا۔ ساران امیر کبیر جاگیردار تھا۔ اس نے اس عورت کو اپنے گھر کے ایک شاہانہ کمرے میں رکھا اور دو تین خادمائیں اس عورت کی خدمت کیلئے دے دیں۔ جونہی بچہ پیدا ہوا، خادمائیں بچے کو یہ کہہ کر لے گئیں کہ اسے گرم پانی سے غسل دینا ہے ۔دوسرے کمرے میں لے جا کر بچے کی ایک رگ ذرا سی کاٹ کر اس میں سے آدھا پیالہ خون نکال لیا گیا۔ ساران کو ذرا سا بھی ڈر نہ تھا کہ بچہ مر جائے گا۔ لیکن بچہ بچ گیا اور جب اس نے ماں کا دودھ پینا شروع کیا تو خون کی کمی پوری ہو گئی۔

روایت کے مطابق یہ خون یہودی کے پاس ساران لے کر گیا۔ جو یہودی نے اگلی صبح واپس کیا۔ ساران یہ خون مدائن لایا اور خفیہ طور پر نورین کو دیا ۔نورین نے اسے پانی میں ملا کر غسل کیا اور اس نے ایک بچے کو جنم دیا۔ جس کا نام یزدگرد رکھا گیا۔

ان روایات میں یہ بھی ہے کہ اس یہودی جادوگر نے ساران سے کہا تھا کہ۔’’ اس خاندان کو انسانی خون ہی راس آتا ہے اور اس خاندان کو ہر کامیابی خون سے ہی حاصل ہوتی ہے اور یہ خاندان اپنے ہی خون میں ڈوب جائے گا۔‘‘

’’……اور اس خون سے جو تم ایک نوزائیدہ بچے کے جسم سے نکال کر لائے ہو، لڑکا ہی پیدا ہو گا۔‘‘ یہودی جادوگر نے کہا۔ ’’لیکن انجام اس کا کچھ اچھا نہیں ہو گا۔‘‘

یہ بتانا مشکل ہے کہ یزدگرد ساران اور نورین کے خفیہ مراسم کی پیداوار تھا یا یہ یہودی عامل کی کرامت تھی ۔البتہ مؤرخوں کی تحریروں سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ یزدگرد کی پیدائش ساران اور نورین کے درمیان ایک راز تھا اور نورین ساران کے آگے سر نہیں اُٹھا سکتی تھی۔

٭

نورین اپنے اکلوتے بیٹے کو مدائن بھیجنے پر آمادہ نہیں ہو رہی تھی۔ وہ اب شہنشاہِ فارس کسریٰ کی بیوی نہیں تھی ۔وہ بیوہ تھی اور اپنے بیٹے کو دشمنوں سے بچائے رکھنے کی خاطر گمنام سے ایک گاؤں میں گمنامی کی زندگی گزار رہی تھی۔ مرغی کی طرح اس نے بیٹے کو اپنے پروں کے نیچے چھپا کر رکھا ہو اتھا۔

ساران نے اسے بتایا کہ سلطنت ِفارس کی بنیادیں ہل گئی ہیں اور یہ عمارت جو کبھی عالیشان تھی، کھنڈر بنتی جا رہی ہے۔ ساران نے بتایا کہ مسلمان آدھے فارس پر قابض ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے فارس کی آدھی سے زیادہ فوج مار ڈالی اور بہت سی ہمیشہ کیلئے بیکار کر دی ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ پوران اور رستم فارس کی گرتی ہوئی عمارت کو سنبھالا دینے کیلئے خود چاہتے ہیں کہ کسریٰ کا کوئی بیٹا آجائے اور تخت نشین ہو۔

بڑی مشکل سے ساران نے نورین کو منایا۔ نورین ساران کو شاید ٹال ہی دیتی لیکن ہوا یوں کہ یزدگرد کی آنکھ کھل گئی تھی اور وہ بھی اپنی ماں کے پاس آبیٹھا۔ ماں نے اسے بتا رکھا تھا کہ وہ شہزادہ ہے۔اس نے مدائن کے حالات سنے تو وہ تڑپ اٹھا۔

’’میں اپنے باپ کی سلطنت کو تباہ نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ اگر میں قتل ہو جاؤں تو کیا!‘‘

’’تم قتل نہیں ہو گے۔‘‘ سارا ن نے کہا۔’’ رستم دھوکا دے گا تو فیروزان موجود ہے۔ فوجی بھی اور شہری بھی رستم اور پوران کے خلاف ہو گئے ہیں ۔مذہبی پیشوا بھی یہی کہتے ہیں کہ فارس کی تباہی کا باعث یہی ہے کہ تخت پر ایک عورت آبیٹھی ہے۔‘‘

دوسری صبح ساران ،نورین اوریزدگرد کو ساتھ لے کر مدائن چلا گیا۔

مدائن پہنچتے ہی یزدگرد کی تاجپوشی کی رسم سادگی سے ادا ہوئی اور اعلان کر دیا گیا کہ اب سلطنتِ فارس کا بادشاہ یزدگرد ہے۔ نورین کے دل پر اپنے بیٹے کے قتل کا جو خوف طاری تھا وہ پوران اور رستم نے اپنے رویے سے اتار دیا۔ پوران نے یزدگرد کو گلے لگا کر پیار کیا۔ رستم نے بھی عملی طور پر ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔ فیروزان نے تو سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کیا۔ فوج کے تمام افسروں نے یزدگرد کے سامنے آکر خود جھک کر اور اپنی تلواروں کو جھکا کر اطاعت اور وفاداری کا اظہار کیا۔ پھر شہر اور گردونواح کے رؤساء اور اُمراء آئے اور یزدگرد کے حضور رکوع و سجود کے ذریعے یقین دلایا کہ وہ کسریٰ کی آنے والی نسلوں کے بھی غلام رہیں گے۔ لوگوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا کہ کسریٰ کا دور لوٹ آیاہے۔

رسم ِتاجپوشی کے بعد پہلا کام یہ کیا گیا کہ تمام جرنیلوں ،رؤساء اور امراء وغیرہ کی کانفرنس منعقد ہوئی ۔جس میں رستم کو کمانڈر انچیف مقرر کرکے فیصلہ کیا گیا کہ فوری طور پر اس سے زیادہ فوج تیار کی جائے جتنی مسلمانوں کے حملے سے پہلے فارس کی ہوا کرتی تھی اور مسلمانوں کو ایسا ختم کیا جائے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ واپس نہ جا سکے۔ پھر مدینہ پہنچ کر مسلمانوں کہ تہ تیغ کیا جائے اور اسلام کو نیست و نابود کر دیا جائے۔

اس کانفرنس میں پوران بھی شامل تھی۔ جرنیلوں کے درمیان جو اختلافات تھے وہ ختم ہو گئے۔ اس کے علاوہ ایک پلان بھی تیار کیا گیا کہ جو شہر اور قصبے مسلمانوں کے قبضے میں آگئے ہیں ۔ان کے لوگوں کو مسلمانوں کی اطاعت سے بغاوت پر اکسایا جائے۔

’’مسلمانوں کے پاس اتنی فوج نہیں کہ وہ ہر جگہ اتنی فوج رکھ سکیں کہ لوگوں کو سر نہ اٹھانے دیں۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ ہر جگہ انتہائی تھوڑے مسلمان ہیں جو نظم و نسق اور انتظامی امور چلا رہے ہیں۔ اُنہیں آسانی سے قتل کیا جا سکتا ہے ۔لوگ مسلمانوں کو جزیہ دینے سے انکار کر دیں۔ ہمارے مذہب کا کوئی شخص مسلمان ہو جائے تو اسے خفیہ طریقے سے قتل کر دیا جائے تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں۔‘‘

’’یہ کام تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو مقبوضہ علاقوں سے بھاگ کر مدائن آگئے ہیں۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ انہیں اس مہم کیلئے تیار کرکے واپس ان کی بستیوں میں بھیج دیا جائے ۔ان میں مسلمانوں کے خلاف انتقامی جذبہ پیدا کیاجائے۔ میں نے ان لوگوں میں گھوم پھر کر دیکھا ہے۔ ان کی عورتیں ان کے ساتھ ہیں ۔جن میں بعض جوان اور خوبصورت ہیں ۔ان میں مجھے بعض خاصی عقلمند اور جذبے والی نظر آئی ہیں۔ میں انہیں تیار کرکے بھیجوں گی کہ مسلمانوں کے سالاروں تک پہنچیں اور انہیں زہر دے کر ختم کر دیں یا انہیں ورغلا کر کہیں تنہائی میں لے جائیں اور وہاں سے ہمارے آدمی انہیں پکڑ کر مدائن لے آئیں۔‘‘

اس طرح مدائن میں مثنیٰ کے لشکر کے خلاف بڑا ہی خوفناک پلان تیار ہو گیا۔ جس میں مجاہدین پر ہر پہلو سے حملہ اور ہر حربہ شامل کیا گیا تھا۔

فارس کی بادشاہی ایک بار پھر کسریٰ پرویز کے خاندان میں آگئی تھی اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ اب سلطنتِ فارس کی پہلے والی شان و شوکت لوٹ آئے گی اور پھر دشمنوں پر دھاک بیٹھ جائے گی۔ مذہبی پیشوا کہتے تھے کہ یزدگرد کی واپسی نہایت نیک شگون ہے اور یہ مسلمانوں کی موت کی نشانی ہے۔

حالات ایسی صورت اختیار کر ہے تھے جو مجاہدین کے لشکر کیلئے بے حد خطرناک تھے ۔مدائن میں ایک بہت بڑی فوج تیار ہوناشروع ہو گئی تھی۔ لوگ جوق در جوق جذبے اور ولولے سے فوج میں شامل ہونے لگے۔ ان کی اور نئے گھوڑوں کی تربیت شروع ہو گئی۔ فوج کی نفری اور گھوڑوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی تھی۔ اُدھر مثنیٰ بمشکل تین ہزار مجاہدین کے ساتھ بغداد کے قریب ساباط کے مقام پر پریشان بیٹھے تھے کہ وہ نفری کی کمی کہاں سے پوری کریں۔ اس کے علاوہ مثنیٰ کا زخم زیادہ خراب ہو گیا تھا اور وہ ذرا سا چلتے تھے تو بھی ان کا سانس پھول جاتا تھا اور زخم سے درد کی ٹیسیں اٹھتی تھیں ۔طبیبوں کی نگاہ میں وہ اب لڑائی کے قابل نہیں رہے تھے ۔اب تو یوں لگتا تھا کہ شکست ان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔

٭

چونکہ کسریٰ پرویز کا ذکر ایک بار پھر آیا ہے اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پھر ہم اس خط کی بات کریں جو رسول اﷲ ﷺ نے اسے قبولِ اسلام کیلئے بھیجا تھا اور پرویز نے رعونت کا یہ مظاہرہ کیا کہ یہ خط پھاڑکر پھینک دیا تھا۔ اس داستان میں اس خط کا اور اس سے متعلق واوقعہ کا پہلے بھی ذکر آچکا ہے ۔لیکن خط کا متن پہلے پیش نہیں کیا گیا۔

خط کی تحریر پیش کرنے سے پہلے پرویز کی فرعونیت کا مختصر سا ذکر ہو جائے تو بے محل نہ ہو گا۔ کسریٰ پرویز جو خسرو پرویز کے نام سے مشہور ہوا ۔وہ ہرمز کا بیٹا اور نوشیروان کا پوتا تھا۔ دا دا نے عدل و انصاف میں شہرت حاصل کی اور تاریخ میں اونچا نام اور مقام پایا اور پوتا دادا کے اُلٹ چلا اور فرعونیت میں نام پیدا کیا۔ یہاں تک کہ اﷲ کے رسولﷺ کی گرفتاری کا حکم دیا۔

خسرو پرویز کے عروج و زوال کی تفصیلات طویل ہیں۔ان تفصیلات کا چونکہ ہماری اصل کہانی کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ،اس لیے ہم اسے مختصراً بیان کریں گے کہ خسرو پرویز پر ایسا بھی وقت آیا تھا کہ بہرام کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکا اورمدائن سے اس حالت میں بھاگا کہ اس کے ساتھ صرف تیس سپاہی تھے۔ اس کا ذہن سازشی تھا۔ غیرت نام کی کوئی چیز اس کی فطرت میں نہیں تھی۔ اس نے اپنے دشمن قیصرِ روم سے جا مدد مانگی۔ یہ خسرو پرویز کی عیاری کا کمال تھا کہ رومیوں نے اسے بہت سی اور بڑی طاقت ور فوج دی۔

خسرو پرویز اس فوج کے ساتھ اپنی سلطنت میں داخل ہوا ۔بہرام نے مقابلہ کیا لیکن بہرام شاہی خاندان سے نہیں تھا۔ اس بناء پر رؤسا اور دیگر زعماء اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور فوج بھی بے دلی سے لڑی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہرام کوجان بچا کر بھاگنا پڑا اور خسرو پرویز ایک وسیع و عریض سلطنت کا شہنشاہ بن گیا۔ یہاں سے اس کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

اس شخص کی فطرت میں جو ابلیسیت تھی اسے اس نے یوں استعمال کیا کہ جس قیصرِ روم کی فوجی مدد سے وہ مدائن میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا اور کسریٰ فارس بنا تھا ،اسی قیصرِ روم کو اس نے للکارا اور اس کے ساتھ لڑائیاں لڑیں اور اس کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس سے پہلے اس نے بہت بڑی فوج تیار کر لی تھی۔ جس میں عربوں کیلئے اس نے مالِ غنیمت اور دیگر انعامات اور مراعات کی ایسی کشش پیدا کی تھی کہ عرب کے سرحدی قبائل کے لوگ بھی اس میں شامل ہو گئے۔

اس کا دادا نوشیرواں فلسطین کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ لیکن موت نے آ لیا۔ پوتے خسرو پرویز نے دادا کے اس ارادے کی تکمیل کا اعلان کر دیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ بیت المقدس کو فتح کر کے وہ وہاں عیسیٰ کی تمام مقدس یادگاریں اصل صلیب جس پر حضرت عیسیٰ مصلوب ہوئے تھے اور ان کا )مفروضہ(مدفن تباہ و برباد کرکے غائب کر دے گا۔

اس وقت فلسطین پر رومیوں کا قبضہ تھا ۔یہودیوں کو پتا چلا کہ خسرو پرویز عیسائیت کے مرکز کو تباہ کرنے چلا ہے تو باسٹھ ہزار یہودی اس کی فوج میں شامل ہو گئے۔ کیونکہ وہ عیسائیت کے اتنے ہی دشمن تھے جتنے اسلام کے تھے ۔خسرو پرویز کی فوج بیت المقدس میں داخل ہو گئی اور ایسی قتل و غارت کی کہ نوے ہزار عیسائیوں کو جن میں بچے بھی تھے قتل کردیا گیا۔ کوئی گرجا سلامت نہ رہنے دیا گیا ۔زیادہ تر گرجوں کو آگ لگا دی گئی۔ تمام دولت لوٹ لی گئی۔ عیسائیوں کی کوئی مقدس جگہ سلامت نہ رہنے دی گئی ۔وہاں سے سونے ،چاندی، ہیروں اور جواہرات کے انبار ملے جو خسرو پرویز مدائن لے آیا۔ عیسائیوں کی تاریخ میں ان پر اس سے زیادہ ظلم کی مثال نہیں ملتی ۔پرویزکے ظلم اور درندگی کا نشانہ رومن کیتھولک عیسائی بنے تھے۔

اس کے بعد خسرو پرویز اسلام کے خلاف کمر بستہ ہونے لگا۔ رسولﷺ نے حبش کے نجاشی کو دعوتِ اسلام کا پیغام بھیج کر خسرو پرویز کے نام ایک پیغام بھیجا ۔پیغام لے جانے والے ایک صحابی عبداﷲ ؓبن قذافہ تھے۔ اس وقت خسرو پرویز کردستان کی سرحد پر دریائے قرامو کے کنارے خیمہ زن تھا۔

رسول اﷲ ﷺ کے نامۂ مبارک کی تحریر یہ تھی:

’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

محمد ﷺ کی طرف سے کسریٰ رئیس فارس کے نام۔ اس شخص پرسلام ہے جو ہدایات کی پیروی کرے اور اﷲ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اﷲ کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اور یہ گواہی بھی دے کہ میں تمام دنیا کے انسانوں کی طرف اﷲ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں تاکہ ہر زندہ انسان کو اﷲ کا خوف دلاؤں ۔ لہٰذا تم اگر اسلام قبول کر لو گے تو سلامت رہو گے اور اگر تم نے انکار کیا تو مجوسیوں کا وبالِ جان تمہاری گردن پر ہو گا۔

خسرو پرویز فرعونوں سے کم نہ تھا۔ وہ اپنے آپ کو سورج کا بیٹا ہی نہیں دنیا کا دوسراخدا سمجھتا تھا ۔اسے رسول اﷲ ﷺ کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا تو اس کے چہرے پر فرعونیت کے قہر و غضب کے تاثر کے ساتھ حیرت و استعجاب کا تاثر بھی شامل تھا کہ یہ کون ہے جس نے اتنی بے باکی اور صاف گوئی سے اسے خط لکھاہے۔ وہ حیران تھا کہ کوئی انسان ایسا جرأتمند اور سرکش بھی ہو سکتا ہے ۔جس نے اس کے نام سے پہلے اپنا نام لکھا ہے۔ خسرو پرویز تو طرابلس سے لے کر پنجاب تک کا شہنشاہ اور خداوند عالم کہلاتا تھا۔ غصے سے اس کے ہونٹ کانپنے لگے کہ عرب کے ایک بوریا نشین نے اسے محض رئیسِ فارس لکھا ہے۔ وہ تو کہا کرتا تھا کہ قیصرِ روم اور خاقانِ چین مل کر بھی اس کی آنکھ سے آنکھ ملانے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ ایشیا اور یورپ کی بادشاہیاں متحد ہو جائیں تو بھی اس کے سامنے زبان نہیں کھول سکتیں۔

اس نے رسولﷺ کے پیامبر عبداﷲ ؓبن قذافہ کی طرف قہر بھری نظروں سے دیکھا ۔درباری یہی توقع رکھتے ہوں گے کہ اس پیامبر کے قتل کا حکم ملا کہ ملا۔ یہ توقع بھی ہوگی کہ اس عرب کو ذلیل و خوار کرکے اور اذیتیں دے دے کر مارا جائے گا۔ لیکن خسرو پرویز نے رسول کریم ﷺ کے خط کے پہلے دو ٹکڑے کیے ،پھر چار، پھر آٹھ، پھر وہ اس خط کو پھاڑتا ہی چلا گیا۔ آخر ا س نے یہ تمام ٹکڑے اپنی ہتھیلی پر رکھے اور زور سے پھونک مار کر انہیں اڑا دیا۔ ٹکڑے دربار میں بکھر گئے۔

درباری یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس فرعون نے جو انسانوں کی شہہ رگیں کٹوا کر اور ان سے خون کے فوارے پھوٹتے دیکھ کر لطف اندوز ہوتا تھا۔ عبداﷲؓ بن قذافہ کو جانے کی اجازت دے دی۔

عبداﷲؓ سینکڑوں میل کی مسافت طے کر کے مدینہ منورہ پہنچے اور رسول کریمﷺ کو بتایا کہ زرتشت کی عبادت کرنے والے خسرو پرویز نے رسول اﷲ ﷺ کے پیغامِ حق کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ فارس کی سلطنت اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی۔

عبداﷲ ؓبن قذافہ کو خسرو پرویز نے زندہ واپس جانے کی اجازت دے کر سب کو حیران کر دیا تھا۔ لیکن اس نے عبداﷲؓ بن قذافہ کے رخصت ہونے کے بعد ایک حکم دے کر سب کی حیرت رفع کر دی۔ اس نے حکم یہ دیا کہ یمن کے گورنر تک میرایہ حکم تیز رفتار قاصد کو بھیج کر پہنچا دیا جائے کہ مدینہ کے محمد )ﷺ(کو گرفتار کرکے میرے دربار میں پیش کرے کہ میرے اس غلام نے اتنی بڑی جسارت کی ہے۔ میں اسے عبرتناک سزا دوں گا۔

یمن کا گورنر ایک فارسی بازان تھا۔ اس تک قاصد حکم لے کر پہنچا تو بازان نے اپنا قاصد مدینہ رسول اﷲﷺ کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ حضورﷺ گرفتاری پیش کریں تاکہ خسرو پرویز کے حکم کے مطابق آپ کو مدائن بھیجا جائے۔

رسول اﷲﷺ یہ حکم سن کر مسکرائے اور قاصد سے فرمایا ۔’’امیرِ یمن بازان اور کسریٰ سے کہنا کہ اسلام مجھ سے پہلے مدائن پہنچ جائے گا۔‘‘

خسرو پرویز کی فرعونیت کی صرف ایک مثال کافی ہو گی۔ اس کے ایک بڑے ہی قابل اور تجربہ کار جرنیل کی بیوی عیسائی تھی ۔خود خسرو پرویز کی ایک بیوی جس کا نام شیریں تھا، عیسائی تھی۔ شیریں کا حسن بے مثال تھا اور وہ اس قدر چالاک عور ت تھی کہ خسرو پرویز جیسے فرعون اور درندے کو انگلیوں پر نچا لیتی تھی۔

خسرو پرویز نے بھرے دربار میں اپنے اس جرنیل کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے کیونکہ وہ عیسائی ہے۔

’’ایک بیوی تو آپ کی بھی عیسائی ہے ۔‘‘جرنیل نے خسرو پرویز سے کہا۔’’ کیا شیریں عیسائی نہیں؟آپ اسے کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟‘‘

’’یہیں اور اسی وقت اس کی کھال اتار لی جائے۔ ‘‘خسرو پرویز نے حکم دیا۔

جرنیل کو جکڑ کر دربار میں ہی اس کے کپڑے پھاڑ دیئے گئے اور دربار میں زندہ کھال اتار کر ہلاک کر دیا گیا۔

یہاں خسرو پرویز کی شہنشاہیت، طاقت اور سطوت کی ایک جھلک دکھانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو دنیا کا دوسرا خدا نہ کہتا تو کیوں نہ کہتا۔فارس کا پایہ تخت تو مدائن ہی تھا لیکن مدائن سے ساٹھ میل دور شمال کی طرف خسرو پرویز نے اپنی رہائش کیلئے ایک محل تعمیر کروایا تھا ۔اگر یہ محل زمانے کی دستبرد سے بچا رہتا تو اس کا شمار عجائباتِ عالم میں ہوتا۔

خسرو پرویز نے اس محل کانام قصرِ دستاگرد رکھا تھا۔ مولانا ظفر علی خان مرحوم نے دو مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس محل کو دیکھ کر جنت الفردوس کا گمان ہو تا تھا۔ اس کے چاروں طرف دور دور تک لہلہاتے سبزہ زار اور مرغزار تھے جن میں چکور، مور، شتر مرغ اور ہرن چگتے تھے ۔یہ وسیع و عریض محل چالیس ہزار ستونوں پر کھڑا تھا۔ جن پر سونے کا پانی چڑھا ہوا تھا۔ محل کے اوپر ایک ہزار برج تھے جو خالص سونے کے بنے ہوئے تھے۔

قصرِ دستاگرد میں نوسو ساٹھ ہاتھی، بیس ہزار اونٹ اور چھ ہزار اعلیٰ نسل کے گھوڑے زرق برق کپڑوں سے سجے ہوئے موجود رہتے تھے۔ محل کے دروازے پر رات دن چھ ہزار زریں کمر سر بازوں کا پہرہ رہتا تھا۔ محل کے اندر کی فضا مشک و عنبر سے مہکتی رہتی تھی۔ اس تاجدارِ عجم نے قصرِ دستاگرد میں تین ہزار نوخیز اور انتہائی حسین لڑکیاں رکھی ہوئی تھیں۔

کوئی انسان رتبے کے لحاظ سے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو تا جب خسرو پرویز کے دربار میں جاتا تو پہلے سجدہ کرتا پھر آداب بجا لاتاتھا۔

خسرو پرویز خدائی کا دعویٰ نہ کرتا تو کیوں نہ کرتا۔ لیکن وہ اس خدا کے وجود کو تو نہیں مٹاسکتا تھا جس کے ہاتھ میں ہر انسان کی عزت و ذلت ہے اور جو ہر فرعون کیلئے ایک موسیٰ پیدا کر دیا کرتا ہے۔ اس آتش پرست فرعون کے زوال کی داستان بڑی طویل اور عبرتناک ہے۔ ہم چونکہ داستان کوئی اور سنا رہے ہیں اس لیے اس فرعونِ عجم کا ذکر مختصر کرتے ہیں۔اس زمانے کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ خسرو پرویز کا جاہ و جلال اور اس کی جنگی قوت دیکھ کر سب کہتے تھے کہ ساری دنیا سلطنت ِفارس میں آجائے گی لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ خسرو پرویز جنت نظیر قصرِ دستاگرد سے چور دروازے سے بھاگا ۔اس کے ساتھ چھ ہزار پہرے د ار نہیں تھے۔ نو سو ساٹھ ہاتھی نہیں تھے ۔بیس ہزار اونٹ اور چھ ہزار گھوڑے نہیں تھے۔ نہ ا س کے ساتھ تین ہزار حسین لڑکیاں تھیں۔ اس کے ساتھ اپنی چہیتی ملکہ شیریں تھی، اور صرف دو کنیزیں تھیں۔

اس بے سروسامانی کے عالم میں وہ قصرِ دستاگرد سے نکلا اور ساٹھ میل چل کر مدائن پہنچا تو مخلوقِ خدا ا س کے راستے میں سجدہ ریز ہو گئی۔ خسرو پرویز کی جان میں جان آئی۔ اس کے قصرِ دستاگرد میں قیصرِروم ہرقل پہنچ گیا تھا۔ خسرو پرویز ایسا دل برداشتہ ہوا کہ فیصلہ کر لیا کہ تختِ فارس سے دستبردار ہو کر اپنے محبوب بیٹے مروازویہ کو تخت پر بٹھائے گا مگر اسے احساس تک نہ تھا کہ اس کی حسین ترین اور چہیتی ملکہ شیریں کا بھی ایک جوان بیٹا ہے۔ وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ شیریں اس کی زوجیت سے دستبردار ہو جائے گی۔ تخت و تاج سے دستبردار نہیں ہوگی۔

خسرو پرویز کا فرعونی دماغ بہت کچھ بھول گیا تھا اور یہ سوچ تو اس کے ذہن میں آئی ہی نہیں تھی کہ اس نے اﷲ کے رسولﷺ کے پیغام ِحق کی توہین کی تھی۔

شیریں نے اپنے طلسماتی حسن اور عیاری اور زبان کے جادو سے جس طرح خسرو پرویز کو رام کر رکھا تھا ۔اسی طرح اس نے امرائے سلطنت کو اپنی مٹھی میں لینا شروع کر دیا۔زروجواہرات کی اور کمسن حسیناؤں کی اس کے پاس کمی نہیں تھی۔ اس کا اپنا حسن سحر انگیز تھا۔ امراء اور جرنیل مسحور ہو ہو کر اس کے جال میں آتے گئے اور وہ ان سب کو اپنے بیٹے کے حق میں اور اپنے خاوند خسرو پرویز کے خلاف کرتی گئی۔

شیریں کے بیٹے کا نام شیرویہ تھا۔ اس کا یہی اعزاز کافی تھا کہ وہ ملکہ شیریں کا بیٹا تھا۔ اس نے فوج کو اس طرح اپنے ساتھ ملا لیا کہ وہ در پردہ فوج میں یہ خوشخبری پھیلا دی کہ شیرویہ تخت پر بیٹھے گا تو افسروں اور سپاہیوں کی تنخواہیں بڑھ جائیں گی اور مالِ غنیمت میں سے حصہ ملا کرے گا اور کئی اور مراعات بھی دی جائیں گی۔ عیسائیوں تک یہ خوشخبری پہنچائی گئی کہ انہیں مذہبی آزادی ملے گی اور انہیں درجۂ اول کی شہر یت دی جائے گی۔

خسرو پرویز اس سازش سے بے خبر تھا۔ اسے شک تک نہ ہوا کہ شیریں اس کی آستین کا سانپ بن گئی ہے۔ خسرو پرویز نے ابھی تخت سے دستبردار ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا ۔ایک روز شیرویہ نے باپ کو حکم دیا کہ وہ تخت سے دستبردار ہو جائے۔ خسرو پرویز نے حکم دیا کہ اس کے بیٹے شیرویہ کو قتل کر دیا جائے۔ لیکن اس کا حکم ایسا ہی تھا جیسے کسی نے ہوا میں تیر چلایا ہو۔ اس نے شیریں کو بلایا اور اسے بتایا کہ اس کا بیٹا پاگل ہو گیا ہے ۔اُسے سنبھالے۔

’’یہ میرے بس میں نہیں تاجدار!‘‘ شیریں نے عجیب سے تبسم سے کہا۔ ’’اسے فوج بھی نہیں سنبھال سکتی۔‘‘ اس نے خسرو پرویز کے کان میں کہا۔ ’’اس تخت پر میرا بیٹا بیٹھے گا ۔جرنیلوں کو حکم دے کر دیکھ لو‘ سب میرے بیٹے کے وفادار ہیں۔‘‘

خسرو پرویز غصے سے اٹھا اور جرنیلوں اور اُمراء کو طلب کرکے انہیں شیریں اور شیرویہ کے خلاف بڑے ظالمانہ حکم دیئے۔ لیکن امراء اور جرنیلوں کا رویہ بالکل سرد رہا۔ خسرو پرویز پر یہ ہیبت ناک انکشاف ہوا کہ معدودے چند آدمی اس کے ساتھ ہیں، جو ایک مؤرخ کے الفاظ میں آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ اسے مشورہ دیا گیا کہ وہ مدائن سے نکل جائے۔

’’میں رومیوں سے صلح کرکے اپنے اس بیٹے کو سرکشی کی سزا دوں گا۔‘‘ خسرو پرویز نے کہا ۔’’شیریں کو فریب کاری کی سزا دوں گا۔‘‘

شیرویہ اور شیریں کے کانوں تک یہ الفاظ پہنچے تو شیرویہ محافظ دستے کے گھوڑ سواروں کو ساتھ لے کر اپنے باپ کے پاس گیا۔ باپ کو کچھ دیر پہلے اطلاع مل گئی کہ اس کابیٹا کسی خطرناک ارادے سے اس کے پاس آرہا ہے۔ خسرو پرویز بھاگ نکلا لیکن شہر سے نہ نکل سکا ۔ایک غریب سے آدمی کی جھونپڑی میں جا چھپا ۔رسول اﷲﷺ کو حکم دینے والا اور جنت الفردوس جیسے قصرِ دستاگرد میں رہنے والا اور اپنے آپ کر خدا کہنے والا ایک تنگ و تاریک اور غلیظ جھونپڑی میں اس طرح چھپا کہ ا س کے اوپر بدبودار چیتھڑے اور گھاس ڈال دی گئی ۔

گھوڑ سوار فوجیوں نے سارے شہر میں گھوم کر اعلان کر دیا کہ خسرو پرویز جس گھر سے برآمد ہو گا اس گھر کو آگ لگا دی جائے گی اور گھر کے بچے سے بوڑھے تک کو زندہ جلا دیا جائے گا۔

اس حکم کے بعد کس میں اتنی ہمت تھی کہ خسرو پرویز کو اپنے گھر میں چھپائے رکھتا ۔ایک غریب سا آدمی ایک گھوڑ سوار کے پاس آیا اور منہ سے کچھ کہنے کے بجائے اپنی جھونپڑی کی طرف اشارہ کیا۔

فوجی جھونپڑی میں گئے اور فارس کے فرعون کو چیتھڑوں اور گھاس کے نیچے سے نکال کر باہر لے آئے اور اسے محل میں لے جاکر شیرویہ کے سامنے جا کھڑا کیا۔

’’اسے زنجیروں میں باندھ کر میدان میں لے چلو۔‘‘ شیرویہ نے حکم دیا۔’’ اس کے تمام بیٹوں کو پکڑ لاؤ۔‘‘

حکم کی تعمیل ہوئی۔ خسرو پرویز کو زنجیروں میں باندھ کر محل کے قریب ایک میدان میں لے گئے اور اس کے بیٹوں کو ایک ایک کرکے میدان میں لایا جانے لگا ۔یہ سب شیرویہ کے بھائی تھے جو مختلف بیویوں میں سے تھے۔ ان کی تعداد شیرویہ کو ملا کر انیس تھی۔

جب تمام بیٹوں کو لا چکے تو شیرویہ نے انہیں گنا ، تعداد اٹھارہ ہونی چاہیے تھی لیکن سترہ تھی۔

’’ایک کم ہے۔‘‘ شیرویہ نے کہا۔’’ ان میں یزدگرد نہیں ہے۔ اسے بھی لاؤ۔‘‘

بہت سے لوگوں نے محل کا کونہ کونہ دیکھ لیا۔ شہر میں اعلان کیا گیا کہ یزدگرد اور اس کی ماں کو پناہ دینے والے کے گھر کو آگ لگا کر گھر کے ہر فرد کو زندہ جلا دیا جائے گا لیکن اس ماں بیٹے کا کہیں سراغ نہ ملا۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ خسرو پرویز کا ایک دوست ساران بھی غائب ہے۔ اس وقت یزد گرد اپنی ماں کے ساتھ مدائن سے بہت دور پہنچ چکا تھا۔ ساران ان کے ساتھ تھا۔ ساران نے قبل از وقت بھانپ لیا تھا کہ شیرویہ اپنے کسی بھائی کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ وہ خسرو پرویز کے غائب ہوتے ہی یزد گرد اور اس کی ماں کو غریب سے کسانوں کے بھیس میں شہر سے نکال کر لے گیا تھا۔

’’ان سب کو ایک ایک کرکے قتل کر دو۔‘‘ شیرویہ نے حکم دیا۔’’ ان کے باپ کے سامنے لے جا کر قتل کرو۔‘‘

وہ کیا ہولناک منظر ہو گا۔ خسرو پرویز کے ایک بیٹے کو اس کے سامنے لے جاتے اور تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا۔ ان میں کمسن بچے بھی تھے۔ نو عمر لڑکے اور نوجوان بھی تھے اور ان میں وہ نوجوان مروازویہ بھی تھا جسے خسرو پرویز اپنی جگہ تخت نشین کرنا چاہتا تھا ۔اسے وہ اپنا سب سے پیارا بیٹا سمجھتا تھا ۔بھائیوں میں سب سے بڑا شیرویہ تھا۔ ان کی مائیں دور کھڑی چیخ چلّا رہی تھیں۔ ان میں سے جس کے بیٹے کو آگے لے کر جاتے تھے، اس کی ماں فریادیں کرتی آگے کو دوڑ پڑتی۔ فوجی اسے دھکے دیتے اور گھسیٹتے دور جا پھینکتے ۔ شیریں محل کے دریچے میں کھڑی یہ ساری کارروائی دیکھ رہی تھی ۔وہ واحد ماں تھی جس کے چہرے پر سکون اور اطمینان تھا۔

شیرویہ نے اپنے سترہ بھائیو ں کو قتل کروادیا اور اپنے باپ کے متعلق حکم دیا کہ اسے قید خانے میں سب سے زیادہ تنگ و تاریک اور گندی کوٹھڑی میں بند کر دیا جائے۔

خسرو پرویز نے اپنے بیٹے سے استدعا کی کہ اُسے آزاد کر دیا جائے تو وہ سلطنتِ فارس سے نکل جائے گا۔لیکن بیٹے کے دل میں رحم پیدا نہ ہو سکا۔ وہ اپنے تخت پر منڈلانے والے تمام خطرے ختم کر رہا تھا۔

’’میں تمہیں قید خانے میں زیادہ دن نہیں رہنے دوں گا۔‘‘ شیرویہ نے باپ سے کہا ۔’’جلدی رہا کروادوں گا۔‘‘

خسرو پرویز کو قید خانے میں ایک تاریک کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی شیرویہ نے ایک آدمی کو بلایا )تاریخ میں اس آدمی کا نام نہیں لکھا(شیرویہ نے اسے کہاکہ قید کے پانچویں دن وہ قید خانے میں جاکر خسرو پرویز کو قتل کر دے……اب شیرویہ سلطنتِ فارس کا شہنشاہ تھا۔

قید میں کسریٰ پرویز کی پانچویں شام تھی۔ وہ تاریک کوٹھڑی میں تیم فاقہ کشی کی حالت میں پڑا تھا۔ کوٹھڑی کا دروازہ کھلا۔ خسرو پرویز نے پوچھا ۔’’کون ہو؟‘‘

’’میں کسریٰ فارس کو رہا کرنے آیا ہوں۔‘‘ اس آدمی نے کہا۔’’ اٹھو اور اس اذیت ناک زندگی سے آزاد ہو جاؤ۔‘‘

خسرو پرویز خوشی خوشی اٹھا۔ وہ دروازے کی طرف مڑا ہی تھا کہ اس آدمی کا خنجر خسرو پرویز کے دل میں اترگیا۔ خنجر باہر نکلا اور ایک بار پھر دل میں اتر گیا۔ خسرو پرویز اذیت ناک زندگی سے آزاد ہو گیا۔ اس کے بیٹے نے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا۔

شیرویہ خسرو پرویز کا ہی بیٹا تھا اور وہ شیریں جیسی عیار حسینہ کے بطن سے پیدا ہو اتھا۔ ناگن کا بیٹا سانپ ہی ہوتا ہے۔ اسے خسرو پرویز کے قاتل نے اس امید پر بڑی خوشی سے آکر بتایا کہ وہ اس کے حکم کی تعمیل کر آیا ہے کہ اسے انعام ملے گا۔

’’تم نے میرے باپ کو قتل کیا ہے۔‘‘ شیرویہ نے کہا۔

’’ہاں تاجدارِ فارس!‘‘اس آدمی نے کہا۔’’ آپ کے حکم کی تعمیل میں ذرا سی بھی تاخیرنہیں ہوئی۔‘‘

’’اپنے باپ کے قتل کا انتقام لینا میرا فرض ہے۔‘‘ شیرویہ نے کہا۔’’ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘

اور شیر ویہ نے تلوار نکال کر اس آدمی کو قتل کر دیا۔

متعدد مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خسرو پرویز کے دادا نوشیرواں عادل نے خواب میں دیکھا کہ اس کے محل کے چودہ کنگرے گر پڑے ہیں ۔یہ خواب یوں سچ ثابت ہوا کہ شیرویہ کے بعد صرف نو سال کے عرسے میں مدائن کے تخت پر بارہ تاجدار بیٹھے اور قتل ہوئے۔ یزدگرد چودھواں بادشاہ تھا جسے اب ساران جاکر لے آیا تھا اور پوران دخت اور رستم نے اس کی رسم تاجپوشی بھی ادا کر دی تھی۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔