ہفتہ، 2 مئی، 2015

2داستان مجاہد قسط نمبر

0 comments
)۳)

ان بچوں کی تعلیم و تربیت صابرہ کی زندگی کی تمام دلچسپیوں کا مرکز تھی۔ اس تنہائی کے باوجود جو ایک عورت کو خاوند کی موت کے بعد محسوس ہوا کرتی ہے، صابرہ کا اجڑا ہوا گھر اس کے لیے ایک پر رونق شہر سے کم نہ تھا۔
رات کے وقت جب وہ عشاء کی نماز سے فارغ ہوتی تو عبد اللہ، عذرا اور نعیم اس کے قریب بیٹھ کر کہانی سنانے کا مطالبہ کرتے۔ صابرہ انہیں کفر و اسلام کی ابتدائی جنگوں کے واقعات سناتی اور رسول بر حقﷺ کے حالات بتاتی۔
ان بچوں کی بے فکری کا زمانہ گزرتا گیا۔صابرہ کی تربیت کے باعث ان کے دلوں میں سپاہیانہ زندگی کے تمام خصائص روز بروز ترقی کر رہے تھے۔عبد اللہ عمر میں جس قدر بڑا تھا، عذرا اور نعیم کے مقابلے میں اتنا ہی سنجیدہ اور متین تھا۔ وہ تیرہ سال کی عمر میں قرآن پاک اور چند ابتدائی کتابیں ختم کر چکا تھا۔ نعیم ایک تو کم عمر ہونے کی بناء پر اور دوسرے کھیل کود میں زیادہ حصہ لینے کی وجہ سے پڑھائی میں عبد اللہ سے پیچھے تھا۔ اس کی شوخی اور چلبلا پن تمام بستی میں مشہور تھا۔ وہ اونچے سے اونچے درخت پر چڑھ سکتا تھا اور تند سے تند گھوڑے پر سواری کرنے کا عادی تھا۔ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سواری کرتے ہوئے اس نے کئی بار گر کر چوٹیں کھائیں۔ لیکن وہ ہر بار ہنستا اور خطرے کے مقابلے کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ جرات لے کر اٹھتا۔ تیر اندازی میں بھی اس نے اتنی مہارت پیدا کر لی تھی کہ گاؤں میں بڑی عمر کے لڑکے بھی اس کا لوہا مانتے تھے۔
ایک دن عبد اللہ صابرہ کے سامنے بیٹھا سبق سنا رہا تھا اور نعیم تیر کمان ہاتھ میں لیے مکان کی چھت پر کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا
صابرہ نے آواز دی۔’’نعیم ادھر آؤ! آج تم نے سبق یاد نہیں کیا؟‘‘
’’آتا ہوں امی۔‘‘
صابرہ پھر عبد اللہ کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ اچانک ایک اڑتا ہوا کوا آیا۔ نعیم نے جلدی سے نشانہ لیا۔ کوا قلابازیاں کھاتا ہوا صابرہ کے قریب آ گرا۔ صابرہ نے گھبرا کر اوپر دیکھا۔ نعیم کمان ہاتھ میں لیے فاتحانہ انداز میں مسکرا رہا تھا۔ صابرہ نے اپنی مسکراہٹ کو چھپاتے ہوئے کہا۔’’بہت نالائق ہو تم!‘‘
’’امی! آج بھائی نے کہا تھا کہ تم اڑتے ہوئے پرندے کو نشانہ نہیں بنا سکتے!‘‘
’’اچھا، بہت بہادر ہو تم، آؤ، اب سبق سناؤ!‘‘
چودہ سال کی عمر میں عبد اللہ علوم دینی اور فنون سپہ گری کی تکمیل کے لیے بصرہ کے ایک مکتب میں داخل ہونے کے لیے رخصت ہوا اور عذرا کی دنیا کی آدھی خوشی اور ماں کے محبت بھرے دل کا ایک ٹکڑا ساتھ لیتا گیا۔ ان تینوں بچوں کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا ضروری نہیں کہ عذرا کو نعیم اور عبد اللہ سے بے حد محبت تھی۔ لیکن یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان دونوں میں سے کسی کو زیادہ چاہتی تھی۔اس کے معصوم دل پر کون زیادہ گہرے نقوش پیدا کر چکا تھا۔ اس کی آنکھیں کس کو بار بار دیکھنے کے لیے بے قرار رہتیں اور اس کے کانوں میں کس کی آواز ایک نغمہ بن کر گونجتی تھی۔
بظاہر خود عذرا بھی اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے لیے نعیم اور عبد اللہ ایک ہی وجود کے دو مختلف نام تھے اور نعیم کے بغیر عبداللہ اور عبد اللہ کے بغیر نعیم کا تصور اس کے لیے نا ممکن تھا۔ اس نے اپنے دل میں کبھی ان دونوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ان دونوں کی موجودگی میں بھلا اسے کسی گہری سوچ میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ہنستا ہوا نظر آتا تو وہ اس کی ہنسی میں شریک ہو جاتی اور جب کسی کو سنجیدہ دیکھتی تو فوراً سنجیدہ ہو جاتی۔
عبد اللہ کے بصرہ چلے جانے کے بعد اسے ان باتوں کے متعلق سوچنے کا موقع ملا۔ اسے معلوم تھا کہ کچھ عرصہ بعد نعیم بھی وہاں چلا جائے گا۔ لیکن نعیم سے جدائی کا تصور بھیا سے عبد اللہ کی جدائی سے زیادہ صبر آزما محسوس ہوتا تھا۔ عبد اللہ کا عمر میں بڑا ہونا، اس کی متانت و سنجیدگی عذرا کے دل میں اس کی محبت کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت اور بلندی کا احساس پیدا کر چکی تھی۔ وہ محبت سے زیادہ اس کا احترام کرتی تھی۔ اسے نعیم کی طرح بھائی جان کہہ کر پکارتی اور اپنے سے ارفع اور اعلیٰ سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ میل جول اور باتوں میں قدرے تکلف سے کام لیتی۔ نعیم کی عظمت بھی اس کے دل میں کم نہ تھی۔ لیکن اس کے ساتھ گہرے لگاؤ نے اسے تکلفات سے بے نیاز کر دیا تھا۔ اس کی دنیا میں عبد اللہ ایک سورج کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس کی طرف ہم اس کی خوشنمائی کے باوجود آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے اور اس کے قریب جانے کے خیال سے گھبراتے ہیں لیکن نعیم کی ہر بات اسے اپنے منہ سے نکلی ہوئی معلوم ہوتی۔
عبداللہ کے چلے جانے کے بعد نعیم کی عادات میں ایک عجیب تغیر رونما ہوا۔ شاید اس خیال سے کہ صابرہ عبد اللہ کی جدائی بہت زیادہ محسوس نہ کرے یا اس کی وہ بھی بصرہ کے مدرسے میں داخل ہونے کے لیے بے تاب تھا۔ بہر حال وہ بچپن کی تمام عادات چھوڑ کر پڑھائی میں دلچسپی لینے لگا۔ اس نے ایک دن عابدہ سے سوال کیا ’’امی! آپ مجھے بصرہ کب بھیجیں گی؟‘‘
ماں نے جواب دیا ’’بیٹا جب تک تم اپنی ابتدائی تعلیم ختم نہیں کر لیتے۔ میں تمہیں وہاں بھیج کر لوگوں سے یہ کہلوانا پسند نہیں کرتی کہ عبد اللہ کا بھائی بے علم ہے۔ گھوڑے پر چڑھنے اور تیر چلانے کے سوا کچھ نہیں جانتا۔‘‘
ماں کے الفاظ نعیم کے دل میں نشتر کی طرح چبھے۔ اس نے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ’’امی ! مجھے کوئی جاہل کہنے کی جرات نہیں کر ے گا۔ میں تمام کتابیں اسی ختم کر لوں گا۔‘‘
صابرہ نے پیار سے نعیم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
’’بیٹا! تمہارے لیے کوئی بات مشکل نہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ تم کچھ کرتے نہیں !‘‘
’’ضرور کروں گا۔ امی اب آپ کو مجھ سے یہ شکایت نہ رہے گی۔‘‘

)۴)

ماہ رمضان کی چھٹیوں میں عبد اللہ گھر آیا۔ وہ سپاہیانہ لباس پہنے ہوئے تھا۔ بستی کے لڑکے اسے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ نعیم اسے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سماتا۔ عذرا اسے دور ہی دور سے دیکھ کر شرما جاتی اور صابرہ بار بار اس کی پیشانی چومتی۔ نعیم نے عبداللہ سے مدرسے کے متعلق بہت سے سوالات کیے۔ عبد اللہ نے اسے بتایا کہ وہاں پڑھائی کے علاوہ زیادہ فنون جنگ کی تحصیل میں صرف ہوتا ہے۔ نیزہ بازی، تیغ زنی اور تیر اندازی سکھائی جاتی ہے۔ تیز اندازی کے متعلق سن کر نعیم کا دل خوشی سے اچھلنے لگا۔
’’بھائی جان مجھے بھی ساتھ لے چلو۔‘‘ اس نے ملتجی ہو کر کہا!
’’تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔ وہاں تمام لڑکے تم سے بہت بڑے ہیں۔ تمہیں کچھ مدت صبر کرنا پڑے گا۔‘‘
نعیم نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سوال کیا۔ ’’بھائی جان! مدرسے میں آپ سب لڑکوں پر سبقت لے جاتے ہوں گے؟‘‘
عبد اللہ نے جواب دیا۔
’’نہیں بصرہ کا ایک لڑکا میرا مد مقابل ہے۔ اس کا نام محمد بن قاسم ہے۔ وہ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں تمام مدرسے کے لڑکوں سے اچھا ہے۔ تیغ زنی میں ہم دونوں برابر ہیں۔ اس سے کبھی کبھی تمہارا ذکر کرتا ہوں۔ وہ تمہاری باتیں سن کر بہت ہنسا کرتا ہے۔‘‘
’’ہنسا کرتا ہے؟‘‘ نعیم نے تیوری چڑھا کر کہا۔ ’’ میں اسے جا کر بتاؤں گا کہ میں ایسا نہیں ہوں کہ لوگ مجھ پر ہنسا کریں۔‘‘
عبد اللہ نے نعیم کو برگشتہ دیکھ کر گلے لگا لیا اور اسے خوش کرنے کی کوشش کی۔
رات کے وقت عبد اللہ لباس تبدیل کر کے سو گیا۔ نعیم اس کے قریب بستر پر پڑا کافی دیر تک جاگتا رہا۔ جب نیند آئی تو اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ بصرہ کے مدرسے کے طلبا کے ساتھ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں مصروف ہے۔ وہ علی الصباح سب سے پہلے اٹھا۔ جلدی جلدی عبد اللہ کی وردی پہنی اور عذرا کو آ جگایا۔
’’عذرا دیکھو! مجھے یہ لباس کیسا لگتا ہے؟‘‘
عذرا اٹھ کر بیٹھ گئی۔ نعیم کو سر سے پاؤں تک دیکھا، مسکرائی اور بولی۔ ’’تم اس لباس میں بہت بھلے معلوم ہوتے ہو۔‘‘
’’عذرا میں بھی وہاں جاؤں گا اور وہاں سے یہ لباس پہن کر آؤں گا!‘‘
عذرا کے چہرے پر اداسی چھا گئی۔ ’’تم وہاں کب جاؤ گے؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’عذرا میں امی جان سے بہت جلد اجازت لے لوں گا۔‘‘


مکتب




۳۵ء سے ۷۵ء تک کی اسلامی تاریخ چند ایسے خونیں حادثات سے پر ہے جن کے متعلق گذشتہ صدیوں میں بہت آنسو بہائے جا چکے ہیں اور جن کی یاد مستقبل میں بھی اشکوں اور آہوں کے بغیر تازہ نہ کی جا سکے گی۔ وہ تلوار جو خدا کے نام پر بلند ہوتی تھی، اس زمانے میں خدا کا نام لینے والوں کی گلے کاٹتی رہی۔ یہ خطرہ رو ز بروز ترقی کر رہا تھا کہ مسلمان چند سال کے عرصے میں جس سرعت کے ساتھ اطراف عالم میں چھا گئے تھے، کہیں اتنی ہی تیزی کے ساتھ سمٹ کر جزیرہ نمائے عرب میں محبوس نہ ہو جائیں۔ اس زمانے میں کوفہ اور بصرہ طرح طرح کی سازشوں کے مرکز بنے ہوئے تھے۔ مسلمان اپنی ابتدائی روایات کو بھول کر جذبہ جہاد سے منہ پھیر چکے تھے۔ ان کے پیش نظر ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے جدوجہد اور اپنی واجب اور نا واجب باتوں پر اڑ بیٹھنے کے سوا اور کوئی نظریہ نہ تھا۔ مسلمانوں کو پھر ایک مرکز پر لانے کے لیے ایک آہنی ہاتھ کی ضرورت تھی۔
صحرائے عرب میں ایک آتش فشاں پہاڑ پھٹا اور عرب و عجم میں بغاوتوں کی سلگتی ہوئی چنگاریاں اس آتش فشاں پہاڑ کے مہیب شعلوں کی لپیٹ میں آ کر نا بود ہو گئیں۔ یہ آتش فشاں پہاڑ حجاج بن یوسف تھا۔ بے حد سخت گیر، بے رحم اور سفاک لیکن قدرت صحرائے عرب کی اندرونی جنگوں کو ختم کر کے مسلمانوں کے تند گھوڑوں کا رخ مشرق و مغرب کی رزم گاہوں کی طرف پھیر دینے کا کا م اسی سے لینا چاہتی تھی۔
حجاج بن یوسف کو مسلمانوں کا دوست بھی کہا جا سکتا ہے اور بدترین دشمن بھی۔ بہترین دوست اس لیے کہ اس نے ایک پر امن فضا پیدا کر کے پیش قدمی کے لیے تین زبردست راستے صاف کیے۔ ایک راستہ وہ تھا جو مسلمانوں کی فوج کو فرغانہ اور کاشغر تک لے گیا۔ دوسرا راستہ وہ جو مسلمانوں کے سمند اقبال کو مراکش، سپین اور فرانس کی حدود تک لے گیا۔ تیسرا راستہ وہ تھا جس نے محمد بن قاسم کی مٹھی بھر فوج کو سند ھ تک پہنچا دیا۔
بدترین دشمن اس لیے کہ اس کی خون آشام تلوار جو شرپسندوں اور مفسدوں کی سرکوبی کے لیے بے نیام ہوئی تھی، بسا اوقات اپنی حدود سے گزر کر بے گناہ کی گردن تک بھی جا پہنچتی تھی۔ اگر حجاج بن یوسف کا دامن مظلوموں کے خون سے داغدار نہ ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ تاریخ کے اس زمانے کے ایک عظیم الشان انسان کی حیثیت سے نہ دیکھتی۔ وہ ایک ایسا بگولہ تھا جو کانٹے دار جھاڑیوں کے ساتھ گلشن اسلام کے کئی مہکتے ہوئے پھول اور سر سبز ٹہنیاں بھی اڑا کر لے گیا۔
بہرحال اس کے عہد کا ایک بے حد المناک اور دوسرا بے حد خوشگوار تھا۔وہ اس آندھی کی طرح تھا جس کی تیزی بعض سر سبز درختوں کو جڑ سے اکھاڑ ڈالتی ہے لیکن جس کی آغوش میں چھپے ہوئے بادل برس کر ہزاروں سوکھی ہوئی کھیتیوں کو سرسبز و شاداب بناتے ہیں۔
۵۷ء میں صحرائے عرب کی خانہ جنگیاں ختم ہو گئیں۔ مسلمان پھر ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر اٹھے۔ اس زمانے میں حجاج بن یوسف کے نام کے ساتھ زید بن عامر کے نام کا چرچا ہونے لگا۔ زید بن عامر کی عمر اسی سال تھی۔ جوانی کے عالم میں وہ ان شاہسواروں کے ہم رکاب رہ چکا تھا جو ایران کے کسریٰ اور شام و فلسطین میں قیصر کی سلطنت کو پائمال کر چکے تھے۔ جب بڑھاپے کی کمزوری نے تلوار اٹھانے سے انکار کر دیا تو اس نے ایران کے ایک صوبہ میں قاضی کا عہدہ قبول کر لیا۔ جب عرب میں شورش برپا ہوئی تو ابن عامر کوفہ پہنچا اور اپنی تبلیغ سے وہاں کے حالات سدھارنے کی کوشش کرنے لگا لیکن اس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔‘‘ کوفہ کے لوگوں کی بے اعتنائی دیکھ کر ابن عامر بصرہ پہنچا لیکن وہاں کے حالات بھی کوفہ سے کچھ مختلف نہ تھے۔ فارغ البال اور شرپسند لوگوں نے اس کی طرف توجہ تک نہ کی۔ نوجوانوں اور بوڑھوں سے مایوس ہو کر ابن عامر نے اپنی تمام امیدیں کم سن بچوں کے ساتھ وابستہ کر دیں اور اپنی تمام کوششوں سے ان کی تعلیم و تربیت کی طرف مبذول کر دیں۔ا س نے شہر کے باہر ایک مدرسے کی بنیاد رکھی۔ جب بصرہ میں امن قائم ہوا تو وہاں کے چیدہ چیدہ لوگوں نے ابن عامر کی حوصلہ افزائی کی۔ مدرسہ میں طلباء کو دینی کتب پڑھانے کے علاوہ جنگی فنون کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ حجاج بن یوسف اس بے لوث خدمت سے متاثر ہوا اور مدرسے کے تمام اخراجات اپنے ذمے لے لیے۔ طلبا ء کو جنگ اور شاہسواری وغیرہ میں پوری مہارت دلانے کے لیے بہترین نسل کے گھوڑے اور نئے نئے اسلحہ جات مہیا کیے اور گھوڑوں کے مکتب کے پاس ہی ایک شاندار اصطبل تیار کرا دیا۔
طلباء ہر شام مدرسہ کے قریب ایک وسیع میدان میں جمع ہو جاتے۔ وہاں انہیں عملی طور پر فوجی تعلیم دی جاتی۔ شہر کے لوگ شام کے وقت اس میدان کے ارد گرد جمع ہو کر طلباء کی تیغ زنی، نیزہ بازی اور شاہسواری کے نئے نئے کرتب دیکھا کرتے۔
سعید نے جب اس مدرسے کی شہرت سنی تو صابرہ کو خط لکھ کر مشورہ دیا کہ عبد اللہ کو اس مدرسے میں بھیج دیا جائے۔ عبد اللہ اس ماحول میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ وہ جہاں تعلیم میں اپنے بہت سے ساتھیوں کے لئے قابل رشک تھا وہاں فنون سپہ گری میں بھی ایک امتیازی حیثیت حاصل کر چکا تھا۔
عبد اللہ کو اس شہر میں آئے ابھی دو سال ہوئے تھے کہ بصرہ کے بچے اور بوڑھے اس کے نام سے واقف ہو گئے۔ ابن عامر کی نگاہوں سے بھی اس ہونہار شاگرد کے جوہر پوشیدہ نہ تھے۔

)۲)

ایک روز دوپہر کے وقت ایک نو عمر لڑکا گھوڑے پر سوار شہر میں داخل ہوا۔ اس نووارد کے ہاتھ میں نیزہ اور دوسرے میں گھوڑے کی باگ تھی۔ کمر کے ساتھ تلوار لٹک رہی تھی۔ میں حمائل اور پیٹھ پر ترکش بندھا ہوا تھا۔ کمان زین کے پچھلے حصے کے ساتھ بندھی ہوئی تھی، اس کی تلوار اس کے قد و قامت کے تناسب سے بہت بڑی تھی۔ کم سن سوار گھوڑے پر اکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ ہر راہگیر اسے گھور گھور کر دیکھتا اور مسکرا دیتا اور بعض ہنس بھی پڑتے۔ اس کے ہم عمر لڑکے اسے ایک دل لگی سمجھ کر اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور تھوڑی دیر میں اس کے آگے پیچھے ایک اچھا خاصا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ لڑکوں نے اس کے لیے آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کا راستہ روک لیا۔ ایک لڑکے نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ’’بدو‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور تمام بدو بدو کہہ کر چلانے لگے، دوسرے نے ایک کنکر اٹھا کر اس کی طرف پھینکا۔ اب تمام لڑکوں نے کنکر پھینکنے شروع کر دیے۔ ایک من چلے نے جو اس گروہ کا سرغنہ معلوم ہوتا تھا، آگے بڑھ کر اس کا نیزہ چھیننا چاہا لیکن نووارد نے نیزہ مضبوطی سے تھامے رکھا اور اور گھوڑے کی باگ کھینچ کر ایڑ لگا دی۔ گھوڑے کا سیخ پا ہونا تھا کہ تمام لڑکے ادھر ادھر ہٹ گئے۔ نووارد نے ٹولی کے رہنما کی طرف نیزہ بڑھا کر گھوڑا اس کے پیچھے لگا دیا۔ وہ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑا ہوا۔ نووارد نے ہلکی رفتار سے اس کا تعاقب کیا۔ باقی لڑکے پیچھے پیچھے بھاگتے آ  رہے تھے۔ چند عمر رسیدہ لوگ بھی یہ منظر دیکھ کر اس جلوس میں شامل ہو گئے۔ آگے بھاگنے والے لڑکے کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا اور وہ منہ کے بل گر پڑا۔ نووارد نے گھوڑے کی باگ تھام لی اور پیچھے آنے والوں کی طرف مڑ کر دیکھا اور وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑے ہو گئے۔
اس گروہ میں سے مالک بن یوسف ایک ادھیڑ عمر کا آدمی آگے بڑھا۔ اس کا قد پست اور بدن چھریرا تھا۔ سر پر ایک بہت بڑا عمامہ تھا اور اوپر کے دانت کچھ اس حد تک باہر نکلے ہوئے تھے کہ وہ مسکراتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر نووارد سے سوال کیا:
’’تم کون ہو؟‘‘
’’مجاہد‘‘۔ کم سن لڑکے نے اکڑ کر جواب دیا۔
’’بہت اچھا نام ہے۔ تم بہت بہادر ہو۔‘‘
’’میرا نام نعیم ہے۔‘‘
’’تو تمہارا نام مجاہد نہیں ؟‘‘
’’نہیں میرا نام نعیم ہے۔‘‘
’’تم کہاں جاؤ گے؟‘‘ مالک نے سوال کیا۔
’’ابن عامر کے مکتب میں، وہاں میرا بھائی پڑھتا ہے۔‘‘
’’وہ لوگ اس وقت اکھاڑے میں ہوں گے۔ چلو میں بھی وہیں جا رہا ہوں۔‘‘
نعیم مالک کے ساتھ چل دیا۔ چند لڑکے تھوڑی دور ساتھ دے کر مڑ گئے اور کچھ نعیم کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔
نعیم نے اپنے رہنما سے سوال کیا۔ ’’اکھاڑے میں تیر اندازی بھی ہوتی ہے؟‘‘
’’ہاں۔ تم تیر چلانا جانتے ہو؟‘‘
’’ہاں میں اڑتے ہوئے پرندے کو گرا لیتا ہوں۔‘‘
مالک نے پیچھے مڑ کر نعیم کی طرف دیکھا۔ نعیم کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔ اکھاڑے میں بہت سے لوگ الگ الگ ٹولیوں میں کھڑے طلباء کی تیر اندازی، تیغ زنی اور نیزہ بازی دیکھ رہے تھے۔مالک نے وہاں پہنچ کر نعیم سے کہا:
’’تمہارا بھائی یہیں ہو گا۔ تم کھیل ختم ہونے سے پہلے اس سے نہیں مل سکو گے۔
فی الحال یہ تماشا دیکھو!‘‘
نعیم نے کہا۔ میں تیر اندازی دیکھوں گا۔‘‘
مالک اسے تیر اندازوں کے اکھاڑے کی طرف لے گیا اور دونوں تماشائیوں کی صف میں جا کھڑے ہوئے۔
اکھاڑے میں ایک کونے پر لکڑی کا ایک تختہ نصب تھا جس کے درمیان ایک سیاہ نشان تھا۔لڑکے باری باری اس پر نشانہ لگاتے۔ نعیم دیر تک کھڑا دیکھتا رہا۔ اکثر تیر تختے پر جا کر لگتے لیکن سیاہ نشان پر ایک طالب علم کے سوا کسی کا تیر نہ لگا۔
نعیم نے مالک سے پوچھا۔ ’’وہ کون ہے۔ اس کا نشانہ بہت اچھا ہے؟‘‘
مالک نے جواب دیا۔ ’’وہ حجاج بن یوسف کا بھتیجا محمد بن قاسم ہے۔‘‘
’’محمد بن قاسم!!‘‘
’’ہاں، تم اسے جانتے ہو؟‘‘
’’ہاں، وہ میرے بھائی کا دوست ہے۔ بھائی جان اس کے نشانے کی بہت تعریف کرتے ہیں لیکن یہ نشاندہی کوئی مشکل تو نہیں۔‘‘
’’مشکل کیا ہے؟ یہ تو شاید میں بھی لگا سکوں۔ ذرا مجھے اپنی کمان تو دینا۔ حجاج کا بھتیجا کیا خیال کرے گا کہ اب دنیا میں کوئی تیر انداز نہیں رہا۔‘‘
یہ کہہ اس نے نعیم کے گھوڑے کی زین سے کمان کھولی۔ نعیم نے اسے ترکش سے تیر  لٹکال کر دیا۔ مالک نے آگے بڑھ کر شست باندھی۔ لوگ اس کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے۔ مالک نے کانپتے ہاتھوں سے تیرا چھوڑا جو ہدف کی طرف جانے کی بجائے چند قدم کے فاصلے پر زمین میں دھنس گیا۔ تماشائیوں نے ایک پر زور قہقہہ لگایا۔ مالک کھسیانا ہو کر واپس ہوا اور کمان نعیم کو دے دی۔ محمد بن قاسم ہنستا ہوا آگے بڑھا۔ تیر زمین سے کھینچ کر نکالا اور آگے بڑھ کر مالک کو پیش کرتے ہوئے کہا:
’’آپ ایک بار اور کوشش کریں !‘‘
مالک کے چہرے پر پسینہ آگیا۔ اس نے بدحواسی میں محمد بن قاسم سے تیر لے کر نعیم کی طرف بڑھا دیا۔ مالک کی اس حرکت سے لوگوں کی توجہ نعیم کی طرف مبذول ہو گئی اور وہ یکے بعد دیگرے کھسک کھسک کر نعیم کی طرف آنے لگے۔ محمد بن قاسم بدستور ہنستا ہوا آگے بڑھا اور نعیم کو مخاطب کر کے بولا۔’’آپ بھی شوق فرمائیے!‘‘ لوگ پھر ہنسنے لگے۔
نعیم اس کی طنز اور لوگوں کی ہنسی برداشت نہ کر سکا۔ اس نے جھٹ نیزہ نیچے گاڑ دیا اور کمان میں تیر چڑھا کر چھوڑ دیا۔ تیر ہدف کے سیاہ نشان کے عین درمیان میں جا کر پیوست ہو گیا۔ مجمع پر ایک لمحہ کے لیے سکوت طاری ہو گیا۔ اور پھر ایک شور بلند ہوا۔
نعیم نے ترکش سے دوسرا تیر نکالا۔ تمام لوگ اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر اس کے گرد جمع ہو گئے۔ اس کا دوسرا تیر بھی عین نشانے پر لگا۔ چاروں طرف سے مرحبا مرحبا کی صدا بلند ہوئی۔ نعیم نے مجمع پر ایک نگاہ دوڑائی اور دیکھا کہ تمام لوگوں کی نگاہیں اس پر عقیدت کے پھول برسا رہی ہیں۔ محمد بن قاسم مسکراتا ہوا آگے بڑھا اور نعیم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولا:
’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘
’’مجھے نعیم کہتے ہیں۔‘‘
’’نعیم، نعیم بن؟‘‘
’’نعیم بن عبد الرحمن۔‘‘
’’تم عبد اللہ کے بھائی ہو؟‘‘
’’ہاں !‘‘
’’یہاں کب آئے؟‘‘
’’ابھی۔‘‘
’’عبداللہ سے نہیں ملے؟‘‘
’’ابھی نہیں۔‘‘
’’تمہارا بھائی نیزہ بازی یا شمشیر زنی کی مشق کر رہا ہو گا۔ تم تلوار چلانا جانتے ہو؟‘‘
’’میں بستی میں سیکھا کرتا تھا۔‘‘
’’تمہاری تیر اندازی دیکھ کر میں محسوس کرتا ہوں کہ تم تلوار چلانے میں بھی کافی مہارت حاصل کر چکے ہو گا۔ آج ایک لڑکے کے ساتھ تمہارا مقابلہ ہو گا!‘‘
مقابلے کا لفظ سن کر نعیم کی رگوں میں خون کا دور تیز ہو گیا۔ اس نے پوچھا:
’’کتنا بڑا ہے وہ؟‘‘
’’تم سے کوئی زیادہ بڑا نہیں۔ اگر پھرتی سے کام لو گے تو اس سے جیت جانا تمہارے لیے کوئی بات نہیں۔ ہاں تمہاری تلوار ذرا بھاری ہے۔ زرہ بھی بہت ڈھیلی ہے۔ میں ابھی اس کا انتظام کیے دیتا ہوں۔ تم گھوڑے سے اترو!‘‘
محمد بن قاسم نے ایک شخص کو اپنی زرہ، خود اور تلوار لانے کے لیے کہا:

)۳)

تھوڑی دیر میں نعیم ایک نئی زرہ پہنے اور ہاتھ میں ایک ہلکی سی تلوار لیے تماشائیوں کی صف میں کھڑا ابن عامر کے شاگردوں کو تیغ زنی کی مشق کرتے دیکھ رہا تھا۔ اس کے سر پر یونانی وضع کے خود نے اس کا چہرہ ٹھوڑی تک چھپا رکھا تھا۔ اس لیے ان لوگوں کے سوا جواس کی تیر اندازی سے متاثر ہو کر اس کے ساتھ چلے آئے تھے، کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ کوئی اجنبی ہے۔
ابن عامر تماشائیوں کے گروہ سے الگ میدان میں کھڑا اپنے شاگردوں کو ہدایات دے رہا تھا۔ ایک لڑکے کے مقابلے کے لیے یکے بعد دیگرے چند لڑکے میدان میں نکلے لیکن اس کے سامنے کسی کی پیش نہ چلی۔ وہ اپنے ہر نئے مقابل کو کسی نہ کسی داؤ میں لا کر ہار منوا لیتا۔ بالآخر ابن عامر نے محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور کہا ’’محمد! تم تیار نہیں ہوئے؟‘‘
محمد بن قاسم نے آگے بڑھ کر دبی زبان میں ابن عامر سے کچھ کہا۔
بن عامر مسکراتا ہوا نعیم کی طرف آیا اور اس کے کندھے پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔’’تم عبد اللہ کے بھائی ہو؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’ اس لڑکے سے مقابلہ کرو گے؟‘‘
’’جی مجھے اتنی زیادہ مشق نہیں اور پھر وہ مجھ سے بڑا بھی ہے۔‘‘
’’کوئی حرج نہیں۔‘‘
لیکن میرا بھائی کہاں ہے؟‘‘
’’وہ بھی یہیں ہے۔ تمہیں اس سے ملائیں گے۔ پہلے اس کے ساتھ مقابلہ کر کے دکھاؤ!‘‘
نعیم جھجکتا ہوا میدان میں آیا۔ تماشائی جو پہلے خاموش کھڑے تھے ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے۔
دو تلواریں آپس میں ٹکرائیں اور ان کی جھنکار آہستہ آہستہ بلند ہونے لگی۔ کچھ دیر نعیم کا مد مقابل اسے کم سن سمجھ کر فقط اس کے وار روکتا رہا لیکن نعیم نے اچانک پینترا بدلا اور اس قدر تیزی کے ساتھ وار کیا کہ وہ اس غیر متوقع وار کو بروقت نہ روک سکا اور نعیم کی تلوار اس کی تلوار پر سے پھسلتی ہوئی اس کے خود سے ٹکرا گئی۔ تماشائیوں نے تحسین و آفرین کے نعرے بلند کیے۔
نعیم کے مد مقابل کے لیے یہ بالکل نئی بات تھی۔ اس نے غصے کی حالت میں چند وار شدت کے ساتھ کیے اور نعیم کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا۔ چند قدم پیچھے ہٹنے کے بعد نعیم کا پاؤں ڈگمگایا اور وہ پیٹھ کے بل گر پڑا۔
نعیم کا مقابل فاتحانہ انداز میں تلوار نیچے کر کے اس کے دوبارہ اٹھنے کا انتظار کرنے لگا۔ نعیم غصے کی حالت میں اٹھا اور تیغ زنی کے تمام اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انتہائی تندی اور تیزی سے اس پر وار کرنے لگا۔ نعیم کو سپاہیانہ رسوم سے باہر جاتا دیکھ کر اس نے پوری طاقت کے ساتھ تلوار گھما کر وار کیا۔ نعیم نے یہ وار اپنی تلوار پر روکنے کی کوشش کی لیکن تلوار اس کے ہاتھ کی گرفت سے نکل کر چند قدم دور جا گری۔ نعیم پریشان سا ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ محمد بن قاسم اور ابن عامر مسکراتے ہوئے آگے بڑھے۔ ابن عامر نے ایک ہاتھ اپنے شاگرد اور دوسرا ہاتھ نعیم کے کندھے پر رکھتے ہوئے نعیم سے کہا۔’’آؤ اب تمہیں تمہارے بھائی سے ملائیں !‘‘
’’جی ہاں ! کہاں ہیں وہ؟‘‘
’’ابن عامر نے دوسرے لڑکے کا خود اتارتے ہوئے کہا۔ ’’ادھر دیکھو!‘‘
نعیم ’’بھائی بھائی! ‘‘ کہتا ہوا عبد اللہ سے لپٹ گیا۔ عبد اللہ کو انتہائی پریشانی کی حالت میں دیکھ کر محمد بن قاسم نے نعیم کا خود اتار دیا اور کہا ’’عبد اللہ! یہ نعیم ہے۔ کاش یہ میرا بھائی ہوتا!‘‘

)۴)

صابرہ کے لال ابن عامر جیسے مشفق استاد کے سایہ میں ایک غیر معمولی رفتار سے روحانی، جسمانی اور ذہنی ترقی کر رہے تھے۔
مکتب میں عبد اللہ کا نام سب سے پہلے آتا لیکن اکھاڑے میں نعیم سب سے اول رہتا۔محمد بن قاسم کبھی کبھی اکھاڑے میں آتا اور نعیم کو بعض باتوں میں اس کی برتری کا اعتراف کرنا پڑتا۔
محمد بن قاسم کو تیغ زنی میں زیادہ مہارت تھی۔ نیزہ بازی میں دونوں ایک جیسے تھے، تیر اندازی میں نعیم سبقت لے جاتا۔ محمد بن قاسم بچپن ہی میں اپنے آپ کو ان خصائل کا مالک ثابت کر چکا تھا جو بعض لوگوں کو ہر ماحول میں ممتاز رکھتے ہیں۔ ابن عامر کہا کرتا تھا کہ وہ کسی بڑے کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
عبد اللہ اور نعیم کے ساتھ محمد بن قاسم کی دوستی کا رشتہ مضبوط ہوتا گیا۔ بظاہر محمد بن قاسم کی نظروں میں وہ دونوں ایک جیسے تھے لیکن عبد اللہ خود اس بات کو محسوس کرتا تھا کہ نعیم اس سے زیادہ قریب ہے۔ نعیم کو مکتب میں داخل ہوئے ابھی آٹھ مہینے گزر تھے کہ محمد بن قاسم فارغ التحصیل ہو کر فوج میں شامل ہو گیا۔
محمد بن قاسم کے جانے کے بعد مکتب میں نعیم کا ایک اور جوہر نمایاں ہونے لگا۔ اس مدرسے کے طلباء ہفتے میں ایک بار کسی نہ کسی موضوع پر مناظرہ کیا کرتے تھے۔ موضوع ابن عامر خود تجویز کرتے۔ نعیم نے بھی اپنے بھائی کی دیکھا دیکھی ایک مناظرے میں حصہ لیا لیکن وہ پہلے مناظرے میں چند ٹوٹے پھوٹے جملے کہہ کر گھبرا گیا اور کھسیانا سا ہو کر ممبر سے اتر آیا۔ لڑکوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ ابن عامر نے اسے تسلی دی لیکن وہ سارا دن مغموم رہا اور رات بھی کروٹیں بدلتے گزار دی۔ علی الصباح وہ بستر سے اٹھا اور باہر چلا گیا۔ دوپہر تک ایک کھجور کے سائے تلے بیٹھ کر اپنی تقریر رٹتا رہا۔ اگلے ہفتے اس نے پھر مناظرے میں حصہ لیا اور ایک پر جوش تقریر سے سامعین کو محو حیرت کر دیا۔ اس کے بعد اس کی جھجک جاتی رہی اور اب بے تکلفی سے ہر مناظرے میں حصہ لینے لگا۔ اکثر مناظروں میں عبد اللہ اور نعیم دونوں شامل ہوتے۔ ایک بھائی ایک موضوع کے حق میں تقریر کرتا تو دوسرا اس کی مخالفت میں۔ شہر کے وہ لوگ جو اس کے جوہر دیکھ کر گرویدہ ہو چکے تھے۔ اس کی تقریروں میں بھی دلچسپی لینے لگے۔ ابن عامر نعیم کی رگوں میں سپاہیانہ خون کی حرارت کے علاوہ اس کے دل و دماغ میں ایک غیر معمولی مقرر کی صلاحیت بھی دیکھ چکا تھا۔ اس نے ہونہار شاگرد کے اس جوہر کی تربیت کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ وہ چند تقریروں سے نہ صرف اپنے مدرسے کا بہترین مقرر سمجھا جانے لگا بلکہ بصرہ کی گلیوں میں بھی اس کی جادو بیانی کے چرچے ہونے لگے۔ ابن عامر کے شاگردوں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہو رہا تھا لیکن اس کے بلند ارادوں کی تکمیل کے راستے میں بڑھاپا اور خرابی © صحت بری طرح حائل ہو رہے تھے۔ اس نے والی بصرہ سے درخواست کی کہ مدرسہ میں ایک تجربہ کار استاد کی ضرورت ہے۔ والی بصرہ کو اس کام کے لیے سعید سے زیادہ جوان دنوں والی قبرص تھا اور کوئی آدمی موزوں نظر نہ آیا۔ حجاج نے دربار خلافت میں درخواست کی اور وہاں سے سعید کو فوراً بصرہ پہنچ جانے کا حکم صادر ہوا۔
نعیم اور عبد اللہ کو اس بات کا علم تھا کہ ایک نیا استادا رہا ہے لیکن وہ یہ نہ جانتے تھے کہ وہ ان کا ماموں ہے۔سعید قبرص کے ایک نو مسلم گھرانے کی لڑکی سے شادی کر چکا تھا۔ وہ اپنی بیوی سمیت پہلے صابرہ کے پاس پہنچا اور چند دن وہاں رہ کر بصرہ چلا آیا۔ مکتب میں آتے ہی اس نے پوری تن دہی سے کام شروع کر دیا۔ اسے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی کہ اس کے بہترین شاگرد اس کے اپنے بھتیجے ہیں۔
بعد ازاں عبد اللہ اپنی جماعت کے چند اور نوجوان طلباء کے ساتھ فارغ التحصیل ہو گیا۔ جب ان طلباء کو رخصت کرنے کا دن آیا تو ابن عامر نے حسب معمول الوداعی جلسہ منعقد کیا۔ والی بصرہ نے بھی اس جلسے میں شرکت کی۔ طلباء کو دربار خلافت کی طرف سے گھوڑے اور اسلحہ جات تقسیم کیے گئے۔
ابن عامر نے الوداعی خطبہ دیتے ہوئے کہا:
’’نوجوانو ! اب تمہارا حوادث کی دنیا میں قدم رکھنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ مجھے امید ہے کہ تم میں سے ہر ایک یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ میری محنت رائیگاں نہیں گئی۔مجھے اس وقت ان تمام باتوں کے دہرانے کی ضرورت نہیں جو تم سے کئی بار کہہ چکا ہوں۔ فقط اپنے چند الفاظ ایک بار پھر دہراتا ہوں۔ زندگی ایک مسلسل جہاد ہے اور ایک مسلمان کی زندگی کا مبارک ترین فعل یہ ہے کہ وہ اپنے آقا و مولا کی محبت میں اپنی جان تک پیش کر دے۔ جب تک تمہارے دل اس مقدس جذبے سے سرشار رہیں گے تمہیں اپنی دنیا اور آخرت دونوں روشن نظر آئیں گی۔ تم دنیا میں سر بلند و ممتاز رہو گے اور آخرت میں بھی تمہارے لیے جنت کے دروازے کھولے جائیں گے۔ یاد رکھو، جب اس جذبے سے تم محروم ہو جاؤ گے تو دنیا میں تمہارا کوئی ٹھکانا نہ ہو گا اور آخرت بھی تمہیں تاریک نظر آئے گی۔ کمزوری تمہارا دامن اس طرح پکڑ لے گی کہ تم ہاتھ پاؤں تک نہ ہلا سکو گے، کفر کی وہ طاقتیں جو مجاہدوں کے راستے میں ذروں سے بھی زیادہ نا پائیدار ہیں۔تمہیں پتھر کی مضبوط چٹانیں دکھائی دیں گی۔دنیا کی عیار قومیں تمہیں مغلوب کر لیں گی اور تم غلام بنا دیے جاؤ گے اور استبدادی نظام کے ایک ایسے طلسم میں جکڑ دیے جاؤ گے کہ تمہارے لیے اس سے نجات پانا ناممکن ہو جائے گا۔ تم اس وقت بھی اپنے آپ کو مسلمان تصور کرو گے لیکن تم اسلام سے کوسوں دور ہو گے۔ یاد رکھو، صداقت پر ایمان لانے کے باوجود اگر تم میں صداقت کے لیے قربانی کی تڑپ پیدا نہیں ہوتی تو سمجھ لینا کہ تمہارا ایمان کمزور ہے۔ ایمان کی پختگی کے لیے آگ اور خون کے دریا کو عبور کرنا ضروری ہے۔ جب تمہیں موت زندگی سے عزیز نظر آئے تو یہ سمجھنا کہ تم زندہ رہو اور جب تمہارے شوقِ شہادت پر موت کا خوف غالب آ جائے تو تمہاری حالت اس مردے کی سی ہو گی جو قبر کے اندر سانس لینے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہو۔‘‘
ابن عامر نے تقریر کے دوران میں ایک ہاتھ سے قرآن اٹھا کر بلند کیا اور کہا:
’’یہ امانت آقائے مدنیﷺ کو خدائے قدوس کی جانب سے عطا ہوئی اور وہ دنیا میں اپنا فرض پورا کرنے کے بعد یہ امانت ہمارے سپرد کر گئے ہیں۔ حضورﷺ نے اپنی زندگی سے ثابت کیا کہ ہم اس امانت کی حفاظت تلوار کی تیزی اور بازو کی قوت کے بغیر نہیں کر سکتے۔ جو پیغام تم تک پہنچ چکا ہے تمہارا فرض ہے کہ اسے دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دو!‘‘
ابن عامر اپنی تقریر ختم کر کے بیٹھ گئے اور حجاج بن یوسف نے مسئلہ جہاد کو ایک فصیح و بلیغ انداز میں بیان کرنے کے بعد اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا:
’’یہ خط مرو کے گورنر کی طرف سے آیا ہے، وہ دریائے جیحوں کو عبور کر کے ترکستان پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اس خط میں مزید فوج کا مطالبہ کیا ہے۔ میں فی الحال بصرے سے چند دنوں تک دو ہزار سپاہی روانہ کر رہا ہوں۔ تم میں سے کون ہے جو اپنے آپ کو اس فوج میں شریک کرنے کے لیے پیش کرتا ہے؟‘‘
اس پر تمام طلباء نے ہاتھ بلند کر دیے۔
حجاج نے کہا:
’’میں تمہارے جذبہ جہاد کی قدر کرتا ہوں۔ لیکن اس وقت میں صرف فارغ التحصیل طلباء کو دعوت دوں گا۔ میں اس فوج کی قیادت اسی مدرسہ کے ایک ہونہار طالب علم کے سپرد کرنا چاہتا ہوں۔ میں عبد اللہ بن عبد الرحمن کے متعلق بہت کچھ سن چکا ہوں۔ اس لیے میں یہ خدمت اس کے سپرد کرتا ہوں۔ آپ سے جو نوجوان اس کا ساتھ دینا چاہیں، بیس دنوں میں اپنے گھروں سے ہو کر بصرہ پہنچ جائیں۔



ایثار


صابرہ کا معمول تھا کہ وہ فجر کی نماز سے فارغ ہو کر عذرا کو اپنے سامنے بٹھا لیتی اور اس سے قرآن سنتی۔ عذرا کی آواز کی مٹھاس کبھی کبھی پڑوس کی عورتوں کو بھی صابرہ کے گھر کھینچ لاتی، اس کے بعد صابرہ گاؤں کی چند لڑکیوں کو تعلیم دینے میں مصروف ہو جاتی اور عذرا کے گھر کے کام کاج سے فرصت حاصل کر کے تیر انداز کی مشق کیا کرتی۔ ایک روز طلوع آفتاب سے پہلے عذرا حسب معمول قرآن سنا کر اٹھنے کو تھی کہ صابرہ نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا اور کچھ دیر محبت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے کے بعد کہا:
’’عذرا، میں اکثر سوچا کرتی ہوں کہ اگر تم نہ ہوتیں تو میرے دن بڑی مشکل سے کٹتے۔ اگر تم میری بیٹی بھی ہوتیں تو بھی میں تمہارے ساتھ شاید اس سے زیادہ محبت نہ کر سکتی۔‘‘
عذرا نے جواب دیا: ’’اگر آپ نہ ہوتیں تو میں ....!‘‘
عذرا س سے آگے کچھ نہ کہہ سکی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
’’عذرا! صابرہ نے کہا۔
’’ہاں امی!‘‘
صابرہ آگے کچھ کہنا چاہتی تھی کہ باہر کا دروازہ کھلا اور عبد اللہ گھوڑے کی بگ تھامے اندر داخل ہوا۔ صابرہ اٹھی اور چند قدم آگے بڑھی۔ عبد اللہ نے سلام کیا۔ ماں اور بیٹا ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ بیٹے سے ہٹ کر ماں کی نظر کہیں دور جا پہنچی۔ اس دن سے بیس سال پہلے عبد اللہ کا باپ ایسے ہی لباس میں اور ایسی ہی شکل صورت کے ساتھ گھر میں داخل ہوا کرتا تھا۔
’’امی!‘‘
’’ہاں بیٹا۔‘‘
’’آپ پہلے سے بہت کمزور نظر آ رہی ہیں۔‘‘
’’نہیں بیٹا۔ آج تو مجھے کمزور نظر نہیں آنا چاہیے.... لاؤ میں تمہارا گھوڑا باند ھ آؤں۔‘‘
صابرہ نے یہ کہہ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور پیار سے اس کی گردن پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
’’امی چھوڑیے! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ عبد اللہ نے ماں کے ہاتھ سے گھوڑے کی لگام چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
صابرہ نے کہا۔’’بیٹا تمہارے باپ کا گھوڑا میں ہی باندھا کرتی تھی۔‘‘
’’لیکن میں آپ کو تکلیف دینا گناہ سمجھتا ہوں۔‘‘
’’بیٹا، ضد نہ کر۔ چھوڑو!‘‘
عبد اللہ نے ماں کے لہجے سے متاثر ہو کر گھوڑے کی لگام چھوڑ دی۔
صابرہ گھوڑا لے کر اصطبل کی طرف ابھی چند ہی قدم بڑھی تھی کہ عذرا نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے گھوڑے کی لگام پکڑتے ہوئے کہا:
’’امی چھوڑے۔ میں باندھ آؤں۔‘‘
صابرہ نے عذرا کی طرف محبت آمیز مسکراہٹ سے دیکھا اور کچھ سوچ کر گھوڑے کی لگام اس کے ہاتھ میں دے دی۔
عبد اللہ نے رخصت کے بیس دن گھر پر گزارے۔ گھر کے حالات میں اس نے ایک زبردست تغیر محسوس کیا۔ عذرا جو پہلے بھی اس کے ساتھ کسی حد تک تکلف سے پیش آتی تھی، اب بہت زیادہ شرمانے لگی تھی۔ عبد اللہ کی رخصت کا آخری دن بھیا پہنچا۔ لاڈلے بیٹے کے لیے ماں کا بہترین تحفہ اس کے دادا کے زمانے کی خوبصورت تلوار تھی۔
جب عبد اللہ گھوڑے پر سوار ہوا تو عذرا نے اپنے ہاتھ کا تیار کیا ہوا ایک رومال صابرہ کو لا کر دیا اور شرماتے ہوئے عبد اللہ کی طرف اشارہ کیا۔ صابرہ نے عذرا کا مطلب سمجھ کر رومال عبد اللہ کو دے دیا۔ عبد اللہ نے رومال کھول کر دیکھا، درمیان میں سرخ رنگ کے ریشمی دھاگے کے ساتھ کلام الٰہی کے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
قَاتِلُوھُمم ھَتّٰی لَا تَکُوں فِتَنَة ان سے جنگ کرو، یہاں تک فتنہ باقی نہ رہے۔
عبد اللہ نے رومال جیب میں ڈال کر عذرا کی طرف دیکھا اور عذرا سے نظر ہٹا کر ماں کی طرف دیکھتے ہوئے اجازت چاہی۔
صابرہ نے ماں کے نرم و نازک جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا:
’’بیٹا! اب تمہیں میری نصیحتوں کی ضرورت نہیں۔ یہ کبھی نہ بھولنا کہ تم کس کی اولاد ہو، تمہارے آباؤ اجداد کا خون کبھی ایڑیوں پر نہیں گرا۔ میرے دودھ اور ان کے نام کی لاج رکھنا۔

)۲)

عبداللہ کو جہاد پر گئے ایک سال گزر چکا تھا۔ صابرہ پر وہ اپنے چند خطوط سے ظاہر کر چکا تھا کہ وہ غیور ماں کی توقع سے زیادہ ناموری حاصل کر رہا ہے۔ سعید کے خطوط اور بصرہ سے بستی میں آنے جانے والے لوگوں کی زبانی اسے مکتب میں نعیم کے نام کی عزت اور شہرت کی اطلاع بھی ملتی رہتی تھی۔ نعیم کے ایک خط سے صابرہ کو معلوم ہوا کہ وہ عنقریب فارغ التحصیل ہو کر آنے والا ہے۔ ایک دن صابرہ کسی پڑوسن کے ہاں گئی ہوئی تھی۔ عذرا تیر اور کمان ہاتھ میں لیے صحن میں بیٹھی مختلف اشیا پر نشانے کی مشق کر رہی تھی، ایک کوا اڑتا ہوا عذرا کے سامنے کھجور کے درخت پر بیٹھ گیا۔ عذرا نے تاک کر تیر چلایا لیکن کوا بچ کر اڑ گیا۔ابھی کوا اڑا ہی تھا کہ دوسری طرف سے ایک اور تیر آیا اور وہ زخمی ہو کر نیچے گر پڑا۔عذرا حیران تھی ہو کر اٹھی اور کوکے جسم سے تیر نکال کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اچانک ایک خیال کے آتے ہی اس دل مسرت سے دھڑکنے لگا۔ اس نے آگے بڑھ کر پھاٹک کی طرف دیکھا۔ نعیم گھوڑے پر سوار پھاٹک سے باہر کھڑا مسکرا رہا تھا۔ عذرا کے چہرے پر حیا اور مسرت کی سرخی دوڑنے لگی۔ وہ آگے بڑھی اور پھاٹک کھول کر ایک طرف کھڑی ہو گئی۔ نعیم گھوڑے سے اتر کر اندر داخل ہوا۔
نعیم بصرہ سے لے کر گھر تک بہت کچھ کہنے اور بہت کچھ سننے کی تمنائیں بیدار کرتا ہوا آیا تھا لیکن انتہائی کوشش کے باوجود ’’اچھی ہو عذرا؟‘‘ کہہ کر خاموش ہو گیا۔
عذرا نے کوئی جواب دینے کی بجائے ایک ثانیہ کے لیے اس کی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں جھکا لیں۔
نعیم نے پھر جرات کی۔ ’’عذرا کیسی ہو؟‘‘
’’اچھی ہوں۔‘‘
’’امی جان کہاں ہیں ؟‘‘
’’وہ کسی عورت کی تیمار داری کے لیے گئی ہیں۔‘‘
پھر دونوں کچھ دیر خاموش کھڑے رہے۔
’’عذرا میں تمہیں ہر روز یاد کیا کرتا تھا!‘‘
عذرا نے آنکھیں اوپر اٹھائیں لیکن سپاہیانہ شان میں حسن و جبروت کے مجسمے کو جی بھر کر دیکھنے کی جرات نہ ہوئی۔
’’عذرا تم مجھ سے ناراض ہو؟‘‘
عذرا جواب میں کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن نعیم کی شاہانہ تمکنت نے اس کی زبان بند کر دی۔’’لائیے میں آپ کا گھوڑا باندھ آؤں !‘‘ اس نے گفتگو کا موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں عذرا، تمہارے ہاتھ ایسے کاموں کے لیے نہیں بنائے گئے۔‘‘ نعیم یہ کہہ کر گھوڑے کو اصطبل کی طرف لے گیا۔
نعیم تین ماہ گھر رہا اور جہاد پر جانے کے
لیے والی بصرہ کے حکم کا انتظار کرتا رہا۔
گھر پر خلاف توقع اس نے زیادہ خوشی کے دن نہ گزارے۔ شباب کے آغاز نے عذرا اور اس کے درمیان حیا کی ایک ناقابل عبور دیوار حائل کر دی تھی۔بچپن کے گزرے ہوئے وہ دن جب وہ عذرا کا ننھا سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بستی کے نخلستانوں میں چکر لگایا کرتا تھا، اسے ایک خواب معلوم ہوتے تھے۔ کم و بیش یہی حالت عذرا کی تھی۔ نعیم اس کے بچپن کا رفیق اسے پہلے سے بہت مختلف نظر آتا تھا۔ ان کے طرز عمل میں تکلف کی کم ہونے کی بجائے بڑھتا گیا۔ نعیم اپنے جسم و روح پر ایک قید اور دل پر ایک بوجھ محسوس کرنے لگا عذرا اس کے ساز دل پر بچپن ہی سے محبت کا پرسرور نغمہ بیدار کر چکی تھی۔نعیم چاہتا تھا کہ اس صحرائی حور کے سامنے اپنا دل کر رکھ دے لیکن حیا نے اسے منہ کھولنے کی اجازت ہی نہ دی۔ تاہم دونوں ایک دوسرے کے دل کی دھڑکنیں محسوس کر رہے تھے۔
نعیم کے گھر آنے کے چار ماہ بعد عبد اللہ رخصت پر آیا اور صابرہ کے گھر کی رونق دوبالا ہو گئی۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد نعیم اور عبد اللہ ماں کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ عبد اللہ اپنے فوجی کارنامے اور ترکستان کے حالات سنا رہا تھا۔ عذرا کچھ دور دیوار کا سہارا لیے کھڑی عبد اللہ کی باتیں سن رہی تھی۔ گفتگو کے اختتام پر عبد اللہ نے بتایا کہ میں بصرہ سے ہو کر آیا ہوں۔
’’ماموں سے ملے تھے؟‘‘ صابرہ نے پوچھا۔
’’ملا تھا، وہ آپ کو سلام کہتے تھے اور مجھے ایک خط بھی دیا ہے۔‘‘
’’کیسا خط؟‘‘
عبد اللہ نے جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا:
’’آپ پڑھ لیں !‘‘
تم ہی پڑھ کر سنا دو بیٹا!‘‘
’’امی جان! یہ آپ کے نام ہے۔‘‘ عبد اللہ نے شرماتے ہوئے جواب دیا۔
صابرہ نے خط لے کر نعیم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’اچھا بیٹا، تم پڑھو!‘‘
نعیم نے خط لے کر عذرا کی طرف دیکھا۔ وہ شمع اٹھا لائی اور نعیم کے قریب کھڑی ہو گئی۔ خط کی تحریر پر ایک نظر ڈالتے ہی نعیم کے دل پر ایک چرکہ سا لگا۔ اس نے ماں کو سنانا چاہا لیکن خط کی عبارت نے اس کی زبان پر مہر ثبت کر دی۔ اس نے سارے خط پر جلدی جلدی نظر دوڑائی۔ خط کا مضمون نعیم کے لیے نا کردہ گناہ کی سزا کے حکم نامے سے زیادہ بھیانک تھا۔ اپنے مستقبل کے متعلق تقدیر کا ناقابل تردید فیصلہ پڑھ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے سکتے میں آگیا۔ ایک ناقابل برداشت بوجھ اسے زمین کے ساتھ پیوست کر رہا تھا لیکن مجاہد کی فطری ہمت بروئے کار آئی اور اس نے انتہائی کوشش کے ساتھ چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا:
’’ماموں جان نے بھائی جان کی شادی کے متعلق لکھا ہے۔ آپ پڑھ لیں !‘‘
یہ کہہ کہ اس نے خط والدہ کو دے دیا۔ صابرہ نے شمع کی روشنی کی طرف سرک کر پڑھنا شروع کر دیا:
’’اچھی بہن! عذرا کے مستقبل کے متعلق میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔ میرے لیے عبد اللہ اور نعیم ایک جیسے ہیں۔ ان دونوں میں وہ تمام صفات موجود ہیں جو عذرا جیسی عالی نسب لڑکی کے مستقبل کی ضامن ہو سکتی ہیں۔ عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے عبد اللہ اس امانت کا زیادہ حق دار معلوم ہوتا ہے۔ اسے دو ماہ کی رخصت ملی ہے۔ آپ کوئی مناسب دن مقرر کر کے مجھے اطلاع دیں۔ میں دو دن کے لیے آ جاؤں گا۔
آپ مجھ سے زیادہ ان بچوں کی طبیعت سے واقف ہیں۔ یہ خیال رکھیں کہ عذرا کے مستقبل کا سوال ہے۔ سعید


)۲)

نعیم کے پرانے خواب کی تعبیر اس کی توقع کے خلاف نکلی۔ ابھی تک اس کا یہی خیال تھا کہ وہ عذرا کے لیے ہے اور عذرا اس کے لیے لیکن ماموں کے خط سے ایک تلخ حقیقت کا انکشاف ہوا۔
عذرا ........ اس کی معصوم عذرا، اس کی معصوم عذرا، اب اس کی بھاوج بننے والی تھی۔ اسے دنیا و مافیہا کی تمام چیزوں میں ایک نمایاں تغیر نظر آنے لگا۔ دل میں رہ رہ کر  درد کی ایک ٹیس اٹھتی تھی لیکن جہاں تک ہو سکا اس نے ضبط سے کام لیا اور کسی پر اپنے دل کی دل کی بات ظاہر نہ ہونے دی۔ عذرا کی حالت بھی اس سے مختلف نہ تھی۔
عبد اللہ اور صابرہ نے ان دونوں سے ان کی پریشانی کی وجہ پوچھی لیکن نعیم کو اپنے بھائی کا لحاظ تھا اور عذرا صابرہ، سعید اور عبداللہ کے احترام سے مجبور تھی۔ اس لیے دونوں کچھ نہ کہہ سکے اور دل کے انگارے دل ہی میں سلگتے رہے۔
جوں جوں عبد اللہ کے مسرت کے دن قریب آ رہے تھے، نعیم اور عذرا کے تصورات کی دنیا تاریک ہو جاتی تھی۔ نعیم کی سکون نا آشنا طبیعت کو طبیعت کو گھر کی چار دیواری ایک قفس نظر آنے لگی۔ وہ ہر شام گھوڑے پر سوار ہو کر میرے لیے بہت دور چلا جاتا اور آدھی آدھی رات تک صحرا میں ادھر ادھر گھومتا رہتا۔
عبد اللہ کی شادی میں ایک ہفتہ باقی تھا۔ نعیم ایک شب بستی سے باہر اپنے گھوڑے پر سیر کر رہا تھا۔ خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔ آسمان پر ستارے جھلملا رہے تھے۔ چاند کی دلفریب روشنی میں صحرا کی ریت پر چھوٹی چھوٹی لہریں چمک رہی تھیں۔ بستی میں عبد اللہ کی شادی کی خوشی میں نوجوان لڑکیاں دف بجا بجا کر گا رہی تھی۔ نعیم گھوڑا تھامے کچھ دیر رات سنتا رہا۔ اسے اپنے سوا تمام کائنات مسرور نظر آ رہی تھی۔ وہ گھوڑے سے اترا اور ٹھنڈی ریت پر لیٹ گیا۔ چاند ستارے ٹھنڈی ٹھنڈی خوش گوار ہوا اور سامنے بستی کے نخلستانوں کے دلفریب مناظر نے اسے اپنی معصوم دنیا کے کھوئے ہوئے سکون کے متعلق مضطرب کر دیا۔ اس نے اپنے دل میں کہا:
’’میرے سوا کائنات کا ہر ذرہ مسرور ہے۔ میری سرد آہیں ان وسعتوں کے سامنے کیا حقیقت رکھتی ہیں۔ اف، بھائی اور والدہ کی خوشی، ماموں کی خوشی اور شاید عذرا کی بھی، مجھے رنجیدہ اور مغموم بنا رہی ہے۔ میں بہت خود غرض ہوں ....لیکن میں خودغرض بھی تو نہیں۔ میں تو بھائی کے لیے اپنی خوشی قربان کر چکا ہوں .... لیکن یہ بھی جھوٹ ہے۔ میرے دل میں تو بھائی کے لیے اتنا ایثار بھی نہیں ہے کہ اس کی خوشی میں شریک ہو کر اپنا غم بھول جاؤں۔ میرا رات دن باہر رہنا کسی سے بات نہ کرنا اور سرد آہیں بھرنا ان پر کیا ظاہر کرتا ہو گا! میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ وہ کبھی میرا چہرہ مغموم نہیں دیکھیں گے ....لیکن یہ میرے بس کی بات نہیں، میں دل کی خواہشات پر قابو پا سکتا ہوں، احساسات پر نہیں۔ بہتر ہے کہ میں چند دن کے لیے باہر چلا جاؤں ....ہاں مجھے ضرور جانا چاہیے....ابھی کیوں نہ چلا جاؤں ....مگر نہیں، اس طرح نہیں۔ صبح والدہ سے اجازت لے کر۔‘‘
اس ارادے نے نعیم کے دل میں کسی حد تک تسکین پیدا کر دی۔
اگلے دن صبح کی نماز سے فارغ ہو کر والدہ سے چند دنوں کے لیے بصرہ جانے کی اجازت مانگی۔ صابرہ اس درخواست پر حیران ہوئی۔ اس نے کہا:
’’بیٹا! تمہارے بھائی کی شادی ہے۔ تم وہاں کیا لینے جاؤ گے؟‘‘
’’امی، میں شادی سے ایک دن پہلے آ جاؤں گا۔‘‘
’’نہیں بیٹا، شادی تک تمہارا گھر پر ٹھہرنا ضروری ہے!‘‘
’’امی! مجھے اجازت دیجئے!‘‘
صابرہ نے ذرا غصے میں آ کر کہا۔’’نعیم میرا خیال تھا کہ تم صحیح معنوں میں ایک مجاہد کے بیٹے ہو لیکن میرا یہ اندازہ غلط نکلا۔ تمہیں اپنے بھائی کی خوشی میں شریک ہونا گوارا نہیں۔ نعیم تم عبد اللہ سے حسد....؟‘‘
’’حسد! امی آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ مجھے بھائی سے حسد کیوں ہونے لگا۔ میں تو چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی کی تمام راحتیں اس کی نذر کر دوں۔‘‘
’’بیٹا! خدا کرے میرا یہ خیال غلط ہو۔ لیکن تمہارا اس طرح خاموش رہنا، بلا وجہ صحرا نوردی کرنا اور کیا ظاہر کرتا ہے؟‘‘
’’امی میں معافی چاہتا ہوں۔‘‘
صابرہ نے آگے بڑھ کر نعیم کو گلے لگا لیا اور کہا:
’’بیٹا! مجاہدوں کے سینے فراخ ہوا کرتے ہیں۔‘‘
شام کے وقت نعیم سیر کے لیے نہ گیا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد وہ بستر پر لیٹے لیٹے بہت دیر تک سوچتا رہا۔ اس کے دل میں خدشہ پیدا ہوا کہ اپنے طرز عمل سے جو کچھ والدہ ظاہر کر چکا ہوں، شاید عبد اللہ پر بھی ظاہر ہو جائے۔ اس خیال نے اس کے گھر سے نکلنے کے ارادے کو اور بھی مضبوط کر دیا۔
آدھی رات کے وقت وہ بستر سے اٹھا۔ کپڑے بدلو اور پھر اصطبل میں جا کر گھوڑے پر زین ڈالی۔ گھوڑا لے کر باہر نکلنے کو تھا کہ دل میں کچھ خیال آیا اور گھوڑے کو وہیں چھوڑ کر صحن میں عذرا کے بستر کے قریب جا کھڑا ہوا۔
عذرا بھی چند دنوں سے نعیم کی طرح رات بھر جاگنے کے عادی ہو چکی تھی۔ وہ بستر پر لیٹے لیٹے نعیم کی تمام حرکات دیکھ رہی تھی۔ جب نعیم قریب آیا تو اس کا دل دھڑکنے لگا۔ اس نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ سو رہی ہے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔نعیم دیر تک کھڑا رہا۔چاند کی روشنی عذرا کے چہرے پر پڑ رہی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمان کا چاند زمین کے چاند کو گھور رہا ہے۔نعیم کی نگاہیں عذرا کے چہرے پر اس طرح جذب ہو چکی تھیں کہ اسے تھوڑی دیر کے لیے گرد و پیش کا خیال نہ رہا۔ اس نے ایک لمبا سانس لیتے ہوئے پر سوز الفاظ میں کہا:
عذرا تمہیں شادی مبارک ہو!‘‘
نعیم کا یہ جملہ سن کر عذرا کے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی۔ اسے محسوس ہوا کہ کوئی اسے گڑے میں ڈال کر اوپر سے مٹی کا انبار پھینک رہا ہے۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔ وہ چیخنا چاہتی تھی مگر کسی غیر مرئی ہاتھ نے زبردستی اس کا منہ بند کر رکھا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ اٹھ کر نعیم کے پاؤں پر اپنا سر رکھ دے اور پوچھے کہ اس کا قصور کیا ہے؟ اس نے کیوں کہا۔ لیکن دھڑکتے ہوئے دل کی آواز دل ہی میں دبی رہی اور اس نے آنکھیں کھول کر نعیم کی طرف دیکھنے کی بھی جرات نہ کی۔
نعیم گھوڑا لینے کی غرض سے دوبارہ اصطبل کی طرف چلا گیا۔ عذرا بستر سے اٹھی اور مکان سے باہر نکل کر دیوار کے سایہ میں کھڑی ہو گئی۔ نعیم گھوڑا لے کر باہر نکلا۔ عذرا آگے بڑھی اور نعیم کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔
’’نعیم! آپ کہاں جا رہے ہیں ؟‘‘
’’عذرا.... تم جاگ اٹھیں ؟‘‘
’’میں سوئی کب تھی....دیکھو نعیم....!‘‘
عذرا اسے سے آگے کچھ نہ کہہ سکی اور اپنا فقرہ ختم کیے بغیر آگے بڑھی اور نعیم کے ہاتھ سے اس کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔
’’عذرا مجھے روکنے کی کوشش نہ کرو۔ مجھے جانے دو!‘‘
’’کہاں جاؤ گے نعیم؟‘‘ عذرا مدت کے بعد اسے نام سے بلا رہی تھی۔
’’عذرا چند دن کے لیے بصرہ جا رہا ہوں۔‘‘
’’لیکن اس وقت کیوں ؟‘‘
’’عذرا تم یہ پوچھتی ہو کہ میں وقت کیوں جا رہا ہوں۔ تمہیں معلوم نہیں ؟‘‘
عذرا کو معلوم تھا۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ ہونٹ کانپ رہے تھے۔ اس نے نعیم کے گھوڑے کی باگ چھوڑ کر اشک آلود آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے چھپا لیا۔
نعیم نے کہا۔’’ عذرا شاید تمہیں معلوم نہ ہو کہ میرے دل میں آنسوؤں کی کیا قیمت ہے۔ لیکن میرا یہاں رہنا مناسب نہیں۔ میں خود اداس رہ کر تمہیں بھی غمگین بناتا ہوں۔ بصرہ میں چند دن رہ کر میری طبیعت ٹھیک ہو جائے گی۔ میں تمہاری شادی سے ایک دو دن پہلے آنے کی کوشش کروں گا۔
عذرا ! مجھے اس بات کی خوشی ہے اور تمہیں بھی خوش ہونا چاہیے کہ تمہارا ہونے والے شوہر مجھ سے بہتر خوبیوں کا مالک ہے۔ کاش! تمہیں معلوم ہوتا کہ مجھے اپنے بھائی جان سے کتنی محبت ہے۔ عذرا ان آنسوؤں کو ان پر ظاہر نہ ہونے دینا!‘‘
’’آپ واقعی جا رہے ہیں ؟‘‘ عذرا نے پوچھا۔
’’میں نہیں چاہتا کہ میرے ضبط کا ہر روز امتحان ہوتا رہے۔ عذرا میری طرف اس طرح نہ دیکھو۔ جاؤ!‘‘
عذرا بغیر کچھ کہے واپس چلی آئی۔ چند قدم چل کر ایک بار نعیم کی طرف مڑ کر دیکھا۔ وہ ابھی تک ایک پاؤں رکاب میں ڈال کر عذرا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عذرا نے منہ پھیر لیا اور تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی اپنے بستر پر منہ کے بل جا گری اور سسکیاں لینے لگی۔
نعیم گھوڑے پر سوار ہو کر ابھی چند قدم چلا تھا کہ کسی نے پیچھے سے بھاگ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔ نعیم مبہوت سا ہو کر رہ گیا۔ اس کے سامنے عبد اللہ کھڑا تھا۔
’’بھائی!‘‘ نعیم نے حیران ہو کر کہا۔
’’نیچے اترو! ‘‘ عبداللہ نے با رعب آواز میں کہا۔
’’بھائی! میں باہر جا رہا ہوں۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔ تم نیچے اترو!‘‘
نعیم گھوڑے سے اترا۔ عبد اللہ ایک ہاتھ سے گھوڑے کی باگ اور دوسرے ہاتھ سے نعیم کا بازو پکڑتے ہوئے واپس مڑا۔ مکان کے احاطے میں پہنچ کر اس نے کہا:
’’گھوڑے کو اصطبل میں باندھ آؤ!‘‘
نعیم کچھ کہنا چاہتا تھا مگر عبد اللہ کچھ اس تحکمانہ انداز سے کھڑا تھا کہ اسے مجبوراً اس کا حکم ماننا پڑا۔ وہ گھوڑے کو اصطبل میں باندھ کر پھر بھائی کے قریب آ کھڑا ہوا۔
عذرا بستر پر لیٹے لیٹے یہ تمام منظر دیکھ رہی تھی۔ عبد اللہ نے پھر نعیم کا بازو پکڑ لیا اور اسے اپنے ساتھ لیے ہوئے مکان کے ایک کمرے میں چلا گیا۔
عذرا کانپتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھی اور چپکے چپکے قدم اٹھاتی ہوئی اس کمرے تک گئی اور دروازے کی آڑ میں کھڑی ہو کر عبداللہ اور نعیم کی باتیں سننے لگی۔
’’شمع جلا!‘‘ عبد اللہ نے کہا۔
نعیم نے شمع جلائی۔ کمرے میں اون کا ایک بڑا کپڑا بچھا ہوا تھا۔ عبد اللہ نے اس پر بیٹھتے ہوئے نعیم کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’بھائی، آپ مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں ؟‘‘
’’کچھ نہیں، بیٹھ جاؤ!‘‘
’’میں کہیں جا رہا تھا۔‘‘
’’میں تمہیں جانے سے منع نہیں کروں گا، بیٹھ جاؤ! تم سے ایک ضروری کام ہے۔‘‘
نعیم پریشان سا ہو کر بیٹھ گیا۔ عبد اللہ نے ایک صندوق سے کاغذ اور قلم نکلا اور کچھ لکھنا شروع کیا۔ تحریر ختم کرنے کے بعد عبداللہ نے نعیم کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا:
’’نعیم تم بصرے جا رہے ہو؟‘‘
نعیم نے جواب دیا۔ ’’بھائی یہ معلوم نہ تھا کہ آپ جاسوس بھی ہیں۔‘‘
’’میں معافی چاہتا ہوں نعیم، میں تمہارا نہیں عذرا کا جاسوس تھا۔‘‘
’’بھائی جان! آپ عذرا کے متعلق رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کریں۔‘‘
عبد اللہ نے اس کے جواب میں ٹکٹکی باندھ کر نعیم کے چہرے کی طرف دیکھا، نعیم نے قدرے مرعوب ہو کر گردن جھکا لی۔ عبد اللہ نے ایک ہاتھ بڑھا کر اس کی ٹھوڑی کو پیار سے اوپر اٹھایا اور کہا:
’’نعیم میں تمہارے اور عذرا کے متعلق غلط انداز نہیں لگا سکتا۔ تم بصرہ جاؤ اور میرا یہ خط ماموں کے پاس لیتے جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر عبد اللہ نے نعیم کو اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا خط دے دیا۔
’’بھائی جان! آپ نے کیا لکھا ہے؟‘‘
’’خود ہی پڑھ لو۔ میں نے اس خط میں تمہارے لیے ایک سزا تجویز کی ہے۔
نعیم نے خط پڑھا:
’’پیارے ماموں ! السلام علیکم،
چونکہ عذرا کا مستقبل آپ کی طرح مجھے بھی عزیز ہے۔ اس لیے مجھے اپنی نسبت نعیم کو اس کے مستقبل کا محافظ اور امانت دار ہوتے دیکھ کر زیادہ تسکین ہو گی۔ زیادہ کیا تحریر کروں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میں نے یہ خط کیوں لکھا ہے۔امید ہے کہ آپ میری بات پر توجہ دیں گے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ میری رخصت ختم ہونے سے پہلے نعیم اور عذرا کی شادی کر دی جائے۔ موزوں تاریخ آپ خود متعین کر دیں۔‘‘ آپ کا عبد اللہ
خط ختم ہونے تک نعیم کی آنکھوں میں آنسوا چکے تھے۔ اس نے کہا۔ ’’بھائی میں یہ خط نہیں لے جاؤں گا۔ عذرا کی شادی آپ ہی کے ساتھ ہو گی۔ بھائی مجھے معاف کر دو۔‘‘
عبد اللہ نے کہا۔ ’’تمہارا خیال ہے کہ میں اپنی خوشی کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کی زندگی بھر کی خوشی قربان ہونے دوں گا؟‘‘
’’آپ مجھے زیادہ شرمسار نہ کریں۔‘‘
’’میں تمہارے لیے تو کچھ نہیں کر رہا۔ نعیم تم سے زیادہ مجھے عذرا کی خوشی کا خیال ہے۔ مجھے تمہارا جوڑی پہلے بھی بھلا معلوم ہوتا تھا۔ جو کچھ تم میرے لیے کرنا چاہتے تھے وہی کچھ میں عذرا کے لیے کر رہا ہوں۔ جاؤ! اب صبح ہونے والی ہے۔ کل تک ضرور واپسا جانا۔ شاید ماموں جان تمہارے ساتھ ہی آ جائیں۔ چلو!‘‘
’’بھائی! آپ کیا کہہ رہے ہیں۔میں نہیں جاؤں گا!‘‘
’’نعیم اب ضد نہ کرو۔ عذرا کو خوش رکھنے کا فرض ہم دونوں پر عاید ہوتا ہے۔‘‘
’’بھائی........!‘‘
’’چلو! ‘‘ عبد اللہ نے ذرا تیور بدلتے ہوئے کہا اور نعیم کا بازو پکڑ کر کمرے سے باہر لے آیا۔
عذرا انہیں آتے دیکھ کر وہاں سے کھسک آئی اور اپنے بستر پر جا لیٹی۔ نعیم کو متذبذب دیکھ کر عبد اللہ خود جا کر اصطبل سے نعیم کا گھوڑا لے آیا۔ دونوں بھائی مکان سے باہر نکلے۔ تھوڑی دیر بعد عذرا کو گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔
عبد اللہ واپسا کر بارگاہ ایزدی میں شکر گزاری کے لیے کھڑا ہو گیا۔
علی الصباح صابرہ نعیم کا بستر خالی دیکھ کر اصطبل کی طرف گئی۔ عبد اللہ وہاں اپنے گھوڑے کے آگے چارہ ڈال رہا تھا۔ صابرہ کو وہاں نعیم کا گھوڑا نظر نہ آیا تو پریشان سی ہو کر کھڑی ہو گئی۔ عبد اللہ اس کا مطلب بھانپ گیا۔ اس نے کہا:
’’امی! آپ نعیم کو تلاش کر رہی ہیں ؟‘‘
’’ہاں ہاں کہا ہے وہ؟‘‘
’’وہ ایک ضروری کام کے لیے باہر گیا ہے۔‘‘ عبد اللہ نے جواب دیا اور پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد صابرہ سے سوال کیا۔ ’’امی نعیم کی شادی کب ہو گی؟‘‘
’’بیٹا! تمہاری تو ہو جائے، اس کی باری بھیا جائے گی۔‘‘
’’امی! میں چاہتا ہوں کہ اس کی شادی مجھ سے پہلے ہو!‘‘
’’بیٹا ! مجھے معلوم ہے کہ تم اسے بہت پیار کرتے ہو۔ میں غافل نہیں ہوں۔اس کے لیے بھی کوئی رشتہ تلاش کر رہی ہوں۔ خدا کرے کوئی عذرا جیسی لڑکی مل جائے۔‘‘
’’امی! عذرا اور نعیم بچپن ہی سے ایک دوسرے کے ساتھی رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں بیٹا!‘‘
’’امی جان! میں چاہتا ہوں کہ وہ ہمیشہ اکٹھے رہیں۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے کہ ....!‘‘
’’ہاں، میں چاہتا ہوں کہ عذرا کی شادی نعیم کے ساتھ کر دی جائے!‘‘
صابرہ نے حیران ہو کر عبد اللہ کی طرف دیکھا اور پیار سے دونوں ہاتھ اس کے سرپر رکھ دیے۔


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔