جمعرات، 7 مئی، 2015

حجاز کی اندھی - پارٹ 7

0 comments
 7

’’بے شک امیرالمومنین!‘‘سب نے کہا۔’’ ان کا انجام یہی ہوتا ہے۔‘‘

’’خدا کی قسم!‘‘حضرت عمرؓ نے کہا ۔’’یہ کارنامہ ہمارے مجاہدین کا ہے۔ انہوں نے اﷲ اور رسول)ﷺ(کی لاج رکھ لی ہے، اور کفار پر ثابت کر دیا ہے کہ اسلام سچا دین ہے۔ عمرو بن معدی کرب اور بشر بن ربیعہ انہی مجاہدین میں سے ہیں۔ مجھے مشورہ دو میرے عزیزوں‘ کیا میں سعد کو اجازت دے دوں کہ وہ ان دونوں کو کچھ فالتو رقم دے دے؟‘‘

’’ابنِ الخطاب!‘‘ایک ضعیف العمر صحابی ؓبولے ۔’’جہاں تو نے خمس بھی مجاہدین میں تقسیم کرا دیا۔ وہاں ان دونوں کو تھوڑا سا حصہ فالتو مل گیا تو اﷲ تجھ سے باز پرس نہیں کرے گا۔ یہ نہ دیکھ کہ انہوں نے فالتو حصہ کس طرح مانگا ہے ،یہ دیکھ کہ انہوں نے کیا کارنامہ کیا ہے۔‘‘ تفصیل سے پڑھئے

’’ہاں امیرالمومنین!‘‘ایک اور نے کہا۔’’ امیرِ لشکر کو اجازت دے دیں کہ انہیں کچھ دے دے۔ خدشہ صرف یہ ہے کہ فالتو حصہ طلب کرنے کا رواج ہی نہ شروع ہو جائے۔ حکم دے دیں کہ آئندہ کسی کو کسی بھی حالت میں فالتو حصہ نہیں ملے گا۔‘‘

مسجد میں جتنے لوگ موجود تھے، ان کی اکثریت نے یہ رائے دی کہ ان دونوں مجاہدین کو فالتو حصہ دے دیا جائے۔

حضرت عمرؓ نے وہیں بیٹھے بیٹھے سعد ؓبن ابی وقاص کے پیغام کا جواب لکھوایا۔ دیگر ہدایات کے بعد انہوں نے لکھوایا کہ عمرو بن معدہ کرب اور بشر بن ربیعہ کو دودو ہزار درہم فالتو دے دیئے جائیں،اور سب سے کہہ دیا جائے کہ آئندہ ایسی کوئی مثال سامنے نہ آئے کہ زیادہ مانگنے کی عادت دل میں دنیا کی محبت پیدا کر دے گی۔

حضرت عمرؓ کے اجازت نامے میں ایک جملہ یہ تھا:

’’ان کی سرفروشی کی قیمت انہیں دے دی جائے۔‘‘

یہ پیغام قادسیہ پہنچا تو سعد ؓبن ابی وقاص نے دونوں مجاہدین کو تمام لشکر کے سامنے دو دو ہزار درہم دے کر امیر المومنینؓ کا یہ پیغام سنایا کہ آئندہ ایسی کوئی مثال سامنے نہ آئے۔

مؤرخ لکھتے ہیں کہ امیر المومنینؓ کا پیغام سن کر مجاہدین میں کئی آوازیں سنائی دیں:

’’خدا کی قسم، ہم میں دنیاوی لالچ والا کوئی نہیں۔‘‘

’’ہمارا انعام فتح ہے جو اﷲ دیتا ہے۔‘‘

’’خدا کی قسم، ہم مانگیں گے نہیں ،ہمیں اﷲ دے گا۔‘‘

’’واﷲ‘ ہم پورا فارس انعام میں لیں گے۔‘‘

٭

مجاہدین کے یہ نعرے بے جان اور کھوکھلے الفاظ نہیں تھے۔ یہ ان کا کردار تھا۔ وہ اسی کو ایمان کہتے تھے۔ مبصرین اوروقائع نگاروں نے لکھا ہے کہ ان فاتح مجاہدین کے لشکر میں وہ لوگ بھی تھے جو رسولِ کریمﷺ کے وصال کے بعد مرتد ہو گئے تھے اور ان کے خلاف باقاعدہ جنگ کرنی پڑی تھی۔ ان کی تعداد مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہو گئی تھی۔ ان میں ایک سے ایک بڑھ کر بہادر موجود تھے ۔مگر انہوں نے ہر میدان میں شکست کھائی۔

طلیحہ بن خویلد، عمرو بن معدی کرب، اور اشعث بن قیس فتنۂ ارتداد کے دست بازو تھے اور یہ بڑے مضبوط دستِ بازو تھے۔ یہ سب دعویٰ کرتے تھے کہ اسلام کا خاتمہ کرکے دم لیں گے مگر مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں پٹ گئے اور ارتداد کاجو طوفان اٹھا تھا ،وہ ہمیشہ کیلئے دم توڑ گیا۔

طلیحہ نے تو نبوت کا دعویٰ کیاتھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں پیروکار پیدا کر لیے تھے ۔طلیحہ قوی الجثہ آدمی تھا اور بہت ہی بہادر۔ لوگ اس کے گرویدہ بھی تھے ، اور اس سے ڈرتے بھی تھے۔ لیکن وہ مسلمانوں سے اپنی نبوت کو نہ بچا سکا تھا۔

اسی طلیحہ بن خویلد نے اسی عمرو بن معدی کرب نے اور اسی اشعث بن قیس نے مسلمانوں سے شکست کھا کر ارتداد سے توبہ کی اور از سر نو اسلام قبول کیا اور حق کی تلوار لے کر باطل کے خلاف نکلے تو ان کی بہادری کی داستانیں آج تک تاریخ سنا رہی ہے اور رہتی دنیا تک سناتی رہے گی۔ ایسا کیونکر ممکن ہوا؟صرف اس لیے کہ یہ سب قوی الجثہ تو تھے لیکن ضعیف الایمان تھے۔ جب اسلام کی قوت سے مالامال ہو ئے تو فارس کی ہیبت ناک جنگی طاقت کو ریزہ ریزہ کر کے بکھیر دیا۔

مؤرخوں کے غزوۂ خیبر کے بعد جس جنگ کو باقی تمام جنگوں سے زیادہ اہمیت دی ہے وہ جنگِ قادسیہ ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں ۔اس جنگ نے مسلمانوں کیلئے ایوانِ کسریٰ کے دروازے کھول دیئے تھے۔ قادسیہ فارس کا)جو ایران بھی کہلاتا تھا(دروازہ تھا۔ فارسیوں نے اس دروازے کو ایک لاکھ بیس ہزار فوج سے جس میں زیادہ تعداد گھوڑسواروں کی تھی بند کر دیاتھا۔ مسلمانوں کو کچلنے کیلئے فارسی تمام جنگی ہاتھی میدان میں لے آئے تھے۔

جنگی طاقت کے علاوہ فارسیوں کو یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ یہ ان کا اپنا ملک تھا اس لیے انہیں رسد اور افرادی قوت فوراً مل جاتی تھی۔ اس زمین پر فارس کے فوجی اجنبی نہیں تھے ۔اجنبی تھے تو مسلمان تھے ۔وہاں کی زمین ان کی دشمن ، وہاں کے لوگ ان کے دشمن، وہاں کا پتّا پتّا ، پتھر پتھر ان کا دشمن تھا۔ مسلمان اپنے وطن سے آٹھ سو میل دور تھے۔

فارس کے مؤرخوں نے بھی جنگِ قادسیہ کو تفصیل سے اور خصوصی اہمیت دے کر بیان کیاہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مسلمان ایک اﷲ اور ایک رسولﷺ کے تابع ہو کر ایک جماعت یا ایک امت بن گئے تھے۔ انہوں نے ایک عقیدے کی خاطر جنگ لڑی۔ اس عقیدے نے مسلمانوں میں ایسا جذبہ پیدا کر دیا تھا کہ انہوں نے بہادری کے ماوراء العقل کارنامے کر دکھا ئے اور چار روز مسلسل آرام کیے بغیر لڑے۔ ان کے مقابلے میں فارس کی فوج کے دستے باری باری آرام کر لیتے تھے۔

٭

یہ تو بعد کی باتیں ہیں جو مبصروں اور مؤرخوں نے لکھیں ۔ہم واپس قادسیہ کے میدان میں چلتے ہیں ۔فارس کی فوج کی جو نفری بچ کر نکل گئی ، اس کا رخ مدائن کی طرف تھا۔ سعدؓ بن وقاص نے حکم دے دیا تھا کہ فارسیوں کاتعاقب کیا جائے۔

حضرت عمرؓ نے فتح کی خبر ملنے پر سعد ؓکو لکھا تھا کہ ان کے اگلے حکم تک وہ قادسیہ میں ہی رکے رہیں۔

جس طرح حضرت عمرؓ قادسیہ کی تازہ خبر کے انتظار میں مدینہ سے باہر قادسیہ کے راستے پر چلا جایا کرتے تھے۔ ایسی ہی بیتابی سے یزدگرد مدائن کی شہرِ پناہ کر جا کھڑا ہوتا اور قادسیہ کی طرف سے آنے والے راستے کو دیکھتارہتا تھا۔اس کی ماں نورین بھی اس کے پاس جا کھڑی ہوتی تھی۔

اُس روز وہ اپنے خاص کمرے میں بیٹھا ہوا تھا، جس روز قادسیہ سے آخری قاصد اس کے محل میں آکر گھوڑے سے اُترا۔ وہی حسین و جمیل لڑکی اس کے پاس تھی، جس کی بہن میدانِ جنگ میں رستم کے ساتھ تھی۔اس روز یزدگرد کچھ زیادہ ہی بے چینی اور بے تابی محسوس کر رہا تھا۔ لڑکی اس کا دل بہلانے کیلئے بڑے ہی حسین اور طلسماتی جتن کر رہی تھی لیکن یزدگرد اس روز شراب بھی قبول نہیں کر رہا تھا۔ اگر وہ شراب کے چند گھونٹ پی لیتا تو اس کی بیتابی اور یہ ہیجانی کیفیت ختم ہو جاتی ۔لڑکی نے شراب میں وہ دوائی ملا رکھی تھی جو اس کے جوش و خروش پرقابو پا لیا کرتی تھی۔

اُس وقت قادسیہ کا قاصد اس کے دروازے پر پہنچ چکا تھا اور دربان سے کہہ رہا تھا کہ یہ پیغام وہ شہنشاہ کو دے دے کیونکہ پیغام اچھا نہیں ۔دربان نے اسے کہا کہ قاصد کو تو شہنشاہ ضرور بلائے گا۔ دربان کے پوچھنے پر قاصد نے بتا دیا کہ اپنی فوج نے بہت ہی بری شکست کھائی ہے اور رستم مارا گیا ہے۔

’’بیوقوف نہ بنو!‘‘دربان نے کہا۔’’ ایسا کبھی ہوا نہیں کہ پیغام میں شہنشاہ تک پہنچاؤں اور قاصد باہر سے ہی چلا جائے ۔میں تمہارے آنے کی اطلاع دے دیتا ہوں۔‘‘

یزدگرد اور رستم نے پیغام رسانی کا یہ انتظا م کیا تھا کہ میدانِ جنگ سے مدائن تک اتنے اتنے فاصلے پر آدمی کھڑے کر دیئے تھے جتنے فاصلے پر کوئی بلند آواز سے بولے تو اس کی آواز سنی جا سکتی ہے۔ فارس کی فوج بھاگی تو پیغام رسانی کا نظام برباد ہو گیا۔ پیغام رسانی جن آدمیوں کے ذریعے ہوتی تھی انہوں نے اپنی فوج کو بھاگتے اور بکھرتے دیکھا تو میدانِ جنگ کے قریب جو پیغام رساں تھے وہ بھاگ گئے تھے۔ یہ جو قاصد آیا تھا اسے جالینوس نے بھیجا تھا اور اس قاصد کے سامنے جالینوس مارا گیا تھا۔

دربان یزدگرد کے کمرے میں داخل ہوا۔

’’قادسیہ سے کوئی آیا ہے؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔

’’ہاں شہنشاہِ فارس!‘‘دربان نے اداس اور مایوس سے لہجے میں جواب دیا۔’’ وہ اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔‘‘

’’کیا غم کھا رہا ہے تمہیں؟‘‘یزد گرد نے اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر پوچھا۔’’ کیا قاصد نے کوئی بری خبر سنائی ہے؟‘‘

’’میں اسے اندر بھیج دیتا ہوں۔‘‘ دربا ن نے کہا۔

’’فوراً بھیجو۔‘‘

٭

’’تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم اچھی خبر نہیں لائے۔‘‘ قاصد اندر گیا تو یزدگرد نے لڑکی کو اپنے سے الگ کرتے ہوئے کہا۔

’’میں کسی کا بھیجا ہوا قاصد نہیں ہوں شہنشاہِ معظّم!‘‘قاصد نے کہا ۔’’میں اپنا فرض سمجھ کر آیا ہوں۔‘‘

’’کیا تمہیں رستم نے نہیں بھیجا؟‘‘

’’نہیں شہنشاہِ معظّم!‘‘قاصد نے جواب دیا۔’’ رستم مارا گیا ہے۔ میں خود اس کی سر کٹی لاش دریا کے کنارے پڑی دیکھ کر آیاہوں۔‘‘

’’نہیں!‘‘یزدگرد بِدک کر اٹھ کھڑا ہوا اور ہڑبڑا کر بولا۔’’ رستم نہیں رہا تو……‘‘

’’جالینوس بھی نہیں رہا شہنشاہ! ‘‘قاصد نے کہا۔’’ وہ اپنی بھاگتی ہوئی فوج کے ساتھ مارا گیا ہے۔‘‘

’’اور فیروزان؟‘‘

’’لاپتا ہے۔‘‘ قاصد نے جوا ب دیا۔’’ بھاگ گیا ہے۔‘‘

’’اور ہرمزان؟‘‘

’’وہ بھی بھاگ نکلا ہے۔‘‘ قاصد نے کہا۔’’ وہاں اب کچھ نہیں رہا شہنشاہِ معظّم!قادسیہ کے میدان میں ہماری لاشوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں رہا۔ فارس کی عزت و وقار ……درفش کاویانی……بھی مسلمان لے گئے ہیں۔ میں معمولی سا عہدیدار ہوں۔ میں اپنا فرض سمجھ کر آیا ہوں کہ آپ کو خبردار کروں کہ مسلمان ہماری بھاگتی ہوئی فوج کے تعاقب میں آرہے ہیں۔ مدائن کو بچائیں۔ ہماری فوج ایسی بکھری ہے کہ اسے کہیں بھی اکٹھا نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

اس دوران جو لڑکی یزدگرد کے پاس تھی کمرے سے نکل گئی ۔قاصد یزدگرد کو آخری دن کی تفصیلات سنا رہا تھا۔ یزدگرد بیٹھ گیا تھا اور آنکھیں پھاڑے یوں اس عہدیدار کو دیکھ رہا تھا جیسے اسے سکتہ ہو گیا ہو۔

اتنے میں یزدگرد کی ماں دوڑتی ہوئی اس لڑکی کے ساتھ کمرے میں داخل ہو ئی، اور یزدگرد کے پاس بیٹھ کر اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا جیسے وہ بچّہ ہو۔

’’کیا ہو گیا یزدی!‘‘ماں نے کہا۔

’’جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘ یزدگرد بم کی طرح پھٹا۔’’ اور اس کی ذمہ دار تم ہو…… تم……تم جو میری ماں ہو۔ مجھے رستم کے ساتھ ہونا چاہیے تھا ۔تم نے مجھے مامتا کی زنجیروں میں باندھے رکھا۔‘‘

وہ غصے سے باؤلا ہوئے جا رہا تھا۔ لڑکی اس خیال سے آگے ہوئی کہ یزدگرد پر اسے غلبہ حاصل ہے ۔اس نے شراب کا وہ پیالہ جس میں اس نے ذہن کو بے حس کرنے والی دوائی ملائی ہوئی تھی، اٹھا کر یزدگرد کے آگے کیا۔

’’یہ ساری مصیبت جرنیلوں کی بزدلی کی وجہ سے آئی ہے۔‘‘ لڑکی نے جذباتی لہجے میں پیار سے کہا۔’’ اور اس کا سارا بوجھ اکیلے شہنشاہ پر آپڑا ہے ۔‘‘اس نے شراب کا پیالہ یزدگرد کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔ ’’دو گھونٹ پی لیں‘ غصہ ذرا ٹھنڈا ہو جائے گا ۔آپ کیلئے ایسی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے جس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔ مسلمان کوئی جن بھوت تو نہیں۔‘‘

یزدگرد نے پیالہ ہاتھ میں لے لیا۔ یہ خالص سونے کا وزنی پیالہ تھا۔ اس میں چھوٹے چھوٹے ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ یزدگرد نے پیالے کو دیکھا پھر لڑکی کے حسین چہرے کو دیکھا، جیسے پیالے کی دل کشی اور لڑکی کے حسن کا موازنہ کر رہا ہو۔ اچانک اس نے پیالہ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اپنے سر سے اوپر کیا اور پوری طاقت صرف کر کے پیالہ لڑکی کے سر پر مارا۔ ایک یہ پیالہ وزنی دوسرے جوان آدمی کی طاقت، لڑکی کا سر ڈولا، پھر اس کی ٹانگیں دوہری ہوئیں اور وہ ایک پہلو پر گر پڑی۔ اس کے سر سے خون نکل نکل کر ا س کے ریشم جیسے ملائم بالوں میں سے فرش پر ٹپکنے کا راستہ بنانے لگا۔‘‘

’’ہوش میں آیزدی!‘‘نورین نے اٹھ کر اپنے بیٹے کو کندھوں سے پکڑااور اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔’’ اس بے چاری کو پیار کا یہ صلہ دیا ہے!‘‘

’’تمہیں بھی یہی صلہ ملنا چاہیے ماں!‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ تم خوش قسمت ہو کہ میری ماں ہو۔ اس وقت مجھے بیدار ہو نا چاہیے اور یہ لڑکی مجھے شراب پلا رہی ہے۔ حرم میں میرے لیے لڑکیوں کی کمی نہیں لیکن تم میرے لیے اس لڑکی کو خاص طور پر لائی تھیں۔ یہ راز مجھ پر آج کھلا ہے کہ تم نے اس لڑکی کو مجھ پر نشے کی طرح غالب آنے کا سبق پڑھایا تھا ۔تم اس کوشش میں تھیں کہ میں اس محل میں قیدی بنا رہوں اور محاذ پر نہ جاؤں۔‘‘

یزدگرد نے دیکھا کہ پیغام لانے والا فوجی وہیں کھڑا ہے۔

’’تم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔‘‘ یزدگرد نے اسے کہا۔’’ اس لڑکی کو پاؤں سے پکڑو اور گھسیٹ کر باہر پھینک دو ۔کسی کو بتا دینا کہ ہوش میں آئے تو اپنے گھر چلی جائے۔ مرتی ہے تو اس کی لاش اس کے ماں باپ کے حوالے کر دینا۔‘‘

’’اتنا بے رحم نہ بن یزدی!‘‘نورین نے کہا۔’’ اس عظیم سلطنت کو اس کے بادشاہوں اور جرنیلوں کے گناہ کھا گئے ہیں۔ اس سلطنت نے ایک نہ ایک دن تو ڈوبنا ہے ۔میں تجھے ڈوبتے نہیں دیکھ سکتی۔‘‘

’’مت بھولو ماں!‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ مت بھولو کہ لوگ مجھے تمہاری قید سے نکال کر کیوں مدائن لائے تھے……کسریٰ کی اس عظیم سلطنت کی عظمت کو بحال کرنے کیلئے……میں جانتا ہوں کہ تم کیا چاہتی ہو۔ تم مجھے پھر اسی قید میں ڈالنا چاہتی ہو،جس میں میری عمر کے سولہ سترہ سال گزر گئے تھے۔ لیکن میں نہیں چاہتا کہ تاریخ ساری دنیا کو ہمیشہ یہ سناتی رہے کہ فارس کی فوج کو شکست ہوئی تو یزدگرد ماں کے ساتھ بھاگ کر کسی گمنام گوشے میں جا چھپا تھا ……میں مرد ہوں ماں!اب میرے راستے میں نہ آنا۔ مدائن کو بچانا میری ذمہ داری ہے۔‘‘

یزدگرد نے اپنی ماں کو رعایا کی ایک عام عورت کی حیثیت دے کر حکم دے دیا کہ وہ اپنے کمرے میں بند ہو جائے۔

٭

اس ایک فوجی عہدیدار کے پیچھے کئی اور فوجی جو قادسیہ سے بھاگے تھے اور گھوڑ سوار تھے مدائن میں داخل ہوئے ۔ان میں کئی زخمی تھے۔ وہ دہشت زدگی کے انداز میں مدائن کو لوگوں کو بتاتے آرہے تھے:

’’سب کٹ گئے……کوئی نہیں بچا۔‘‘

’’رستم مارا گیا۔ بہمن جادویہ مارا گیا۔ جالینوس مارا گیا۔‘‘

’’باقی سب جرنیل بھاگ گئے۔‘‘

’’عربی انسان نہیں وحشی درندے ہیں۔‘‘

’’ہزاروں ساتھی ڈوب گئے۔‘‘

’’اپنا بندوبست کر لو۔ وہ اِدھر آرہے ہیں۔‘‘

’’اپنا مال و دولت چھپا لو۔‘‘

وہ غلط تو نہیں کہہ رہے تھے۔ لیکن ان کا انداز ایسا تھا جیسے مسلمان واقعی خونخوار درندے ہوں اور انہوں نے ان فارسیوں پر بے خبری میں ساری فوج کو چیر پھاڑ دیا ہو۔ یہ شکست خوردہ سپاہی اپنے آپ کو بیگناہ ثابت کرنے کیلئے مظلومیت کا اظہار کر رہے تھے۔

شکست کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی ۔لوگوں پر خوف طاری ہوتا چلا گیا۔ جن لوگوں کے گھروں میں سونا چاندی اور ہیرے جواہرات تھے اور جن کی بیٹیاں جوان تھیں، انہو ں نے مال و متاع اور بیٹیوں کو لے کر شہر سے نکل جانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔

شہر کے چند ایک معززین شاہی محل کے سامنے جا پہنچے۔ انہیں دیکھ کر شہر کے باقی لوگ بھی وہاں جمع ہو نے لگے ۔ان سب نے نعرے لگانے شروع کر دیئے کہ انہیں یقین دلایا جائے کہ مدائن میں ان کے تحفظ کا انتظام موجود ہے۔

یزدگرد کو اطلاع ملی تو وہ باہر آگیا۔ معززین نے لوگوں کو خاموش کرایا اور یزدگرد کے ساتھ بات چیت کی۔

’’تمہیں کس نے بتایا کہ ہماری فوج کو شکست ہوئی ہے؟ ‘‘یزدگرد نے پوچھا۔

اسے بتایا گیا کہ اپنے کچھ فوجی آئے ہیں جن میں بعض زخمی بھی ہیں ۔معززین نے یزدگرد کو یہ بھی بتایا کہ ان فوجیوں نے کیسی کیسی باتیں سنا کر لوگوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔

یزدگرد نے حکم دے دیا کہ ان فوجیوں کو گرفتار کر کے قید خانے میں بند کر دیا جائے اور جو فوجی قادسیہ سے بھاگ کر مدائن آئیں، انہیں باہر روک کر یہ حکم سنایا جائے کہ شہر کے لوگوں کو قادسیہ کی کوئی بات نہ سنائی جائے اور شہر میں خوف و ہراس پھیلانے والوں کو سزا ئے قید دی جائے گی۔

’’……اور اے شہر کے لوگو!‘‘یزد گرد نے لوگوں سے خطاب کیا۔’’ کیا ان عربوں کو شکست دینے کا یہ طریقہ ہے کہ تم شہر چھوڑ کر بھاگ جاؤ ؟……جاؤ گے کہاں؟ جہاں جاؤ گے دشمن وہاں تک پہنچ جائے گا۔ تعاقب اسی کا کیا جاتا ہے جو بھاگتا ہے اور جو مقابلے میں سینہ سپر ہو جاتے ہیں وہ دشمن کو نہ صرف روک لیتے ہیں بلکہ اسے بھگا بھی دیا کرتے ہیں اور اس کاتعاقب کیاکرتے ہیں اور اسے اپنی سر زمین سے نکال کر دم لیا کرتے ہیں……‘‘

’’زرتشت کی قسم!عربوں کو تم بھگاؤ گے ۔وہ میدانِ جنگ ہے جس میں فتح بھی ہو سکتی ہے اور شکست بھی ،لیکن جنگ کا فیصلہ شہروں میں ہوا کرتا ہے اور کوئی محاصرے کی کامیابی کے بغیر فتح نہیں ہوا کرتا۔تم یہاں سے بھاگنے کے بجائے دشمن کے مقابلے کی تیاری کرو۔ میں تمہیں یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ عربی لشکر مدائن تک نہیں پہنچ سکے گا۔ وہ ابھی تک قادسیہ میں ہے۔ مدائن تک کئی جگہوں پر ہماری فوج موجود ہے۔ رستے میں دجلہ ہے۔ اگر دشمن دجلہ تک پہنچ بھی گیا تو دجلہ کے پُل توڑ دیں گے۔ وہاں ایک بھی کشتی نہیں چھوڑیں گے ۔عربی دریا عبور کریں گے ہی کس طرح؟……جاؤ، اپنے گھروں کو چلے جاؤ اور جنگ کی تیاری کرو۔ باقی انتظام مجھ پر چھوڑو۔‘‘

٭

یزدگرد نے مدائن کے لوگوں کو خوب گرمایا اور ان کے دلوں سے مسلمانوں کا خوف بہت حد تک اتار دیا۔ اس نے ایسے الفاظ استعمال کیے تھے کہ وہی لوگ جو ڈرے ڈرے سے اس کے پاس آئے تھے، وہ جوش و خروش سے نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے۔

یزدگرد واپس محل میں جا رہا تھا تو پوران آگئی ۔پہلے بیان ہو چکا ہے کہ پوران فارس کی ملکہ تھی، لیکن اسے ہٹا کر یزدگرد کو تخت پر بٹھایا گیا تھا ۔پوران کے متعلق جو تفصیلات پہلے بیان ہو چکی ہیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ وہ تخت و تاج میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتی تھی جتنی دلچسپی اسے فارس کے دفاع سے تھی۔ اسے اطلاع ملی کہ فارس کی فوج نے قادسیہ میں بہت بری شکست کھائی ہے اور تمام جرنیل میدان چھوڑ گئے ہیں اور کچھ مارے گئے ہیں۔ تو وہ یزدگرد کے پاس دوڑی آئی۔

یزدگرد عمر میں اس سے بہت چھوٹا تھا اور اس کا سوتیلا بھائی تھا۔ اس کے علاوہ پوران میں وہی قومی جذبہ تھا جو یزدگرد میں تھا۔ پوران نے یزدگرد کو اپنے بازوؤں میں لے کر گلے سے لگالیا۔یزدگرد پر جذباتیت کا ایسا غلبہ طاری ہوا کہ اس کے آنسو نکل آئے۔

’’مرد بنو یزدی!‘‘پوران نے یزدگرد سے کہا۔’’ نہ فتح سے اتنا خوش ہونا چاہیے نا شکست سے اتنا دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت ہے۔ تم اکیلے تو نہیں، ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘

’’لیکن ہمارے پاس رہ ہی کیا گیا ہے؟‘‘یزدگرد نے کہا۔ ’’جس قدر فوج اکٹھی ہو سکی وہ کر کے میں نے آگے بھیج دی تھی۔ مجھے پریشانی ہے تو صرف یہ ہے اتنی بڑی اور اتنے اچھے ہتھیاروں والی فوج صرف چالیس آدمیوں کی فوج سے شکست کس طرح کھا گئی؟‘‘

’’یہ مت سوچو ۔‘‘پوران نے کہا۔’’ اس شکست کی ذمہ داری رستم پر عائد ہو تی ہے۔ کیا تمہیں یاد نہیں کہ رستم کتنا عرصہ آگے جانے سے گریز کرتا رہا ہے ؟ یہ تم تھے جس نے اسے کچھ ڈرا دھمکا کر اور کچھ بہلا ورغلا کر میدانِ جنگ میں جانے کیلئے تیار کیا تھا۔‘‘

وہ دونوں آہستہ آہستہ چلتے محل میں داخل ہو گئے۔ یزدگرد پوران کو اپنے کمرے میں لے گیا ۔نورین وہاں پہلے سے موجود تھی۔

’’پوران!‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ میری ماں کو سنبھالو اور اسے سمجھاؤ کہ کہ میں اس تخت پر بیٹھ کر اور فارس کا تاج اپنے سر پر رکھ کر تمہارا بیٹا نہیں رہا۔ اب میں فارس کا فرزند ہوں۔ میرے خون کا ایک ایک قطرہ فارس کی آبرو کیلئے وقف ہو گیا ہے۔ میں فارس کے پہلے بادشاہوں کی طرح اپنے حریفوں کو قتل کرکے اس تخت پر قابض نہیں ہوا۔ مجھے رعایا لائی ہے اور رعایا نے میرے ساتھ کچھ توقعات وابستہ کی ہیں۔‘‘

’’ان باتوں کو الگ رکھو یزدری!‘‘پوران نے کہا۔’’ اور یہ مجھ پر چھوڑو۔ اس وقت سوچنے والی باتیں کچھ اور ہیں۔ تم جانتے ہو کہ میرا دو ہزار گھوڑ سواروں کا رسالہ ساباط میں ہے اور تمہیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ یہ رسالہ ابھی تک لڑائی میں شامل نہیں ہوا۔ میں اب اس رسالے کو مسلمانوں کے مقابلے میں استعمال کروں گی لیکن مسلمانوں کو آگے آنے دو۔ انہوں نے ساباط کے راستے سے ہی آنا ہے۔ میں اپنے رسالے کو ہدایات بھجوادوں گی کہ مسلمانوں کو کہاں اور کس طرح روکنا ہے۔

پوران نے جن دو گھوڑ سواروں کا ذکر کیا تھا، یہ ایک خاص رسالہ تھا ۔جس میں فوج کے منتخب اور جانباز قسم کے سوار شامل کیے جاتے تھے۔ اس رسالے کے ایک ساتھ ایک پالتو شیر بھی تھا جو اپنے مالکوں کے ساتھ تو مانوس تھا لیکن دشمن کیلئے وہ ویسا ہی تھا جیسے جنگل کے شیر ہوتے ہیں ۔اسے دشمن پر جھپٹنے کی تربیت خاص طور پر دی گئی تھی۔

اس رسالے کی ایک روایت یہ تھی کہ ہر صبح اس رسالے کے تمام گھوڑ سوار ایک جگہ جنگی تربیت سے اکٹھے ہوتے اور ایک مذہبی پیشوا ان کے سامنے کھڑا ہوتا۔ وہ ایک عہد کے الفاظ بلند آواز میں بولتا جاتا اور ہر گھوڑ سوار یہ الفاظ دہراتا جاتا تھا ۔یہ ایک عہد تھا کہ جب تک یہ رسالہ موجود ہے فارس کی سلطنت کو زوال نہیں آنے دے گا اور فارس کی عظمت کو ہمیشہ زندہ و تابندہ رکھے گا۔ اس رسالے کے روز مرہ کے معمولات اس عہد نامے سے شروع ہوتے تھے۔ اسے کسریٰ کا شاہی رسالہ کہا جاتا تھا۔

’’مجھے رستم کے مارے جانے کا بہت افسوس ہے۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ اس جیسا فوجی قائد کم ہی ملے گا۔‘‘

’’نہیں یزدی!‘‘پوران نے کہا۔’’ مجھے اس شخص کے مرنے کا ذرا سا بھی غم نہیں۔ مجھ سے ایک بھول ہو ئی تھی۔ میں نے فارس کے دفاع کی خاطر تمام اختیارات رستم کو دے دیئے تھے ۔میں نے صاف طور پر محسوس کیا کہ اس شخص کی نگاہیں تخت و تاج پر لگی ہوئی ہیں ۔عورت اس کی کمزوری تھی۔ میں یہ بات کہنے میں ذراسی بھی شرم محسوس نہیں کروں گی کہ وہ مجھے ہر وقت ساتھ رکھتا تھا۔ اکثر راتوں کو بھی وہ مجھے اپنے کمرے میں جانے نہیں دیتا تھا۔ وہ فارس کا تاج اپنے سر پر رکھنے کیلئے زندہ رہنے کی کوشش میں تھا ۔بہرحال وہ اچھا تھا یا برا، مر گیا ہے۔ مرے ہوؤں پر آنسو بہانے کا یہ وقت نہیں۔ اب یہ سوچنا ہے کہ ہم جو زندہ ہیں ،ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ تم اکیلے غم نہ کرو۔ تم ابھی جوان ہو ۔ہم نے جو دیکھا ہے وہ تم نے نہیں دیکھا ۔میں اب تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گی۔‘‘

پہلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ پوران گھوڑے پر سوار ہو کر فارس کے ہر اس شہر کی گلیوں میں گھوڑا دوڑاتی پھرتی اور لوگوں کے حوصلے بڑھاتی اور انہیں شہر کے دفاع کیلئے تیارکرتی رہتی تھی، جہاں مسلمان حملہ کرتے تھے۔ اب اس نے وہی کام پھر شروع کر دیا۔ مدائن بہت بڑا شہر تھا۔ پوران گھوڑے پر سوار کسی ایک جگہ جا رُکتی۔ لوگ اس کے اردگرد اکٹھے ہو جاتے اور وہ لوگوں کو سلطنت ِ فارس پر مر مٹنے کیلئے بڑے ہی جذباتی الفاظ میں تیار کرتی تھی۔

٭

دوسرے دن یزدگرد کو اطلاع دی گئی کہ ایک ضعیف العمر سفید ریش ملنا چاہتا ہے۔ یزدگرد نے اسے اندر بلا لیا۔ اس بزرگ کی سفید داڑھی چاندی کے تاروں کی طرح چمک رہی تھی۔ اس کا جھریوں بھرا چہرہ گورا اور آنکھیں سبز تھیں ۔جن میں ایساتاثر تھا جو دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا۔ اس کے سر پر کپڑے کی ایک گول ٹوپی تھی۔ اس نے کالے رنگ کا ایک چغہ پہن رکھا تھا۔ اس کے ہاتھ میں عصا اور دوسرے ہاتھ میں پندرہ بیس دانوں کی تسبیح تھی۔

وہ بلا شبہ مذہنی پیشوا تھا لیکن یہ آتش پرست نہیں ہو سکتا تھا ۔آتش پرست راہبوں کا لباس اس قسم کا نہیں ہوتا تھا۔ یزدگرد فارس کا شہنشاہ تھا ۔اس کے سامنے آنے والے رکوع میں جاتے پھر سلام کیا کرتے تھے۔ لیکن اس بزرگ کا اس نے اٹھ کر استقبال کیا ۔

’’آئیے مقدس راہب! ‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ آپ یقینا یہودی ہیں……آپ کی عبادت گاہ میں ہماری طرف سے کوئی مداخلت تو نہیں ہوتی؟‘‘

’’نہیں شاہِ فارس!‘‘یہودی راہب نے کہا۔’’ میں نے اپنے گھر میں ہی عبادت گاہ بنا رکھی ہے ۔یہودیوں کی یہاں تعداد ہی کتنی ہے کہ عبادت گاہ تعمیر کی جائے۔ میرے گھر میں ہی یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ آپ کے زیرِ سایہ ہمیں کوئی تکلیف نہیں۔‘‘

’’مقدس راہب!‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ آپ شاید ہماری شکست پر اظہارِ افسوس کرنے آئے ہیں ……کیا آپ ہماری فتح کیلئے دعا نہیں کرتے؟‘‘

’’ہم ہر روز آپ کیلئے دعاکرتے ہیں۔‘‘ یہودی راہب نے کہا۔’’ ہم آپ کے وفادار ہیں اور فارس ہمارا وطن ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں کچھ عرض کروں۔ میں اپنا فرض ادا کرنا چاہتا ہوں ۔ہو سکتا ہے کہ آپ کو میری کوئی بات بری لگے۔‘‘

’’اگرآپ فارس کی بھلائی کی بات کریں گے تو مجھے کوئی بات بری نہیں لگے گی۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ آپ نے زمانہ دیکھا ہے۔ نہ جانے زمانے کے کتنے رنگ دیکھے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ عام سے روائتی ہتھیاروں سے مسلح چالیس ہزار آدمیوں نے اتنے اچھے ہتھیاروں سے مسلح ایک لاکھ بیس ہزار کے لشکر کو شکست کس طرح دی ہے ۔ان عربوں نے ہاتھیوں تک کو کاٹ کر دریا میں ڈبو دیا ہے اور یہ بھی میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ رستم کس طرح مارا گیا۔‘‘

’’میں میدانِ جنگ کے تمام حالات سے واقف ہوں۔‘‘ یہودی راہب نے کہا۔’’ صرف قادسیہ ہی نہیں مسلمانوں نے یہاں آکر جتنی لڑائیاں لڑی ہیں میں ان سب کے حالات بیان کر سکتا ہوں۔ ان دو تین دنوں میں مَیں نے قادسیہ کی جنگ کی ہر بات معلوم کر لی ہے ……رستم قسمت اور ستاروں کے چکر میں پڑ گیا تھا اور زائچے اور فالنامے نکال نکال کر اپنی پیش گوئیاں سب کو سناتاتھا۔ اس کی پیش گوئی یہ تھی کہ سلطنتِ فارس کا انجام اچھا نہیں ہو گا……

یہ پیش گوئی ساری فوج میں پھیل گئی ۔اس کا یہی اثر ہو نا تھا جو آپ نے دیکھ لیاہے۔ ہماری فوج اس لئے بھاگ اٹھی کہ فارس کا انجام تو برا ہونا ہی ہے تو ہم اپنی جانیں اور خون کیوں ضائع کریں؟‘‘

’’تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رستم کی پیش گوئی غلط ہے؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔

’’بالکل غلط!‘‘یہودی راہب نے جواب دیا۔’’ کیا آپ کو یاد نہیں کہ وہ جنگ میں جانے سے ہچکچا رہا تھا ؟ آپ نے اسے دھمکی دی کہ وہ نہیں جائے گا تو آپ خود فوج لے کر مسلمانوں کے خلاف چلے جائیں گے تب اس نے ایسا سوچا کہ ایسا ہو گیا تو فارس کے لوگ اس کے خلاف ہو جائیں گے۔ وہ فوج لے کر نکل گیا لیکن اس نے ایک دن کی مسافت چار مہینوں میں طے کی ۔وہ قادسیہ تو پہنچ گیا لیکن مسلمانوں کے ساتھ صلح سمجھوتے کی بات شروع کر دی……

میں نے کہا کہ اس کی یہ پیش گوئی غلط تھی کہ سلطنتِ فارس کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ یہ دراصل اس کے اپنے دل کی آواز تھی۔ اس لیے وہ لڑنا ہی نہیں چاہتا تھا ۔لڑنے میں شکست کا خطرہ بھی تھا اور قتل ہونے کا بھی۔ اسے فارس سے نہیں بلکہ اپنی ذات سے محبت تھی۔ اس نے بہت لڑائیاں لڑی تھیں مگر اب وہ اپنے آپ کو انعام دینا چاہتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ا س نے اپنے آپ کو فارس کا بادشاہ بنا لیا تھا۔ اس کی یہ خواہشات اور اس کے یہ ارادے یہ پیش گوئی اختیارکر گئے کہ سلطنتِ فارس کا انجام اچھا نہیں ہو گا……

آپ پوچھتے ہیں کہ ان تھوڑے سے مسلمانوں نے اتنے بڑے لشکر کو شکست کس طرح دے دی ہے؟ وجہ بالکل صا ف ہے ۔مسلمان ایک عقیدے پر یقین رکھتے ہیں۔ انہو ں نے اپنی قسمت ستاروں کے ساتھ وابستہ نہیں کی ہوئی، بلکہ اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے۔ ان کے دلوں میں اﷲ اور محمد)ﷺ(کی محبت اور عقیدت ہے ۔جسے وہ اﷲ کا رسول)ﷺ(مانتے ہیں۔ رستم نے اپنی ذات کو سامنے رکھا لیکن مسلمان اپنی ذات سے بے نیاز ہیں……

میں آپ کو ایک راز کی بات بتانا چاہوں گا۔ آپ مسلمانوں سے اس لئے لڑتے ہیں کہ وہ آپ کے ملک پر قبضہ نہ کر لیں لیکن ہم یہودیوں کی لڑائی مسلمانوں کیخلاف ایک عقیدے اور ایک نظریئے کی خاطر ہے۔ آپ میدانِ جنگ میں لڑتے ہیں مگر ہم زمین کے نیچے سے وار کرتے ہیں ۔ہمارے آدمی کسی نہ کسی بہروپ میں کسی سرکردہ مسلمان کے ساتھ دوستی کرتے ہیں۔ بڑی ہی خوبصورت اور تربیت یافتہ لڑکیوں کو جال میں دانے کے طورپر استعمال کرتے ہیں ۔خوبصورت عورت ہی مرد کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں کامیابی نہیں ہوئی ۔جہاں بھی ہم نے یہ طریقہ اختیار کیا وہاں ہماری لڑکی نے مسلمانوں کے کردار سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ یا اس کی اصلیت بے نقاب ہو گئی اور وہ قتل ہو گئی، یا اس کے ساتھ ہم نے جوایک دو آدمی مسلمانوں کے بہروپ میں بھیجے وہ مارے گئے ……

ان کے رسول))ﷺ(کی زندگی کا واقعہ ہے۔ مکہ والوں نے مدینہ پر حملہ کیا تھا۔ مسلمانوں نے مدینہ کے اردگرد خندق کھود لی تھی اور مکہ والے باہرکھڑے رہ گئے۔ میں اس وقت وہاں نہیں تھا۔ ہمارے بہت سے یہودی مدینہ میں تھے۔ انہوں نے محمد)ﷺ(کو اپنی وفاداری کا دھوکا دیا اور محمد)ﷺ(نے انہیں اپنا دوست سمجھ کر مدینہ میں ہی رہنے کی اجازت دے دی۔ مسلمانوں نے اپنی عورتوں او ر بچوں کو ایک کشادہ مکان میں منتقل کر دیا تاکہ قریش مکہ کہیں رات کو خندق پھاند کر اندر آجائیں تو عورتیں اور بچے محفوظ رہیں……

یہودیوں نے اپنے ایک آدمی کو تلوار دے کر اس کام کیلئے بھیجا کہ وہ کسی طرح اس حویلی کے اندر جا کر ایک دو عورتوں یا بچوں کو قتل کر دے اور بھاگ آئے ۔مقصد یہ تھا کہ عورتوں اور بچوں میں بھگدڑ مچ جائے گی،اور وہاں سے شورشرابا اٹھے گا تو مسلمان خندق سے ہٹ کراس مکان کی طرف دوڑیں گے ،تو ان کی غیر حاضری میں مکہ والے خندق کے اندر آجائیں گے۔ خندق کو پھاندنا آسان نہیں تھا۔ لیکن کچھ جگہ ایسی تھی جہاں خندق نہیں تھی۔ اس طرف مسلمانوں نے اپنی خاصی تعداد بٹھا رکھی تھی۔ اگر ہمارا آدمی کامیاب ہو جاتا تو اہلِ قریش اس طرف سے مدینہ میں داخل ہو جاتے۔ لیکن ہمارے آدمی کو کسی نے اس مکان کے قریب مشکوک حالت میں دیکھ لیا اور اسے وہیں قتل کر دیا ۔قتل کسی آدمی نے نہیں کیا بلکہ ایک عورت نے کیا، اور یہ عورت محمد)ﷺ(کی پھپھی تھی۔ یہودیوں نے اس آدمی کے قتل ہو جانے کے باوجود مکہ والوں کو مدد دینے کی اور مسلمانوں کو شکست دلوانے کی بہت کوشش کی تھی۔ یہ کوشش خفیہ تھی پھر بھی مسلمانوں کو اس کا علم ہو گیا۔ محمد)ﷺ(نے اس کی پاداش میں مدینہ کے تما م یہودیوں کو قتل کروادیا ۔اس کے باوجود یہودی جہاں بھی تھے ،وہاں انہوں نے مسلمانوں کی پیٹھ پر وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔‘‘

’’مقدس راہب! ‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ میں آپ کی ساری بات سمجھ گیا ہوں اور یہ میں پہلے سے ہی جانتا تھا کہ مسلمانوں کا سب سے برا دشمن اگر کوئی ہے تو وہ یہودی ہے ۔آپ مجھے باتیں نہ سنائیں ۔اس وقت ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کو روکا جائے کہ وہ دجلہ پار نہ کر سکیں۔‘‘

’’ہاں شہنشاہِ فارس!‘‘یہودی راہب نے کہا ۔’’میں اسی لیے حاضر ہوا ہوں کہ مسلمانوں کی پیش قدمی کو پسپائی میں تبدیل کر دیا جائے ۔میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ مرد کی دو سب سے بڑی کمزوریاں مسلمانوں کے خلاف بیکار اور ناکام ہو چکی ہیں۔ ایک شراب ہے اور دوسری عورت۔ مسلمان مالِ غنیمت میں ہر ایک چیز اکٹھی کر لیتے ہیں لیکن شراب کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو‘ وہ پھینک دیتے ہیں اور ان برتنوں کوبھی نہیں اٹھاتے جس میں شراب ہوتی ہے۔ وہ عورتوں کو تو لے جاتے ہیں مگر انہیں مدینہ بھیج دیتے ہیں اور ان کے حقدار وہی ہوتے ہیں جو ان کے ساتھ باقاعدہ شادی کر لیتے ہیں۔ ہمارے پاس جادو ہے جو ہم آزمانا چاہتے ہیں ۔لیکن اس کیلئے جو اشیاء درکارہیں وہ اکٹھی کرنے اور ان پر عمل وغیرہ کرنے کیلئے بہت دن لگیں گے ۔اگر آپ یہ اشیاء مہیا کر دیں تو ہم ایسا جادو کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے سپہ سالار اندھے ہو جائیں گے۔ اندھے صرف جسمانی طور پر نہیں ہوں گے بلکہ وہ عقل کے بھی اندھے ہو جائیں گے۔‘‘

’’فوراً بتائیں ۔‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ آپ کو کیا کیا چیز چاہیے؟‘‘

’’ایک نوخیز لڑکی۔‘‘ بوڑھے راہب نے کہا۔ ’’ایک نوزائیدہ بچّہ جس کی عمر تین دنوں سے زیادہ نہ ہو۔ دو الّو……یہ توہیں جاندار اشیاء۔ دوسری چیزیں جو درکار ہیں وہ ہم اکٹھی کر لیں گے۔‘‘

یزدگرد نے اسی وقت حکم دے دیا کہ یہ اشیاء یہودیوں کی عبادت گاہ میں فوراً پہنچا دی جائیں۔

یہودی راہب چلا گیا۔

یہ پہلا واقعہ نہیں تھا کہ یہودی مسلمانوں پر زمین دوز وار کر رہے تھے۔ اسلام کے خلاف یہودی فتنے کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں ۔اس کے بعد بھی یہودیوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کیلئے کئی ڈھنگ کھیلے ۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ ایک طرف یہودی جادو کا حربہ استعمال کر رہے تھے لیکن دوسری طرف مسلمانوں نے جو کامیابی حاصل کی تھی وہ تو کسی جادو کا ہی کرشمہ لگتا تھا ۔مسلمانوں کی تعداد جنگِ قادسیہ کی ابتداء میں چالیس ہزار تھی ۔انہیں چھ ہزار کی کمک ملی۔ اس ساری تعداد میں سے آٹھ نو ہزار مجاہدین شہید ہو گئے تھے ۔زخمیوں کی تعداد بے شمار تھی جن میں تقریباً آدھے مجاہدین لڑنے کے قابل نہیں رہے تھے۔اس کے باوجو د وہ مدائن کی طرف بغیر آرام کئے پیش قدمی کررہے تھے ۔بظاہر وہ کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے تھے۔

امیر المومنین حضرت عمرؓ نے سعد ؓبن ابی وقاص کو حکم بھیجا تھا کہ جب تک ان کا اگلا حکم نہ پہنچے، وہ قادسیہ میں ہی رہیں۔ البتہ اپنے دستے آگے ضرور بھیجیں ۔تاکہ فارسی کہیں اکٹھے نہ ہو سکیں۔

ان دو مہینوں میں حضرت عمرؓ اور سعدؓ کی آپس میں خاصی پیغام رسانی ہوئی۔ دو مہینے پورے ہوئے تو ایک روز سعدؓ بن ابی وقاص نے ایسے محسوس کیا جیسے ان کا درد غائب ہو گیا ہو۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے چلے اور کمرے میں چلتے ہی رہے ۔ان کا درد واقعی ختم ہو چکا تھا ۔انہوں نے جسم کو ہر طرح سے حرکت دی ۔یہاں تک کہ بالا خانے سے اترے ، اپنے گھوڑے پر بیٹھے ،گھوڑے کو چلایا بھی تو انہیں کوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی ۔تمام مؤرخوں نے اس معجزے کا ذکر کیا ہے۔ سعدؓ بن ابی وقاص لڑائی کیلئے تیار ہو گئے۔ انہوں نے اور سلمیٰ نے سجدے میں جاکر اﷲ کا شکر اداکیا۔

٭

فارس کا نوجوان اور وطن کی محبت میں دیوانہ شہنشاہ یزدگرد محل کے باہر پچاس ساٹھ آدمیوں کے سامنے کھڑا تھا۔ یہ سب زخمی تھے۔ زخمی بھی ایسے کہ لڑنے کے قابل نہیں رہے تھے ۔یہ قادسیہ سے مدائن تک بڑی ہی مشکل سے پہنچے تھے۔ انہیں یزدگرد نے قادسیہ کی لڑائی کی تفصیلات معلوم کرنے کیلئے بلایا تھا۔ ان میں سے جوبھی بولتا تھااس کی آواز کانپتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔

’’کیا تم مجھ سے ڈر رہے ہو یا تم پر عربوں کا خوف سوار ہے؟‘‘ یزدگرد نے ان کی باتیں سن کر پوچھا۔

کوئی بھی نہ بولا ۔یزدگرد نے شاہانہ رعب سے اپنا سوال دہرایا۔

’’ہاں شہنشاہ!‘‘ان میں سے ایک نے کہا۔’’ ہم آپ سے بھی ڈر رہے ہیں اور ہمارے دلوں پر عربوں کا خوف بھی موجود ہے۔‘‘ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ عربوں کے پاس کوئی جادو ہے۔ ان کی تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ لڑائی میں ہمارے لشکر کے درمیان وہ نظر نہیں آتے۔ لیکن کٹ کٹ کر گرتے ہیں تو ہمارے آدمی گرتے ہیں۔ ہمارے پانچ سو چنے ہوئے جانباز گئے کہ عربوں پر شبخون ماریں گے۔ لیکن وہ راستے میں ہی عربوں کا شکار ہو گئے۔ پھر ہمیں حکم ملا کہ علی الصبح عربوں پر حملہ کرنا ہے، جب وہ نماز پڑھ رہے ہوں گے۔ لیکن نماز کے وقت ہم نے انہیں لڑائی کیلئے تیار پایا ۔اس کے بعد جو لڑائی ہوئی وہ میں بتا نہیں سکتا کہ کیالڑائی تھی۔

’’شہنشاہِ فارس!‘‘ایک ادھیڑ عمر فوجی جو عہدیدار تھا بولا۔’’جاں بخشی کی التجا کرتا ہوں‘ آپ ہمیں بزدلی کی سزا دیں۔ ہمیں قبول ہے ۔ایک گزارش سن لیں ،آپ کے اس غلام نے بہت لڑائیاں لڑی ہیں لیکن یہ پہلی لڑائی ہے جس میں میرے دل پر خوف طاری ہو گیا تھا اور مجھے یقین ہونے لگا تھا کہ عرب کے ان مسلمانوں کے پاس کوئی جادو ہے۔ وہ بے خوفی اور بے جگری سے لڑتے ہیں ۔یہ کوئی جادو نہیں شہنشاہِ فارس!جادو یہ ہے کہ لڑائی شروع ہوئی تو بڑی ہی زبردست آندھی آگئی ۔ایسی زبردست کہ اس میں لڑائی ممکن ہی نہیں تھی ۔آندھی اس طرف سے آرہی تھی جس طرف مسلمان تھے……

آندھی گردوغبارکی طرح جو زمین سے آسمان تک اونچی تھی، اُفق سے اٹھی تو مسلمانوں کے لشکر سے نعرے اٹھنے لگے ۔اﷲ کی مدد آرہی ہے……اﷲ کی مدد آرہی ہے……آندھی ایسی خوفناک کہ بڑے مضبوط ٹہن ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے۔ اس کی چیخیں اتنی خوفناک کہ دل دہل رہے تھے ۔آندھی صحرا کی جو ریت اپنے ساتھ لاتی تھی ،وہ ہماری آنکھیں کھلنے نہیں دے رہی تھی۔ گھوڑوں کی آنکھوں میں بھی ریت اور مٹی پڑتی تھی۔ آندھی کے زناٹوں اور چیخوں سے گھوڑے بھی بدکتے تھے۔‘‘

’’ریت عربوں کی آنکھوں میں بھی پڑتی تھی۔‘‘ یزدگرد نے غصیلی آواز میں کہا۔’’ ان کے گھوڑوں کی بھی آنکھیں نہیں کھلتی تھیں ۔ان کے گھوڑے بھی بدکتے تھے ۔آندھی صرف تمہارے لیے نہیں آئی تھی۔‘‘

’’شہنشاہِ فارس!‘‘اس ادھیڑ عمر فوجی عہدیدار نے کہا۔’’ میں جانتا ہوں میری جان بخشی نہیں ہو گی ، پھر میں وہ سب کچھ زبان پر لے ہی کیوں نہ آؤں جو میں کہنے سے ڈرتا تھا……اس آفتاب کی قسم!ہم جس کے پجاری ہیں، عرب کے سالاروں کی آنکھوں میں بھی ریت پڑتی تھی لیکن ان کی عقل کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں ۔وہ گھوڑوں کو لڑائی میں لائے ہی نہیں تھے ۔ان کے تمام گھوڑ سوار گھوڑوں سے اتر آئے اور پیادوں کی طرح لڑے تھے ……

اِدھر ہمارے جرنیل آندھی سے بچتے پھرتے تھے۔ اُدھر سالار پیادے بن گئے تھے اِدھر رستم تخت پر بیٹھا حکم دے رہا تھا۔ اس کا خیمہ آپ کے اس محل سے کم نہ تھا۔ آخر ہوا کیا؟کپڑے کے اس محل کو آندھی اُڑا کر لے گئی اور رستم مارا گیا۔ اس کا تخت مسلمان لے گئے ۔میں ہی نہیں ،جو فوج بچ گئی ہے اس میں یہی مشہور ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کے پاس کوئی جادو ہے اور وہ آندھی جادو کے زور پر لائے تھے۔‘‘

پچاس ساٹھ فوجی جو یزدگرد کے سامنے کھڑے تھے ،وہ سب کہتے تھے کہ قادسیہ کی لڑائی کا انجام جادو کا کرشمہ ہے۔

کئی مؤرخوں نے لکھا ہے کہ آتش پرست رمل فال اور علمِ نجوم کی پیشن گوئیوں کو بہت مانتے تھے ۔یزدگرد فارس کے معاملے میں بہت جذباتی تھا۔ وطن پرستی اس کی روح میں اتری ہوئی تھی۔ وہ جوش و خروش سے پھٹا جاتا تھا لیکن اس کے کانوں میں بار بار یہ الفاظ پڑے یہ جادو ہے یہ جادو ہے تو ا س کے چہرے کے تاثرات بدل گئے ۔اس نے ان زخمی فوجیوں کو جانے کی اجازت دے دی اور اپنے وزیر سے مخاطب ہوا۔

’’کیا وہ یہودی راہب کچھ کر رہا ہے؟ ‘‘یزدگرد نے وزیر سے پوچھا۔’’ کیا وہ کچھ کر لے گا؟……اس نے ایک لڑکی مانگی تھی اور شاید اس نے دو الّو بھی کہے تھے۔‘‘

’’ہاں شاہِ فارس!‘‘وزیر نے کہا۔’’جادوگری کے ماہر یہودی ہی ہیں۔ پوران اور آپ کی والدہ ایک لڑکی کا انتظام کر رہی ہیں……شاہِ فارس!میں آپ کے داداکی عمر کا ہوں۔ دنیا کے جو رنگ میں نے دیکھے ہیں وہ آپ نے سنے بھی نہ ہوں گے۔ میں نے ان عربی مسلمانوں کو پہلے بھی یہاں آتے دیکھا ہے۔ اس وقت ان کے سالار مثنیٰ بن حارثہ اور خالد بن ولید تھے ۔انہوں نے مدائن تو لے ہی لیا تھا۔ اگر ان دونوں سالاروں کو شام کے محاذ پر نہ بھیج دیا جاتا تو آج ہم عربوں کے غلام ہوتے۔‘‘

’’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں!‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ دنیا کے جو رنگ آپ نے دیکھے ہیں وہ میں نے نہیں دیکھے۔ آپ دنیا میں مجھ سے بہت پہلے آئے تھے ……میرے باپ سے بھی پہلے……مجھے یہ بتائیں میں آج جو رنگ دیکھ رہا ہوں اس میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘

’’ہاں شہنشاہ! ‘‘معمّر وزیر نے کہا۔’’ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے عربوں کی تلوار کی کاٹ پہلے بھی دیکھی ہے اور اب بھی دیکھ رہا ہوں۔‘‘

’’یہ تو میں بھی دیکھ رہا ہوں۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔

’’میں کہنا یہ چاہتا ہوں۔‘‘ بوڑھے وزیر نے کہا ۔’’جہاں اس طرح تلوار چلتی ہے کہ لشکر بھاگ اٹھیں ‘وہاں جادو نہیں چلا کرتے۔‘‘

’’اگر یہ یہودی راہب جادو چلا لیں تو کیا برائی ہے؟‘‘

’’اس راہب کو ضرور موقع دیں شہنشاہ!‘‘بوڑھے وزیر نے کہا۔’’ لیکن اسی پر بھروسہ نہ کریں۔ بکھری ہوئی فوج کو اکٹھا کریں اور مدائن لے آئیں۔ مسلمانو ں کو محاصرہ کرنے دیں۔ ہم انہیں محاصرے میں ہی مار لیں گے۔ لیکن میں پھر کہوں گا کہ جادو پر ہی بھروسہ کرکے نہیں بیٹھ جانا۔‘‘

٭

’’میرے رفیقو!‘‘سعدؓ بن ابی وقاص قادسیہ کے قدیس محل میں اپنے سالاروں سے کہہ رہے تھے ۔’’طالوت اور جالوت کا معرکہ یاد کرو جو اﷲ نے قرآن میں بیان فرمایا ہے۔ پھر جب طالوت اور اس کے مومنین ساتھی دریا پار کر کے آگے بڑھے تو انہوں نے طالوت سے کہا کہ ہم میں جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں لیکن ان میں جو لوگ سمجھتے تھے کہ انہیں ایک روز اﷲ کے حضور حاضر ہو نا ہے انہوں نے کہا کہ بارہا یوں ہوا ہے کہ چھوٹی سی جماعت ایک بہت بری جماعت پر غالب آگئی۔ اﷲ استقلال رکھنے والوں کے ساتھ ہے اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلے کیلئے نکلے تو انہوں نے اﷲ سے دعا کی اے ہمارے رب!ہم پر صبرو استقلال کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے، اور ان کفار پر ہمیں فتح عطا فرما۔ اﷲ کے حکم سے انہوں ے نے کفارپر فتح پائی اور داؤد نے جالوت کر قتل کر دیا۔ اﷲ نے داؤد کو بادشاہی اور دانائی بخشی ۔اگر اﷲ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا۔ ملک تباہ ہو جاتا۔ اﷲ دنیا والوں پر مہربان ہے……

ایساہی حال ہمارا تھا۔ ہم میں کون ہے جس نے یہ نہیں سوچا ہو گا کہ اتنی تھوڑی تعداد سے اور ایسے تھکے ہوئے جسموں سے ہم اتنے بڑے لشکر کے سامنے ٹھہر ہی کس طرح سکیں گے ۔ہم جادوگر تو نہیں تھے کہ دشمن کو اندھا کر دیتے ۔ہم میں سے کوئی ساحر بھی نہیں تھا جو دشمن کے جرنیلوں پر سحر طاری کر کے ان سے ہتھیار ڈلوالیتا لیکن تم سب نے اﷲ کا یہ فرمان یاد رکھا کہ تم اﷲ کو یاد رکھو اﷲ تمہیں یاد رکھے گا ۔تم اﷲ کی مدد کرو اﷲ تمہاری مدد کرے گا……اﷲ نے تمہاری یہ مدد کی کہ تیز و تند آندھی بھیج دی……

اﷲ کی راہ میں ثابت قدم رہنے والے فتح و نصرت سے اسی طرح فیض یاب ہوا کرتے ہیں جیسے یہ جادو اور سحر کا شعبدہ ہو ۔لیکن یہ اﷲ کا کرشمہ ہے اور یہ اﷲ کا وعدہ ہے جو اس کی ذاتِ باری نے پورا کیا ہے۔ مجھے دیکھو جو اٹھ کر بیٹھنے سے معذور ہو گیاتھا ۔اب دیکھو‘ میں یوں محسوس کر رہا ہوں جیسے کبھی بیمار ہوا ہی نہیں تھا ……ہماری منزل مدائن ہے ۔آرام کیلئے کوئی وقت نہیں ۔ دشمن کو کہیں بیٹھ کر سستانے نہ دو۔‘‘

حضرت عمرؓ کا حکم آچکا تھا کہ سعدؓ بن ابی وقاص بھی مدائن کی طرف کوچ کریں۔ تاریخ کے مطابق امیر المومنینؓ نے اس حکم میں یہ بھی لکھا تھا کہ مجاہدین کے بیوی بچے اور دیگر رشتہ دار خواتین کو عتیق کے مقام پر چھوڑ دینا اور ان کی حفاظت کیلئے مجاہدین کی ایک جماعت کو ان کے ساتھ ہی رہنے دینا۔

علامہ بلاذری نے لکھا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمرؓ کو حقوقِ انسانی کا خصوصاً مجاہدین کے حقوق کا اتنا زیادہ خیال ہوتا تھا کہ انہوں نے اپنے حکم میں یہ بھی لکھا کہ خواتین اور بچوں کی حفاظت کیلئے جو مجاہدین پیچھے رہ جائیں گے ان کے متعلق یہ نہ سوچنا کہ یہ لڑائی میں شامل نہ ہوں گے ،اس لیے مالِ غنیمت میں ان کا حصہ نہیں ہو گا یا کم ہو گا۔ انہیں مالِ غنیمت کا دوسرے مجاہدین کے برابر حصہ دینا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔