جمعرات، 7 مئی، 2015

’’حجاز کی آندھی‘‘ پارٹ تھری

0 comments


فارس کے دارالحکومت مدائن کے محل کے ایک کمرے میں فارس کا نامور جرنیل رستم تیز تیز ٹہل رہا تھا۔ وہ ایک دیوار سے دوسری دیوار تک جاتا اور واپس آجاتا تھا۔ کبھی چلتے چلتے رک جاتا اور ایک ہاتھ کا گھونسہ دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتا۔ کبھی رک کر سر جھکا لیتا۔ کسی سوچ میں محو ہو جاتا اور اچانک چل پڑتا ۔ اس کے انداز میں عتاب تھا۔

اس کی رہائش شاہی محل سے کچھ دور تھی۔ تفصیل سے پڑھئے

وہ بھی ایک محل تھا لیکن ملکہ ٔفارس پوران شہزادی کے کہنے پر وہ شاہی محل میں آگیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ عرب اور فارس خونریز اور بڑی ہی شدید جنگ میں الجھے ہوئے تھے اور یہ جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی تھی۔ فیصلہ فارس کے خلاف ہوتا نظر آتا تھا۔ کسی بھی لڑائی میں فارس کی فوج مسلمانوں کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکی تھی۔ پوران نے اسے کہا تھا کہ محاذوں سے قاصد آتے ہیں تو پہلے تہارے پاس آتے ہیں ‘پھر تم میرے پاس آتے ہو۔

’’کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم اکٹھے رہیں؟‘‘ پوران نے رستم سے کہا تھا۔’’ تمہاری طرح میں بھی راتوں کو سو نہیں سکتی۔ جنگ کی اگلی خبر کے انتظار میں جاگتی رہتی ہوں۔‘‘

’’ہاں ملکۂ فارس !‘‘رستم نے کہا تھا۔’’ یہی بہتر ہے کہ ہم اکٹھے رہیں…… ہم اس رات چین کی نیند سوئیں گے جس رات ہمیں یہ اطلاع ملے گی کہ آخری مسلمان کا خون سر زمینِ فارس پر بہا دیا گیا ہے۔‘‘

’’ہم دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔‘‘ پوران نے جذباتی سے لہجے میں کہا تھا۔’’ اور کیا تم ضروری سمجھتے ہو کہ مجھے ملکہ ٔفارس کہو؟ پوران کہا کرو۔ ہم دونوں کا جذبہ ایک ہے۔ فارس جتنا میرا ہے اتنا ہی تمہارا ہے۔‘‘

رستم نے اس کی طرف دیکھا ‘بولا وہ کچھ بھی نہیں تھا۔

پوران نو خیز لڑکی نہیں تھی۔ جوانی کے آخری حصے میں تھی۔ لیکن بادشاہ کی بیٹی تھی اس لیے عمر سے کم لگتی تھی اور وہ فارس کے حسن کا نمونہ تھی۔ اس کے دل میں عربی مسلمانوں کی نفرت اور فارس کی محبت اتنی زیادہ تھی کہ وہ بھول ہی جاتی تھی کہ وہ حسین اور دلکش عورت ہے۔

اس روز جب رستم محل کے ایک کمرے میں غصے اور تفکر کی کیفیت میں ٹہل رہا تھا، اس وقت پوران مدائن کی شہرِ پناہ پر کھڑی اس طرف دیکھ رہی تھی۔ جدھر سے قاصد آیا کرتے تھے۔

’’ملکۂ فارس!‘‘اسے اپنے عقب میں آواز سنائی دی۔

اس نے گھوم کر دیکھا۔ اس کے قریب قلعدار کھڑا تھا۔

’’اگر ملکہ قاصد کے انتظار میں ہیں تو نیچے چلی جائیں۔ ‘‘قلعدار نے کہا۔’’ قاصد آچکا ہے اور وہ سیدھا رستم کے پاس گیا تھا۔‘‘

’’رستم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟‘‘ پوران نے کہا۔

’’اس سوال کا جواب میں کیسے دے سکتا ہوں ملکہ معظمہ! ‘‘قلعدار نے کہا ۔’’ میں بھی رستم کے پائے کا جرنیل ہوں۔ محاذ سے آنے والے قاصد کو دور سے دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ یہ اچھی خبر لا رہا ہے یا بری۔ میں نے اس قاصد کو دیوار کے اوپر سے دیکھا تھا۔ اس کا چہرہ اور اس کے گھوڑے کی چال بتا رہی تھی کہ خبر اچھی نہیں۔‘‘

’’خبر جو بھی آتی ہے اچھی نہیں ہوتی۔‘‘ پوران نے اپنے آپ سے بات کرنے کے انداز سے کہا اور دوڑتی ہوئی شہرِ پناہ سے اتر گئی۔

نیچے اس کا گھوڑا کھڑا تھا ۔وہ گھوڑے پر سوا ر ہوئی اور ایڑ لگا دی

٭

رستم نے دربان کو بلایا۔

’’جالینوس سے کہو فوراً میرے پاس آئے۔‘‘ رستم نے دربان کو حکم دیا۔

دربان باہر نکلا تو کچھ ہی دیر بعد دروازہ بڑی زور سے کھلا۔ رستم کمرے میں کھڑا تھا اور دروازے کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔

’’آگئے جالینوس! ‘‘رستم نے دروازے کی طرف گھومے بغیر کہا۔ ’’جابان کی خبر سن لی تم نے؟ـ‘‘

’’میں خبر سننے ہی آئی ہوں رستم!‘‘

رستم تیزی سے گھوما۔ جالینوس کے بجائے اس کے سامنے پوران کھڑی تھی۔

’’تمہارا چہرہ بتا رہا ہے خبر اچھی نہیں۔‘‘ پوران نے کہا۔ ’’اسی لیے تم نے مجھے ابھی تک بے خبر رکھا ہے ۔ ‘‘پوران نے رستم کی کمر میں بازو ڈال کر اسے بٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہارے چہرے پر شکست کا تاثر نہیں دیکھ سکتی……کیا خبر آئی ہے؟‘‘

’’جابان اور مروان شاہ نے سلطنتِ فارس کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں۔‘‘ رستم نے شکست خوردہ نہیں بلکہ غصیلے لہجے میں کہا۔ ’’دونوں نے مسلمانوں سے ایسی شکست کھائی ہے کہ مروان شام کو مسلمانوں نے پکڑ لیا تھا۔ اس نے بھاگنے کی کوشش کی تو اسے قتل کر دیا گیا۔‘‘

’’اور جابان؟‘‘

’’وہ زندہ ہے۔‘‘ رستم نے جواب دیا۔’’ قاصد نے بتایا ہے کہ جابان بھی پکڑا گیا تھا لیکن انہیں ایک دھوکا دے کر زندہ واپس آگیا ہے……اگر مروان شاہ اور جابان جیسے جرنیل شکست کھا گئے تو کیا میں خود اآگے چلا جاؤں؟‘‘

’’نہیں رستم!‘‘ پوران نے ا س کے گلے میں بازو ڈال کر اور اپنا ایک رخسار رستم کے گال سے لگا کر کہا۔’’ تم ساری فوج کے قائد ہو۔ سلطنت کے تمام اہم امور کے بھی تم ہی ذمہ دار ہو۔ تم یہاں بیٹھ کر جرنیلوں کو لڑاؤ۔‘‘

پوران کے ریشم جیسے ملائم بال رستم کے چہرے کو مس کر رہے تھے۔ رستم اٹھ کھڑا ہوا۔

’’مجھے اپنے حسن سے مسحورکرنیکی کوشش نہ کرو پوران!‘‘ رستم نے غصیلی سنجیدگی سے کہا۔’’ مجھے اس کیفیت میں ہی رہنے دو جو مجھ پر طاری ہے۔‘‘

’’میں تمہارا غصہ کم کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ میں تمہیں سکون دینے کی کوشش کر رہی ہوں۔ کیا سلطنتِ فارس کے متعلق میرے جذبات سے تم واقف نہیں ہو؟ میں نے اپنی زندگی اور اپنا سب کچھ فارس کی سلطنت کیلئے وقف کر دیا ہے……ان باتوں کو چھوڑو رستم! اب یہ سوچو کہ مسلمان زیادہ طاقتور ہیں، یا ہماری فوج میں کوئی ایسی خامی ہے جو ہمارے جرنیلوں کو مسلمانوں کے آگے ٹھہرنے نہیں دیتی۔ میں تو یہ سنتی ہوں کہ مسلمانوں کی تعداد ہمارے مقابلے میں بہت ہی کم ہوتی ہے۔ پھر ہر میدان میں فتح یاب کیوں ہوتے ہیں؟‘‘

’’اس لیے کہ وہ خوبصورت عورتوں کے گالوں اور ریشمی بالوں سے سکون حاصل نہیں کرتے۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ وہ شراب کی صراحیاں خالی کر کے اپنی شکست کو بھولنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ محلات میں نہیں رہتے۔ معلوم نہیں ان کا مذہب سچا ہے یا نہیں لیکن وہ اپنے عقیدے کے پکے ہیں۔‘‘

’’میں تو یہ سمجھی ہوں کہ مسلمانوں کی قیادت مستحکم اور پر عزم ہے۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ میں نے سنا ہے کہ ان کا نیا خلیفہ انقلابی ذہن کا آدمی ہے۔ کیا نام ہے……‘‘

’’عمر بن الخطاب!‘‘رستم نے کہا۔’’ ہمارے جاسوس مدینہ میں موجود ہیں۔ وہ یہودی ہیں اور مدینہ کے اردگرد دو چارعیسائی بھی ہیں۔وہ باقاعدہ خبریں بھیج رہے ہیں۔‘‘

’’ان خبروں سے تم نے کیا حاصل کیا ہے؟‘‘پوران نے پوچھا۔

’’میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ مسلمان عقیدے کے پکے ہیں۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ یہودیوں نے اپنی بڑی ہی حسین لڑکیوں کو استعمال کرکے دیکھ لیا ہے لیکن ناکام رہے۔ اُدھر ہمارے سپاہی سے سالار تک کا یہ حال ہے کہ عیاشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے……مجھے مدینہ سے یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ مسلمانوں کا ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ کسریٰ پرویز نے ان کے رسول )ﷺ(کا پیغام پھاڑ کر اس کے ٹکڑے بکھیر دیئے تھے ۔اس لیے سلطنت ِفارس اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی……میں یہ سمجھا ہوں کہ ان کا نیا خلیفہ عمر اپنے رسول)ﷺ( کے پیغام کی توہین کا بدلہ لے رہا ہے۔‘‘

’’اور وہ کامیاب بھی ہے۔‘‘ پوران نے کہا۔

’’ہاں پوران!‘‘ رستم نے کہا۔’’ ابھی عمر کو کامیابی کی خبریں مل رہی ہیں۔ ہمارا ہر حربہ نا کام ہو رہا ہے۔ یہودیوں نے مسلمان تاجروں کے روپ میں مدینہ سے دور دراز کے علاقوں کے مسلمانوں کو فارس کی جنگی طاقت سے اتنا ڈرا دیا تھا کہ وہ عراق کا نام بھی نہیں لیتے تھے۔ مجھے یہ بھی اطلاع ملی تھی کہ ہماری فوج کی دہشت مدینہ کے لوگوں پر بھی طاری ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ خلیفہ کے اپنے حلقے کے آدمیوں نے عراق کے محاذ پر آنے کی ہامی نہیں بھری تھی۔ مسلمانوں کی باقاعدہ فوج نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو جبراً بھرتی کر لیں۔ وہ رضاکارانہ طور پر ایک لشکر کی صورت میں منظم ہو جاتے ہیں اور اپنے امیر اور سپہ سالار کی حکم عدولی کو گناہ سمجھتے ہیں……

ان کے خلیفہ عمر نے ہمارے خلاف لڑنے کیلئے رضا کار مانگے تو کوئی بھی تیار نہ ہوا۔ آخر ایک شخص جس کا نام ابو عبید ہے اٹھا ‘اور اپنے آپ کو محاذ کیلئے پیش کیا اس کے بعد رضاکار آگے آنے لگے۔ یہودیوں نے مسلمانوں کو ہمارے جنگی ہاتھیوں سے ڈرایا تھا ۔انہوں نے مسلمانوں کو ہاتھیوں کی ایسی خوفناک باتیں بتائی تھیں کہ یہ یقین ہو گیا تھا کہ خلیفہ ہمارے خلاف کوئی اور لشکر تیار نہیں کر سکے گا۔ لیکن ان کا جو لشکر آیا، اس کی تعداد دس ہزار تھی۔ اس کا سالار ابو عبید ہے ۔ اس نے پہلی لڑائی میں ہی ہمارے دو جرنیلوں کو ایسی بری شکست دی کہ دونوں کو پکڑ لیا اور ایک کو قتل کر دیا۔‘‘

’’اب تم نے کیا سوچا ہے۔‘‘ پوران نے پوچھا۔

’’جالینوس کو بلایا ہے۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ وہ آگیا ہو گا۔‘‘

رستم باہر نکلا ۔ فارس کی فوج کا ایک نامور جرنیل تاریخ میں جس کا نام جالینوس لکھا گیا ہے۔ باہر کھڑا تھا۔ رستم اسے اندر لے آیا۔

’’جالینوس!‘‘رستم نے اس سے پوچھا۔’’ کیا تم نے نمارق کی لڑائی کا انجام سن لیا ہے؟‘‘

’’سن لیا ہے۔‘‘ جالینوس نے کہا۔’’ میں نے قاصد سے پوچھا تھا ۔ تفصیلات کا علم نہیں۔‘‘

’’تفصیلات سن کر کیا کرو گے؟‘‘رستم نے بے دلی سے کہا۔’’ مروان مارا گیا ہے اور جابان کسی طرح جان بچا کر عربوں کی قید سے نکل آیا ہے ۔ ان دونوں کے دستوں کے بچے کچھے آدمی کسکر جا پہنچے ہیں۔ جہاں اپنے جرنیل نرسی کا لشکرخیمہ زن ہے۔ تم فوراً کچھ دستے ساتھ لو۔ سوار دستے ساتھ لے جانا۔‘‘

’’جالینوس!‘‘ ملکۂ فارس نے کہا۔’’ جنگ کے متعلق تمہیں رستم ہدایات اور احکامات دے گا۔میں صرف یہ کہوں گی کہ فارس ایک اور شکست کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔ ہم تو مسلمانوں کو ختم کرنے کا عہد کیے ہوئے تھے لیکن فارس کو بچانا مشکل نظر آنے لگا ہے۔‘‘

’’آپ اب اچھی خبر ہی سنیں گی ملکۂ فارس!‘‘ جالینوس نے کہا۔’’ زرتشت کی قسم!پہلی شکستوں کا بھی انتقام لوں گا۔‘‘

٭

جالینوس نے اپنے دستوں کو تیار کیا۔ مدائن پر خوف و ہراس طاری تھا۔ فارس کے اس مرکزی شہر کے لوگوں کے کانوں میں یہی ایک آواز پڑتی تھی کہ آج فلاں جگہ سے فوج بھاگ آئی ہے اور آج مسلمان فلاں شہریا فلاں قصبے پر قابض ہو گئے ہیں۔ ان شہروں اور قصبوں سے لوگ بھاگ کر مدائن پہنچ رہے تھے۔ اب شہر میں یہ خبر پھیل گئی کہ مروان شاہ اور جابان بھی شکست کھا گئے ہیں اور جالینوس آگے جا رہا ہے۔

مدائن کی گلیوں میں مجذوب سا ایک آدمی اوٹ پٹانگ بولتا اکثر نظر آیا کرتا تھا۔ لوگ اسے کھانے کیلئے کچھ دے دیا کرتے تھے۔ جب جالینوس کمک کے دستے تیار کروا رہا تھا یہ مجذوب شہر کے ایک دروازے سے باہر نکلا۔وہ حسبِ معمول کبھی اونچی کبھی دھیمی آواز میں کچھ نہ کچھ بولتا جا رہا تھا۔ کسی نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔ وہ شہر سے کچھ دور چلا گیا۔

آگے زمین نشیبی تھی اور درخت خاصے زیادہ تھے۔ مجذوب نشیب میں اتر گیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

’’آجا ! آجا!‘‘اسے آواز سنائی دی۔’’ جلدی آ۔‘‘

یہ ایک آدمی کی آواز تھی جو ایک گھوڑے کی لگام پکڑے ایک گھنے جھنڈ میں کھڑا تھا۔ اُسے دیکھتے ہی مجذوب دوڑتا ہوا اس تک پہنچا۔

’’سوار ہو جاؤ اور نظر نہ آؤ۔‘‘ گھوڑے والے نے کہا۔’’ ابو عبید نمارق میں ہو گا۔ اسے یہاں کی پوری اطلاع دو۔ تم نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔‘‘

’’کچھ اور بتانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ مجذوب نے کہا۔’’ مجھے جالینوس کی کمک سے بہت پہلے ابو عبید تک پہنچنا ہے……اﷲ حافظ! ‘‘اور مجذوب نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔

وہ کوئی مجذوب نہیں بلکہ ایک ذہین اور دماغی لحاظ سے چاک و چوبند رہنے والا عربی مسلمان اشعر بن اوصامہ تھا۔ خالدؓ بن ولید نے جہاں فنِ حرب و ضرب اور جنگی قیادت میں ایسامقام پیدا کیا تھا کہ دشمنوں نے بھی انہیں خراجِ تحسین پیش کیا تھا وہاں جاسوسی کا ایک ایسانظام قائم کیا تھا کہ دشمن کی نقل و حرکت کا انہیں خاصاقبل از وقت علم ہو جاتا تھا۔ انہوں نے خصوصی طور پر عقلمند اور جانباز قسم کے جاسوس دشمن کے شہروں میں بھیج دیئے تھے۔

اشعر بن اوصامہ انہی جاسوسوں میں سے تھا جو مجذوب اور پاگل بن کر مدائن میں کبھی داخل ہوا تھا۔ شہر والے اسے روز ہی کہیں نہ کہیں بیٹھا ، کھڑا یا چلتا پھرتا اور کچھ نہ کچھ بولتا دیکھتے تھے۔ لیکن یہ کبھی نہیں دیکھا تھا کہ رات کو وہ کہاں غائب ہو جاتا ہے۔ وہ راتیں ایک عراقی عیسائی کے گھر میں گزارتا تھا۔ یہ عیسائی دراصل عرب تھا اور مدائن میں جا کر آباد ہو گیا تھا۔ اس کی ہمدردیاں عربوں کے ساتھ تھیں ۔اس کے علاوہ مسلمان جاسوسوں کو اپنی پناہ میں رکھنے اور اُنہیں معلومات فراہم کرنے کا اسے معاوضہ ملتا تھا۔

٭

جالینوس ابھی اپنے دستوں کے ساتھ مدائن سے نہیں نکلا تھاکہ اشعر بن اوصامہ سپہ سالار ابو عبید کے پاس پہنچ گیا۔ابو عبید پاگلوں جیسے حال حلیے کے اس آدمی کو دیکھ کر حیران ہوا کہ اتنی اچھی نسل کا اور اتنا تندرست و توانا گھوڑا کہاں سے لایا ہے۔

’’میرا نام اشعر بن اوصامہ ہے۔‘‘ اس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔’’ مدائن سے آرہا ہوں۔جاسوسی کیلئے کچھ عرصہ وہیں رہا۔‘‘

’’خدا کی قسم!‘‘ ابو عبید نے کہا ۔’’میں مان نہیں سکتا کہ تم جیسا آدمی جاسوس ہو سکتا ہے……کیا کسی سالار کو جانتے ہو؟‘‘

’’اگر مثنیٰ بن حارثہ یہاں موجود ہیں تو وہ مجھے پہچان لیں گے۔‘‘ اشعر نے کہا۔

مثنیٰ بن حارثہ ابو عبید کے ماتحت سالار تھے۔ اُنہیں بلایا گیا۔ انہوں نے اشعر کو پہچان لیا اور ابو عبید کو بتایا کہ یہ اپنا ہی آدمی ہے۔

’’اب میری بات سنیں۔‘‘ اشعر نے کہا۔’’ آپ کو شاید معلوم ہو گا کہ دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے میں کسکرایک مقام ہے جسے سقاطیہ بھی کہتے ہیں ۔فارس کی فوج کے بہت سے دستے وہاں قیام کیے ہوئے ہیں۔ آپ نے جن دستوں کو شکست دی ہے ان کے بھاگے ہوئے آدمی سقاطیہ چلے گئے ہیں۔ وہاں کے جرنیل کا نام نرسی ہے۔رستم اس کیلئے کمک بھیج رہا ہے ۔میرے حساب کے مطابق نرسی تک یہ کمک چارروز بعد پہنچے گی۔‘‘

اشعر بن اوصامہ نے ابو عبید اور مثنیٰ کو بتایا کہ جالینوس کتنی کمک لا رہا ہے۔

ابو عبید کیلئے یہ اطلاع بڑی قیمتی تھی۔

’’ابنِ حارثہ!‘‘ ابو عبید نے مثنیٰ سے کہا۔’’ جو تجربہ اب تک تجھے حاصل ہو چکا ہے وہ مجھے حاصل نہیں ۔لیکن ہم جالینوس کی کمک سے پہلے سقاطیہ پہنچ جائیں تو خدا کی قسم‘ ہم فارسیوں کی کمر توڑ ڈالیں گے۔‘‘

’’اﷲ کا نام لے ابو عبید!‘‘ مثنیٰ نے کہا۔’’ فوراً کوچ کا حکم دے، تو نے امیر المومنین کی ہدایات پر عمل کیا ہے کہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اپنے ساتھی سالاروں سے مشورہ کر لیا کرنا……تو نے ٹھیک سوچا ہے۔ ہم اگر فارسی جرنیل نرسی تک جالینوس سے پہلے پہنچ گئے تو اسے الگ اور جالینوس کو الگ شکست دے سکیں گے اور اگر یہ اکٹھے ہوگئے تو ہمارے لیے مشکل ہو جائے گی۔‘‘

ابو عبید نے اسی وقت کوچ کا حکم دے دیا ۔ اس نے سالاروں نائب سالاروں کو بتا دیا تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور ہدف کیا ہے۔ غزوۂ بدر سے یہ روایت چلی تھی کہ مسلمان تعداد میں کم تھے ۔دشمن نفری کے لحاظ سے تین گنا طاقتور تھا ۔ اس کے پاس گھوڑے زیادہ اور ہتھیار بہتر قسم کے تھے۔ رسولﷺ کی قیادت میں مجاہدینِ اسلام نے تعداد کی کمی اور ہتھیاروں کی کمی کو جذبے اور جنگی فہم و فراست سے پورا کیا تھا۔ اس کے بعد یہی روایت چل پڑی کہ مسلمان ہر دور میں اور ہر میدان میں کم تعدا دمیں لڑے اور فتحیاب ہوئے۔

رسولﷺ نے مجاہدین میں دوسری یہ خوبی پیدا کر دی تھی کہ کوچ اور پیش قدمی اس قدر تیز ہوتی تھی کہ دشمن حیران ہو جاتا اور بوکھلا اٹھتا تھا۔ ایک وصف اور جو خالدؓ بن ولید اور ان کے پائے کے سالاروں نے اپنے مجاہدین میں پیدا کیا تھا وہ یہ تھا کہ نظم و نسق برقرار رکھیں اور حکم کے بغیر کوئی حرکت نہ کریں ۔یہ تھی امیر کی اطاعت جسے مسلمان ایک فریضہ سمجھتے تھے اور اس کی پابندی کرتے تھے۔ لیکن یہ خوبی اس وقت کے ہر امیر اور ہر سالار میں تھی کہ وہ ذاتی معاملات اور پسند و نا پسند اور تعصبات سے پاک ہوتے تھے۔

٭

دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان ایک وسیع میدان میں فارس کا جرنیل نرسی اپنی فوج کے ساتھ خیمہ زن تھا۔ کسی بھی مؤرخ نے اس کے دستوں کی صحیح نفری نہیں لکھی۔ یہ لکھا ہے کہ نرسی کی فوج مسلمانوں سے تقریباً اڑھائی گنا زیادہ تھی۔ وہ اس وقت کے جدید ہتھیاروں سے مسلح تھی اور اس میں سواروں کی تعداد زیادہ تھی۔ ہر سوار کے پاس ایک برچھی اور ایک تلوار تھی۔

علامہ شبلی نعمانی نے اپنی کتاب الفاروق ؓمیں دو مؤرخوں بلاذری اور ابو حنیفہ کے حوالے سے لکھا ہے ۔’’فارسی جرنیل نرسی کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا اور اس کے ساتھ کسریٰ کے دوماموں زاد بھائی بندویہ اور تیرویہ، میمنہ اور میسرہ پر تھے۔‘‘ یہ دونوں فارس کے مشہور اور جارح جرنیل تھے۔ ہر لڑائی میں بندویہ فوج کے دائیں پہلو پر اور تیرویہ بائیں پہلو پر رہتا تھا اور یہ اپنے دشمن کو گھیرے میں لے کر ختم کر دیتے تھے۔ انہوں نے روم جیسی طاقتور فوج کو بہت بری شکستیں دی تھیں۔

نرسی ان دونوں جرنیلوں کے ساتھ مدائن سے آنے والی کمک کا انتظار اتنی بے تابی سے کر رہا تھا کہ ہر صبح ایک سوار کو مدائن کے راستے پر آگے بھیج دیتا کہ کمک دور سے آتی نظر آئے تو آکر اطلاع دے۔

نرسی کی اس فوج میں کچھ ایسی صورت پیدا ہو گئی تھی کہ جس سے فوج کا جذبہ مجروح ہو گیا تھا۔ یہ صورت مروان شاہ اور جابان کے ان فوجیوں نے پیدا کی تھی جو نمارق کی لڑائی میں مجاہدین سے شکست کھا کر بھاگے اور سقاطیہ نرسی کی فوج کے کیمپ میں جا پناہ لی۔ شکست کی خفت کو مٹانے کیلئے انہوں نے مسلمانوں کی بہادری بلکہ خونخواری کی ایسی خوفناک باتیں بتائیں جیسے مسلمان انسان نہیں جنات اور بھوت ہوں۔

’’ہم جنوں اور بھوتوں سے تو نہیں لڑ سکتے۔‘‘ بھاگے ہوئے ہر سپاہی کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔

نرسی کے دستوں کو یہ بھی پتا چل چکا تھا کہ نمارق میں فارس کے دونوں جرنیل پکڑے اور مارے گئے ہیں۔جابان ابھی لا پتا تھا۔ مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ جابان رستم اور ملکۂ فارس کے سامنے جانے سے گریز کر رہا تھا۔ اس سے نرسی کے دستوں میں مزید دہشت پیدا ہو گئی تھی۔

’’…… اور یہ سب بزدل ہیں جو اپنے جرنیلوں کو مروا کر بھاگ آئے ہیں۔‘‘ ایک روز نرسی اپنے دستوں سے خطاب کر رہا تھا۔’’ یہ بھگوڑے غدار ہیں ۔میرا حکم چلے تو میں انہیں مقدس زرتشت کی آگ میں زندہ جلا ڈالوں۔ یہ غیرت والے ہوتے تو زندہ واپس نہ آتے۔ یہ اب عورتوں کی طرح ڈرے ہوئے بے بنیاد باتیں کر رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ اپنے بھائیوں کا حوصلہ بڑھائیں‘ اور اپنا قومی جذبہ مضبوط کر کے عہد کریں کہ مسلمانوں سے شکست کا انتقام لیں گے۔ان کی باتیں مت سنو یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔‘‘

’’کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ کی آج کی تقریر سے اپنے سپاہیو ں کا لڑنے کا جذبہ مضبوط ہو جائے گا؟‘‘شام کے کھانے کے دوران جرنیل بندویہ نے جرنیل نرسی سے پوچھا۔

’’نہیں!‘‘ نرسی نے کہا۔’’ میں ہر روز اپنے مخبروں سے سپاہیوں کے جذبے اور دیگر امور کے متعلق پوچھتا رہتا ہوں۔’’ ان سب پر مسلمانوں کی دہشت طاری ہو چکی ہے۔ خالدؓ بن ولید کو یہ آسمان سے اتری ہوئی کسی ہولناک مخلوق میں سے سمجھتے ہیں۔ میں نے اسی لیے مدائن سے کمک منگوائی ہے کہ وہاں سے جو سپاہی آئیں گے وہ مسلمانوں سے بالکل نا واقف ہوں گے اور مسلمانوں کے خوف سے آزاد ہوں گے۔‘‘

’’ورنہ کمک کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘ جرنیل نے تیرویہ سے کہا۔’’ کمک کو پہنچ جانا چاہیے تھا۔ ہم رستم اور ملکۂ فارس کو اچھی خبر سنائیں گے۔‘‘

’’سقاطیہ کو ہم مسلمانوں کا قبرستان بنا دیں گے۔‘‘ بندویہ نے کہا۔

٭

ابو عبید کے مجاہدین کی پیش قدمی بہت تیز تھی۔ لیکن راستے میں دریا حائل ہو گیا۔ ابو عبید نے اس خیال سے لشکر کو روک لیا کہ دن کی روشنی میں دریا عبور کرنا خطرناک ہو سکتا تھا ۔دریا عبور کرنے کے دوران دشمن آجائے تو وہ تیروں اور پھینکنے والی برچھیوں سے سب کو دریا میں ختم کر سکتا ہے۔

رات کے اندھیرے میں دریا عبور کرنا تھا۔ وہاں کشتیاں نہیں تھیں جن کا پل بنایا جاتا۔ اتفاق سے ایک مقامی اُدھر سے گزرا ۔اس نے بتایا کہ تقریباً دو میل آگے کشتیوں کا ایک پل ہے جو فارس کی فوج نے بنایا ہے۔ اور ا س کے دونوں طرف دن رات دو دو فوجی پہرے پر کھڑے رہتے ہیں۔‘‘

رات کو چار جانباز مجاہدین کو آگے بھیجا گیا ۔پل سے ذرا ہی دور تین مجاہدین چھپ گئے اور ایک پہرہ داروں کے پاس چلا گیا۔ اس نے دونوں کو باتوں میں لگا لیا اور اُنہیں باتوں باتوں میں پل سے اُدھر لے آیا۔ تین مجاہدین جھاڑیوں کے پیچھے سے اٹھے اور ان دونوں فارسیوں کو دبوچ کر ان کے گلے گھونٹے اور مار دیا۔ ان کے کپڑے اتار کر دو مجاہدین نے پہنے اور پل کی دوسری جانب چلے گئے۔ وہ سپاہی انہیں اپنے آدمی سمجھے ۔قریب جا کر مجاہدین نے ان دونوں کو خنجروں سے قتل کر دیا۔

ایک مجاہد پیچھے جا کر ابو عبید کو اطلاع دے کر آیا کہ راستہ صاف ہے۔ ابو عبید نے پیش قدمی کا حکم دیا اور پل پر آکر بے خوف و خطر دریا پار کر لیا۔

جالینوس اپنے دستوں کے ساتھ مدائن سے چل پڑا تھا۔ لیکن اس کے سامنے بڑا لمبا راستہ تھا ۔ابو عبید نے تو جالینوس سے پہلے سقاطیہ پہنچنے کی دوڑ لگا رکھی تھی۔

اگلی شام ابو عبید کا لشکر سقاطیہ کے قریب پہنچ گیا ۔اس وقت لڑائی شروع نہیں کی جا سکتی تھی۔ اب لشکر کو دشمن سے چھپایا نہیں جا سکتا تھا ۔قریب ہی ایک گاؤں میں گئے اور اعلان کیا کہ رات کو گاؤں میں کوئی بھی بچہ باہر نہ نکلے ۔اس کے ساتھ ہی گاؤں کے اردگرد پہرے کھڑے کر دیئے۔

اس احتیاطی نظام کے باوجود یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی تھی کہ فارسیوں کو مجاہدین کے لشکر کا پتا نہیں چلے گا۔فارسیوں کے اگلے دن کی لڑائی کو درہم برہم کرنے کیلئے یہ کارروائی کی گئی کہ رات کو جب فارسیوں کا لشکر سویا ہوا تھا تو بیس بیس مجاہدین کی دو پارٹیوں نے ایک دوسری کے بعد لشکر گاہ پر شبخون مارے۔ دوسری پارٹی نے یہ کارروائی کی کہ شب خون کے دوران گھوڑوں کی رسیاں کاٹ ڈالیں اور گھوڑوں کو تلواروں کی نوکیں چبھو کر دوڑادیا ۔گھوڑوں نے کیمپ میں قیامت بپا کر دی۔

ان دو شب خونوں نے فارسیوں کو جانوں کا بھی نقصان پہنچایا اور بہت سے سپاہی شدید زخمی ہو کر اگلے روز کی لڑائی کیلئے ہی نہیں بلکہ لمبے عرصے کیلئے میدانِ جنگ میں آنے سے معذور ہو گئے۔ یہ تو نفری کا نقصان تھا۔ اصل نقصان یہ پہنچا کہ ان دستوں پر پہلے ہی مسلمانوں کا جو ڈر سا بیٹھ گیا تھااس میں اضافہ ہو گیا۔

شب خون مسلمانوں کا خصوصی طریقۂ جنگ تھا۔ جس میں انہوں نے غیر معمولی مہارت حاصل کر لی تھی۔ شب خون میں بڑے ہی مضبوط حوصلے اور جسمانی پھرتیلے پن کی ضرورت ہوتی تھی۔ یہ اوصاف مسلمانوں میں ہی تھے اور یہ اوصاف مسلمانوں میں اس لئے تھے کہ وہ ایک نظریئے اور ایک عقیدے کے فروغ اور تحفظ کیلئے لڑ رہے تھے ۔ ان کے ذہن و دل میں اﷲ اور رسولﷺ کی خوشنودی تھی ۔غیر مسلم مؤرخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمان اپنے مذہبی عقیدے کے جنون کی کیفیت میں لڑتے تھے اور دوسری قوموں کی فوجیں اپنے بادشاہوں اور جرنیلوں کے حکم سے لڑ اکرتی تھیں۔ یہ پہلو خاص طور پر پیش ِنظر رکھنے والا ہے کہ جس دور کی یہ داستان پیش کی جا رہی ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کی کوئی باقاعدہ فوج نہیں ہوا کرتی تھی ۔سپہ سالار سے سپاہی تک سب رضاکارہوا کرتے تھے۔ سب اپنی رضا و رغبت سے ایک جذبے سے سرشار میدانِ جنگ میں جاتے تھے۔

اس جنون اس نظریئے اور اس جذبے کا یہ کرشمہ تھا کہ ابو عبید کے جانبازوں نے ایک ہی رات میں دو شب خون مارے اور دشمن کی جنگی تیاری اور خیمہ گاہ کو درہم برہم کر دیا۔

ایک یورپی تاریخ نویس نے اپنی انگریزی کتاب اسلام اور آتش پرست میں لکھا ہے کہ فارسیوں کے اس کیمپ میں کئی سپاہیوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ یہ حملہ آور )مسلمان(انسان نہیں ہو سکتے۔

٭

صبح طلوع ہو رہی تھی۔ جرنیل نرسی ،بندویہ اور تیرویہ رات بھر کے جاگے ہوئے اپنے دستوں کو منظم کرنے کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔

’’وہ دیکھو!‘‘ یہ ایک بلند آوا ز تھی جس میں گھبراہٹ کا لرزہ تھا۔

اس آواز کی گھبراہٹ سارے کیمپ میں پھیل گئی۔ ہر کوئی اُدھر دیکھ رہا رتھا۔ دس ہزار مجاہدین کا لشکر جنگ کی ترتیب میں آرہا تھا۔ کیمپ میں کھلبلی بپا ہو گئی حالانکہ فارسیوں کی نفری کم و بیش تیس ہزار تھی ۔جس میں سوار زیادہ تھے۔ ان کے تینوں جرنیلوں کی حالت بہت بری ہو رہی تھی۔

’’کمک نہیں پہنچی۔‘‘ نرسی بار بار کہہ رہا تھا۔

دوسرے دونوں جرنیل اپنے اپنے دستوں کو ترتیب میں لا رہے تھے۔

جالینوس کمک لے کر مدائن سے چل پڑ اتھا لیکن اس کے سامنے دو پڑاؤ کی مسافت تھی۔

’’ابو عبید!‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے اپنے سپہ سالار ابو عبید سے کہا۔’’ کیا تم دشمن کو منظم ہو نے اور حملے میں پہل کرنے کا موقع دے رہے ہو؟ ان کی تعداد اور ان کے گھوڑے دیکھو۔‘‘

ابو عبید مجاہدین کے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کر کے صف آراء کر چکا تھا۔ چوتھا حصہ محفوظہ کا تھا جسے ابو عبید نے اپنے پیچھے رکھا تھا ۔مثنیٰ بن حارثہ کی للکار سنتے ہی ابو عبید نے قلب کے حصے کو حملے کا حکم دے دیا۔ اس نے دائیں اور بائیں پہلوؤں کے دستوں کو پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ حملہ ہوتے ہی وہ دائیں اور بائیں پھیل جائیں اور دشمن کے عقب میں جانے کی کوشش کریں۔

مثنیٰ بن حارثہ دائیں پہلو پر تھے ۔وہ خالدؓ بن ولید کے پائے کے سالار تھے اور خالدؓ کے ماتحت انہوں نے رومیوں کے خلاف گھمسان کے معرکے لڑے تھے اور خالدؓ سے بڑے کارآمد داؤ پیش سیکھے تھے ۔اس کے علاوہ مثنیٰ نے عہد کررکھا تھا کہ فارسیوں کو فیصلہ کن شکست دے کر آتش پرستی کے باطل کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنا ہے۔ دس ہزار مجاہدین کا یہ لشکر مثنیٰ ہی مدینہ سے لائے تھے۔ اس داستا ن کے شروع میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ مثنیٰ بن حارثہ خلیفہ اول ابو بکرؓ کی زندگی میں مدینہ یہ درخواست لے کر گئے تھے کہ انہیں ایک لشکر مل جائے تو وہ سلطنتِ فارس کو بنیادوں سے اکھاڑ دیں گے۔ اس وقت حضرت ابو بکرؓ بسترِ مرگ پر تھے۔ اُنہوں نے حضرت عمرؓ سے وصیت کی تھی کہ مثنیٰ کو لشکر تیار کر کے دینا ہے۔

حضرت ابو بکرؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ اور مثنیٰ بن حارثہ نے جس طرح عراق کیلئے لشکر تیار کیا تھا۔ وہ پہلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے۔

اب سقاطیہ کے مقام پر مثنیٰ دائیں پہلو پر تھے اور ان کے ساتھ سوار زیادہ تھے۔ انہیں غالباً معلوم تھا کہ فارسی جرنیل بندویہ اور تیرویہ پہلوؤں سے حملہ کرنے کے ماہر ہیں۔ مثنیٰ اپنے دستوں کو بڑی تیزی سے اتنی دور باہر کو لے گئے کہ فارسیوں کا پہلو ان کے اندر آگیا۔

بائیں پہلو پر ایک صحابی سلیطؓ بن قیس تھے۔ اُنہوں نے بھی مثنیٰ بن حارثہ والی چال چلی اور اپنے دستے کو دور بائیں طرف لے گئے اور فارسیوں کے پہلو کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔

مجاہدین کا یہ حملہ اتنا اچانک اور انتہائی شدید تھا کہ فارس کی فوج زیادہ دیر ٹھہر نہ سکی۔ پیچھے دریا تھا ۔ مثنیٰ اور سلیطؓ نے پہلوؤں سے فارسیوں کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ فارسی سپاہیوں کا لڑنے کا جذبہ پہلے ہی کمزور ہو گیا تھا۔ گذشتہ رات کے شب خون نے مزید دہشت طاری کر دی تھی۔ فارسی بڑھ کر حملے کرنے کے بجائے دفاعی لڑائی لڑنے لگے اور اس کے ساتھ ہی بعض نے بھاگنا بھی شروع کر دیا۔ وہ دریا میں کود رہے تھے۔

زیادہ دیرنہیں گزری تھی کہ میدان فارسیوں کی لاشوں سے اٹ گیا۔ نرسی کا پرچم گر پڑا اور تینوں جرنیل لاپتا ہو

گئے۔سپاہی دوڑ دوڑ کر مسلمانوں کے پاس آنے لگے۔

یہ مکمل اور فیصلہ کن شکست تھی۔

٭

اس فتح کے بعد مجاہدین فارسیوں کی خیمہ گاہ اور میدانِ جنگ سے مالِ غنیمت اکٹھاکر رہے تھے اور اشعر بن اوصامہ سپہ سالار ابو عبید کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔

’’سپہ سالار!‘‘ اشعر نے ابو عبید کو کہیں دور دیکھ کر پکارا اور اس کے قریب جا کر گھوڑے سے اترا۔

’’کیا خبر لائے ابن اوصامہ!‘‘ ابو عبید نے اشعر سے پوچھا۔

’’مدائن سے آنے والی کمک یہاں سے ایک پڑاؤ دور ہے ۔‘‘ اشعر نے کہا۔’’ آج رات مدائن کے یہ دستے بار سماء کے قریب پڑاؤ کریں گے۔‘‘ اشعر نے میدانِ جنگ کی حالت دیکھ کر کہا۔’’ خدا کی قسم! آپ نے آتش پرستوں کی کمر توڑ ڈالی ہے۔‘‘

’’یہ اﷲ کا کرم اور تیری محنت کا کرشمہ ہے ابن اوصامہ!‘‘ ابو عبید نے کہا۔’’ تو مدائن سے جو خبر لایا تھا وہ ہمارے کام آئی ۔یہ تیری جاسوسی کا ثمرہ ہے……کمک کی نفری کتنی ہے؟‘‘

’’اتنی ہی ہے جتنی کو آپ نے یہاں کاٹ بھی دیا ہے اور بھگا بھی دیا ہے۔‘‘ اشعر نے جواب دیا۔ ’’اس کاسالار جالینوس ہے ۔جسے فارس کے لوگ میدانِ جنگ کا دیوتاکہتے ہیں۔ کمک میں سوار دستے پیادوں سے زیادہ ہیں۔‘‘

اشعر بن اوصامہ بڑا ہی ہوشیار جاسوس تھا۔ جو مدائن سے خبر لایا تھا کہ مدائن سے نرسی کو کمک جا رہی ہے اور نرسی سقاطیہ کے مقام پر ہے۔ ابو عبید نے جب نرسی کو سقاطیہ کی جانب کوچ کر نے کاحکم دیا تھا اسی وقت اشعر کو اس علاقے کی طرف روانہ کر دیا تھا جدھر سے مدائن سے سقاطیہ کو کمک نے گزرنا تھا۔ اشعر کے ذمے یہ کام تھا کہ کمک کے متعلق جو بہت اہم اطلاع ہو وہ سقاطیہ پہنچائے۔

اشعر یہودی پیشوا کے روپ میں گیا تھا اور بر وقت اطلاع لے آیا کہ کمک بارسماء پہنچنے والی ہے اور رات وہاں پڑاؤ کرے گی۔

’’لیکن سپہ سالار! ‘‘اشعر بن اوصامہ نے ایک اور خبر سنائی ۔’’ آپ کمک پر بے خبری میں حملہ نہیں کر سکیں گے۔ میں نے راستے میں اس)سقاطیہ ( سے بھاگے ہوئے سپاہیوں کو بارسماء کی طرف جاتے دیکھا ہے۔ میں نے دو سواروں کو آپس میں اس لڑائی کی باتیں کرتے بھی سنا ہے۔ میں وہیں سمجھ گیا تھا کہ میرے بھائیوں نے سقاطیہ کا میدان مار لیا ہے……آپ کو سنبھل کر جانا پڑے گا۔ دشمن نے کہیں گھات نہ لگا رکھی ہو۔ جو میدانِ جنگ کے بھگوڑے گھوڑ سوار کچھ دیر تک بار سماء پہنچ جائیں گے ان سے اس لڑائی کی خبریں سن کر وہ اپنے دستوں کو رات کو بھی تیاری کی حالت میں رکھے گا۔‘‘

’’اﷲ ہمارے ساتھ ہے ابنِ اوصامہ! ‘‘ابو عبید نے کہا۔ ’’تو جا اور کچھ آرام کرلے ۔ہم نے سورج غروب ہوتے ہی بارسماء کی طرف کوچ کر جانا ہے۔‘‘

ابو عبید نے اپنے سالاروں مثنیٰ بن حارثہ اور سلیطؓ بن قیس کو بلایا اور انہیں بتایا کہ اشعر کیا خبر لایاہے۔

’’کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم بارسماء کی طرف پیش قدمی کریں ؟‘‘ ابو عبید نے دونوں سالاروں سے پوچھا ۔’’یا تم یہ بہتر سمجھتے ہو کہ جالینوس کا انتظار یہیں کیا جائے؟……میں فوراً پیش قدمی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’بیشک یہی بہتر ہو گا ۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’ جالینوس کوبھگوڑے فوجی خبردار کر چکے ہوں گے اور وہ ہمارے لڑنے کے طریقے بھی اسے بتا چکے ہوں گے۔‘‘

’’مجھے ایک اور خطرہ نظر آرہا ہے۔‘‘ ابو عبید نے کہا۔’’ اگر ہم جالینوس کا انتظار یہیں کرتے رہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ مدائن سے مزید دستے منگوا لے ۔اس کی نفری پہلے ہی اڑھائی تین گنا زیادہ ہے۔ ہماری نفری شہیدوں اور زخمیوں نے کم کر دی ہے اور کم از کم ایک ہزار مجاہدین کو یہاں چھوڑنا پڑے گا۔تمام مالِ غنیمت اور دشمن کے سینکڑوں گھوڑے یہیں رہیں گے۔ دونوں دریاؤں پر کشتیوں کے جو پل ہیں ان پر بھی قبضہ رکھناہے۔ سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ جالینوس کو مہلت ہی نہ دی جائے کہ وہ مدائن سے کمک منگوا سکے……ایک ہزار آدمی یہاں چھوڑو۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کیلئے ان کے پاس رہنے دو اور کوچ کی تیاری کرو۔ چلنے سے پہلے میں ان کے ساتھ ایک دو باتیں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

٭

غروبِ آفتاب سے کچھ دیر پہلے جالینوس نے بارسماء کے مقام پر پہنچ کر اپنے دستوں کو روک لیا اور پڑاؤ کا حکم دیا۔ لشکر فوراً خیمے گاڑنے میں مصروف ہو گیا۔ جالینوس کا خیمہ کھڑا کر دیا گیا اور اس کے اندر گدوں والا پلنگ اور گھروں کے کمرے جیسا فرنیچر رکھ دیا گیا ۔اندر ریشمی پردے لگ گئے ۔یہ بہت بڑا خیمہ تھا ۔جس کے دو حصے تھے۔ اندر سے یہ محل کے دو کمرے لگتے تھے۔

جالینوس اپنے خیمے میں داخل ہو کر بیٹھاہی تھا کہ اس کے حفاظتی دستے )باڈی گارڈز(کا کمانڈر خیمے میں آیا اور جالینوس کو بتایا کہ جہاں وہ کمک لے کے جا رہے ہیں وہاں سے زخمی سوار آرہے ہیں۔ ایک کو وہ اپنے ساتھ لایا ہے۔ وہ کوئی جونیئر کمانڈر تھا۔ جو تھوڑا سا زخمی تھا ۔جالینوس باہر نکل آیا اور غصے سے اس زخمی سے پوچھا کہ سقاطیہ میں کیا ہوا ہے؟

اس زخمی عہدیدار نے اسے تفصیل سے بتایا کہ عربوں نے گذشتہ رات دو شب خون مارے اور صبح طلوع ہوتے ہی حملہ کر دیا ۔زخمی عہدیدار نے لڑائی کی تفصیل یوں سنائی جیسے مسلمانوں کی تعداد اور جنگی طاقت بہت زیادہ تھی۔

’’ان کی تعداد مشکل سے دس ہزار تھی۔‘‘ جالینوس نے قہر بھری آواز میں کہا۔’’ اور تم کم و بیش تیس ہزار حرام خور تھے ……اپنے زخم دکھاؤ۔‘‘

’’اتنا سا زخم کھا کر تم بھاگ آئے ؟‘‘جالینوس نے اس کی ٹانگ کا معمولی سا زخم دیکھ کرکہا۔’’ تم دو سو سپاہیوں کے کمانڈر تھے۔ تم اکیلے نہیں بھاگے ۔تمہارے پیچھے پیچھے دو سو سپاہی بھاگ آئے۔‘‘

اتنے میں جالینوس کے دستوں کا ایک افسر ا س کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ اسے سقاطیہ کے ایک بھگوڑے نے بتایا ہے کہ نمارق سے اپنی فوج کے آدمی بھاگ کر سقاطیہ پہنچے اور انہوں نے نرسی، بندویہ اور تیرویہ کے دستوں میں عربی مسلمانوں کی بہادری اور خونخواری کی ایسی خوفناک باتیں سنائیں کہ سقاطیہ کے دستوں میں بے دلی پھیلا دی۔سقاطیہ کی شکست اسی کا نتیجہ ہے۔

’’وہاں کے بھگوڑے ہمارے کیمپ میں آرہے ہیں۔ ‘‘اس افسر نے کہا۔’’ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ ایسی ہی فرضی کہانیاں ہمارے سپاہیوں کو سنا رہے ہیں۔‘‘

’’میرا حکم سب تک پہنچا دو۔‘‘ جالینوس نے کہا۔’’ ہمارے دستوں کا کوئی آدمی سقاطیہ کے کسی بھگوڑے کو اپنے خیمے میں داخل نہ ہونے دے۔ نہ کوئی کسی بھگوڑے کے پاس بیٹھ کر اس کی باتیں سنے۔سقاطیہ سے آنے والے کسی بھی فوجی کے عہدے کا خیال نہ کیا جائے ۔ انہیں علیحدہ رکھا جائے……اور اپنے تمام دستوں کو ایک جگہ صفوں میں کھڑا کرو،میں آتا ہوں۔‘‘

٭

’’اسلام اور سر زمینِ عرب کی ناموس کے محافظو!‘‘سقاطیہ میں سپہ سالار ابو عبید مجاہدین کے لشکر سے مخاطب تھا۔’’ واﷲ بما تعملون بصیرۃ )تم جو کچھ کرتے ہو سب اﷲ کی نظر میں ہے(۔تم راہِ حق پر جہاد کیلئے گھروں سے نکلے ہو۔ یہ اﷲ کا حکم ہے تم جس کی تعمیل کر رہے ہو۔ اس کا اجر تمہیں اﷲ ہی دے گا۔ اﷲ کا اجر دیکھ لو۔ اﷲ کے دین کے منکروں کی لاشیں دیکھ لو ۔ان کے زخمیوں کو تڑپتا اور مرتا دیکھ لو۔ یہ کفار تعداد میں تم سے تین گنا تھے ۔اﷲ نے تمہیں ان پر فتح و نصرت عطا کی۔یہ تمہارا انعام ہے جو تمہیں دنیا میں ملا ہے اور جو انعام آخرت میں ملے گا وہ بے حساب ہو گا……

آج تمہارا حق تھا کہ تم آرام کرتے لیکن آگ کے ان پجاریوں کا ایک اور لشکر یہاں سے ایک رات کی مسافت پر پڑاؤ کیے ہوئے ہے ۔یہ لشکر ان کی مدد کیلئے آ رہا تھا جن میں سے کوئی ایک بھی اب یہاں موجود نہیں۔ زندہ رہنے والے بھاگ گئے ہیں اور وہ وہاں پہنچ رہے ہیں جہاں ان کی کمک ٹھہری ہوئی ہے ۔تم تھکے ہوئے ہو ‘وہ تازہ دم ہیں۔ ہم ان پر بے خبری میں حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی روحانی قوتیں بیدار کر لو اور اﷲ کے حضور سرخرو ہو جاؤ۔عجمیوں پر ثابت کر دو کہ عربی خدا کے محبوب بندے ہیں اور عربوں کو اﷲ نے رسالت سے نوازا ہے۔‘‘

’’…… اور مت سنو ان کی باتیں جو سقاطیہ سے بھاگ آئے ہیں ۔‘‘ جالینوس اپنے دستوں سے مخاطب تھا۔’’ عرب کے ان بدوؤں سے مت ڈرو۔ یہ بھگوڑے تمہیں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ تو بہت بہادر ہیں لیکن مسلمانوں کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے جو ان کی مخالف فوج کی طاقت سلب کر لیتا ہے۔ میں نے ان بھگوڑوں کو الگ کھڑا کر دیا ہے۔ یہ زرتشت کے گناہ گار بندے ہیں۔ یہ سلطنتِ فارس کے غدار ہیں۔ ان کے چہرے دیکھو یہ منحوس چہرے ہیں……

مسلمان اپنے مذہب کو سچا مذہب کہتے ہیں۔ تم انہیں شکست دے کر ثابت کر دو کہ مذہب تمہارا سچا ہے۔ تم نے ان کا نام و نشان مٹا کر ان کے مذہب کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دینا ہے۔ پھر ان کا ملک عرب بھی سلطنتِ فارس میں شامل ہو گا۔ مت بھولو کہ تم نے رومیوں کی جنگی طاقت کو اپنے گھوڑوں کے سموں تلے کچلا ہے۔ فارس کی فوج کے تم جیسے بہادروں نے روم کے ہرقل کو شکست دی ہے۔ جسے رومی جنگ کا دیوتا کہا کرتے تھے……

آج رات تم نے ہوشیار رہنا ہے۔ خیمہ گاہ کے اردگرد سنتریوں کی نفری زیادہ ہوگی۔ مسلمان شاید فتح کے نشے میں شب خون مارنے آجائیں ۔وہ آئیں تو ان میں کوئی بھی زندہ نہ جائے۔ خیمہ گاہ کے باہر ہی انہیں گھیر کر ان کے جسموں کا قیمہ بنا دو۔ میں سقاطیہ کی طرف سے آنے والے راستوں پر گھات کا انتظام کر رہا ہوں۔‘‘

جالینوس نے اپنے دستوں کو گرما بھڑکا کر بیدار کر دیا اور سقاطیہ کے بھگوڑوں کو مجرموں کی طرح الگ کر دیاکہ وہ کسی کے ساتھ بات بھی نہ کر سکیں۔

ابو عبید کا لشکر سقاطیہ سے چل پڑا۔ اب مجاہدین کی تعداد نو ہزار سے کچھ کم تھی۔ کچھ شہید ہوئے، بہت سے زخمی ہوئے اور چند سو مجاہدین کو پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا۔ مجاہدین کے جسم تھکن سے چو رتھے ۔ایک روز پہلے انہوں نے کوچ کیا تھا۔ رات بیدار رہے اور اگلے دن بڑے ہی گھمسان کی لڑائی لڑی، اور اس کے فوراً بعد بارسماء کی طرف پیش قدمی کا حکم مل گیا۔ گھوڑے بھی تھکے ہوئے تھے ۔ابو عبید نے گھوڑ سوار مجاہدین سے کہا تھا کہ وہ راستے میں پیادوں کو گھوڑے دیتے رہیں تاکہ انہیں سارا سفر پیدل نہ طے کرنا پڑے۔ بہت سے پیادہ مجاہدین کو فارسیوں کے گھوڑے مل گئے تھے۔

٭

جالینوس نے رات بھر اپنے دستوں کو بیدار رکھا تھا اور اس نے خیمہ گاہ سے کچھ دور ایک ایسے علاقے میں جہاں مٹی کے ٹیلے اور وسیع کھڈ تھے ، دو جگہوں پر گھات لگا دی تھی۔

رات گزر گئی۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ مجاہدین تازہ دم ہوتے تو ان کی رفتار تیز ہوتی۔

ابو عبید کے ساتھ مثنیٰ بن حارثہ اور سلیطؓ بن قیس جیسے منجھے ہوئے سالار تھے۔ ان کے مشورے ابو عبید کیلئے بڑے ہی کارآمد تھے ۔بار سماء کی طرف ان کا کوچ ایک کالم کی صورت میں تھا۔ لیکن بار سماء سے کچھ دور سالاروں نے اپنے لشکر کو جنگی ترتیب میں پھیلا دیا۔ اس ترتیب میں یہ لشکر کم و بیش ایک میل تک پھیل کر آگے بڑھ رہا تھا۔

جالینوس کے ایک جگہ دو سو سوار گھات میں چھپے ہوئے تھے ۔اُنہیں معلوم نہیں تھا کہ مسلمان کس ترتیب میں آرہے ہیں ۔وہ اچانک مجاہدین کو نظر آگئے۔ انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن انہیں گھوڑوں پر سوار ہونے کی بھی مہلت نہ ملی۔ مجاہدین نے انہیں گھیرے میں لے لیا اور کسی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ ان کے گھوڑے اور برچھیاں پیادہ مجاہدین کو دے دی گئیں اور ان مجاہدین کو سوار دستوں میں شامل کر لیا گیا۔

جالینوس کو قبل از وقت اطلاع مل گئی کہ مسلمان آرہے ہیں۔ اس وقت سورج کچھ اوپر اٹھ آیا تھا۔ جالینوس نے فوراً اپنے دستوں کو جنگی ترتیب میں آنے کا حکم دیا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ مسلمان جو ایک میل وسعت میں دائیں بائیں کو پھیلے ہوئے ہیں وہ کیا چال سوچ کر آرہے ہیں۔

بلاذری نے لکھا ہے کہ جالینوس نے غالباً یہ سوچا تھا کہ مسلمان کل کی لڑائی اور رات بھر سفر کے تھکے ہوئے ہیں۔ اس نے مسلمانوں کے قلب پر حملہ کر دیا ۔ابو عبید اسی حصے میں تھا اور پرچم اس کے ساتھ تھا۔ ابو عبید نے تین بار نعرہ لگایا۔’’ اﷲ اکبر! اﷲ اکبر! اﷲ اکبر!‘‘ اس کے ساتھ ہی مسلمان مقابلے کیلئے تیار ہو گئے۔

’’آج عربوں کی زندگی عجمیوں کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ یہ جالینوس کا نعرہ تھا۔

فارسی تازہ دم تھے۔ وہ کسی میدانِ جنگ سے نہیں بلکہ مدائن سے آرام کے شب و روز گزار کر آئے تھے۔ گذشتہ شام جالینوس کے حکم سے اردگرد کے دیہات سے اس کے فوجی لوگوں کی بھیڑ بکریاں اور مویشی جبراً کھول لائے تھے۔ انہیں ذبح کر کے سپاہیوں کو کھلا دیا گیا تھا۔ سپاہیوں کو اور زیادہ خوش کرنے کیلئے کھانے کے ساتھ ان میں مفت شراب تقسیم کی گئی تھی۔

’’……اور یہ لڑائی عربوں کو بہت مہنگی پڑے گی۔‘‘ جالینوس نے اپنے خطاب میں سپاہیوں سے کہا تھا۔’’ اور تم مالامال ہو جاؤ گے۔ عربوں نے ہر شہر سے بہت سونا لوٹا ہے۔یہ سب ان کے پاس ہے۔ یہ سب تمہارا مال ہے۔ اس میں سے شاہی محل کا حصہ نہیں نکالا جائے گا جو جتنا مال اکٹھا کرلے گا وہ اسی کا ہو گا۔‘‘

فارسیوں کا حملہ اتنا شدید تھا کہ ابو عبید کے قلب کے دستے اس کے آگے قدم نہ جما سکے ۔ کچھ تو وہ حملے کی شدت سے پیچھے اور زیادہ تر دانستہ پیچھے ہٹنے لگے تاکہ فارسی اورآگے آجائیں۔ مسلمان ہوش و حواس اور حوصلہ قائم رکھ کر بے جگری سے مقابلہ کرتے ہوئے پیچھے ہٹ رہے تھے۔

کچھ وقت گزرا تو جالینوس کو اپنے عقب میں شوروغل سنائی دیا۔ اس نے اُدھر دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس نے اپنی فوج کے جو دو حصے مسلمانوں کے پہلوؤں پر حملہ کرنے کیلئے پیچھے چھوڑے تھے۔ ان پر عقب سے حملہ ہو گیا تھا۔ ان دونوں حصوں کے افسر اور سپاہی اپنے دستوں کے حملو ں کا تماشا دیکھ رہے تھے کہ ان پر عقب سے دائیں اور بائیں سے حملہ ہو گیا ۔یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ فارسی بوکھلا گئے ۔انہیں یہ تو پتا ہی نہ چلا کہ حملہ آوروں کی تعداد ان سے بہت کم ہے۔ وہ ان کی تعداد بہت زیادہ سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے مدائن میں مسلمانوں کی فتوحات اور اپنی فوج کی ہر جگہ شکست کی خبریں بھی سنی تھیں اور یہ بھی سنا تھا کہ مسلمان وحشی اور خونخوار ہیں جو اپنی جانوں کی پرواہ ہی نہیں کرتے۔

تاریخ نویس ابنِ خلکان نے لکھا ہے کہ خود جالینوس بوکھلا گیا۔ اس کیلئے یہ حملہ متوقع تو تھا اسے معلوم تھا کہ مسلمانوں کے پہلوؤں کے دستے بھی ہیں لیکن اسے یہ توقع نہیں تھی کہ تھکے ماندے مسلمان اتنی جلدی حملہ کر دیں گے ۔اس نے لڑائی کا اپنا جو پلان بنایا تھا وہ ناکام ہو گیا تھا۔اس کے پیچھے والے دستے عقبی حملے کے دباؤ سے آگے گئے اور اپنے ان دستوں میں چلے گئے جنہوں نے مسلمانوں کے قلب پر حملہ کیا تھا۔ اس طرح جالینوس کی ترتیب اور تنظیم گڈ مڈ ہو گئی۔ فارسی سوار اپنے گھوڑوں تلے اپنے ہی پیادوں کو کچل رہے تھے۔

فارسی تعداد میں زیادہ تھے۔ مسلمان کم تعداد کی وجہ سے انہیں پوری طرح گھیرے میں نہ لے سکے۔ فارسی لڑائی سے نکل نکل کر بھاگنے لگے۔ اتنے میں جالینوس کا پرچم غائب ہو گیا۔ مجاہدین نے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔’’ ان کا پرچم گر گیا ہے۔‘‘ فارسیوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ مجاہدین نے انہیں چن چن کر مارا۔

جالینوس نے مدائن جا کر دم لیا۔

٭

جالینوس سے پہلے چند ایک گھوڑ دسوار میدانِ جنگ سے بھاگ کر مدائن پہنچے تھے ۔رستم کوپتا چل گیا اور اس نے ان سب کو بلایا۔ رستم کو قہر و غضب کی کیفیت میں دیکھ کر یہ بھگوڑے کانپنے لگے ۔انہوں نے لڑائی کی تفصیل سنائی ۔رستم غصے سے باؤلا ہو گیا۔

’’جالینوس کہاں ہے؟‘‘اس نے گرجتی ہوئی آواز میں پوچھا۔’’ کیاوہ ماراگیا ہے؟‘‘

’’کچھ معلوم نہیں۔‘‘ ہر سوار نے لا علمی کا اظہار کیا۔ ایک نے کہا ۔’’پر چم غائب ہو گیا تھا۔‘‘

’’اب میں یہ سننا چاہتا ہوں کہ جالینوس مارا گیا ہے ۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ اگر وہ زندہ ہے تو اسے میں مار ڈالوں گا۔‘‘

اس وقت رستم کے پاس ایک بزرگ مفکر آیا بیٹھا تھا۔ رستم باہر کھڑا غصے میں گرج رہا تھا۔ یہ واقعہ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے کہ رستم کے متعلق مشہور تھا وہ کہ علمِ نجوم میں مہارت رکھتا تھا اور آنے والے حالات و واقعات کی پیش گوئیاں کیا کرتا تھا ۔بزرگ مفکر نے اُسے اندر بلایا۔

’’کیا ہو گیا ہے رستم؟‘‘ بزرگ نے پوچھا۔

’’مروان شاہ، جابان، نرسی، بندویہ ، تیرویہ کے بعد جالینوس بھی مسلمانوں سے شکست کھا گیا ہے۔‘‘ رستم نے کہا۔

’’میں نے سنا ہے کہ تم نے ستاروں کی گردش سے حساب لگا کر کہا تھا کہ سلطنتِ فارس کا انجام ٹھیک نہیں ہو گا؟‘‘بزرگ نے پوچھا۔

’’ہاں !‘‘ رستم نے جواب دیا۔’’ میں نے ایسے ہی کہا تھا۔‘‘

’’پھر تم نے سلطنت کی ذمہ داریاں اپنے سر کیوں لی ہیں؟‘‘بزرگ مفکر نے پوچھا۔

’’اقتدارکی ہوس اور حکومت کے لالچ میں!‘‘رستم نے جواب دیا۔

رستم کے یہ الفاظ تقریباً ہر مؤرخ نے لکھے ہیں۔

سقاطیہ کے بعد بار سماء کے مقامات پر فارسیوں کی شکستیں مسلمانوں کی بہت اہم فتوحات تھیں۔ یہ زرخیز اورآباد علاقے تھے۔ بار سماء دولت اور جاگیر داروں اور رئیسوں کی بستی تھی۔ وہ ایک اشارے پر اپنی فوج تیار کر سکتے تھے۔

سورج غروب ہو رہا تھا جب تین چارشہری مجاہدین کے پاس آئے ۔وہ ڈرے ڈرے لگتے تھے۔ انہوں نے مجاہدین سے کہا کہ وہ سپہ سالار سے ملنا چاہتے ہیں۔ مجاہدین نے ملاقات کی وجہ پوچھی جو انہوں نے نہ بتائی۔ صرف یہ کہا کہ وہ فریاد لے کر آئے ہیں۔ ابو عبید کو اطلاع دی گئی ۔اس نے انہیں فوراً بلا لیا۔

’’فارس کے بھگوڑے فوجی شکست کھا کر ہمارے گھروں میں گھس آئے ہیں ۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’اور اردگرد کے دیہات میں پھیل گئے ہیں۔ پہلے انہوں نے ہماری بھیڑیں اور بکریاں اور ہمارے مویشی ہم سے چھینے اور کھا گئے۔ اب وہ ہمارے گھروں میں آگئے ہیں۔ پہلے انہوں نے کہا کہ کھانا تیار کرو اور کھانے کے ساتھ شراب ضرور ہو۔ ان کا یہ حکم مانا تو انہوں نے ہماری عورتوں سے دست درازی شروع کر دی۔ کسی بھی بستی میں جا کر دیکھیں کسی کے گھر کی عزت محفوظ نہیں رہی۔‘‘

’’اور یہاں کے جاگیردار جو بادشاہ کے درباری ہیں وہ ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم ان فوجیوں کو اپنی جوان عورتیں پیش کردیں ۔‘‘ایک اور فریادی بولا۔

’’خدا کی قسم! یہاں کے لوگوں کی عزت ہماری عزت ہے۔‘‘ ابو عبید نے بھڑک کر کہا۔’’ جہاں اسلام کا سایہ پہنچ گیا ہے وہاں کے نیک و بد کے ذمہ دار مسلمان ہیں۔ ہم کچھ دینے آئے ہیں لینے نہیں آئے۔ اگر ہم ایسے ہوتے تو تمہارے بھگوڑوں سے پہلے ہم تمہارے گھروں میں پہنچتے اور یہی کچھ کرتے جو تمہارے اپنے فوجی کر رہے ہیں……تم جاؤ‘ ہم آتے ہیں۔‘‘

’’ہم آپ کو دو رئیسوں کے نام بتا دیتے ہیں ۔‘‘ ایک فریادی نے کہا۔’’ ایک فرخ ہے جو بار سماء میں بادشاہوں کی طرح رہتا ہے اور دوسرے کا نام فراونداد ہے۔ وہ یہاں سے کچھ دور ایک بستی زوابی میں رہتا ہے۔یہ دونوں شاہی خاندان کے پالتو خوشامدی ہیں۔‘‘

ابو عبید نے مثنیٰ بن حارثہ اور سلیمان بن قیس کو بلایا۔

’’میں یہیں رہوں گا۔‘‘ ابو عبید نے دونوں سالاروں سے کہا ۔’’ مالِ غنیمت کی تقسیم اور دوسرے کام میں خود کر لوں گا ۔تم دونوں اپنے ساتھ جتنی نفری لے جانا چاہتے ہو لے جاؤاور دور دور تک کی بستیوں کو فارسی بھگوڑوں سے صاف کردو۔‘‘ ابو عبید نے انہیں بتایا کہ اس علاقے کے ان آدمیوں نے کیا فریاد کی ہے پھر کہا۔’’ ان لوگوں کو اعمال اور افعال سے بتاؤ کہ تکریمِ انسانیت اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔یہ لوگ خود توحید اور رسالت کو مان لیں گے۔‘‘

٭

مثنیٰ بن حارثہ نے بار سماء کی بستی کو گھیرے میں لے لیا، اور چاروں اطراف سے اعلان کرایا کہ فارس کے فوجی باہر نکل آئیں اور جو فوجی چھپا ہو املے گا اسے وہیں قتل کر دیا جائے گا ۔اعلان میں یہ بھی کہا گیا کہ فوجیوں نے جو چیزیں لوگوں کے گھروں سے اٹھائی ہیں وہ ان ہی گھروں کو واپس کردیں۔ اعلان میں یہ بھی کہا کہ جس گھر میں کوئی فوجی موجود ہے اس گھر کا بڑا آدمی آکر ہمیں بتائے۔

اعلان ہوتے ہی چند ایک فوجی باہر آگئے۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک ادھیڑ عمر آدمی دوڑا آیا اور ایک فوجی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا۔

’’اس شخص نے میری کنواری بیٹی کی عزت لوٹ لی۔‘‘ اس آدمی نے مثنیٰ کے آگے فریاد کی ۔’’ اور یہ ہمیں قتل کی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔‘‘

مثنیٰ کے حکم سے اس فوجی کو الگ کھڑا کر دیا گیا۔

کچھ دیر بعد دو چار فوجی اور باہرآگئے۔ ان میں سے بھی ایک نے ایک عورت نے آبروریزی کی تھی۔ اُسے بھی الگ کھڑا کر دیا گیا۔

ان کے بعد بارسماء کا جاگیردار فرخ باہر آیا اور مثنیٰ بن حارثہ سے ملا اور اپنا تعارف کروایا۔

’’میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ان فوجیوں کو معاف کر دیں۔‘‘ فرخ نے کہا۔’’ اور انہیں مدائن جانے دیں۔‘‘

’’کیا عربوں کو تم جاہل سمجھتے ہو؟‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’ کیا میں یہ سمجھ نہیں سکتا کہ تم ان فوجیوں کو ہم سے چھڑا کر ملکۂ فارس اور اس کے سپہ سالار کو خوش کرنا چاہتے ہو…… اور تم ابھی تک اپنے آپ کو ملکہ ٔفارس کی رعایا سمجھ رہے ہو۔یہ علاقہ اب فارس کی سلطنت سے نکل گیا ہے ۔اگر تم مجرموں کی حمایت کرو گے تو قتل کر دیئے جاؤ گے۔ یہ بزدل بھگوڑے ان بیگناہ لوگوں کے مال و متاع اور ان کی عزتیں لوٹ رہے ہیں اور تم ان کی پشت پناہی کر رہے ہو۔‘‘

’’یہ میری بھول تھی معزز سالار!‘‘ فرخ نے مثنیٰ کے تیور دیکھ کر کہا۔’’ میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ علاقہ اب آپ کی بادشاہی میں آگیا ہے۔‘‘

’’ہماری بادشاہی میں نہیں۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’ اﷲ کی بادشاہی میں……اور اﷲ کی بادشاہی میں کوئی انسان کسی انسان پر ظلم نہیں کر سکتا ۔ہم انسانوں کو ان کے حقوق اور عدل و انصاف دینے آئے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ تم اس علاقے کے بادشاہ بنے ہوئے ہو۔ جاؤ اور تما م فوجیوں کو باہر لے آؤ اور انہیں کہو کہ لوگوں کے گھروں سے لوٹا ہوا مال ساتھ لے آؤ۔‘‘

فرخ دوڑا گیا اور کچھ ہی دیر بعد جالینوس کے دستوں کے فوجی جن میں چند ایک عہدیدار بھی تھے باہر آگئے۔ انہوں نے جو اشیاء لوگوں کے گھروں سے اٹھائی تھیں وہ مثنیٰ کے آگے زمین پر رکھ دیں۔ بستی کے لوگوں کو بلایا گیا کہ وہ اپنی اشیاء شناخت کر کے لے جائیں۔

پھر بستی کے لوگوں سے کہا گیا کہ وہ ان فوجیوں کو پہچانیں جنہوں نے ان کی عزتیں لوٹی ہیں۔ لوگوں نے کم و بیش بیس فوجیوں کو آگے کر کے کہا کہ انہوں نے ان کے گھروں میں من مانیاں کی تھیں۔

مثنیٰ نے ان میں سے ایک کو دھکیل کر آگے کیا اور گھٹنوں کے بل بٹھا کر اس کی گردن جھکا دی۔

’’اس کے ہاتھوں ستائی ہوئی عورت کو آگے لایا جائے۔‘‘ مثنیٰ نے بستی کے لوگوں کے ہجوم سے کہا۔

ذرا وقفے سے ایک نوخیز لڑکی اپنے باپ کے ساتھ آگے آئی۔ مثنیٰ نے اپنی تلوار نیام سے کھینچ کر لڑکی کو دی اور اسے کہا کہ اس شخص کی گردن اڑا کر اپنی بے عزتی کا انتقاام لے۔

لڑکی کی عمر بمشکل سولہ برس تھی ۔ اس نے تلوار اس فوجی کی گردن پر رکھی اور دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھائی۔ کچھ دیرتلوار اوپر ہی اٹھی رہی اور لڑکی کے ہاتھ کانپنے لگے۔آخر لڑکی نے تلوار نیچے کر کے مثنیٰ کی طرف بڑھا دی اور وہ رونے لگی۔ ایک مجاہد دوڑ کر آگے آیا۔ وہ بیس بائیس برس کی عمر کا خوبرو جوان تھا۔ جو صہیب ثقفی کے نام سے مشہور ہو گیا تھا ۔اس کی شہرت غیر معمولی شجاعت کی بدولت تھی۔ اس کا پورا نام صہیب ابن القدر تھا۔ وہ ابو عبیدکے قبیلے ثقیف میں سے تھا۔

’’ میں ا س لڑکی کا انتقام لوں گا۔‘‘ اس نے پر جوش آواز میں کہا اور اپنی تلوار کے ایک ہی وار سے اس نے اس فارسی کا سر اس کے جسم سے الگ کر دیا۔ اس نے لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’ ہم تمہاری عزت کے محافظ ہیں۔‘‘

صہیب ثقفی جس تیزی سے آیا تھا اسی تیزی سے واپس جا کر اپنی جگہ چلا گیا۔ لیکن لڑکی اسے وہیں کھڑی حیرت ذدہ نظروں سے دیکھتی رہی۔

مثنیٰ بن حارثہ کے حکم سے باقی آدمیوں کو بھی اسی طرح سزائے موت دی گئی۔ کسی کو مظلوم عورت نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا اور کسی کا سر کسی مجاہد نے تن سے جدا کیا۔ بستی میں سے دوسرے جو فوجی برآمد ہوئے انہیں جنگی قیدی بنا لیا گیا۔

’’میں آپ کی اطاعت قبول کرتا ہوں۔‘‘ فرخ نے کہا۔

٭

اُدھر ایک اور بستی زوابی میں بھی یہی منظر بنا ہو اتھا۔ وہاں دوسرے سالار سلیطؓ بن قیس گئے۔ وہاں بھی فرخ جیسا ایک جاگیر دار تھا۔ جس کا نا م فراونداد تھا، وہ فرخ سے زیادہ طاقتور تھا ۔اس نے مزاحمت کی بھی کوشش کی تھی۔ لیکن بستی کے لوگوں نے اس کا ساتھ نہیں دیا تھا ۔ اسے پکڑ کر سلیطؓ کے سامنے کھڑا کیا گیا۔

’’کیا تم نے اپنے بہادر اور شیر دل سالاروں کا انجام نہیں سنا؟‘‘سلیطؓ نے اسے کہا۔’’ کیا جالینوس سے بڑھ کر کوئی اور بہادر سالار تمہاری فوج میں تھا؟……کہاں ہے تمہارا جالینوس؟……اس نے ہم سے ایسی شکست کھائی ہے کہ بھاگتا نظر نہیں آیا ۔کیا تم جالینوس سے زیادہ بہادر ہو؟‘‘

’’میری بستی کے لوگوں نے مجھے دھوکا دیا ہے۔‘‘ اس فارسی جاگیردار نے کہا۔’’ اگر یہ میراساتھ دیتے تو میں مقابلہ کرتا۔‘‘

’’اب تمہارا ساتھ کوئی نہیں دے گا۔‘‘ بستی کے ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا۔’’ تمہاری بادشاہی ختم ہو گئی ہے۔‘‘

اس ایک آواز کے ساتھ ہی بستی کے لوگوں نے شوروغل بپا کر دیا۔ پتا چلا کہ جالینوس کے بھگوڑے فوجیوں کو اس نے اپنی بستی میں پناہ دی تھی اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ان فوجیوں کو تقسیم کرکے اپنے گھروں میں رکھیں۔ یہاں بھی فوجیوں نے ہوس کاری کے مظاہرے کیے اور لوگوں کو بہت پریشان کیا۔

سلیطؓ بن قیس نے سترہ اٹھارہ فوجیوں کے سر تن سے جدا کر دیئے اور باقی سب کو جنگی قیدی بنا لیا۔ فراونداد نے اطاعت قبول کر لی۔

مثنیٰ بن حارثہ اور سلیطؓ بن قیس مختلف سمتوں کو دور دور تک چلے گئے اور فارس کے چھپے ہوئے فوجیوں کو پکڑ لائے ۔میدانِ جنگ سے بھاگے ہوئے یہ فوجی اس ڈر سے مدائن نہیں جاتے تھے کہ ان کا کمانڈر انچیف رستم انہیں سزا دے گا۔

محمد حسنین ہیکل اپنی کتاب فاروق اعظمؓ میں ایک واقعہ لکھتا ہے ۔اس وسیع و عریض علاقے کے جاگیرداروں اور رئیسوں کو یقین ہو گیا کہ ان کے علاقے سلطنتِ فارس سے نکل کر مسلمانوں کے قبضے میں آگئے ہیں اور انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ مسلمان خوشامد پسند نہیں اور یہ بادشاہ بھی نہیں اور یہ عزتیں لوٹنے کے بجائے عزتوں کی حفاظت کرتے ہیں۔یہ لوگ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے ابو عبید اور ا س کے سالاروں کو اپنے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔

محمد حسنین ہیکل مستند مؤرخوں کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ابو عبید اپنے سالاروں کے ساتھ بارسماء میں تھا۔ ایک روز فرخ اور فراونداد ان کیلئے نہایت مرغن اور پر تکلف کھانا لائے جس میں انواع اقسام کے کھانے تھے ۔یہ ان کی عقیدت مندی کاا ظہار تھا۔

ابو عبید نے یہ شاہانہ کھانا دیکھا ۔پھر اپنے سالاروں کی طرف دیکھا۔

’’کیا یہ کھانا میرے پورے لشکر کیلئے کافی ہو گا؟‘‘ ابو عبید نے پوچھا۔

’’نہیں!‘‘ایک جاگیر دار نے کہا۔’’ یہ صرف آپ کیلئے ہے……سالاروں کے لیے……‘‘اس نے ہنس کر کہا۔’’ سپاہیوں کو ایسا کھانا کون دیتاہے؟‘‘

’’پھر یہ کھانا واپس لے جاؤ۔‘‘ ابو عبید نے کہا۔’’ ہمارے لشکروں میں سالار بھی وہی کھانا کھاتے ہیں جو سپاہی کھایا کرتے ہیں ۔ یہ ہمارے سپاہی نہیں اﷲ کے سپاہی ہیں۔ اگر تم پورے لشکر کر ایساکھانا دے سکتے ہو تو ہم بھی کھا لیں گے ورنہ نہیں۔‘‘

فاروق اعظمؓ میں لکھا ہے کہ جاگیرداروں نے بڑی عجلت میں مجاہدین کے پورے لشکر کیلئے ایساہی کھانا تیار کرایا جو سالاروں نے مجاہدین کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھایا۔

انہی تاریخ نویسوں نے یہ بھی لکھاہے کہ مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال کیلئے مدینہ بھیجا گیا تو اس کے ساتھ اس علاقے کی ایک خاص قسم کی کھجور بھی حضرت عمرؓ کے لیے بھیجی گئی۔ اس کھجور کا نام نرسیان تھا۔ یہ فارس کے صرف شاہی خاندان اور جرنیل کھاتے تھے ۔عام لوگوں کے نصیب میں یہ کھجور نہیں تھی۔ ابو عبید نے یہ کھجور اپنے لشکر میں تقسیم کرنے کے علاوہ اس علاقے کے غریب کسانوں میں تقسیم کی اور حکم جاری کیا کہ آئندہ یہ کھجور ہر خاص و عام کھا سکتا ہے۔

مدینہ میں خوشیاں ناچ رہی تھیں اور مدائن پر شکست و مایوسی کی کالی گھٹائیں چھا گئی تھیں۔

رستم نے مسلمانوں کے خلاف ایک خوفناک جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔

٭

رستم نے جنگ کی تیاریاں تو شروع کر دیں لیکن اس کے انداز اور چال ڈھال سے شک ہوتا تھا جیسے وہ اندر سے ہل گیا ہو۔ وہ غصے سے گرجتے گرجتے اچانک چپ ہو جاتا اور خلاء میں گھورنے لگتا ۔ ابھی جالینوس اس کے سامنے نہیں آیا تھا۔ سقاطیہ کی شکست کی وہ تفصیل سن چکا تھا۔

’’زرتشت کی قسم!‘‘ اس نے کہا۔ ’’سلطنتِ فارس کا یہ انجام نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے باتیں کرنے کے انداز سے دبی دبی آواز میں کہا۔’’ یہ کیا ہو رہا ہے؟……شکست……ہرمیدان میں شکست……کیا ہم میں غدار تو نہیں پیدا ہو گئے؟……کیا مسلمان رومیوں سے زیادہ طاقتور ہیں؟……نہیں ‘ان کی تعداد تو بہت ہی تھوڑی ہے……‘‘

اس نے کمرے کے وسط میں کھڑے کھڑے سر جھکا لیا اور ہاتھ پیٹھ پیچھے کر کے کمرے میں اس طرح قدم گھسیٹ گھسیٹ کر چلنے لگا جیسے وہ بھی سقاطیہ سے شکست کھا کر آیا ہو۔

’’رستم!‘‘اسے ملکۂ فارس پوران کی آواز سنائی دی‘ جو کمرے میں موجود تھی۔’’ کیا تم یقین سے کہتے ہو کہ سلطنتِ فارس انجام کو پہنچ رہی ہے؟‘‘

’’اوہ!‘‘رستم نے چونک کر کہا۔’’ ملکہ ٔفارس! معلوم نہیں……‘‘

’’ملکۂ فارس نہیں رستم!‘‘ پوران نے کہا۔’’پوران کہو۔ کئی بار کہہ چکی ہوں کہ مجھے ملکۂ فارس نہ کہا کرو……اور سنو رستم !آئے دن شکست کی خبریں سن کر تمہاری جذباتی حالت ٹھیک نہیں رہی۔ کچھ وقت کیلئے شکست کو ذہن سے نکال دو ۔ دل سے یہ بوجھ اٹھا دو۔ غصے اور غم کی حالت میں نہ سوچو۔ میرے پاس آجاؤ۔ اس وقت تمہیں میری ضرورت ہے۔‘‘

رستم نے پوران کی طرف یوں دیکھا جیسے ڈرا ہوا بچہ ماں کو دیکھتا ہے۔ پوران پیالے میں شراب انڈیل رہی تھی۔ رستم اس کی طرف یوں آہستہ اہستہ چلنے لگا جیسے پوران نے اس پر سحر طاری کر دیا ہو۔ پوران نے پیالہ دونوں ہاتھوں میں لے کر رستم کی طرف بڑھایا ۔ رستم جیسے اس پیالے کا ہی منتظر تھا۔ اس نے لپک کر پوران کے ہاتھ سے وہ پیالہ لے لیا اور پیالہ اس کے ہونٹوں سے جا لگا۔ دو تین گھونٹ پی کر ا س نے پیالہ تپائی پر رکھ دیا۔

پوران کرسی سے اٹھ کر دیوان پر بیٹھ گئی ۔ اس نے رستم کا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف گھسیٹ لیا۔ دوسرے لمحے رستم پوران کے بازوؤں کی لپیٹ میں تھا اور اس کے جسم کی تپش پوران کے صحت مند جسم کی حرارت میں گھل مل رہی تھی۔

فارس جو بعد میں ایران کہلایا تین چیزوں کی بدولت مشہور تھا ۔نسوانی حسن، بہترین شراب، اور جنگی طاقت۔ جنگی طاقت کی دہشت جنگی ہاتھیوں کی وجہ سے تھی مگر اب فارسیوں کے پاس دو ہی چیزیں رہ گئی تھیں۔ایک نسوانی حسن، اور دوسری شراب۔ مسلمانوں نے انہیں جنگی طاقت کے زعم اور گھمنڈ سے محروم کر دیا تھا۔

مؤرخ لکھتے ہیں کہ جس رستم کا نام سن کر ہی اس کے دشمن چونک اٹھتے تھے ۔وہ رستم اب ایک بڑی ہی حسین عورت اور شراب کے نشے میں پناہ گزیں ہو گیا تھا۔ وہ ڈر نہیں گیا اس نے شکست قبول نہیں کرلی تھی ۔ اس کا یہ عزم متزلزل نہیں ہو گیا تھا کہ اپنی فوج کی پے بہ پے شکستوں کو فتح میں بدلے گا اوروہ فارس کی زمین پر کسی ایک بھی مسلمان کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہو گا ۔اس نے دو تین بار کہاتھا کہ میں اپنی سر زمین پر صرف اس مسلمان کا وجود برداشت کروں گا جو مردہ ہوگا اور وہ فارس کی تلواروں اور برچھیوں سے کٹا ہواہوگا۔

رستم سقاطیہ کی شکست کی خبر سن کر خوفزدہ نہیں ہو گیا تھا۔ وہ شراب اور پوران کے توبہ شکن حسن اور اس کی خود سپردگی میں حقائق سے مفرور ہو کر گم نہیں ہو گیا تھا۔ اسے حیرت پریشان کر رہی تھی۔تعجب نے اس کا دماغ ماؤف کر دیا تھا ۔ ایک یورپی تاریخ نویس ولیم سکاٹ نے رستم کی اس وقت کی جو ذہنی اور جذباتی کیفیت لکھی ہے ۔اس سے یہ منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے کہ پوران نے حسن و جوانی سے دمکتا دہکتا جسم رستم کے حوالے اس مقصد سے کر دیا تھا کہ فارس کا یہ عظیم جرنیل نارمل ذہنی حالت میں لوٹ آئے اور سلطنتِ فارس کی ڈولتی ڈگمگاتی کشتی کو بھنور کی لپیٹ میں جا گرنے سے بچا لے۔

’’پوران!‘‘ رستم نے پوران کے سینے پر سر رکھے ہوئے کہا۔’’ میں ان بدوؤں سے بہت برا انتقام لوں گا۔ ‘‘وہ ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں بول رہا تھا۔’’ لیکن میں یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ مسلمانوں میں وہ کون سی طاقت ہے جو ہم میں نہیں۔‘‘

’’سنا ہے وہ شراب نہیں پیتے۔‘‘ پوران نے کہا۔

’’وہ جاہل اور گنوار ہیں۔‘‘ رستم نے طنز کی۔’’ شراب ہم جیسی بادشاہ قوم پیا کرتی ہے۔‘‘

’’اور سنا ہے۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ وہ جس شہراور جس بستی کو فتح کرتے ہیں وہاں کی عورتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ۔خواہ کوئی نوجوان لڑکی کتنی ہی حسین کیوں نہ ہو۔‘‘

’’وہ صحرائی جانور ہیں۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ حسن کی پرستار ہم جیسی شہنشاہ قوم ہی ہوا کرتی ہے۔‘‘

وہ یکلخت اُٹھ بیٹھا اور بولا۔’’ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے بارسماء کے دو جاگیرداروں فرخ اور فروانداد نے مسلمانوں کے لشکر کو شاہانہ کھانا کھلایا ہے ۔یہ ہیں وہ غدار جو سلطنتِ فارس کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ میں مسلمانوں کو تہس نہس کرکے اپنے ان جاگیرداروں کے خاندانوں کی تمام عورتوں کو اپنی فوج کے حوالے کر دوں گا۔‘‘

’’تم نے ابھی تک کسی لڑائی میں ہاتھی کیوں نہیں بھیجے؟‘‘پوران نے پوچھا۔

’’ہر لڑائی میں ہاتھی استعمال نہیں کیے جاتے۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ ہاتھی ہر لڑائی میں بھیج دیئے جاتے تو اب تک ہمارے پاس ایک بھی ہاتھی نہ ہوتا۔ ہر لڑائی میں ان کی کچھ نہ کچھ تعداد ماری جاتی یا زخمی ہوجاتی۔ہاتھیوں کو لڑانے کا وقت اب آیا ہے۔ ہاتھی فیصلہ کن معرکے میں لڑائے جاتے ہیں……ہندوستان کے یہ ہاتھی مسلمانوں کو کچل ڈالیں گے……جالینوس نہیں آیا؟‘‘

’’وہ تمہارے سامنے آنے سے ڈر رہا ہے۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ وہ شرمسار ہو گا۔‘‘

’’میں اُسے سزا نہیں دوں گا ۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ میں اس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس نے عربوں میں کون سی ایسی طاقت دیکھی ہے جس کا وہ مقابلہ نہیں کر سکا۔‘‘

٭

ولیم سکاٹ متعدد مؤرخوں کے حوالے سے لکھتا ہے کہ رستم کی فطرت میں غرور اور تکبر بھر گیا تھا۔ اس نے ایسی فتوحات حاصل کی تھیں جن سے وہ مغرور ہو گیا تھا۔ اب مسلمانوں سے شکست پہ شکست کھا کر اس کے تکبر میں کمی نہیں آئی تھی۔ لیکن اس کا ذہن اس سوال میں الجھ گیا تھا کہ مسلمانوں میں وہ کون سی طاقت ہے کہ اتنی تھوڑی سی تعداد اور معمولی ہتھیاروں سے فارس کے ہر جرنیل کو وہ میدان سے بھگاتے چلے آرہے ہیں۔

وہ انہی سوچوں میں غرق تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ ایک بزرگ اس سے ملنے آیا ہے۔ رستم کو یاد آیا کہ یہ وہ ہی بزرگ دانشور ہے جس نے اس سے کچھ دن پہلے پوچھا تھا کہ علمِ نجوم کے ذریعے پتہ چل گیا تھا کہ سلطنتِ فارس کا زوال شروع ہو گیا ہے اور اسے کوئی نہیں روک سکتاتو پھر اس نے سلطنت کی ذمہ داریاں کیوں اپنے سر لی ہیں؟ رستم نے جواب دیا تھا اقتداد کی ہوس اور حکومت کے لالچ میں۔

رستم نے اطلاع ملتے ہی کہ شاموز آیا ہے ، اسے اندر بلا لیا اور پوران کے قریب سے اٹھ کر کرسی پر جا بیٹھا ۔شاموز اندر آیا تو وہ ملکہ ٔفارس پوران کے آگے جھکا ۔رستم نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا اور احترام سے بٹھایا۔

’’اب تمہارے ستارے کیا کہتے ہیں رستم؟‘‘ شاموز نے پوچھا۔

’’گردش میں ہیں میرے بزرگ!‘‘ رستم نے جواب دیا۔’’ ستارے دھوکہ دے رہے ہیں۔‘‘

’’انسان جب اپنے آپ کو دھوکادینے پر آجاتے ہیں تو ان کے ستارے آسمان کی وسعت میں بھٹک جاتے ہیں۔‘‘ شاموز نے کہا۔

’’آپ بزرگ اور دانشور ہیں۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مسلمانوں میں کوئی غیبی یا کوئی پراسرار طاقت تو نہیں؟‘‘

’’یہ نظریئے اور عقیدے کا معاملہ ہے۔‘‘ بوڑھے شاموز نے کہا۔’’ تم ستاروں سے آنے والے وقت کی بات پوچھتے ہو اور مسلمان دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اﷲ کی عبادت کرتے ہیں جو سورج چاند اور ستاروں کو آسمان میں گھماتا پھراتا ہے اور ان کی گردش کے راستے ذرا بھی تبدیل نہیں ہوتے۔‘‘

’’تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی ان کے اس عقیدے کو تسلیم کر لیں؟‘‘رستم نے پوچھا اور کہا۔’’ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان کے عقیدے سے متاثر ہیں اور……‘‘

’’نہیں! ‘‘شاموز نے رستم کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’ میں ان کی بات سے متاثر نہیں ہو سکتا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ میں یہودی ہوں؟اسلام کی بیخ کنی ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ اتنی زیادی شکستیں کھا کر حوصلہ نہ ہار بیٹھنا ۔ میں تمہاری حوصلہ افزائی کیلئے آیا ہوں۔ کیا تم جانتے ہو کہ مسلمانوں کے لشکر میں عیسائیوں کی بھی کچھ تعداد ہے؟‘‘

’’میں نے سنا ہے۔‘‘ رستم نے کہا۔ ’’اور میں حیران ہوں کہ عیسائی مسلمانوں کے ساتھ کیوں مل گئے ہیں؟‘‘

’’عرب ہونے کے ناطے سے۔ ‘‘شاموز نے کہا۔’’ تم شاید نہیں جانتے کہ ہم نے کتنے ہی عیسائی قبیلوں کو مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہونے سے روک رکھا ہے۔ کچھ عیسائی مالِ غنیمت کے لالچ میں مسلمانوں سے جا ملے ہیں لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عیسائی تمہاری بادشاہی سے ڈرتے ہیں۔ مسلمانوں میں بادشاہی کا رواج نہیں۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ بادشاہی اﷲ کی ہے اور جو لوگ حاکم بنائے جاتے ہیں وہ اﷲ کے احکام کی پیروی کرتے اور لوگوں سے پیروی کرواتے ہیں ۔ وہ لوگوں پر ذاتی فائدے کیلئے کوئی حکم نہیں چلا سکتے۔

’’کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ اس عقیدے کو توڑ دیں؟‘‘ پوران نے پوچھا۔

’’ہاں ملکۂ فارس!‘‘ شاموز نے کہا۔’’ یہ آپ کا فرض ہے……اور یہی فرض ہمارا ہے۔ ……آپ میدانِ جنگ میں اپنا فرض ادا کریں اور ہم یہودی زمین کے نیچے اپنا فرض دا کر رہے ہیں۔‘‘

شاموز یہودی تھا۔ یہودیت اور ابلیسیت میں سوائے نام کے اور کوئی فرق نہیں۔ اس نے پوران اور رستم کا یہ عقیدہ اپنے پر اثر استدلال سے پختہ کر دیا کہ شہنشاہیت ان کا آبائی حق ہے اور انہیں اپنی سلطنت کے تحفظ اور توسیع کیلئے ہر طرح کی قربانی دینی چاہیے ورنہ مسلمان ان پر فتح حاصل کرکے غلام بنا لیں گے۔

’’ستاروں کی گردش سے نکلو رستم !‘‘شاموز نے کہا۔’’اور مسلمانوں کو اپنی جنگی قوت دکھا دو ……اور انہیں یہ بھی بتا دو کہ ان کا مذہب ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں……یہ کام صرف تم کر سکتے ہو۔‘‘

٭

اور جب جالینوس رستم کے سامنے آیا تو رستم کو جیسے پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ اسے کیا کہے اور کیانہ کہے۔ جالینوس کا سر جھکا ہوا تھا۔

’’جالینوس!‘‘کچھ دیر بعد رستم نے وہ سکوت توڑا جو کمرے میں طاری ہو گیا تھا ۔’’ اگر شکست کھاکر بھاگنے والے تم اکیلے ہو تے تو آج تم اس کمرے سے زندہ نکل کر نہ جاتے۔ افسوس یہ ہے کہ تم پر مجھے جو اعتبار تھا وہ مجروح ہو گیا ہے۔ تمہیں عربوں کے مقابلے میں بھیج کر میں فتح کی خبر کے انتظار میں تھا ……کیا تم بتاسکتے ہو کہ مسلمانوں میں وہ کون سی طاقت ہے جو ہم میں نہیں؟‘‘

’’دہشت!‘‘جالینوس نے کہا۔’’ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہماری فوج میں ہے مسلمانوں میں نہیں۔ یہ دہشت ہمارے ان سپاہیوں نے پھیلائی ہے جو مسلمانوں سے شکست کھا کر بھاگ آتے ہیں……میں سقاطیہ کے میدانِ جنگ سے اس وقت نکلا تھا جب میرے سپاہی گیدڑوں کی طرح بھاگ نکلے تھے ۔ میرا جذبہ اور حوصلہ قائم ہے ۔ میں نے شکست کھائی ہے لیکن میں نے شکست کو قبول نہیں کیا، میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک شکست کا انتقام نہیں لے لوں گا۔

رستم نے جالینوس کے ساتھ کوئی اور بات نہ کی۔ اس نے حکم دیاکہ اس کے جو اعلیٰ فوجی افسر یہاں موجود ہیں۔ اُنہیں محل کے باہر بلایا جائے ۔اس نے فوج کے چھوٹے بڑے عہدیداروں کو بھی بلایا۔

رستم باہر نکلا۔ رستم کی پوزیشن تو کمانڈرانچیف جیسی تھی لیکن عملاً فارس کا بادشاہ وہی تھا۔پوران چونکہ شاہی خاندان کی عورت تھی اس لیے ملکہ اسی کو بننا تھا ۔اس نے تمام کے تمام امورِ سلطنت رستم کے حوالے کر دیئے تھے۔ فوج کے جرنیل اور ان سے چھوٹے عہدوں کے افسر رستم کی اس حیثیت اور اختیارات سے آگاہ تھے ۔اس لیے اسے بادشاہ سمجھ کر اس کی تعظیم کرتے تھے۔

رستم جب باہر نکلا تو ملکۂ فارس پوران اس کے ساتھ تھی اور ان کے پیچھے جالینوس تھا۔

’’کیا اسے تم ملکہ کہو گے؟‘‘ ایک فوجی افسر نے اپنے ساتھ کھڑے افسر کے کان میں کہا۔’’ رستم نے اسے بیوی بنا رکھا ہے۔‘‘

’’کون نہیں جانتا!‘‘دوسرے افسر نے کہا۔’’ رستم اب وہ رستم نہیں رہا جو میدان ِجنگ کا بادشاہ تھا۔ یہ اب فارس کا بادشاہ بن گیا ہے۔‘‘

رستم جب قریب آیا تو تمام فوجی افسر تعظیم میں جھک گئے۔

’’یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آدھا فارس مسلمانوں کے قبضے میں چلا گیا ہے۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ صرف ان ہی جرنیلوں نے عرب کے مسلمانوں سے شکست نہیں کھائی جو ان کے مقابلے میں لڑے نہیں……جابان،مروان، نرسی، جالینوس……کیا یہ شکست کھانے والے جرنیل تھے؟ ‘‘رستم نے خاموش ہو کر ایک سرے سے دوسرے سرے تک سب پر نظریں دوڑائیں۔ پھر کہا۔’’اب میں خود کسی جرنیل سے نہیں کہوں گا کہ وہ فوج کی کمان لے اور عربوں کو فارس سے نکالے، تم بتاؤ اب کون جائے؟‘‘تاریخ میں رستم کے یہ الفاظ تحریر ہیں۔ ’’تمہارے خیال میں کون عجمی عربوں پر غالب آسکتا ہے؟‘‘

’’بہمن جادویہ!‘‘بہت سی آوازیں اٹھیں۔ ’’ہاں ہاں! عربوں پر بہمن جادویہ ہی غالب آسکتا ہے۔‘‘

بہمن جادویہ کا نام ذوالحاجب تھا۔ بہمن ایک خطاب تھا جو اسے جارحانہ اور جرأتمندانہ قیادت کے صلے میں ملا تھا۔ رستم بھی اس کی بہادری کا قائل تھا۔ بہمن وہاں موجود تھا۔ رستم نے اُسے آگے بلایا۔

’’مسلمانوں کی نفری دس ہزار سے کم ہو سکتی ہے زیادہ نہیں ہوگی۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ تم اس سے تین گنا چار گنا نفری لے جاؤ۔ وہ تمہیں دریاکے کنارے ملیں گے۔ اُنہیں فرات میں ڈبو کر دم لینا تمہارا کام ہے۔‘‘ رستم نے جالینوس کی طرف دیکھا اور کہا۔’’ تم بھی بہمن کے ساتھ جاؤ گے جالینوس!……اور یاد رکھو……اب اگر تم نے میدان میں پیٹھ دکھائی تو میرے سامنے نہ آنا۔ اپنی تلوار اپنے پیٹ میں گھونپ لینا ورنہ میری تلوار تمہاری گردن کاٹ دے گی۔‘‘

’’زرتشت کی قسم!‘‘ جالینوس نے بلند آواز سے کہا۔’’ اب مدائن میں میری فتح کی خبر آئے گی یا موت کی۔‘‘

ایک مسلمان مؤرخ ابو حنیفہ دینوری لکھتے ہیں کہ رستم نے ان تمام جرنیلوں اور دیگر افسروں کو جانے کی اجازت دے دی اور پوران کے ساتھ محل میں چلا گیا۔ افسر وہاں سے ہٹے تو ٹولیوں کی شکل میں بٹ گئے۔ ان میں بعض رستم کے حق میں باتیں کر رہے تھے اور بعض رستم کے خلاف اور پوران کے حق میں بول رہے تھے۔ صاف پتا چلتا تھا کہ فوج کے افسروں کے دو ٹولے بن گئے ہیں ۔ایک ٹولہ رستم کے حق میں اور دوسرا اس کے خلاف تھا۔ اس طرح کچھ افسر پوران کے حامی اور باقی اس کے خلاف تھے۔

٭

ابو عبید کے لشکر کی تعداد دس ہزار سے کم رہ گئی تھی۔بعض مؤرخین نے آٹھ ہزار سے ذرا زیادہ لکھی ہے۔ کئی مجاہدین شہید ہوئے اور ایسے زخمیوں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی۔ جن کے زخموں نے انہیں لڑنے سے معزور کر دیا تھا۔ سقاطیہ کی لڑائی کے بعد ابو عبید اپنے لشکر کو دریائے فرات کے کنارے قس الناطف کے مقام پر لے گئے تھے۔ لشکر اگلی لڑائی کیلئے آرام اور تیاریاں کر رہا تھا۔

طبری اور تین چار اور مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ابو عبید کی بیوی دومہ ان کے ساتھ تھی۔

’’ایک پر نور چہرے والے آدمی کو میں نے آسمان سے اترتے دیکھا۔‘‘ ایک روز دومہ نے اپنا خواب ابو عبید کو سنایا۔’’ اس کے ہاتھ میں شرابِ طہور کی صراحی تھی۔ میں نے دیکھا کہ آپ نے اور بہت سے ال ثقیف نے اس صراحی سے شرابِ طہور پی۔ اس کے فوراً بعد میری آنکھ کھل گئی۔‘‘

’’اشارہ صاف ہے۔‘‘ابو عبید نے اپنی بیوی سے کہا۔’’ میں اور وہ اہلِ ثقیف جنہوں نے شرابِ طہور پی ہے‘ جامِ شہادت نوش کریں گے۔ اﷲ نے یہ واضح اشارہ اس لیے دیا ہے کہ میں اپنی سپہ سالاری کے جانشین مقرر کردوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شہادت مجھے جانشین مقرر کرنے کی مہلت ہی نہ دے۔‘‘

انہوں نے اسی روز جانشین مقرر کر دیئے کہ وہ شہید ہو جائیں تو فلاں کمان اور پرچم سنبھال لے۔ اس کے بعد فلاں اور اسی طرح انہوں نے متعدد سالاروں کو بتا دیا کہ کون کس کے بعد کمان سنبھالے گا۔

بہمن جادویہ بڑی شان سے فوج لے کر مدائن سے نکلا۔ مدائن کی ساری آبادی باہر نکل آئی تھی اور بازو لہرا لہرا کر اور نعرے لگا لگا کر اپنی فوج کو رخصت کر رہی تھی۔ ملکہ پوران او ر رستم گھوڑوں پر سوار شہر کے دروازے کے باہر کھڑے فوج کو الوداع کہہ رہے تھے ۔دونوں مسکرا رہے تھے۔

’’مسلمان تم سے زیادہ بہادر نہیں۔‘‘ ملکہ پوران اپنے سامنے سے گزرتی ہوئی فوج سے بار بار کہہ رہی تھی۔’’ تم فاتح واپس آؤ گے۔‘‘

مؤرخ لکھتے ہیں کہ مدائن سے فوجیں مختلف محاذوں پر جاتی رہتی تھیں اور بار ہا گئی تھیں لیکن ایسی شان و شوکت سے پہلی بار فوج کو رخصت کیا گیا جس طرح بہمن جادویہ اور جالینوس کے دستوں کو رخصت کیا جا رہا تھا۔ رستم اور پوران کچھ دور تک اس فوج کے ساتھ گئے اور ایک ٹیکری پر کھڑے ہو کر ان دستوں کو رخصت کیا۔

ان دستوں میں گھوڑ سوار زیادہ تھے اور ان کے ساتھ ہاتھی بھی تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب مسلمانوں کے خلاف ہاتھی لے جائے جا رہے تھے ۔کسی بھی مؤرخ نے ہاتھیوں کی تعداد نہیں لکھی۔ کچھ ایسا اشارہ ملتا ہے کہ ان کی تعداد ہزاروں میں نہیں سینکڑوں میں تھی۔ یہ تو تقریباً ہر مؤرخ نے لکھا ہے کہ ان میں ایک ہاتھی سفید تھا جو عام ہاتھی سے ڈیڑھ گنا قوی ہیکل تھا۔

ان ہاتھیو ں کی شان ہی نرالی تھی۔ ان پر ہودے کسے ہوئے تھے ۔جن میں تیر انداز اور نیزہ بازکھڑے تھے اورہر ایک کی گردن پر ایک ایک مہاوت بیٹھا تھا ۔ہر ہاتھی کے ساتھ بڑے بڑے گھنٹے بندھے ہوئے لٹک رہے تھے جو بجتے تھے تو بہت اونچی آواز دیتے تھے ۔ سینکڑوں ہاتھیوں کے گھنٹوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ گھنٹوں کی آوازوں سے کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ ہر ہاتھی کے دونوں پہلوؤں سے لوہے کی زنجیریں لٹک رہی تھیں ۔ان زنجیروں کی وجہ سے ہاتھی کے پیٹ پر تلوار کا وار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان ہاتھیوں کو جنگی تربیت دی گئی تھی اور انہیں خوراک اتنی زیادہ دی جاتی تھی کہ یہ ہر وقت مستی کی حالت میں رہتے تھے۔

یہ ہاتھی سندھ کے اس وقت کے راجہ نے فارسیوں کو بھیجے تھے ۔اس کے کچھ عرصے بعد فارس کے بادشاہ کی فرمائش پر راجہ داہر نے بھی کچھ ہاتھی بھیجے تھے۔

’’ذوالحاجب! ‘‘جالینوس نے بہمن جادویہ سے پوچھا۔ ’’رستم اور ملکۂ فارس کے گٹھ جوڑ کے متعلق تمہارا کیاخیال ہے؟‘‘

’’میرے خیال کی کیا پوچھتے ہو جالینوس!‘‘بہمن جادویہ نے کہا۔’’ میں نے فوج میں ایک بہت ہی خطرناک تبدیلی دیکھی ہے۔ کچھ لوگ رستم کے حامی ہیں اور کچھ پوران کے۔ رستم کے حامی پوران پر اور پوران کے حامی رستم پر شکست کا الزام لگاتے ہیں۔‘‘

’’میں نے بھی یہی دیکھا ہے۔ ‘‘جالینوس نے کہا۔ ’’مجھے خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ مدائن میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ میں ذاتی طور پر پوران کو پسند کرتا ہوں۔ کسریٰ کے خاندان کی عورتوں میں یہ واحد عورت ہے جس نے سلطنتِ فارس کے تحفظ اور تو سیع کی طرف توجہ دی ہے، اور شاہی خاندان میں تخت و تاج پر جو لڑائیاں شروع ہو گئی تھیں وہ بند کرائی ہیں۔‘‘

’’میں بھی مدائن میں خانہ جنگی کے آثار دیکھ رہا ہوں۔‘‘ بہمن جادویہ نے کہا۔’’ شاہی خاندان میں کچھ اور ہی سیاست چل پڑی ہے ۔پوران کے خلاف یہ شکایت ہے کہ وہ رستم کی ہو کر رہ گئی ہے۔‘‘

’’ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہے۔‘‘ جالینوس نے کہا۔

’’لیکن ہمیں مدائن پر نظر رکھنی پڑے گی۔‘‘ بہمن جادویہ نے کہا۔’’میں پیچھے اپنے دو جاسوس چھوڑ چلا ہوں۔ وہ مجھے مدائن کے حالات سے آگاہ رکھیں گے۔‘‘

٭

ابو عبید قس الناطف کے قریب خیمہ زن تھے۔ قس الناطف قلعہ بند قصبہ تھا۔ ابو عبید اپنے لشکر کو اس قلعے میں لے گئے۔ وہیں انہیں اطلاع ملی کہ مدائن سے فارسیوں کی فوج آرہی ہے۔ ابو عبید نے اپنے سالاروں مثنیٰ بن حارثہ اور سلیطؓ بن قیس کو بلایا اور انہیں بتایا کہ آگے جاکر دیکھ بھال کرنے والے اپنے آدمیوں نے بتایا ہے کہ مدائن سے فوج آرہی ہے۔ جس کا رخ اِدھر ہی ہے۔

’’……اور میرے رفیقو!‘‘ابو عبید نے کہا۔’’ اس فوج کے ساتھ ہاتھی بھی ہیں۔ میں صرف ہاتھیوں سے ڈرتا ہوں۔ ڈر یہ ہے کہ ہمارے آدمیوں نے ابھی تک ہاتھی دیکھے ہی نہیں ۔وہ ڈر جائیں گے۔‘‘

’’ہم اپنے آدمیوں کو بتا دیں گے کہ ہاتھی کی جسامت اور شکل و صورت سے نہ ڈریں۔‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’ اور انہیں یہ بھی بتا دیں گے کہ ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹنے کی کوشش کریں۔‘‘

’’تیر انداروں کو آگے کریں گے ۔‘‘سلیطؓ بن قیس نے کہا ۔’’جو ہاتھی زخمی ہو گا وہ پیچھے کو بھاگے گا اور اپنی فوج کو روندتا پھرے گا۔‘‘

’’اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ ابو عبید نے کہا۔’’ سب کو بتا دینا کہ ہاتھی آرہے ہیں‘اور ان سے ڈریں نہیں……دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں قلعہ بند ہو کر نہیں لڑنا چاہیے۔ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ قلعہ چھوٹا ہے اور مضبوط بھی نہیں۔ دروازے ہاتھیوں کی ٹکر سے ٹوٹ جائیں گے۔ فارسی اندر آگئے تو ہمارے لیے لڑنے کی جگہ تنگ ہو گی۔‘‘

’’اور خطرہ یہ بھی ہے۔‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’ کہ اس جگہ کے لوگوں کا کچھ بھروسہ نہیں۔ اب ہمارے وفادار بنے ہوئے ہیں ۔ہو سکتا ہے اپنی فوج کو دیکھ کر ہمارے دشمن ہو جائیں اور برچھیاں تلواریں لے کر ہماری پیٹھ پر وار کرنے شروع کر دیں۔‘‘

’’لشکر کو فوراً باہر نکالو۔‘‘ سپہ سالار ابو عبید نے کہا۔ ’’اور شہر کے دروازے بند کر دو۔ سارے شہر کو حکم سنا دو کہ شہرکا کوئی آدمی عورت یا بچہ شہر سے نہ نکلے۔‘‘

شہر میں کچھ دیر بعد ہڑبونگ سی مچ گئی۔ مجاہدین کا لشکر بھاگم بھاگ تیاریوں میں مصروف ہوگیا اور شہر کے لوگ اپنا قیمتی ساز و سامان سونا اور اپنی جوان بیٹیاں اِدھر اُدھر چھپانے لگے ۔ شام تک مجاہدین کالشکر قلعے سے نکل گیااور دریائے فرات کے کنارے قیام پزیر ہوا۔ اس مقام کا نام مروحہ تھا اور وہاں کشتیو ں کا پل بھی تھا۔

٭

بہمن جادویہ کے متعلق تاریخوں میں لکھا ہے کہ وہ مسلمانوں کو صرف اس لیے ہی دشمن نہیں سمجھتا تھا کہ انہوں نے اس کے ملک پر حملہ کیا تھا۔ بلکہ اس کے دل میں پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی تھی۔ جسے وہ مذہب کا رنگ دیا کرتا تھا۔

’’جالینوس!‘‘اس نے راستے میں یہ الفاظ کہے تھے جو تاریخ میں محفوظ ہیں۔’’ میں یہ لڑائی ملکۂ فارس اور رستم کے حکم سے لڑنے نہیں آیا۔ یہ میری ذاتی لڑائی ہے۔ میں نے ان کے سالار خالد سے جو شکستیں کھائی ہیں ،۔ان کا انتقام ان مسلمانوں سے لوں گا۔‘‘

’’انتقام تو میں نے بھی لینا ہے۔ ‘‘جالینوس نے کہا۔’’ میں ان کے خون سے فرات کو لال کر دوں گا۔‘‘

پھر فارس کی یہ فوج مسلمانوں کے بالمقابل دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئی۔ چونکہ سورج غروب ہو رہا تھا اس لیے اسی روز لڑائی شروع نہیں ہو سکی تھی۔ عربوں نے ہاتھی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے پہلی بار ہاتھی دیکھے تو دریا کے کنارے کھڑے ہو کر اندھیرا گہرا ہونے تک دیکھتے رہے۔ رات کو سالاروں نے انہیں بتایا کہ ہاتھیوں کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے۔

حسبِ معمول فارس کی فوج کی نفری مسلمانوں کی نسبت اڑھائی تین گنا زیادہ تھی۔ سوار دستے بھی زیادہ تھے اور ہاتھی ایک اضافی جنگی قوت تھی۔

رات گزر گئی۔ فجر کی نماز کی امامت ابو عبید نے کی اور سورہ انفال کی یہ آیت پڑھ کر مختصر سا خطبہ دیا کہ’’ آج کے دن جس نے پیٹھ دکھائی بجز اس کے کہ وہ کسی مصلحت سے پیچھے ہٹا ‘اس پر اﷲ کا غضب نازل ہو گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہو گا جو بہت برا ٹھکانہ ہے۔‘‘ پھر کہا کہ’’ آج تک باطل کی اس جنگی قوت کو تم نے ہر میدان میں شکست دی ہے۔ ہر میدان میں ان کی تعداد تم سے کہیں زیادہ اور بہت زیادہ رہی ہے۔ اﷲ نے تمہیں ہر میدان میں فتح عطا فرمائی لیکن اﷲ اپنے کرم سے اسی کو نوازتا ہے جو اس کی راہ میں قربانیاں دیتے ہیں۔ اب ایسانہ ہو کہ ہم شکست کی سیاہی اپنے چہروں پر مل کر مدینہ جائیں۔ تمہاری اپنی بیویاں اپنی بہنیں اور اپنے بچے تمہاری صورت دیکھنا گوارا نہیں کریں گے۔ان ہاتھیوں سے نہ ڈرنا۔ ان چلتی پھرتی چٹانوں کو انہیں کے لہو میں ڈبو دو۔‘‘

صبح کی روشنی ذرا سفید ہوئی تو دریا کے پاس سے فارسیوں کی للکار سنائی دے رہی تھی۔ ابو عبید نے اس طرف کے کنارے پر کھڑے ہو کر دیکھا ۔بہمن جادویہ پکار رہا تھا۔

’’کیاتم دریا پار کر کے اس طرف آؤ گے یا ہم ادھر آئیں؟‘‘بہمن جادویہ بلند آواز سے پوچھ رہا تھا۔

ابو عبید نے اس خیال سے کوئی جواب نہ دیا کہ اپنے سالاروں سے مشورہ کرکے جواب دیں گے۔

’’تم عرب کے بدو اس طرف آنے کی جرات کر ہی نہیں سکتے ۔‘‘ بہمن جادویہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

’’تمہارے چہرے بتاتے ہیں کہ تم اِدھر آنے سے ڈرتے ہو۔‘‘ جالینوس نے طعنہ دیا۔

’’ہم آرہے ہیں۔‘‘ ابو عبید نے کہا اور دریا کے کنارے سے ہٹ آئے۔

٭

’’خدا کی قسم!‘‘ ابو عبید نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’ میں یہ طعنہ برداشت نہیں کر سکتاکہ ہم ان آتش پرستوں سے ڈرتے ہیں۔ جنہیں ہم ہر لڑائی میں شکست دے چکے ہیں ……کشتیوں کا پل موجود ہے۔ لشکر دریا کے پار جا کر لڑے گا۔‘‘ تاریخ عمر فاروقؓ میں ابو عبید کے یہ الفاظ تحریر ہیں ۔’’آتش پرست موت پر ہم سے زیادہ دلیر نہیں ہیں۔ دریا ہم ہی عبور کریں گے۔‘‘

’’ابو عبید!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’ خدا کی قسم ! مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم لشکر کو دریا کے پار لے جا کر لڑاؤ گے۔‘‘

’’تمہیں یقین کیوں نہیں آرہا ابن حارثہ؟‘‘ ابو عبید نے کہا۔ ’’انہوں نے ہمیں للکارا ہے ۔ہم دریا کے پار جا رہے ہیں۔‘‘

’’کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ان کی تعداد کتنی زیادہ ہے؟‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’ وہ ہاتھی بھی لائے ہیں ۔ان کی تیاری دیکھو……ہمیں دریا کے پار نہیں جانا۔ انہیں للکارو کہ وہ اِدھر آئیں۔‘‘

مؤرخ طبری اور بلاذری نے لکھا ہے کہ ابو عبید بہمن جادویہ اور جالینوس کی طعنہ آمیز للکار پر اس قدر مشتعل ہو گئے تھے کہ وہ مثنیٰ بن حارثہ کی کسی بات اورکسی دلیل کو قبول نہیں کر رہے تھے۔

’’اوریہ بھی دیکھ ابو عبید!‘‘سالار سلیطؓ بن قیس نے کہا۔ ’’ہماری تعداد مشکل سے نو ہزار ہے اور ان کی تعداد تو دیکھو ۔پچیس ہزار ہو گی۔ میدان کے زیادہ حصے میں تو انہوں نے اپنی فوج کو پھیلا دیا ہے اور ہاتھیوں کو انہوں نے قلب میں رکھا ہے۔ انہوں نے ہمارے نو ہزار مجاہدین کیلئے جو جگہ چھوڑی ہے وہ کافی نہیں ہے۔ ہمارے سواروں کیلئے گھوڑے گھما پھرا کر لڑنے کیلئے یہ جگہ تنگ ہے۔ پیچھے دریا ہے۔ دائیں بائیں کی زمین کٹی پھٹی ہے ، کھڈ بھی ہیں……ہمیں پار نہیں جانا چاہیے۔‘‘

’’خدا کی قسم! ‘‘ابو عبید نے کہا۔’’ یہ ہماری بزدلی ہو گی کہ ہم پار نہ جائیں۔‘‘

’’میں تمہیں پھر کہتاہوں۔‘‘ سلیط ؓبن قیس نے ذرا درشت لہجے میں کہا۔’’ اپنے ارادے سے باز آجاؤ‘ پچھتاؤ گے۔‘‘

’’تم بزدل ہو۔‘‘ ابو عبیدنے زیادہ درشت لہجے میں کہا۔’’میں اپنی زبان سے نہیں پھروں گا۔ میں نے انہیں کہہ دیا ہے کہ ہم آرہے ہیں۔‘‘

’’خدا کی قسم!‘‘ سلیطؓ بن قیس نے کہا۔’’ میں تم سے زیادہ دلیر ہوں۔ میں نے اپنی رائے دے دی ہے۔ تمہیں خطروں سے خبردار کر دیا ہے۔ تم سپہ سالار اور ہمارے امیر ہو۔ تمہاری اطاعت ہم پر فرض ہے۔‘‘

’’پھر تم میرا حکم مانو! ‘‘ابو عبید نے کہا۔

محمد حسنین ہیکل نے اپنی کتاب عمر ؓ فاروق اعظم میں مختلف مؤرخوں کے حوالوں سے یہ واقعہ تفصیل سے لکھاہے۔ اس نے لکھا ہے کہ مثنیٰ بن حارثہ پر خاموشی طاری ہو گئی۔ ابو عبید کو یاد نہ رہا کہ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے ابو عبید کو مدینہ میں بوقت رخصت نصیحت کی تھی کہ کوئی فیصلہ جلد بازی میں نہ کرنا۔ تمہارے ساتھ رسولﷺ کے صحابی جا رہے ہیں۔ ان کے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ اورکوئی بڑی کارروائی نہ کرنا۔ سلیطؓ بن قیس کی رائے کو اہمیت دینا۔

حضرت عمرؓ جانتے تھے کہ مدینہ سے جو لشکر جا رہا ہے اس کا سپہ سالار مثنیٰ بن حارثہ کو ہونا چاہیے یا سلیطؓ بن قیس کو۔مثنیٰ بن حارثہ کو اس لیے سپہ سالار ہونا چاہیے تھا کہ انہوں نے خالدؓ بن ولید کی قیادت میں فارس کی فوج کے خلاف کئی معرکے لڑے تھے۔ اس طرح وہ تجر بہ کار اور ہوشمند سالار بن گئے تھے۔ سلیطؓ بن قیس کو اس لیے سپہ سالار ہونا چاہیے تھا کہ وہ صحابی رسولﷺ تھے۔ انہوں نے رسولﷺ کی قیادت میں کئی جنگیں لڑی تھیں۔ لیکن حضرت عمرؓ نے ابو عبید کو سالاری کا رتبہ صرف اس لیے دیا تھا کہ حضرت عمرؓ کے کہنے کے باوجود کوئی ایک بھی آدمی عراق کے محاذ پر جانے کیلئے تیار نہیں ہوا تھا۔مثنیٰ بن حارثہ کمک لینے کیلئے مدینہ آئے ہوئے تھے۔ اُنہو ں نے لوگوں کو ایسا اشتعال دلایا کہ ابو عبید اٹھے اور کہا کہ وہ عراق کے محاذ پر جائیں گے۔ ان کے اٹھنے کی دیر تھی کہ وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں نے محاذ پر جانے کیلئے اپنے نام پیش کر دیئے ا ور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہزار رضا کار عراق کے محاذ پر جانے کیلئے تیار ہو گئے۔

پہلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ رضاکاروں کی تعداد کس طرح چار ہزار ہوئی‘اور جب ابو عبید محاذ پر پہنچے تو رضاکار مجاہدین کی تعداد دس ہزار تھی۔ جیسے ابو عبید نے سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کر کے دروازہ کھول دیا تھا۔ مدینہ میں ہی جب امیر المومنین حضرت عمر ؓنے دیکھا تھا کہ ابو عبید کے پیچھے ایک ہزار رضاکار تیار ہو گئے ہیں تو انہو ں نے اس کا سہرا ابو عبید کے سر باندھا اور انہیں مجاہدین کے اس لشکر کا سپہ سالار بنا دیا تھا۔

ابو عبید صحابی نہیں تھے۔ پھر بھی حضرت عمر ؓنے انہیں اس لشکر کا سپہ سالار اور امیر مقرر کر دیا تھا۔ جس میں صحابہ کرامؓ بھی تھے۔ حضرت عمرؓ کے اس فیصلے پر اعتراض بھی ہوا تھا جس کے جواب میں حضرت عمر ؓنے کہا:

’’خدا کی قسم! میں کسی مدنی یا کسی صحابی کو سپہ سالار نہیں بناؤں گا۔ اﷲ نے تمہیں سر بلندی اس لیے عطا فرمائی تھی کہ تم نے دین کے دشمنوں کے سر کچلنے کیلئے ہمت اور شجاعت کے جوہر دکھائے تھے ۔مگر میں تین دن سے دیکھ رہا ہوں تمہارے چہروں پر بزدلی لکھی ہوئی تھی ۔تم دشمن کے سامنے جانے سے ڈر رہے تھے۔ تو کیا سالاری اور امارت کیلئے اس شخص نے برتری حاصل نہیں کرلی جو اپنے دین کی حفاظت اور فروغ کیلئے سب سے پہلے آگے آیا؟……خدا کی قسم‘ ا س لشکر کا امیر یہی شخص ہو گا ……ابو عبید!اٹھو۔ میں نے تمہیں اس لشکر کا امیر مقرر کیا جو مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ جا رہا ہے ۔‘‘ حضرت عمر ؓنے وہاں بیٹھے ہوئے دو صحابہ کرامؓ سعد ؓبن عبید اور سلیطؓ بن قیس سے کہا تھا۔ ’’تم دونوں ابو عبید کے بعد بولے تھے کہ تم محاذ پر جاؤ گے ۔ابو عبید سے پہلے تم اٹھتے تو لشکر کے امیر تم ہوتے۔‘‘

پھر حضرت عمرؓ نے ابوعبید کو دو واضح نصیحتیں کیں اور ہدایات دی تھیں جن کا لب لباب یہ تھاکہ انہیں جو رتبہ دیا گیا ہے اس کا غلط استعمال نہ کریں اور بغیر مشورے کے اپنا کوئی فیصلہ نہ ٹھونسیں۔ مگر ابو عبید امیر المومنینؓ کی ہدایات کو ذہن سے صاف کر چکے تھے اور وہ اپنا ذاتی فیصلہ ٹھونس رہے تھے کہ ہم دریا کے پار جا کر لڑیں گے۔

٭

مبصر لکھتے ہیں کہ مسلمان جو دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا پر چھاگئے تھے او ر جنہوں نے قیصرِ روم اور کسریٰ فارس کی جنگی طاقت کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا ۔وہ اس ڈسپلن کا کرشمہ تھا کہ مسلمان اپنے امیر کی اطاعت کو مذہبی فرض سمجھتے تھے ، امیر آمر نہیں ہوتے تھے۔ ان کا کوئی فیصلہ اور کوئی حکم ذاتی نوعیت کا نہیں ہوتا تھا۔

مثنیٰ بن حارثہ ،سلیطؓ بن قیس اور سعد ؓبن عبیدنے ابو عبید کے فیصلے سے اختلاف کے باوجود ان کے حکم کی تعمیل کی، اور اپنے اپنے دستوں کو پل سے دریا پار کرنے کا حکم دیا۔علامہ شبلی نعمانی اور محمد حسنین ہیکل کچھ حوالے دے کر لکھتے ہیں کہ جس نے سب سے پہلے دریا عبور کیا وہ سلیطؓ بن قیس تھے۔

فارس کا لشکر جنگی ترتیب میں کھڑا تھا جیسے وہ کوئی حرکت کرے گا ہی نہیں……خاموش اور پرسکون!

مجاہدین اپنے دشمنوں کو چپ چاپ کھڑا دیکھ کر کشتیوں کے پل سے دریا پار کرتے رہے ۔ انہیں اطمینان تھا کہ وہ دریا پار کرکے جنگی ترتیب میں آجائیں گے تو لڑائی شروع ہو گی۔ یہ توقع بھی تھی کہ اس دور کے رواج کے مطابق ایک طرف کا سالار یا کوئی اور آدمی دوسری طرف کی فوج کو للکار کر کہے گا کہ اپنا کوئی آدمی انفرادی معرکے کیلئے نکالو۔پھر اس معرکے کی ہار جیت کے بعد فوجوں کی جنگ شروع ہو گی۔

ابو عبید نے اپنے سالاروں کو بتا دیا تھا کہ کون کس پوزیشن میں ہو گا۔ انہوں نے اپنے لشکر کو میمنہ، میسرہ، قلب اور محفوظہ میں تقسیم کر دیا تھا۔ مجاہدین کے لشکر نے اس ترتیب کے مطابق دشمن کے سامنے جا کھڑا ہونا تھا۔

لشکر کشتیوں کے پل سے گزر گیا۔ آخری دو چار مجاہدین بھی اس سرے تک پہنچ گئے ۔لشکر کے مختلف حصے ابھی اپنی اپنی جگہ پہ پہنچنے بھی نہ پائے تھے کہ بہمن جادویہ کے سوار دستوں نے دائیں اور بائیں سے حملہ کر دیا۔ ابو عبید کے لشکر کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا۔ مجاہدین اس اچانک اور غیر متوقع حملے کیلئے تیار ہی نہیں تھے۔

یہی دشمن کی چال تھی۔

ابو عبید بہمن جادویہ کے جال میں آگئے تھے۔

مجاہدین ابھی ترتیب میں نہیں آئے تھے۔ فارسیوں کے اچانک حملے سے مجاہدین بے ترتیب ہجوم بن کے رہ گئے۔ فارسیوں کے نعرے ’’کاٹ دو ان عربوں کو……فتح عجمیوں کی ہے……گھوڑوں تلے کچل دو……فرات کو ان کے خون سے لال کر دو……پکارو اپنے اﷲ کو اپنے رسول)ﷺ( کو……‘‘بڑے ہی غصیلے اور طنزیہ نعرے تھے ۔ان میں کچھ نعرے بڑے ہی توہین آمیز اور اشتعال انگیز تھے۔

ان نعروں نے مسلمانوں کی غیرت و حمیت کی کوئی ڈھکی چھپی رگ بیدار کر دی۔ حنیفہ دینوری نے یہ لکھاہے کہ یہ لڑائی ماہ رمضان ۱۳ ہجری میں لڑی گئی۔ لڑائی کی صورت یک طرفہ تھی۔ میدان آتش پرستوں کے ہاتھ میں تھااور پچیس ہزار کے لگ بھگ نفری کی فوج میں نو ہزار مسلمان اپنی جانیں بچانے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن توہین آمیز نعروں نے ان میں روحانی قوتیں بیدار کر دیں اور وہ ایسے جوش اور ایسے حیران کن جذبے سے لڑنے لگے کہ ان کے قدم جم گئے۔ انہوں نے جوابی نعرے لگانے شروع کر دیئے:

’’آگ کے پجاری کسی میدان میں نہیں ٹھہر سکے ۔یہاں بھی نہیں ٹھہریں گے۔‘‘

’’یہ بھکاریوں کی فوج ہے۔‘‘

’’یہ کرائے کے فوجی ہیں۔‘‘

’’یہ ایک عورت کی رعایا ہے‘‘

’’نعرہ تکبیر اﷲ اکبر!‘‘

ان نعروں کا فائدہ خود مجاہدین کو یوں ہوا کہ ہر مجاہد کو پتا چل گیا تھا کہ ا س کے ساتھی زندہ و بیدار ہیں اور ان کا جذبہ قائم ہے۔ فارسیوں کو احساس ہو گیا کہ ان مسلمانوں کے جذبے کو مارنا آسان کام نہیں۔

مجاہدین کیلئے یہ زندگی اور موت کا معرکہ تھا۔ انہیں یہ احساس آگ بگولہ کر رہا تھا کہ وہ ہار گئے تو ان کی پہلی فتوحات پر پانی پھر جائے گا اور کسریٰ کی فوج پر ان کی جو دہشت طاری تھی وہ ختم ہو جائے گی۔ مگر مسلمان ایسی صورتِ حال میں پھنس گئے تھے کہ ان کیلئے پسپائی بھی ممکن نہیں رہی تھی۔ ایک نعرے نے ان میں جان ڈال دی۔

’’فتح یا موت۔‘‘

یہ ایک مجاہد کا نعرہ تھا جو ہر مجاہد کے سینے سے دھماکوں کی طرح نکلنے لگا۔ اب مسلمانوں کا قہر دیکھنے کے قابل تھا ۔وہ کلمہ طیبہ کے بلند ورد کے ساتھ دیوانگی کے عالم میں لڑنے لگے اور یہاں تک کامیابی حاصل کر لی تھی کہ فارسیوں کا گھیرا توڑ دیا اور ترتیب میں آنے لگے۔ سالار بھی سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے اور بکھرے ہوئے مجاہدین کو منظم کرنے کی بھی کوشش کر رہے تھے۔

بہمن جادویہ نے ہاتھیوں کو آگے کر دیا۔ ہاتھی سیاہ چٹانوں کی طرح دوڑے آئے۔ ان کے مقابلے کیلئے گھوڑ سوار مجاہدین آگے بڑھے لیکن ہاتھیوں کے پہلوؤں سے لٹکتے ہوئے گھنٹے اتنی زور زور سے بجتے تھے کہ مجاہدین کے گھوڑے بدک بدک کر اِدھر ُادھر ہو جاتے مگر ہاتھیوں کے قریب نہیں جاتے تھے ۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فارس کے تیر اندازوں نے بدکے ہوئے گھوڑوں کے سواروں کو چن چن کر نشانہ بنایا ۔سوار تیزی سے شہید ہوتے چلے گئے۔

مسلمان پیچھے ہٹ کر ترتیب میں آسکتے تھے ۔لیکن پیچھے دریا تھا۔ وہ دائیں بائیں پھیل سکتے تھے اور وہ پھیلنے کی کوشش بھی کر رہے تھے ۔لیکن فارسی انہیں پھیلنے نہیں دے رہے تھے۔ سالاروں نے دیکھا کہ گھوڑے سیاہ ہاتھیوں سے اور ان کے گھنٹوں کی ہیبت ناک آوازوں سے ڈر رہے ہیں اور پیادہ مجاہدین کا حوصلہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ سالار اپنے مجاہدین کو للکار للکار کر حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ فارسیوں کے گھوڑے تو ہاتھیوں اور ان کے گھنٹوں کی آوازوں سے مانوس تھے ۔مسلمانوں کے گھوڑوں نے ہاتھی پہلی بار دیکھے تھے۔

٭

سپہ سالار ابو عبید کو اپنی غلطی کا یقیناً احساس ہو اہو گا۔ انہیں سالاروں نے روکا تھا کہ دریا کے پار نہ جائیں۔ ابو عبید نے اپنی لغزش کا کفارہ یوں ادا کیا کہ اپنے گھوڑے سے کود کر اترے ۔وہ ان سوار مجاہدین کے ساتھ تھے جو ہاتھیوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر گھوڑے بدکتے تھے۔ ابو عبید گھوڑے کو بیکار سمجھ کر اُتر آئے تھے۔

ان کی دیکھا دیکھی سوار مجاہدین بھی گھوڑے سے اتر آئے اور ابو عبید کی قیادت میں انہوں نے فارسیوں پرایسا ہلہ بولا )محمد حسنین ہیکل کے دیئے ہوئے حوالوں کے مطابق(انہوں نے تھوڑی سی دیر میں چھ ہزار فارسیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس سے فارسیوں کے حوصلے پست ہو گئے لیکن ایک مشکل ہاتھیوں نے پیدا کر رکھی تھی۔ ان کے ہودوں میں تیر انداز بھی تھے اور برچھی باز بھی اور ہاتھی بذات خود خطرناک تھے کہ مستی میں دوڑتے اور جو مجاہد سامنے آتا اسے سونڈ سے اٹھا کر اوپر کو اچھال دیتے یا اسے زور سے زمین پر پٹخ کر مار ڈالتے۔

’’ہاتھیوں کے سامنے نہ جاؤ۔‘‘ ابو عبید نے چلّا چلّا کر کہا۔’’ پہلوؤں کی طرف سے ہودوں کی رسیاں کاٹ دو۔‘‘

یہ معرکہ کوئی معمولی معرکہ نہ تھا۔ جن مسلمانوں نے آتش پرستوں کو ہر میدان میں شکست دی تھی اور کسریٰ کی افواج پر دہشت بن کر غالب آرہے تھے اس روز وہ کسریٰ کے دو جرنیلوں کے پھندے میں آگئے تھے اور وہ بری طرح کٹ کٹ کر گر رہے تھے۔ مؤرخوں نے اس لڑائی کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ابو عبید کی دیوانگی سے پتا چلتا تھا کہ وہ اپنی غلطی کا کفارہ ادا کر رہے ہیں اور اپنی یقینی شکست کو فتح میں بدلنے کیلئے جان پر کھیل رہے ہیں۔

سوار مجاہدین نے گھوڑوں سے اتر کر ہاتھیوں پر ہلہ بول دیا۔ ہاتھیوں کے ہودوں سے ان پر تیر بھی آرہے تھے اور برچھیاں بھی۔ مجاہدین ان سے بچنے کی کوشش کرتے۔ بعض زخمی ہوجاتے اور اسی حالت میں ہاتھیوں کے پہلوؤں میں جا کر تلواروں سے ہودوں کی رسیاں کاٹ دیتے۔ جو ہودہ نیچے گرتا اس کے آدمیوں کو الٹا گراتا۔ مجاہدین ان کے سنبھلنے سے پہلے ہی انہیں کاٹ دیتے۔ مجاہدین نے کئی ہاتھیوں کو بھی زخمی کیا۔

جس ہاتھی کا ہودہ گرتا اور جو ہاتھی زخمی ہوتا۔ وہ اِدھر اُدھر بھاگتا دوڑتا بغیر مہاوت کے ہاتھی جدھر کو منہ آیا ‘دوڑ پڑے۔ انہیں یہ بھی ہوش نہ رہا کہ اپنی فوج کو روند رہے ہیں یا دشمن کو انہیں کنٹررول کرنے والا کوئی تھا ہی نہیں ۔ انہیں اپنے پرائے کی پہچان نہ رہی۔

بے مہاوت اور زخمی ہاتھیوں نے بظاہر لڑائی کا پانسہ پلٹ دیا تھا۔ لیکن مسلمان جو تعداد میں پہلے ہی تھوڑے تھے اور زیادہ تھوڑے ہو گئے۔اس کے باوجود وہ بکھرے رہنے کے بجائے ترتیب میں آگئے۔ ان کی تھکن کا یہ عالم تھا وہ اپنے جسموں کو بڑی مشکل سے گھسیٹ رہے تھے ۔ولیم سکاٹ لکھتاہے کہ جس ناگفتہ بہ صورتِ حال میں عرب کے مسلمان پھنس گئے تھے۔ اگر ان کی جگہ فارسی یا رومی ہوتے تو کبھی کے ہتھیار ڈال چکے ہوتے یا پسپا ہو جاتے۔

مجاہدین کو سالاروں نے ترتیب میں کرکے اپنے انداز کے حملے شروع کر دیئے۔کبھی فارسی حملے کی تاب نہ لاکر پیچھے ہٹ جاتے اور کبھی مجاہدین کو پیچھے ہٹنا پڑتا۔

٭

ہاتھی تو تقریباً سارے کے سارے میدان سے نکل گئے تھے۔ لیکن ایک سفید ہاتھی جو جسامت میں عام ہاتھیوں سے بہت بڑا تھاابھی میدانِ جنگ میں موجود تھا اور بری طرح چنگھاڑتا پھرتا تھا ۔یہ ہاتھی دودھ کی طرح سفید نہیں تھا بلکہ اس کا رنگ دوسرے ہاتھیوں کی نسبت اتنا ہلکا تھا کہ سفید لگتا تھا ۔اسکا رنگ سفیدی مائل تھا۔

ابو عبید نے اس ہاتھی کو ختم کرنے کا ارادہ کیا اور اس کے آگے چلے گئے۔ ہاتھی ان کی طرف آیا ۔ابوعبید نے تلوار کے ایک ہی وار سے اس کی سونڈ کاٹ دی۔ ہاتھی بھاگا نہیں، وہ ابو عبید کی طرف قہر و غضب سے بڑھا۔ انہیں ٹکر مار کر گرایا اور اپنا ایک پاؤں ابو عبید کے اوپر رکھ کر انہیں کچل دیا۔ سپہ سالار ابو عبید شہید ہو گئے۔

محمد حسنین ہیکل اور علامہ شبلی نعمانی نے طبری، بلاذری اور دیگر مستند مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ابو عبید کی تلوار کا وار اتنا زوردارتھا کہ سفید ہاتھی کی سونڈ مستک سے صاف کٹ گئی تھی۔ ایک یورپی مؤرخ لکھتا ہے کہ سونڈ پوری نہیں کٹی تھی کیونکہ اس ہاتھی کی جسامت ایسی قوی ہیکل تھی کہ سونڈ ایک وار سے کٹ ہی نہیں سکتی تھی ۔یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سونڈ آدھی سے زیادہ کٹ گئی تھی۔

زخمی شیر، چیتا ،ہاتھی اور اونٹ انتقام ضرور لیتے ہیں ۔ہاتھی اور اونٹ کا کینہ مشہور ہے۔ فارس کا یہ ہاتھی تو تھا ہی خونخوار۔ اس نے ابو عبید کو پہلے گرایا۔ وہ پیٹھ کے بل گرے اور ہاتھی نے ان کے سینے پرپاؤں رکھ کر اپنے جسم کا وزن ڈالا۔تصور کیا جا سکتا ہے کہ ابو عبید کا جسم کس طرح کچلا گیا ہو گا۔

ابو عبید کا ایک بھائی حکم قریب ہی تھا۔ اس نے پہلا کام یہ کیا کہ ہاتھی کی ٹانگ پر تلوار کا وار کیا۔ ہاتھی کا ہودہ گرا ہوا تھا۔ ہاتھی پیچھے ہٹا ۔حکم نے ابو عبید کا پرچم اٹھا کر اوپر کیااور چلّا کر نعرہ لگایا:

’’ہمارا عَلَم بلند ہے۔‘‘

حکم کی توجہ پرچم پر تھی کہ اسے اونچا رکھا جائے تاکہ مجاہدین کے حوصلے بلند رہیں۔ سفید ہاتھی پہلے سے زیادہ غضب ناک ہو گیا تھا۔ اس نے حکم کو ٹکر مار کر گرایا اورجس طرح ابو عبید پر پاؤں رکھ کر کچلا تھا ۔اسی طرح حکم کو بھی کچل ڈالا۔

ایک اور مجاہد آگے بڑھا اور اس نے پرچم اٹھا کر اوپر کیا ۔پرچم خون آلود ہو گیا تھا۔ اس مجاہد نے پرچم بلند کیا تو سفید ہاتھی نے اسے بھی گرا کر کچل ڈالا۔

ابو عبید کی شہادت کے بعد یکے بعد دیگرے سات مجاہدین نے پرچم اٹھا کر بلند کیا اور ہاتھی نے ہر ایک کو کچل ڈالا۔ مشکل یہ تھی کہ ہاتھی سے بچنے کیلئے بھاگنے کی جگہ نہیں تھی۔ وہاں کی زمین لاشوں اور بیہوش زخمیوں سے اٹی پڑی تھی۔ زخموں سے گرے ہوئے گھوڑے بھی پڑے ہوئے تھے ۔چلا نہیں جاتا تھا۔

یہ ساتوں مجاہدین جنہیں ابو عبید کے بعد ہاتھی نے کچلا تھا ابو عبید کے ہم نسب اور ہم قبیلہ تھے۔ بلکہ ابو عبید کے ہی خاندان بنو ثقیف کے تھے۔

ابو عبید کی بیوی دومہ کا وہ خواب پورا ہو چکا تھا جس میں اس نے دیکھا کہ آسمان سے ایک آدمی ہاتھ میں شرابِ طہور لیے ہوئے اُترا ۔ابو عبید اور چند اور اہل ثقیف نے صراحی سے شراب طہور پی۔ دومہ نے یہ خواب اپنے شوہر ابو عبید کو سنایا تو انہوں نے کہا تھا کہ یہ شہادت کا اشارہ ہے……دومہ نے خواب میں ابو عبید کے ساتھ ہی ان سات آدمیوں کو شرابِ طہور پیتے ہوئے دیکھا تھا۔

٭

مثنیٰ بن حارثہ کچھ دور تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ اپنا پرچم اٹھتا اور گرتا ہے تو وہ دوڑتے آئے اور پرچم اٹھا کر ایک مجاہد کو دیا اور وہاں سے دور چلے گئے ۔چند ایک مجاہدین نے سفید ہاتھی کو گھیر کر برچھیوں سے گرادیا۔ اس کے سامنے کوئی نہیں جاتا تھا ۔پیچھے سے اور پہلوؤں سے اسے برچھیاں مارتے تھے۔

مثنیٰ بن حارثہ نے پرچم تو اونچا کر دیا لیکن مجاہدین میں بھگدڑ والی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ابو عبید کے بعد جو سات مجاہدین پرچم بلند کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے وہ سب کے سب سردار تھے۔ مثنیٰ حقیقت پسند اور تجربہ کار سالار تھے۔ انہوں نے دیکھ لیا کہ لڑتے رہنے کا مطلب خودکشی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔اب یہی کام بہت بڑا کارنامہ ہو گا کہ جو مجاہدین ابھی زندہ ہیں انہیں زندہ ہی اس میدانِ حشر سے نکال کر دریا کے پار لے جایا جائے اور مروحہ چلا جائے۔

مثنیٰ ایسا حکم دینا نہیں چاہتے تھے کہ بھاگو اور اپنی جانیں بچاؤ۔ وہ منظم طریقے سے اپنے لشکر کو پسپاکرانے کی سوچ رہے تھے ۔چونکہ مجاہدین تھک کر شل بھی ہو چکے تھے اور کثیر تعداد دشمن ان پر غالب بھی آچکا تھا۔ اور ان کی آدھی نفری شدید زخمی ہو چکی تھی ۔اس لیے مجاہدین کا جذبہ اور حوصلہ ماند پڑ گیا تھا۔ شہادت کی رفتار تیز ہو گئی تھی۔

اتنے میں دیکھا گیا کہ کچھ مجاہدین جن میں سوار تھے اور پیادے بھی ، خود ہی کشتیوں کے پل پر پہنچ گئے اور پسپا ہو رہے تھے۔ ادھر مثنیٰ بن حارثہ نے اپنے قاصدوں سے کہا کہ لڑائی سے بچ بچا کر سرداروں تک پہنچو اور انہیں میرا پیغام دو کہ اپنے آدمیوں کو کشتیوں کے پل سے پیچھے نکالو لیکن بھگدڑ کی صورت میں نہیں۔

مستند تاریخوں میں یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے کہ ابو عبید کے قبیلہ ثقیف کا ایک مجاہد عبداﷲ بن مرثد ثقفی کہیں قریب کھڑا تھا ۔ایک تو اس نے یہ دیکھا کہ کچھ سور اور پیادہ مجاہدین پل کے راستے بھاگ رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہ سن لیا کہ مثنیٰ بن حارثہ سرداروں کو پسپائی کا حکم دے رہے ہیں۔عبداﷲ بن مرثد بڑا ہی جوشیلا مجاہد اور رسول اﷲﷺ کا دیوانہ وار شیدائی تھا۔ وہ دوڑا گیا اور تلوار سے کشتیوں کے پل کے رسّے کاٹ دیئے۔ پل کے اس سرے کی ابتدائی پانچ چھ کشتیاں پل سے الگ ہو گئیں۔

’’ابنِ مرثد!‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے غصے سے پوچھا۔ ’’یہ کیا کیا تو نے؟ خدا کی قسم !تو چاہتا ہے کہ ہم سب آتش پرستوں کے ہاتھوں کٹ مریں۔‘‘

’’ہاں ابنِ حارثہ!‘‘عبداﷲ بن مرثد نے جواب دیا۔’’ میں نے واپسی کا راستہ بند کر دیاہے۔ ابو عبید اور اس کے بعد سات سردار شہید ہو گئے ہیں۔ یہ سب ثقفی تھے ۔میں بھی ثقفی ہوں۔جس طرح ہمارا سپہ سالار شہید ہوا ہے اور جس طرح ہمارے سردار شہید ہوئے ہیں اس طرح ہم سب بھی لڑتے ہوئے شہید ہوں گے۔‘‘

عبداﷲ ثقفی گھوڑے پر سوار ہوا اور بڑی ہی بلند آواز سے اعلان کرنے لگا:

’’عرب کے لوگو! اﷲ کے رسول )ﷺ(کی اطاعت گزارو!اپنے سالاروں اورسرداروں کی طرح لڑتے ہوئے جانیں دے دو۔ واپسی کا راستہ بند ہو چکا ہے۔‘‘

٭

مجاہدین کا حوصلہ پہلے ہی ٹوٹ چکا تھا ۔ انہوں نے جب سنا کہ پل توڑ دیا گیا ہے تو رہا سہا حوصلہ بھی نہ رہا۔ بعض دریا کی طرف دوڑے اور دریا میں کود گئے۔ دریا پورے جوش میں تھا۔ عرب کے ریگزار میں پل کر جوان ہونے والے مجاہدین تیرنا جانتے ہی نہیں تھے۔ وہ ڈبکیاں کھانے لگے اور تین چار ڈوب گئے۔

مثنیٰ نے جب یہ بھگدڑ اورافراتفری کا عالم دیکھا تو ان پر گھبراہٹ طاری ہو گئی۔ وہ پریشان ہو گئے تھے۔ ان کی گھبراہٹ یہ تھی کہ لشکر نے پسپائی کا یہ راستہ اختیار کیا تو بہت سے ڈوب جائیں گے اور جو تیرنے کی کوشش کریں گے انہیں فارسی تیر انداز دریا میں ہی ختم کر دیں گے۔

مثنیٰ نے اپنے اوسان خطا نہ ہونے دیئے۔ ایسی صورتِ حال سے وہ پہلے کبھی دوچار نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے پرچم اپنے ہاتھ میں لے کر اونچا کیا۔ اس وقت لڑائی پل سے کچھ دور ہو رہی تھی۔ مثنیٰ نے چند ایک مجاہدین کو جو اس وقت ان کے باڈی گارڈ بنے ہوئے تھے ۔یہ کام سونپا کہ وہ کسی طرح ان کشتیوں کو جو پل سے سرک گئی ہیں ، رسّوں سے پرو دیں اور پل کو مکمل کر دیں۔

ایسی قیامت خیز صورتِ حال میں یہ کام ناممکن کی حد تک محال تھا۔لیکن مجاہدین دریا میں اتر گئے۔ انہیں یہ سہولت مل گئی تھی کہ کنارے کے قریب دریا گہرا نہیں تھا۔ انہوں نے رسّے سے الگ یا ڈھیلی ہوجانے والی کشتیوں کو پکڑ لیا اور کٹے ہوئے رسّوں کو گانٹھیں دیکر کشتیوں کو باندھ دیا۔

’’مجاہدو!‘‘مثنیٰ نے خود اعلان کیا۔ ’’دریا میں مت کودو ۔پل بن گیا ہے۔ میں دشمن کو روکے رکھوں گا۔ آرام سے پل پر سے گزر جاؤ۔‘‘

یہ اعلان تمام میدانِ جنگ میں پہنچایا گیا ۔مجاہدین سے کہا گیا کہ وہ بھاگیں نہیں۔ لڑتے ہوئے پیچھے ہٹتے آئیں اور پل تک پہنچیں ۔

مثنیٰ بن حارثہ نے اپنے محافظ دستے کے مجاہدین اور چند اور مجاہدین کو اپنے ساتھ رکھا۔ کچھ تیر انداز بھی اپنے دائیں بائیں کھڑے کر دیئے ۔مجاہدین میدان سے نکل کر پل پر آنے لگے۔ فارسی ان کے تعاقب میں آتے تھے تو مثنیٰ اور ان کے ساتھ کھڑے مجاہدین انہیں روک لیتے تھے۔ مسلمان تیر انداز انہیں تیروں کا نشانہ بناتے تھے ۔اس طرح پیچھے ہٹنے والے مجاہدین پل پر سے گزر جاتے تھے۔

مثنیٰ اور ان کے جانباز اور تیر انداز پل سے ذرا آگے دشمن سے لڑتے رہے اور مجاہدین دوڑ دوڑ کر پل سے گزرتے رہے ۔فارس کے تیر انداز پل پر جانے والے مجاہدین پر تیرچلاتے تھے ۔لیکن مسلمان تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑوں سے انہیں پیچھے ہٹا دیا۔

فارسیوں نے پل کا راستہ روکنے کی بہت کوشش کی لیکن مثنیٰ اور ان کے جانباز جس قہر و غضب سے لڑ رہے تھے اس سے فارسی آگے نہیں آسکتے تھے ۔مثنیٰ بن حارثہ نے پرچم بلندرکھا۔

اس دوران عبداﷲ بن مرثد ثقفی آگے ہو کر جوش و خروش سے لڑ رہا تھا۔ا س کے جو ساتھی انتہائی خونریز معرکے سے زندہ نکل آئے تھے‘ انہوں نے بتایا کہ عبداﷲ پسپائی کے حق میں نہیں تھا۔ وہ ایسے عتاب سے لڑ رہا تھا جیسے وہ پاگل ہو گیا ہو۔ اس کے سامنے جو آیا وہ ہلاک ہو گیا۔ ایک مسلمان اور ایک فارسی گھوڑ سوار ایک دوسرے سے الجھے ہوئے تھے ۔ان کی تلواریں ٹکرا رہی تھیں ۔دونوں کے گھوڑے بڑی تیزی سے آگے پیچھے اور دائیں بائیں ہو رہے تھے۔ ایک گھوڑا پیچھے ہٹا۔ پیچھے عبداﷲ ثقفی ایک فارسی فوجی کو گرا چکا تھا۔ گھوڑے کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔ گھوڑا اتنی تیزی سے پیچھے ہٹا کہ عبداﷲ ثقفی سے ٹکرایا اور اسے گرادیا۔ گھوڑا بھی پیچھے ہٹ رہا تھا۔ عبداﷲ ثقفی اس قدر تھک چکا تھا کہ وہ فوراً اٹھ نہ سکا ۔گھوڑے سے پچھلے دونوں پاؤں اس کے پیٹ پر پڑے اور پیٹ پھٹ گیا۔ پھر اس پر گھوڑے کے اگلے پاؤں پڑے۔ عبداﷲ ثقفی بری طرح کچلا گیا اور شہید ہو گیا۔

مجاہدین تیز دوڑتے ہوئے پل تک پہنچ رہے تھے ۔وہ ایک ایک دو دو کرکے آتے تھے۔ مثنیٰ اپنے مجاہدین کے ساتھ دشمن کا راستہ روکے کھڑے تھے اور غیر معمولی دلیری سے لڑ رہے تھے۔

’’انہیں بھاگنے نہ دو۔‘‘یہ للکار بہمن جادویہ کی تھی۔’’ آگے ہو کر پل توڑ دو۔‘‘

فارسی پل تک پہنچنے کیلئے جانیں قربان کر رہے تھے۔ لیکن آگے مجاہدین قہر برساتی دیوار بنے ہوئے تھے۔

’’ان کا جھنڈا گرانے کی کوشش کرو۔‘‘ یہ للکار جالینوس کی تھی۔

مسلمانوں کا پرچم مثنیٰ کے پاس کھڑے ایک مجاہد نے اٹھا رکھا تھا ۔مثنیٰ نے جالینوس کی للکار سنی اور پرچم مجاہد کے ہاتھ سے لے کر اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور اونچا کر دیا۔

’’یہ عَلَم نہیں گرے گا۔‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے نعرہ لگایا۔

معاً بعد کسی فارسی نے برچھی پھینکی جو مثنیٰ کے پہلو میں بغل کے قریب لگی۔ برچھی کی انّی تو جسم میں نہ گئی، کیونکہ مثنیٰ نے کسی فارسی کی زرہ پہن رکھی تھی۔ یہ زنجیروں والی زرہ تھی۔ جس سے صرف سینہ اور پیٹھ ڈھکی ہوئی تھی۔ برچھی سے زرہ کی ایک کڑی ٹوٹ گئی اور مثنیٰ کے جسم میں اتر گئی ۔یہ اچھا خاصا زخم تھا۔ مثنیٰ نے اس کی پرواہ نہ کی اور پرچم کو بلند رکھا۔

مثنیٰ بن حارثہ کے دائیں بائیں دو ایسے مجاہد تھے جنہوں نے جان کی بازی لگا رکھی تھی۔ انہو ں نے دراصل مثنیٰ کو حفاظت میں لے رکھا تھا۔ ایک تھے سلیطؓ بن قیس اور دوسرا ایک عیسائی ابو زبید الطائی تھا۔ یہ دونوں فارسیوں کو روکنے کیلئے ایسی بے جگری بلکہ دیوانگی سے لڑے کہ ابو زبیدالطائی شدید زخمی ہو کر گرپڑااور سلیطؓ بن قیس شہیدہو گئے۔

٭

آخر تمام زندہ مجاہدین پل سے گزر گئے۔ مثنیٰ بن حارثہ کے زخم سے خون بہہ رہا تھا اور زخم تکلیف بھی دے رہا تھا۔ لیکن انہوں نے زخم کی طرف دھیان ہی نہ دیا اور اپنے ساتھیوں کو پل پر لے آئے۔ تیر اندازوں کو پیچھے رکھا تاکہ وہ فارسیوں پر تیر برساتے رہیں اور پیچھے بھی ہٹتے رہیں ۔مسلمانوں کا جانی نقصان تو ہوشربا تھا لیکن فارسیوں کا نقصان بھی کچھ کم نہیں تھا۔ وہ اب آگے آنے کی جرأت نہیں کر رہے تھے۔ البتہ ان کے تیر انداز تیر پھینک رہے تھے ۔مسلمان دوڑتے ہوئے پل پار کر گئے۔

پیچھے دیکھا۔ پل کے اس سرے پر فارسیوں کا ہجوم تھا۔ وہ مسلمانوں کا شاید تعاقب کرنا چاہتے تھے۔ مثنیٰ بن حارثہ کے کہنے پر پل کے رسّے کاٹ دیئے گئے اور چند ایک کشتیوں کو توڑ دیا گیا۔

مجاہدین کی گنتی کی گئی۔نو ہزار میں سے صرف تین ہزار زندہ واپس آئے۔ شدید زخمیوں کو واپس نہ لایا جا سکا۔ سلیطؓ بن قیس ، ابو زید انصاریؓ، عقبہ بن قبطی، یزیدؓ بن قیس الانصاری، عبداﷲؓ بن قبطی اور ابو امیہؓ انفرازی جیسے نامور صحابیؓ اس لڑائی میں شہید ہو گئے۔

جس دن یہ تین ہزار مجاہدین واپس آئے‘ وہ ہفتے کا دن تھا اور ۱۳ ہجری کا ماہ رمضان تھا ۔

مثنیٰ بن حارثہ پر بہت بڑی اور بڑی ہی خطرناک ذمہ داری آپڑی تھی۔ ان کے تجربہ کار ساتھی سالار اور سردار شہید ہو گئے۔ وہ خود زخمی تھے ۔ان کے ساتھ لشکر کا صرف تیسرا حصہ رہ گیا تھا۔ یہ حصہ یعنی تین ہزار آدمی لڑنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ جسمانی طور پر تو وہ شل ہو ہی چکے تھے۔ ذہنی طور پر بھی وہ لڑنے کی ہمت چھوڑ بیٹھے تھے ۔کہیں سے بھی کمک ملنے کی توقع نہیں تھی۔

مثنیٰ پر ذمہ داری آپڑی تھی کہ ان تین ہزار تھکے ماندے شکست خوردہ آدمیوں کو بچانا تھا۔ جس کا ایک ہی ذریعہ تھا کہ انہیں کہیں دور لے جائیں اور بہت جلدی لے جائیں کیونکہ مثنیٰ اس خطرے کو یقینی سمجھتے تھے کہ بہمن جادویہ ان کے تعاقب میں آئے گا۔ بہمن جادویہ پہلا فارسی جرنیل تھا جس نے مسلمانوں کو شکست دی تھی۔ وہ ملکۂ فارس اور رستم کی آنکھوں کا تارا بن گیا تھا ۔مثنیٰ جانتے تھے کہ بہمن جادویہ مسلمانوں کا جانی دشمن ہے اور وہ اس موقع سے پورا فائدہ اٹھائے گا اور ان تھکے ہارے مجاہدین کے تعاقب میں آکر انہیں بھی ختم کر دے گا۔

’’میرے عزیز ساتھیو! ‘‘مثنیٰ نے ان تین ہزار مجاہدین سے خطاب کیا۔’’ سپہ سالار ابو عبید کی غلطی کی سزا ہم سب کو ملی ہے۔ یہ تمہاری بہادری ہے کہ تم زندہ واپس آگئے ۔ فتح اور شکست اﷲ کے اختیار میں ہے۔ یہ بھی تمہاری فتح ہے کہ تم نے دشمن کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ تم اﷲ تبارک و تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو۔ ہم انشاء اﷲ اس شکست کا انتقام لیں گے……یہاں رکنے کا وقت نہیں۔ فارسی ہمارے تعاقب میں آرہے ہوں گے۔ وہ ضرور آئیں گے۔ ہم ابھی لڑنے کے قابل نہیں اس لیے یہاں رکنا بڑا ہی خطرناک ہے۔ تمہیں چلنا ہی پڑے گا۔ گھوڑ وں پر سب باری باری سوار ہوں گے۔ ہم نے کسی منزل پر پہنچ کر اگلی لڑائی کی تیاری کرنی ہے۔‘‘

وہاں سے چلے توحیرہ جا پہنچے۔ وہاں بھی مثنیٰ تعاقب کا خطرہ محسوس کر رہے تھے۔ وہاں انہوں نے مجاہدین کو آرام اور کھانے پینے کا وقت دیا اور اگلی صبح حیرہ سے کچھ دور جنوب کی طرف اُلیس کے مقام پر جا پہنچے۔ مثنیٰ نے اپنے نئے نائبین مقرر کر دیئے جو پوری طرح تجربہ کار تو نہیں لیکن اناڑی اور نوآموز بھی نہیں تھے ۔ان میں خوبی یہ پیدا ہو گئی تھی کہ ان کے دلوں میں انتقام کا بڑا ہی شدید جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔

’’دن رات بیدار اور چوکنے رہو۔‘‘ مثنیٰ نے انہیں کہا تھا۔’’آتش پرست ہمارے تعاقب میں آرہے ہوں گے……میں حیران ہوں کہ وہ ابھی تک آئے کیوں نہیں؟‘‘

مثنیٰ بن حارثہ کو یہ خطرہ پریشان کر رہا تھا کہ آتش پرست ان کےتعاقب میں آرہے ہوں گے۔ لیکن آتش پرستوں کے سالار بہمن جادویہ کو تعاقب کی ہوش ہی نہیں رہی تھی۔ ہوا یوں تھا کہ جس وقت مثنیٰ اپنے بچے کچھے مجاہدین کو واپسی کیلئے دریا پار کروارہے تھے اور بہمن جادویہ اپنی فوج کو للکار رہا تھا کہ عربوں کا پرچم گرا دو۔ انہیں بھاگنے نہ دو۔ اس وقت مدائن سے اس کا ایک ذاتی جاسوس آیا اور اسے اطلاع دی کہ مدائن میں فوجی افسر اور شہری دو دھڑوں میں بٹ گئے ہیں اور اب اعلانیہ ایک دوسرے کی مخالفت کر رہے ہیں۔

’’یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ ایک گروہ رستم کا حامی ہے اور دوسرا فیروزان کا۔‘‘ جاسوس نے کہا۔’’ فیروزان بھی آخر جرنیل ہے۔ اس کے گروہ کی تعداد زیادہ ہے۔ ملکۂ فارس تو برائے نام ملکہ ہے۔ وہ پہلے ہی تمام اختیارات رستم کے حوالے کر چکی ہے۔‘‘

’’پوران ہے تو ملکہ!‘‘بہمن جادویہ نے کہا۔’’ لیکن عملاً رستم کی داشتہ ہے۔‘‘

’’جالینوس!‘‘بہمن جادویہ نے کہا۔’’ زیادہ سے زیادہ دستے اکٹھے کرو اور میرے ساتھ مدائن چلو۔ مجھے خانہ جنگی کا خطرہ صاف نظر آرہا ہے۔ ادھر ہم نے عربوں کو کچلنا شروع کر دیا ہے اور ادھر خانہ جنگی کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا کیاہو گا کہ عرب ہمیں کچل کر رکھ دیں گے۔‘‘

’’یہ پوران کے حسن کا جادو ہے۔‘‘ جالینوس نے کہا۔ ’’اسے شاہی خاندان کے کسی آدمی کے ساتھ شادی کر لینی چاہیے تھی۔ پھررستم اس کے اتنا قریب نہ ہو سکتا۔‘‘

’’چلو ‘چل کے دیکھتے ہیں وہاں کیا ہو رہا ہے۔‘‘ بہمن جادویہ نے کہا۔’’ اِدھر اتنا موٹا شکار میرے ہاتھ سے نکل گیا ہے ۔میں ان مسلمانوں کا تعاقب کر کے انہیں ختم کرنا چاہتا تھا……وہ میرے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔‘‘

اس کے ساتھ جابان نام کا ایک اور جرنیل بھی تھا۔ اس جرنیل کا پہلے بھی ذکر آچکا ہے۔ نمارق کی لڑائی میں ا س نے ابو عبید سے شکست کھائی اور پکڑا گیا تھا۔ پکڑنے والا کوئی عام مجاہد تھا جسے معلوم نہیں تھا کہ وہ جرنیل ہے ۔جابان نے اس مجاہد کو یہ جھانسہ دیا کہ وہ سپاہی ہے، اسے پکڑ کہ وہ کیا کرے گا۔ جابان نے اسے اپنی رہائی کیلئے بڑا ہی قیمتی معاوضہ پیش کیا۔ مجاہد نے وعدہ کیا کہ وہ اسے اس معاوضہ پر رہا کر دے گا۔ کسی اور مجاہد نے اسے پہچان لیا اور یہ معاملہ سپہ سالار ابو عبید تک گیا کہ یہ فارسی جرنیل ہے اسے رہا نہیں کرنا چاہیے ۔ابو عبید کو جب یہ بتایا گیا کہ ایک مجاہد جابان سے وعدہ کر چکا ہے کہ وہ اسے رہا کر دے گا تو ابوعبید نے فیصلہ دیا کہ ایک مسلمان اس سے وعدہ کر چکا ہے۔ اس لیے اسلامی دستور کے مطابق اسے رہا کیا جائے ۔چنانچہ جابان نے اس مجاہد کو معاوضہ دیا اور رہا ہو گیا۔

اب وہی جابان بہمن جادویہ کے ساتھ اس لڑائی میں شامل تھا۔ بہمن جادویہ نے اسے بلا کر مدائن کی صورت حال سے آگاہ کیا اور بتایا کہ جالینوس اور وہ مدائن جا رہے ہیں۔

’’تم چاہو تو مسلمانوں کے تعاقب میں جا سکتے ہو۔‘‘ بہمن جادویہ نے کہا۔’’ ہم تمہارے پاس بہت تھوڑی فوج چھوڑ کر جا رہے ہیں۔‘‘

’’عربوں کی جو نفری یہاں سے نکلی ہے وہ تو اور زیادہ تھوڑی ہے۔‘‘ جابان نے کہا۔’’ تم چلے جاؤ، میں عربوں کے پیچھے جاتا ہوں۔ ان کا ایک بھی آدمی زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘

٭

تاریخوں میں آیا ہے کہ بہمن جادویہ اور جالینوس فوج کے زیادہ تر دستے اپنے ساتھ مدائن لے گئے اور کچھ دستے جابان کو دے گئے۔ جابان مثنیٰ بن حارثہ کے تعاقب میں ایک دن اور ایک رات کے بعد روانہ ہوا۔ یہ وقت کشتیوں کا پل بنانے میں صرف ہو گیا تھا۔ اتنے میں مثنیٰ اپنے لشکر کے ساتھ دور نکل گئے تھے ، پھر وہ الیّس جا پہنچے۔

الیّس پہلے ہی مسلمانوں کے فتح کیے ہوئے علاقوں میں شامل تھا۔ وہاں کے دو سرداروں نے مثنیٰ کو بتایا کہ مدائن میں کیا صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے اور یہ بھی کہ بہمن جادویہ اور جالینوس فوج لے کر مدائن چلے گئے ہیں۔ الیّس کے امراء مسلمانوں سے متاثر تھے اور انہیں یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ اندرونی گروہ بندی ،منافرت اور مسلمانوں کی پے در پے فتوحات کی وجہ سے سلطنتِ فارس کا سوال شروع ہو چکا ہے ۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے الیّس کے اُمراء اور دیگر سرکردہ لوگ مسلمانوں کے وفادار ہو گئے تھے۔

ایک روز الیّس کے ہی ایک آدمی نے مثنیٰ کو اطلاع دی کہ مدائن کی فوج آرہی ہے۔ یہ جابان کے دستے تھے۔ قبل از وقت اطلاع مل جانے سے مثنیٰ نے یہ فائدہ اٹھایا کہ اپنے مجاہدین کو تیار کر کے اس راستے کے دونوں طرف پھیلا دیا جس راستے سے جابان کی فوج آرہی تھی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ الیّس کے کئی لوگ مجاہدین سے جا ملے تھے۔

جابان بڑھتا آیا اور پھندے میں آگیا ۔اس کے دستوں پر دونوں طرف سے حملہ ہو گیا۔ مجاہدین نے اپنی شکست کا انتقام یوں لیا کہ کسی ایک بھی فارسی کو زندہ نہ چھوڑا۔ جابان کو زندہ پکڑ کر مثنیٰ بن حارثہ کے سامنے پیش کیا گیا۔

’’مجھے یاد ہے جابان!‘‘ مثنیٰ نے کہا۔ ’’نمارق میں تم ہمارے ایک سادہ لوح مجاہد کو دھوکہ دے کر رہا ہو گئے تھے۔ اب نہیں……‘‘

مثنیٰ کے اشارے پر جابان کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔

مدائن میں ایک اور ڈرامے کا پردہ اٹھ رہا تھا۔

مدینہ میں حضرت عمر ؓمسجد میں داخل ہو نے لگے تو ان کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو سر جھکائے ہوئے مسجد کی طرف آرہا تھا ۔محمد حسنین ہیکل اور بلاذری نے اس کا نام عبداﷲ بن زید لکھا ہے۔ حضرت عمرؓ رک گئے۔

’’ابنِ زید!‘‘حضرت عمرؓ نے عبداﷲ سے پوچھا۔’’ کیا تم مثنیٰ کے ساتھ عراق نہیں گئے تھے؟تمہاری حالت بتاتی ہے کہ تم محاذ سے آرہے ہو……کیاخبر لائے ہو؟‘‘

عبداﷲ بن زید قریب آکر کھڑا ہو گیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ وہ ان آدمیوں میں سے تھا جو مروحہ کی لڑائی سے بھاگ کر مدینہ پہنچ گئے تھے۔ عبداﷲ نے حضرت عمرؓ کو سارا حال سنایا کہ ابو عبید کی غلطی سے کس طرح اپنا لشکر فارسیوں کے ہاتھوں کٹ گیا ہے۔

حضرت عمرؓ مسجد کے دروازے پر یوں کھڑے رہے جیسے ان پر سکتہ طاری ہو گیا ہو۔

عبداﷲ بن زید کھڑا کانپ رہاتھا کہ حضرت عمرؓ جیسے سخت مزاج اور جلالی خلیفہ کا رد عمل نہ جانے کیا ہو گا!

٭

ابوعبید کے غلط فیصلے سے جس لڑائی میں مسلمانوں کو بری طرح پسپا ہونا پڑا تھا اور جس میں نو ہزار مجاہدین میں سے صرف تین ہزار رہ گئے تھے۔ اسے تاریخ میں معرکہ جسر لکھا گیا ہے۔ مثنیٰ بن حارثہ نہ ہوتے تو تین ہزار بھی زندہ واپس نہ آسکتے تھے۔

ہم جسر کے میدانِ جنگ میں واپس چلتے ہیں جہاں لاشوں کے انبار پڑے تھے۔ خون سے زمین لال ہو گئی تھی۔ چھوٹے بڑے کھڈ لاشوں سے بھر گئے تھے ۔عربی اور عجمی کی پہچان ختم ہو گئی تھی۔ مرے ہوئے گھوڑوں کے نیچے آدمی دبے ہوئے تھے ۔گھوڑوں کے اوپر لاشیں پڑی تھیں۔زخمی گھوڑے بے لگام دوڑتے اور گرتے پھر رہے تھے ۔کٹی ہوئی سونڈوں والے ہاتھی خون بہہ جانے سے آخری سانسیں لے رہے تھے۔ سفید ہاتھی جس نے ابو عبید اور ان کے سات ساتھیوں کو پاؤں تلے کچل کر مار ڈالا تھا‘ دریا کے کنارے مراپڑا تھا۔سونڈ کٹنے کے علاوہ ا س کے جسم پر اور بھی بہت سے زخم تھے ۔جن کے راستے اس کا جسم خون سے خالی ہو گیا تھا۔ وہ شاید دریا پار پر پانی پینے گیا تھا لیکن وہاں پہنچتے ہی مر گیا۔

ان لاشوں میں زندہ فارسی اور عربی بھی گرے پڑے تھے جو شدید زخمی تھے۔ ان میں سے بعض اٹھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ اٹھتے تھے ‘لڑکھڑاتے تھے اور گر پڑتے تھے ۔اپنے آپ کو پیٹ کے بل گھسیٹتے تھے اور ان میں بیشتر ایسے تھے جو بیہوش پڑے تھے ‘ اور آہستہ آہستہ مر رہے تھے۔ مسلمان اپنے رفیقوں کی لاشیں یوں میدان میں پڑی رہنے نہیں دیا کرتے تھے۔ زخمی رفیقوں کو میدانِ جنگ سے اٹھا لانے پرتو مجاہدین اپنی جانیں قربان کر دیا کرتے تھے لیکن معرکہ جسر کے زخمیوں اور شہیدوں کو پیچھے لانے کی کسی کو مہلت ہی کہاں ملی تھی۔ انہوں نے بڑی مشکل سے اپنی جانیں بچائیں اور دریا پار کر کے آئے تھے۔

فارسی بھی اپنے زخمی نہیں اٹھا سکے تھے۔ لاشیں اٹھانے کا تو ان کے یہاں رواج ہی نہیں تھا۔ ان کے فوجی تنخواہ پانے والے ملازم تھے۔ فارس ایک بادشاہی تھی۔ فوج کے ساتھ شاہی خاندان کا سلوک ویسا ہی ہوتا تھا جیسا ذاتی ملازموں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کی نگاہ میں ایک گھوڑے اور ایک انسان کا مرجانا برابر تھا۔

فارس کی فوج اپنے تڑپتے ہوئے زخمیوں کو اس لیے بھی نہ اٹھا سکی کہ بہمن جادویہ اور جالینوس فوج کے بیشتر دستوں کو اپنے ساتھ مدائن لے گئے تھے۔ کیونکہ مدائن میں چوٹی کے دو جرنیلوں رستم اور فیروزان کے مابین شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے اور فوج دو حصوں میں بٹ گئی تھی‘ اور وہاں خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہو گیاتھا۔ بہمن جادویہ اپنے ایک جرنیل جابان کوتھوڑی سی فوج دے گیا تھا اور جابان مسلمانوں کے تعاقب میں چلا گیا تھا۔ اس لیے فارسی فوج کے زخمیوں کو اٹھانے والا کوئی نہ رہا۔

سورج غروب ہو گیاتو گیدڑوں، بھیڑیوں، جنگلی کتوں اور دیگر گوشت خور جانوروں نے لاشوں پر ہلّہ بول دیا۔ یہ تو ہر لڑائی کے بعد کامعمول تھا کہ دن کو گدھ اور رات کو گیدڑ ،بھیڑیئے وغیرہ میدان ِجنگ میں لاشوں کو کھانے کیلئے پہنچ جاتے تھے۔ ایک معمول اور بھی تھا۔ لڑائی اگر آبادیوں کے قریب ہوتی اوردونوں طرف کی فوجیں وہاں سے چلی جاتیں تو قریبی بستیوں کے لوگ میدان میں پہنچ جاتے اور لاشوں کی تلاشی لے کر جو ہاتھ آتا لے جاتے۔ ہتھیار بھی اٹھا لے جاتے۔

جسر کے معرکے کے بعد فارس کی فوج بھی مسلمانوں کی پسپائی کے بعد چلی گئی تو اس کے فوراً بعد سورج غروب ہو گیا تھا۔ قریبی بستیوں کے لوگ میدان میں پہنچنے لگے۔ ان کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں ۔ان میں بار سماء کے لوگ بھی تھے ۔زوابی کے لوگ بھی تھے اور قس الناطف سے بھی کئی لوگ آگئے تھے ۔ان میں عورتیں بھی تھیں ۔جواں سال لڑکیاں بھی تھیں اور ان میں کچھ عورتیں بوڑھی تھیں۔ ان میں مائیں تھیں ، بیویاں تھیں، بہنیں اور بیٹیاں تھیں۔

ان میں اکثر لوگ لاشوں کو لوٹنے کیلئے آئے تھے۔ انہوں نے ہتھیار بھی اٹھا لے جانے تھے اور گھوڑے ملنے کی بھی توقع تھی۔ لیکن بہت سے لوگ لاشوں میں اپنے ان عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے آئے تھے جو فارس کی فوج میں تھے۔ ان میں بعض کو تو معلوم تھا کہ ان کے بیٹے یا بھائی اس لڑائی میں شامل تھے اور بعض محض شک میں لاشیں دیکھنے آئے تھے ۔انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ کئی زخمی ابھی زندہ ہوں گے۔

یہ عورتیں بھی اسی خیال سے آئی تھیں۔ کسی کا باپ ،کسی کا خاوند، کسی کا بھائی، کسی کا بیٹا اس لڑائی میں شامل تھا۔

ان سب کے پاس چھوٹی چھوٹی مشعلیں تھیں۔ جلتی ہوئی مشعلوں کے شعلوں نے رات کو دن بنا دیا تھا۔ لیکن جہاں دور دور تک لاشوں اور کراہتے ہوئے زخمیوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا ‘وہاں مشعلوں کے ناچتے پھڑ پھڑاتے شعلے کچھ ڈراؤنے اور پراسرار لگتے تھے۔ مرد ہتھیار اکٹھے کر رہے تھے ۔لاشوں کے کمر بند کھول کر تلاشی لے رہے تھے اور عورتیں لاشوں کے چہرے دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کر رہی تھیں ۔گیدڑ اور بھیڑیئے وغیرہ الگ لاشوں کو نوچ رہے تھے ۔کبھی کبھی کسی عورت کی چیخ سنائی دیتی اور ساتھ یہ پکار۔ ’’میرا بیٹا! ہائے میرا بیٹا۔‘‘ ایسے ہی کسی بیوی کو اپنے خاوند کی لاش مل جاتی تو وہ واویلا بپا کر کے اپنے ساتھ آئے ہوئے مردوں کو پکارنے لگتی۔ کسی بہن کو اپنے جوان بھائی کی لاش نظر آجاتی تو وہ سینہ کوبی شروع کر دیتی۔

منظر ہولناک تھا ۔ دلوں پر ہیبت طاری ہو رہی تھی۔

٭

بار سماء کی ایک نوخیز لڑکی جس کی عمر سولہ سترہ سال ہو گی‘ ہاتھ میں مشعل لیے اپنے بڑے بھائی کو ڈھونڈ رہی تھی۔ اس کا باپ بھی ساتھ آیا تھا اور اس کی ماں بھی آئی تھی ۔وہ الگ الگ ہو کر لاشوں کے چہرے دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد تینوں اکٹھے ہوئے۔

’’تم میری بات کیوں نہیں مانتیں؟‘‘ باپ نے لڑکی اور ا س کی ماں سے کہا۔’’ وہ سقاطیہ کی لڑائی میں مارا گیا تھا ۔ بتانے والوں نے ٹھیک ہی بتایا تھا۔ تم اسے ڈھونڈنے یہاں آگئی ہو۔‘‘

’’بتانے والوں نے شک میں بتایا تھا۔‘‘ ماں نے کہا۔’’ ہو سکتاہے وہ آج کی لڑائی میں مارا گیا ہو۔‘‘

’’تھوڑی دیر اور دیکھ لیتے ہیں۔‘‘ لڑکی نے باپ سے کہا۔

’’دیکھو……دیکھو۔ ‘‘باپ نے جھنجھلا کر کہا۔’’ جاؤ دیکھو۔‘‘

ایک ماں تھی‘ دوسری بہن تھی۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا ۔ وہ پھر الگ الگ ہو گئیں اور جھک جھک کر چہرے دیکھنے لگیں۔

کچھ دیر بعدلڑکی ایک لاش کے پاس رک گئی۔ لاش زمین پر پڑی ہوئی نہیں تھی بلکہ اس کی پیٹھ ایک درخت کے تنے کے ساتھ لگی ہوئی تھی اور ٹانگیں آگے کو تھیں۔ جیسے زندہ آدمی درخت کے ساتھ پیٹھ لگا کر بیٹھا ہوا ہو۔ اس کی ایک ٹانگ کی ران پر کپڑا لپٹا ہو اتھا جو خون سے لال تھا ۔دوسری ٹانگ کے ٹخنے پر کپڑا لپٹا ہوا تھا۔ وہ یقینا مرا ہو اتھا اور وہ فارسی نہیں عربی تھا۔ لڑکی چونکہ فارس کی رہنے والی تھی۔ اس لیے اسے عربی مسلمان کے ساتھ کو ئی دلچسپی اور ہمدردی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ لیکن لڑکی نے مشعل اور آگے کی اور ا س مسلمان کا چہرہ غور سے دیکھنے لگی۔

لڑکی ا س کے پاس بیٹھ گئی اور مشعل ذرا اور آگے کی ۔لاش کا چہرہ اس طرح ایک طرف مڑ گیا جیسے زندہ آدمی نے شعلے کی تپش سے بچنے کیلئے چہرہ موڑ لیا ہو۔ پھر ا س کے ہاتھ کو حرکت ہوئی اور اس کے ہونٹوں سے سسکی نکلی۔’’ پانی!‘‘

’’زندہ ہے۔‘‘ لڑکی کے منہ سے بے اختیار آواز نکلی اور اس نے مشعل پیچھے کر کے پوچھا۔’’ زندہ ہو؟‘‘

زخمی نے منہ اس کی طرف کرکے سر کے اشارے سے بتایا کہ وہ زندہ ہے اور اس کے ایک بار پھر پانی مانگا۔

لڑکی اِدھر اُدھر پانی ڈھونڈنے لگی۔ وہاں پانی کی کمی نہیں تھی۔ سپاہی اپنے ساتھ پانی کی چھاگلیں)چھوٹے چھوٹے مشکیزے(رکھا کرتے تھے۔ لڑکی کو ایک چھاگل مل گئی جو اس نے اٹھائی۔ دوڑتی ہوئی زخمی تک پہنچی اور اس کے منہ کے ساتھ لگا دی۔

’’کسے پانی پلا رہی ہو زمرّد!‘‘ایک آدمی کی آواز گرجی۔’’ یہ عربی ہے۔ ہمارا سپاہی نہیں، مسلمان ہے۔ ہٹو آگے سے!‘‘

وہ آدمی تلوار تان کر اس زخمی کو قتل کرنے کیلئے آگے بڑھا۔ لڑکی جس کا نام زمرد تھا۔ اپنے دونوں بازو پھیلا کر زخمی مسلمان کے آگے ڈھال بن گئی۔

’’نہیں چچا!‘‘زمرد نے کہا۔’’ تم اسے بھول گئے ہو ۔ میں نہیں بھول سکتی۔ اس نے میری بے عزتی کا انتقام لیا تھا۔ میں نے اسے پہچان لیا ہے۔‘‘

’’تو اس کا کیا کرو گی؟‘‘ چچا نے پوچھا۔’’ اسے یہیں رہنے دو، میں اسے نہیں مارتا۔ خود ہی مر جائے گا۔‘‘

’’میں اسے مرنے نہیں دوں گی۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ میری مدد کرو چچا!‘‘

’’کیا مجھے مروانا چاہتی ہو؟‘‘چچا نے کہا۔ ’’کسی فوجی نے دیکھ لیا کہ ہم ایک عربی کی مدد کر رہے ہیں تو وہ اس کے ساتھ ہمیں بھی مار ڈالے گا۔‘‘

’’پھر تم یہاں سے چلے جاؤ چچا!‘‘ زمرد نے کہا۔

٭

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ معرکہ جسر سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے مثنیٰ بن حارثہ نے فارس کے ایک قصبے بار سماء کو گھیرے میں لے کر اعلان کیا تھا کہ فارس کے جو فوجی یہاں موجود ہیں وہ باہر آجائیں۔ بارسماء فارس کا ہی قصبہ تھا۔ ایک لڑائی میں مسلمانوں نے فارسیوں کو بہت بری شکست دی تو فارس کے کچھ فوجی بھگوڑے قریبی بستیوں میں جا چھپے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا لشکر ان بستیوں میں نہیں پہنچا تو انہوں نے اپنے ہی لوگوں کے گھروں کولوٹنا اور نوجوان لڑکیوں کو بے آبرو کرناشروع کر دیا۔

سپہ سالار ابو عبید ابھی زندہ تھے۔ ان کے پاس ان بستیوں کے فریادی آئے اور بتایا کہ ان کے اپنے ہی بھگوڑے فوجی انہیں پریشان کر رہے ہیں۔ ابو عبید نے کہا جہاں اسلا م کا سایہ پہنچ گیا ہے وہاں کے لوگوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت مسلمانوں کی ہی ذمہ داری ہے۔ ابو عبید نے مثنیٰ اور سلیط ؓبن قیس کو ان بستیوں میں بھیجا کہ فارس کے فوجیوں کو گرفتار کر کے لے آئیں اور ان سے لوٹا ہوا مال لے کر لوگوں کو واپس دے دیں۔

مثنیٰ بار سماء نا م کی ایک بڑی بستی میں گئے تھے اور فارس کے فوجیوں کو باہر نکال دیا تھا۔ مثنیٰ نے بستی کے لوگوں سے کہا تھا کہ ان فوجیوں میں سے کسی نے کسی عورت کی آبروریزی کی ہو تو اسے پہچانو۔

کم و بیش بیس فوجیوں کو لوگوں نے پہچان کر آگے کر دیا۔ مثنیٰ بن حارثہ نے ایک فوجی کو اور آگے کر کے اسے گھٹنوں کے بل بٹھا دیا اور لوگوں سے کہا کہ اس نے جس عورت کی آبروریزی کی ہے وہ عورت آگے آئے۔

ایک نوخیز لڑکی اپنے باپ کے ساتھ آگے آئی ۔مثنیٰ نے اپنی نیام سے تلوار نکال کر لڑکی کو دی اور فوجی کی گردن جھکا کر اس لڑکی سے کہا کہ وہ اس کی گردن اپنے ہاتھوں سے کاٹ کر اپنی بے عزتی کا انتقام لے۔ لڑکی کی عمر بمشکل سولہ سال تھی ۔ اس نے مثنیٰ کے ہاتھ سے تلوار لے کر فوجی کی گردن پر رکھی اور دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھائی لیکن لڑکی کے ہاتھ کانپنے لگے اور ا س کے بھولے بھالے چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا ۔ایک انسان کی گردن کاٹنا تو دور کی بات ہے اس لڑکی نے کبھی تلوار ہاتھ میں نہیں لی تھی۔ ا س نے تلوار نیچے کر کے مثنیٰ کی طرف بڑھا دی۔ او ر رونے لگی۔

اچانک ایک مجاہد جس کی عمر بیس بائیس سال تھی۔دوڑتا ہو اآگے آیا۔ اس نے نعرہ لگایا۔’’ اس لڑکی کا انتقام میں لوں گا۔‘‘ اس کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ اس نے ایک ہی وار سے فارسی فوجی کا سر تن سے جدا کر دیا۔ پھر ا س نے لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’ ہم تمہاری عزت کے محافظ ہیں۔‘‘ وہ جس تیزی سے آیاتھا ‘اسی تیزی سے واپس اپنی جگہ پر جا کر کھڑا ہو گیا۔

لڑکی اسے حیرت زدہ نظروں سے دیکھتی رہی۔ اس کے بعد کم و بیش بیس فارسی فوجیوں کی گردنیں کاٹی گئیں۔ لوگوں نے محوت سے یہ تماشہ دیکھا لیکن لڑکی عرب کے اسی نوجوان کو دیکھتی رہی جس نے اس کی بے عزتی کا انتقام لیا تھا۔

عرب کا یہ خوبرو نوجوان صہیب القدر تھا اور صہیب ثقفی کے نام سے مشہور ہو گیا تھا ۔وہ ابو عبید شہید کے قبیلہ بنو ثقیف میں سے تھا۔ ا س کی شہرت غیر معمولی شجاعت کی بدولت تھی۔ معرکہ جسر میں اس نے شجاعت کے جوہر دکھائے تھے ۔ہاتھیوں کے ہودوں کی رسیاں کاٹنے میں وہ پیش پیش تھا۔ اس نے دو ہاتھیوں کے پیٹ تلوار سے چاک کر دیئے تھے۔

صہیب ثقفی اس وقت زخمی ہوا تھا جب مثنیٰ اپنے بچے کھچے مجاہدین کو میدانِ جنگ سے نکال کر پل سے گزار رہے تھے۔ صہیب ثقفی اپنے ساتھیوں کے ساتھ فارسیوں کو پل سے دور رکھنے کیلئے لڑ رہاتھا۔ اسے اپنے ساتھیوں کی طرح ذرا پیچھے رہنا چاہیے تھا۔ لیکن وہ بہت آگے نکل گیا تھا ۔ایک فارسی کی تلوار نے اس کی ران اس طرح کاٹ دی کہ تلوار گوشت کو کاٹتی ہوئی ہڈی کے قریب جا رُکی۔ اس نے فارسی کو تو ختم کر دیا لیکن خود گر پڑا اور ایک گھوڑے کا پاؤں اس کے ٹخنے پر آگیااور وہاں سے کھال اتر گئی۔ ابھی معلوم نہیں تھا کہ وہاں سے ہڈی ٹوٹی تھی یا نہیں لیکن یہ پاؤں زمین پر ٹکتا نہیں تھا۔

اس نے اپنے لشکر کے تین ہزار مجاہدین کو تو دریا پار کروا دیا لیکن خود وہاں سے نہ نکل سکا۔ زخموں سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا اور زخمی پاؤں جسم کا بوجھ لیتا ہی نہیں تھا۔ صہیب ایک درخت کے نیچے جا کر گر پڑا اور یوں دم سادھ لیا جیسے مر گیا ہو ۔ پھر دونوں طرف کی فوجیں چلی گئیں تو صہیب نے قریب پڑی ہوئی ایک لاش کی کمر کے گرد لپٹا ہوا کپڑا کھولا جو آدھی چادر کے برابر تھا اور اپنے زخموں پر کس کر باندھ لیا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن کھڑا نہ رہ سکا۔جسم کا خون ختم ہو رہا تھا۔

وہ ایک درخت کے ساتھ پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا، اور موت کا انتظار کرنے لگا۔اس کے ہونٹ اﷲ کے کلام کے ورد میں ہل رہے تھے لیکن پیاس نے اس کے جسم کی ساری نمی چوس لی تھی اور حلق ایساخشک ہوا جیسے حلق میں کانٹے چبھ رہے ہوں۔ اس کے اثر سے اس کے ہونٹوں کی حرکت بند ہو گئی تھی اور پھر اسے غشی کے دورے پڑنے لگے۔ اس نے موت کو قبول کر لیا تھا اور یہی اس کیلئے باعثِ اطمینان و سکون تھا لیکن زخموں کا درد اسے بہت پریشان کر رہا تھا۔

پھر وہ ایسا بے ہوش ہوا کہ ہوش میں آنے کا امکان ہی ختم ہو گیا۔

٭

زمرد کی مشعل کے شعلے کی تپش تھی جو اسے ہوش میں لے آئی تھی اور اس کے پتھر جیسے خشک ہونٹوں سے سسکی نکلی تھی۔ پانی۔ زمرد نے اسے مرا ہوا سمجھ کر مشعل ا سکے چہرے کے اتنی قریب کر دی تھی کہ صہیب ثقفی نے چہرہ پرے کر لیاتھا اور پوری طرح ہوش میں آگیاتھا۔

زمرد بارسماء کی وہی لڑکی تھی جو ایک فارسی فوجی کی گردن پر تلوار نہیں چلا سکی تھی اور یہ کام صہیب نے اپنی تلوار سے کر دیا تھا۔ جتنی دیر صہیب وہاں موجود رہا زمر داُسی کو دیکھتی رہی تھی اور جب یہ خوبرو عرب نوجوان وہاں سے چلا گیا تو زمرد اسے تصور میں دیکھنے لگی۔ اور یہ پرنور چہرہ ہر وقت ا س کے سامنے رہنے لگا۔

اس رات زمرد اس شک پر جسر کے میدانِ جنگ میں گئی کہ ہو سکتا ہے اس کا بھائی زخمی یا مردہ مل جائے تو اس کی نظر اس چہرے پر پڑی جو اس کے ذہن میں نقش ہو گیا تھا ۔ جہاں سب چہرے ایک جیسے لگتے تھے اور ہر چہرے پر موت کا ایک ہی جیسا سایہ تھا۔ وہاں دو چار قدم دور سے کسی چہرے کو پہچاننا ممکن ہی نہ تھا۔ لیکن زمرد نے صہیب کو پہچان لیا۔

صہیب ثقفی کے جسم میں پانی گیا تو اس کے ہوش ٹھکانے آگئے اور اس کی آنکھیں کھل گئیں۔

’’کون ہو تم؟‘‘صہیب ثقفی نے زمرد سے پوچھا۔’’تم عربی نہیں ہو۔‘‘

’’عربی نہیں ہوں، لیکن عربی بول سکتی ہوں۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ بارسماء کی رہنے والی ہوں، تمہیں جانتی ہوں۔‘‘

’’کیسے؟‘‘صہیب نے کہا۔’’ میں تمہیں نہیں جانتا۔‘‘

زمرد نے اسے وہ واقعہ یاد دلایا۔

’’تم مجھے بہت یاد آتے رہے ہو۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ تم نے اس شیطان کی گردن کاٹ کر میرے سر پر ہاتھ رکھا تھا اور کہا تھا کہ ہم  تمہاری عزت کے محافظ ہیں ۔ہم تو سمجھتے تھے کہ ہماری فوج ہماری عزت کی محافظ ہے لیکن ہمارے محافظوں نے ہی ہماری عزتیں لوٹیں……‘‘

’’یہ وقت باتوں کا تو نہیں۔ مجھے بتاؤ تمہیں کس طرح بچا سکتی ہوں؟میں تمہیں یہاں پڑا رہنے نہیں دوں گی۔‘‘

’’مجھے میرے لشکر تک پہنچا دو۔‘‘ صہیب نے کہا۔’’ لیکن یہ کام تم نہیں کر سکو گی۔‘‘

’’میں تمہیں بار سماء لے جاؤں گی۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ اپنے گھر رکھوں گی۔‘‘

’’کسی فارسی فوجی نے دیکھ لیا تو وہ میرے ساتھ تمہیں بھی قتل کر دے گا۔‘‘ صہیب نے کہا۔’’ تم جاؤ، مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ میں کچھ دیر کامہمان ہوں۔میری آنکھیں صبح کا سورج نہیں دیکھ سکیں گی۔ میں مرتے وقت تمہیں کسی مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔‘‘

لڑکی فوراً اٹھی اور یہ کہہ کر چلی گئی ۔’’ آتی ہوں!‘‘

وہ ایک گھوڑے پر سوار جلد ہی آگئی۔ کود کر اتری اور صہیب کو اٹھانے کی کوشش کرنے لگی۔

’’ہمت کرو اور اٹھو۔‘‘ اس نے کہا۔’’ایک بار گھوڑے پر سوار ہو جاؤ لیکن بہت جلدی ، یہ میرے چچا کا گھوڑا ہے، وہ یہیں کہیں گھومتا پھرتا ہو گا۔ اس نے دیکھ لیا تو بنا بنایا کام بگڑ جائے گا۔‘‘

زمرد نے صہیب کو اٹھا کر اس طرح سہارا دیا کہ اس کا وزن اپنے جسم پر ڈال لیا۔ گھوڑا قریب ہی کھڑا تھا ۔بڑی ہی مشکل سے زمرد نے صہیب کا پاؤں رکاب میں رکھا اور اس کے جسم کو اپنے کندھوں پر اور پیٹھ پر ڈال کر اسے گھوڑے پر سوارکرایا۔ صہیب کیلئے گھوڑے کی پیٹھ پر سنبھل کر بیٹھنا محال ہو رہا تھا۔

’’میں راستے میں ہی گر پڑوں گا۔‘‘ صہیب نے زمرد سے کہا۔

’’میں تمہیں اکیلا تو نہیں بھیج رہی۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ میں تمہارے ساتھ جاؤں گی۔‘‘

وہ گھوڑے پر صہیب کے پیچھے سوار ہو گئی اور اس کی پیٹھ اپنے سینے کے ساتھ لگا کر اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔

’’تم گھوڑے کو قابو میں رکھنا۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ میں تمہیں قابو میں رکھوں گی۔ ہوش ٹھکانے رکھنے کی کوشش کرو۔‘‘

’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘انہیں ایک للکار سنائی دی۔’’ ٹھہر جا زمرد!‘‘

یہ زمرد کے چچا کی آواز تھی۔ جس کا گھوڑا تھا ۔وہ ان کی طرف دوڑا آ رہا تھا۔

’’یہ گھوڑا میرچچا کا ہے ۔‘‘زمرد نے کہا۔’’ وہ آرہا ہے۔‘‘ اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا کر کہا۔’’ سنبھلو ذرا……پل کی طرف!‘‘

گھوڑا لاشوں کو روندتا پھلانگتا کشتیوں کے پل پر جا پہنچا۔ زمرد نے مشعل پھینک دی تھی۔ زمرد کا چچا چیختا چلاتا رہ گیا اور گھوڑا پل پار کر گیا۔

فارس کے دارالحکومت مدائن میں ایک پراسرار ڈرامہ زمین کے نیچے نیچے چل رہا تھا اور یہ ملکۂ فارس پوران اور رستم کے گرد گھومتا تھا۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ پوران نے سلطنت کے تمام اندرونی اور بیرونی امور، دفاع اور جارحیت کے فیصلوں کے اختیارات رستم کو دے دیئے تھے۔ اس کی اپنی حیثیت برائے نام ملکہ کی سی رہ گئی تھی۔ وہ اوررستم زیادہ وقت اکٹھے گزارتے تھے اور یہ شک ہی نہیں بلکہ شاہی حلقوں کا مشاہدہ تھا کہ رستم اور پوران کے سرکاری تعلقات ذاتی دوستی کا رنگ اختیار کر گئے تھے اور یہ دوستی قابلِ اعتراض حدود میں داخل ہو چکی تھی۔

مدائن میں فارس کے دو جرنیل اور بھی تھے فیروزان اور مہران۔ وہ بھی بہمن جادوویہ کے اور جالینوس کے پائے کے جرنیل تھے۔ لیکن رستم انہیں نظر انداز کر کے بہمن جادویہ اور جالینوس کو زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ فیروزان اور مہران کے دلوں میں خلش پرورش پا رہی تھی۔ جو اس وقت ابھر کر سامنے آگئی، جب رستم نے بہمن جادویہ اور جالینوس کو ہاتھی دے کر مسلمانوں کے خلاف بھیج دیا۔

یہ فوج مدائن سے نکل گئی تو رستم اور پوران جو کچھ دور تک فوج کے ساتھ گئے تھے ،واپس محل میں آئے۔ فیروزان نے اپنے ایک آدمی سے کہا کہ رستم اِدھر اُدھر ہو جائے تو اسے اطلاع دے۔

کچھ ہی دیر بعد اسے اطلاع ملی کہ رستم چلا گیا ہے۔ فیروزان بغیر اطلاع پوران کے کمرے میں چلا گیا۔

’’ملکۂ فارس کو میری یہ جرأت تواچھی نہ لگی ہو گی کہ میں بغیر اطلاع اندر آگیا ہوں۔‘‘ فیروزان نے کہا۔

’’بیٹھو فیروزان!‘‘ ملکۂ فارس پوران نے کہا۔ تمہارا بغیر اطلاع اندر آجانا تو اتنا برا نہیں لگا۔ مجھ تک کچھ ایسی باتیں پہنچی ہیں جو مجھے اور رستم کو بہت بری لگی ہیں۔‘‘

’’اس سے پہلے کہ میں وہ باتیں پوچھوں جو ملکہ عالیہ کو بری لگی ہیں۔‘‘ فیروزان نے کہا۔’’ میں یہ پوچھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ رستم کون ہے؟کیا وہ شاہی خاندان کافرد ہے؟کیا وہ کسریٰ کی نسل سے ہے؟……وہ میرے اور مہران جیسا ایک جرنیل ہے۔‘‘

’’کیا تم یہ نہیں جانتے کہ میں نے اسے اختیارات دیئے ہیں؟‘‘پوران نے کہا۔ ’’ اور کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے یہ فیصلہ سلطنت کی سلامتی اور بقا کیلئے کیاہے۔ میں اس روز اپنے آپ کہ ملکۂ فارس سمجھوں گی جس روز میرے کانوں میں یہ خبر پڑے گی کہ اب کوئی زندہ مسلمان فارس کی سر زمین پر نہیں رہا۔ اور فارس کے کھوئے ہوئے علاقے واپس لے لیے گے ہیں۔‘‘

’’ملکہ ٔفارس! ‘‘فیروزان نے کہا۔’’ اگر آپ کے اور رستم کے انداز و اطوار یہی رہے تو وہ د ن کبھی نہیں آئے گا۔‘‘

’’فیروزان!‘‘ پوران نے کہا۔’’ معلوم ہوتا ہے تمہارے دل میں رستم کے خلاف ذاتی عناد پیدا ہو گیا ہے۔‘‘

’’نہیں ملکۂ عالیہ! ‘‘فیروزان نے کہا۔’’ بات اگر عناد کی ہے تو عناد رستم کے دل میں پیدا ہو اہے۔ اسے بہمن جادویہ اور جالینوس کے سوا کوئی اور جرنیل نظر ہی نہیں آتا۔ یہ دونوں شکست خوردہ جرنیل ہیں۔ دونوں صرف پسپا ہی نہیں ہوئے بلکہ اپنی فوج کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ آنے والے جرنیل ہیں۔‘‘

’’میں تمہاری شکایت سمجھ گئی ہوں فیروزان!‘‘

’’آپ کچھ نہیں سمجھ رہیں ملکۂ عالیہ!‘‘فیروزان نے کہا۔’’آپ بھول گئی ہیں کہ فارس کے تخت و تاج پر شاہی خاندان میں کس قدر قتل و غارت ہو چکی ہے۔ اس تخت پرجو بھی بیٹھا وہ قتل ہو گیا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ نے رستم کو ساتھ لے کر تخت و تاج کو فوج کا تحفظ دلایا ہے۔ لیکن آپ نے رستم پر اندھا اعتماد کر کے اچھا نہیں کیا۔ اور پھر اس کے ساتھ ذاتی دوستی پیدا کرکے اور زیادہ برا کیاہے……ملکۂ عالیہ! میرے دل میں فارس کی محبت اور درد ہے۔ میری وفاداری فارس کے ساتھ ہے آپ کے ساتھ نہیں۔ میں یہ کہنے میں ذرا سا بھی نہیں ڈروں گا کہ رستم پر آپ کے جوانی اور حسن کا نشہ طاری ہوگیا ہے۔ آپ اسے خوش اور مطمئن رکھنا چاہتی ہیں۔ اس لیے آپ نے اسے اجازت دے رکھی ہے کہ وہ آپ کے اس خوبصورت جسم کے ساتھ کھیلے اور دل بہلائے۔

’’فیروزان!‘‘ پوران نے غصے سے بھڑکتے ہوئے کہا۔’’ اپنی حیثیت کو پہچانو۔ مت بھولو کہ میں اس ملک کی ملکہ ہوں اور تم ملازم ہو۔ تم مجھ پر اتنا گھٹیا الزام عائد کر رہے ہو؟‘‘

’’ملکۂ فارس!‘‘ فیروزان نے بے خوف وخطر کہا۔’’ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں۔ آپ کون سے فارس کی ملکہ ہیں؟وہ فارس جس کی فوجیں مسلمانوں کے آگے آگے بھاگی چلی جا رہی ہیں؟اور جس کے جرنیل اپنی فوج سے پہلے میدان چھوڑ کر بھاگ آئے ہیں؟اور اس فارس کی آپ ملکہ ہیں جو آدھے سے زیادہ مسلمانوں کے قبضے میں چلا گیاہے ……میں بہت دور کی سوچ رہا ہوں ملکۂ عالیہ! اگر مدائن پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تو وہ ساری دنیاکو سنائیں گے اور ڈرائیں گے کہ کسریٰ پرویز نے ان کے رسول)ﷺ( کا خط پھاڑ دیا تھا اور ان کے رسول)ﷺ( نے کہا تھا کہ سلطنتِ فارس بھی اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی۔ مسلمان کہیں گے کہ دیکھو اﷲ کے رسول)ﷺ( کی توہین کرنے والوں پر کیسا عذاب نازل ہوتا ہے۔ میں عرب کے محمد )ﷺ(کی پیش گوئی پوری نہیں ہونے دوں گا۔

’’تم جا سکتے ہو۔‘‘ پوران نے شاہی جلال سے کہا۔’’ میں رستم کے ساتھ بات کروں گی۔‘‘

فیروزان کمرے سے نکل گیا۔

٭

اُدھر بہمن جادویہ اور جالینوس اپنی فوج کے ساتھ جس میں ہاتھی بھی تھے ، فرات کے کنارے مروحہ کے مقام سے کچھ دور پہنچ چکے تھے۔انہوں نے ابو عبید کے لشکر کے خلاف معرکہ آراء ہونا تھا جو معرکہ جسر کے نام سے مشہور ہوا اور مسلمانوں کی پسپائی پر ختم ہوا تھا۔

سورج غروب سے ہونے کچھ دیر پہلے مدائن میں فوج کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کیلئے نقارہ بجنے لگا۔ شہرکے لوگوں پر خوف طاری ہو گیا۔ وہ سمجھے کہ مسلمان آ گئے ہیں اور وہ شہر کو محاصرے میں لے رہے ہیں۔ فوج کے جرنیل اور سپاہی بڑی تیزی سے تیار ہو کر میدان میں جمع ہونے لگے۔ ان کے افسروں نے انہیں جیشوں اور دستوں کی ترتیب میں کھڑا کر دیا۔

رستم گھوڑے پر سوار آتا نظر آیا۔ اس کے پیچھے اس کے گھوڑ سوار محافظ تھے۔ رستم فوج کے اجتماع کے سامنے رکا اور فوج پر نظر دوڑائی۔ فوج پر سناٹا طاری ہو گیا۔

’’ملکۂ فارس کا ایک حکم کان کھول کر سن لو!‘‘ رستم نے بلند آواز سے کہا۔’’ فوج کے کسی بڑے سے بڑے افسر اور ادنیٰ سے ادنیٰ سپاہی کو اجازت نہیں کہ وہ ملکۂ عالیہ پوران دخت کے ساتھ محل میں جاکر یا کہیں براہِ راست بات کرے۔ اگر کسی نے کوئی مشورہ دینا ہو تو اپنے کسی عہدیدار کو دے۔ کسی کو کوئی شکایت ہو تو وہ بھی اپنے عہدیدار سے ہی کرے۔ تمہاری شکایت اوپر پہنچ جائے گی……کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ فارس پر کتنا برا وقت آن پڑا ہے؟ آدھے ملک پر عربوں کا قبضہ ہو گیا ہے ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟……تم اور صرف تم……فوج……ہر میدان سے تم بھاگے ہو‘ جرنیل بھاگے ہیں ۔ان سے کم درجہ افسر بھاگے ہیں۔ یہ وہ فوج تھی جس نے روم کے ہرقل کو میدان سے بھگایا ہے۔ رومیوں سے بڑھ کر طاقتور کون تھا؟ہم نے اس اتنی بڑی جنگی طاقت پر دھاک بٹھا دی تھی۔آج وہ دہشت جو فارس نے رومیوں پر ہی نہیں بلکہ ساری دنیا پر طاری کر دی تھی، وہ عرب کے بے مایہ اور بے نام بدوؤں نے تم پر طاری کر دی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ تمہیں جب اطلاع ملتی ہے کہ عربی آرہے ہیں تو تم خوف سے کانپ جاتے ہو؟عجمی ایسے بزدل تو نہیں تھے کہ عربوں سے ڈر جاتے……

اب میں نے عربوں کو ہمیشہ کیلئے کچل دینے کیلئے ہاتھی بھیجے ہیں اور میں نے دو ایسے جرنیل بھیجے ہیں جو فرات کے پانی کو عرب کے مسلمانوں کے خون سے لال کرکے ہی آئیں گے۔ ان میں ایک بہمن جادویہ ہے اور دوسرا ہے جالینوس……لیکن مدائن میں ایسے لوگ موجوود ہیں جن کی دلچسپی اور وفاداری فارس کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی ذات اور اپنے اقتدار کے ساتھ ہے……وہ حاسد ہیں۔ وہ ملکہ ٔفارس کو میرے خلاف بھڑکا رہے ہیں کہ مجھے ان اختیارات سے محروم کر دیا جائے جو ملکۂ عالیہ نے مجھے دیئے ہیں۔‘‘

’’خاموش رہ رستم!‘‘ایک آواز گرجی۔’’ اقتدار کا بھوکا تو خود ہے۔‘‘

فوج کے اجتماع پر سناٹا طاری ہو گیا۔ یہ مدائن کے جرنیل فیروزان کی آواز تھی۔ وہ اپنا گھوڑا دوڑا کر رستم کے گھوڑے کے قریب لے گیا اور فوج کی طرف منہ کر لیا۔

’’میں اپنے سے اعلیٰ درجے کے سالار کی شان میں گستاخی کر رہا ہوں۔‘‘ فیروزان نے کہا۔’’ میں اس جرم کی سزا قبول کرتاہوں لیکن سچ کہنے سے باز نہیں آؤں گا۔ میں رستم سے پوچھتا ہوں کیا اس نے ایک بزرگ سے یہ نہیں کہا تھا کہ اس نے اقتدار کی ہوس اور حکومت کے لالچ میں سلطنت کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں؟رستم اپنے آپ کو علم ِنجوم کاماہر سمجھتا ہے۔ اس نے اس بزرگ سے کہا تھا کہ نجوم کا علم بتاتا ہے کہ سلطنتِ فارس کا انجام ٹھیک نہیں ہو گا……میں بتاتا ہوں کہ انجام کیوں ٹھیک نہیں ہو گا۔ اگر ا س شخص کی نیت ٹھیک ہو جائے تو سلطت کا انجام بھی ٹھیک ہو گا……یہ بہمن جادویہ اور جالینوس کو اتنے طاقتور جرنیل سمجھتا ہے کہ وہ فرات کے پانی کو عربوں کے خون سے لال کر آئیں گے۔ تم جانتے ہو کہ یہ دونوں جرنیل عربوں سے شکست کھا کر بھاگے ہوئے ہیں۔ رستم خود محاذ پر کیوں نہیں جاتا؟……صرف اس لیے کہ یہ پوران دخت کے ساتھ جو برائے نام ملکہ ہے‘ عیش و عشرت میں مصروف ہے……‘‘

’’اسے گرفتار کر لو۔‘‘رستم نے نیام سے تلوار نکال کر کہا۔’’ میں اپنی توہیں برداشت کر لوں گا، ملکۂ عالیہ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کروں گا۔‘‘

رستم کے پیچھے کھڑے چار گھوڑ سوار محافظ فیروزان کی طرف بڑھے۔ فیروزان نے تلوار نکال لی۔

’’مجھے گرفتار کرنے کیلئے خود آگے آ رستم‘‘!فیروزان نے رستم کو للکارا۔

’’خبردار!‘‘فوج کے اجتماع میں ایک اور آواز گرجی۔’’ فیروزان کے قریب کوئی نہ آئے۔‘‘

چار پانچ گھوڑ سوار سامنے آئے۔ سواروں کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ انہوں نے فیروزان کو اپنے حصار میں لے لیا۔ اس کے ساتھ ہی فوج میں ہڑبونگ مچ گئی۔

’’ہم فیروزان کے ساتھ ہیں۔‘‘

’’فیروزان سچ کہتا ہے۔‘‘

’’رستم ہمارا بادشاہ ہے۔‘‘

’’ہم رستم کے ساتھ ہیں۔‘‘

’’فیروزان غدار ہے۔‘‘

’’رستم سب سے بڑا غدار ہے۔‘‘

دیکھتے ہی دیکھتے فوج دو حصوں میں بٹ گئی۔ جس ترتیب میں فوج کھڑی تھی وہ درہم برہم ہو گئی۔ صورتِ حال خانہ جنگی والی پیدا ہو رہی تھی۔ رستم کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا لگا۔ اسے اس کے مخبر تو یہ بتا تے رہتے تھے کہ فوج اور شہری انتظامیہ کے حکام میں اس کے خلاف ایک لہر چل رہی ہے مگر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ آدھی فوج اس سے باغی ہے۔

یہ فیروزان اور مہران کی خفیہ کوششوں کا نتیجہ تھا کہ مدائن میں رستم کی اتنی زیادہ مخالفت پیدا ہو گئی تھی۔

’’رک جاؤ۔‘‘ رستم اس شوروغل میں چلّانے لگا۔’’ رک جاؤ‘ میری پوری بات سن لو۔ ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نہ نکالنا۔‘‘

’’نہیں سنیں گے……نہیں سنیں گے۔‘‘ یہ ہجوم کا شور تھا۔

ایک طرف سے ایک گھوڑا دوڑتا آیا اور فوج کے دونوں حصوں کے درمیان جا رُکا ۔اس پر ملکۂ فارس پوران دخت سوار تھی۔

’’زرتشت کے پجاریو!‘‘پوران نے چلّا چلّا کر کہا۔’’ کیا ہو گیا ہے تمہیں کہ ایک دوسرے کا خون بہانے پر آگئے ہو۔ اپنے ملک کے ٹکڑے کرنے سے پہلے اپنی تلواروں سے میرے جسم کے ٹکڑے کر دو۔ کیا تم بھول گئے ہو کہ میں نے فارس کے تخت و تاج کو خون خرابے سے کس طرح روکا تھا؟ میں نے اپنے ملک کی سلامتی کی خاطر شادی نہیں کی۔ میں نے فارس کو دشمنوں سے بچانے کیلئے اپنے اختیارات فوج کے حوالے کر دیئے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو کبھی ملکہ سمجھا ہی نہیں۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ رستم ان ااختیارات کا اہل نہ تھا جو میں نے اسے دیئے ہیں ۔تو مجھے موقع دو کہ میں اپنی غلطی کا ازالہ کر سکوں۔ میں اپنا حکم نہیں چلاؤں گی۔ تمہاری سنوں گی اور تمہاری مانوں گی۔‘‘

ایک عورت کی چیخ و پکار سن کر ایک دوسرے کے خلاف بپھرے ہوئے فوجی خاموش ہو گئے۔ ان کے افسروں نے بھی انہیں پر سکون رہنے کو کہا۔

’’اپنے اصل دشمن کو پہچانو۔‘‘ پوران کہہ رہی تھی۔’’ اپنے بھائیوں کو دشمن سمجھ کر تم مسلمانوں کی غلامی میں جانے کے سوا کچھ اور حاصل نہیں کر سکو گے۔ تم مسلمانوں کو بلا رہے ہو کہ وہ مدائن پر بھی قبضہ کر لیں اور تمہاری کنواری بیٹیوں اور بہنوں کو لونڈیاں بنا کر لے جائیں۔ تم جو اتنی شان سے اتنے خوبصورت اور توانا گھوڑو ں پر سوا ہو۔عرب کے شہروں کی گلیوں میں بھیک مانگتے پھرو گے۔

تمہیں معلوم ہے کہ بہمن جادویہ اور جالینوس فوج لے کر مروحہ گئے ہوئے ہیں۔ انہیں ہاتھی بھی دیئے گئے ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ وہ عربی مسلمانوں کو کچل اور مسل کر واپس آئیں گے اور تمہاری ساری شکایتیں ختم ہو جائیں گی۔ اس لڑائی کے نتیجے کا انتظار کرلو۔ یہ دونوں جرنیل واپس آجائیں گے تو پھر میں تمام جرنیلوں کو اکٹھا بٹھا کر ایسے فیصلے پر پہنچ جاؤں گی جسے تم سب بہترین فیصلہ کہو گے۔ پر سکون اور پر امن رہو اور اپنے اپنے ٹھکانے پر چلے جاؤ۔

٭

فوج کی اجتماع گاہ خالی ہو گئی۔ فیروزان اورمہران بھی چلے گئے۔ رستم اور پوران وہیں رہ گئے یا ان کے گھوڑ سوار محافظ تھے جو ان سے کچھ دور کھڑے تھے۔

’’مشکل یہ ہے کہ ہم جنگی حالات سے گزر رہے ہیں۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ اگر حالات معمول کے مطابق ہوتے تو میں فیروزان اور مہران کو کبھی نہ چھوڑتا۔‘‘ رستم نے سر جھٹک کر پوران کی طرف دیکھا اور بولا۔’’ اب میں تم سے دور رہوں گا پوران!شدید ضرورت کے تحت ہی آیا کروں گا۔‘‘

’’مجھے توقع نہیں تھی کہ ہمارے حالات اتنے زیادہ بگڑ گئے ہیں۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ اسے ذاتی مسئلہ نہ بنا لینا رستم!‘‘

فارس کی بنیادیں ہل چکی تھیں اور کسریٰ کے ایوانوں کی دیواروں میں دراڑیں صاف نظر آنے لگی تھیں ۔پو ران اور رستم ذہن سے اتا ر چکے تھے کہ کسریٰ پرویز نے رسوال اﷲﷺ کے خط کو بہت سے ٹکڑوں میں پھاڑ کر انہیں ایک پھونک سے اڑا دیا تھا۔ رسول اﷲﷺ کو اطلاع ملی تو آپ ﷺنے فرمایا تھا کہ سلطنتِ فارس اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی۔ کسریٰ نے صرف یہی ایک گستاخانہ حرکت نہیں کی تھی۔ وہ توہینِ رسالت کا یوں مرتکب ہوا تھا کہ اس نے اپنے ایک گورنر کو حکم بھیجا تھا کہ محمدﷺ کر گرفتار کر کے میرے دربار میں پیش کرو۔

رسولﷺ نے اپنا کوئی پیغام نہیں بھیجا تھا۔ وہ تو اﷲ کا پیغام تھا جو اس تک پہنچایا گیاتھا کہ قبول کرو کہ اﷲ وحدہ لا شریک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں۔ رسالت اور حق کے پیغام کی جو توہین کسریٰ پرویز نے بھرے دربار میں کی تھی ۔ اس کی سزا اسے فوراً ہی ملنی شروع ہو گئی تھی۔ اس کے خاندان میں قتل و غارت شروع ہو گئی تھی اور نوبت خانہ جنگی تک پہنچ گئی تھی۔

٭

جس وقت فیروزان اور رستم آمنے سامنے آگئے اور فوج دو حصوں میں بٹ گئی اور دونوں دھڑے تلواریں نکال کر ایک دوسرے کاخون بہانے پر اتر آئے تھے۔ اُس وقت ایک گھوڑ سوار مدائن سے نکلا اور مروحہ کی طرف رُخ کر کے اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ وہ بہمن جادویہ کا مخبر تھا۔ جسے بہمن جادویہ یہ کام سونپ کر گیا تھا کہ مدائن میں کوئی بھی گڑ بڑ ہو جائے تو وہ فوراً اطلاع دے ۔ بہمن جادویہ پہلے ہی جالینوس سے کہہ رہا تھا کہ فوج دو حصوں میں بٹتی جا رہی ہے۔

بہمن جادویہ کا مخبر اس دن اور اس وقت اس کے پاس پہنچا جب فارس کی فوج مسلمانوں کو بہت بری شکست دے چکی تھی اور مثنیٰ بن حارثہ اپنے بچے کچھے مجاہدین کو کشتیوں کے پل سے دریا پار کر وا رہے تھے۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مثنیٰ نے چند ایک مجاہدین کو ساتھ لے کر کس طرح فارس کی فوج کو روکے رکھا اور مجاہدین پل تک پہنچتے اور دوسرے کنارے کی طرف دورتے رہے ۔وہ ایک بہت بڑے خطرے کے آگے دوڑ رہے تھے۔ خطرہ یہ تھا کہ فارسی تعاقب میں آئیں گے۔ میدان ان کے ہاتھ تھا۔ ان کے پاس نفری بھی زیادہ تھی۔ ان کا تعاقب میں آنا یقینی امر تھا۔ وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کا اس قدر جانی نقصان ہو چکا ہے کہ اب وہ بھاگنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔

فارسی ان تین ہزار مجاہدین کے پیچھے آکر انہیں ختم کر سکتے تھے۔ مثنیٰ اسی خطرے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے ۔اﷲ نے ان پر یہ کرم کیا کہ مدائن سے جو گھوڑ سوار نکلا تھا وہ اس وقت جسر کے میدان میں پہنچا جب بہمن جادویہ اپنے افسروں کو حکم دے رہا تھا کہ عربوں کا تعاقب کیا جائے اور کسی ایک کو زندہ نہ چھوڑ ا جائے۔ اُنہیں پل توڑنے کی مہلت ہی نہ دی جائے۔

مدائن کا سوار اس کے سامنے جا رُکا اور گھوڑے سے کود کر اُترا۔

’’تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم کوئی اچھی خبر نہیں لائے۔ ‘‘بہمن جادویہ نے کہا۔

’’یقینا اچھی نہیں۔‘‘ سوار نے ہانپتے ہوئے کہا اور بڑی تیزی سے بولتے ہوئے اسے یہ بتایا کہ مدائن میں کیا ہوا ہے۔

بہمن جادویہ اور جالینوس کے چہروں کے رنگ اُڑ گئے۔

’’معلوم نہیں اب تک وہاں کیا ہو چکا ہو گا۔‘‘ سوار نے کہا۔’’ میں فوج کو دو حصوں میں بٹا ہوا اور ایک دوسرے کو للکارتاہوا چھوڑ آیا ہوں۔ سردار رستم اور سردار فیروزان نے ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نکال لی تھیں۔‘‘

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ بہمن جادویہ اور جالینوس فوج کے زیادہ تر دستے اپنے ساتھ مدائن لے گئے اور کچھ دستے اپنے ایک جرنیل جابان کو دے گئے ۔جابان مجاہدین کے تعاقب میں گیا اور الیس کے مقام پر مثنیٰ کے تین ہزار تھکے ماندے مجاہدین نے ایک بھی فارسی کو زندہ نہ چھوڑا اور جابان پکڑا گیا۔ مثنیٰ کے حکم سے اسے قتل کر دیا گیا۔

٭

بہمن جادویہ اور جالینوس اپنے دستوں کے ساتھ انتہائی رفتار سے مدائن پہنچے۔ انہوں نے کہیں رُکے بغیر یہ مسافت آدھے وقت میں طے کی۔ انہیں مخبر نے جو اطلاع دی تھی اس کے مطابق شہر میں خانہ جنگی ہونی چاہیے تھی۔ لیکن شہر میں داخل ہوکر انہیں اطمینان ہوا کہ امن و امان ہے۔انہو ں نے فوج کو فارغ کر دیا اور خودرستم کے پاس گئے۔ فیروزان اور مہران کو بھی بلا لیا اور سب پوران دخت کے ہاں گئے۔

’’ہم نے فرات کے کنارے عربوں کو جس طرح کاٹا ہے وہ جا کر دیکھیں۔‘‘ بہمن جادویہ نے سب کو بتایا۔’’ ان کے لشکر کا بمشکل تیسرا حصہ بچ کر بھاگا ہے۔ اگر ہمیں مدائن کی اطلاع نہ ملتی تو ہم ان بھاگنے والوں کو بھی وہیں رکھتے۔ ذرا غور کرو اور پھر شرم کرو کہ ہم مسلمانوں کو اتنی زبردست شکست دے رہے ہیں اور تم لوگ یہاں ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نکال رہے ہو۔ مسلمانوں کی پسپائی شروع ہو چکی ہے۔اب ہم انہیں ہر جگہ سے بھگائیں گے۔ انہیں کاٹیں گے۔ اگر تم نے آپس میں ہی لڑنا شروع کر دیا تومدائن بھی مسلمانوں کو دے بیٹھو گے۔‘‘

چونکہ بہمن جادویہ نے مسلمانوں کی شکست کی خوشخبری پہلے ہی سنا دی تھی۔ اس لیے فضا میں جو تلخی اور کدورت تھی ،وہ بہت کم ہو گئی تھی۔ ملکۂ فارس رستم اور دوسرے جرنیلوں کے کانوں میں پہلی بار یہ آواز پڑی کہ مسلمانون کو کسی میدان میں شکست دی گئی ہے۔

کچھ دیر جرنیلوں کا بحث و مباحثہ ہوا۔ مؤرخ لکھتے ہیں پوران چونکہ محب وطن تھی اس لیے ملکہ کی حیثیت سے اس نے اپنا کوئی فیصلہ نہ ٹھونسا ۔اس نے تمام فیصلے جرنیلوں پر چھوڑ دیئے۔ مشہور مؤرخ طبری اور ابو حنیفہ نے لکھا ہے کہ فارس کے جرنیل فیروزان اور مہران کہ یہ شکایت تھی کہ ملکۂ پوران نے رستم کو اپنے تمام اختیارات دے کر اسے بادشاہ کا درجہ دے دیا ہے۔ اس شکایت کو یوں رفع کیا گیا کہ سلطنتِ فارس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک کے اختیارات فیروزان کو اور دوسرے کے رستم کو دے دیئے گئے۔

’’میں تمہیں یقین دلاتی ہوں۔‘‘ پورا ن نے کہا۔’’ کہ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ میں ملکہ رہتی ہوں یا نہیں یا میرے پاس شاہی احکام جاری کرنے کے اختیارات رہتے ہیں یا نہیں۔ مجھے فارس چاہیے۔ جس نے روم کے ہرقل کو شکست دی تھی اور جس فارس کی جنگی طاقت سے ہر ملک خائف تھا۔

دو تین مؤرخوں نے لکھا ہے کہ رستم اور فیروزان نے سلطنتِ فارس آپس میں تقسیم کر لی تھی۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے پوران کو معزول کردیا گیا تھا۔ لیکن مستند تاریخوں میں پوران بدستور ملکہ نظر آتی ہے۔ البتہ ایسے اشارے ،سراغ ملتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ملکہ کے جرنیلوں نے بظاہر سمجھوتا کر لیا تھا۔ لیکن در پردہ ان میں اختلافات موجود رہے اور یہی وجہ ہوئی کہ وہ فوری طور پر مسلمانوں کے خلاف جنگی تیاری نہ کر سکے۔

جرنیلوں کے اس سمجھوتے میں یہ طے پایا کہ مہران تمام فوجوں کی کمان لے اور اس وقت تک فوجوں کا جو جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے وہ پورا کرے۔

٭

جس وقت مدائن میں فارسی جرنیل آپس کے اختالافات ختم کرنے میں مصروف تھے اور پوران ان کو فارس کی گرتی ہوئی عمارت کو سنبھالنے کی تلقین کر رہی تھی اور بہمن جادویہ نے کہا تھا کہ جابان مسلمانوں کے تعاقب میں گیا ہے اور وہ انہیں بھی ان کے خون میں نہلا کر آئے گا۔ اس وقت مثنیٰ کے تین ہزار مجاہدین جابان کی تمام فوج کو اس کے خون میں ڈبو چکے تھے۔ نہ جابان رہا نہ جابان کا کوئی سپاہی رہا۔

اس معرکے کے بعد مثنیٰ الیس کے قلعے میں چلے گئے ۔ان کے مجاہدین کی جسمانی حالت بہت بری تھی۔ وہ تو اب قدم گھسیٹ رہے تھے۔ یہ ان کی روحانی قوت تھی کہ وہ چل پھر رہے تھے۔ مثنیٰ نے انہیں قلعے میں اکٹھا کیا۔

’’میرے عزیز رفیقو! ‘‘مثنیٰ نے مجاہدین سے خطاب کیا۔’’ میں جانتا ہوں تم کس حال میں ہو۔ میں جانتا ہوں تم کیا محسوس کر رہے ہو۔ تم غمگین ہو اپنے ان ساتھیوں کیلئے جو جسر کی لڑائی میں شہید ہو گئے ہیں۔ نکال دو غم اپنے دلوں سے ۔ انہیں مردہ نہ سمجھو جنہوں نے اﷲ کی راہ میں جانیں دی ہیں۔ وہ زندہ ہیں اور تمہارے ساتھ ہیں۔ تم نے جابان فارسی کی پوری فوج کو کاٹ کر اپنے ساتھیوں کے خون کا انتقام لے لیا ہے۔ تمہارے شہید ساتھی تمہارے ساتھ تھے۔ ان کی روحیں تمہارے ساتھ تھیں ورنہ تم اپنے ٹوٹے پھوٹے جسموں سے اتنی بڑی فوج کو لاشوں کا ڈھیر نہ بنا سکتے……‘‘

تاریخوں میں لکھا ہے کہ مثنیٰ جب بول رہے تھے تو صاف پتہ چلتا تھا کہ ان کا سانس پھولا ہوا ہے اور وہ بولنے میں دشواری محسوس کر رہے ہیں۔ معرکہ جسر میں جب مثنیٰ مجاہدین کو پل سے گزار رہے تھے تو کسی فارسی نے ان پر برچھی پھینکی تھی۔ مثنیٰ نے زنجیروں والی زرہ پہن رکھی تھی۔ برچھی سے زرہ کی کڑی ٹوٹ کر ان کے جسم میں داخل ہوگئی تھی۔ برچھی پہلو میں لگی تھی۔ شاید وہاں سے ایک دو پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ اس وقت پرچم مثنیٰ کے پاس تھا۔ جو انہوں نے گرنے نہیں دیا تھا۔

انہیں زخم کی باقاعدہ مرہم پٹی کی مہلت ہی نہیں ملی تھی۔ انہوں نے اتنی سی مرہم پٹی کی تھی۔ زخم میں کپڑا ٹھونس کر اوپر کپڑا باندھ دیا تھا ۔انہیں الیس تک کی مسافت طے کرنی پڑی تھی اور الیس میں خونریز اور گھمسان کی لڑائی بھی لڑنی پڑی۔ زخم سے خون نکلتا رہا اور جسم کے اندر بھی خون بھرتا رہا تھا ۔ وہ اپنے مجاہدین کی حوصلہ افزائی کیلئے خطاب کر رہے تھے کہ زخم میں درد کی شدید ٹیس اٹھی اور دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ آگے نہ بول سکے اور گھوڑا ایک طرف موڑ کر اس طرف چلے گئے جہاں انہوں نے قیام کرنا تھا۔

الیس ایک قلعہ تھا اور ایک بڑا قصبہ بھی تھا۔ وہاں جراح اور طبیب موجود تھے۔ وہ دوڑتے پہنچے اور زخم کی باقاعدہ مرہم پٹی کر دی۔ طبیب اور جراح نے انہیں سختی سے کہا کہ وہ مکمل آرام کریں۔ کسی لڑائی میں شریک نہ ہوں اور گھوڑ سواری زخم ٹھیک ہونے تک نہ کریں۔

’’مکمل آرام کا وقت نہیں۔‘‘ مثنیٰ نے کہا۔’’ تم لوگ اپنا کام کرو، اور مجھے میرے کام سے نہ روکو۔ تمہارا کام ہے میرے زخم کو ٹھیک کرنااور میراکام ہے زخم کی پرواہ نہ کرنا۔ میں اﷲ کے حکم کا پابند ہوں۔‘‘

انہیں بہت کہا گیا کہ زخم خراب ہو گیا تو پیپ پھیپھڑے میں چلی جائے گی لیکن مثنیٰ نے ایک نہ سنی۔

٭

سورج غروب ہونے کو تھا جب زمرد گھوڑے پر سوار الیس کے دروازے پر پہنچی۔ اس نے صہیب ثقفی کو گھوڑے پر سوار آگے بٹھا رکھا تھا ۔ وہ بیہوش تھا۔ قلعے کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔ مثنیٰ نے حکم دیا تھا کہ دروازہ کسی کیلئے نہ کھولا جائے۔ دروازے کے اوپر ایک دریچہ کھلا تھا جس میں ایک سنتری کھڑا تھا۔ اس نے زمرد سے پوچھا کہ وہ کو ن ہے اور کیوں آئی ہے ؟سنتری نے یہ بھی کہا کہ دروازہ نہیں کھلے گا۔

’’دروازہ نہیں کھلے گا تو تمہارے اس مسلمان ساتھی کی زندگی کا دروازہ بند ہو جائے گا۔‘‘ زمرد نے کہا ۔’’میں اسے جسر کے میدان سے اٹھا لائی ہوں۔‘‘

’’تم مسلمان نہیں ہو۔‘‘ سنتری نے کہا۔’’ تمہارے لیے دروازہ نہیں کھلے گا۔‘‘

’’میرے لیے نہیں۔ ‘‘زمرد نے کہا۔’’ اپنے اس ساتھی، اس بھائی کیلئے دروازہ کھول دو ورنہ یہ مر جائے گا۔‘‘

’’تم عجمی ہو۔ ‘‘دریچے سے آواز آئی۔

’’یہ عربی ہے عجمی نہیں۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ یہ صہیب ابن القدر ثقفی ہے۔ میں عورت ہو کر اسے جسر کے میدان سے اٹھا لائی ہوں اور تم مرد ہوتے ہوئے مجھ سے ڈرتے ہو اوردروازہ نہیں کھولتے۔ میں اس کی خاطر اپنا گھر، ماں باپ، بہن بھائی اور اپنا مذہب سب چھوڑ کر آئی ہوں۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہارے ساتھی کو یہاں پھینک کر اپنے مذہب میں واپس چلی جاؤں؟کیا یہ ہے تمہارا مذہب؟‘‘

’’خد اکی قسم! ‘‘دریچے سے نہیں بلکہ اوپر دیوار سے ایک آواز آئی۔’’ ایک عورت یہ شکوہ لے کر نہیں جائے گی کہ مسلمانوں کے ہاں اسے پناہ نہیں ملی تھی۔ تیری قربانی کا تجھے پورا صلہ ملے گا۔‘‘ یہ آواز بڑی زور سے گرجی۔’’ دروازہ کھول دو۔‘‘

دروازہ کھل گیا۔ زمرد نے گھوڑے کو ڈیڑھ دن کی مسافت میں اتنا کم آرام دیا تھا کہ قلعہ کا دروازہ کھلا تو گھوڑا قدم نہیں اٹھاتا تھا۔ صہیب تو بیہوش تھا ہی ،زمرد پر بھی غشی طاری ہوئے جا رہی تھی۔ راستے میں اس نے صہیب کے منہ میں پانی ٹپکایا اور خود بھی پانی پیا تھا، کھایا کچھ بھی نہیں تھا۔

ایک آدمی نے باگ پکڑ کر کھینچی تو گھوڑا آگے چلا ۔کچھ مجاہدین اکٹھے ہو گئے تھے۔ ان سب نے صہیب کو پہچان لیا۔ انہوں نے اسے گھوڑے سے اتارا اور طبیب کے ہاں لے گئے ۔مثنیٰ کو اطلاع دی گئی کہ بار سماء کی ایک آتش پرست لڑکی اپنے ایک مجاہد کو جسر کے میدان سے اٹھا کر لے آئی ہے۔ مثنیٰ نے کہا کہ اسے فوراً لے آؤ۔

زمرد کو مثنیٰ کے کمرے میں لے گئے۔ اس نے مثنیٰ کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔ اپنی آنکھوں سے لگایا پھر چوما اور ہاتھ چھوڑ کر پیچھے ہٹ آئی۔ مثنیٰ نے اس کے چہرے کو بہت غور سے دیکھا اور ان کے ماتھے پرشکنیں آگئیں۔ وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

’’خدا کی قسم! یہ چہرہ میرے لیے غیر مانوس نہیں۔‘‘ مثنیٰ نے کہا اور زمرد سے پوچھا۔’’ میں نے تمہیں کہاں دیکھا تھا؟تھکن کے اتنے گہرے سائے تمہارے چہرے کی معصومیت کو چھپا نہیں سکے۔‘‘

’’آپ بھول سکتے ہیں۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ میں آپ کو نہیں بھول سکتی۔وہ دن یاد کریں جب آپ بار سماء آئے تھے اور میرے وطن کے ان فوجیوں کے سر تن سے جدا کر دیئے تھے۔ جنہوں نے عورتوں کو بے آبرو کردیا تھا۔ آپ نے اپنی تلوار مجھے دے کر کہا تھا کہ اس فوجی کی گردن اپنے ہاتھوں سے کاٹ دوں اور اپنی آبرو کی بربادی کا انتقام لوں۔ میں نے تلوار اوپر اٹھائی تھی لیکن……‘‘

’’لیکن تم نے تلوار نیچے کر لی تھی۔‘‘ مثنیٰ نے کہا۔ ’’اور تم نے رونا شروع کر دیا تھا۔ پھر میرے ایک مجاہد نے جوشِ غیرت میں آگے بڑھ کر اس فارسی کی گردن صاف کاٹ دی تھی۔‘‘

’’میں آپ کے مجاہد کو نہ بھول سکی۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’دن کو تصوروں میں اور رات کو خوابوں میں اسے دیکھتی رہی ۔میں سوچتی تھی کہ اسے کیاانعام دوں ۔ اس کے اس احسان کا کیا صلہ دوں۔ لیکن میں مجبور اور بے بس تھی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ مسلمان جس اﷲ کو مانتے ہیں وہ اس مجاہدکو صلہ دے گا، اور اﷲ نے اسے صلہ دینے کا ذریعہ مجھے بنایا ۔میں اسے لاشوں میں سے اٹھا لائی ہوں۔ میں لوگوں کے ساتھ رات میں میدانِ جنگ میں چلی گئی۔ میں اپنے بھائی کی تلاش میں گئی تھی لیکن یہ مجاہد مجھے نظر آگیا۔ اسے کچھ دیر بعد مر جانا تھا۔ میرا چچاتواسے اسی وقت مارنے لگا تھا۔ میں آگے آگئی اور اسے بچا لیا۔

زمرد نے تفصیل سے سنایا کہ وہ اپنے چچا کا گھوڑا چوری کر کے صہیب کو اس پر ڈال کر لے آئی۔ اس نے الیس تک کے سفر کی روئیداد سنائی۔

’’میں اتنی دلیر تو نہیں تھی۔‘‘ اس نے کہا۔’’ لیکن میرے دل میں اس شخص کی محبت پیدا ہو گئی تھی یا اس اﷲ نے جسے آپ مانتے ہیں میرے روح کو روشن کر دیا تھا۔ یا آپ سب کی عقیدت تھی جو میرے دل میں پیدا ہو گئی تھی ۔جس نے مجھے دلیر اور نڈر مرد بنا دیا……میں آپ کے اﷲ کو دل و جان سے مانتی ہوں۔ اگر آپ مجھے قبول کریں تو اپنے مذہب میں داخل کر لیں اور پھر صہیب ثقفی قبول کر لے تو میں باقی عمر اس کی خدمت میں گزاردوں گی۔میں نے واپس تو جانا نہیں۔‘‘

’’تمہاری دونوں خواہشیں پوری ہوں گی۔‘‘ مثنیٰ نے کہا۔’’ سب سے پہلے ہم تمہیں اپنے مذہب میں داخل کریں گے۔ یہاں ہمارے بعض مجاہدین کی بیویاں موجود ہیں ۔تم ان کے ساتھ رہو گی۔ جب صہیب پوری طرح ٹھیک ہو جائے گاتو اس کے ساتھ تمہارا نکاح پڑھا دیا جائے گا۔‘‘

مثنیٰ نے اسی وقت اسے حلقہ بگوش اسلام کر لیااور حکم دیا کہ اسے عورتوں کے حوالے کر دیا جائے اور اسے کھانا کھلایا جائے۔زمرد کے جانے کے بعد مثنیٰ اٹھے اور صہیب کو دیکھنے چلے گئے۔ جراح نے صہیب کے زخموں کی پٹی کر دی تھی اور اس کے منہ میں شہد ملا دودھ ڈال رہا تھا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔