جمعرات، 7 مئی، 2015

حجاز کی اندھی - پارٹ 11

0 comments
 11

دوسرے ہی دن شہر کا ایک دروازہ کھلا۔ پانچ چھ گھوڑ سوار باہر آئے۔ سب سے آگے والے گھوڑ سوار کی پوشاک بتاتی تھی کہ اس کا تعلق شاہی خاندان کے ساتھ ہے یا وہ کوئی بڑا افسر ہے۔ اس کے ایک پہلو کے ساتھ والے سوار نے سفید جھنڈا اٹھا رکھا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ صلح اور سمجھوتے کا پیغام لائے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک ترجمان بھی تھا جو عرب اور عجم کی زبانیں جانتا تھا۔ گھوڑ سوار کچھ اور آگے آکررُک گئے ۔ترجمان ذرا آگے آگیا:- تفصیل سے پڑھئے

’’شہنشاہِ فارس یزدگرد کے ایلچی آئے ہیں۔‘‘ ترجمان نے عربی زبان میں بلند آواز سے کہا۔’’ یہ عربی سپہ سالار سے ملنا چاہتے ہیں ۔امن اور دوستی کا پیغام لائے ہیں۔‘‘

سعدؓ بن ابی وقاص کا بھتیجا ہاشم بن عتبہ قریب ہی کھڑا تھا۔ وہ ان کی طرف بڑھا۔

’’ہم شہنشاہ کے ایلچی کا استقبال دل و جان سے کرتے ہیں۔‘‘ ہاشم بن عتبہ نے کہا۔’’ میرے ساتھ آئیں۔‘‘

ہاشم بھی گھوڑے پرسوار تھا۔ وہ انہیں سعدؓ بن ابی وقاص کے خیمے میں لے گیا۔سعدؓ وہاں نہیں تھے۔و ہ اپنے لشکر کے ساتھ تھے اور محاصرے کا جائزہ لے رہے تھے۔ انہیں اطلاع دی گئی تھی کہ شاہِ فارس کا ایلچی آیا ہے ۔وہ فوراً اپنے خیمے میں پہنچے ۔ ایلچی اور ترجمان فرش پر بچھی ہوئی چٹائیوں پر بیٹھے تھے۔ ایلچی کا جسم خاصا فربہ تھا۔ سعدؓ بن ابی وقاص کو دیکھ کر ایلچی احتراماً اٹھنے لگا۔ لیکن موٹاپے کی وجہ سے اسے اٹھنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔

’’میری تعظیم میں اٹھنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ سعدؓ نے ایلچی کے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر بٹھاتے ہوئے کہا۔’’ تمہارے جرنیل میدانِ جنگ میں بھی کرسیاں تخت اور قالین لے آتے ہیں۔‘‘ سعدؓ نے ایلچی کو اٹھنے نہ دیا۔ اس سے ہاتھ ملایا اور اس سے ذرا دور ہٹ کر بیٹھ گئے اور کہا۔ ’’آپ کے رستم کا تخت ہمارے پاس ہے، جس پر بیٹھ کر وہ جنگ کے میدان میں اپنی فوج کو لڑایاکرتا تھا۔ اس کے قالین اور تکیے بھی ہمارے پاس ہیں اور اس کی شاہانہ کرسیاں بھی ہمارے پاس ہیں۔اس کے دربار کا سارا ہی سازوسامان ہمارے قبضے میں ہے لیکن ہم ان چٹائیوں پر بیٹھا کرتے ہیں……تمہیں زحمت تو ہو گی لیکن ہم اپنے طور طریقے نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘

’’آپ نے جس احترام سے میرا استقبال کیا ہے، اس سے مجھے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ میں زمین پر بیٹھا ہو ں یا نرم و ملائم مخمل کے گدوں پر ۔‘‘ ایلچی نے کہا۔ ’’سب سے پہلے شہنشاہِ فارس یزدگرد کاسلام قبول کریں۔ پھر شہنشاہ کی ایک پیشکش پر غور کریں۔ آپ یقینا اس پیش کش کو قبول کریں گے ۔یہ ہمارے شہنشاہ کی فیاضی ہے کہ وہ اپنی آدھی سلطنت آپ کو دے رہاہے۔‘‘

’’اپنے شہنشاہ کا پورا پیغام سناؤ۔ ‘‘سعد ؓبن ابی وقاص نے کہا۔

’’شہنشاہِ فارس کا فیصلہ یہ ہے ۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’ کہ ہماری سلطنت کا جو علاقہ آپ نے لے لیا ہے وہ آپ کا اور دجلہ سے اُس طرف کا علاقہ فارس کا۔‘‘

’’یعنی شہنشاہ دجلہ کو عرب اور عجم کے درمیان حدّ ِ فاضل بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔

’’بالکل یہی!‘‘ایلچی نے کہا۔’’ شہنشاہ نے فیصلہ کر دیا ہے۔ صرف آپ کی رضا مندی درکار ہے۔ بُہر شیر آپ کا ہوگا اور مدائن ہمارا۔ شہنشاہ نہیں چاہتے کہ مزید خون بہایا جائے۔‘‘

’’ہم تمہارے شہنشاہ کے چاہنے یا نہ چاہنے کے پابند نہیں۔‘‘ سعدؓ نے کہا۔’’ اب شہنشاہ کو ہمارے فیصلوں کی پابندی کرنی پڑے گی۔ اگر تمہارا شہنشاہ یہ پیش کش اس روز کرتا جس روز ہم بُہر شیر پہنچے تھے تو اس پر غور کیا جا سکتا تھا ۔تم نے بُہر شیر کو بچانے کے کیا کیا جتن نہیں کیے ۔دو تین دن پہلے تمہارے شہنشاہ نے کتنا سخت حملہ کروایا تھا ۔یہ اس کا آخری وار تھا جو بیکار گیا۔ اب شہنشاہ مدائن کو بچانے کیلئے آدھی سلطنت پیش کر رہا ہے ……نہیں محترم ایلچی!شہنشاہ سے کہنا کہ ہمیں یہ پیش کش قبول نہیں۔‘‘

فارس کے ایلچی نے بہت کوششیں کیں ،بہت باتیں کیں، زروجواہرات کی پیش کش بھی کی، لیکن سعد ؓبن ابی وقاص ٹس سے مس نہ ہوئے۔

’’پھر آپ اپنی شرائط بتائیں۔‘‘ ایلچی نے کہا۔’’ شہنشاہ یہیں پر جنگ بندی چاہتے ہیں۔‘‘

’’شرائط پیش کرنے کا وقت تو گزر گیا ہے۔‘‘ سعدؓ نے کہا۔’’ ہم نے شرائط پیش کی تھیں ۔تمہارے شہنشاہ نے ہمارے ایلچیوں کا مذاق اڑایا تھا۔ اس نے ہمارے ایک بہت ہی معزز اور قابل احترام ایلچی کے سر پر مٹی کا بھرا ٹووکرا رکھ دیا تھا۔ تمہارے رستم نے کہاتھا کہ خدا نے نہ چاہا تو بھی عرب کو تباہ و برباد کر دوں گا۔ جنگ کا فیصلہ تمہارے شہنشاہ نے کیا تھا۔ اب شہنشاہ کو جنگ کا نتیجہ قبول کر نا چاہیے۔‘‘

’’میں حیران ہوں کہ آپ جیسا دانشمند سپہ سالار اتنی بڑی پیش کش ٹھکرا رہا ہے۔‘‘ ایلچی نے کہا۔

’’محترم ایلچی!‘‘سعدؓ نے کہا۔’’ میں اس سے بھی بڑی پیشکش قبول نہیں کر سکتا ۔ہمارے خلیفہ کا واضح حکم ہے کہ مدائن کو فتح کرنا ہے۔ میں اپنے خلیفہ کی حکم عدولی نہیں کر سکتا۔‘‘

سعدؓ بن ابی وقاص نے ایلچی کو رخصت کر دیا۔

٭

’’ہم تمہارے شہنشاہ کے چاہنے یا نہ چاہنے کے پابند نہیں۔‘‘ سعدؓ نے کہا۔’’ اب شہنشاہ کو ہمارے فیصلوں کی پابندی کرنی پڑے گی۔ اگر تمہارا شہنشاہ یہ پیش کش اس روز کرتا جس روز ہم بُہر شیر پہنچے تھے تو اس پر غور کیا جا سکتا تھا ۔تم نے بُہر شیر کو بچانے کے کیا کیا جتن نہیں کیے ۔دو تین دن پہلے تمہارے شہنشاہ نے کتنا سخت حملہ کروایا تھا ۔یہ اس کا آخری وار تھا جو بیکار گیا۔ اب شہنشاہ مدائن کو بچانے کیلئے آدھی سلطنت پیش کر رہا ہے ……نہیں محترم ایلچی!شہنشاہ سے کہنا کہ ہمیں یہ پیش کش قبول نہیں۔‘‘

فارس کے ایلچی نے بہت کوششیں کیں ،بہت باتیں کیں، زروجواہرات کی پیش کش بھی کی، لیکن سعد ؓبن ابی وقاص ٹس سے مس نہ ہوئے۔

’’پھر آپ اپنی شرائط بتائیں۔‘‘ ایلچی نے کہا۔’’ شہنشاہ یہیں پر جنگ بندی چاہتے ہیں۔‘‘

’’شرائط پیش کرنے کا وقت تو گزر گیا ہے۔‘‘ سعدؓ نے کہا۔’’ ہم نے شرائط پیش کی تھیں ۔تمہارے شہنشاہ نے ہمارے ایلچیوں کا مذاق اڑایا تھا۔ اس نے ہمارے ایک بہت ہی معزز اور قابل احترام ایلچی کے سر پر مٹی کا بھرا ٹووکرا رکھ دیا تھا۔ تمہارے رستم نے کہاتھا کہ خدا نے نہ چاہا تو بھی عرب کو تباہ و برباد کر دوں گا۔ جنگ کا فیصلہ تمہارے شہنشاہ نے کیا تھا۔ اب شہنشاہ کو جنگ کا نتیجہ قبول کر نا چاہیے۔‘‘

’’میں حیران ہوں کہ آپ جیسا دانشمند سپہ سالار اتنی بڑی پیش کش ٹھکرا رہا ہے۔‘‘ ایلچی نے کہا۔

’’محترم ایلچی!‘‘سعدؓ نے کہا۔’’ میں اس سے بھی بڑی پیشکش قبول نہیں کر سکتا ۔ہمارے خلیفہ کا واضح حکم ہے کہ مدائن کو فتح کرنا ہے۔ میں اپنے خلیفہ کی حکم عدولی نہیں کر سکتا۔‘‘

سعدؓ بن ابی وقاص نے ایلچی کو رخصت کر دیا۔

٭

٭

تمام مؤرخوں نے یزدگرد کی اس پیش کش کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ایلچی رخصت ہوا تو سعد ؓبن ابی وقاص نے سالاروں کو بلا کر کہا کہ شہر پرسنگباری پہلے سے تیز کر دی جائے۔

سارے لشکر میں یہ بات پھیل گئی کہ شہنشاہِ فارس کی جنگ بندی کی پیشکش کی ہے اور اس کے عوض اس نے دجلہ تک کے علاقے سعد ؓبن ابی وقاص کوپیش کیے ہیں۔ جس وقت سعدؓ یہ حکم دے رہے تھے کہ سنگباری تیز کر دی جائے، اس وقت لشکر سے نعرے گرجنے لگے ۔

’’ہماری منزل مدائن ہے۔‘‘

’’ہم مدائن سے بھی آگے جائیں گے۔‘‘

’’ہم اپنے شہیدوں کے خون کی پوری قیمت لیں گے۔‘‘

سعدؓ بن ابی وقاص نے جب یہ نعرے سنے جو بلند سے بلند تر ہوتے جا رہے تھے، ان کے چہر ے پر رونق آگئی۔ انہو ں نے گھوڑا دوڑا دیا اور محاصرے میں گھومنے لگے۔

’’تم نے میری تائید کر دی ہے۔‘‘ سعدؓ نے کئی جگہوں پر گھوڑا روک کر مجاہدین سے کہا۔’’ میں نے شاہِ فارس کے ایلچی کو یہی جواب دے کر واپس بھیجا ہے کہ ہم اب اس کی کوئی شرط اور کوئی معاوضہ قبول نہیں کریں گے……میرے رفیقو!میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں شہیدوں سے بے وفائی نہیں کروں گا۔ امیر المومنین کا بھی یہی حکم ہے کہ مدائن کو فتح کر لیا جائے۔‘‘

مجاہدین کے نعروں نے سعدؓ کو نیا حوصلہ دیا اور سعدؓ بن ابی وقاص کا عزم سن کر مجاہدین کے حوصلوں میں نئی روح پھونکی گئی ۔یہ قوتِ ارادی تھی بلکہ روحانی قوت کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ جس کے بھروسے پر مجاہدین یہ ارادے باندھ رہے تھے کہ وہ مدائن تک پہنچیں گے۔ وہ تو ابھی بُہر شیر کو بھی فتح نہیں کر سکے تھے۔

بعض مؤرخ لکھتے ہیں کہ محاصرہ نو مہینے جاری رہا،اور بعض نے لکھا ہے کہ محاصرہ اٹھارہ مہینے جاری رہا تھا۔ بہرحال یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ محاصرے کا عرصہ ایک سال کے لگ بھگ تھا ۔اس ایک سال کے دوران امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے کچھ کمک بھی بھیجی تھی ۔زخمی مجاہدین ٹھیک ہو کر لڑنے کے قابل ہو گئے تھے۔

سعدؓ بن ابی وقاص نے جو جاسوس اور مخبر بنائے تھے وہ اپنا پورا کام کر رہے تھے۔ کچھ دنوں بعد ایک جاسوس نے آکر بتایا کہ بُہر شیر اور مدائن میں کچھ خفیہ سی نقل و حرکت ہوتی رہتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ بُہر شیر سے فوج ہٹائی جا رہی ہو۔

دو تین دن اور گزرے تو سعد ؓکو سالاروں نے بتایا کہ دیوار پر جو تیر انداز ہر وقت موجو د رہتے ہیں ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔

’’میں بھی یہی دیکھ رہا ہوں۔‘‘ سعدؓ نے کہا۔’’ میں اس انتظار میں ہو ں کہ یہ تعداد مزیدکم ہو جائے تو ہم دروازے توڑنے یا کمندیں پھینک کر دیوار پر چڑھنے کی کوشش کریں گے۔‘‘

٭

کچھ دن اور گزرے تو رات کے وقت مجاہدین میں کچھ شوروغل سا اٹھا۔ سالار بھی جاگ اٹھے اور سعد ؓبن ابی وقاص کی بھی آنکھ کھل گئی اور وہ خیمے سے باہر آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ دجلہ کی طرف آسمان سرخ ہوا جا رہا تھا۔ اس طرف شہر کی چوڑائی اتنی زیادہ تھی کہ جا کر نہیں دیکھا جا سکتا تھا کہ اُدھر کیا ہو رہا ہے۔ سرخ روشنی سے یہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ یہ آگ لگی ہوئی ہے لیکن یہ معلوم کرنا ممکن نہیں تھا کہ یہ آگ کسی ایک مکان کو یا بہت سے مکانوں کو لگی ہے۔

سعدؓ بن ابی وقاص نے یہ خیال ظاہر کیا کہ آتش پرست شہر کو آگ لگا رہے ہیں اور آگ اسی صورت میں لگائی جاتی ہے جب شہر خالی کرنا ہوتا ہے۔

سعدؓ بن ابی وقاص کے کہنے پر دو گھوڑ سوا ر بھیجے گئے کہ وہ دریا کے کنارے اتنی دور تک چلے جائیں جہاں سے انہیں شہر کا دریا کے کنارے والا حصہ نظر آجائے اور وہ دیکھیں کہ آگ کہاں لگی ہوئی ہے۔

’’انہوں نے پل جلا ڈالا ہے۔‘‘ گھوڑ سواروں نے آکر اپنے سپہ سالار کو بتایا۔’’ پورے کا پورا جل رہا ہے۔‘‘

’’انہوں نے ہمارے لیے مدائن کا راستہ بند کر دیا ہے۔‘‘ سعد ؓبن ابی وقاص نے کہا ۔’’صبح دیکھیں گے کہ بُہر شیر میں کیا رہ گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں شہر خالی مل جائے۔‘‘

صبح طلوع ہوئی تو سب سے پہلے جو تبدیلی بُہر شیر میں نظر آئی وہ یہ تھی کہ دیوار پر ایک بھی آدمی نظر نہیں آرہا تھا۔ سعدؓ کے حکم سے ایک جگہ دیوار پر کمند پھینکی گئی اور تین چار مجاہدین اوپر چلے گئے۔ ان کی حفاظت کیلئے نیچے بہت سے تیر انداز کمانوں میں تیر ڈالے ہوئے کھڑے کر دیئے گئے تھے تاکہ اوپر کوئی فارسی کمند اتارنے یا کمندچڑھنے والوں پر تیر یا برچھی چلانے لگے تو ان پر تیروں کی بوچھاڑیں پھینکی جائیں۔

مجاہدین اوپر چلے گئے اور دیوار سے شہر کو دیکھا۔

’’شہر خالی معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ایک مجاہد نے بلند آوازسے کہا۔

’’یہ دھوکا بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ نیچے اُتر کر دروازہ کھول دو۔‘‘

تھوڑی ہی دیر بعد دروازہ کھل گیا ۔سعد ؓبن ابی وقاص نے قعقاع کو حکم دیا کہ وہ اپنے قبیلے کو ساتھ لے کر سب سے پہلے شہر میں داخل ہو ۔ قعقاع غیر معمولی طور پر دلیر سپہ سالار تھے ۔انہوں نے اپنے قبیلے کو للکارا اور یہ لوگ شہر میں داخل ہو گئے اور سیلاب کی طرح سارے شہر میں پھیل گئے۔ انہوں نے شہر کے باقی دروازے بھی کھول دیئے اور تمام لشکر شہر میں داخل ہو گیا اور شہر میں پھیل گیا ۔مکانوں کے اندر جا کر دیکھا تو مکان خالی تھے۔ ہر گھر میں وہی سامان پڑا تھا جو لوگ اٹھا کر نہیں لے جا سکتے تھے۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ قیمتی اشیاء اور مال و دولت اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔

سارے شہر میں صرف ایک بوڑھا آدمی ملا جو خود ہی باہر آگیا تھا۔ اسے سعدؓ بن ابی وقاص کے سامنے لے جایا گیا۔ تقریباً تما م تاریخوں میں اس معمر آدمی کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کا نام کسی نے نہیں لکھا۔

’’تم اس شہرمیں کیوں رہ گئے ہو؟‘‘سعد ؓنے اس سے پوچھا۔ ’’کیا تم بتا سکتے ہو کہ لوگ کہاں اور کیوں چلے گئے ہیں؟‘‘

’’یہی بتانے کیلئے باہر نکلا ہوں۔‘‘ بوڑھے نے عربی زبان میں کہا۔’’ میں اگریہاں رہ بھی گیا تو تمہارا کیا بگاڑسکتا ہوں؟ سب نے کہا کہ تم بھی چلو ، یہاں رہ گئے تو مسلمان تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ میں نے کہا کہ میں اب زندہ رہ کر کروں گا بھی کیا……اس مکان کو چھوڑتے ہوئے بہت دکھ ہو رہا تھا۔ جو مکان میرے باپ نے بنایا تھا اور جس میں اس نے پوری عمر گزاری تھی۔ میرے دو جوان بیٹے فارس کی فوج میں گئے تھے ۔دونوں مارے گئے ہیں۔ میری دو بیٹیاں نوجوان ہیں میں نے انہیں مدائن بھیج دیاہے ۔یہ ایک رواج ہے کہ فاتح مفتوح شہر کی عورتوں کو اپنا مال سمجھ لیتے ہیں۔ میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں ،قتل کرنا چاہو تو کر دو۔‘‘

’’نہیں میرے بزرگ!‘‘سعد ؓبن ابی وقاص نے کہا۔’’ ہم نہتّوں پر، بوڑھوں پر، بچوں پر، اور عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے ۔ ہم لوٹ مار بھی نہیں کیاکرتے۔ کیاتم دیکھ نہیں رہے کہ میرے آدمی گھروں میں داخل ہو کر خالی ہاتھ واپس آرہے ہیں۔ جب تک میں نہیں کہوں گا وہ کسی گھر میں کسی بھی چیز کو ہاتھ نہیں لگائیں گے……ہمیں بتاؤ کہ یہ شہر کس طرح خالی کیا گیا؟‘‘

’’دو روز پہلے مدائن سے حکم آیا تھا کہ رات کے وقت شہر خالی کر دیا جائے۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔’’ لوگوں نے دو تین راتیں لگا کر شہرخالی کردیا ۔میں دیکھ رہا تھاکہ لوگ اپنا قیمتی سامان لے جا رہے تھے۔ لوگ چلے گئے تو فوج بھی چلی گئی ۔گذشتہ رات میں نے چھت پر جاکر دیکھا ،پل جل رہا تھا۔ یہ میرے بچپن کی یادگار تھا۔ میں آہستہ آہستہ چلتا دریا تک گیا ۔پل کو اُس سرے تک آگ لگی ہوئی تھی اور پھر میں نے یہ بھی دیکھا کہ دریا کے اس کنارے جو بیشمار چھوٹی بڑی کشتیاں بندھی رہتی تھیں، وہ ہمارے فوجی مدائن کی طرف لے جا رہے تھے۔‘‘

’’کیا اب وہاں ایک بھی کشتی نہیں؟‘‘سعدؓ نے پوچھا۔

’’ایک بھی نہیں۔ ‘‘بوڑھے نے جواب دیا۔’’ دریا کے اس طرف کنارے پر تمہیں دور دور تک کوئی کشتی نہیں ملے گی، تم سپہ سالار ہو، تم سمجھ سکتے ہو کہ کشتیاں کیوں لے گئے ہیں اور پل کو کیوں جلایا گیا ہے ۔ دریا کی حالت دیکھ لو۔ چونکہ یہاں دریا تنگ ہے اس لئے پانی بہت گہرا ہے اور دریا کی کیفیت سیلابی ہے ۔کوئی نامور تیراک بھی دریا میں اترنے کی جرأت نہیں کر سکتا……لیکن میں آ پ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ فتح تمہاری ہو گی۔‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘ سعدؓ نے پوچھا۔

’’وہ اس طرح کہ تم لوٹ مار کرنے نہیں آئے۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔’’ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہمارے شہنشاہ نے تمہیں آدھی سلطنت کی پیش کش کی ہے جو تم نے قبول نہیں کی۔‘‘

’’لیکن میں اپنے لشکر کو پار کیسے لے جاؤں گا؟‘‘سعدؓ نے کہا۔’’ نہ کوئی کشتی ہے نہ پُل ہے……کیاتم دریا پار کرنے کا کوئی اور ذریعہ بتا سکتے ہو؟‘‘

سعدؓبن ابی وقاص اس کی رہنمائی چاہتے تھے۔انہوں نے بوڑھے سے یہ بھی پوچھا کہ کوئی ایسی جگہ ہو جہاں سے دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہو اور گہرائی کم ہو ۔بوڑھے کو ایسی جگہ کا علم نہیں تھا۔ اس نے اتنا ہی بتایا کہ بہت ہی دور دریا کے نیچے کی طرف دریا دو تین حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے لیکن وہ جگہ بہت دور تھی۔ بوڑھے نے یہ بھی بتایا کہ وہ سارا علاقہ دلدلی ہے۔‘‘

سعد ؓبن ابی وقاص نے اس بوڑھے کو اس حکم کے ساتھ پیچھے بھجوا دیا کہ اسے عزت و احترام کے ساتھ رکھا جائے اور اس کے ساتھ معزز مہمانوں جیسا سلوک کیا جائے۔

٭

سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنے سالاروں کو بلوایا اور ا ن سب کو دیوار کے اوپر لے گئے جس طرف دریا تھا اور سامنے والا کنارے پر مدائن شہر تھا۔وہاں سے انہوں نے مدائن کی شان وشوکت دیکھی ۔یہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ اب یہ سب سالار مدائن کو قریب سے دیکھ رہے تھے ۔ان سالاروں میں ایک سالار ضرار بن خطاب بھی تھے ۔وہ بڑے انہماک سے مدائن کو دیکھ رہے تھے۔

’’اﷲ اکبر!‘‘ضرار بن خطاب نے نعرہ لگا کر کہا۔’’ یہ کسریٰ کا سفید قلعہ ہے جس کا اﷲ اور رسولﷺ نے تم سے وعدہ کیا تھا۔‘‘

’’اور یہی وہ جگہ ہے۔‘‘ سعدؓ نے کہا۔’’ جہاں کسریٰ پرویز نے دعوتِ حق کا پیغام پھاڑ کر پھینک دیا تھا……میرے رفیقو!سوچنا یہ ہے کہ ہم یہ دریا عبور کس طرح کریں گے؟دریا کی کیفیت دیکھو۔ میں ایسا سیلابی دریا پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ موجوں کا زیرو بم دیکھو ۔کیا کوئی اس میں اترنے کی جرأت کر سکتا ہے؟‘‘

’’جرأت کرنی پڑے گی۔‘‘ عاصم بن عمرو نے کہا۔’’ فارسیوں نے دجلہ کو اپنی آڑ بنایا ہے۔ انہوں نے ٹھیک سوچا ہے کہ اس بپھرے ہوئے دریا کو کوئی فوج اس صورت میں عبور نہیں کر سکتی کہ کشتیاں بھی نہ ہوں اور پُل بھی نہ ہو۔ میں کہتا ہوں کہ شہنشاہِ فارس کے اس خیال کو چکنا چور کر دیں کہ یہ دریا اس کی سلطنت کو بچا لے گا۔‘‘

’’کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ اس دریا کو ہم تیر کر پار کریں گے؟‘‘سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ ہم میں کوئی موسیٰؑ نہیں جس کیلئے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے نیل نے اپنی روانی روک کر راستہ دے دیا تھا۔‘‘

’’ہاں سپہ سالار!‘‘عاصم بن عمرو نے کہا۔’’ارادے نیک ہوں اور د ل میں اﷲ کا نام ہو تو وہ معجزہ ہم جیسے انسان بھی کرکے دکھا سکتے ہیں۔‘‘

مؤرخ لکھتے ہیں کہ سعد ؓبن ابی وقاص پر خاموشی طاری ہو گئی، اور وہ گہری سوچ میں کھو گئے۔ چند لمحوں بعد وہ چل پڑے۔ دیوار سے اترے اور اس کمرے میں جا بیٹھے جہاں فارس کے جرنیل بیٹھا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سرداروں کو بلایا جائے۔ قاصد چلا گیاتو سعد ؓنے اسے آواز دے کر روک لیا۔

’’تمام لشکر کو باہر میدان میں اکٹھا کیا جائے۔‘‘ سعدؓ نے کہا۔

زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ مجاہدین کالشکر آگیا۔ سعدؓ باہر نکلے۔ قبیلوں کے سردار اپنے اپنے قبیلے کے سامنے کھڑے تھے۔ سعدؓ گھوڑے پر سوار ہوئے اور لشکر ے سامنے جا رُکے۔

’’……شہنشاہِ فارس نے اس دریا کو اپنی ڈھال بنالیا ہے۔‘‘ سعدؓ مجاہدین سے مخاطب ہوئے ۔’’میں نے دیکھا ہے کہ مدائن کی دیوار پر کھڑے کچھ آدمی ہماری طرف اشارے کر کر کے ہنس رہے تھے ۔وہ ہمارا مذاق اڑا رہے تھے کہ ہم اب آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ ہم پر فرض ہو گیا ہے کہ دشمن کو اس مذاق کا جواب دیں ۔لیکن کشتیاں دشمن کے قبضے میں ہیں ۔وہ جب بھی چاہے ہم پر حملہ کر سکتا ہے،ہم پار نہیں جا سکتے۔ لیکن ہم پار جائیں گے ۔تم نے میدانِ جنگ میں معجزے کر دکھائے ہیں۔ اب ایک معجزہ یہ رہ گیا ہے کہ یہ دریا پار کرنا ہے۔ ہم ایسے مقام پر آپہنچے ہیں جہاں ہم گھیرے میں آسکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جن امرأ اور جاگیرداروں نے ہماری اطاعت قبول کر لی ہے، وہ لوگوں کو جمع کر کے اطاعت سے دستبردار ہو جائیں، اور ہم پر عقب سے حملہ کردیں……میں اب ایسی بات کہنے لگا ہوں کہ جسے شاید تم سن کر بھی کہو کہ میں نے ایسی بات نہیں کہی۔‘‘

’’اے امیرِ لشکر!‘‘مجاہدین میں سے کسی کی بڑی ہی بلند آواز ابھری۔’’ اس سے پہلے کہ تو وہ بات منہ سے نکالے، ایک بات مجھے کہہ لینے دے……اﷲ ہماری رہنمائی کا اور ہماری قسمت کا فیصلہ کر چکا ہے۔ ہم یہ دریا تَیر کر پار کریں گے۔‘‘

تاریخ میں اس مجاہد کانام نہیں ملتا۔ اس کے یہ الفاظ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں۔تبصرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ اس وقت سعدؓ بن ابی وقاص کے چہرے پر ہر سالار ، سرداراور ہر ایک مجاہد کے چہرے پر کچھ ایساتاثر تھا، جیسے وہ اس زمین سے اٹھ کر عالمِ بالا میں پہنچ گئے ہوں یا عالمِ خواب و خیال میں جا پہنچے ہوں۔جہاں وہ دنیاوی حقائق سے لا تعلق ہو گئے ہوں۔مؤرخوں کے مطابق لشکر سے یہی ایک آواز بار بار اٹھ رہی تھی، ہم تَیر کر دریا پار کریں گے……ہم تَیر کر دریا پار کریں گے۔‘‘

سعدؓ بن ابی وقاص حقیقت پسند سالار تھے ،وہ خاموشی سے لشکر کے نعرے سنتے رہے۔ پھر انہوں نے ہاتھ اٹھا کر لشکر کو خاموش کیا۔

’’ہمیں صرف دریا ہی عبور نہیں کرنا۔‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ دریا کے سامنے والے کنارے پر دریا کی فوج موجود ہے اور شہر کی جو دیوار دریا کے ساتھ ہے اس پر تیر انداز اور برچھیاں پھینکنے والے بھی موجود ہیں۔ اگر تم دریا میں اترے اور سامنے والے کنارے پر پہنچ بھی گئے تو تم پر تیروں کی بوچھاڑیں آئیں گی برچھیاں بھی آئیں گی۔چاہتا میں بھی یہی ہوں کہ دریا عبور کیا جائے۔‘‘

’’یہ تیرا حکم نہیں سپہ سالار! ‘‘عاصم بن عمرو کے قبیلے کے ایک آدمی نے گرج کر کہا۔’’ یہ اﷲ کا حکم ہے کہ دریاپار کرو۔ ہم اﷲ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔‘‘

’’ہم اﷲ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔ ‘‘لشکر سے ایک شور اٹھا ۔’’ہم دریا پار کریں گے۔‘‘

سعدؓ بن ابی وقاص کا چہرہ جذبات کی شدت سے سرخ ہو گیا۔ انہوں نے ایک سر ے سے دوسرے سرے تک اپنے لشکر کو دیکھا۔

’’اس ایثار اور شجاعت کا اجر تمہیں اﷲ دے گا۔‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔’’ اب میں تم سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کون ہے وہ جوکچھ آدمی اپنے ساتھ لے کر دریا میں اترجائے اوراگر وہ دریا پارکرلے تو اس دشمن کوروکے رکھے جو سامنے والے کنارے پر موجود رہے۔‘‘

تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عاصم بن عمرو نے ہاتھ اوپر کیا اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر لشکر کے سامنے آگیا۔

’’میں گھوڑے پر سوار سب سے پہلے دریا میں اتروں گا۔‘‘ عاصم نے اعلان کیا۔

اس کے اعلان کے ساتھ ہی چھ سو گھوڑ سوار لشکر میں سے نکل کر اس کے سامنے جا رکے۔ سب نے بیک زبان کہا کہ عاصم بن عمرو کے ساتھ ہم دریا میں اتریں گے۔

دریاکی طرف جو دروازے تھے، وہ کھول دیئے گئے۔ سعدؓ کے اشارے پر عاصم بن عمروان چھ سو سواروں کو شہر سے باہر دریا کے کنارے لے گیا ۔تاریخوں میں ایک واقعہ یہ بھی ملتا ہے کہ دریا کے کنارے کھڑے ہو کر عاصم نے ان چھ سو سواروں سے خطاب کیا۔

’’میرے رفیقو!‘‘اس نے کہا۔’’ دریا کی حالت دیکھ لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ دریا کے وسط میں جا کر پچھتانے لگو کہ یہ ہم نے کیا کیا کہ اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈال دیا۔ میں تمہیں یقینی موت کے خطرے میں جانے کا حکم نہیں دیتا۔ تم میں سے جو میرے ساتھ دریا میں کودنا چاہتے ہیں وہ آگے آجائیں اور جو آگے نہیں آئے گا اس پر کوئی گلہ نہیں۔‘‘

ان چھ سو سواروں میں سے صرف ساٹھ مجاہدین آگے آئے اور جو آگے نہیں آئے تھے عاصم ان کے سامنے چلا گیا۔

’’کیاتم اس تھوڑے سے پانی سے ڈر گئے ہو؟‘‘عاصم نے کہا اور قرآن کی ایک آیت پڑھی۔ ’’اور کوئی شخص نہیں مرسکتا جب تک اﷲ کا حکم نہ ہو اس نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔‘‘

عاصم بن عمرو نے ان سواروں کے جواب کا انتظار نہ کیا۔ گھوڑا موڑا اور اﷲ اکبر کا نعرہ لگا کہ گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ اس کے پیچھے ساٹھ سواروں نے گھوڑے دریا میں ڈال دیئے۔ جب وہ چند ہی قدم آگے گئے تھے کہ ان سواروں نے بھی جو پیچھے رہ گئے تھے گھوڑے دریا میں اتار دیئے۔ گھوڑو ں نے ذرا سی ہچکچاہٹ یا ڈر محسوس نہیں کیا۔ وہ پوری طرح اپنے سوارو ں کے قابو میں رہے۔ ان کے پاؤں دریا کی تہہ سے اٹھ گئے تھے کیونکہ وہاں پانی زیادہ گہرا تھا ۔وہ کنارے سے خاصا آگے نکل گئے۔

تاریخ کے اوراق پھڑ پھڑانے لگے۔زمین و آسمان دم بخود ہو گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھاجیسے سورج رُک گیا ہو اور ان مجاہدین کا یہ اقدام جو بظاہر خود کشی کی کوشش معلوم ہوتا تھا، دیکھنے کیلئے آگے جانے کے بجائے کچھ پیچھے آگیا ہو۔

سعدؓ بن ابی وقاص اور ان کے ساتھ سالار اور دوسرے مجاہدین بُہر شیر کی دیوار پر کھڑے دیکھ رہے تھے۔ سامنے مدائن کی دیوار پر اور دریا کے کنارے فارسی کھڑے دیکھ رہے تھے۔ سب کی سانسیں رک گئی تھیں۔

’’وہ دیکھو۔‘‘ سامنے والے کنارے سے کسی فارسی کی بلند آواز آئی۔’’ وہ دیکھو ‘عربی پاگل ہو گئے ہیں۔‘‘

وہ پاگل پن ہی تو تھا……اجتماعی پاگل پن……چھ سو گھوڑ سوار تیزو تند اور بپھرے ہوئے دریا میں جا رہے تھے۔ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ شمال میں آذربائیجان تھا جو برفانی ملک تھا ۔اس ملک کی برف پگھل پگھل کر دجلہ کو شوریدہ سر اور کف آگیں رکھتی تھی ۔دریا ہر وقت طغیانی کی کیفیت میں رہتا تھا ۔پانی یخ بھی ہوتا تھا۔

اُدھر سامنے والے کنارے پر بعض فارسی قہقہے لگا رہے تھے کہ مسلمان مرنے کیلئے دریا میں اترے ہیں اور اب جنگ ختم ہو جائے گی اور بعض فارسی حیران اور ششدر کھڑے آنکھیں اور منہ کھولے دیکھ رہے تھے۔ کہ یہ اُن ہی جیسے انسان ہیں اور یہ کس طرح اپنے سپہ سالاروں کے حکم سے ڈوبنے کیلئے دریا میں اُتر آئے ہیں۔

علامہ شبلی نعمانی تاریخِ طبری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ گھوڑے دریا میں بھی ترتیب سے تیرتے جا رہے تھے۔ سیلابی موجیں گھوڑوں کو اوپر اٹھاتیں اور نیچے اتارتی تھیں ۔سوار بے خوف و خطر گھوڑوں پر بیٹھے انہیں قابو میں کیے ہوئے تھے ۔یوں لگتا تھا جیسے دریا انہیں ہلارے دے رہا ہو، لیکن دیکھنے والوں کیلئے یہ اجتماعی خودکشی کا اقدام تھا۔

فارس کی فوج کا جو دستہ سامنے والے کنارے پر تیار کھڑا تھا ۔اس کے ساتھ ایک جرنیل تھا ۔مدائن کا دفاع اسی جرنیل کی ذمہ داری تھی ۔اس کا نام ’’خرزاد‘‘ تھا، تمام تاریخوں میں اس کا نام یہی لکھا ہے۔ یہ نہیں بتایا جا سکتا تھا کہ اس کا یہ نام کیوں رکھا گیا تھا۔ خرزاد کے معنی ہیں’’ گدھے کا بچہ ‘‘۔ وہ گدھے کا بچہ تھا یا نہیں، اس کا دماغ گدھوں جیسا معلوم ہوتا تھا۔ کیونکہ اس نے مسلمان گھوڑ سواروں کو جو دریا کے وسط میں پہنچ چکے تھے اور ابھی ڈوبا ایک بھی نہیں تھا۔روکنے کا بڑا ہی احمقانہ حکم دیا۔

ان مجاہدین کو روکنے اور ڈبونے کا آسان طریقہ یہ تھا کہ کنارے سے ان پر تیروں کا مینہ بر سا دیا جاتا۔ لیکن ا س نے اپنا ہی طریقہ اختیار کیا۔

’’آفتاب کے بیٹو! ‘‘خرزاد نے اپنے دستے کو حکم دیا۔’’ عربی یہ نہ کہیں کہ عجمی بزدل ہیں ۔ تم بھی گھوڑے دریا میں ڈال دو اور ان عربوں کو دریا میں کاٹ کر ڈبو دو۔‘‘

سینکڑوں فارسی گھوڑ سواروں نے گھوڑے دریا میں ڈال دیئے اورتلواریں اور برچھیاں تان لیں۔ اب سیلابی دریا میں معرکہ لڑا جانا تھا۔ لیکن مسلمانوں کے سالار عاصم بن عمرو نے اپنا دماغ حاضر رکھا۔ عاصم صرف بہادر اور دلیر ہی نہیں تھا اس میں جنگی فہم و فراست کی بھی کمی نہیں تھی۔

’’تیر اندازو!‘‘عاصم نے اپنے تیر انداز سواروں کو حکم دیا۔’’ انہیں تیروں سے روکو۔ تیر ان کے گھوڑوں کی آنکھوں میں لگیں۔‘‘

یہ افسانہ یا من گھڑت قصہ نہیں۔ یہ واقعہ اُس تاریخ کے دامن میں بھی محفوظ ہے جو یورپی مؤرخوں نے بھی لکھی ہے۔ حالانکہ اس تاریخ میں تعصب بھی پایا جاتا ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ دجلہ کی غصیلی موجیں مجاہدین کے گھوڑوں کو اٹھا ٹھا کر پٹخ رہی تھیں اور سوار اپنے آپ کو بڑی ہی مشکل سے سنبھال رہے تھے ۔اس حالت میں کہ مجاہدین اپنے آپ کو اور گھوڑوں کو قابو میں رکھنے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے، کمانوں میں تیر ڈال کر فارسی سواروں کے گھوڑوں کی آنکھوں کا نشانہ بھی لے رہے تھے۔

کئی ایک تیر فارسیوں کے گھوڑوں کی آنکھوں میں اتر گئے اور باقی خطا گئے یا فارسی سواروں کے جسموں میں اتر گئے ۔ فاصلہ زیادہ نہیں تھا ،اس لئے تیراندازوں کے تیر گھوڑوں کو لگتے یا سواروں کے جسموں میں دور تک اترتے جاتے تھے۔ فارسیوں کے گھوڑے تیرنا بھول گئے ۔انہوں نے اپنے آپ کو دریا کے حوالے کر دیا۔ سوار تیر کھا کھا کر دریا برد ہونے لگے ۔خرزاد کا دفاعی اقدام بُری طرح تباہ ہوا۔

مجاہدین کے گھوڑے دجلہ کو چیرتے ، موجوں کے قہر و عتاب کو روندتے آگے ہی آگے بڑھتے گئے ۔کنارا ابھی دور تھا۔

کہا جاتا ہے کہ فارسی جرنیل خرزاد کا یہ اقدام احمقانہ تھا۔ اس نے کنارے سے ہی مجاہدین پر تیر برسانے کے بجائے اپنے سواروں کو دریا میں اتار دیا۔ معلوم نہیں خرزاد احمق تھایا نہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ جب چاہتا ہے کہ یہ کام ہو جائے تو ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ وہ کام ہو جاتا ہے۔ اﷲ نے دیکھا کہ اس کے نام اور اس کے رسولﷺکی آن پر ان مجاہدین نے جانوں کی بازی لگا دی ہے تو اﷲ نے ان کے دشمن جرنیل کو عقل کا اندھا کر دیا۔

٭

جس وقت خرزاد نے اپنے سواروں کو دریا میں اتارا، اس وقت مجاہدین کے ایک اور قبیلے کے سردار قعقاع بن عمرو نے سعد ؓبن ابی وقاص کے حکم کے بغیر ہی اپنے قبیلے کے سواروں کو للکارا۔

’’خدا کی قسم!‘‘اس نے کہا۔ ’’مدائن پر چڑھائی اکیلے عاصم بن عمرو کی ذمہ داری نہیں، وہ دیکھو ، فارسی سوار گھوڑے دریا میں اتار رہے ہیں۔‘‘

قعقاع نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ اس کے پیچھے چھ سو گھوڑ سوار دریا میں اتر گئے ۔اﷲ اکبر کے نعروں میں دریا کا شور دب گیا۔

ان کے پیچھے لشکرکے تمام گھوڑ سواروں نے گھوڑے دریامیں اتاردیئے۔ سعدؓ بن ابی وقاص نے پیاد ہ مجاہدین کو اپنے ساتھ رکھا۔ بعض پیادے بھی جوش میں آکر دریا میں کودنے کو تیار ہو گئے تھے لیکن سعد ؓنے انہیں روک دیا۔

دریا میں ہزاروں گھوڑے تیرتے جا رہے تھے۔ محمد حسنین ہیکل نے مختلف مؤرخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ دریا کا پانی گھوڑوں اور انسانوں کے سروں میں چھپ گیا تھا ۔فارس کی فوج جو دوسرے کنارے پر مقابلے کیلئے تیار کھڑی تھی، صرف یہی دیکھ کر بد دل ہو گئی تھی کہ ا س کا جو سوار دستہ دریا میں اترا تھا ،وہ مسلمانوں کے تیروں سے ڈوب مرا ہے۔ اب دیکھا کہ مسلمانوں کا سارا لشکر دریا کو چیرتا آرہا ہے تو فوج میں شور اٹھا:

’’دیواں آمدند، دیواں آمدند)دیو آگئے دیو آگئے(‘‘

یہ آوازیں بھی سنائی دیں ۔’’ہم جنات سے نہیں لڑ سکتے۔ بھاگو لوگو ‘بھاگو ‘جنات کا مقابلہ کیسے کرو گے۔‘‘

عاصم بن عمرو کنارے پر جا پہنچے۔ وہاں انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا۔ اپنے جرنیل خرزاد سمیت فارس کی فوج بھاگ گئی تھی۔ کچھ لوگ وہاں کھڑے تھے ۔عاصم نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں نہیں بھاگے ؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ان کشتیوں کے ملّاح اور ماہی گیر ہیں۔ عاصم نے انہیں حکم دیا کہ وہ کشتیاں بُہرشیر والے کنارے پر لے جائیں اور مجاہدین کے لشکر کو لے آئیں۔

پیادہ مجاہدین نے سعد ؓبن ابی وقاص کے ساتھ کشتیوں میں دریاپار کیا۔ منجیقیں اور دیگر سامان بھی کشتیوں میں ہی لے جایا گیا۔

اب مدائن کو محاصرے میں لینا تھا۔ لیکن شہر کے لوگوں اور سعدؓ بن ابی وقاص کے جاسوسوں نے بتایا کہ مدائن خالی پڑا ہے۔ شہنشاہِ فارس یزدگرد اپنے خاندان کو ساتھ لے کر چلا گیا ہے اور فوج کاایک سپاہی بھی شہر میں موجود نہیں۔

سعد ؓبن ابی وقاص شہر میں داخل ہو ئے تو اتنے خوبصورت اور اتنے امیر شہر پر ہُو کا عالم طاری تھا۔ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص رُک گئے اور ہر سُو دیکھا پھر انہوں نے بلند آواز سے قرآن کی یہ آیت پڑھی:

’’وہ بہت سے باغ ، چشمے، کھیت، پاکیزہ مقام، اور نعمتیں چھوڑ گئے جن میں وہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے تھے اور اس طرح ہم نے ایک دوسری قوم کو ان کا وارث بنایا۔ پس نہ ان پر آسمان رویا اور نہ انہیں ڈھیل دی۔‘‘)الدُّخان:۲۵تا۲۹(

دریا تَیر کر پار کرنے میں صرف ایک مجاہد ڈوب کر شہید ہوا۔ تاریخوں میں صرف یہ لکھا ہے کہ وہ قبیلہ طے کا مجاہد تھا۔ نام کسی نے بھی نہیں لکھا۔ عمرو بن العلاء کی روایت ہے کہ اسے تیر لگا تھا جو فارسیوں نے چلائے تھے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فارسیوں نے تھوڑی سی تیر اندازی بھی کی تھی ۔

’’یزدگرد اور اس کا خاندان کہاں گیا؟‘‘

٭

تاریخِ اسلام کی معجزہ نما داستان کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم ذرا پیچھے اس مقام پر واپس جانا چاہتے ہیں جہاں اس داستان کے ایک ہیرو عاصم بن عمرو نے گھوڑا دریامیں ڈالا تھا۔ یہ سنایا جا چکا ہے ہے کہ عاصم کے ساتھ ساٹھ رضاکار تھے جنہوں نے دجلہ پار کرنے کیلئے گھوڑے دریا میں ڈال دیئے تھے۔ ان کے پیچھے باقی پانچ سو چالیس جانباز سواروں نے بھی گھوڑے دریا میں اتار دیئے تھے۔

اس وقت مدائن کی دیوار پر بہت سے فارسی کھڑے قہقہے لگا رہے تھے۔ انہیں توقع تھی کہ مسلمان اتنے زیادہ جوش میں آئے ہوئے دریا میں ڈوب جائیں گے یا دریا کا اتنا تندوتیز بہاؤ انہیں اپنے ساتھ ہی لے جائے گا۔ فارسیوں کی یہ توقع بے بنیادنہیں تھی۔ مسلمان ایک معجزہ کر دکھانے کی کوشش کر رہے تھے جو بظاہر ناممکن نظر آرہا تھا۔

دیوار پر کھڑے فارسیوں کے اس ہجوم سے الگ تھلگ ایک آدمی کھڑا تھا جس نے اپنے سر پر اس طرح ایک کپڑا ڈال رکھا تھا کہ اس کا چہرہ بھی نظر نہیں آتا تھا ۔وہ دوسروں کی طرح ہنس نہیں رہا تھا ۔اس کے ہونٹوں پرہلکا سا تبسم بھی نہیں تھا ،بلکہ چہرے پر سنجیدگی تھی اور سنجیدگی میں اُداسی اور مایوسی کی جھلک نمایاں تھی۔

ایک عورت جس کے چہرے پر نقاب تھا ، تیز تیز چلتی اس کے قریب آرکی۔

’’یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو یزدی!‘‘عورت نے اس سے پوچھا۔’’ تم حوصلہ کیوں ہار بیٹھے ہو؟‘‘

’’تم چلی کیوں نہیں جاتیں ماں!‘‘اس نے کہا۔’’ سب جا چکے ہیں ،تم بھی یہاں سے فوراً چلی جاؤ۔‘‘

’’تمہیں اکیلا چھوڑ کر کیسے چلی جاؤں بیٹا!‘‘

اس نے عورت کی طرف دیکھا اور بولا کچھ بھی نہیں۔

وہ یزدگرد تھا……شہنشاہِ فارس……اور یہ عورت اس کی ماں نورین تھی۔

یزدگرد شاہی لباس میں ملبوس نہیں تھا۔ لباس سے وہ بالکل ہی عام سا شہری لگ رہا تھا۔اس نے چہرہ چھپا رکھا تھا۔ تمام مستند مؤرخوں نے لکھا ہے کہ بُہر شیر سے فارس کی فوج بھاگ کر مدائن چلی گئی تو یزدگرد کے ہاتھ سے امید کا دامن چھوٹ گیا ۔اس پر اتنی زیادہ مایوسی طاری ہو گئی کہ وہ نوجوانی میں بوڑھا نظر آنے لگا تھا۔

اس نے بُہر شیر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوتے ہی تمام تر شاہی خاندان کو مدائن سے نکال کر مدائن سے کچھ دور ایک مقام حُلوان بھیج دیا اور خود محل میں ہی رُکا رہا۔ اس کی خاطر اس کی ماں بھی وہیں رک گئی۔

’’……اور تم اتنے مایوس کیوں ہوئے جا رہے ہو یزدی!‘‘نورین نے بڑے پیار اور حوصلہ مندی سے یزدگرد سے کہا۔’’ مسلمان ڈوبنے کیلئے دریا میں اترے ہیں ۔کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ان کے گھوڑے اس طغیانی میں سے نکل آئیں گے؟‘‘

’’ان کے سوار انہیں طغیانی میں سے نکال لائیں گے۔‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ جذبہ سواروں میں ہوتا ہے گھوڑوں میں نہیں۔بات سواروں کی کرو……کہاں ہیں ہمارے سوار؟وہ پیچھے کو بھاگنا چاہتے تھے اس لیے ان کے گھوڑے پیچھے کو بھاگ آئے۔‘‘

’’کیا ہمارے جرنیل دھوکے باز نہیں؟‘‘نورین نے دانت پیس کر کہا۔’’ بُزدل، کمینے، عیاش اور بھاگنے میں سب سے آگے۔ خرزاد کو میں دوسروں سے بہتر سمجھتی تھی ۔وہ رستم کا بھائی ہے۔‘‘

’’اور میں خرزاد پر صرف اسی لیے بھروسہ نہیں کرتا کہ وہ رستم کا بھائی ہے۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ کیا تمہیں یاد نہیں ماں!رستم کو میں نے کس طرح دھکیل دھکیل کر قادسیہ بھیجا تھا؟اس نے مہینوں کے حساب سے وقت ضائع کیا اور اس وقت سے عربوں نے فائدہ اٹھایا۔‘‘ یزدگرد چونک کر خاموش ہو گیا۔ اس کی نظریں دریا پر لگی ہوئی تھیں۔ مسلمانوں کے گھوڑے دریا کے وسط تک آگئے تھے۔ یزدگرد نے گھبرائی ہوئی سی آواز میں کہا۔’’وہ دیکھو ماں!تم کہتی ہو کہ وہ ڈوبنے کیلئے دریا میں اترے ہیں ۔کیا تم دیکھ نہیں رہی ہو کہ اتنے قہر اور غضب سے اٹھنے والی طوفانی موجیں عربوں کے گھوڑوں تلے دب گئی ہیں؟وہ دریا پار کر لیں گے۔ انہیں ڈوبنا ہوتا تو اب تک ڈوب چکے ہوتے۔‘‘

’’خرزاد نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دریا میں ہی تباہ کر دے گا۔‘‘ نورین نے کہا ۔’’کہتا ہے کہ بُہر شیر کی شکست کو فتح میں بدل دے گا۔‘‘

یزدگرد طنزیہ سی ہنسی ہنس پڑا۔

٭

جس وقت یزدگرد اپنی ماں کے ساتھ مدائن کی دیوار پر کھڑا مسلمانوں کے گھوڑوں کو دریا پار کرتا دیکھ رہا تھا، سعدؓ بن ابی وقاص ایک مشہور و معروف صحابی حضرت سلمان فارسیؓ کے ساتھ دریا کے بُہر شیر والے کنارے کی طرف کھڑے تھے۔

’’حسبنا اﷲ ونعم الوکیل۔ ‘‘سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ خدا کی قسم!اﷲ اپنے ان نیک بندوں کو جو اس کی راہ میں جانیں قربان کرنے نکلے ہیں، فتح و نصرت عطا کرے گا۔ مجھے یقین ہے اور یہ میرا عقیدہ ہے کہ اﷲ اپنے دین کو غالب کرے گا اور دشمن کو لازمی طور سے شکست دے گا ۔بشرطیکہ مجاہدین کے لشکر میں کوئی ایسا گناہ یا زیادتی نہ ہو گئی ہو جو نیکیوں پر غالب آجائے۔‘‘

’’خدا کی قسم ابنِ وقاص!‘‘سلمان فارسیؓ نے کہا۔’’ جس طرح اﷲ نے ان کے لئے زمین کی دشواریاں ہموار کر دی تھیں ، اسی طرح ان کے لئے اﷲ اس دریا کو بھی پامال کر دے گا ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے، جس طرح یہ دریا میں اترے ہیں اسی طرح زندہ و سلامت دریا کے اُس کنارے پر پہنچ جائیں گے۔‘‘

اس وقت مجاہدین کے گھوڑے دریا کے وسط سے آگے نکل گئے تھے۔ موجوں کا طوفانی زیرو بم وسط میں ہی تھا۔ وہاں سے گھوڑے نکل گئے تو امید بندھ گئی کہ اب دریا پار کر لیں گے۔

سلمان فارسیؓ کے متعلق کچھ بتانا ضروری معلوم ہو تا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے سلمان ؓفارس)ایران(کے رہنے والے تھے۔ اسلام قبول کیا تو مدینہ رسول ﷺکے حضور جا پہنچے اور حضور,ﷺکی رفاقت میں ہی زیادہ وقت گزارا۔

اہلِ قریش نے مکہ اور اردگرد کے دیگر قبائل سے مل کر جب مدینہ پر حملہ کیا، اس وقت سلمان فارسیؓ مدینہ میں ہی تھے ۔حملہ اوروں کی آمد کا قبل از وقت پتہ چل گیا ۔اس وقت مسلمانوں کے پاس نفری کے لحاظ سے جنگی طاقت خاصی کم تھی۔ حملہ آوروں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اس بے حد خطرناک صورتِ حال میں سلمان فارسیؓ کام آئے۔ انہوں نے رسولﷺ کو مشورہ دیا کہ مدینہ کے اردگرد خندق کھودی جائے جو اتنی چوڑی اور اتنی گہری ہو کہ طاقتور گھوڑا بھی اسے پھلانگ نہ سکے۔

اس وقت تک مسلمان خندق کے تصور سے نا آشنا تھے۔ رسولِ کریمﷺ نے سلمان فارسیؓ کا مشورہ قبول فرما کر اہلِ مدینہ سے فرمایا کہ سلمان فارسیؓ کی نگرانی میں خندق کھودی جائے۔

مسلمانوں میں بے پناہ جوش و خروش اور جذبہ تھا۔ انہوں نے بہت ہی تھوڑے وقت میں شہر کے اردگرد خندق کھود ڈالی، اور پھر دیکھا کہ اسے گھوڑا پھلانگ سکتا ہے یا نہیں ۔گھوڑے کیلئے یہ کام ممکن نہیں تھا۔ اہلِ مکہ جوش و خروش سے آگے آئے اور خند ق کے باہر رک گئے۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ خندق کو پھلانگ سکیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ اس وقت خالدؓ بن ولید مسلمان نہیں ہوئے تھے اور اس حملے کے قائد وہی تھے ۔اہلِ مکہ نے مدینہ کو ایک مہینہ تک محاصرے میں رکھا آخر مایوس ہو کر واپس چلے گئے ۔اس خندق کی وجہ سے اس خندق کوجنگِ خندق کہا جاتا ہے۔

اب سلمان فارسیؓ سعدؓ بن ابی وقاص کے ساتھ تھے اور پورے وثوق سے کہہ رہے تھے کہ مجاہدین دریا پار کر لیں گے ۔پچھلے باب میں بیان ہو چکا ہے کہ مجاہدین نے دریا پار کر لیا تھا۔

٭

یزدگرد دیوار سے اتر گیا ۔نورین ا س کے ساتھ تھی۔ نیچے کہیں دو گھوڑے کھڑے تھے ۔یزدگرد اور اس کی ماں ان گھوڑوں پر سوار ہوئے اور محل میں جانے کے بجائے شہر کے ایک چھوٹے سے دروازے سے نکل گئے ۔وہ مدائن سے دور چلے گئے ،یزدگرد نے ایک بار بھی مُڑ کر مدائن کو نہ دیکھا۔ اس کی ماں بار بار پیچھے دیکھتی تھی۔ اس کے آنسو رُکتے ہی نہیں تھے۔

اس خاندان پر کڑی آزمائش کا وقت تو وہ تھا جب یزدگرد کو اطلاع ملی تھی کہ بُہر شیر میں بھی مسلمان داخل ہو گئے ہیں ۔یزدگرد نے دیوا ر پر کھڑے ہو کر اپنی بچی کھچی فوج کو کشتیوں سے اور پل سے مدائن کی طرف بھاگتے دیکھا تھا ۔وہ اپنے محل میں گیا اپنی ماں سوتیلی بہن پوران اور شاہی خاندان کے سرکردہ افراد کر بلالیا۔ اس کے علاوہ اس نے دو جرنیلوں کو بھی بلایا۔ ایک مہران تھا اور دوسرا فیروزان۔ ان سب کو معلوم ہو چکا تھا کہ بُہر شیر سے اپنی فوج بھاگ آئی ہے اور وہاں مسلمان قابض ہو گئے ہیں۔

یہ وہ محل تھا جہاں مسرت و شادمانی محوِ رقص رہتی تھی۔ جہاں شہنشاہ ہوتا وہاں انتہا ئی حسین اور دلکش کنیزیں شہنشاہ کے آگے پیچھے حاضری میں موجود رہتی تھیں۔ ان کے ناز و انداز اور طور طریقوں سے محفل میں کچھ اور ہی رونق پیداہو جاتی تھی ۔شراب کی صراحیاں اور پیالے تو اس محل کا لازمی حصہ سمجھے جاتے تھے ،لیکن اس روز تمام افراد پر سناٹا طاری تھا ۔کسی کنیز کو اس کمرے میں جانے کی اجازت نہیں تھی، جس میں یزدگرد نے ان سب کو بلایا تھا۔شراب کی صراحیاں بھی ہٹا لی گئی تھیں۔ ان سب کے اندازز بتاتے تھے کہ وہ ایک دوسرے سے نظریں ملانے سے بھی گھبرا رہے ہیں۔

’’خدائے آفتاب کی لعنت ہو تم جرنیلوں پر! ‘‘یزدگرد نے مہران اور فیروزان کی طرف دیکھ کر سکوت توڑا۔’’ تم میں سے کوئی ایک بھی جرنیل کسی ایک بھی میدان میں نہیں ٹھہر سکا۔ بُہر شیر کے دفاع کیلئے میں تمہیں اور کتنی مدد دے سکتا تھا؟ خرزاد نے سب کچھ ضائع کر دیا۔‘‘

’’ہم ابھی زندہ ہیں شہنشاہِ فارس!‘‘مہران نے کہا۔’’ دجلہ ہمارے دشمن کے سامنے ایسی رکاوٹ ہے جو اسے بُہر شیر سے آگے نہیں بڑھنے دے گی ۔فوج واپس آرہی ہے۔ اُدھر کے کنارے سے تمام چھوٹی بڑی کشتیاں ادھر لے آئیں اور پُل کو آگ لگا دیں۔‘‘

’’پھر کیاہو گا؟‘‘ یزدگرد نے طنزیہ سے لہجے میں پوچھا۔

’’ہم اپنی تمام فوج کو اکٹھا کریں گے۔‘‘ مہرا ن نے کہا۔’’ اور بہت جلد بہت بڑا لشکر تیار کر کے اس جگہ سے دریا پار کریں گے جہاں پانی تھوڑا ہو۔‘‘

’’مہران!‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ تم میرے باپ کے عمر کے آدمی ہو۔ جو تجربہ تمہیں حاصل ہے میں اس سے محروم ہوں۔لیکن جو تجربہ مجھے عربوں کی لڑائی میں ہوا ہے ،وہ میری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ میں تمہیں اتنا بڑا لشکر دے چکا ہوں جو فارس کے لوگوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے تمہیں ہاتھی بھی دیئے تھے اور میں نے تمہیں جنگی سازوسامان بھی دیا تھا جو عرب خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتے……ہمارے بہت سے جرنیل مارے گئے ہیں۔ جن کا مجھے ذرا سا بھی افسوس نہیں ہے۔ اگر تم بھی مارے جاؤ گے تو مجھے افسوس نہیں ہو گا۔ ہر اس جرنیل کو جو اتنی تھوڑی سی نفری سے شکست کھا کر بھاگ آئے اسے خودکشی کرلینی چاہیے۔‘‘

’’شہنشاہِ فارس!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ ہمیں ایک موقع دیں۔‘‘

’’میرا فیصلہ سن لو۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ ایک وہ وقت تھا جب ہم کہتے تھے کہ عربوں کو عراق کی سرحد سے باہر کر دیں گے اور رستم کہتا تھا کہ وہ پورے عرب کو تباہ و برباد کر کے مدینہ پر قبضہ کرے گا اور اسلام کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دے گا۔ پھر وہ وقت آیا کہ ہم نے بے انتہا نفری کا لشکر تیار کیا کہ عرب کے ان مسلمانوں کو قادسیہ کے میدان میں کچل ڈالیں گے……

پھر تم جانتے ہو کہ قادسیہ کے میدان میں کیا ہوا۔ عرب کو تباہ کرنے والا رستم خود تباہ ہو گیا۔ ہمارا لشکر اس طرح بکھر گیا جس طرح آندھی میں خشک گھاس کے تنکے اُڑ جایا کرتے ہیں۔ پھر ہم نے کہا کہ عربوں کو بُہر شیر تک نہیں پہنچنے دیں گے۔ مگر اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم مدائن کو بھی شاید نہ بچا سکیں۔‘‘

’’یوں مت کہو یزدی!‘‘یزدگرد کی ماں نے تڑپ کر کہا۔’’ مدائن کی طرف کو ئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔