جمعرات، 7 مئی، 2015

’’حجاز کی آندھی‘‘ پارٹ 5

0 comments


امیر المومنین نے بھی حکم بھیج دیا ہے کہ دائیں بائیں حملے شروع کر دو تاکہ لوگوں پر ہمارا خوف بیٹھ جائے۔ پھر وہ غداری اور دھوکا دہی کی جرأت نہیں کریں گے……میرے رفیقو ! ان لوگوں پر خوف اور اپنی دھاک بٹھانے کا یہ مطلب نہیں کہ ان پر ظلم و تشدد کیا جائے اور ان کی جوان عورتوں کو اٹھا لیا جائے۔ ہمارا دین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی بوڑھے، بچے،عورت،معذور اور مریض پر ہاتھ نہیں اٹھانا۔ اگر کوئی مقابلہ کرتا ہے تو اسے قتل کر دو۔ ان کے گھروں سے کام کی اور قیمتی چیزیں اٹھانی ہیں۔ اندھا دھند لوٹ مار نہیں کرنی۔ سونا چاندی اٹھا لانا ہے…… تفصیل سے  پڑھئے

ہم یہاں وعظ کرنے نہیں آئے ۔نہ یہ لوگ تبلیغ کو قبول کریں گے۔ یہ بعد کی باتیں ہیں۔ ابھی ہمارے پاس وقت نہیں ۔بستیوں پر حملوں کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہمیں رسد کی ضرورت ہے۔ بیل اور بھیڑ بکریاں اور اناج اکٹھا کر لینا ۔ پھر ہر بستی کے اردگرد تین تین چار چار آدمی چھوڑ دینا جو کسی کو بستی سے نہ نکلنے دیں۔ اب اس کارروائی کیلئے ٹولیاں بنا لو اور آج رات سے ہی یہ کارروائی شروع کر دو۔‘‘

٭

وہاں اردگرد جو بستیاں تھیں ،ان پر حملے شروع ہو گئے۔ ان حملوں کا انداز چھاپوں جیسا تھا ۔مجاہدین کی ایک جماعت کسی بستی میں ایسے جوش و خروش سے جا دھمکتی جیسے بستی کے بچے بچے کو قتل کر دیا جائے گا۔ تمام آبادی کو باہر اکٹھا کرکے کہا جاتا کہ اناج ،اشیائے خوردونوش، سونا ،چاندی وغیرہ باہر لے آئیں۔ پھر انہیں کہاجاتا کہ بستی کا کوئی فرد بستی سے باہر قدم نہ رکھے۔ اگر کسی نے باہر نکلنے کی کوشش کی تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ لوگ اپنی نوجوان لڑکیوں کو چھپاتے پھرتے تھے۔ لیکن مجاہدین نے کسی لڑکی کی طرف دیکھا تک نہیں۔

ہر بستی پر چھاپے کا تفصیلی ذکر ممکن نہیں۔ یورپ کے متعصب تاریخ دانوں نے مجاہدین کو دہشت گرد لکھا ہے اور ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ مسلمان دہشت گرد بستیوں پر حملے کر کے لوٹ مار کرتے رہے اور وہ جوان عورتوں کو اپنے کیمپ میں لے جاتے تھے۔ لیکن وہ مؤرخ بھی یورپی ہی تھے جنہوں نے بستیوں پر حملے کرنے والے مسلمانوں کو دہشت گرد ہی لکھا ہے لیکن ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں دیا کہ مسلمانوں نے لوٹ مار کی اور انہوں نے عورتوں کو اغواء کیا۔ انہوں نے اتنا ہی لکھا ہے کہ فارس کے لوگوں پر دہشت طاری کرنے کیلئے اور رسد کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مسلمانوں کی دہشت گرد جماعتوں نے بستیوں میں شب خون مارے اور رسد کے علاوہ مالِ غنیمت بھی اکٹھا کیا۔

بستیوں پر حملوں کے سلسلے میں دو واقعات خاصے دلچسپ ہیں ۔ حیرہ اس زمانے میں سلطنتِ فارس کا ایک اہم شہر تھا۔ اس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ اب مثنیٰ بن حارثہ کو پیچھے ہٹنا پڑا تو فارس والوں نے پھر اس پر قبضہ کر لیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہاں کے لوگ مسلمانوں کے وفادار ہی رہے اور انہوں نے بغاوت نہ کی۔ مثنیٰ خاصہ عرصہ وہاں رہے تھے ۔یہ مسلمانوں کے حسنِ سلوک کے اثرات تھے کہ ان کی اپنی حکومت واپس آئی تو انہوں نے اس حکومت کو قبول نہ کیا۔ بہرحال فارس کی شاہی حکومت نے وہاں اپنا حاکم مقرر کر دیاجس کا نا م مرزبان تھا۔

مرزبان کی ایک نوجوان بیٹی تھی جس کا نام افشاں تھا۔ تاریخ نویسوں نے اسے بہت ہی خوبصورت اور متناسب قد کاٹھ والی لڑکی لکھا ہے۔ وہ ایک درباری موسیقار کو دل دے بیٹھی۔ وہ کوئی جواں سال اور خوبرو آدمی تھا۔ وہ خوبرو نہ بھی ہوتا تو بھی افشاں اس کی شیدائی ہوتی کیونکہ اس لڑکی کو موسیقی سے عشق تھا۔ یہ موسیقار سازوں کا جادو جگانے کے ساتھ گاتا بھی تھا اور اس کی آواز کا سوز دلوں کے تاروں میں ارتعاش پیدا کر دیتا تھا ۔

افشاں حاکموں کے خاندان کی بیٹی تھی۔ یہ خاندان شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس وقت افشاں مدائن میں تھی جب اس نے محسوس کیا تھا کہ اس موسیقار کے ساتھ اس کا کوئی روحانی تعلق ہے۔ یہ تعلق ایک کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ بن گیا اور چھپ چھپ کر ملنے کا سلسلہ چل نکلا۔

اتنے بڑے حاکم کی بیٹی کی شادی درباری موسیقار کے ساتھ نہیں ہو سکتی تھی۔ انہوں نے بھاگ جانے کا عہد کر لیا۔ وہ شاید ملک شام چلے جانا چاہتے تھے۔ جہاں مسلمانوں اور رومیوں کی خونریز جنگیں ہو رہی تھیں۔ پھر شام کا بیشتر علاقہ مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ حیرہ پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ افشاں موسیقار کے ساتھ شام کو بھاگ جانے کا عزم کر چکی تھی کہ اس کے باپ مرزبان کو حیرہ کا حاکم امیر )امیر یا گورنر(مقررکر کے وہاں بھیج دیا گیا۔

مدائن کے دربار میں موسیقار کی ضرورت نہیں رہی تھی کیونکہ اب وہاں جنگی تیاریں ہو رہی تھیں اور حالات ایسے پیدا ہو گئے تھے کہ شاہی ضیافتیں ،ناچ گانے کی محفلیں اور عیش و عشرت کے مظاہرے بند ہو گئے تھے۔ موسیقار بھی حیرہ چلا گیا اور افشاں سے ملتا رہا ۔

اس دوران فارس کے شہر صنین کا حاکم جس کا تاریخ میں نام نہیں ملتا حیرہ گیا ۔اس کی نظر افشاں پر پڑ گئی۔ ا س نے افشاں کے باپ سے کہا کہ وہ افشاں سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ باپ نے فوراً یہ رشتہ قبول کر لیا اور شادی کا دن بھی مقرر کر دیا۔ اس حاکم کی عمر افشاں سے دوگنی تھی۔

شادی کے دن سے تین دن پہلے افشاں گھر سے غائب ہو گئی۔ اس کے باپ کو شاید موسیقار پر شک تھا ۔اس کا پتا کرایا گیا تو اسے بھی غائب پایا۔ مرزبان نے ہر طرف گھوڑسوار دوڑا دیئے اور دونوں ایک جگہ چھپے ہوئے پکڑے گئے ۔اُنہیں لایا گیا ۔مرزبان حاکم تھا۔ اس نے حکم دیا کہ موسیقار کے پاؤں رسی سے باندھ کر ایک گھوڑے کے پیچھے باندھ دیا جائے اور گھوڑا دوڑا دیا جائے اور گھوڑا اس وقت تک دوڑتا رہے جب تک کہ موسیقار کی کھال نہیں اتر جاتی۔

حکم کی تعمیل ہوئی ۔موسیقار کو زمین پر لٹا کر رسی کے ایک سرے سے اس کے پاؤں باندھے گئے اور رسی کا دوسرا سرا گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ دیا گیا ۔ایک فوجی گھوڑے پر سوار ہوا اور گھوڑے کو ایڑھ لگا دی۔ گھوڑا موسیقار کو گھسیٹتا دوڑ پڑا اور سوار اسے میدان میں چکر میں دوڑاتا رہا۔ تماشائیوں کا ہجوم تھا۔ افشاں بھی دیکھ رہی تھی۔

موسیقار سخت اور پتھریلی زمین پر گھسیٹا جا رہا تھا۔ پہلے اس کے کپڑے پھٹے ۔پھر اس کا جسم خون سے لال ہونے لگا اور پھر صاف پتا چلتا تھا کہ زمین اور کنکریوں نے اس کے جسم کی کھال اتار دی ہے۔

’’میری شادی حاکم صنین کے ساتھ نہیں ہو گی۔‘‘ افشاں نے چلّا کر کہا۔

٭

اِدھر سعد بن ابی وقاص کے لشکر کی چھاپہ مار جماعتیں بستیوں پر چھاپے مار رہی تھیں۔ ایک روز ایک زیادہ نفری کی پارٹی حیرہ کی طرف چلی گئی۔ اس وقت تک مدائن میں یہ اطلاع نہیں پہنچی تھی کہ مسلمان بستیوں پر شب خون مار کر رسد اور مالِ غنیمت اکٹھا کر رہے ہیں ۔چھاپہ مار مجاہدین کی یہ جماعت حیرہ اور صنین کے درمیان پہنچی تو اسے شوروغل سنائی دینے لگا ۔دف اور شہنائیاں بھی بج رہی تھیں ۔یہ علاقہ جنگلاتی تھا۔اونچی نیچی ٹیکریاں تھیں ۔گہرے نشیب بھی تھے ۔ایک مجاہد نے ایک بلند ٹیکری پر چڑھ کر دیکھا۔ ایک جلو س سا آرہا تھا جس میں اڑھائی تین سو آدمی گھوڑوں پر سوار تھے۔ چار چار پہیوں ولی بگھیاں بھی تھیں اور دف اور مختلف ساز بجانے والے پیدل آرہے تھے۔

مجاہد ٹیکری سے اتر آیا اور اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ اس نے کیا دیکھا ہے۔ جماعت کا کماندار ٹیکری پر چلا گیا اور واپس آکر بتایا کہ اس قافلے پر حملہ کیا جائے گا۔ کماندار نے دیکھ لیا تھا کہ قافلے پر حملے کیلئے گھات کہاں موزوں ہو گی۔ اس نے اپنی جماعت کو ایک ایسی جگہ لے جا کر چھپا دیا جہاں کسی کو ان کی موجودگی کا شک بھی نہیں ہو سکتا تھا۔

قافلہ گھات کے مقام پر پہنچا تو مجاہدین اس پر جھپٹ پڑے ۔گھوڑ سوار تلواروں او ر برچھیوں سے مسلح تھے ۔انہوں نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان پر حملہ اچانک اور غیر متوقع طور پر ہوا تھا۔ اس لیے وہ سنبھل نہ سکے ۔ مجاہدین کی نفری قافلے والوں سے کم تھی۔ لیکن گھبراہٹ میں قافلے والوں نے بھاگ نکلنے میں ہی عافیت جانی ۔ان میں سے چند ایک زخمی ہو کر گھوڑوں سے گرے تھے اور باقی سب بھاگ گئے ۔

بگھیاں چلانے والے بھی بھاگ گئے تھے۔ بگھیاں شاہانہ تھیں ۔ان کے پردے ہٹا کر دیکھا ۔پہلی بگھی میں ایک بڑی ہی خوبصورت لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ شہزادی لگتی تھی۔ بگھی میں دو عورتیں اور تھیں۔ وہ اس شہزادی کی خادمائیں تھیں اور مارے خوف سے کانپ رہی تھیں۔

’’یہ دلہن ہے۔‘‘ ایک خادمہ نے لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔’’ یہ حیرہ کے حاکم مرزبان کی بیٹی ہے ۔ آج ہی اس کی شادی ہو ئی ہے۔ اس کا دولہا حاکم صنین ہے ۔یہ اس کی بارات ہے ۔وہ گھوڑے پر سوار ہے۔‘‘

یہ لڑکی افشاں تھی جو دلہن بن کر حاکم صنین کے ساتھ سسرال جا رہی تھی۔ مگر اسے روک لیا گیا۔ دوسری بگھیوں میں سے جو عورتیں نکلیں وہ افشاں کی خادمائیں تھیں اور بارات کے ساتھ آئی ہوئی حاکم صنین کی قریبی رشتے دار تھیں۔

’’وہ کہاں ہے؟‘‘ افشاں نے پوچھا۔’’ میرا دولہا۔‘‘

اس کے دولہا نے جم کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی تھی اور مارا گیا تھا۔ دلہن کو پتا چلا تو اس کے چہرے پر خوشی کا تاثر آگیا ۔

’’میں نے کہا تھا کہ اس کے ساتھ میری شادی نہیں ہو گی۔‘‘ افشاں نے عجیب سے لہجے میں کہا اور پوچھا۔’’ ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟‘‘

’’یہ اس سے پوچھنا جس کے ساتھ تمہاری شادی ہو گی۔‘‘ مجاہدین کے کماندار نے کہا۔’’شادی کے بغیر کوئی شخص تمہارے اور ان عورتوں میں سے کسی کے جسم کو ہاتھ تک نہیں لگائے گا۔ تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو گا جو تمہارے فوجی اپنے ملک کی عورتوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔‘‘

باراتی بھاگ گئے تھے اور تین چار مارے گئے تھے ۔جہیز بہت ہی قیمتی تھا اور بہت ہی زیادہ تھا۔ خالص سونے کے زیورات اور قیمتی ہیروں اور پتھروں کاتوکوئی شمار نہ تھا۔ چار پانچ بگھیاں گھوڑوں سمیت الگ ملیں۔

یہ جماعت وہیں سے واپس آگئی۔ عورتوں کو عورتوں کے حوالے کر دیا گیا۔ افشاں نے اپنی کہانی مسلمان عورتوں کو سنائی۔ اسے عورتوں نے بھی یقین دلایا کہ وہ کسی مسلمان کی بیوی بنے گی اور اسے داشتہ نہیں بنایا جائے گا۔ ایک تو یہ بات سن کر افشاں خوش ہوئی اور دوسری خوشی اسے یہ تھی کہ اس کا ادھیڑ عمر دولہا مارا گیا تھا۔ افشاں نے مثنیٰ کی بیوی سلمیٰ کے ہاتھ پر جو اب سعدؓ بن ابی وقاص کی بیوی تھیں ،اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد تاریخ خاموش ہے کہ افشاں کس کی بیوی بنی تھی۔

٭

شب خون اور چھاپے اور رسد وغیرہ اکٹھی کرنے کے سلسلے میں ایک اور واقعہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔تاریخوں میں آیا ہے ایک مجاہد عاصم بن عمر ایک گاؤں پر چھاپہ مارنے گئے تو گاؤں کے لوگ پہلے ہی وہاں سے بھاگ گئے۔ صرف ایک آدمی اتفاق سے سامنے آگیا۔ اس سے پوچھا تم کون ہو۔ اور کہاں رہتے ہو؟ اس نے بتایا کہ وہ چرواہا ہے اور سارے گاؤں کے مویشیوں کو وہ چرنے چگنے کیلئے لے جایا کرتا ہے ۔

عاصم نے پوچھا ۔’’مویشی کہاں ہیں؟ ‘‘

’’یہاں ایک بھی مویشی نہیں۔ ‘‘چرواہے نے جواب دیا۔’’ لوگ اپنے مویشی ساتھ لے کر بھاگ گئے ہیں۔‘‘

’’جھوٹ نہ بولو۔‘‘ عاصم بن عمرو نے کہا۔’’ ہم صرف مویشی اور بھیڑ بکریاں لے کر چلے جائیں گے۔‘‘

روایت جو مشہور ہوئی وہ یہ تھی کہ چرواہے نے جب تیسری بار جھوٹ بولا تو قریب کے ایک مکان سے ایک بیل کی آواز آئی۔ ’’خدا کی قسم‘ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ ہم سب مویشی یہاں ہیں۔ آؤ اور ہمیں ہانک کر لے چلو۔ ‘‘

عاصم بن عمرو اس مکان میں گئے ۔بڑا ہی وسیع صحن تھا اور وہاں بے شمار مویشی تھے۔ بھیڑیں ،بکریاں اور گائیں بھی تھیں۔ گاؤں کے لوگ اپنے مویشی اس گھر میں بند کرکے چرواہے کو یہاں رکھوالی کیلئے چھوڑ گئے تھے۔ عاصم بن عمرو کی چھاپہ مار جماعت نے تمام مویشی اور بھیڑ بکریاں باہر نکالیں اور اپنے کیمپ میں واپس لے آئے۔

اس وقت کے لوگوں نے اس واقعے کو سچ مان لیا کہ ایک بیل نے انسانوں کی طرح بول کر اپنی اور اپنے مویشیوں کی نشاندہی کی تھی۔ یہ روایت مشہورو معروف مؤرخین طبری اور بلاذری نے اور ان کے دو تین ہم عصروں نے لکھی ہے ۔طبری اور بلاذری نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ روایت سینہ بہ سینہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں پہنچی تو حجاج کے کانوں میں پڑی ۔حجاج نے اسے سچ ماننے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی یہ عہد بھی کیا کہ وہ اس واقعہ کی تصدیق یا تردید کرے گا۔

حجاج بن یوسف نے بڑی کاوش اور تگ و دو سے ان چند ایک آدمیوں کو ڈحونڈ نکالا جو جنگِ قادسیہ کے وقت نوجوان تھے اور اب ضعیف العمر ہو چکے تھے۔ حجاج نے ان سب کو بلا کر حلف لیا اور پوچھا کہ یہ واقعہ کیا تھا ۔ان سب نے حلفیہ بیان دیا کہ یہ واقعہ ایسے ہی ہوا تھا جیسے سنا سنایا گیا ہے اور بیل انسانوں کی زبان بولا تھا۔ گویا ان سب نے اس واقعہ کی تصدیق کر دی۔

حجاج بڑا کھرا اور حقیقت پسند آدمی تھا ۔وہ حجاج ہی تھا جس نے ایک عورت کی پکار پر محمد بن قاسم کو ہندوستان بھیجا تھا )تفصیلات کیلئے ہماری کتاب ’’ستارہ جو ٹوٹ گیا‘‘دیکھئے( حجاج نے تحقیقات کی تو پتا چلا کہ یہ افراد جو اس واقعہ کی تصدیق کر رہے تھے، عاصم بن عمرو کے ساتھ نہیں تھے۔ یعنی وہ عینی شاہد نہیں تھے۔

بہرحال حجاج نے اس خیال سے اس واقعہ کی تحقیقات جاری رکھی کہ تاریخ میں کوئی غلط بات نہ آجائے ۔ آخر راز یہ کھلا کہ جب چرواہا باہر کھڑا جھوٹ بول رہا تھا کہ یہاں کوئی مویشی نہیں۔ اس وقت قریب ہی مکان سے ایک بیل ڈکرایا ۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک اور بیل ڈکرایا۔ عاصم بن عمرو کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر اندر گئے تو وہاں تمام مویشیوں کو موجود پایا۔

طبری اور بلاذری لکھتے ہیں کہ عربی زبان میں اظہاریت اور تشبیہوں کے انداز کچھ شاعرانہ سے ہوتے ہیں ۔ہوا یوں تھا کہ عاصم بن عمرو اتنے زیادہ مویشی اور بھیڑ بکریاں اور دودھ دینے والی گائیں لائے تو انہوں نے خوشی اور ہیجانی کیفیت میں اپنے ساتھیوں کو یوں سنایا کہ چرواہا جھوٹ بول رہا تھا کہ مویشی یہاں نہیں ہیں۔ تو ایک بیل بول پڑا کہ ہم یہاں ہیں ۔آؤاور ہمیں ہانک کر لے جاؤ۔ بیل کے بولنے کا مطلب یہ تھا کہ بیل ڈکرایا اور مویشیوں کی نشاندہی ہو گئی۔

٭

مسلمانوں کے اتنے زیادہ شب خون اور چھاپے ڈھکے چھپے تو نہیں رہ سکتے تھے۔ یہ ایک دو بستیوں کی بات نہیں تھی۔ مجاہدین نے کوئی بستی نہیں چھوڑی تھی۔ فارسیوں کو احساس ہو گیا تھا کہ انہیں بغاوت کی سزا دی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں یہ پریشانی بھی لاحق ہوتی جا رہی تھی کہ ان کی اپنی فوج کہاں ہے کہ مسلمان دندناتے پھر رہے ہیں۔ اس کا اثر ان لوگوں پر نفسیاتی نوعیت کا ہوا۔ انہوں نے اپنی فوج کے بجائے مسلمانوں کو اچھا سمجھنا شروع کر دیا جونہ شراب پیتے تھے نہ ان کی عورتوں پر ہاتھ ڈالتے تھے۔

علامہ شبلی نعمانی نے ایک بستی کا ذکر کیا ہے۔ مسلمانوں کی ایک چھاپہ مار جماعت ایک بستی پر چھاپہ مارنے جا رہی تھی۔ بستی سے کچھ دور یہ جماعت رُک گئی۔ شاید چل چل کر مجاہدین تھک گئے تھے۔ بستی سے دو تین عورتیں دوڑی آرہی تھیں۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہاں مسلمان موجود ہیں۔ مسلمان چھپ کر بیٹھے سستا رہے تھے۔ عورتیں ا ن کے درمیان آگئیں ۔مجاہدین اُٹھ کھڑے ہوئے ۔عورتیں اور زیادہ خوف ذدہ ہو گئیں۔

’’ہم ظلم سے بھاگ کر آئی ہیں۔‘‘ ایک عورت نے کہا۔’’ ہماری اپنی فوج کے پچیس آدمی ہمارے گاؤں میں آگئے ہیں۔ لوگوں کے گھروں سے شراب منگوا کر پی رہے ہیں اور انہیں جو لڑکی اچھی لگتی ہے اسے الگ لے جا کر خراب کرتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے اس گاؤں پر انہیں کی حکومت ہو۔‘‘

مجاہدین کی نفری ان فوجیوں کی نسبت خاصی تھوڑی تھی ،پھر بھی ان عورتوں کو ساتھ لے کر وہ بستی میں چلے گئے۔ فارس کے فوجی شراب کے نشے میں بد مست تھے اور بستی میں انہوں نے ادھم مچا رکھا تھا۔ لوگوں نے گھروں کے دروازے بند کر لیے تھے۔ کچھ جوان عورتیں اِدھر اُدھر بھاگ گئی تھیں۔ مجاہدین نے کسی ایک بھی فوجی کو زندہ نہ چھوڑا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے مجاہدین کے آگے اناج کی بوریوں کے ڈھیر لگا دیئے۔

٭

فارس کا بادشاہ یزد گرد مدائن میں تھا ۔اسے اطلاع ملی کہ کچھ لوگ فریادی بن کر آئے ہیں۔ یزد گرد باہر آگیا ۔بیس پچیس معزز قسم کے آدمی باہر کھڑے تھے۔ سب تعظیماً رکوع میں چلے گئے۔

’’سیدھے ہو جاؤ اور بات کرو۔‘‘ نوجوان یزدگرد نے کہا۔’’ کیا فریاد لے کر آئے ہو۔‘‘

’’شہنشاہِ فارس! ‘‘ان لوگوں میں سے ایک نے شاہی آداب کی پابندی کرتے ہوئے کہا ۔’’کسریٰ کی نسل کا اقبال بلند ہو ۔سورج کے بیٹے……‘‘

’’جو بات کرنے آئے ہو وہ کرو۔‘‘ یزد گرد نے غصے سے کہا۔’’ یہاں کوئی شہنشاہ نہیں۔ وقت ضائع نہ کرو۔‘‘

’’پھر سن لے شہزادہ یزدگرد!‘‘ ایک معمر آدمی نے کہا۔’’ مسلمانوں نے ہمارے گھر خالی کر دیئے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے فارس ہمارا نہیں مسلمانوں کا ملک ہے ۔اپنی فوج کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ اپنے فوجی کہیں نظر آتے ہیں تو و ہ اپنے ہی لوگوں کو پریشان کرتے نظر آتے ہیں۔‘‘

ان لوگوں نے بتایا کہ مسلمان کس طرح آتے ہیں اور وہ بستیوں سے کیا کچھ اٹھا لے جاتے ہیں۔

یزدگرد ان لوگوں سے فارغ ہو کر اندر گیا ہی تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ حاکمِ حیرہ مرزبان آیا ہے۔ یزدگرد نے اُسے اندر بلا لیا۔

’’تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم کوئی اچھی خبر نہیں لائے۔‘‘یزدگرد نے کہا۔

’’میں اپنا چہرہ کسی کو دکھانے کے قابل نہیں رہا شہنشاہِ فارس!‘‘ مرزبان نے کہا۔’’ عرب کے یہ ڈاکو میری بیٹی کو اٹھا لے گئے ہیں۔ اس کا جہیز بھی لے گئے ہیں۔ بارات کے ساتھ معزز گھرانوں کی تیس عورتیں تھیں۔ اُنہیں بھی لے گئے ہیں ۔میں نے جسے داماد بنایا تھا اُسے قتل کر گئے ہیں۔‘‘

مؤرخ لکھتے ہیں کہ یزدگرد نے اس سے آگے کچھ نہ سنا۔ غصے سے اٹھا ، لمبے لمبے ڈگ بھرتا کچھ دیر کمرے میں ٹہلا، رُکا اور مرزبان کی طرف دیکھا۔

’’تم واپس حیرہ چلے جاؤ ۔‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ میں عرب کی ساری بیٹیاں اُٹھوا دوں گا……رستم کو بلاؤ۔‘‘

حاکمِ حیرہ مرزبان حیرہ چلا گیا۔

٭

رستم افواجِ فارس کا کمانڈر انچیف تھا اور اسے کُلی اختیارات حاصل تھے۔ ان حالات میں جب مسلمان عراق میں دندناتے پھر رہے تھے اور ان کے خوف سے بستیاں خالی ہوئی جا رہی تھیں ، سب کی نظریں رستم پر لگی ہوئی تھیں۔ یزدگرد سے لے کر ایک عام اور غریب فارسی تک یہی کہتے تھے کہ رستم ہی مسلمانوں کو فارس سے نکال سکتا ہے اور رستم ہی عرب پر یلغار کرکے اسلام کا خاتمہ کر سکتا ہے۔

لوگوں کی نظریں تو رستم پر لگی ہوئی تھیں لیکن رستم کی نظریں اس زائچے پر لگی ہوئی تھیں جو اس نے علمِ نجوم و جوتش کی مدد سے بنایا تھا۔ پہلے ایک باب میں بتایا جا چکا ہے کہ رستم علمِ نجوم اور جوتش میں دسترس رکھتا تھا۔ بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ وہ علمِ نجوم کا ماہر تھا اور اس کا تیار کیا ہوا زائچہ اور اس کی پیشگوئی کبھی غلط نہیں نکلی تھی۔ فارس کے انجام کے متعلق اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ اچھا نہیں بلکہ بہت برا ہو گا۔

جس وقت حاکمِ حیرہ مرزبان یزدگرد کے آگے اپنی بیٹی کا رونا رو رہا تھا، اس وقت رستم کے پاس پوران دخت اور اس کی بیوی بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ زائچہ سامنے رکھے انہیں بتا رہا تھا کہ فارس کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔

’’کیا تمہیں یقین ہے کہ تم نے زائچہ صحیح بنایا ہے۔‘‘ پوران دخت نے پوچھا۔

’’اور اگر یہ زائچہ صحیح ہے۔‘‘ رستم کی بیوی نے کہا۔’’ تو اس کا انجام بدل دینے کا کوئی طریقہ نہیں؟……عامل ہیں، جادوگر ہیں۔‘‘

’’نہیں!‘‘ رستم نے جواب دیا۔’’ یہ انجام ستاروں کے زیرِ اثر ہے۔ میں ستاروں کے سفر کے راستے نہیں بدل سکتا ۔میں کسی ستارے کو ایک برج سے نکال کر اپنی مرضی کے برج میں نہیں ڈال سکتا……ہاں پوران! میرا زائچہ بالکل صحیح ہے۔ یہ میں نے آج پہلی بار نہیں بنایا۔ جب تم تخت نشین ہوئی تھیں تو بھی میں نے یہ زائچہ تیار کیاتھا۔ ستاروں کے راستے اچھی طرح دیکھے تھے ۔اس وقت بھی مجھے یہی جواب ملا تھا۔‘‘

اتنے میں یزدگرد کے قاصد نے آکر اسے کہا کہ شاہِ فارس بلاتے ہیں۔

’’ابھی آتا ہوں۔‘‘ رستم نے قاصد کو رخصت کر کے پوران اور بیوی سے کہا۔’’ میں جانتا ہوں یزدگرد مجھے کیوں بلا رہا ہے۔ مجھ تک خبریں پہنچ چکی ہیں کہ عربی ہماری بستیوں میں لوٹ مار کر رہے ہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ عربوں سے ہماری جنگ قادسیہ کے میدان میں ہوگی اور یہ بڑی ہولناک جنگ ہو گی ۔عربوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ چالیس ہزار ہو گی اور ہماری فوج کی نفری سوالاکھ ہوگی۔‘‘ ’’لیکن……لیکن……آگے اندھیرا ہے۔‘‘

’’کیا یزدگرد کو بتا دو گے کہ……‘‘

’’نہیں!‘‘ رستم نے پوران کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’اسے بتایا تو وہ سمجھے گا کہ میں لڑنے سے گریز کر رہا ہوں۔ میں صرف یہ کر سکتا ہوں کہ فارس کے اس انجام کو کچھ دنوں کیلئے ٹال دوں۔ یزدگرد سے کہوں گا کہ مجھے مدائن میں رہنے دے اور میں یہیں سے اپنی فوج کو لڑاتا اور مدد دیتا رہوں گا……میرا غم ایک اور بھی ہے ۔میں نہیں چاہتا کہ فارس کی شکست میرے نام لکھی جائے۔ میں نے آج تک کسی میدان میں شکست نہیں کھائی ۔ میں نے شکستیں دی ہیں ۔میرا نام ہی فتح کا ضامن ہا ہے۔ میں کیسے برداشت کر لوں کہ ہونے والی عبرتناک شکست میرے کھاتے میں ڈال دی جائے۔‘‘

ایک تو یہ حقیقت ہے جو ہر مؤرخ نے لکھی ہے کہ رستم جنگ کو ٹالنا چاہتا تھا۔ جنگ کو ٹالنے کی دوسری وجہ اس کا وہ وعدہ بھی تھا جو اس نے شیریں کے ساتھ کیا تھا۔ اس نے شیریں سے کہا تھا کہ وہ جنگ کو ٹالے گا۔ شیریں کے عزائم یہ تھے کہ وہ اپنے بیٹے شیرویہ کے قتل کا انتقام لینا چاہتی ہے اور اس کا ارادہ ملکہ بننے کا بھی تھا۔ اس نے رستم کو ایک خزانے کا اور وزیراعظم کے رتبے کا لالچ بھی دیا تھا۔

رستم یزدگرد کے محل کو روانہ ہو گیا۔

٭

خلیفہ اول ابو بکر صدیق ؓکے حکم سے مرتدین کے خلاف لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ان میں ایک لڑائی جنگِ بزاخہ کے نام سے مشہور ہوئی جو خالدؓ بن ولید نے طلیحہ کے خلاف لڑی تھی۔ طلیحہ نے بہت بری شکست کھائی تھی اور گرفتار بھی ہو گیا تھا۔ آگے چل کر طلیحہ نے سچے دل سے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ا س لڑائی سے کچھ دن پہلے طلیحہ نے ارتداد کے سلسلے میں عکاشہ بن محصن کو قتل کر دیا تھا۔ یہ قتل بہت مشہور ہو اتھا۔

اب نجف کے قریب طلیحہ واپس آنے سے انکار کر رہا تھا تو ایک مجاہد نے اسے اس قتل کا طعنہ دیا تھا ۔کوئی مجاہد یہ نہیں مان سکتا تھا کہ طلیحہ کسی نیک مقصد کیلئے پیچھے رُک رہا ہے۔ اس نے پہلے اسلام قبول کیا پھر مرتد ہو گیا بلکہ مرتدین کا لیڈر بن کر مسلمانوں کے خلاف لڑا اور شکست ہوئی تو پھر مسلمان ہو گیا اور اب اس کے ساتھی اس کی نیت پر بجا طور پر شک کر رہے تھے۔

اس نے واپس جانے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے ساتھی واپس چلے گئے اور اپنے سپہ سالار سعد ؓبن ابی وقاص کو بتایا کہ طلیحہ واپس نہیں آیا۔

’’اﷲ اسے سیدھا راستہ دکھائے۔‘‘ سعد ؓنے کہا اور آہ بھر کر خاموش ہو گئے۔

٭

رات کا وقت تھا۔رستم کے کیمپ میں موت کا سکوت تھا۔ چونکہ مسلمانوں کی چھاپہ مار ٹولیاں سرگرم تھیں، اس لیے یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ مسلمان خیمہ گاہ کے کسی نہ کسی گوشے پر شب خون ماریں گے۔ اس خطرے کے پیشِ نظر رستم نے حکم دیا تھا کہ سنتری بیدار اور ہوشیار کھڑے رہیں اور گھوڑے ایک جگہ نہ باندھیں۔ ہر سوار اپنا گھوڑا اپنے ساتھ رکھے اور گھوڑے کے قریب سوئے۔

رات کے سناٹے میں فارسیوں کے کیمپ کے اردگرد ٹہلتے ہوئے سنتریوں کے قدموں کی دھیمی دھیمی چاپ سنائی دیتی تھی اور کہیں د و سنتری آپس میں باتیں کرتے سنائی دیتے تھے۔ رات تاریک تھی۔

ایک سایہ کیمپ سے کچھ دور ایک درخت کی اوٹ سے نکلا اور آہستہ آہستہ کیمپ کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ کوئی آدمی تھا۔ رات کی تاریکی کے علاوہ وہاں سبزہ ،اونچی گھاس ،خودرو پودے اوردرخت اتنے زیادہ تھے کہ یہ سایہ کسی کو نظر نہیں آسکتا تھا ۔وہ دبے پاؤں بڑھتا چلا گیا۔

دو سنتری آرہے تھے ۔ان کے قدموں کی چاپ اور باتیں سنائی دے رہی تھیں۔ یہ آدمی پودوں کی اوٹ میں بیٹھ گیا ۔سنتری آگے نکل گئے تو وہ اٹھا اور جھک کر آگے بڑھا ۔تاریکی میں اسے گھوڑوں کے ہیولے نظر آنے لگے ۔شاید یہ جگہ یا گھوڑے اسے اچھے نہیں لگے تھے یا وہ کسی مخصوص شکار پر آیا تھا۔ وہ وہاں سے ایک طرف چل پڑا۔

آگے سے دو اور سنتری آرہے تھے ۔وہ گھاس میں لیٹ گیا ۔سنتری اس سے صرف ایک قدم دور سے آہستہ آہستہ گزر گئے ۔وہ پھر رکوع کی حالت میں چلنے لگا اور بہت سا چل کر رک گیا۔ اسے ایک چھوٹا سا خیمہ دکھائی دیا جو اس سے دور نہیں تھا۔ ایسے چھوٹے خیمے رومی اور فارسی فوج کے افسروں کے ہوتے تھے۔

اس خیمے کے ساتھ دو گھوڑے بندھے ہو ئے تھے اور ایک آدمی ان دو گھوڑوں کے قریب زمین پر بستر ڈال کر سویا ہو اتھا۔

وہ وہیں چھپ گیا۔ دو اور سنتری آرہے تھے ۔وہ اس وقت اٹھا جب سنتری دور چلے گئے ۔یہ خیمہ فوج سے ذرا ہٹ کر تھا۔ اس شخص نے نیام سے تلوار نکالی اور گھوڑوں کے پاس جا کر ایک گھوڑا کھولا ۔پھر دوسرا بھی کھول لیا۔ خیمے کے قریب سوئے ہوئے آدمی کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دیکھا کہ کسی نے گھوڑے کھول لیے ہیں تو وہ تلوار نکال کر اٹھا۔ وہ شخص دونوں گھوڑوں کے گلوں میں پڑی ہوئی رسیاں پکڑ کر چل پڑا تھا۔ فارسی فوجی نے اسے للکارا اور اس کے پیچھے بھاگا۔

اس کے ساتھ ہی خیمے سے آواز آئی۔’’ کون ہے؟ خاموش رہو۔ سونے دو ۔ ‘‘وہ کوئی افسر ہی ہو سکتا تھا۔

’’کوئی آدمی گھوڑے کھول کر لے جا رہا ہے۔‘‘ باہر والے فارسی نے کہا اور دوڑ کر گھوڑے لے جانے والے تک گیا۔

گھوڑے لے جانے والا دوڑ پڑا۔ لیکن فارسی نے اسے دور نہ جانے دیا ۔گھوڑے لے جانیو الے نے گھوڑے کی رسیاں نہ چھوڑیں اور تلوار سے فارسی کا مقابلہ کیا ۔دو تین پینترے بدل کر ہی اس فارسی کو اس طرح گھائل کیا کہ اس کی تلوار برچھی کی طرح فارسی کے پیٹ میں اتنی شور سے اتری کہ تلوار کی نوک پیٹھ سے باہر نکل گئی۔

علامہ شبلی نعمانی نے اس معرکے کو تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک فارسی کو تو اس شخص نے گرادیا لیکن خیمے سے نکل کر جو فارسی آیا وہ کوئی سپاہی یا معمولی سا عہدیدار نہیں تھا ۔وہ فارس کا ایک مشہور فوجی افسر تھا جسے ’’ہزار سوار‘‘ کا خطاب ملا ہو اتھا۔ یہ غیر معمولی بہادری کے صلے میں دیا جاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص ایک ہزار سواروں کے برابر ہے ۔یعنی یہ اکیلا ایک ہزار سواروں کا مقابلہ کرنے کی جرأت کا مالک ہے۔

علامہ شبلی نعمانی نے اس کا نام نہیں لکھا۔ ا س کے ہاتھ میں برچھی تھی۔ گھوڑے لے جانے والا کیمپ سے کچھ دور چلا گیا تھا۔ ہزار سوار نے اسے دور نہ جانے دیا۔ وہ شخص بھی رک گیا اور تلوار اور برچھی کا مقابلہ شروع ہو گیا۔ ہزار سوار نے برچھی کے جتنے بھی وار کیے وہ تلور والے نے اِدھر اُدھر ہو کر بیکار کر دیئے۔ یہاں تک کہ تلوار والا شاید زمین نا ہموار ہونے کی وجہ سے گر پڑا اور وہ پیٹھ کے بَل ہو گیا۔ ہزار سوار نے اوپر سے برچھی ماری جو گرے ہوئے شخص کے سینے یا پیٹ میں اتر جانی تھی لیکن وہ حیران کن پھرتی سے ایک طرف لڑھک گیا۔

برچھی کا وار بہت زور دار تھا۔ وہ شخص ایک طرف ہو گیا تو برچھی زمین میں اتر گئی۔ ہزار سوار اپنے جسم کو قابو اور توازن میں نہ رکھ سکا اور آگے کو ہو کر گرنے لگا ۔گرے ہوئے شخص نے لیٹے لیٹے تلوار کا وار برچھی کی طرح کیا اور تلوار ہزار سوار کے پہلو میں اتر گئی۔ اس کے ہاتھ برچھی سے ہٹ گئے۔ تلوار والا گیند کی طرح اچھل کر اٹھا ۔زمین میں اتری ہوئی برچھی نکالی۔ ہزار سوار گر پڑا تھا۔ تلوار والے نے برچھی ہزار سوار کے سینے میں اتار دی اور برچھی اس کے سینے میں ہی رہنے دی۔

محمد حسنین ہیکل نے بھی یہ واقعہ تین مسلمان اور ایک یورپی مؤرخ کے حوالوں سے تفصیل سے لکھا ہے۔ ہزار سوار مارا گیا تو ایک اور سوار فارسی تلوار لیے دوڑآیا ۔ اس نے جب دو لاشیں پڑی دیکھیں تو اس کی ہمت جواب دے گئی۔ اس نے اپنے آپ کو بچانے کیلئے تلوار چلائی لیکن پھر تلوار پھینک دی۔

’’کون ہے تو جس نے ہزار سوار کو مار ڈالا ہے؟‘‘ اس نے پوچھااور خوفزدہ آواز میں کہا۔’’ تو جو کوئی بھی ہے۔ مجھے اپنا قیدی سمجھ ۔میں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘

’’ایک گھوڑے پر سوار ہو جا۔‘‘ دوسرے شخص نے اس فارسی سے کہا۔’’ زینیں نہیں ہیں ۔مضبوطی سے بیٹھنا اور ا س گھوڑے کی رسی میرے ہاتھ رہے گی۔‘‘

’’جلدی کر۔‘‘ فارسی نے ایک گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہو کر کہا۔’’ میرے بھائی بند جاگ اٹھے ہیں۔‘‘

وہ شخص بھی گھوڑے پر سوار ہو گیا اور اتنے میں سنتری بھی آگئے اور ایسا شور اٹھا جیسے پورا کیمپ جاگ اٹھا ہو۔

’’گھوڑے کھُل گئے۔‘‘

’’ہزار سوار مارا گیا ہے۔‘‘

’’وہ گیا……آگے سے روکو‘‘

’’یہ کوئی عربی ہو گا۔‘‘

ایک شور تھا، ہنگامہ تھا ۔بیشمارفارسی فوجی گھوڑوں پر سوار برچھیاں اور تلواریں لیے دوڑ پڑے۔ دو گھوڑے اور ایک قیدی لے جانے والا شخص سر پٹ جا رہا تھا۔ دو گھوڑوں کے ٹاپ اس کی نشاندہی کررہے تھے۔ فارسی سواروں نے دائیں بائیں سے اسے گھیرے میں لیا تو وہ ان سواروں کے درمیان سے نکل گیا۔وہ کوئی شہسوار تھا جو ننگی پیٹھ پر سوار ہونے کے باوجود گھوڑے کو قابو میں رکھے ہوئے گھیرے سے نکل جاتا تھا۔

آخر وہ نکل گیا اور فارسی سوار واپس آگئے۔

٭

رستم بھی جاگ اٹھا۔ اپنی ایک میل سے زیادہ لمبائی اور اتنی ہی چوڑائی میں پھیلی ہوئی خیمہ گاہ میں مچی ہوئی ہڑبونگ نے اسے پریشان کر دیا۔

’’کیا ان بدبخت عربوں نے شب خون مارا ہے؟‘‘ اس نے گھبراہٹ آمیز آواز میں پوچھا اور کہا۔’’ ان سنتریوں کو زندہ جلا دو۔‘‘

’’کچھ معلوم نہیں کیا ہوا ہے عالی مقام! ‘‘اس کے ایک محافظ نے کہا۔’’پہاڑی کی طرف سے شور اٹھا تھا۔ جدھر ندی ہے۔‘‘

رستم شب خوابی کے لباس میں تھا ۔اسی لباس میں ایک محافظ کے گھوڑے پر سور ہوا اور گھوڑا دوڑاتا وہاں پہنچا جہاں ہزار سوار کی لاش اور ایک فارسی کی لاش پڑی تھی۔

فوری طور پر جو باتیں معلوم ہو سکیں وہ رستم کو بتائی گئیں ۔وہ مان نہیں رہا تھا کہ شب خون مارنے والا ایک آدمی تھا ۔تعاقب کرنے والوں نے بتایا کہ دو آدمی تھے ۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ دوسرا سوار ان کا اپنا ہی ساتھی تھا۔

’’ہزار سوار کو ایک یا دو آدمی قتل کر کے نہیں جا سکتے۔ ‘‘رستم نے کہا۔’’ یہ برچھی اس کی اپنی ہے جس سے اسے مارا گیا ہے……اگر قاتل اکیلا تھا یا دو تھے تو وہ انسان نہیں ہوسکتے ، جن یا بھوت ہوں گے۔‘‘

ہزار سوار کے ساتھ جو آدمی مارا گیاتھا ،وہ اس کا محافظ تھا۔ اس کے دو محافظ تھے جو اس کے خیمے کے باہر سوتے تھے ۔رستم نے پوچھا کہ دوسرا محافظ کہاں ہے؟ پتہ چلا کہ وہ لا پتہ ہے۔

رستم حیرت زدگی کے عالم میں وہاں سے چلا گیا ۔اس پرخاموشی طاری ہو گئی تھی۔

مسلمانوں کے پڑاؤ میں فجر کی اذان کی مقدس صدا اُبھرنے اور فارس کی فضا کی لہروں میں ارتعاش پیداکرنے لگی۔ سحر کے سناٹے میں اذان دور دور تک سنائی دے رہی تھی۔

’’سلمیٰ!‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنی بیوی سے کہا۔’’ رات بھر طلیحہ میرے دماغ پر سوار رہا ہے۔ وہ ایسا تو نہ تھا۔ وہ تو بہت ہی دلیر تھا۔ چٹانوں سے ٹکرا جاتا تھا۔ میں نے رات اسے خواب میں دیکھا ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا ہے کہ وہ ہمیں دھوکا دے گیا۔‘‘

’’وہ دھوکہ نہ دے جاتا تو کسی لڑائی میں شہید بھی ہو سکتا تھا۔‘‘ سلمیٰ نے کہا۔ ’’وہ نہ رہا تو کیا ہم واپس مدینہ چلے جائیں گے؟ مثنیٰ نہیں رہا تو کیا اسلام آگے بڑھنے سے رک جائے گا؟……خواب دیکھنا چھوڑ دیں ابنِ وقاص! وہ جو ہم سے جدا ہو گئے ہیں انہیں خوابوں میں بھی نہ دیکھا کریں……جائیں، جا کر نماز ادا کریں۔‘‘

سعدؓ نے جا کر با جماعت نما ز پڑھائی۔ نما ز اور دعا کے بعد کسی سالار نے طلیحہ کا ذکر چھیڑ دیا۔ طلیحہ کا تفصیلی ذکر ہو چکا ہے۔ وہ کوئی عام سا آدمی ہوتا تو مجاہدین میں اس کا ذرا سا ذکر ہوتا ،سالارووں کے حلقے میں تو اس کا ذرا سا بھی ذکر نہ ہوتا۔

صبح کی خاموش فضا میں گھوڑوں کے ٹاپ سنائی دینے لگے۔ پھر گھوڑے سر پٹ دوڑ پڑے۔ سب نے اُدھر دیکھا۔ دو گھوڑے دوڑے آرہے تھے۔ دونوں پر سوار تھے اور گھوڑے زینوں کے بغیر تھے۔

’’طلیحہ……طلیحہ!‘‘مجاہدین چلّانے لگے۔

’’سپہ سالار کہاں ہیں؟‘‘ طلیحہ نے قریب آکر پوچھا۔

سعدؓ بن ابی وقاص مجاہدین کے ہجوم کو چیرتے ہوئے ان دو گھوڑوں کی طرف گئے۔ طلیحہ گھوڑے سے کود ا اور دوسرے لمحے میں وہ سعدؓ کے بازوؤں میں تھا۔

’’کہاں ہیں میرے وہ ساتھی جنہوں نے میری نیت پر شک کیا تھا؟ ‘‘طلیحہ نے بلند آواز سے کہا۔’’خداکی قسم ‘میں محمد ﷺ کی مقدس روح کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ یہ دیکھو ‘رستم کے لشکر کے اندر جاکر دو گھوڑے کھول کر اور دو لشکریوں کو قتل کرکے ایک کو زندہ پکڑ لایا ہوں۔

’’اور یہ جنہیں قتل کر آیا ہے وہ معمولی سپاہی نہیں تھے ۔‘‘طلیحہ کے قیدی نے کہا۔

یہ حقیقت اس قیدی سے معلوم ہوئی کہ طلیحہ نے جن دو آدمیوں کو قتل کیا ہے وہ دونوں فارس کی فوج کے سورمے تھے اور ان میں ایک افسر تھا جسے ہزارسوار خطاب ملا ہوا تھا۔ طلیحہ کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کا مقابلہ کن کے ساتھ ہے۔

’’میرا مقابلہ پورے لشکر کے ساتھ تھا۔‘‘ طلیحہ نے کہا۔’’ میں رستم کو صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ قادسیہ کے میدان میں ذرا سنبھل کر آنا۔‘‘

یہ تاریخی واقعہ اس طرح انجام پزیر ہوا کہ جس فارسی کو طلیحہ قیدی بناکر لایا تھا، اس نے اسلام قبول کرلیا۔ یہ ایسے ہی نہیں ہوا تھا کہ اس نے خوفزدہ ہو کراسلام قبول کر لیا ہو۔ ایک تو وہ طلیحہ کی غیر معمولی جرأت سے متاثر ہوا اور پھر وہ مسلمانوں کے حسنِ سلوک سے تو اور زیادہ متاثر ہوا۔ ان میں ادنیٰ اور اعلیٰ کی تمیز تھی ہی نہیں۔

تاریخ میں اس فارسی کا نام نہیں ملتا ۔بلاذری نے لکھا ہے کہ اس فارسی نے کہا تھا کہ جن دو آدمیوں کو طلیحہ ہلاک کر آیا ہے وہ دونوں اس کے چچا زاد بھائی تھے۔ اس کے باوجود وہ طلیحہ کی بہادری اورمسلمانوں کے باہمی پیار سے اتنا متاثر ہوا کہ وہ بخوشی مسلمان ہو گیا ۔اس کا اسلامی نام تاریخ میں موجود ہے۔ سعدؓ بن ابی وقاص نے اس کا نام’’ مسلم ‘‘رکھا تھا۔

٭

’’مسلم!‘‘سعدؓ بن ابی وقاص نے اسے اپنے خیمے میں لے جاکر پوچھا۔ ’’میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا۔ تمہیں کوئی لالچ نہیں دوں گا اور تم پر تشدد نہیں کروں گا……کیا تم اپنی فوج کے متعلق کوئی ایسی بات بتا سکتے ہو جو ہمارے کام آئے؟‘‘

’’اپنے متعلق دو باتیں بتالوں۔‘‘ مسلم نے کہا۔’’ یہ میرے دل کی آواز تھی کہ میں مسلمان ہو جاؤں وہ میں ہو گیا۔ دوسری بات یہ کہ میں اس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں جو شاہی اور فوج کے بالائی حلقوں میں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے میں محل کے اندر کی اورجرنیلوں کی آپس کی چپقلش اور ان کے خیالات اور سوچوں سے بھی اچھی طرح واقف ہوں……‘‘

’’میں آپ کی فوج کیخلاف تین لڑائیاں لڑ چکا ہوں ۔آپ کی فوج ہر میدان میں کم ہوتی ہے۔ پھر بھی آپ کی فوج جیت جاتی ہے۔ اب رستم سوا لاکھ نفری کی فوج لایا ہے۔ میں نے ابھی دیکھا نہیں کہ اب آپ کے ساتھ کتنی فوج ہے۔‘‘

’’شاید چالیس ہزارپوری نہیں۔‘‘سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔

’’اگر آپ کے آدمیوں نے حوصلہ قائم رکھا تو رستم کی سوا لاکھ فوج کو آپ شکست دے سکتے ہیں۔‘‘ مسلم نے کہا۔’’ رستم نے اپنے آپ کو اوردوسرے جرنیلوں کو بھی یقین دلا رکھا ہے کہ فارس کی سلطنت اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔‘‘

’’سنا ہے وہ نجوم اور جو تش پر بھروسہ کرتا ہے۔‘‘ سعدؓ نے کہا۔

’’زائچہ نکالے بغیر وہ آگے نہیں بڑھتا۔‘‘ مسلم نے کہا۔ ’’آپ اس کا حوصلہ توڑ سکتے ہیں۔ آپ کا رعب اور دبدہ ہماری فوج پر اور ہمارے لوگوں پر موجود ہے۔ مجھے ممکن نظر نہیں آتا کہ چالیس ہزار نفری کی فوج سوا لاکھ فوج کے آگے ٹھہر سکے گی۔ میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ آ پ نے عقل سے کام لیا اور فوج کی صحیح تقسیم کرکے ہر دستے کو اپنے قابو میں رکھا توفتح آپ کی ہو گی۔‘‘

’’ہاتھی کتنے ہوں گے؟‘‘

’’پورے چالیس نہیں ہوں گے۔‘‘ مسلم نے جواب دیا۔’’ ایک سفید ہاتھی بھی ہو گا۔ ہاتھیوں کو تو آپ نے پہلے بھی کاٹا ہے۔ اب بھی کاٹ سکتے ہیں……‘‘

اس حقیقت کا ذکر تقریباً ہر مؤرخ نے کیا ہے کہ اس نو مسلم فارسی نے سعد ؓکو کچھ اور باتیں بھی بتائی تھیں۔ جن کو سامنے رکھ کر سعدؓ نے قادسیہ کی جنگ کا پلان بنایا تھا۔ مسلم نے ٹھیک کہاتھا کہ سعدؓ بن ابی وقاص کو یہ جنگ عقل اور جذبے سے لڑنی تھی۔ ورنہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ چالیس ہزار نفری کی فوج ایک لاکھ بیس ہزار نفری کی فوج کے مقابلے میں کھڑی بھی ہو سکتی ہے۔

سعدؓ بن ابی وقاص کو ایک اور دشواری نظر آرہی تھی۔ وہ یہ کہ ان کی ایک ٹانگ دردِ عرق النساء سے بیکار ہوتی جا رہی تھی۔ طبیب جتنا علاج کرتے تھے ۔درد اتنا ہی بڑھتا جا رہا تھا۔ جوں جوں لڑائی قریب آتی جا رہی تھی، سعدؓ اس ٹانگ سے معذور ہوتے جا رہے تھے ۔لیکن حضرت عمرؓ کو وہ پیغامات باقاعدگی سے بھیجتے تھے ۔ان پیغامات میں انہوں نے ٹانگ کی تکلیف کا ذکر کبھی نہیں کیا تھا۔

٭

رستم آخر کار قادسیہ پہنچ گیا۔ تاریخ کے مطابق رستم نے مدائن سے قادسیہ پہنچنے میں چار مہینے گزار دیئے تھے۔ مدائن سے قادسیہ تک کا فاصلہ صرف پینتیس چھتیس میل تھا ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لڑنے سے گریزکر رہا تھا۔ اس نے اپنے جرنیلوں کو بھی کسی حد تک اپنا ہم خیال بنا لیا تھا۔ لیکن طلیحہ ان کے دو گھوڑے کھول کر اور ان کے ہزار سوار اور ایسے ہی ایک اورسورماکو قتل کرکے ایک سورما کو زندہ لے گیا تو جرنیلوں نے رستم پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیاکہ لڑائی ٹالتے چلے جانے سے مسلمان اتنے دلیرہوگئے ہیں کہ ان کی بستیو ں کو لُوٹتے پھر رہے ہیں اور خیمہ گاہ کے اندر آکر گھوڑے کھول کر لے گئے ہیں۔ا س لیے اب آگے بڑھ کر مسلمانوں کو للکارنا پڑے گا۔

رستم آخر کار قادسیہ آگیا۔ سعد ؓبن ابی وقاص اپنے لشکر کے ساتھ وہاں پہنچ چکے تھے۔ رستم نے اپنی ایک لاکھ بیس ہزار فوج کو جنگی ترتیب میں کردیا۔ لیکن ابھی اس کا ارادہ لڑنے کا نہیں تھا۔ اپنی فوج کے آگے اس نے ہاتھیوں کو کھڑا کیا تھا ۔اس ترتیب میں فوج کو کھڑاکرنے کا مقصدمسلمانوں پر رعب طاری کرنا تھا۔لیکن رستم نے اپنے جرنیلوں کو بلایا۔

’’میں جانتاہوں کہ مجھ پر بزدلی کا الزام عائدکیا جا رہا ہے۔‘‘ رستم نے جرنیلوں سے کہا۔’’ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم میں ایسے بھی ہیں جو میرے خیال کو اور میرے قیافے کو سمجھ گئے ہیں ۔میں آج تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں نے کیا سوچا ہے۔ میری یہ پیشن گوئی غلط نہیں ہو سکتی کہ سلطنتِ فارس پر بہت برے سائے پڑ گئے ہیں۔ میں اس انتظار میں اس لڑائی کو ٹالتا رہا ہوں کہ ہو سکتا ہے یہ سائے ہٹ جائیں……

دوسری وجہ یہ تھی کہ میں اس امید پر مسلمانوں کو للکارنے سے گریز کر تا رہا ہوں کہ مسلمان خوراک کی قلت سے تنگ آکر واپس چلے جائیں گے ۔وہ ہماری بستیوں کو لوٹتے رہے لیکن میں نے جالینوس کوچالیس ہزار فوج دے کر کہا تھا کہ اس فوج کو مختلف علاقوں میں پھیلا کر بستیوں کو تحفظ دیا جائے۔ اس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ مسلمانوں کے حملے بند ہو گئے۔ اب وہ لازماً اناج وغیرہ کی قلت محسوس کر رہے ہوں گے……

اب میں مسلمانوں میں ایسا اختلاف پیدا کردوں گا کہ وہ آپس میں لڑ پڑیں گے۔ میں ابھی لڑنا شروع نہیں کروں گا۔ میں مسلمانوں کو پیغام بھیجوں گا کہ میرے ساتھ صلح کی بات کریں۔ میں انہیں ایسے جھانسے دوں گا کہ وہ آپس میں بحث و مباحثے میں الجھ جائیں گے اور ان میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں لڑائی ملتوی ہوتی چلی جائے گی۔ ہم نے اپنی بستیوں کو محفوظ کر کے عربوں کیلئے رسد حاصل کرنے کے ذرائع بند کر دیئے ہیں ۔یہ بد بخت بھوک سے پریشان ہو کر فارس سے نکل جائیں گے ۔ہم انہیں زندہ نہیں نکلنے دیں گے ۔عقب سے ان پر حملے کرتے رہیں گے۔ ہمارا کوئی حملہ آور دستہ جم کر نہیں لڑے گا۔ حملہ کرے گا اور جتنا نقصان کر سکتا ہے کرکے نکل جائے گا۔میں تم سب کا تعاون چاہتا ہوں۔‘‘

تمام جرنیلوں نے اس کو تعاون کا یقین دلایا۔

٭

اگلی صبح سعدؓ بن ابی وقاص کو اطلاع دی گئی کہ رستم کا ایلچی آیا ہے۔ اسے سعدؓ نے خیمے میں بلالیا ۔اپنے ماتحت سالاروں کو بھی طلب کیا اور مترجم کو بھی بلایا۔ مترجم کا نام ہلال حجری تھا۔ وہ عرب اور عجم کی زبانیں مہارت سے سمجھتا اور بولتا تھا۔ وہ مدینے سے لشکر کے ساتھ آیا تھا۔

ایلچی جس انداز سے خیمے میں داخل ہوا، اس میں رعونت کی جھلک نمایاں تھی۔ اس کا لباس شاہانہ تھا۔ سر پر جو آہنی خود تھی وہ آئینے کی طرح چمک رہی تھی۔ اگر لباس ہی برتری کامعیارتھا تو مسلمان اس کے نوکر چاکر لگتے تھے۔ اس نے جن نگاہوں سے سعدؓ اور دوسرے سالاروں کو دیکھا ،ان نگاہوں میں حقارت کا تاثر تھا۔

’’اے فارس کے ایلچی!‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ ہم نے تیری شان و شوکت دیکھ لی ہے۔ کیا تو اپنے آنے کا مقصد نہیں بتائے گا؟‘‘

’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگوں کے پاس ہے ہی کیا؟‘‘ایلچی نے کہا۔ ’’تمہارے ہتھیار دیکھے ہیں ، ان گھسے پِٹے ہتھیاروں سے تم ہمارا مقابلہ کس طرح کرو گے؟ ……اپنی تعداد دیکھو۔‘‘

’’کیا تم فارس کے بادشاہ ہو؟‘‘ سعدؓ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

’’نہیں!‘‘

’’کیا تم رستم ہو؟‘‘

’’نہیں!‘‘ ایلچی نے کہا۔

’’پھر وہ پیغام دو جو رستم نے تمہیں دیا ہے۔‘‘ سپہ سالار سعدؓ نے کہا۔

’’ہاں!‘‘ ایلچی نے بوکھلا کر کہا۔’’ ہمارے کماندارِ اعلیٰ تمہارے ساتھ صلح کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی ا یسا آدمی بھیجیں جو فیصلۃً بات کر سکتا ہو……آج ہی کسی کو بھیج دیں۔‘‘

’’ہمارا ایلچی آج شام سے پہلے تمہارے کماندارِ اعلیٰ کے پاس پہنچ جائے گا۔‘‘ سعدؓ نے کہا۔

رستم کاایلچی چلا گیا۔

ظہر کی نماز کے بعد سعدؓ نے اپنے ایک دانشمند ساتھی ربعی بن عامر کو رستم کے پاس جانے کیلئے ایلچی منتخب کیا اور اسے کچھ ہدایات دیں۔

جس وقت رستم کا ایلچی آیا تھا، اس وقت ربعی بن عامر بھی سعدؓ کے خیمے میں موجود تھا۔ اس نے دیکھا کہ رستم کے ایلچی نے مسلمانوں کے ہتھیاروں کا مذا ق اڑایا تھا۔ تاریخِ طبری میں بڑا ہی دلچسپ واقعہ تحریر ہے۔ جو عربوں کی بذلہ سنجی اور زندہ دلی کی ایک مثال ہے۔

ربعی بن عامر نے عرق گیر)ٹین نما(کے ایک ٹکڑے کو موڑ کر زرہ بنائی اور پہن لی اور ٹین کی ہی فضول سی ٹوپی بنا کر سر پر رکھ لی۔ یہ فارسیوں کی آہنی خود کا مذاق تھا۔ ٹین اتنا پتلا اور کمزور تھا کہ ہاتھ سے مڑ جاتا تھا۔ ربعی کی تلوار نیام میں تھی لیکن اس نے نیام پر گندے اور بوسیدہ کپڑے لپیٹ لیے جیسے تلوار چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی ہو ۔کمر کے گرد ا س نے ایک رسی باندھ لی۔ ایک برچھی ہاتھ میں لے لی ،جس کی انّی تو ٹھیک تھی لیکن اوپر سے لکڑی فٹ ڈیڑھ فٹ ٹوٹی ہوئی تھی۔

ربعی بن عامر وہاں سے چلا تو اس کے ساتھیوں نے بیساختہ قہقہوں سے اسے رخصت کیا۔ وہ پاگل لگتا تھا جس نے فارس کے فوجیوں کی نقل اتاری تھی۔

اِدھر یہ مسلمان تھے جن کا سپہ سالار معمولی سے خیمے میں سپاہیوں کی طرح رہتا تھا اُدھر فارس کا سپہ سالار رستم تھا جس نے وہاں جنگل میں بادشاہوں جیسا دربار آراستہ کر رکھا تھا۔ طبری اور ابنِ خلکان نے لکھا ہے کہ رستم کو چونکہ بتا دیا گیا تھا کہ آج مسلمانوں کا ایلچی آئے گا ۔اس لئے اس نے اپنی شاہانہ شان و شوکت اور جاہ و جلال کا اہتمام کر رکھا تھا۔

ایک بیش قیمت کپڑے کا وسیع وعریض شامیانہ تنا ہوا تھا۔ جس میں شیشوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اور رنگا رنگ موتی سلے ہوئے تھے۔ تین اطراف ایسی ہی دلفریب رنگوں والی قناتیں لگی ہوئی تھیں ۔نیچے شامیانے کی لمبائی چوڑائی کے برابر ہی قیمتی اور خوش رنگ قالین بچھا ہوا تھا۔ سامنے ایک مسند تھی اور ہر طرف گاؤ تکیے رکھے ہوئے تھے، جن کے ریشمی غلاف تھے ۔سامنے قنات نہیں تھی ۔اِدھر سے اس دربار میں داخل ہوتے تھے۔

ربعی بن عامر گھوڑے پر سوار تھا۔ اس نے جب فارسیوں کی خیمہ گاہ میں داخل ہو کر بتایا کہ وہ مسلمانوں کا ایلچی ہے اور رستم سے ملنے آیا ہے تو اسے یہ بتانے کی بجائے کہ اسے رستم کہاں ملے گا ،فوجیوں نے ہنس ہنس کا اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ وہ اس پر پھبتیاں کس رہے تھے۔

کسی نے رستم کو اطلاع دے دی کہ مسلمانوں کا ایلچی آرہا ہے۔ وہ جلدی جلدی شاہانہ لباس پہن کر اس فرشی مسند پر جا بیٹھا جو ا س کیلئے دربار میں رکھی گئی تھی۔ تمام جرنیل اور ان کے نائبین دربار میں گاؤتکیوں کے ساتھ بیٹھ گئے ۔رستم نے دور سے ربعی بن عامر کو آتا دیکھ لیا تو اس کے چہرے پر حقارت کا تاثر آگیا۔

’’عربوں کا ایلچی دیکھو۔ ‘‘رستم نے کہا۔’’ بد بخت بھکاری چلا آرہا ہے۔‘‘

دربار میں قہقہہ بلند ہوا۔

ربعی بن عامر قریب پہنچا تو مسافروں نے انہیں روک لیا۔

’’کیوں؟ ‘‘ربعی نے پوچھا۔’’ روکا کیوں ہے؟ کیا تمہیں کسی نے بتایا نہیں ہے کہ میں مسلمانوں کا ایلچی ہوں۔‘‘

’’اسی لیے تو تمہیں روکا ہے۔‘‘ محافظوں کے کمانڈر نے کہا۔’’ تم دربار میں جا رہے ہو۔ ہتھیار ساتھ لے جانا دربار کے آداب کے خلاف ہے ۔برچھی اور تلوار ہمیں دے دو اور دربار میں جاؤ۔ عالی جاہ رستم تمہارے منتظر ہیں ۔گھوڑا بھی یہیں چھوڑ دو۔‘‘

’’میں آیا نہیں ہوں۔‘‘ ربعی نے کہا۔’’ مجھے بلایا گیا ہے ۔کہتے ہو تو میں یہیں سے واپس چلا جاتا ہوں۔ ہتھیار بھی نہیں دوں گا گھوڑا بھی نہیں دوں گا۔‘‘

’’کیا ہو رہا ہے وہاں؟‘‘رستم نے بلند آواز سے پوچھا۔

’’یہ ہتھیار نہیں دے رہا عالی جاہ!‘‘ محافظوں کے کمانڈر نے کہا۔

’’آنے دو اسے!‘‘ رستم نے حکم دیا۔

ربعی بن عامر گھوڑے سے نہیں اُترا اور دربار تک چلا گیا۔ اس طرف قنات نہیں تھی ۔ربعی دربار میں پہنچ کر گھوڑے سے اُترا اور گھوڑے کو قالین پر لے گیا۔ دائیں بائیں دیکھا اور ایک گاؤ تکیے کی طرف چل پڑا۔ رستم اور دوسرے جرنیل حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ یہ پگلا کیا کر رہا ہے۔ اس نے گھوڑے کی باگ ایک گاؤ تکیے کے گرد لپیٹ کر گھوڑا وہیں چھوڑا اور رستم کی طرف چل پڑا۔

رستم کی طرف اس کے چلنے کایہ انداز تھا کہ اس نے برچھی اس طرح پکڑ رکھی تھی۔ جس طرح لاٹھی پکڑ کر اس کے سہارے چلا جاتا ہے۔ برچھی کی انّی نیچے کو تھی۔ ربعی اس طرح چل رہا تھا جس طرح اندھا لاٹھی کے سہارے چلتا ہے ۔ربعی ہر قدم پر برچھی زور سے زمین پر مارتا جاتا تھا ۔برچھی کی انّی قالین میں سوراخ کرکے زمین میں اتر جاتی تھی ۔اس طرح وہ اتنے قیمتی قالین میں سوراخ کرتا گیا۔ رستم اور درباری اسے دیکھتے رہے۔ انہیں غالباً پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اس شخص سے کیا کہیں۔ بعض جرنیلوں کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی۔

ربعی رستم کے سامنے جا رُکا اور برچھی زور سے زمین پر ماری۔ انّی قالین کو کاٹتی زمین میں اتر گئی۔ ربعی نے برچھی وہیں رہنے دی اور رستم کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ رستم نے سر سے پاؤں تک اس کی ہئیتِ کذائی دیکھی اور اتنا بھی نہ کہا کہ بیٹھ جاؤ۔

’’کیا لینے آئے ہو ہمارے ملک میں؟ ‘‘رستم نے حقارت آمیز لہجے میں پوچھا۔

’’ہم اس ملک میں اس لئے آئے ہیں کہ مخلوق کے بجائے خالق کی مدد کی جائے۔‘‘ ربعی بن عامر نے کہا۔’’ ہمارا پیغام تمہارے شہنشاہ تک پہنچ چکا ہے اور ہم اپنی شرطیں بھی بتا چکے ہیں۔‘‘

’’میں اپنے مشیروں اور ساتھیوں سے مشورہ کرکے جواب دوں گا ۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ تمہیں ایک بار پھر آنا پڑے گا۔‘‘

صلح کی بات چیت اسی مختصر مکالمے میں ختم ہو گئی۔ ایک جرنیل اُٹھا اور زمین میں گڑھی ہوئی ربعی کی برچھی دیکھی جو اوپر سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ پھراس نے ربعی کی زرہ پر ہاتھ مارا جو دراصل ٹین کی چادر تھی، پھر ا س نے ان چیتھڑوں پر ہاتھ پھیرا جو نیام میں لپٹے ہوئے تھے۔

’’اے عربی! ‘‘اس جرنیل نے طنزیہ کہا۔’’کیا ان ہتھیاروں سے تم فارس کو فتح کرنے آئے ہو؟‘‘

ربعی نے اتنی تیزی سے تلوار نکال کر سونت لی کہ جرنیل اچھل کر دور ہٹ گیا۔ ربعی ایک جگہ کھڑے کھڑے چاروں طرف گھوما۔ اس کے چہرے پر میدانِ جنگ والا عتاب آگیا تھا۔

’’کون ہے یہاں تلوار کا دھنی؟‘‘ربعی نے کہا۔’’ اُٹھے اور میرے مقابلے میں آئے……کوئی بہادر اٹھے ، پھر میں تمہیں جواب دوں گا کہ میں اس تلوار سے فارس کو فتح کر سکتا ہوں یا نہیں۔‘‘

وہ آہستہ آہستہ کھڑا ایک ہی جگہ کھڑا گھومتا رہا۔ اس نے ہر جرنیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ وہ سب جرنیل تھے۔ ایک سے ایک تلوار کا دھنی تھا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی رستم کی اجازت کے بغیر مقابلے کیلئے نہیں اُٹھ سکتا تھا۔ تاریخ کہتی ہے کہ رستم نے اشارہ کر دیا تھا کہ کوئی نہ اٹھے اور اسے جانے دیں۔

’’کوئی نہیں! ‘‘ربعی نے کہااور رستم سے مخاطب ہوا۔’’ تمہارے پاس ہمارا ایک اور ایلچی آئے گا ……سوچ کر جواب دینا رستم!‘‘

ربعی نے اپنی ٹوٹی ہوئی برچھی وہیں گڑھی رہنے دی ۔ تلوار نیام میں ڈالی۔ اپنے گھوڑے تک گیا ،باگ گاؤ تکیے سے نکال کر ہاتھ میں لی ۔گھوڑے پر سوار ہوا اور چلا گیا۔

ان مذاکرات میں جو مترجم تھا ،اس کا نام عبود تھا۔ وہ حیرہ کا رہنے والا غیر مسلم تھا۔

٭

ربعی نے واپس آکر سعد ؓبن ابی وقاص کو بتایا کہ رستم نے دربار آراستہ کر رکھا تھا اور وہاں کیا ہوا ہے۔ ربعی نے فارسیوں کی دولت اور جا و جلال کو پوری تفصیل سے بیان کیا۔ اس نے رستم کے لشکر کو بڑی ہی اچھی طرح دیکھا تھا۔ یہ تو دیکھنا ہی تھا کیونکہ اسی لشکر سے انہوں نے لڑنا تھا۔ ربعی نے سعدؓ کو بتایا کہ فارسیوں کا لشکر کتنا بڑا ہے اور ان کے ہتھیار کتنے اچھے ہیں ۔اس نے کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اس لشکر میں اتنے انسان نہیں جتنے گھوڑے ہیں۔

امیر المومنین حضرت عمرؓ کے حکم کے مطابق سعد ؓانہیں مسلسل محاذ کے حالات لکھ رہے تھے اور حضر ت عمرؓ انہیں ہدایات بھیج رہے تھے۔ امیر المومنین ؓنے یہ بات متعدد بار لکھی تھی کہ فارسیوں کی شاہانہ شان و شوکت ، ان کی فوج کی افراط اور ہتھیاروں کی برتری سے مرعوب نہ ہونا۔ تمہارے پاس جو جذبہ ہے اس سے تمہارا دشمن محروم ہے۔ یہی ا سکی کمزوری اور یہی تمہاری طاقت ہے۔

’’رستم کے اگلے پیغام کا انتظار کرو۔‘‘ سعد ؓبن ابی وقاص نے کہا۔’’ صلح کرنے کا حاجت مندوہ ہے، ہم نہیں۔‘‘

سعدؓ کا جوش اور جذبہ تو بڑھتا جا رہا تھا لیکن عرق النساء کا درد بڑھ گیا تھا۔ اب یہ حالت ہو گئی تھی کہ وہ اس ٹانگ پرکھڑے تو ہو جاتے تھے ، مگر چل نہیں سکتے تھے۔ انہیں سہارا دینا پڑتا تھا۔ گھوڑ سواری بھی ان کیلئے ممکن نہیں رہی تھی۔

پھر ایک روز رستم کا قاصد پیغام لے کر آگیا کہ اپنا کوئی نمائندہ بھیجو۔

’’……اور یہ نمائندہ کوئی دانشمند ہو۔‘‘ ایلچی نے کہا۔’’ ایسا دانشمند جو اچھی طرح واضح کر سکے کہ تم لوگوں کا مدعا اور مقصد کیا ہے۔‘‘

’’خدا کی قسم! فارس میں دانشمندوں کا قحط ہے۔‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ مدعا اور مقصد تمہارے بادشاہ کو بڑی اچھی طرح بتا دیا گیا تھا ۔تمہارے سب سے بڑے سپہ سالار رستم کو بھی معلوم ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں ۔یہ بتاؤ رستم کیا چاہتا ہے؟‘‘

’’اس سوال کا جواب رستم ہی دے سکتا ہے۔‘‘ ایلچی نے کہا۔’’ آپ اپنا نمائندہ بھیجیں ۔‘‘

’’کل صبح ہمارا نمائندہ آئے گا۔‘‘ سعدؓ نے کہا۔

ایلچی چلا گیا ۔ایک صحابی مغیرہؓ بن شعبہ سعدؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔

’’ابنِ شعبہ! ‘‘سعد ؓنے کہا۔’’ اب تو ہی جا۔ واﷲ، اس رستم کا دماغ شیطان کے قبضے میں معلوم ہوتا ہے۔ ہماری بات سمجھتے ہوئے بھی کہتا ہے کہ کچھ نہیں سمجھا۔ وہ کوئی تیاری مکمل کرنے کیلئے وقت چاہتا ہے یا اس کا دماغ کسی سازش پر کام کر رہا ہے۔ تو جا اور اس کے ساتھ آخری بات کر کے آ۔ اسے کہنا کہ اب ہمارا کوئی ایلچی یا نمائندہ تمہارے پاس نہیں آئے گا۔‘‘

’’میں کوشش کروں گا۔‘‘ مغیرہؓ نے کہا۔’’ میں پوری کوشش کروں گا کہ وہ مشتعل ہو جائے اور ہمیں للکارے ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ یہ کفار اسلام قبول کر لیں گے۔‘‘

٭

اگلی صبح جب مغیرہؓ بن شعبہ رستم سے ملنے گئے تو رستم نے پہلے کی طرح دربار سجا رکھا تھا۔ اب دربار کی سج دھج پہلے سے زیادہ تھی۔ رستم مسند پر بیٹھا تھا اور اس کے پیچھے دو چوبدار کھڑے تھے ۔ دو چوبندار ہاتھوں میں برچھیاں لیے اس طرف بھی کھڑے تھے جدھر سے دربار میں داخل ہو اجاتا تھا۔ دربار میں اس دن کی طرح جرنیل بیٹھے تھے ۔ان کے لباس زرق برق اور ایسے شاہانہ تھے کہ ایک سادگی پسند صحابی کو وہ سب بادشاہ اور شہزادے لگتے تھے۔

مؤرخ لکھتے ہیں کہ مغیرہؓ گھوڑے سے اُترے۔ انہیں کسی نے نہ کہا کہ دربار میں کوئی ہتھیار لے کر نہ جائیں ۔مغیرہؓ شامیانے اور قناطوں کے دربار میں داخل ہوئے ۔انہوں نے جھک کر فرشی سلام نہ کیا نہ دربار کے آداب کی پرواہ کی۔ بلند آواز سے السلام و علیکم کہی اور سیدھے رستم تک پہنچے ۔اسے بھی جھک کر سلام نہ کیا بلکہ آگے بڑھ کر اس کے پہلو میں مسند پر بیٹھ گئے۔

درباریوں پر سناٹا طاری ہو گیا۔ دو جرنیل اٹھ کھڑے ہوئے۔

’’ہم اپنے کماندارِ علیٰ کی یہ توہین برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘ ایک جرنیل نے کہا۔’’ ہم عرب کے اس لٹیرے کو یہ اعزاز نہیں دے سکتے کہ وہ فخرِ فارس رستم کی برابری میں اس کی مسند پر بیٹھ جائے۔‘‘

’’اٹھا دو اسے وہاں سے۔ ‘‘ ایک جرنیل نے گرج کر کہا۔

رستم خاموش تھا اور اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔دربار میں کچھ اور آوزیں بھی سنائی دیں۔ سب مغیرہ ؓکی جسارت کے خلاف بول رہے تھے۔ ایک چوبدار جو رستم کے قریب کھڑا تھا۔ آگے آیا اور اس نے مغیرہ ؓ کو بازو سے پکڑ کر اٹھا دیا۔

’’میں خود تو نہیں آیا۔‘‘ مغیرہؓ نے رستم سے کہا۔’’ تمہارے بلانے پر آیا ہوں ۔میں حیران ہوں کہ تم اپنے مہمان کے ساتھ یہ نازیبا سلوک کر رہے ہو۔ ہمارے یہاں یہ دستور نہیں کہ ایک آدمی خدا بن کر بیٹھ جائے اور باقی لوگ اسکے غلاموں کی طرح کھڑے رہیں۔ اور کوئی آدمی اس کی برابری میں بیٹھنے کی جرأت نہ کر سکے۔ میں اپنی یہ بے عزتی برداشت نہیں کروں گا۔ کیا میرے لیے یہ بہتر نہیں کہ میں چلا جاؤں ۔آج کے بعد ہمارا کوئی نمائندہ نہیں آئے گا۔ تمہارے ساتھ ہماری اگلی ملاقات میدانِ جنگ میں ہو گی۔‘‘

بلاذری نے لکھا ہے کہ مترجم حیرہ کا رہنے والا عبود تھا۔ اس نے مغیرہ ؓکی بات کا ترجمہ رستم کو سنایا۔

’’نہیں!‘‘ رستم نے کہا۔’’ میں نے کسی کو حکم نہیں دیا تھا کہ تمہیں یہاں سے اٹھا دیا جائے اور میرا یہ منشاء بھی نہ تھا ۔تم بیٹھو اور اطمینان سے بات کرو۔‘‘

’’اب تم بات کرو رستم !‘‘مغیرہ ؓنے کہا۔’’ ہم اپنی بات تمہارے بادشاہ تک پہنچا چکے ہیں اور ہمارے کئی ایلچی تمہارے بلانے پر آئے اور تمہیں بتا گئے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ ہم جو کہتے ہیں یہ اﷲ کا حکم ہے۔ ‘‘

’’ایک بار پھر کہو۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ میں جوا ب دوں گا۔‘‘

’’اور میں اسے آخری جواب سمجھوں گا ۔‘‘مغیرہؓ نے کہا ۔’’اس کے بعد ہمارا کوئی آدمی یہاں نہیں آئے گا۔ ہم تمہیں قبولِ اسلام کی دعوت دیتے ہیں ۔اسلام میں عبادت کے لائق اﷲ ہے اور اﷲ واحدہ لا شریک ہے ۔تم جس سورج کی عبادت کر تے ہو وہ سورج اﷲ کی تخلیق ہے اور سورج اﷲ کے حکم کا پابند ہے اور جس آگ کو تم پوجتے ہو اسے انسان ہی جلاتا اور انسان ہی بجھاتا ہے،اور تسلیم کرو کہ محمد ﷺ اﷲ کے بندے اور رسول ہیں اور تسلیم کرو کہ اسلام اﷲ کا سچا دین ہے۔ ‘‘

’’ہم تمہارا دین قبول کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔‘‘ رستم نے کہا۔

’’پھر جزیہ دو۔‘‘ مغیرہ ؓنے کہا۔

’’میرے عربی دوست!‘‘ رستم نے کہا۔’’ شہنشاہِ فارس تمہاری بھلائی کی بات کہہ چکے ہیں۔ تم لوگ ہمارا جو نقصان کر چکے ہو اور ہماری رعایا کو جتنا بھی لوٹ چکے ہو ،ہم سب تمہیں معاف کرتے ہیں ۔تم لوگ ہمارے ملک سے نکل جاؤ۔ ہم تمہیں اتنا زیادہ اناج دیں گے جو تم ایک عرسے تک کھاتے رہو گے اور ہم تمہیں انعام بھی دیں گے۔‘‘

مغیرہؓ کے چہرے پر غصے کی سرخی نمودار ہوئی۔ انہو ں نے اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھا اور تلوار نیام سے تھوڑی سی باہر کھینچی ۔

’’رستم! ‘‘مغیرہ ؓنے کہا۔’’ اگر اسلام بھی منظور نہیں، اور جزیہ بھی منظور نہیں تو فیصلہ یہ تلوا رکرے گی۔‘‘

تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ رستم بھڑک اٹھا ۔مغیرہؓ کا یہی مقصد تھا کہ رستم مشتعل ہو جائے اور میدان میں آئے ۔رستم مشتعل ہو گیا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’میں کل سارے عرب کو تباہ کر دوں گا۔‘‘رستم نے غضب ناک لہجے میں کہا۔

’’اگر اﷲ نے چاہا۔‘‘مغیرہؓنے کہا۔

’’اگراﷲ نے نہ چاہا تو بھی۔‘‘ رستم نے کہا۔

مغیرہؓ نے زور سے اپنی تلوار کو نیام میں دبایا اور ان کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی اور وہ رستم کے دربار سے تیز تیز قدم اٹھاتے باہر نکل آئے۔

٭

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔