ہفتہ، 2 مئی، 2015

داستان مجاہد قسط نمبر4

0 comments

فاتح

محمدؒ بن قاسم کے سندھ پر حملہ آور ہونے سے کچھ عرصہ پہلے قتیبہ بن مسلم باہلی نے دریائے جیحوں کو عبور کے ترکستان کی بعض ریاستوں پر حملہ کیا اور چند فتوحات کے بعد کچھ فوج اور سامان کی قلت اور کچھ جاڑے کی شدت کی وجہ سے مرو میں واپسا کر قیام کیا۔ گرمیوں کا موسم آنے پر اس نے پھر اپنی مختصر فوج کے ساتھ دریائے جیحوں کو عبور کیا اور چند اور علاقے فتح کر لیے۔
قتیبہ بن مسلم ہر سال گرمیوں کے موسم میں ترکستان کا کچھ حصہ فتح کر لیتا اور سردیوں میں واپس مروا جاتا۔ ۷۸ھ میں اس نے ترکستان کے ایک مشہور شہر بیکند پر حملہ کیا۔ اہل ترکستان ہزاروں کی تعداد میں شہر کی حفاظت کے لیے آ جمع ہوئے۔ قتیبہ نے فوج اور سامان کی قلت کے باوجود اطمینان اور استقلال سے شہر کا محاصرہ جاری رکھا۔ دو ماہ کے بعد شہر والوں کے حوصلے ٹوٹ گئے اور انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔
بیکند کی فتح کے بعد قتیبہ نے باقاعدہ ترکستان کی تسخیر شروع کر دی۔ ۸۸ھ میں سند کے لشکر جرار کے ساتھ ایک خونریز جنگ ہوئی۔ اس لڑائی میں فتح حاصل کر کے بعد قتیبہ ترکستان کی چند اور ریاستوں کو فتح کرتا ہوا بخارا کی چار دیواری تک جا پہنچا۔ سردیوں کے موسم میں بے سر و سامان فوج زیادہ دیر تک محاصرہ جاری نہ رکھ سکی۔ قتیبہ ناکام لوٹنے پر مجبور ہوا مگر ہمت نہ ہاری اور چند مہینوں کے بعد پھر بخارا کا محاصرہ کر لیا۔ اس محاصرہ کے دوران میں نعیم بصرہ کے پانچ سو سواروں کے ہمراہ قتیبہ کی فوج میں شامل ہو چکا تھا اور چند دنوں میں بہادر اور جہاندیدہ جرنیل کا بے تکلف دوست بن چکا تھا۔
بخارا کے محاصرے کے دوران قتیبہ کو سخت مشکلات پیش آئیں۔ سب سے بڑی تکلیف یہ تھی کہ وہ مرکز سے بہت دور تھا۔ ضرورت کے وقت رسد اور فوجی امداد کا بروقت پہنچنا آسان نہ تھا۔ شاہ بخارا کی حمایت کے لیے ترکوں اور سغدیوں کی بے شمار فوجیں اکٹھی ہو گئیں۔ مسلمان شہر کی فصیل پر منجیق کے ذریعے پتھر پھینک رہے تھے اور آخری حملہ کرنے کو تیار تھے کہ عقب سے ترکوں کا ایک لشکر جرار آتا دکھائی دیا۔ مسلمان شہر کا خیال چھوڑ کر لشکر کی طرف متوجہ ہوئے اور ابھی پاؤں جمانے نہیں پائے تھے کہ شہر والوں نے شہر پناہ سے باہر نکل کر حملہ کر دیا۔ مسلمان دو فوجوں کے نرغے میں آ گئے۔ایک طرف سے بیرونی حملہ آور سر پر پہنچ چکے تھے اور دوسری طرف شہر کی فوجیں تیر برسا رہی تھیں۔ مسلمانوں کے لشکر میں بھگڈر مچ گئی۔ جب ان کے پاؤں اکھڑنے لگے تو عرب عورتوں نے انہیں بھاگنے سے روکا۔ غیرت دلائی اور مسلمان پر جان توڑ کر لڑنے لگے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ ترک دونوں طرف قلب لشکر تک چڑھ آئے اور قریب تھا کہ حرم تک بھی پہنچ جائیں مگر شجاعان عرب آج بھی اپنے آباؤ اجداد کی روایات کو زندہ کر رہے تھے۔ ان کا اٹھ اٹھ کر گرنا اور گر گر کر اٹھنا قادسیہ اور یرموک کی یاد تازہ کر رہا تھا۔ اس طوفان پر غالب آنے کے لیے قتیبہ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ فوج کا کچھ حصہ میدان سے کھسک جائے اور دوسری طرف سے شہر پناہ عبور کر کے شہر کے اندر داخل ہو جائے لیکن راستے میں گہری ندی حائل تھی جو شہر پناہ کی حفاظت کے لیے خندق کا کام دیتی تھی۔ قتیبہ ابھی تک اس تجویز پر غور کر رہا تھا کہ نعیم گھوڑے کو ایڑ لگا کر اس کے قریب آیا۔ اس نے بھی یہی مشورہ دیا۔
قتیبہ نے کہا۔’’میں پہلے ہی اس تجویز پر غور کر رہا ہوں لیکن کون ہے جو اس قربانی کے لیے تیار ہے؟‘‘
’’میں جاتا ہوں !‘‘ نعیم نے جواب دیا۔ ’’مجھے چند سپاہی دیجئے!‘‘
قتیبہ نے ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا: وہ کون جانباز ہے جو اس نوجوان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے؟‘‘
اس سوال پر دقیع اور حریم دو تمیمی سرداروں نے ہاتھ بلند کیے۔ ان کے ساتھ ان کی جماعت کے آٹھ سو سرفروش شامل ہو گئے۔ نعیم ان جانفروشوں کے گروہ کے ساتھ غنیم کے لشکر کی صفوں سے اپنا راستہ صاف کرتا ہوا میدان سے باہر نکلا اور ایک لمبا چکر کاٹ کر شہر کی شمال مغربی جانب جا پہنچا۔ اس کے دائیں بائیں تمیمی سوار تھے۔ شہر کی فصیل اور ان کے درمیان خندق نما ندی حائل تھی۔ نعیم اور اس کے ساتھی تمیمی سردار ایک لمحہ کے لیے ندی کے کنارے کھڑے رہے۔ اس کی چوڑائی اور گہرائی کا جائزہ لیا۔ گھوڑوں سے اترے اور ’’اللہ  اکبر‘‘ کہہ کر پانی میں کود پڑے۔ فصیل کے اندر ایک بہت بڑا درخت تھا جس کا ایک تنا فصیل کے اوپر سے ہوتا ہوا خندق کی طرف جھکا ہوا تھا۔نعیم نے دوسرے کنارے پر پہنچ کر اس تنے پر کمند ڈالی اور درخت پر چڑھ کر فصیل کے اوپر جا پہنچا اور وہاں سے رسی کی سیڑھی پھینک دی۔ دقیع اور حریم اس سیڑھی کے سہارے فصیل پر پہنچے اور چند اور سیڑھیاں پھینک دیں۔ اس طرح ندی کے دوسرے کنارے مجاہدین باری باری خندق عبور کر کے فصیل پر چڑھنے لگے۔ قریباً سو آدمی فصیل پر چڑھے تھے کہ نعیم کو خلاف توقع شہر کے اندر پانچ سو سپاہیوں کا ایک دستہ گشت لگاتا دکھائی دیا۔ نعیم نے ۵۰ سپاہیوں کو وہیں رہنے دیا اور ۰۵ کو اپنے ساتھ لے کر شہر کی طرف اترا اور ایک وسیع بازار میں پہنچ کر ان کے مقابلے کے لیے کھڑے ہو گیا اور ایک ساعت تک انہیں روکے رکھا۔ اتنے میں مسلمانوں کی بیشتر فوج فصیل عبور کر کے شہر کے اندر داخل ہو گئی اکور ترک سپاہیوں کو ہتھیار ڈال دینے کے سوا اور کوئی بچاؤ کی صورت نظر نہ آئی۔ نعیم نے اپنے چند ساتھیوں کو شہر کے تمام دروازوں پر قبضہ کر لینے کا حکم دیا اور جا بجا اسلامی پرچم نصب کرا دیے اور خود باقی سپاہیوں کے ساتھ شہر کے بڑے دروازے کی طرف بڑھا۔ وہاں چند پہرے داروں کو موت کے گھاٹ اتار کر خندق کا پل اوپر اٹھا دیا۔ترک افواج شہر پر مسلمانوں کے قبضہ سے بے خبر تھیں اور فتح کی امید میں جان توڑ کر لڑ رہی تھیں۔ نعیم نے مسلمان مجاہدوں کو فصیل پر چڑھ کر ترکوں پر تیر برسانے کا حکم دیا۔ شہر کی طرف سے تیروں کی بارش نے ترکوں کو بد حواس کر دیا۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو شہر پر مسلمان تیر انداز اور اسلامی پرچم لہراتے ہوئے نظر آئے۔
ادھر قتیبہ نے یہ منظر دیکھ کر سخت حملے کا حکم دیا۔ ترکوں کی اب وہی حالت تھی جو کچھ دیر پہلے مسلمانوں کی تھی۔ شکست کھانے کی صورت میں انہیں شہر کی مضبوط دیواروں کی پناہ کا بھروسہ تھا لیکن اب اس طرح بھی موت کی بھیانک تصویر نظر آتی تھی۔ آگے بڑھنے والوں کے سامنے مسلمانوں کی خارا شگاف تلواریں تھیں اور پیچھے ہٹنے والوں کے دلوں میں ان کے جگر دوز تیروں کا خوف تھا۔ وہ جان بچانے کے لیے دائیں اور بائیں فرار ہونے لگے اور سینکڑوں بدحواسی کے عالم میں خندق میں کود پڑے۔
اس مصیبت کو ختم کر کے مسلمان عقب سے حملہ کرنے والی افواج کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ پہلے ہی شہر پر مسلمانوں کا قبضہ دیکھ کر ہمت ہار چکی تھی۔ مسلمانوں کے حملہ کی تاب نہ لا کر ان میں سے اکثر میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے اور بعض نے ہتھیار ڈال دیے۔
قتیبہ بن مسلم میدان خالی دیکھ کر آگے بڑھا۔ شہر کے دروازے پر پہنچ کر گھوڑے سے اترا اور بارگاہ الٰہی میں سر بسجود ہو گیا۔ نعیم نے اندر سے خندق کا پل ڈال دینے کا حکم دیا اور دقیع اور حریم کو ساتھ لے کر بہادر سپہ سالار کے استقبال کے لیے آگے بڑھا۔ قتیبہ بن مسلم فرط انبساط سے ان تینوں مجاہدوں کے ساتھ باری باری بغل گیر ہوا۔
زخمیوں کی مرہم پٹی اور شہداء کی تجہیز و تکفین کے بعد مال غنیمت اکٹھا کیا گیا اور اس کا پانچواں حصہ بیت المال میں روانہ کر کے باقی فوج میں تقسیم کیا گیا۔
بخارا کی فتح کے بعد قتیبہ بن مسلم کے ساتھ ساتھ نعیم کے نام کا بھی چرچا ہونے لگا۔ اس کے دل کے پرانے زخم آہستہ آہستہ مٹ چکے تھے اور اس کے بلند منصوبے لطیف خیالات کو شکست دے چکے تھے۔ ان حالات میں اس کے لیے تلوار کی جھنک جنس لطیف کی سہانی راگنی سے زیادہ دلکش ہوتی گئی اور بھائی اور عذرا کی خوشی کا تصور اپنی خوشی سے زیادہ محبوب نظر آنے لگا۔ اس کی دعائیں زیادہ تران ہی کے لیے ہوتیں۔
جب کبھی تھوڑی بہت فرصت ملنے پر اسے سوچنے کا موقع ملتا تو اسے خیال آتا: ’’شاید بھائی نے عذرا کو بتا دیا ہو گا کہ میں زندہ ہوں۔ شاید وہ اس میرے متعلق باتیں کرتے ہوں گے۔ عذرا کو شاید یہ یقین بھی آگیا ہو کہ میں کسی اور پر فدا ہو چکا ہوں۔ وہ مجھے دل میں کوستی ہو گی۔اب تو شاید مجھے بھول بھی گئی ہو۔ ہاں مجھے بھول جانا ہی اچھا ہے!‘‘
ان خیالات کا خاتمہ پر خلوص دعاؤں کے ساتھ ہوتا۔
تین سال اور گزر گئے۔ قتیبہ کی افواج فتح و نصرت کے پرچم اڑاتی ہوئی ترکستان کی چاروں اطراف پھیل رہی تھیں۔ نعیم ایک غیر معمولی شہرت کا مالک بن چکا تھا۔ قتیبہ نے ایک خط دربار خلافت میں لکھتے ہوئے نعیم کے متعلق تحریر کیا ’’میں اس نوجوان پر اپنی فتوحات سے زیادہ ناز کرتا ہوں۔‘‘


)۲)

۱۹ھ میں ترکستان کے بہت سے ممالک میں بغاوت کی آگ کے شعلے بلند ہوئے، اس آگ کو سلگا کر دور سے تماشا دیکھنے والا وہی ابن صادق تھا جس کی شخصیت سے ہم کئی بار متعارف ہو چکے ہیں۔ ابن صادق کو نعیم کے رہا ہو جانے کے بعد اپنی جان کی فکر دامن گیر ہوئی۔ قلعہ چھوڑ کر بھاگا۔ راستے میں بد نصیب بھتیجی ملی لیکن اس نے چچا کی قید پر موت کو ترجیح دی۔
ابن صادق کو اب اپنی جان کا خطرہ تھا۔ اس نے اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ ترکستان کا رخ کیا۔ وہاں پہنچ کر وہ اپنی منتشر جماعت کو منظم کرتا رہا اور کچھ تقویت حاصل کرنے کے بعد ترکستان کے شکست خوردہ شہزادوں کو مسلمانوں کے خلاف منظم کر کے ایک فیصلہ کن جنگ کی ترغیب دینے لگا۔
نزاق نامی ایک شخص ترکستان کے نہایت با اثر افراد میں سے تھا۔ ابن صادق نے اس سے ملاقات کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ نزاق پہلے ہی بغاوت پھیلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسے ابن صادق جیسے مشیر کی ضرورت تھی۔فطرتاً دونوں ایک ہی جیسے تھے۔ نزاق کو ترکستان کا بادشاہ بننے کی ہوس تھی اور ابن صادق نہ صرف ترکستان بلکہ تمام اسلامی دنیا میں اپنے نام کی شہرت چاہتا تھا۔ نزاق نے وعدہ کیا کہ اگر وہ ترکستان پر قابض ہو گیا تو اسے اپنا وزیر اعظم بنا لے گا اور ابن صادق نے اسے کامیابی کی امید دلائی۔
ترکستان کے باشندے قتیبہ کے نام سے کانپتے تھے اور بغاوت کے نام سے گھبراتے تھے لیکن ابن صادق کی چکنی چپڑی باتیں بے اثر ثابت نہ ہوئیں، وہ جس کے پاس جاتا یہ کہتا۔’’تمہارا ملک تمہارے واسطے ہے۔ کسی غیر کا اس پر کوئی حق نہیں۔ ایک عقل مند کسی غیر کی حکومت گوارا نہیں کر سکتا۔‘‘ ابن صادق اور نزاق کی کوششوں سے ترکستان کے بہت سے سرکردہ شہزادے اور سردار دریائے جیحوں کے کنارے ایک پرانے قلعہ میں اکٹھے ہوئے۔ اس اجتماع میں نزاق نے ایک لمبی چوڑی تقریر کی۔ نزاق کی تقریر کے بعد ایک طویل بحث ہوئی اور اس بحث میں چند عمر رسیدہ سرداروں نے مسلمانوں کی پرامن حکومت کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کرنے کی مخالفت کی۔ ابن صادق نے اس موقع کی نزاکت کو محسوس کیا اور نزاق کے کان میں کچھ کہا۔
نزاق اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور بولا۔’’عزیزان وطن! مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ میں اپنے اسلاف کا خون باقی نہیں۔ اس وقت ہمارا ایک معزز مہمان جسے آپ سے صرف اس لیے ہمدردی ہے کہ آپ غلام ہیں۔ آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ ’’نزاق یہ کہہ کر بیٹھ گیا۔ ابن صادق نے اٹھ کر تقریر کی۔ اس تقریر میں پہلے تو اس نے مسلمانوں کے خلاف جس قدر نفرت کا اظہار کر سکتا تھا کیا۔ اس کے بعد اس نے بتایا کہ حاکم قوم شروع شروع میں محکوم قوم کو غفلت کی نیند سلانے کے لیے تشدد سے کام نہیں لیکن جب محکوم آرام کی زندگی کے عادی ہو کر بہادری کے جوہر سے محروم ہو جاتے ہیں تو حاکم بھی اپنا طرز عمل بدل لیتے ہیں۔‘‘ ابن صادق نے ترک سرداروں کو متاثر ہوتے دیکھ کر پر جوش آواز میں کہا ’’مسلمانوں کی موجودہ نرمی سے یہ نتیجہ نہ نکالو کہ وہ ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے عنقریب یہ لوگ تم پر ایسے مظالم کے توڑیں گے جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں۔
  آپ حیران ہوں گے کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے میں بھی مسلمان تھا لیکن اب یہ دیکھ کر کہ یہ لوگ ملک گیری کی ہوس میں دنیا بھر کی آزاد قوموں کو غلام بنانے پر تلے ہوئے ہیں میں نے ان لوگوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ آپ ان لوگوں کو مجھ سے زیادہ نہیں جانتے۔یہ لوگ دولت چاہتے ہیں کہ اور عنقریب تم دیکھو گے کہ تمہارے ملک میں ایک کوڑی تک نہ چھوڑیں گے اور فقط یہی نہیں تم یہ دیکھو گے کہ تمہاری بہو بیٹیاں شام اور عرب کے بازاروں میں فروخت ہوا کریں گی!‘‘ ابن صادق کے ان الفاظ سے متاثر ہو کر تمام سردار ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔
ایک بوڑھے سردار نے اٹھ کر کہا۔ ’’ہمیں تمہاری باتوں سے فساد کی بو آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم خود بھی مسلمانوں کی غلامی کو برا خیال کرتے ہیں لیکن ہمیں اپنے دشمن کے متعلق بھی جھوٹی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک بہتان ہے کہ مسلمان محکوم قوم کی عزت اور دولت کی حفاظت نہیں کرتے۔ میں نے ایران جا کر دیکھا ہے کہ وہ لوگ مسلمانوں کی حکومت میں اپنی حکومت سے زیادہ خوش ہیں۔ عزیزان وطن! ہمیں نزاق اور اس شخص کی باتوں میں آ کر لوہے کی چٹان کے ساتھ پھر ایک بار ٹکر لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اگر مجھے اس نئی جنگ کی فتح کی تھوڑی سی بھی امید نظر آتی تو میں سب سے پہلے بغاوت کا جھنڈا بلند کرتا لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ہم اپنی بہادری کے باوجود اس قوم کا مقابلہ نہیں کر سکتے جس کے سامنے روما اور ایران جیسی طاقتوں کو سرنگوں ہونا پڑا۔ جس قوم کے عزم کے سامنے دریا اور سمندر سمٹ کر رہ جاتے ہیں اور آسمان سے باتیں کرنے والے پہاڑ سرنگوں ہو جاتے ہوں تم اس قوم پر فتح حاصل کرنے کا خیال بھی دل نہیں لاؤ۔ میں مسلمانوں کی طرفداری نہیں کرتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اس بغاوت کا انجام سوائے اس کے کچھ اور نہیں ہو سکتا کہ ہماری رہی سہی طاقت بھی ختم ہو جائے۔ ہزاروں بچے یتیم اور ہزاروں عورتیں بیوہ ہو جائیں۔ نزاق قوم کے گلے پر چھری چلا کر اپنی شہرت چاہتا ہے اور اس شخص کو میں نہیں جانتا کہ اس کا مقصد کیا ہے؟‘‘
ابن صادق ایسے اعتراضات کا جواب پہلے ہی سوچ کر آیا تھا۔ اس نے ایک بار سامعین کو اپنی طرف متوجہ کیا اور تقریر شروع کی۔ وہ اس عمر رسیدہ سردار کے مقابلے میں بہت زیادہ خرانٹ تھا۔ بجائے اس کے وہ اشتعال میں آتا، اس نے چہرے پر ایک مصنوعی مسکراہٹ پیدا کرتے ہوئے اس کے اعتراضات کا جواب دینا شروع کیا۔ اسکی منطق کچھ ایسی تھی کہ بوڑھے سردار کے دلائل لوگوں کو محض واہمہ نظر آنے لگے۔ تمام بڑے سردار اس کے الفاظ کے جادو میں آ گئے اور جلسہ آزادی اور بغاوت کے بلند نعروں پر ختم ہوا۔

)۳)

قتیبہ بن مسلم کے خیمہ میں رات کے وقت چند شمعیں جل رہی تھیں اور ایک کونے میں آگ سلگ رہی تھی۔ قتیبہ خشک گھاس کے بستر پر بیٹھا ہوا ایک نقشہ دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر گہرے تفکرات کے آثار تھے۔ اس نے نقشہ لپیٹ کر ایک طرف رکھا اور وہاں سے اٹھ کر کچھ دیر ٹہلنے کے بعد خیمے کے دروازے میں کھڑا ہو گیا اور برف باری کا منظر دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد چند درختوں کے پیچھے سے ایک سوار نمودار ہوا۔ قتیبہ اسے پہچان کر چند قدم آگے بڑھا۔ سوار قتیبہ کو دیکھ کر گھوڑے سے اترا۔ ایک پہرے دار نے گھوڑا پکڑ لیا۔
’’کیا خبر لائے نعیم؟ ‘‘قتیبہ نے سوال کیا۔
’’نزاق نے ایک لاکھ سے زیادہ فوج اکٹھی کر لی ہے۔ ہمیں بہت جلد تیاری کرنی چاہیے!‘‘
قتیبہ اور نعیم باتیں کرتے ہوئے خیمہ میں داخل ہوئے۔ نعیم نے نقشہ اٹھایا اور قتیبہ کو دکھاتے ہوئے کہا ’’یہ دیکھیے! بلخ سے کوئی پچاس کوس شمال مشرق کی طرف نزاق اپنی فوجیں اکٹھی کر رہا ہے۔ اس مقام کے جنوب کی طرف دریا ہے اور باقی تین اطراف پہاڑ اور گھنے جنگل ہیں۔ برفباری کی وجہ سے راستہ بہت دشوار گزار ہے۔ لیکن ہمیں گرمیوں تک انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ ترکوں کے حوصلے دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو بے رحمی وہ مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کر رہے ہیں۔ سمرقند میں بھی بغاوت کا خطر ہے !‘‘
قتیبہ نے کہا۔’’ہمیں ایران سے آنے والی فوجوں کا انتظار کرنا چاہیے۔ ان کے پہنچ جانے پر ہم فوراً حملہ کر دیں گے۔‘‘
قتیبہ اور نعیم یہ باتیں کر رہے تھے کہ ایک سپاہی نے خیمے میں آ کر کہا:
  ’’ایک ترک سردار آپ سے ملنا چاہتا ہے۔‘‘
’’بلاؤ!‘‘ قتیبہ نے کہا۔
سپاہی گیا اور تھوڑی دیر بعد ایک بوڑھا سردار خیمے میں داخل ہوا۔ وہ پوستین اوڑھے ہوئے تھا اور اس کے سر پر سمور کی ٹوپی تھی۔ اس نے جھک کر قتیبہ کو سلام کیا اور کہا:
’’شاید آپ مجھے پہچانتے ہوں۔ میرا نام نیزک ہے۔‘‘
’’میں آپ کو اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ بیٹھے!‘‘
نیزک، قتیبہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ قتیبہ نے آنے کی وجہ دریافت کی۔
نیز کے نے کہا۔ ’’ میں آپ س یہ کہنے کے لیے آیا ہوں کہ آپ ہماری قوم پر سختی نہ کریں۔‘‘
’’سختی؟‘‘ قتیبہ نے تیوری چڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو باغیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مسلمان عورتوں اور بچوں کا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔‘‘
’’لیکن وہ باغی نہیں ہیں۔‘‘ نیزک نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ ’’وہ بے وقوف ہیں۔ اس بغاوت کی تمام ذمہ داری آپ کے ایک مسلمان بھائی پر عاید ہوتی ہے۔‘‘
’’ہمارا بھائی! وہ کون ہے؟‘‘
’’ابن صادق۔‘‘ نیزک نے جواب دیا۔
نعیم جو اسوقت شمع کی روشنی میں نقشہ دیکھ رہا تھا۔ ابن صادق کا نام سن کر چونک پڑا۔’’ابن صادق!‘‘ اسنے نیزک کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔
’’ہاں۔ ابن صادق۔‘‘
’’وہ کون ہے؟‘‘ قتیبہ نے سوال کیا۔
نیزک نے جواب دیا۔’’ میں اس کے متعلق اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا کہ اسے ترکستان آئے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں اور اس نے اپنی جادو بیانی سے ترکستان کے تمام سرکردہ لگوں کو آپ کی حکومت کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر لیا ہے۔‘‘
’’میں اس کے متعلق بہت کچھ جانتا ہوں۔‘‘ نعیم نے نقشہ پلٹتے ہوئے کہا۔’’کیا آج کل وہ نزاک کے ساتھ ہے؟‘‘
’’نہیں۔ وہ قوقند کے کے قرب و جوار میں پہاڑی لوگوں کو جمع کر کے نزاق کے لیے ایک فوج تیار کر رہا ہے۔ ممکن ہے وہ حکومت چین سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کرے۔‘‘
نعیم نے قتیبہ کو مخاطب کرتے  ہوئے کہا۔’’میں بہت دیر سے اس شخص کی تلاش میں ہوں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ مجھ سے اتنا قریب ہے۔ آپ مجھے اجازت دیں۔ اسے فوراً گرفتار کر لینا نہایت ضروری ہے!‘‘
’’لیکن مجھے بھی تو کچھ معلوم ہو کہ وہ کون ہے؟‘‘
’’وہ ابو جہل سے زیادہ دشمن اسلام اور عبد اللہ بن ابی سے زیادہ منافق ہے۔ وہ سانپ سے زیادہ خطرناک اور لومڑی سے زیادہ مکار ہے۔ ایسے حالات میں اس کا ترکستان میں ہونا خطرے سے خالی نہیں۔ ہمیں فوراً اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے!‘‘
’’لیکن اس موسم میں ! قوقند کے راستے میں برفانی پہاڑ حائل ہیں۔‘‘
’’کچھ بھی ہو۔‘‘ نعیم نے کہا۔’’ آپ مجھے اجازت دیں۔ وہ قوقند میں اس لیے مقیم ہے کہ وہاں اسے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ وہ غالباً سردی کا موسم وہیں گزارے گا۔ گرمیوں کوئی اور جگہ تلاش کرے گا جو محفوظ ہو۔‘‘
’’تم کب جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’ابھی۔ نعیم نے جواب دیا۔ مجھے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
’’اس وقت برف پڑ رہی ہے۔ صبح چلے جانا۔ ابھی ابھی تم ایک لمبے سفر سےا رہے ہو۔ کچھ دیر آرام کر لو!‘‘
’’مجھے اس وقت تک آرام نہیں آئے گا جب تک یہ موذی زندہ ہے۔ میں اب ایک لمحہ بھی ضائع کرنا گناہ خیال کرتا ہوں۔ مجھے آپ اجازت دیجئے!‘‘
یہ کہہ کر نعیم اٹھ کھڑا ہوا۔
’’اچھا اپنے ساتھ دو سو سپاہی لیتے جاؤ۔‘‘
نیزک نے حیران ہو کر کہا۔’’آپ انہیں قوقند بھیج رہے ہیں اور صرف دو سو سپاہیوں کے ساتھ! آپ پہاڑی قوموں کی لڑائی کے طریقوں سے واقف ہیں۔ وہ بہادری میں دنیا کی کسی قوم سے کم نہیں۔انہیں اچھی خاصی فوج کے ساتھ جانا چاہیے۔ ابن صادق کے پاس ہر وقت پانچ سو مسلح جوان رہتے ہیں اور اب تک پتہ نہیں اس نے کتنی افواج اکٹھی کر لی ہو گی۔‘‘ نعیم نے کہا۔’’ایک بزدل سالار اپنے سپاہیوں میں بہادری کے جوہر پیدا نہیں کر سکتا۔ اگر اس فوج کا سالار ابن صادق ہے تو مجھے اتنے سپاہیوں کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘
قتیبہ نے ذرا سوچنے کے بعد نعیم کو تین سو سپاہی لے جانے کا حکم دیا اور اسے چند ہدایات دینے کے بعد روانہ کیا۔
ایک ساعت گزر جانے کے بعد قتیبہ اور نیزک خیمہ کے باہر کھڑے نعیم کو مختصر سی فوج کے ساتھ سامنے ایک پہاڑ پر سے گزرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
’’بہت بہادر لڑکا ہے۔‘‘ نیزک نے قتیبہ سے کہا۔
’’ہاں وہ ایک مجاہد کا بیٹا ہے۔‘‘ قتیبہ نے جواب دیا۔
’’میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ لوگ اتنے بہادر کیوں ہیں ؟‘‘ نیزک نے پھر سوال کیا۔
’’کیونکہ ہم موت سے نہیں ڈرتے۔ موت ہمارے لیے ایک اعلیٰ زندگی کا پیغام ہے۔ اللہ کے لیے زندہ رہنے کی تمنا اور اللہ کے لیے مرنے کا حوصلہ پیدا کرنے کے بعد کسی شخص کے دل میں بڑی بڑی سے طاقت کا خوف نہیں رہتا۔‘‘
’’ہاں ہر وہ شخص جو سچے دل سے توحید اور رسالت پر ایمان لے آتا ہے۔‘‘

)۴)

ابن صادق قوقند کے شمال میں ایک محفوظ مقام پر پناہ گزین تھا۔ ایک وادی کے چاروں طرف بلند پہاڑ اس کے لیے ایک ناقابل تسخیر فصیل کا کام دے رہے تھے۔ پہاڑوں کے سرکش لوگ چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں اس وادی میں جمع ہو رہے تھے۔ ابن صادق ان لوگوں کو مختصر راستوں سے نزاق کے پاس روانہ کر رہا تھا۔ اس کے جاسوس اسے مسلمانوں کی نقل و حرکت سے باخبر رکھتے تھے۔ ابن صادق کو اس بات کی تسلی تھی کہ مسلمان سردیاں ختم ہونے تک لڑائی شروع نہیں کر سکیں گے۔ اسے اس بات کا بھی اطمینان تھا کہ اول تو اتنی دور رہ کر مسلمان اس کی سازشوں سے واقف نہیں ہو سکتے اور اگر یہ انکشاف ہو بھی جائے تو بھی وہ سردیوں میں اس طرف نہیں آ سکتے اور سردیوں کے بعد اگر انہوں نے ادھر کا رخ کیا تو خدا کی زمین بہت وسیع ہے۔
ایک دن ایک جاسوس نے آ کر خبر دی کہ نعیم پیش قدمی کر رہا ہے تو وہ سخت بد حواس ہوا۔
’’اس کے پاس کتنی فوج ہے؟‘‘ ابن صادق نے تھوڑی دیر کے بعد سنبھل کر سوال کیا۔
’’فقط تین سو سپاہی۔‘‘ جاسوس نے جواب دیا۔
’’کل تین سو آدمی!‘‘ایک تاتاری نوجوان نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
ابن صادق نے کہا۔’’تم ہنستے ہوئے کیوں ہو؟وہ تین سو آدمی مجھے چین اور ترکستان کی تمام فوجوں سے زیادہ خطرناک نظر آتے ہیں۔‘‘
تاتاری نے جواب دیا۔’’آپ یقین رکھیں وہ یہاں پہنچنے سے پہلے ہمارے پتھروں کے نیچے دب کر رہ جائیں گے۔‘‘
نعیم کا تصور ابن صادق کو موت سے زیادہ بھیانک نظر آ رہا تھا۔ اس کے پاس سات سو سے زیادہ تاتاری موجود تھے لیکن اس پر بھی اسے اپنی فتح کا یقین نہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کھلے میدان میں مسلمانوں کا مقابلہ کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ اس نے تمام پہاڑی راستوں پر تاتاریوں کے پہرے مقرر کر دیے اور نعیم کا انتظار کرنے لگا۔
نعیم ابن صادق کا سراغ لگاتا ہوا قوقند کے شمال مشرق کی طرف جا نکلا۔ اس نا ہموار زمین پر گھوڑے بڑی دقت سے آگے بڑھ رہے تھے۔ بلند چوٹیوں پر برف چمک رہی تھی اور نیچے کہیں کہیں وادیوں میں گھنے جنگلات تھے۔ لیکن برفباری کے موسم میں ان پر پتوں کا نشان نہ تھا۔ نعیم ایک بلند پہاڑی کے ساتھ ساتھ ایک نہایت تنگ راستے میں سے گزر رہا تھا کہ اچانک پہاڑ پر سے تاتاریوں نے پتھر برسانے شروع کر دیے۔ چند سوار زخمی ہو کر گھوڑوں سے گر پڑے اور فوج میں کھلبلی مچ گئی۔ پانچ گھوڑے سواروں سمیت لڑھکتے ہوئے ایک گہرے غار میں جا گرے۔نعیم نے سپاہیوں کو گھوڑوں سے اترنے کا حکم دیا اور پچاس آدمیوں کو کہا کہ وہ گھوڑوں کو پہاڑی سے کچھ دور ایک محفوظ جگہ پر لے جائیں اور خود باقی اڑھائی سو سپاہیوں کے ساتھ پیدل پہاڑی پر چڑھنا شروع کیا۔ پتھر بدستور برس رہے تھے۔مسلمان اپنے سروں پر ڈھا لیں لیے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کرتے رہے۔ چوٹی پر پہنچنے تک نعیم کے ساتھ ساٹھ سپاہی پتھروں کا نشانہ بن کر گر چکے تھے۔ نعیم نے اپنے رہے سہے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑی کی چوٹی پر قدم جماتے ہی جان توڑ کر حملہ کیا۔ مسلمانوں کے عزم اور استقلال کی حالت دیکھ کر تاتاریوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ وہ چاروں طرف سے سمٹ کر اکٹھے ہونے لگے۔ ابن صادق درمیان میں کھڑا ان کو حملے کے لیے اکساتا رہا۔ جب نعیم کی نظر اس پر پڑی تو اس نے جوش میں آ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں نیزے سے اپنا راستہ صاف کرتا ہوا آگے بڑھا۔ تاتاریوں نے یکے بعد دیگرے میدان سے بھاگنا شروع کیا۔ ابن صادق کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ وہ اپنی رہی سہی فوج چھوڑ کر ایک طرف بھاگا۔ نعیم کی آنکھ اس پر تھی۔ اسے بھاگتے ہوئے دیکھ کر اس کے پیچھے ہو لیا۔ ابن صادق پہاڑی کے نیچے اترا۔ اس نے ضرورت کے وقت اپنے بچاؤ کا بندوبست پہلے ہی کر رکھا تھا۔ پہاڑی کے نیچے ایک شخص دو گھوڑے لیے کھڑا تھا۔ ابن صادق جھٹ ایک گھوڑے پر سوار ہوا اور اسے ایڑ لگا دی۔ اس کے ساتھ نے ابھی رکاب میں پاؤں رکھا ہی تھا کہ نعیم نے نیزہ مارکر اسے نیچے گرایا اور گھوڑے پر بیٹھتے ہی اسے ابن صادق کے تعاقب میں چھوڑ دیا۔
نعیم کے اپنے قول کے مطابق ابن صادق لومڑی سے زیادہ مکار تھا۔ اس نے شکست کھانے کی صورت میں اپنے بچاؤ کا پورا پورا انتظام کر رکھا تھا۔نعیم اور ابن صادق کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔ لیکن نعیم کو تھوڑی دیر کے تعاقب کے بعد اس بات کا احساس ہوا کہ فاصلہ زیادہ ہو تا جا رہا ہے۔ اور اس کا گھوڑا ابن صادق کے گھوڑے کے مقابلے میں کم رفتار ہے تاہم نعیم نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔
ابن صادق پہاڑی پر سے اتر کر وادی کی طرف ہو لیا۔ اس وادی میں کہیں کہیں گھنے درخت تھے۔ ایک جگہ درختوں کے جھنڈ کے نیچے ابن صادق کے مقرر کیے ہوئے چند سپاہی کھڑے تھے۔ اس نے انہیں بھاگتے ہوئے اشارہ کیا اور وہ درختوں کی آڑ میں چھپ کر کھڑے ہو گئے۔ نعیم جب ان درختوں کے پاس سے گزرا تو ایک تیر نعیم کے بازو پر آ لگا لیکن اس نے گھوڑے کی رفتار کم نہ کی۔ چند قدم اور چلنے کے بعد دوسرا تیر اس کی پسلی میں لگا۔ ایک اور تیر گھوڑے کی پیٹھ پرا کر لگا اور گھوڑا پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑنے لگا۔ نعیم نے اپنے بازو اور پسلی سے تیروں کو کھینچ کر نکالا لیکن ابن صادق کا پیچھا نہ چھوڑا۔تھوڑی دور اور چلنے کے بعد ایک تیر نعیم کی کمر پر لگا۔ اس کا خون پہلے ہی بہت نکل چکا تھا۔ اب اس تیسرے تیر کے بعد اس کے جسم کی طاقت جواب دینے لگی۔ لیکن جب تک حواس قائم رہے اس مجاہد کی ہمت میں فرق نہ آیا اور اس نے گھوڑے کی رفتار کم نہ ہونے دی۔
درختوں کا سلسلہ ختم ہوا اور ایک وسیع میدان نظر آنے لگا لیکن ابن صادق بہت آگے نکل چکا تھا اور نعیم پر کمزوری غالب آ رہی تھی۔ آنکھوں میں اندھیرا چھا رہا تھا۔ اس کا سر چکرانے اور کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ وہ بے بس ہو کر گھوڑے سے اترا اور بے ہوش ہو کر منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔ اس بے ہوشی میں اسے کئی ساعتیں گزر گئیں۔ جب اسے ذرا ہوش آیا تو اس کے کانوں میں کسی کے گانے کی آواز سنائی دی۔ نعیم کے کان ایسی لطیف آواز سے مدت کے بعد آشنا ہوئے تھے۔ وہ دیر تک نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑا یہ راگ سنتا رہا۔ بالآخر ہمت کر کے سر اوپر اٹھایا۔ اس کے قریب چند بھیڑیں چر رہی تھیں۔ نعیم نے گانے والے کو دیکھنا چاہا لیکن ضعف کے باعث پھر آنکھو کے سامنے سیاہی طارق ہو گئی اور اس نے مجبوراً سر زمین پر ٹیک دیا۔ایک بھیڑ نعیم کے قریب آئی اور اس نے اپنا منہ نعیم کے کانوں کے قریب لے جا کر اسے سونگھا اور اپنی زبان میں آواز دے کر اپنی ایک اور ہم جنس کو بلا لیا۔ دوسری بھیڑ بھی مے مے کرتی اوری پیغام باقی بھیڑوں تک پہنچاتی آگے چل دی۔ ایک گھڑی کے اندر اندر بہت سی بھیڑیں نعیم کے ارد گرد جمع ہو کر شور مچانے لگیں۔ ایک کوہستانی دوشیزہ ہاتھ میں چھڑی لیے بھیڑوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ہانکتی اور بدستور گاتی ہوئی چلی آ رہی تھی۔ وہ ایک جگہ بھیڑوں کا اجتماع دیکھ کر اس طرف بڑھی اور ان کے درمیان نعیم کو خون میں لپ پت دیکھ کر ایک ہلکی سی چیخ کے بعد نعیم سے چند قدم کے فاصلے پر انگشت بدنداں کھڑی ہو گئی۔
نعیم نے بے ہوشی کی حالت میں اپنا سر اوپر اٹھایا اور دیکھا کہ حسن فطرت کی ایک مکمل تصور ایک کوہستانی لڑکی کے وجود میں سامنے کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس کے لمبے قد کے ساتھ جسمانی صحت اور تناسب اعضاء اس کے معصوم حسن میں اضافہ کر رہے تھے۔ اس کا موٹے اور کھردرے کپڑے کا بنا ہوا لباس تصنع سے بے نیاز تھا۔ اس نے سمور کا ایک ٹکڑا گردن کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔ سر پر ایک ٹوپی تھی۔ حسینہ کا چہرہ ذرا لمبا تھا لیکن یہ لمبائی فقط اس قدر تھی جتنی کہ ایک حسین چہرے کو سنجیدہ بنا دینے کے لیے ضروری ہو۔ بڑی بڑی سیاہ اور چمک دار آنکھیں، پتلے اور نازک ہونٹ جن کی شگفتگی گلِ نو بہار سے کہیں زیادہ جاذب نظر تھی۔ کشادہ پیشانی اور مضبوط ٹھوڑی، تمام مل کر اس حسینہ میں بہار حسن کے علاوہ رعب حسن بھی پیدا کر رہے تھے اور یہ ظاہر ہوتا تھا کہ حسن کے متعلق مشرق اور مغرب کا تخیل رنگ و بو کے اس دلفریب پیکر پرا کر ختم ہو جاتا ہے۔نعیم کو ایک نگاہ وہ عذرا اور دوسری میں زلیخا دکھائی دی۔ نوجوان لڑکی نعیم کے جسم پر خون کے نشانات دیکھنے اور کچھ دیر بد حواسی کے عالم میں خاموش کھڑی رہنے کے بعد جرات کر کے آگے بڑھی اور بولی:
’’آپ زخمی ہیں ؟‘‘
نعیم ترکستان میں رہ کر تاتاری زبان پر کافی عبور حاصل کر چکا تھا۔ اس نے دوشیزہ کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اٹھ کر بیٹھنا چاہا لیکن پھر ایک چکر آیا اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔


نرگس


  جب نعیم کو دوبارہ ہوش آیا تو وہ کھلے میدان کی بجائے ایک پتھر کے مکان میں لیٹا ہوا تھا۔ چند مرد اور عورتیں اسے کے گرد کھڑی تھیں اور وہی نازنین جس کا دھندلا سا نقشہ اس کے دماغ میں تھا، ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا پیالہ لیے دوسرے ہاتھ سے اس کے سر کو سہارا دے کر اوپر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔نعیم نے قدرے توقف کے بعد پیالے کو منہ لگایا۔ چند گھونٹ پینے کے بعد اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو لڑکی نے اسے دوبارہ بستر پر لٹا دیا اور خود ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گئی۔ نعیم کمزوری کی وجہ سے کبھی آنکھیں بند کر لیتا اور کبھی متحیر ہو کر اس حسینہ اور باقی لوگوں کی طرف دیکھتا۔ ایک نوجوان مکان کے دروازے میں کھڑا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں نیزہ اور دوسرے ہاتھ میں کمان تھی۔
لڑکی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔’’بھیڑیں لے آئے؟‘‘
’’ہاں لے آیا ہوں اور اب جا رہا ہوں۔‘‘
’’کہاں ؟‘‘ لڑکی نے سوال کیا۔
’’شکار کھیلنے جا رہا ہوں۔ میں نے آج ایک جگہ ریچھ دیکھا ہے۔ بہت بڑا ریچھ ہے۔ ان کو اب آرام ہے؟‘‘
’’ہاں ! کچھ ہوش آیا ہے۔‘‘
’’تم نے زخموں پر مرہم لگایا؟‘‘
’’نہیں۔ میں تمہارا انتظار کر رہی تھی۔ مجھ سے یہ نہیں اترتی، لڑکی نے نعیم کی زرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
نوجوان آگے بڑھا اور نعیم کو سہارا دینے کے بعد اس کی زرہ کھول ڈالی۔ قمیص اوپر اٹھا کر زخم دیکھے۔ مرہم لگا کر پٹی باندھی اور کہا۔ ’’آپ لیٹ جائیں۔ زخم بہت خطرناک ہیں لیکن اس مرہم سے بہت جلد آرام آ جائے گا۔‘‘ نعیم بغیر کچھ کہے لیٹ گیا اور نوجوان باہر چلا گیا۔ اس کے بعد دوسرے لوگ بھی یکے بعد دیگرے چل دیے۔ نعیم اب اچھی طرح ہوش میں آ چکا تھا اور اس کا  یہ وہم دور ہو چکا تھا کہ وہ سفر حیات ختم کر کے جنت الفردوس میں پہنچ چکا ہے۔
’’میں کہاں ہوں ؟‘‘ اس نے لڑکی کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔
’’آپ اس وقت ہمارے گھر میں ہیں۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔ ’’آپ باہر بے ہوش پڑے تھے۔ میں نے بھائی کوا کر خبر دی۔ وہ آپ کو یہاں اٹھا لایا۔‘‘
’’تم کون ہو؟‘ نعیم نے سوال کیا۔
’’میں بھیڑیں چرایا کرتی ہوں۔‘‘
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’میرا نام نرگس ہے۔‘‘
’’نرگس!‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
نعیم کو جہاں اس لڑکی کی شکل میں دو صورتیں اور نظر آ رہی تھیں، وہاں اب اس کے نام کے ساتھ دو اور نام بھی یاد آ گئے۔ اس نے اپنے دل میں عذرا، زلیخا اور نرگس کے نام دہرائے اور ایک گہری سوچ میں چھت کی طرف دیکھنے لگا۔
’’آپ کو بھوک لگ رہی ہو گی؟‘‘ لڑکی نے نعیم کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا اور اٹھ کر مقابل کے کمرے چند سیب اور خشک میوے لا کر نعیم کے سامنے رکھ دیے۔ نعیم کے سر کے نیچے ہاتھ دے کر اٹھایا اور اسے سہارا دینے کی غرض سے ایک پوستین اس کے پیچھے رکھ دی۔ نعیم نے چند سیب کھائے اور نرگس سے پوچھا۔
’’وہ نوجوان جو ابھی آیا تھا وہ کون ہے؟‘‘
’’وہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔‘‘
’’اس کا نام کیا ہے؟‘‘
’’ہومان۔‘‘ نرگس نے جواب دیا۔
نرگس سے چند اور سوالات پوچھنے پر نعیم کو معلوم ہوا کہ اس کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور وہ اپنے بھائی کے ساتھ اس چھوٹی سی بستی میں رہتی ہے اور ہومان اس گڈریوں کی بستی کا سردار ہے جس کی آبادی کوئی چھ سو انسانوں پر مشتمل ہے۔
شام کے وقت ہومان گھر آیا اور اس نے آ کر بتایا کہ اس کا شکار ہاتھ نہیں آیا۔
نرگس اور ہومان نے نعیم کی تیمار داری میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ رات کے وقت وہ بہت دیر تک نعیم کے پاس بیٹھے رہے۔ جب نعیم کی آنکھ لگ گئی تو نرگس اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی اور ہومان نعیم کے قریب ہی گھاس کے بستر پر لیٹ گیا۔ رات بھر نعیم نہایت خواب دیکھتا رہا۔عبد اللہ سے رخصت ہونے کے بعد یہ پہلی رات تھی جبکہ عالم خواب میں بھی نعیم کے خیالات کی پرواز اسے میدان جنگ کی علاوہ کہی اور لے گئی ہو۔ کبھی وہ دیکھتا کہ اس کی مرحوم والدہ اس کے زخموں پر مرہم پٹی کر رہی ہے اور عذرا کی محبت بھری نگاہیں اسے تسکین کا پیغام دے رہی ہیں۔ کبھی وہ دیکھتا کہ زلیخا اپنے رخ انور سے اسے کے قید خانے کی تاریک کوٹھڑی میں ضیا پاشی کر رہی ہے۔
صبح کے وقت آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ نرگس پھر اس کے سامنے دودھ کا پیالہ لیے کھڑی ہے اور ہومان اسے جگا رہا ہے۔
نرگس کے پیچھے کھڑی بستی کی ایک اور لڑکی اس کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ نرگس نے کہا۔’’بیٹھ جاؤ زمرد!‘‘ اور وہ چپکے سے ایک طرف بیٹھ گئی۔
نعیم ایک ہفتے بعد چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا اور اس اور اس معصوم ماحول میں دلچسپی لینے لگا۔بستی کے لوگ بھیڑوں اور بکریوں پر گزارہ کرتے تھے۔ قرب و جوار میں بہترین چراگاہ کی بدولت ان کی حالت بہت اچھی تھی۔ کہیں کہیں سیب انگور کے باغات بھی تھے۔ بھیڑیں اور بکریاں پالنے کے علاوہ ان لوگوں کا دلچسپ مشغلہ جنگلی جانوروں کا شکار تھا۔ بستی کے آدمی شکار کے لیے دور تک برفانی علاقوں میں چلے جاتے تھے اور بھیڑیں چرانے کا کام زیادہ تر نوجوان عورتوں کے سپرد تھا۔ ان لوگوں کو ملک کے سیاسی معاملات میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ تاتاریوں کی بغاوت کی حمایت یا مخالفت سے بہت حد تک بے نیاز تھے۔ رات کے وقت گاؤں کی نوجوان عورتیں اور مرد ایک وسیع خیمے میں اکٹھے ہو کر گاتے اور رقص کرتے۔رات کا کچھ حصہ گزارنے پر عورتیں اپنے اپنے گھروں کو چلی جاتیں اور مرد دیر تک چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بیٹھ کر گپیں ہانکتے۔ کوئی پرانے زمانے کے بادشاہوں کی کہانی سناتا۔کوئی اپنے ریچھ کے شکار کا دلچسپ واقعہ بیان کرتا۔ اور کوئی جنوں، بھوتوں اور چڑیلوں کی من گھڑت داستانیں لے بیٹھتا۔ یہ لوگ کسی حد تک توہم پرست تھے، اس لیے بھوتوں کی کہانیاں بڑے شوق سے سنتے۔ اب چند دنوں سے ان لوگوں کی گفتگو کا موضوع ایک شہزاد بھی تھا۔
  کوئی اس کے قدو قامت اور شکل و صورت کا تذکرہ چھیڑ دیتا۔کوئی اس کے لباس کی تعریف کرتا۔ کوئی اس کے زخمی ہو کر اس بستی میں پہنچ جانے پر حیرانی کا اظہار کرتا۔ کوئی کہتا کہ ہم گڈریوں کے لیے دیوتاؤں نے ایک بادشاہ بھیجا ہے اور یہ ہومان کو اپنا وزیر بنا لے گا۔ الغرض بستی کے لوگ نعیم کا نام لینے کی بجائے اسے شہزادہ کہا کرتے تھے۔
ادھر بستی کی عورتوں میں یہ چرچا ہونے لگا کہ یہ نووارد شہزادہ نرگس کو اپنی ملکہ بنا لے گا۔ گاؤں کی لڑکیاں نرگس کی خوش نصیبی پر رشک کرتیں۔ کوئی اسے شہزادے کی محبوبہ بننے پر مبارکباد دیتی اور کوئی باتوں ہی باتوں میں اسے چھیڑتی۔ نرگس بظاہر برا مانتی مگر اس کا دل اپنی سہیلیوں کے منہ سے ایسی باتیں سننے پر دھڑکنے لگتا۔ سفید رخساروں پر سرخی رقص کرنے لگتی۔ اس کے کان نعیم کی تعریف میں گاؤں والوں کی زبان سے ہر نیا جملہ سننے کے لیے بے قرار رہتے۔
نعیم ان تمام باتوں سے بے خبر ہومان کے مکان کے ایک کمرے میں اپنی زندگی کے نہایت پرسکون لمحات گزار رہا تھا۔ گاؤں کے مرد اور عورتیں ہر روز آتے اور اسے دیکھ کر چلے جاتے۔ وہ اپنے تیمار داروں کا نہایت خندہ پیشانی سے شکریہ ادا کرتا۔ لوگ اسے ایک شہزادہ خیال کرتے ہوئے پاس ادب سے کافی دور ہٹ کر کھڑے ہوتے اور اس کے حالات معلوم کرنے کے لیے سوالات کرنے سے گریز کرتے لیکن نعیم کی شگفتہ مزاجی نے انہیں بہت جلد بے تکلف بنا لیا اور یہ لوگ ادب اور احترام کے علاوہ نعیم سے محبت بھی کرنے لگے۔

(۲)

ایک روز شام کے وقت نعیم نماز پڑھ رہا تھا۔ نرگس اپنی سہیلیوں کے ساتھ مکان کے دروازے میں کھڑی اس کی حرکات کو بغور دیکھ رہی تھی۔
’’یہ کیا کر رہا ہے؟‘‘ ایک لڑکی نے حیران ہو کر سوال کیا۔
’’شہزادہ جو ہوا؟‘‘ زمرد نے بھولپن سے جواب دیا۔ ’’دیکھو کس شان سے اٹھتا اور بیٹھتا ہے....نرگس تم بھی اسی طرح کیا کرتی ہو؟‘‘
’’چپ۔‘‘ نرگس نے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔
نعیم نے نماز ختم کر کے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے۔ لڑکیاں دروازے سے ذرا ہٹ کر باتیں کرنے لگیں :
’’چلو نرگس! ‘‘ زمرد نے کہا۔ ’’وہاں ہمارا انتظار ہو رہا ہو گا۔‘‘
’’میں تمہیں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ میں ان کو یہاں اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔‘‘
’’چلو ان کو بھی ساتھ لے چلیں !‘‘
’’کہیں دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا۔ کم بخت وہ شہزاد ہ ہے یا کھلونا؟‘‘ دوسری لڑکی نے کہا۔
یہ لڑکیاں ابھی باتیں کر رہی تھیں کہ ہومان گھوڑے پر آتا دکھائی دیا۔ وہ نیچے اترا تو نرگس نے آگے بڑھ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔ ہومان سیدھا نعیم کے کمرے میں داخل ہوا۔
زمرد نے کہا۔ ’’چلو نرگس۔ اب تو تمہارا بھائی ان کے ساتھ بیٹھے گا۔‘‘
’’چلو نرگس!‘‘ دوسری نے کہا۔
’’چلو۔ چلو!‘‘ کہتے ہوئے تمام لڑکیاں نرگس کو دھکیل کر ایک طرف لے گئیں۔
ہومان کے اندر داخل ہوتے ہی نعیم نے پوچھا۔’’کہو بھائی کیا خبر لائے ہو؟‘‘
ہومان نے جواب دیا۔ ’’میں ان تمام مقامات سے پھر کر آیا ہوں۔ آپ کی فوج کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ ابن صادق بھی کہیں روپوش ہے۔ مجھے ایک آدم کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ آپ کی فوجیں عنقریب سمرقند پر حملہ کرنے والی ہیں۔
‘‘میں ایک ہفتہ تک گھوڑے پر سوار ہونے کے قابل ہو جاؤں گا۔ میں بہت جلد چلا جاؤں گا۔ یہ بستی مجاہد کی دنیا سے بہت مختلف ہے لیکن یہ لوگ بہت سیدھے ہیں۔ انہیں نیک راستے پر لانے کی ضرورت ہے۔‘‘
نعیم ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ پیچھے سے کسی کے پاؤں کی آہٹ سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ نرگسا رہی تھی۔ وہ سوچ سوچ کر قدم اٹھاتی ہوئی نعیم کے قریب پہنچی اور سہمی ہوئی آواز میں بولی:
’’آپ سردی میں باہر بیٹھے ہوئے ہیں !‘‘
نعیم نے چاند کی دلفریب روشنی میں اس کے چہرے پر نظر دوڑائی۔ وہ حسین بھی تھی اور معصوم بھی۔ اسے نے کہا:
’’نرگس۔ تم اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر کیوں آ گئیں ؟‘‘
’’آپا گئے تھے۔ میں نے سوچا....آپ....اکیلے ہوں گے۔‘‘
نعیم کو ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ان گنت نغمے سنائی دینے لگے۔ ایک لمحہ کے لیے وہ بے حس و حرکت بیٹھا نرگس کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر اچانک اٹھا اور کچھ کہیے بغیر لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ نرگس کی آواز دیر تک اس کے کانوں میں گونجتی رہی اور وہ بستر پر لیٹ کر کروٹیں بدلتا رہا۔
علی الصبح نعیم کی آنکھ کھلی۔ اٹھ کر باہر نکلا۔ چشمے پر وضو کیا اور اپنے کمرے میں آ کر فجر کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد وہ سیر کے لیے باہر نکل گیا۔ جب واپسا کر کمرے میں داخل ہونے لگا تو دیکھا کہ اس جگہ جہاں وہ اکثر نماز پڑھا کرتا تھا، ہومان آنکھیں بند کیے قبلہ روہو کر رکوع اور سجود کی مشق کر رہا ہے۔ نعیم چپکے سے دروازے میں کھڑا اس کی بے ساختہ تقلید پر مسکرا رہا تھا۔ جب ہومان نے نعیم کی طرح بیٹھ کر تھوڑی دیر ہونٹ ہلانے کے بعد دائیں بائیں دیکھا تو اس کی نظر نعیم پر جا پڑی۔ وہ بدحواس ہو کر اٹھا اور اپنی پریشانی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔’’میں آپ کی نقل کر رہا تھا۔ گاؤں کی بہت سی لڑکیاں اور لڑکے اسی طرح کرنے لگے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کرتا ہوا انسان بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ میں آپ کے کمرے میں داخل ہوا تو نرگس بھی اسی طرح کر رہی تھی۔ میں بھی....!‘‘
نعیم نے کہا۔’’ہومان تم ہر بات میں میری نقل اتارنے کی کیوں کوشش کرتے ہو؟‘‘
’’کیونکہ آپ ہم سے اچھے ہیں اور آپ کی ہر بات ہم سے اچھی ہے۔‘‘
’’اچھا یوں کرو۔ آج تمام گاؤں کے لوگوں کو جمع کرو۔ میں ان سے کچھ کہوں گا!‘‘
وہ آپ کی باتیں سن کر بہت خوش ہوں گے۔ میں انہیں ابھی اکٹھا کرتا ہوں۔ یہ کہہ کہ ہومان چلا گیا۔
دوپہر سے پہلے گاؤں کے تمام لوگ ایک جگہ جمع ہو گئے۔ نعیم نے پہلے دن خدا اور اس کے رسولﷺ کی تعریف کی۔ انہیں بتایا کہ آگ اور پتھر وغیرہ تمام خدا کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں۔ چیزوں کے بنانے والے کو بھول کر اس کی بنائی ہوئی چیزوں کی پوجا کرنا عقلمندی نہیں۔ ہماری قوم کی حالت بھی تمہاری قوم جیسی تھی۔ وہ بھی پتھر کے بت بنا کر پوجا کر تی تھی۔ لیکن ہم میں خدا کا ایک برگزیدہ رسولﷺ پیدا ہوا جس نے ہمیں ایک نیا راستہ دکھایا۔ نعیم نے آقائے مدنیﷺ کی زندگی کے حالات بیان کیے۔ اس طرح چند اور تقریریں کیں اور تمام بستی والوں کو اسلام کی طرف کھینچ لیا۔ سب سے پہلے کلمہ پڑھنے والے نرگس اور ہومان تھے۔
چند دنوں میں اس بستی کے ماحول میں یکسر تبدیلی ہو گئی۔ ان دلکش مرغزاروں میں نعیم کی اذانیں گونجنے لگیں اور رقص و سرود کی بجائے پانچ وقت کی نمازیں ادا ہونے لگیں۔
نعیم اب مکمل طور پر تندرست ہو چکا تھا۔ اس نے کئی بار واپس لوٹنے کا ارادہ کیا لیکن برفباری کی شدت سے پہاڑی راستے بند تھے اور اسے کچھ دیر قیام کے سوا چارہ نہ تھا۔
  نعیم بے کار بیٹھ کر دن کاٹنے کا عادی نہ تھا۔ اس لیے وہ کبھی کبھی ان لوگوں کے ساتھ شکار کے لیے باہر چلا جاتا۔ ایک دن ریچھ کے شکار میں نعیم نے غیر معمولی جرات کا مظاہر ہ کیا۔ ایک ریچھ ایک شکاری کے تیر سے زخمی ہونے پر اس قدر تندی سے حملہ آور ہوا کہ تمام شکاریوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے بڑے بڑے پتھروں کی آڑ میں چھپ کر ریچھ پر تیر برسانے لگے۔نعیم نہایت اطمینان سے اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ ریچھ غضبناک ہو کر اس پر جھپٹا۔ نعیم نے بائیں ہاتھ سے اپنی ڈھال اٹھا کر اسے روکا اور دائیں ہاتھ سے نیزہ اس کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ ریچھ الٹا ہو کر گرا لیکن پھر شور مچاتا ہوا اٹھا اور نعیم پر حملہ کر دیا۔ اتنی دیر میں وہ تلوار نیام سے نکال چکا تھا۔ ریچھ کے جھپٹنے کی دیر تھی کہ نعیم کی تلوار اس کی کھوپڑی پر لگی۔ ریچھ گرا۔ تڑپا اور ٹھنڈا ہو گیا۔ شکاری اپنی اپنی جائے پناہ سے نکل کر نعیم کی طرف حیرانی سے دیکھنے لگے۔ ایک شکاری نے کہا۔’’آج تک اتنا بڑا ریچھ کسی نے نہیں مارا۔ اگر آپ کی جگہ ہم میں سے کوئی ہوتا تو خیر نہ تھی۔ آپ نے آج کتنے ریچھ مارے ہیں ؟‘‘
’’یہ پہلا ہے۔‘‘ نعیم نے تلوار نیام میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’پہلا؟‘‘ وہ حیرانی سے بولا۔ ’’آپ تو بہت تجربہ کار شکاری معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
اس کے جواب میں ایک بوڑھے شکاری نے کہا۔’’دل کی بہادری، بازو کی ہمت اور تلوار کی تیزی کو تجربے کی ضرورت نہیں۔‘‘


(۳)

نعیم کو اب ہر لحاظ سے اس گاؤں کے لوگ انسانیت کا بلند ترین معیار تصور کرنے لگے اور اس کی ہر بات اور ہر حرکت قابل تقلید خیال کی جانے لگی۔ اس بستی میں اسے ڈیڑھ مہینہ گزر گیا۔ اسے اس بات کا یقین تھا کہ قتیبہ موسم بہار سے پہلے نقل و حرکت نہیں کرے گا اس لیے بظاہر اس کے وہاں ٹھہرنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی لیکن ایک نیا احساس نعیم کو اب کسی حد تک بے چین کر رہا تھا۔
نرگس کا طرز عمل اس کے پرسکون دل میں پھر ایک بار ہیجان پیدا کر رہا تھا۔ وہ اپنے خیال میں ابتدائے شباب کے رنگین سپنوں سے بے نیاز ہو چکا تھا لیکن فطرت کی رنگینیاں ایک بار پھر اس کے دل کے سوئے ہوئے فتنوں کو بیدار کرنے کے لیے کوشاں تھیں۔
نرگس اپنی شکل و شباہت اور اخلا ق و عادات کے لحاظ سے اسے اس بستی کے لوگوں سے بہت مختلف نظر آتی تھی۔ ابتدا میں جب بستی کے لوگ نعیم سے اچھی طرح واقف نہ تھے نرگس اس کے ساتھ بے تکلفی سے پیش آتی رہی لیکن جب بستی کے لوگ اس سے بے تکلف ہونے لگے تو اس کی بے تکلفی تکلف میں تبدیل ہو گئی۔ شوق کی انتہا اسے نعیم کے کمرے تک لے جاتی اور گھبراہٹ کی انتہا اسے چند لمحات سے زیادہ وہاں ٹھہرنے کی اجازت نہ دیتی۔ وہ اس کے کمرے میں اس خیال سے داخل ہوتی کہ وہاں سارا دن بیٹھ کر اسے بیتاب نگاہوں سے دیکھتی رہے گی لیکن نعیم کے سامنے پہنچ کر یہ خیال غلط ثابت ہوتا۔ اپنی امیدوں اور آرزوؤں کے مرکز کی طرف دیکھتے ہی وہ آنکھیں جھکا لیتی اور دھڑکتے ہوئے دل کی پر زور درخواستوں منتوں اور سماجتوں کے باوجود اسے دوبارہ نظر اٹھانے کی جرات نہ ہوتی اور اگر کبھی وہ یہ جرات کر بھی لیتی تو حیا نعیم اور اس کے درمیان ایک نقاب بن کر حائل ہو جاتی۔ ایسی حالت میں فقط یہ خیال اس کے دل کی تسکین کا باعث ہوتا کہ نعیم اس کی طرف دیکھ رہا ہے لیکن جب کبھی وہ ایک آدھ نگاہ غلط انداز سے اس کی طرف دیکھ لیتی اور اسے گہرے خیال میں گردن نیچی کیے پوستین کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے یا گھاس کے تنکوں کو کھینچ کھینچ کر توڑتے ہوئے پاتی تو اس کے دل کے اندر سلگنے والی چنگاریاں بجھ جاتیں اور جسم کے ہر رگ و ریشے میں سردی کی لہر دوڑ جاتی۔ اس کے کانوں میں گونجنے والے شباب کی دلکش راگ کی تانیں خاموش ہو جاتیں اور اس کے خیالات منتشر ہو جاتے۔ وہ اپنے دل پر ایک ناقابل برداشت بوجھ لیے اٹھتی اور نعیم کو حسرت بھرتی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر چلی جاتی۔
ابتدا میں ایک معصوم لڑکی کی محبت جہاں انسان کے دل میں ارادوں کا طوفان اور تصورات و خیالات کا ہیجان پیدا کر دیتی ہے وہاں غیر معمولی توہمات اسے عمل اور حرکت کی جرات سے بھی نا کار کر دیتے ہیں۔
نعیم اس کے خیالوں، آرزوؤں اور سپنوں کی چھوٹی سی دنیا کا مرکزی نقطہ بن چکا تھا۔ اس کا حال مسرتوں سے لبریز تھا لیکن جب وہ مستقبل کے متعلق سوچتی تو ان گنت توہمات اسے پریشان کرنے لگتے۔ وہ اس سامنے جانے کی بجائے اسے چھپ چھپ کر دیکھتی۔ کبھی ایک خیال انبساط کی کیفیت اسکے دل کو مسرور بنائے رکھتی اور کبھی ایک خیالی خوف کا تصور اسے پہروں بے چین رکھتا۔
نعیم ایسے ذکی الحس انسان کے لیے نرگس کے دل کی کیفیت کا اندازہ کرنا مشکل نہ تھا۔ وہ اپنی قوت تسخیر سے نا آشنا نہ تھا لیکن اس اپنے دل میں اس بات کا فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اسے اس فتح پر خوش ہونا چاہیے یا نہیں۔
ایک دن عشا کی نماز کے بعد نعیم نے ہومان کو اپنے پاس بلایا اور اس پر واپس جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ہومان نے جواب دیا ’’میں آپ کی مرضی کے خلاف آپ کو روکنے کی جرات تو نہیں کر سکتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ برفانی پہاڑوں کے راستے ابھی صاف نہیں ہوئے۔ آپ کم از کم ایک مہینہ اور ٹھہر جائیں۔ موسم بدل جانے پر آپ کے لیے سفر کرنا آسان ہو گا۔‘‘
نعیم نے جواب دیا ’’برفباری کا موسم تو اب گزر چکا ہے اور ویسے بھی سفر کا ارادہ میرے لیے ہموار یا دشوار گزار راستے ایک ہی جیسے بنا دیا کرتا ہے۔ میں کل صبح جانے کا ارادہ کر چکا ہوں۔‘‘
’’اتنی جلدی! کل تو ہم نہیں جانے دیں گے!‘‘
’’اچھا۔ صبح کے وقت دیکھا جائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر نعیم بستر پر دراز ہو گیا۔ ہومان اپنے کمرے میں جانے کے لیے اٹھا۔ راستے میں نرگس کھڑی تھی۔ ہومان کو آتا دیکھ کر وہ درخت کی آڑ میں کھڑی ہو گئی۔ ہومان جب دوسرے کمرے میں چلا گیا تو نرگس بھی اس کے پیچھے پیچھے داخل ہوئی۔
’’نرگس باہر سردی ہے۔ تم کہاں پھر رہ ہی ہو؟‘‘ ہومان نے کہا۔
نرگس نے جواب دیا۔ ’’کہیں نہیں۔یونہی باہر گھوم رہی تھی۔‘‘
یہ کمرہ نعیم کی آرام گاہ سے ذرا کھلا تھا۔ فرش پر سوکھی گھاس بچھی تھی۔ کمرے کے ایک کونے میں ہومان اور دوسرے میں نرگس لیٹ گئے۔ہومان نے کہا۔’’نرگس! وہ کل جانے کا ارادہ کر رہے ہیں۔‘‘
نرگس اپنے کانوں سے نعیم اور ہومان کی باتیں سن چکی تھی لیکن ایسے موضوع پر اس کی دلچسپی ایسی نہ تھی کہ وہ خاموش رہتی۔
وہ بولی۔’’تو آپ نے ان سے کیا کہا؟‘‘
’’میں نے تو انہیں ٹھہرنے کے لیے کہا ہے لیکن اصرار کرتے ہوئے بہت ڈر لگتا ہے۔ گاؤں والوں کو ان کے جانے کا بہت افسوس ہو گا۔ میں ان سے کہوں گا کہ وہ تمام مل کر انہیں ٹھہرنے پر مجبور کریں۔‘‘
ہومان نرگس سے چند اور باتیں کرنے کے بعد سو گیا۔ چند بار کروٹیں بدلنے اور سونے کی ناکام کوشش کے بعد اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ’’اگر انہیں اس طرح چلے جانا تھا تو آئے ہی کیوں تھے؟‘‘ یہ خیال آتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی۔ نعیم کے کمرے کا طواف کیا۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا لیکن آگے قدم اٹھانے کی جرات نہ ہوئی۔ اندر شمع جل رہی تھی اور نعیم پوستین اوڑھے سو رہا تھا۔ اس کا چہرہ ٹھوڑی تک عریاں تھا۔ نرگس نے اپنے دل میں کہا۔ ’’میرے شہزادے! تم جا رہے ہو۔ نہ معلوم کہاں ! تم کیا جانو کہ تم یہاں کیا چھوڑ کر جا رہے ہو اور کیا کچھ اپنے ساتھ لے جاؤ گے۔ ان پہاڑوں، چراگاہوں، باغوں اور چشموں کی تمام دلچسپیاں اپنے ساتھ لے جاؤ گے اور اس ویرانے میں اپنی یاد چھوڑ جاؤ گے....شہزادے....میرے شہزادے.... نہیں نہیں۔ تم میرے نہیں۔ میں اس قابل نہیں۔‘‘یہ سوچ کر نرگس سسکیاں لینے لگی۔ پھر وہ کمرے کے اندر داخل ہوئی اور تھوڑی دیر بے حس و حرکت کھڑی نعیم کی طرف دیکھتی رہی۔
اچانک نعیم نے کروٹ بدلی۔ نرگس خوفزدہ ہو کر باہر نکلی اور دبے پاؤں اپنے کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ گئی۔ ’’اف کتنی رات طویل ہے!‘‘ اس نے چند بار اٹھ اٹھ کر لیٹتے ہوئے کہا۔
علی الصباح ایک گڈریے نے اذان دی۔ نعیم بستر سے اٹھا اور وضو کے لیے چشمے پر پہنچا۔ نرگس پہلے سے وہاں موجود تھی۔ نرگس کی توقع کے خلاف نعیم اسے وہاں دیکھ کر زیادہ حیران نہ ہوا۔ اس نے کہا: ’’نرگس! تم آج بہت سویرے یہاں آ گئیں ؟‘‘
نرگس ہر روز نعیم کو ان درختوں کے پیچھے چھپ چھپ کر دیکھا کرتی تھی۔ آج وہ نعیم سے اس کی بے نیازی کا شکوہ کرنے کے لیے تیار ہو کر آئی تھی لیکن نعیم کے اس درجہ بے پروائی سے ہمکلام ہونے پر اس کے دل میں ولولوں کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی۔ تاہم وہ ضبط نہ کر سکی۔ اس نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا: ’’آج آپ چلے جائیں گے؟‘‘
’’ہاں ! نرگس مجھے یہاں آہوئے بہت دیر ہو گئی ہے۔ آپ نے میرے لیے بہت تکلیف اٹھائی ہے شاید میں شکریہ ادا نہ کر سکوں۔ خدا آپ لوگوں کو جزائے خیر دے !‘‘
نعیم یہ کہہ کر ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور چشمے کے پانی سے وضو کرنے لگا۔ نرگس کچھ اور بھی کہنا چاہتی تھی لیکن نعیم کا طرز عمل حوصلہ افزا نہ تھا۔ دل کا طوفان یکسر ٹھنڈا ہو گیا۔ جب گاؤں کے باقی لوگ وضو کے لیے اس چشمے پر جمع ہونے لگے تو نرگس وہاں سے کھسک آئی۔
گاؤں کا بڑا خیمہ جس میں یہ لوگ اسلام لانے سے پہلے فرصت کے لمحات میں رقص و سرود میں گزارا کرتے تھے اب نماز کے لیے وقف تھا۔ نعیم وضو کرنے کے بعد اس خیمے میں داخل ہوا۔ گاؤں کے لوگوں کو نماز پڑھائی اور دعا کے بعد انہیں بتایا کہ میں جا رہا ہوں۔
نعیم اور ہومان ایک ساتھ خیمے سے باہر نکلے۔ مکان پر پہنچ کر نعیم اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ ہومان نے نعیم کے ساتھ داخل ہوتے وقت اپنے پیچھے گاؤں کے لوگوں کو آتے دیکھا تو اندر جانے کی بجائے چند قدم واپس ہو کر ان کی طرف متوجہ ہو ا۔ ’’کیا وہ سچ مچ چلے جائیں گے؟‘‘ ایک بوڑھے نے سوال کیا۔
’’ہاں۔ مجھے افسوس ہے کہ وہ نہیں ٹھہریں گے۔ہومان نے جواب دیا۔
’’اگر ہم اصرار کریں تو بھی؟‘‘
’’تو شاید ٹھہر جائیں لیکن مجھے یقین نہیں۔ تاہم آپ انہیں ضرور مجبور کریں۔ وہ جس دن سے آئے ہیں، میں محسوس کر رہا ہوں کہ مجھے دنیا کی بادشاہت مل گئی ہے۔ آپ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔ آپ ضرور کوشش کریں۔ شاید وہ آپ کا کہا مان لیں۔‘‘
نعیم زرہ بکتر اور اسلحہ سے آراستہ ہو کر باہر نکلا۔ گاؤں کے لوگوں نے اسے دیکھ کر ایک ساتھ شور مچانا شروع کیا۔’’ہم نہیں جانے دیں گے۔ ہم نہیں جانے دیں گے!‘‘
نعیم اپنے مخلص میزبانوں کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ہاتھ بلند کیا۔ وہ تمام یکے بعد دیگرے خاموش ہو گئے۔
نعیم نے ایک مختصر سی تقریر کی:
’’برادران! اگر میں اپنے فرائض کی وجہ سے مجبور نہ ہوتا تو مجھے اس جگہ چند دن اور ٹھہر جانے پر اعتراض نہ ہوتا لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جہاد ایک ایسا فرض ہے جسے کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں آپ کی محبت کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ امید ہے کہ آپ مجھے خوشی سے اجازت دے دیں گے۔‘‘
نعیم نے اپنی تقریر ابھی ختم نہ کی تھی کہ ایک چھوٹا سا لڑکا چلا اٹھا۔ ’’ہم نہیں جانے دیں گے!‘‘ نعیم نے آگے بڑھ کر کمسن بچے کو اٹھا لیا اور اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔’’مجھے آپ لوگوں کے احسانات ہمیشہ یاد رہیں گے۔ اس بستی کا تصور مجھے ہمیشہ مسرور کرتا رہے گا۔ جب میں اس بستی میں آیا تھا تو ایک اجنبی تھا۔اب جبکہ چند ہفتوں کے بعد میں رخصت ہو رہا ہوں تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ اپنے عزیز ترین بھائیوں سے جدا ہو رہا ہوں۔ اگر خدا نے چاہا تو ایک بار پھر میں یہاں آنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
اس کے بعد نعیم نے ان لوگوں کو چند نصیحتیں کیں اور دعا کے بعد لوگوں سے مصافحہ کرنا شروع کیا۔
ہومان بھی دوسرے لوگوں کی طرح اپنی مرضی کے خلاف راضی ہو چکا تھا۔ وہ نعیم کے لیے اپنا خوبصورت سفید گھوڑا لے آیا اور نہایت خلوص کے ساتھ یہ تحفہ قبول کرنے کی درخواست کی۔
نعیم نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ ہومان اور گاؤں کے پندرہ نوجوانوں نے نعیم کے ساتھ جہاد پر جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ نعیم کے اس وعدے پر کہ وہ اپنے لشکر میں پہنچ کر ضرورت کے وقت انہیں بلا بھیجے گا۔ وہ مطمئن ہو کر ٹھہر گئے۔ نعیم نے رخصت ہونے سے پہلے ادھر ادھر دیکھا لیکن نرگس نظر نہ آئی۔ وہ اسے الوداع کہے بغیر رخصت نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن اس وقت اس کے متعلق کسی سے سوال کرنا بھی مناسب نہ تھا۔
ہومان سے مصافحہ کرتے ہوئے نعیم نے عورتوں کے ہجوم پر سرسری نظر ڈالی۔ نرگس شاید اس کا مطلب سمجھ گئی اور ہجوم سے علیحدہ ہو کر نعیم سے کچھ دور کھڑی ہو گئی۔ نعیم گھوڑے پر سوار ہوا۔ اس نے نرگس کے چہرے پر الوداعی نگاہ ڈالی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ نرگس کی آنکھیں نعیم کی آنکھوں کے مقابلے میں نہ جھپکیں۔ وہ پتھر کی ایک مورتی کی طرح بے حس و حرکت کھڑی آنکھیں پھاڑ کر نعیم کی طرف دیکھ رہی تھی۔ نعیم درد کی اس شدت سے واقف نہ تھا جس سے آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہو جاتے ہیں۔ وہ اس دلگداز منظر کی تاب نہ لا سکا۔ اس کا دل بھر آیا لیکن جانے سے ٹھہر جانا مشکل نظر آتا تھا۔ نعیم نے دوسری طرف منہ پھیر لیا۔ ہومان اور گاؤں کے چند آدمی کچھ دور اس کے ساتھ جانا چاہتے تھے۔ لیکن اس نے انہیں منع کیا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔
لوگ اونچے اونچے ٹیلوں پر چڑھ کر نعیم کی آخری جھلک دیکھ رہے تھے لیکن نرگس وہیں کھڑی رہی۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پاؤں زمین کے ساتھ پیوست ہو چکے ہیں اور اس میں ہلنے کی طاقت نہیں رہی۔ اس کی چند سہیلیاں اس کے گرد جمع ہو گئیں۔ زمرد جو سب سے زیادہ بے تکلف اور ہم راز تھی، مغموم صورت بنائے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس نے گاؤں کی عورتوں کو جمع ہوتے دیکھ کر کہا:
’’تم یہاں کیا دیکھ رہی ہو؟ جاؤ اپنے اپنے گھر!‘‘
چند عورتیں وہاں سے کھسک گئیں مگر بعض وہیں کھڑی رہیں۔ زمرد نے نرگس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: چلو نرگس!‘‘
نرگس نے چونک کر زمرد کی طرف دیکھا اور بغیر کچھ کہے زمرد کے ساتھ خیمے کے اندر داخل ہو گئی۔ وہ پوستین جسے نعیم اوڑھا کر تا تھا، وہیں پڑی ہوئی تھی۔ نرگس نے بیٹھتے ہوئے پوستین اٹھائی۔ اپنا چہرہ اس میں چھپا لیا۔ آنکھوں میں رکے ہوئے آنسو بہہ نکلے۔زمرد دیر تک اس کے پاس کھڑی رہی۔ بالآخر اس نے نرگس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔’’نرگس! تم مایوس ہو گئیں۔ میں نے انہیں کئی دفعہ وعظ میں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ہمیں خدا کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ وہ مانگنے والوں کو ہر شے بخش سکتا ہے۔ اٹھو نرگس باہر چلیں ! وہ ضرور آئیں گے۔‘‘
نرگس آنسو پونچھتے ہوئے زمرد کے ساتھ باہر نکلی۔ بستی کی ہر چیز پر اداسی چھا رہی تھی۔

(۴)

دوپہر کے وقت آفتاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ بستی کے باہر کھجوروں کے ایک گھنے جھنڈ کے نیچے چند آدمی جمع تھے۔ ان میں سے بعض باتیں کر رہے تھے اور باقی سو رہے تھے۔ ان لوگوں کی گفتگو کا موضوع قتیبہؒ، محمد بن قاسمؒ اور طارقؒ کی فتوحات تھیں۔
’’بھلا ان تینوں میں سے بہادر کون ہے؟‘‘ ایک نوجوان نے سوال کیا۔
’’محمدؒ بن قاسم۔‘‘ ایک شخص نے ذرا سوچ کر جواب دیا۔ محمدؒ بن قاسم کا نام سن کر ایک شخص جو نیند کے نشے میں جھوم رہا تھا، ہوشیار ہو کر بیٹھ گیا۔
’’محمدؒ بن قاسم؟ ارے وہ کیا بہادر ہے؟ سندھ کے ڈرپوک راجاؤں کو بھگا دیا تو بہادر بن بیٹھا۔ لوگ تو اس سے اس لیے ڈرتے ہیں کہ وہ حجاج کا بھتیجا ہے۔ اس سے تو طارق اچھا ہے۔‘‘ اس نے یہ کہہ کر آنکھیں بند کر لیں۔
اس پر محمدؒ بن قاسم کے مداح کو طیش آیا تو اس نے کہا۔’’چاند پر تھوکنے سے اپنے ہی منہ پر چھینٹے پڑتے ہیں۔ آج اسلامی دنیا میں محمدؒ بن قاسم کے مقابلے کا کوئی آدمی نہیں ہے!‘‘
  تیسرا بول اٹھا۔ ’’ہم  محمدؒ بن قاسم کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن یہ کہنے کے لیے تیار نہیں کہ آج اسلامی دنیا میں اس کا کوئی مد مقابل نہیں۔ میرا خیال ہے طارقؒ کے مقابلے کا کوئی سپاہی نہیں۔‘‘
چوتھے نے کہا۔ ’’یہ بھی غلط ہے۔ قتیبہؒ ان دونوں سے بہادر ہے۔‘‘
طارقؒ کے مداح نے کہا۔’’لا حول و لا قوة۔ کہاں طارقؒ اور کہاں قتیبہ۔ یہ تو ہم مان لیتے ہیں کہ قتیبہؒ محمدؒ بن قاسم سے اچھا ہے لیکن طارقؒ سے اسے کوئی نسبت نہیں۔‘‘
’’تمہارا ذلیل منہ اس قابل نہیں کہ تم محمدؒ بن قاسم کا نام لو۔‘‘ ابنؒ قاسم مداح نے پھر طیش میں آ کر کہا۔
’’اور تمہارا ذلیل منہ اس قابل نہیں کہ تم میرے ساتھ کلام کرو!‘‘ طارقؒ کے مداح نے جواب دیا۔ اس پر دونوں تلواریں کھینچ کر ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے۔ ابھی لڑائی شروع ہی ہوئی تھی کہ عبد اللہ گھوڑے پر آتا دکھائی دیا۔ عبد اللہ نے کچھ فاصلے پر سے یہ منظر دیکھ کر گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اور آن کی آن میں ان کے درمیان آ کھڑا ہوا اور تیغ آزمائی کی وجہ پوچھی۔ ایک شخص نے جواب دیا۔ ’’یہ اس بات کا فیصلہ کر رہے ہیں کہ طارقؒ اچھا ہے یا محمدؒ بن قاسم۔‘‘
’’ٹھہرو! عبداللہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور لڑنے والے بھی عبد اللہ کی طرف دیکھنے لگا۔ ’’تم دونوں غلطی پر ہو، محمدؒ بن قاسم یا  طارقؒ تمہاری تعریف یا مذمت سے بے نیاز ہیں۔ تم مفت میں ایک دوسرے کی گردن کیوں کاٹ رہے ہو؟ سنو! طارقؒ کبھی یہ گوارا نہیں کرے گا کہ کوئی اسے محمدؒ بن قاسم سے اچھا کہے اور محمدؒ بن قاسم بھی یہ سن کر خوش نہ ہو گا کہ کہ وہ طارقؒ سے اچھا ہے، وہ لوگ جو خدا کے حکم پر سب کچھ قربان کر دینے کی خواہش سے میدان جنگ میں جاتے ہیں، ایسی سطحی باتوں سے بے نیاز ہیں۔ تم اپنی تلواریں نیام میں ڈالو اور انہیں ان کے حال پر رہنے دو!‘‘
یہ سن کر تمام لوگ خاموش ہو گئے اور لڑنے والوں نے نادم ہو کر تلواریں نیاموں میں ڈالیں۔ اس کے بعد تمام لوگ اٹھ اٹھ کر عبد اللہ سے مصافحہ کرنے لگے۔ عبد اللہ نے ایک شخص سے اپنے گھر کا حال دریافت کیا۔ اس نے جواب دیا:
’’آپ کے گھر میں ہر طرح کی خیریت ہے۔ میں نے کل آپ کا بچہ دیکھا تھا۔ ماشاء اللہ آپ کی طرح جواں مرد ہو گا۔‘‘
’’میرا بچہ!‘‘ عبد اللہ نے سوال کیا۔۔
’’آپ کو ابھی تک یہ خبر نہیں پہنچی۔ آپ تو ماشاء اللہ تین چار ماہ سے ایک ہونہار بیٹے کے باپ بن چکے ہیں۔ کل میری بیوی آپ کے گھر سے اٹھا لائی تھی۔ میرے بچے اسے دیر تک کھلا رہے۔ بہت خوش طبع لڑکا ہو گا۔‘‘
عبد اللہ نے حیا سے آنکھیں جھکا لیں اور ان لوگوں کو چھوڑ کر گھر کی راہ لی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ ایک ہی جست میں گھر پہنچ جائے لیکن لوگوں سے شرماتے ہوئے گھوڑے کو معمولی رفتار سے جانے دیا۔جب وہ درختوں کی آڑ میں اس کی نظروں سے غائب ہو گئے تو اس نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑا دیا۔
عبد اللہ گھر میں داخل ہوا تو عذرا کھجور کے سایہ میں چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی۔ اس کے دائیں طرف ایک خوبصورت بچہ لیٹا ہوا انگوٹھا چوس رہا تھا۔ عبد اللہ بغیر کچھ کہے ایک کرسی آگے بڑھا کر عذرا کے بستر کے قریب بیٹھ گیا۔ عذرا نے ایک شرمیلی نگاہ شوہر کے چہرے پر ڈالی اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔ عبد اللہ مسکرا دیا۔ عذرا نے آنکھیں جھکا لیں۔ بچے کو گود میں اٹھایا اور سر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ عبد اللہ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر عذرا کا ہاتھ پکڑ کر چوما پھر آہستہ سے بچے کو اٹھایا۔ اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اپنی گود میں لٹا کر اس کی طرف غور سے دیکھنے لگا اور جب اس نے ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہوئے اسے پکڑ لیا تو عبد اللہ نے اپنے خنجر کا دستہ اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ بچہ خنجر کے دستے کو منہ لگا کر چوسنے لگا۔
عذرا نے اس کے ہاتھ سے خنجر کا دستہ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔’’اچھا کھلونا لے کر آئے ہیں آپ!‘‘
عبد اللہ نے مسکرا کر کہا۔’’مجاہد کے بچے کے لیے اس سے اچھا کھلونا اور کیا ہو سکتا ہے؟‘‘۔  ’’جب ایسے کھلونوں کے ساتھ کھیلنے کا وقت آئے گا تو انشاء اللہ اسے برا کھلاڑی نہ دیکھیں گے!‘‘
’’عذرا اس کا نام کیا رکھا؟‘‘
’’آپ بتائیں ؟‘‘
’’عذرا مجھے تو ایک ہی نام پیارا لگتا ہے۔‘‘
’’بتائیے!‘‘
’’نعیم۔‘‘ عبد اللہ نے مغموم سا ہو کر جواب دیا۔
یہ سن کر عذرا کی کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ اس نے کہا:
’’مجھے یقین تھا کہ آپ یہی نام پسند کریں گے۔ اس لیے میں نے پہلے ہی یہ نام رکھ دیا ہے۔‘‘

(۵)

نرگس کی بستی سے رخصت ہو کر کوئی پچاس کوس کا فاصلہ طے کرنے کے بعد نعیم نے تاتاری چرواہوں کی ایک چھوٹی سی بستی میں رات بسر کی۔ وہ ان لوگوں کی راہ و رسم سے واقف تھا، اس لیے جائے قیام ڈھونڈنے میں اسے کوئی دقت پیش نہ آئی۔ بستی کے سردار نے اسے اسلامی فوج کا ایک افسر خیال کرتے ہوئے اس کی ہر ممکن تواضع کی۔ شام کا کھانے کھانے کے بعد نعیم سیر کے لیے نکلا۔ وہ بستی سے زیادہ دور نہ گیا تھا کہ کچھ فاصلے پر فوجی نقاروں کی آواز سنائی دی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ گاؤں کے لوگ بدحواسی کی حالت میں اپنے گھروں سے نکل کر ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ نعیم بھاگتا ہوا ان کے قریب پہنچا اور ان سے اس پریشانی کی وجہ پوچھی۔
گاؤں کے سردار نے کہا۔’’ نزاق کی افواج مسلمانوں کے لشکر پر ایک ناکام حملہ کر کے پسپا ہونے کے بعد فرغانہ کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ ان کے راستے میں جو بستی آتی ہے لوٹ لی جاتی ہے مجھے ڈر ہے اگر وہ اس راستے سے گزرے تو ہمیں سخت تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ یہیں ٹھہریں میں اس پہاڑی پر چڑھ کر ان کا پتہ لگاتا ہوں۔‘‘
نعیم نے کہا۔’’میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘
نعیم اور تاتاری سردار بھاگتے ہوئے پہاڑی کی چوٹی پر پہنچے۔ وہاں سے انہیں ڈیڑھ کوس کے فاصلے پر تاتاریوں کا لشکر آتا دکھائی دیا۔ سردار کچھ دیر دم بخود کھڑا رہا۔ آخر وہ خوشی سے اچھل پڑا۔‘‘ ہم بچ گئے۔ وہ ادھر نہیں آ سکیں گے۔ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے میں یہ خیال کرتا تھا کہ آپ کی آمد ہمارے لیے ایک برا شگون ہے، لیکن اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ کوئی آسمانی دیوتا ہیں۔ یہ آپ کی کرامت ہے کہ بھوکے بھیڑیوں کے اس گروہ نے ہماری طرف سے توجہ پھیر لی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نعیم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے نیچے اترا۔ اس نے بستی کے لوگوں کو خوشخبری سنائی اور وہ تمام اس خبر کی تصدیق کے لیے پہاڑ پر چڑھ گئے۔
شام کا دھندلکا شب کی تاریکی میں تبدیل ہو رہا تھا۔ بستی سے کچھ دور فرغانہ کی طرف جانے والے راستے پر فوج کی خفیف سی جھلک نظر آ رہی تھی۔ لیکن گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز اور نقاروں کی گونج ہر لحظہ دھیمی پڑ رہی تھی اور یہ لوگ مطمئن ہو کر اچھلتے کودتے گاتے اور ناچتے بستی کی طرف لوٹ آئے۔
نعیم کو عشا کی نماز ادا کرنے کے بعد لیٹتے ہی نیند گئی۔ خواب کے عالم میں مجاہد ایک بار پھر تند گھوڑے پر سوار ہو کر تیروں کی بارش اور تلواروں کے سایہ میں دشمن کی صفوں کو چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ علی الصباح اٹھا اور نماز پڑھنے کے بعد منزل مقصود کی طرف روانہ ہو گیا۔
چند منازل اور طے کرنے کے نعیم کو ایک دن اسلامی لشکر کا پڑاؤ دکھایا دیا۔ وہ مرو سے اپنے لشکر کی غیر متوقع پیش قدمی پر حیران تھا۔تاہم اسے خیال گزرتا کہ کہ تاتاریوں کے حملے نے انہیں قبل از وقت آگے بڑھنے پر مجبور کر دیا ہو گا۔ قتیبہ بن مسلم بابلی نے اپنے محبوب جرنیل کا نہایت گرمجوشی سے استقبال کیا۔ فوج کے باقی سالاروں نے بھیا س کی آمد پر بے حد مسرت کا اظہار کیا۔
نعیم سے بہت سے سوالات پوچھے گئے۔ ان تمام کے جواب میں اس نے اپنی مختصر سی سرگزشت کہہ سنائی۔ اس کے بعد نعیم نے قتیبہ بن مسلم سے چند سوالات کیے جن کے جواب میں معلوم ہوا کہ وہ تاتاریوں کو شکست دے کر نزاق کا تعاقب کر رہا ہے۔
رات کے وقت قتیبہ بن مسلم اپنے چند جرنیلوں اور مشیروں کی مجلس میں پیش قدمی کے لیے مختلف تجاویز پر بحث کر رہا تھا۔نعیم نے اسے یقین دلایا کہ ابن صادق فرغانہ کو اپنی تازہ سازشوں کا مرکز بنائے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے تعاقب میں تاخیر نہ کریں۔
صبح کے وقت کوچ کا نقارہ بجایا گیا۔ قتیبہ نے فوج کودو حصوں میں تقسیم کر کے آگے بڑھنے کے لیے دو مختلف راستے تجویز کیے۔ نصف فوج کی قیادت اپنے ہاتھ میں لی اور دوسرا حصہ جس میں نعیم شامل تھا، اپنے بھائی کے سپرد کیا۔ نعیم چونکہ راستے کے نشیب و فراز سے واقف تھا، اس لیے قتیبہ کے بھائی نے اسے ہراول متعین کر دیا۔

(۶)

نرگس ایک پتھر کی پر بیٹھی چشمے کے شفاف پانی سے کھیل رہی تھی۔ وہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں اٹھا کرپانی میں پھینکتی اور پھر انہیں آہستہ آہستہ تہہ تک جاتے دیکھتی رہتی۔ جب ایک کنکری پانی کی تہہ تک پہنچ جاتی تو وہ دوسری اٹھا کر پانی کی سطح پر چھوڑ دیتی۔ کبھی کبھی وہ اس کھیل سے اکتا کر سامنے میدان کی طرف دیکھتی جس کی وسیع حدود کے اختتام پر گھنے درختوں کے سبز لباس میں لپٹی ہوئی پہاڑیاں کھڑی تھیں۔ ان پہاڑوں کے پیچھے اونچے اونچے پہاڑوں کی سفید برفانی چوٹیاں نظر آ رہی تھیں۔ موسم بہار کے آغاز کی کیف آور ہوا چل رہی تھی۔ دائیں جانب سیب کے درختوں اور انگور کی بیلوں میں شگوفے پھوٹ رہے تھے۔
نرگس اپنے خیالات میں محو تھی کہ پیچھے سے زمرد نے دبے پاؤں آ کر ایک پتھر اٹھا کر پانی میں پھینکا۔ پانی اچھلنے سے چند چھینٹے نرگس کے کپڑوں پر پڑ گئے۔ نرگس نے گھبرا کر پیچھے کی طرف دیکھا۔ زمرد نے قہقہہ لگایا لیکن نرگس کی طرف سے کوئی جواب نہ دیا۔ زمرد اپنی ہنسی کو روکتے اور چہرے کو نرگس کی طرح سنجیدہ بنائے ہوئے آگے بڑھی اور نرگس کے قریب آ کر بیٹھ گئی۔
’’نرگس! میں نے تمہیں آج بہت ڈھونڈا۔ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ نرگس نے پانی ایک ہاتھ سے اچھالتے ہوئے جواب دیا۔
’’تم کب تک اس طرح گھل گھل کر جان دو گی۔ تمہارا چہرہ پہلے سے آدھا بھی نہیں رہا۔کس قدر زرد ہو گئی ہو تم؟‘‘
’’زمرد! مجھے بار بار تنگ کرو۔ جاؤ!‘‘
’’میں مذاق نہیں کرتی نرگس، خدا جانتا ہے کہ میں تمہیں دیکھ کر بیحد پریشان ہوتی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر زمرد نے نرگس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور اس کا سر اپنی طرف کھینچ کر سینے سے لگا لیا۔ نرگس نے ایک بیمار بچے کی طرح اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔
  ’’کاش میں تمہارے لیے کچھ کر سکتی۔‘‘ زمرد نے نرگس کی پیشانی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، نرگس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے درد بھری آواز میں کہا:
’’میرے لیے جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ میں نے پہاڑ کی چوٹی کے دلکش مناظر کو دیکھا لیکن راستے کی دشواریوں پر دھیان نہ کیا زمرد! وہ میرے لیے نہیں تھا۔ میں اس قابل بھی نہ تھی۔ مجھے اس سے شکایت بھی نہیں۔ میرے جیسی ہزاروں لڑکیاں اس کے پاؤں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کے لیے ترستی ہوں گی۔ لیکن وہ یہاں کیوں آیا؟ اگر آیا تو چلا کیوں گیا۔ میں اسے دیکھتے ہی بے قرار اور پریشان کیوں ہونے لگی؟ میں نے اسے سب کچھ بتا دیا ہوتا لیکن اس میں کونسی ایسی طاقت تھی جو میری زبان پر اس طرح قابو پا لیتی تھی۔ میں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ہم لوگوں سے بہت مختلف ہے، اپنے آپ کو اس کے پاؤں میں ڈالنے کی کوشش کی۔ میں اس انجام سے ڈرتی تھی لیکن کاش خوف مجھے اس کنوئیں میں ڈرنے سے روک سکتا۔ زمرد! میں بچپن ہی سے یہ خواب دیکھا کرتی تھی کہ آسمان سے ایک شہزاد اترے گا اور میں اس پر دل و جان سے نثار ہو کر اسے اپنا بنا لوں گی۔ میرا شہزادہ آیا لیکن میں اسے اپنا بنانے سے ڈرتی رہی۔ زمرد! کیا یہ بھی ایک خواب تھا؟ کیا اس خواب کی کوئی تعبیر ہو گی؟ زمرد! زمرد!! مجھے کیا ہو گیا ہے؟ تم پھر یہی کہو گی کہ میں صبر سے کام نہیں لیتی۔ کاش صبر میرے بس کی بات ہوتی!‘‘
’’نرگس! ہر خواب کی تعبیر کے لیے وقت معین ہوتا ہے۔ انتہائی مایوسیوں میں بھی انتظار اور امید ہمارا آخری سہارا ہونا چاہیے۔ خدا سے دعا کیا کرو۔ اس طرح آہیں بھرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اب اٹھو آئیں سیر کر آئیں۔‘‘
نرگس اٹھ کر زمرد کے ساتھ چل دیا۔ وہ ابھی چند قدم گئی تھیں کہ دائیں طرف سے ایک سوار سرپٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا دکھائی دیا۔سوار نے لڑکیوں کے قریب آ کر گھوڑا روک لیا۔ زمرد اسے دیکھ کر چلا اٹھی۔’’نرگس نرگس۔ تمہارا شہزادہ آگیا!‘‘
نرگس وہیں کی وہیں کھڑی رہی۔ اس کی مملکتِ دل کا بادشاہ سامنے کھڑا تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر شبہ ہو رہا تھا۔ اس کے دماغ پر ایک غنودگی سی طاری ہو رہی تھی۔ انتہائی خوشی یا انتہائی غم کی حالت میں جس کا سامنا کرنے کے بعد انسان بے حس سا ہو جاتا ہے، نرگس نے کسی خواب کی سی حالت میں چلنے والے کی طرح دو تین قدم اٹھائے اور لڑکھڑا کر زمین پر گری پڑی۔ نعیم فوراً گھوڑے سے اترا اور اس نے آگے بڑھ کر سہارا دے کر نرگس کو اٹھایا۔
’’نرگس کیا ہوا؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ نرگس نے آنکھیں کھول کر نعیم کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا:
’’مجھے دیکھ کر ڈر گئیں ؟‘‘
نرگس کچھ جواب دیے بغیر دم بخود ہو کر نعیم کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسے اس قدر قریب سے دیکھنا اس کی توقع سے زیادہ تھا لیکن نعیم اس کی حالت سے مطمئن ہو کر اس سے دو قدم ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔نرگس دامن میں آئے ہوئے پھول کی جدائی کا تصور برداشت نہ کر سکی۔ اس کے جسم کے ہر رگ و ریشے میں ایک ارتعاش سا پیدا ہونے لگا۔ وہ نسوانی غرور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھی اور مجاہد کے قدموں پر جھک گئی۔
نعیم کی طاقتِ ضبط جواب دے رہی تھی۔ اس نے نرگس کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور زمرد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’زمرد! انہیں گھر لے جاؤ!‘‘
نرگس نے باری باری نعیم اور زمرد کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ پھر ایک بار مڑ کر نعیم کی طرف دیکھا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھا اٹھا کر گھر کا رخ کیا۔ نعیم نے زمرد کی طرف دیکھا وہ اسی جگہ کھڑی تھی۔
نعیم نے غمگین لہجے میں کہا۔’’زمرد! جاؤ اسے تسلی دو!‘‘
  زمرد نے جواب دیا۔ ’’کیسی تسلی؟ آپ نے آ کر اس کا آخری سہارا بھی توڑ دیا ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ آپ نہ آتے۔‘‘
’’میں ہومان سے ملنے آیا تھا۔ وہ کہاں ہے؟‘‘
’’وہ شکار کھیلنے گیا ہوا ہے۔‘‘
’’پھر میرا گھر جانا بے سود ہے۔ ہومان کو میرا سلام کہنا اور اسے بتا دینا کہ مجبوری کی وجہ سے نہیں ٹھہر سکا۔ ہماری فوج فرغانہ کی طرف جا رہی ہے۔‘‘
نعیم یہ کہہ کر گھوڑے پر سوار ہوا لیکن زمرد نے آگے بڑھ کر گھوڑی کی باگ پکڑ لی اور کہا۔’’میں تو سمجھا کرتی تھی کہ آپ سے زیادہ نرم دل انسان اور کوئی نہیں ہو گا لیکن میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ آپ مٹی کے بنے ہوئے نہیں ہیں۔ کسی اور چیز کے بنے ہوئے ہیں۔ اب تو اس بدنصیب کے جسم میں جان بھی نہیں رہی۔‘‘
’’زمرد! ادھر دیکھو۔‘‘ نعیم نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ زمرد نے اس طرح دیکھا۔ ایک لشکر آتا ہوا دکھائی دیا۔
اس نے کہا۔’’شاید کوئی فوج آ رہی ہے۔‘‘
نعیم نے کہا۔’’وہ ہماری فوج آ رہی ہے۔ میں ہومان سے چند باتیں کرنے کے لیے فوج سے آگے نکل آیا تھا۔‘‘
زمرد نے کہا۔ ’’آپ ٹھہریں۔ شاید وہ آج راتا جائے۔‘‘
’’اس وقت میرا ٹھہرنا محال ہے۔ میں پھراؤں گا.... نرگس کے دل میں میرے متعلق شاید غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے۔ تم اسے جا کر تسلی دو۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ اس قدر کمزور دل کی مالک ہے۔ اسے اطمینان دلاؤ کہ میں ضرور آؤں گا۔ میں اس کی دل کی کیفیت سے واقف ہوں۔‘‘
زمرد نے جواب دیا۔ ’’جہاں تک باتوں کا تعلق ہے۔ میں اسے پہلے بھی بہت تسلی دیا کرتی ہوں لیکن اب وہ شاید میری باتوں کا یقین نہ کرے۔کاش آپ نے اپنے منہ سے تسلی کا ایک لفظ ہی کہہ دیا ہوتا۔ اب اگر آپ اسے کے لیے کوئی نشانی دے سکیں تو اس کی تسلی کر سکوں۔‘‘
نعیم نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور جیب سے رومال نکال کر زمرد کو پیش کیا اور کہا:
’’یہ اسے دے دینا!‘‘
بستی کے لوگ فوج کی آمد سے باخبر ہو کر بدحواسی میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔نعیم نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور انہیں بتایا کہ کوئی خطرے کی بات نہیں۔ وہ مطمئن ہو کر نعیم کے گرد جمع ہو گئے۔ نعیم گھوڑے سے اتر کر ہر ایک سے بغلگیر ہوا۔ اتنے میں فوج بستی کے قریب آ گئی۔ اخوت اسلام کا رشتہ عجیب تھا۔ یہ لوگ نعیم کے ساتھ اسلامی فوج کے استقبال کے لیے نکلے۔ نعیم نے سپہ سالار سے ان کا تعارف کروایا۔ فوج کے عزائم سے واقف ہو کر چند لوگوں نے جہاد پر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ سپہ سالار نے انہیں فوراً تیار ہو جانے کا حکم دیا۔ ان سب لوگوں میں سے زیادہ بے تابی ظاہر کرنے والا نرگس کا ایک چچا برمک تھا جو اپنی زندگی کی پچاس بہاریں دیکھنے کے باوجود قوی ہیکل اور تنومند تھا۔ ان لوگوں کو تیاری کا موقع دینے کے لیے فوج کو کچھ دیر قیام کا حکم مل گیا۔
ایک ساعت کے بعد بیس آدمی تیار ہو گئے اور فوج کو آگے بڑھنے کا حکم ہوا۔ بستی کی عورتیں فوج کے کوچ کا منظر دیکھنے کے لیے ایک پہاڑ پر جمع ہو گئیں۔ نعیم سب سے آگے ہراول کی رہنمائی کر رہا تھا۔ نرگس اور زمرد عورتوں سے الگ اور راہ گزر سے ذرا زیادہ قریب کھڑی آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔ نرگس کے ہاتھ میں نعیم کا رومال تھا۔
زمرد نے نعیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’نرگس تمہارا شہزادہ تو سچ مچ شہزادہ نکلا!‘‘
نرگس نے جواب دیا۔ ’’کاش وہ میرا ہو۔‘‘
  ’’تمہیں اب بھی یقین نہیں آتا؟‘‘
’’یقین آتا بھی ہے اور نہیں بھی۔ جب مایوسی کی گھٹائیں ایک بار امید کا چراغ بجھا دیتی ہیں تو پھر اس کو روشن کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر سچ پوچھو تو مجھے تمہاری باتوں کا پورا پورا یقین نہیں آتا زمرد! سچ کہو، تم مجھ سے مذاق تو نہیں کر رہی ہو؟‘‘
’’نہیں۔ تمہیں اگر یقین نہیں آتا تو انہیں بلا لاؤں۔ وہ ابھی زیادہ دور نہیں گئے ہیں۔‘‘
’’نہیں زمرد تم قسم کھاؤ!‘‘
’’تمہیں کس قسم پر اعتبار آئے گا؟‘‘
’’تم اپنے شہزادے کی قسم کھاؤ۔‘‘
’’کون سے شہزادے کی؟‘‘
’’ہومان کی!‘‘
’’تمہیں کس نے بتایا کہ وہ میرا شہزادہ ہے؟‘‘
’’تم نے۔‘‘
’’کب؟‘‘
’’اس دن جب وہ ریچھ کے شکار سے زخمی ہو کر آیا تھا تو تم نے ساری رات آنکھوں میں کاٹی تھی۔‘‘
’’ اس سے تم نے کیا اندازہ لگایا؟‘‘
’’زمرد! بھلا تم مجھ سے کیا چھپا سکتی ہو۔ مجھ پر بھی ایسا وقت گزر چکا ہے۔ تمہیں یاد نہیں رہا کہ وہ بھی زخمی ہو کر آئے تھے۔‘‘
’’اچھا تو اگر میں ان کی قسم کھاؤں تو تمہیں یقین آ جائے گا؟‘‘
’’شاید آ جائے۔‘‘
’’اچھا میں ہومان کی قسم کھا تی ہوں کہ میں مذاق نہیں کرتی۔‘‘
’’زمرد! زمرد!! نرگس نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تم مجھے بار بار تسلی نہ دیتیں تو شاید میں مر گئی ہوتی۔ تم نے ان سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ کب آئیں گے؟‘‘
’’وہ بہت جلد آئیں گے۔ اگر جلد نہ آئیں گے تو....!‘‘
’’تو؟ نرگس نے بد حواس ہو کر پوچھا۔
زمرد نے شرماتے ہوئے کہا۔’’میں تمہارے بھائی کو انہیں لانے کے لیے بھیج دوں گی۔‘‘

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔