ہفتہ، 2 مئی، 2015

خدیجۃ الکبریٰ

0 comments
مؤلف  :  ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی

انتساب

مَیں اپنی اِس تالیف کو والدۂ محترمہ
حجن خدیجہ
کے نام منسوب کرتا ہوں
جن کا سایۂ شفقت میرے لیے باعثِ خیر و برکت ہے
محمد حسین مشاہد رضوی

عرض ناشر

رحمانی پبلی کیشنز مالیگاؤں اب محتاجِ تعارف نہیں رہاجس نے ادبِ اطفال پر مختصر سے عرصے میں سیکڑوں کتابیں شائع کیں اور انہیں ملک بھر میں پھیلا دیا اس ادارہ نے ہندوستان کے مشہور و معروف قلمکار اور ادبا کی کتابیں شائع کیں اور مختلف موضوعات پر بے شمار کتابیں طبع کیں۔ مزید یہ کہ تاریخی شخصیات پر بھی بچوں کے معیار کے مطابق کتابیں شائع کرنے کا بیڑہ بھی اٹھا رکھا ہے۔ تاریخی شخصیات میں بہت سی شخصیات پر یا تو بہت ضخیم کتابیں دستیاب ہیں یا پھر بہت سی اہم شخصیات کے متعلق انتہائی مختصر تذکرے ملتے ہیں۔ ہمارے ادارے نے ملک بھر کے نامور قلمکار اور ماہر ادیبوں سے رابطہ کیا۔ اور منتخب شخصیات پر لکھنے کی ذمہ داری ڈالی۔ الحمداللہ! بہت کم عرصے میں ہم اب تک سیکڑوں شخصیات پر کتابیں منظر عام پر لے آئیں۔ اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
تاریخ پر لکھنے والے ان ادیبوں نے کئی کتابوں کے سیکڑوں صفحات کو کھنگالنے کے بعد ضروری حقائق کو بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق آسان الفاظ میں پیش کیا ہے۔ ان کے افکار و خیالات سے کہیں آپ اختلاف تو کرسکتے ہیں مگر تاریخی حقائق سے انکار نہیں کرسکتے۔ اس لیے کہ اختلاف کرنا تو ہر ذی شعور کا علمی حق ہے۔ اور ضروری نہیں کہ ہمارا ادارہ بھی مؤلف کے تمام افکار و خیالات اور نظریات سے اتفاق رکھے۔ بہرکیف سبھی مؤلفین ان بہتر کاوشات پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
تاریخی شخصیات میں چند قابل ذکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، چاروں خلفاء راشدین، بقیہ عشرہ مبشرہ کے صحابہ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز، صلاح الدین ایوبی، نورالدین زنگی، امیر تیمور، قبلائی خان وغیرہ ہیں۔
اس سلسلے کی کافی طویل فہرست ہے۔ اور غیر مسلم شخصیات میں بھی ایسے لوگوں کی کتابیں شائع کیں جن کے بغیر تاریخ نامکمل ہے۔
ہمارے ادارے نے وطن عزیز کے نونہالان کو تاریخ سے واقف کرانے کے لیے یہ جدوجہد کی ہے۔ لہٰذا سر پرست واساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کے ہاتھوں تک ان کتابوں کو پہنچائیں اور انہیں ان کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دیں، تاکہ نئی نسل بھی تاریخ سے واقف ہوسکے۔ ہم تاریخ سے روگردانی نہیں کرسکتے۔ تاریخ میں ہمارے لیے جہاں بہت ساری عبرت کی باتیں ہیں وہیں کئی سبق بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ جو قومیں تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتیں اور تاریخ کو ایک افسانہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرتیں۔ آئیے ہم تاریخ کا مطالعہ کریں اور سبق حاصل کریں۔
            ناشر



بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰ ننِ الرَّحِیْمْ

پیش لفظ

ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی بیوی ہیں۔ جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کرنے سے پہلے شادی فرمائی تھی۔ اُس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف پچیس سال تھی جب کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بیوہ تھیں۔ اور اُن کی عمر شریف چالیس سال تھی۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پچیس سال تک رہیں۔ پندرہ سال اعلانِ نبوت سے پہلے اور دس سال اعلانِ نبوت کے بعد۔جملہ امہات المؤمنین میں سب سے زیادہ قابلِ رشک بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی ہیں۔ کیوں کہ نبیِ پاک  صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے ہوتے کسی دوسری عورت سے شادی نہیں فرمائی۔ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام اولاد انھیں کے  بطن سے ہوئیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا عرب کی مال دار خواتین میں سے ایک تھیں۔ انھوں نے دینِ اسلام کے لیے مالی قربانی کی جو مثال قائم کی وہ رہتی دنیا تک کی امیر خواتین کے لیے ایک نمونۂ عمل ہے۔
امام بخاری اور امام مسلم نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے انھوں نے فرمایا: ’’ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کسی بھی بیوی پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا کہ مَیں نے خدیجہ( رضی اللہ عنہا)پر رشک کیا۔ حال آں کہ مَیں نے انھیں کبھی دیکھا تک نہ تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا ذکر کثرت سے کرتے تھے۔ اور بعض اوقات کوئی بکری ذبح کرتے تو اُسے خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کی سہیلیوں میں بھجوا دیتے اور بسا اوقات مَیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتی کہ دنیا میں خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کے سوا اور عورت تھی نہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ :’’ہاں ! ہاں !وہی تو ایک تھیں اور انہی سے مجھے اولاد بھی ملی۔ ‘‘
رحمانی پبلی کیشنز ادبِ اطفال کی دنیا کا ایک ملک گیر شہرت یافتہ، معتبر اشاعتی ادارہ ہے جس نے بچوں کے لیے قلیل مدت میں سیکڑوں کتابیں شائع کر کے ملک بھر میں پھیلا دیا ہے۔ تاریخی شخصیات پر بچوں کے معیار کے مطابق کتابوں کی اشاعت کا قابلِ تحسین سلسلہ رحمانی سلیم احمد صاحب نے شروع کیا ہے۔ جس کے تحت متعدد اہم تاریخی شخصیات پر کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ضرورت ہے کہ سرپرست و اساتذہ حضرات اس سلسلے کا خیر مقدم کریں اور اپنے بچوں کو ان قابلِ فخر تاریخی شخصیات کے کارناموں سے روشناس کرانے کے لیے رحمانی پبلی کیشنز کی شائع کردہ کتابوں سے ضرور استفادہ کریں۔
پیشِ نظر کتاب حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ اوّل محسنِ اسلام خاتون ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے مختصر حالاتِ زندگی پر مبنی ہے جو کہ رحمانی پبلی کیشنز کی تاریخی شخصیات سیریز کی ایک کڑی ہے۔قارئین سے التماس ہے کہ کتاب پر اپنی گراں قدر رائے سے ضرور نوازیں۔

(ڈاکٹر) محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
سروے نمبر ۳۹، پلاٹ نمبر ۱۴، نیا اسلام پورہ،
مالیگاؤں ( ناسک)
۲۴؍ فروری ۲۰۱۲ء
09420230235


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ

ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا امتیازی نام اور نسب

ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا عرب کی ایک مال و دولت کے ساتھ انتہائی شریف اور عزت دار خاتون تھیں۔ان کی پاک دامنی اور پارسائی کو دیکھ کر زمانۂ جاہلیت کے لوگ آپ کو ’’ طاہرہ‘‘ یعنی پاک باز کے امتیازی نام سے پکارا کرتے تھے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی ہیں۔ جو حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہن کی والدہ اور حضرت امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہم کی نانی تھیں۔ اُن کے والد کا نام خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قُصی بن کلاب تھے۔ اُن کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن اصم حبیب بن ہرم بن رواحہ بن حجر بن عبد بن معیص بن عامر بن لؤی تھیں۔ آپ نسباً قریشیہ تھیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نسب قُصی پر جا کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مِل جاتا تھا۔ حضور نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بے پناہ محبت و الفت تھی۔

عہدِ جاہلیت میں آپ کی شادیاں
سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے سے پہلے آپ کی یکے بعد دیگرے دو شادیاں ہو چکی تھیں۔ اُن سے اولاد بھی ہوئی تھی۔ ایک شوہر ابوہالہ ہند بن زرارہ تیمی اور دوسرے عتیق بن عائذ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم تھے۔ سیرت نگار حضرات کا اِس بات میں اختلاف ہے کہ پہلے کون تھے؟ اور دوسرے کون ؟ استیعاب کے مصنف اس اختلاف کو لکھنے کے بعد ابوہالہ تیمی کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا پہلا اور عتیق کو دوسرا شوہر قرار دیا ہے۔
کتابوں میں ابوہالہ کا نام مالک بن نباش بن زرارہ بھی لکھا ہوا ملتا ہے۔جو قبیلہ بنی عمر بن تیم سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ قبیلہ بنی عبدالدار کا حلیف تھا۔ابوہالہ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دو بیٹے  پیدا ہوئے جن کا نام ہالہ اور ہند تھا۔یہ دونوں ایمان کی دولت سے مشرف ہوئے۔ ہند حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ واقعۂ جمل میں شریک ہوئے اور شہادت پائی۔ اُن کے بیٹے کا نام بھی ہند تھا۔ اُنھوں نے بصرہ کے طاعون میں وفات پائی۔ جس دن ان کی وفات ہوئی ستر ہزار موتیں واقع ہوئی تھیں۔ سب لوگ اپنے اپنے رشتے داروں کے جنازے اور تجہیز و تکفین میں مصروف تھے، ان کا جنازہ اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ ماجرا دیکھ کر ایک عورت نے چلا کر کہا: ’’ واہنداہُ بن ہنداہ و بِنُ رَبیبِ رسولِ اللہ ‘‘ فوراً تمام جنازہ چھوڑ کر لوگ ان کے جنازے پر ٹوٹ پڑے۔ حال یہ ہوا کہ انگلیوں کے پوروں پر اُن کا جنازہ لے جایا گیا۔
جب ابوہالہ کی موت ہو گئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نکاح عتیق بن عائذ سے ہوا اُس سے بھی ایک لڑکی ہندہ پیدا ہوئی۔عتیق بن عائذ کے مرنے کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور رسولِ کریمﷺ  کا تجارتی معاہدہ

حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا عرب کی ایک مشہورو معروف، مال دار، نہایت نیک، پاک باز اور شریف تاجر خاتون تھیں۔ جن کی شرافت کو دیکھ کر لوگ اُن کو’’ طاہرہ‘‘ یعنی ’’پاک باز‘‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ وہ اپنا مال و اسباب تاجروں کو دیا کرتی تھیں۔ تجارت پیشہ حضرات جب اُن کا مال فروخت کر دیا کرتے تھے تو وہ انھیں اپنے منافع میں شامل کرتی تھیں۔ اس زمانے میں قبیلۂ قریش کے لوگ بڑے مانے ہوئے تاجر سمجھے جاتے تھے۔ خصوصاً رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کی امانت داری اور سچائی کی وجہ سے لوگ ’’امین‘‘ اور ’’صادق‘‘ کے خطاب سے یاد کرتے تھے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات اور شرافت و دیانت کا پتا چلا تووہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ہی زیادہ متاثر ہوئیں اور انھوں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیغام بھیجا کہ اگر آپ میرا مال لے کر تجارت کے لیے ملک شام تشریف لے جائیں تو مَیں جتنا حصہ دوسروں کو دیتی ہوں آپ کو اُن سے دُگنا دوں گی۔ اس سفر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایک غلام میسرہ کو بھیجنے کی پیش کش بھی کی۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اِس نیک تاجر خاتون کی عادات و اطوار سے واقف تھے۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اِس پیغام کو قبول فرما لیا۔ چند روز بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مالِ تجارت اور میسرہ کو ساتھ لے کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ملکِ شام کے سفر پر روانہ ہوئے۔ شام میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ پر قیام فرمایا۔ وہاں عیسائیوں کی ایک عبادت گاہ تھی جس کے قریب ہی ایک درخت بھی تھا۔ پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اُس درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ گرجا گھر میں ایک راہب تھا جب اُس نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اور روشن چہرے کو دیکھا تو بہت متاثر ہوا۔ اُس نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام میسرہ سے پوچھا:
’’ اُس درخت کے نیچے بیٹھا ہوا آدمی کون ہے؟ ‘‘
اُس نے جواب دیا:  ’’ یہ ایک قریشی نوجوان ہے جو مکہ میں رہتا ہے۔ ‘‘
اُس راہب نے کہا : ’’ میرا بڑا طویل تجربہ ہے۔ جس درخت کے نیچے تمہارا یہ ہم سفر ساتھی بیٹھا ہوا ہے اُس کے نیچے آج تک نبی کے بغیر کوئی نہیں بیٹھ سکا۔ ‘‘
پھر چند ہی روز میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے جو تجارتی سازوسامان وغیرہ اپنے ساتھ لائے تھے اُسے اچھے داموں میں فروخت کیا اور جو کچھ خریدنا چاہتے تھے وہ سب خریدا اور پھر مکۂ مکرمہ کے لیے واپس روانہ ہوئے۔
کتابوں میں آتا ہے کہ میسرہ کا بیان ہے جب دوپہر کے وقت شدید گرمی ہوتی تو دو فرشتے آتے اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سایا کرتے اور آپ اپنے اونٹ پر سوار اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہوتے۔ جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے جاتے سایا بھی ساتھ ساتھ چلتا۔ شام سے واپس ہو کر جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری مکۂ مکرمہ میں داخل ہوئی تو دوپہر کا وقت تھا، اُس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے بالا خانے میں بیٹھی ہوئی تھیں ان کی نظر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو دیکھا کہ دو فرشتے آپ پر سایا کیے ہوئے ہیں۔
جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکۂ مکرمہ واپس تشریف لائے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو وہ مال پیش کیا تو اُس کا منافع عام حالات سے بڑھ کر کئی گنا یا اُس کے قریب تر تھا۔اسی طرح میسرہ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو شام کے راہب اور دو فرشتوں کا سایا کرنے والے واقعات سنائے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی امانت و شرافت، عام حالات سے بڑھ کر منافع اور دیانت داری دیکھ کر بہت زیادہ متاثر ہوئیں۔

پیارے نبیﷺ  کو نکاح کا پیغام اور ازدواجی زندگی

حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خود بھی بڑی سمجھ دار، نہایت مدبرہ اور بہت عقل مند خاتون تھیں۔ آپ نے جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفات اور اَخلاقِ کریمانہ دیکھا تو اِتنا متاثر ہوئیں کہ انھوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یعلیٰ بن امیہ کی بہن نفیسہ کے ذریعہ ایک پیغام بھیجا۔ جس میں آپ نے عرض کیا کہ :
’’ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ اپنی قوم (خاندان) میں نہایت شریف، دیانت دار، با عزت، امیٖن، صادق، اور انتہائی کریمانہ اَخلاق کے حامل ہیں اور پھر میری آپ سے اتنی رشتہ داری تو پہلے ہی سے ہے کہ آپ خاندانِ قریش کے قابلِ فخر فرزند ہیں اور مَیں بھی قریش قبیلہ سے ہی ہوں۔اگر آپ مجھ سے شادی کر ؛یں تو یہ میرے لیے بہت بڑی سعادت کی بات ہو گی اور مَیں زندگی بھر آپ کی احسان مند رہوں گی۔ ‘‘
جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا یہ پیغام پہنچا تو آپ نے اپنے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ابوطالب سے اس سلسلے میں مشورہ فرمایا۔ انھوں نے اس رشتے کو بہ خوشی پسند فرمایا خود نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رشتے کو منظور فرما لیا۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حضرت خدیجہ کے والد خویلد بن اسد کے پاس گئے اور نکاح کا پیغام دیا۔جسے انھوں نے خوشی خوشی منظور کر دیا۔ بعد اس کے نکاح کے لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ابوطالب اور خاندان کے دوسرے بزرگ حضرات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر آئے اور نکاح عمل میں آیا۔ روایتوں میں آتا ہے کہ نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد وفات پا چکے تھے۔ اس لیے اس نکاح میں ان کے چچا عمر بن اسد شریک تھے اور اُن کے علاوہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاندان کے دوسرے بزرگوں کو بھی نکاح میں دعوت دی تھی۔ عمرو بن اسد کے مشورہ سے ۵۰۰؍ درہم مہر مقرر ہوا۔ ابوطالب نے نکاح کا خطبہ پیش کیا۔ اس طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آ کر ام المؤمنین کے خطاب سے سرفراز ہوئیں۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے۔ جب تک آپ ظاہری طور پر زندہ رہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری شادی نہ فرمائی۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قدر اولاد ہوئی وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی سے ہوئی البتہ ایک بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ :
’’ زمانۂ جاہلیت میں مکّہ والوں کی عورتیں ایک خوشی کے موقع پر جمع ہوئیں اُن میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں۔ اچانک وہیں ایک شخص ظاہر ہوا۔ جس نے بلند آواز سے کہا کہ اے مکّہ کی عورتو! تمہارے شہر میں ایک نبی ظاہر ہو گا، جسے لوگ احمد کہیں گے، تم میں سے جو عورت اُن سے نکاح کرسکے ضرور کرے۔ یہ بات سُن کر دوسری عورتوں نے بھُلا دیا لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے گرہ باندھ لی اور اس پر عمل کر کے کامیاب ہو کر رہیں۔ ‘‘

نبیِ کریمﷺ  کے بارے میں ورقہ بن نوفل کی تصدیق

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی قبیلۂ قریش سے تھیں۔ وہ خویلد بن اسد کی بیٹی تھیں۔ اُن کے ایک چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے نام سے جانے جاتے تھے۔ جن کا عرب میں ایک بڑا مقام و مرتبہ تھا۔ وہ عیسائی اور آسمانی کتابوں کے ایک جیّد عالم تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آسمانی کتابوں میں بیان کی گئی نشانیوں اور علامتوں کو انھوں نے پڑھ رکھا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ورقہ بن نوفل نے عرب کے لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کافی باتیں سنیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات و اطوار اور اَخلاقِ کریمانہ کے واقعات اُس زمانے میں کافی عام ہو چکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان نہیں فرمایا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جب ورقہ بن نوفل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ :
’’ اے خدیجہ ! دیکھو جو کچھ مَیں لوگوں سے سُن رہا ہوں اگر یہی سچ ہے تو یہ آدمی ضرور بہ ضرور اِس اُمّت کا نبی ہو گا۔‘‘  ورقہ بن نوفل نے مزید یہ کہا کہ :’’ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ لوگ ایک مدت سے ایک نبی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ‘‘


ابوطالب کا خطبۂ نکاح

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچاسید الشُہَداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ابوطالب کے علاوہ خاندان کے دوسرے بزرگ اور قبیلہ مضر کے دوسرے بڑے بڑے سردار جمع ہوئے۔ اس موقع پر ابوطالب نے ایک بڑا پیارا اور بلیغ خطبہ دیا جس کا ترجمہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
’’ تمام تر تعریفیں اللہ عزوجل کے لیے ہیں۔ جس نے ہم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے پیدا فرمایا۔ پھر ہماری نسل کو معد اور مضر قبیلے سے منتخب کیا۔ اس پر خوبی یہ کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کا محافظ اور متولی بنایا۔ ہمارے لیے ایک ایسا گھر بنایا کہ جس کا ارادہ کر کے لوگ دور دراز سے آتے ہیں اور حج کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس گھر کو امن و سلامتی کا مرکز بنایا اور ہمیں تمام لوگوں پر برتری بخشی۔
میرا یہ پیارا بھتیجا محمد ابن عبداللہ(ﷺ) ایسی عظمت اور شان و شوکت والا ہے کہ دنیا کے کسی بھی آدمی سے اِس کا موازنہ کیا جائے تو یہی بلند رتبے والا اور بڑی شان والا ثابت ہو گا۔ اگرچہ اس کے پاس مال و دولت نہیں لیکن مال و دولت تو ویسے بھی آنے جانے والی چیز ہے اس کا کوئی بھروسہ نہیں۔
محمد (ﷺ) سے میری کیا رشتے داری ہے یہ تم سب لوگ اچھی طرح سے جانتے ہو۔ انھوں نے خدیجہ بنت خویلد بن اسد کو نکاح کا پیغام دیا ہے اور اس کے لیے انھوں نے مہر بھی مقرر کی ہے۔ اللہ کی قسم ! اس کے بعد میرے پیارے بھتیجے کی شان بڑی بلند و بالا اور عظمت و رفعت والی ظاہر ہو گی۔‘‘
یہ فصاحت و بلاغت سے بھرا ہوا خطبہ دے کر ابوطالب نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کرا دیا۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے تحفے تحائف

صحابیِ رسول حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ  :’’ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وقتاً فوقتاً کچھ تحفے تحائف اور ہدیے وغیرہ بھیجا کرتی تھیں۔تاکہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ تحفے اور ہدیے اُن کی طرف سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد خویلد کو پیش کریں جس کی وجہ سے خویلد کے دل میں محبت پیدا ہو جائے اور وہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کروانے کے لیے راضی ہو جائیں۔‘‘
تمام علمائے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ نبوت کے اعلان سے پہلے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی سے نکاح فرمایا تھا اور جب تک اُن کی وفات نہ ہوئی آپ نے دوسری شادی نہ فرمائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی تو اُس وقت ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی۔ وہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چوبیس سال رہیں جب آپ کی وفات ہوئی تو عمر شریف اکسٹھ سال اور دوسری روایت میں پینسٹھ سال تھی۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے اسلام لائیں

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تمام تر خوبیوں اور صفات میں سب سے بڑی اور عظیم خوبی یہ ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول فرمایا۔ حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر تمام مردوں اور عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی نے لبیک کہا۔ مشکوٰۃ الاکمال کے مصنف لکھتے ہیں کہ :’’ تمام انسانوں سے پہلے، مردوں اور عورتوں سے بھی پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اسلام لائیں۔‘‘
اسی طرح روایتوں میں آتا ہے کہ عورتوں میں جس طرح سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کی سعادت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو حاصل ہوئی اُسی طرح مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، بچوں میں حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔
ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا:
’’ وہ ( حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا) مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ میری رسالت کا انکار کر رہے تھے۔ انھوں نے میری تصدیق کی جب کہ لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور انھوں نے اپنے مال سے میری ہمدردی کی جب کہ لوگوں نے مجھے اپنے مالوں سے محروم کیا اور ان سے مجھے اللہ نے اولاد نصیب فرمائی جب کہ دوسری عورتیں مجھ سے نکاح کر کے مجھے اپنی اولاد کا باپ بنانا گوارا نہیں کرتی تھیں۔‘‘

اسلام کی اشاعت میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا حصہ

اسلام کی اشاعت اور اس کے فروغ میں ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اعلانِ نبوت سے پہلے جب حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تنہائی میں عبادت و ریاضت کرنے کے لیے غارِ حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانے پینے کا سامان تیار کر کے دیا کرتی تھیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں کئی کئی رات قیام فرما رہتے تھے۔ کر کے جب کھانے پینے کا سامان ختم ہو جاتا تو آپ تشریف لاتے اور سامان لے کر واپس چلے جاتے تھے۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ کبھی کبھی خود حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی خورد و نوش کا سامان لے کر غارِ حرا تشریف لے جاتیں اور اپنے شوہرِ نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتیں۔ حتیٰ کہ اعلانِ نبوت کے بعد جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت شروع کی تو مکّہ کے کفار و مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہو گئے اور طرح طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستاتے، ساری قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمن بن گئی اور قریبی عزیز بھی مخالف ہو گئے۔ ایسے زمانہ میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب اور ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ہر ہر قدم پر آپ کی دل جوئی کی۔ ہر وہ مصیبت جو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوتِ اسلام میں پیش آتی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا دل و جان کے ساتھ پوری طرح اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریکِ غم ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خود بھی تکلیفیں سہتی تھیں آپ کی ہمت بندھانے اور حوصلہ بڑھانے کے ساتھ ہر موڑ پر آپ کا ساتھ دینے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو خاص مرتبہ حاصل ہے۔

نبیِ کریمﷺ  پر وحی کا نزول

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’ اللہ تعالیٰ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلانِ نبوت سے پہلے نبوت کی علامتوں میں سے جو چیز خواب میں دکھائی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑے شاق گذرتے تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان خوابوں کا تذکرہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کرتے تھے۔ ام المؤمنین کبھی بھی ان باتوں کو جھٹلاتی نہیں تھیں بل کہ عرض کرتیں یہ آپ کے لیے بشارت اور خوش خبری ہے کہ آپ کے ساتھ بھلائی اور بہتری کا معاملہ ہو گا۔ ‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’ ایک روز نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسبِ معمول غارِ حرا میں عبادت و ریاضت میں مصروف تھے کہ حضرت جبریلِ امیٖن علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ظاہر ہوئے اور انھوں نے اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور دل پر رکھا اور فرمایا آپ خوف نہ کیجیے اور نہ گھبرائیے پھر انھوں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سامنے بٹھایا جیسا کہ با عزت شخص کو عظمت و وقار کے ساتھ بٹھایا جاتا ہے۔ ‘‘
نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ:’’ مجھے جبریلِ امیٖن نے ایک ایسے بستر پر بیٹھایاجس پر نہایت عمدہ اور نفیس نقش و نگار بنے ہوئے تھے جو یاقوت اور موتیوں سے بنا ہوا تھا، اور پھر اُس نے رسالت و نبوت کی خوش خبری سنائی۔‘‘ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل اطمینان ہو گیاتو حضرت جبریلِ امیٖن علیہ السلام نے کہا ’’ اقرأ‘‘ یعنی ’’ پڑھیے‘‘۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
’’ غارِ حرا میں آپ پر اچانک وحی نازل ہوئی۔ فرشتے نے آ کر آپ سے کہا ’’ پڑھیے‘‘ آپ نے فرمایا :’’ مَیں پڑھنے والا نہیں ہوں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ پھر فرشتے نے زور سے گلے لگا کر مجھے دبایا حتیٰ کہ اس نے دبانے پر پوری قوت صرف کر دی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا :’’ پڑھیے‘‘ مَیں نے کہا :’’ مَیں پڑھنے والا نہیں ہوں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتہ دوبارہ مجھے پکڑ کر بغل گیر ہوا حتیٰ کہ مجھے پوری قوت سے دبایا، پھر مجھے چھوڑ کر کہا:’’ پڑھیے‘‘ مَیں نے کہا مَیں پڑھنے والا نہیں ہوں۔‘‘ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فرشتہ تیسری بار مجھے پکڑ کر بغل گیر ہوا حتیٰ کہ پوری قوت سے مجھے دبایا، پھر مجھے چھوڑ کر کہا:’’ اِقرأ باسمِ ربک الذی خلق  خلق الانسان من علق  اقرأ و ربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم  (پڑھو! اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا، آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا، پڑھو! اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم، جس نے قلم سے لکھنا سکھایا، آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔)‘‘  (مشکوٰۃباب بدء الوحی الیٰ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ سلم )
حافظ شہاب الدین ابن حجر عسقلانی (وفات ۸۵۲ھ) فتح الباری جلد اول صفحہ ۲۳/ ۲۴) پر لکھتے ہیں :’’ جبریلِ امیٖن علیہ السلام نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ سے کہا :’’ اقرأ‘‘- ’’پڑھیے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَیں پڑھنے والا نہیں ہوں۔‘‘ اور جب تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تو جبریل امین علیہ السلام نے کہا :’’ اقرأ باسمِ ربک( پڑھو! اپنے رب کے نام سے ) یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی قوت اور معرفت سے نہ پڑھیں بل کہ آپ اپنے رب کی دی ہوئی طاقت اور اس کی اعانت سے پڑھیں اُس نے جس طرح پیدا کیا ہے وہ آپ کو پڑھنا سکھائے گا۔ تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے اُمّی ہیں کہ وہ کسی کے پڑھانے سے نہیں بل کہ خود خالقِ کائنات جل شانہٗ نے جیسا اُس کی شان کے لائق ہے پڑھایا ہے ویسا ہی پڑھیں گے، چوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا بھی ایک معجزہ ہے۔


حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نبیِ کریمﷺ  کی حوصلہ افزائی کرنا
حضرت جبریلِ امیٖن علیہ السلام سے یہ آیات سننے کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ جل شانہٗ کی مقدس بارگاہ کا پیغام قبول فرما لیا اور جو کچھ حضرت جبریلِ امیٖن علیہ السلام لے کر حاضر ہوئے تھے اُسے یاد فرما لیا۔ جب مجلس ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے جانے کے لیے نکلے، راستے میں جس قدر پتھر اور درخت تھے وہ آپ کو سلام کرتے تھے حتیٰ کہ آپ جب اپنے گھر میں داخل ہوئے تو آپ کو یقین تھا کہ آپ حقیقت میں کوئی بہت بڑی کامیابی اور بلندی سے مشرف ہو چکے ہیں۔ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو فرمایا :
’’ خدیجہ! مَیں جو کچھ تمہیں اپنے خواب سنایا کرتا تھا آج اُس کا خوب اظہار ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے جبریلِ امیٖن کو میرے پاس بھیجا۔‘‘
اُس کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریلِ امیٖن علیہ السلام کے ساتھ محفل میں آپ نے جو کچھ سنا اور دیکھا تھا سب بتایا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا :’’ آپ کو خوش خبری اور بشارت ہو کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ انتہائی بھلائی کا معاملہ فرمائے گا۔ مزید یہ کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے جوبھی حکم نازل ہو گا مَیں اُسے سچّے دل سے قبول کروں گی کہ آپ ہی اللہ تعالیٰ کے سچّے اور برحق رسول ہیں۔‘‘
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ :’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کو لے کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس اِس حال میں پہنچے کہ آپ پر کپکپی طاری تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے کپڑا اڑھاؤ، مجھے کپڑا اڑھاؤ‘‘ گھر والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑے اڑھائے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف دور ہو گیا۔ پھر آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تمام واقعہ سنایااور فرمایا:’’اب میرے ساتھ کیا ہو گا؟ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔‘‘ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی :’’ ہرگز نہیں آپ کو یہ خوش خبری مبارک ہو، اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہیں فرمائے گا، خدا گواہ ہے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں نادار لوگوں کو مال دیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو زمانۂ جاہلیت میں عیسائی مذہب پر تھے اور انجیل کو عربی زبان میں لکھتے تھے بہت بوڑھے ہو چکے تھے اور بینائی جاتی رہی تھی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اُن سے کہا:’ ’اے چچا ! اپنے بھتیجے کی بات سنیے۔‘‘ ورقہ بن نوفل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :’’ اے بھتیجے! آپ نے کیا دیکھا ہے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں وحی ملنے کا تمام واقعہ سنایا۔ ورقہ نے کہا:’’ یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی لے کر آیا تھا، کاش! مَیں جوان ہوتا، کاش! مَیں اُس وقت تک زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو وطن سے نکال دے گی۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کیا وہ مجھ کو واقعی نکال دیں گے؟‘‘ ورقہ نے کہا :’’ ہاں ! جس شخص پر بھی آپ کی طرح وحی نازل ہوئی لوگ اس کے دشمن ہو جاتے تھے، اگر وقت نے مجھ کو مہلت دی تو مَیں اُس وقت آپ کی انتہائی قوی مدد کروں گا۔ ‘‘
اس حدیثِ پاک میں ہے کہ : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کو لے کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس اِس حال میں پہنچے کہ آپ پر کپکپی طاری تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے کپڑا اڑھاؤ، مجھے کپڑا اڑھاؤ‘‘ گھر والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑے اڑھائے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف دور ہو گیا۔پھر آپ نے ماجرا سنایا اور فرمایا:’’ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔‘‘
اس تعلق سے علامہ یحییٰ بن شرف نووی اپنی شرح مسلم میں لکھتے ہیں :
’’ قاضی عیاض مالکی نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خوف کی وجہ یہ نہیں کہ آپ کو اس کلامِ الٰہی کے وحیِ الٰہی ہونے میں شک تھا، بل کہ یہ خوف تھا کہ اس عظیم ذمہ داری کو قبول کرنے میں کہیں آپ سے کوئی کمی نہ رہ جائے یا آپ وحیِ الٰہی کے تقاضوں کو کما حقہٗ پورا نہ کرسکیں۔ ‘‘
اسی طرح اِس حدیثِ پاک میں یہ بھی ہے کہ  :
’’ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو ایک بڑے عیسائی عالم تھے۔ ورقہ نے تمام ماجرا سننے کے بعد کہا کہ یہ وہ فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی لے کر آیا تھا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورقہ بن نوفل کے پاس جانے کی حکمت یہ تھی کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ جس شخص نے سب سے پہلے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی وہ ایک عیسائی عالم تھا۔
پہلی وحی نازل ہونے کے بعد کچھ مدت کے لیے وحی کا نزول بند ہو گیاتو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے غم گین ہوئے۔ اس دوران ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی دل جوئی کی اور آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا کرتیں کہ آپ پریشان نہ ہوں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ بڑی بھلائی اور بہتری کا ہی معاملہ فرمائے گا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جس انداز سے دل جوئی کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے ایک وفا شعار اور مخلص بیوی کی حیثیت سے آپ کا ہر موڑ پر ساتھ دیا۔
اسلام کی تبلیغ کے لیے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی مالی قربانی

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا عرب کی بڑی مال دار اور سخی خاتون تھیں۔ جب و ہ ام المؤمنین کے شرف سے متصف ہو گئیں تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دل و جان اور مال و متاع کے ساتھ قربان ہونے کا جذبہ بھی اپنے اندر رکھتی تھیں۔ اعلانِ نبوت کے بعد ہر ہر قدم پر آپ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی کی اور کفار و مشرکینِ مکّہ کی ریشہ دوانیوں کے ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ ہمت بندھاتی رہتیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت گزاری اور دل داری میں کوئی لمحہ خالی نہ جانے دیا اور اپنے مال کو بھی اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ضروریات کے لیے اس طرح قربان کر دیا تھا جیسے اس مال میں اُن کی ملکیت کا کوئی حق ہی نہ ہو۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرمایا ہے کہ : ووجدک عائلاً فاغنیٰ  (اور تمہیں حاجت مند پایا پھر غنی کر دیا)۔
  اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال کے ذریعہ غنی کر دیا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس جو بھی مال تھا وہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کاسمجھتی تھیں، اسلام کی تبلیغ کے لیے اُن کے مال خرچ کرنے کے احسان کا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر بہت اثر تھا۔ ایک مرتبہ اس احسان کا ذکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ انھوں (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ) نے اپنا مال مجھے دیا جسے مَیں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا۔‘‘
دوسری جگہ یوں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ :’’ انھوں (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ) نے اپنے مال سے اُس وقت میری مدد کی جب لوگوں نے مجھے محروم کیا۔‘‘
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مکّہ میں فروخت کیے جا رہے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اُن کو اپنے مال سے خرید کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ نے اُن کو آزاد کر کے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی بڑے جیّد اور بزرگ صحابیوں میں سے ایک ہیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے۔ اُن کو غلامی سے آزاد کروا کر اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں لگا دینے کا ذریعہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی ہیں۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نماز پڑھنا

ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں پانچ وقت کی نمازیں فرض نہیں ہوئی تھیں۔ اُن کے وصال کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج نصیب ہوئی۔ تب پنج وقتہ نمازیں اُمت پر فرض ہوئیں۔اس فرضیت سے پہلے نماز پڑھنا ضروری تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذوق و شوق سے نماز پڑھا کرتی تھیں۔
عفیف کندی کا بیان ہے کہ مَیں حج کے موقع پر عباس بن عبدالمطّلب(رضی اللہ عنہ) کے پاس آیا، وہ ایک مشہور تاجر تھے۔ مجھے اُن سے خرید و فروخت کے معاملات طَے کرنے تھے۔ اچانک مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک خوب رُو شخص ایک خیمہ سے نکل کر کعبہ کے سامنے نماز پڑھنے لگا۔ پھر ایک عورت نکلی اور اُن کے پاس آئی وہ بھی نماز پڑھنے لگی اور ایک لڑکا بھی نکل کر آیا وہ بھی اُن کے پاس نماز پڑھنے لگا۔ یہ ماجرا دیکھ کر مَیں نے کہا :’’ اے عباس! یہ کون سا دین ہے ؟ہم تو اب تک اس دین سے ناواقف ہیں۔‘‘ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے (جو کہ اب تک ایمان نہیں لائے تھے) جواب دیا کہ یہ نوجوان محمد بن عبداللہ بن عبدالمطّلب ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ خدا نے اُسے نبی بنا کر اِس دنیا میں بھیجا ہے اور یہ کہتا ہے کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے اُس کے ہاتھوں فتح ہوں گے اور یہ عورت اُس کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہے جو اُس پر ایمان لا چکی ہے اور یہ لڑکا اُس نوجوان کا چچا زاد بھائی علی بن ابوطالب ہے جو اُس پر ایمان لاچکا ہے۔ عفیف کہتے ہیں کہ کاش! مَیں اُسی دن مسلمان ہو جاتا تو بالغ مسلمانوں میں دوسرا مسلمان ہوتا۔

نبیِ کریمﷺ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اولاد

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو دیگر امہات المؤمنین پر یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد صرف ان ہی سے پیدا ہوئی۔ہاں ! صرف ایک صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باندی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے۔
اس امر پر علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے  بطن سے جو اولادیں ہوئیں، وہ چھ ہیں -- چار صاحب زا دیا ں
٭ حضرت زینب رضی اللہ عنہا ٭حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
٭حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ٭حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
اور دو بیٹے
٭ حضرت قاسم رضی اللہ عنہ
٭حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ--ہیں۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں صاحب زادیوں نے اسلام کا زمانہ پایا۔ انھوں نے مکّۂ مکرمہ سے مدینۂ منورہ ہجرت بھی فرمائی۔ حضرت قاسم رضی اللہ عنہ کے نام کی نسبت سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ’’ابوالقاسم‘‘ مشہور ہوئی۔ آپ اعلانِ نبوت سے پہلے مکّۂ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے اور وہیں وفات پائی۔ اس وقت چلنے لگے تھے۔ حضرت مجاہد کے مطابق آپ دوسال سترہ روز زندہ رہے۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے صاحب زادے جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے  بطن سے پیدا ہوئے اُن کا نام عبداللہ تھا جنھوں نے کم عمری میں مکۂ مکرمہ میں وفات پائی۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی ولادت اعلانِ نبوت کے بعد ہوئی۔ اِن کا لقب ’’طیّب‘‘  اور ’’طاہر‘‘ مشہور ہوا۔ دونوں کے معنی پاکیزہ اور صاف ستھرے کے ہیں۔ جب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو عاصی بن وائل نے کہا :’’ محمد(ﷺ) کی اولاد منقطع ہو گئی، آپ ابتر ہیں۔‘‘  (معاذ اللہ!)(ابتر کے معنی ہے جس کی اولاد نہ رہے)
اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۂ کوثر (انا اعطینٰک الکوثر) نازل فرمائی اور اُس میں ارشاد فرمایا:’’ ان شانئک ہو الابتر۔ ‘‘جس کا مفہوم یہ ہے کہ :’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہی منقطع الخیر ہے اُس کی کوئی اولاد باقی نہ رہے۔‘‘
یہ دنیا کے تمام تر انسانوں میں صرف نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امتیازی حیثیت حاصل ہوئی کہ آپ کی نسل آپ کی محبوب ترین صاحب زادی حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے چلی۔ اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن عاصی بن وائل کی نسل ہمیشہ کے لیے منقطع ہو گئی۔

ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے فضائل

ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بڑی فضیلت والی خاتون کہلاتی تھیں۔ آپ کے پاکیزہ اَخلاق و کردار اور عادات و اَطوار کی وجہ سے لوگ انھیں زمانۂ جاہلیت میں بھی ’’طاہرہ‘‘ یعنی ’’پاک باز‘‘ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آکر انھوں نے اپنی عقل مندی اور خدمت گزاری سے جو مراتب حاصل کیے اُن کا تو کوئی شمار ہی نہیں کیا جا سکتا۔
امام بخاری اور امام مسلم نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے انھوں نے فرمایا: ’’ مَیں نے رسول اللہﷺ  کی بیویوں میں سے کسی بھی بیوی پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا کہ مَیں نے خدیجہ( رضی اللہ عنہا)پر رشک کیا۔ حال آں کہ مَیں نے انھیں کبھی دیکھا تک نہ تھا۔ لیکن نبیﷺ  ان کا ذکر کثرت سے کرتے تھے۔ اور بعض اوقات کوئی بکری ذبح کرتے تو اُسے خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کی سہیلیوں میں بھجوا دیتے اور بسا اوقات مَیں آپﷺ  سے کہا کرتی کہ دنیا میں خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کے سوا اور عورت تھی نہیں ؟ تو آپﷺ  فرماتے کہ :’’ہاں ! ہاں !وہی تو ایک تھیں اور انہی سے مجھے اولاد بھی ملی۔ ‘‘
غر ض یہ کہ اہلِ اسلام کی اوّلین مقدس ماں حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بے شمار فضائل اور مناقب ہیں۔ جن میں سے بعض درج کیے جاتے ہیں۔

 حضرت آدم علیہ السلام کی زبان پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت

حضرت عبدالرحمن بن زید رضی اللہ عنہ سے سے روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ قیامت کے دن مَیں یوں تو تمام انسانوں کا سردار ہوں گا، لیکن میری اولاد میں سے ایک ذات کا سردار نہیں ہوں گا۔ جو نبیوں میں سے ایک نبی ہے اوراس کا نام احمد ہے۔ اُسے نبی ہونے کی وجہ سے مجھ پر دو چیزوں کی وجہ سے مجھ پر فضیلت دی گئی ہے۔
٭ ایک یہ کہ اُس کی بیوی نے اُس کی اعانت کی۔ جب کہ مَیں اپنی بیوی کا مددگار ہوں۔
٭ دوسرے یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے ساتھ یہ عظیم احسان فرمایا کہ ان کا شیطان اُن پر مسلط نہ ہوسکے گا اور وہ ان کا تابع ہو کر مسلمان ہو جائے گا، جب کہ میرا شیطان کافر ہی رہا۔
( مواہب اللدنیہ للقسطلانی)
اس میں حضرت آدم علیہ السلام نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خود پر فضیلت بیان کرنے کے ساتھ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت حضرت حوا رضی اللہ عنہا پر ظاہر فرما رہے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی مالی قربانیوں کو بیان کیا ہے اور ساتھ ہی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جوئی اور ہمت بلند کرنے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بے مثالی کردار کا ذکر کیا ہے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تسلّی کے بعد آیات کا نزول

حضرت ہشام بن عروہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب کافی مدت تک وحی نازل نہ ہوئی تو مکۂ مکرمہ کے کافروں نے طعن و تشنیع کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ محمد مصطفی(ﷺ) کو اُن کے رب نے مکروہ جان کر چھوڑ دیا ہے۔ کفار کے ان طعنوں پر جب آپ غمگین ہوئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو ڈھارس بندھائی اور تصدیق کی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ بہتری اور بھلائی کا معاملہ فرمائے گا۔ اور کہا کہ :’’ اے میرے چچا زاد! آپ غمگین نہ ہوں آپ خوف اور ڈر دور کریں۔‘‘ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ تسلی آمیز کلمات کہے تو اسی دوران اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیات نازل فرمائی  :  والضحیٰ واللیل اذا سجیٰ ماودعک ربُک وما قلیٰ وللآخرۃ خیرلک من الاولیٰ  
(ترجمہ : چاشت کی قسم اور رات کی جب پردہ ڈالے،کہ تمہارے رب نے نہ چھوڑا اور نہ مکروہ جانا، اور بے شک پچھلی تمہارے لیے پہلی سے بہتر ہے۔)
اس واقعہ سے اللہ رب العزت جل شانہٗ کی مقدس بارگاہ میں ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جوئی اور دمسازی کے عمل کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ غرض یہ کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر وقت ساتھ دیا اس طرح وہ مقبولِ بارگاہِ خداوندی کے مرتبے پر فائز ہو گئیں۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے اللہ تعالیٰ کا سلام

حضرت امام بخاری و حضرت امام مسلم رحمہم اللہ تعالیٰ نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ :’’ ایک دن حضرت جبریل علیہ السلام نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا : ’یارسول اللہ ! یہ خدیجہ(رضی اللہ عنہا) ہیں۔ جو آپ کے پاس ایک برتن لے کر آ رہی ہیں، جس میں کھانا ہے(یا سالن ہے یا پینے کی کوئی چیز ہے)، جس وقت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) آپ کے پاس آ جائیں تو اُن کو اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچا دیجیے اور میری طرف سے سلام کہہ دیجیے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے خدیجہ! یہ جبریلِ امیٖن ہیں جو تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔‘‘حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا :’’ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے سلامتی مل سکتی ہے اور جبریل پر سلام ہو۔‘‘ روایت کے الفاظ یوں ہیں :
’’ ہوالسلام ومنہ السلام وعلیٰ جبریل السلام ‘‘
’’ وہ (اللہ تعالیٰ) سلام ہے اور اُسی کی طرف سے سلامتی مِل سکتی ہے اور جبریلِ امین کو بھی سلام ہو۔‘‘

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت کی خوش خبری

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت لکھی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :’’ حضرت جبریلِ امیٖن علیہ السلام نے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں ایک ایسے گھر کی خوش خبری اور بشارت دے دیجیے جو سچّے موتیوں سے بنا ہو گا اور اُس میں ہر طرح کا آرام اور تمام قسم کی آسایشیں موجود ہوں گی۔ ‘‘
حضرت امام ترمذی رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتی ہیں کہ :’ ’ مجھے کسی عورت پر اتنا رشک نہیں آیا جتنا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر رشک ہوا، اورسیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اُس وقت تک شادی نہ فرمائی جب تک خدیجہ رضی اللہ عنہااِس دنیا میں زندہ رہیں۔ ‘‘
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اِس رشک کی وجہ بیان کرتے ہوئی فرماتی ہیں کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جنت میں ایک ایسے گھر کی خوش خبری دی تھی جو موتیوں سے بنا ہو گا اور اس میں کسی قسم کی کوئی مشقت اور تکلیف نہ ہو گی اور نہ ہی اُس میں کسی طرح کا کوئی شور ہو گا۔ ‘‘
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک دوسری روایت میں یوں ہے وہ فرماتی ہیں کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر اس کثرت کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اُن پر غیرت آنے لگی، نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی وفات کے تین سال بعد مجھ سے نکاح کیا، اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم ) کو حکم دیا تھا کہ خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کو جنت میں ایسے گھر کی بشارت دیں جس میں ہر طرح کا سکون و اطمینان ہو گا۔ ‘‘
حضرت امام بخاری ومسلم رحمہم اللہ تعالیٰ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا  : ’’فاقرا علیہا السلام من ربہا و منی وبشرہا بیت فی الجنۃ من قصب لا صخب فیہ ولا نصب‘‘
(ترجمہ: حضرت خدیجہ کو اللہ تعالیٰ کا اور میرا سلام کہہ دیجیے اور ان کو جنت میں ایسے گھر کی خوش خبری سنادیجیے جو موتیوں سے بنا ہوا ہے نہ وہاں کوئی تکلیف ہو گی نہ ہی کوئی شور۔ )
اسی طرح امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مَیں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کو جنت میں ایسے محل کی خوش خبری دوں جو موتیوں سے بنا ہو گا اور اس میں کوئی شور و غم نہ ہو گا اور نہ کوئی مشقت اور پریشانی ہو گی۔
ان احادیث سے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی مقبولیت کا پتا چلتا ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ مقام و مرتبہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دینِ اسلام کی تصدیق اور اُس کی اشاعت اور تبلیغ کے لیے اپنی مخلص امداد و اعانت کی وجہ سے حاصل کیا۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا جنت میں مقام

کتابوں میں آتا ہے کہ ایک روز حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی:’’ یارسول اللہ! میری زندگی مجھے کوئی فائدہ نہ دے گی حتیٰ کہ آپ میری والدہ حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا ) کے بارے میں جبریلِ امین(علیہ السلام ) سے دریافت فرمائیں کہ (جنت میں )اُن کا مقام کہاں ہے؟‘‘
چناں چہ حضور نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریلِ امیٖن علیہ السلام سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے متعلق دریافت کی تو انھوں نے بتایا کہ خدیجہ(رضی اللہ عنہا) جنت میں سارہ و مریم رضی اللہ عنہن کے درمیان ہیں۔

خواتینِ جنت میں افضل ترین خاتون

ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جنت کی تمام عورتوں میں افضل ہیں۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ :’’ ایک دفعہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار لکیریں کھینچیں اور فرمایا :’جانتے ہو یہ کیا ہے؟ ‘ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی :’ یارسول اللہ! اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔‘
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’ جنت کی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ ہیں۔ اُن کے بعد فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اُس کے بعد مریم بنت عمران، اس کے بعد آسیہ(رضی اللہ عنہن اجمعین) جو فرعون کی بیوی تھیں۔
علامہ ابوعمر و اقدی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جنت کی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد، اس کے بعد فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)، اس کے بعد مریم بنت عمران، اس کے بعد آسیہ بنت مزاحم(رضی اللہ عنہن اجمعین) جو فرعون کی بیوی تھیں۔
ان احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جنت کی چار افضل ترین عورتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اوّلیت دی ہے۔ اور ان احادیث سے جنت کی چار افضل ترین خواتین کے نام بھی معلوم ہوتے ہیں۔
شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ’’ نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : ’’ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ چوں کہ حضرت سیدہ (فاطمہ) رضی اللہ عنہا صاحب زادی ہیں۔ جزئیتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم(جگر گوشۂ رسول) کی وجہ سے یہ سب سے افضل، یہاں تک کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی افضل ہیں۔ ‘‘
حضرت شارح بخاری علیہ الرحمہ دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ :
’’ اس سلسلے میں اپنا ذوق توقف( یعنی خاموشی ) ہے۔ ہاں ! یہ تفصیل کی جا سکتی ہے کہ حضرت خدیجہ و صدیقہ اور حضرت سیدہ رضی اللہ عنہن تمام دنیا کی عورتوں سے افضل، اور ازواجِ مطہرات میں حضرت خدیجہ و حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا افضل ہیں اور بناتِ کرام(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں ) میں سب سے افضل حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ واللہ اعلم‘‘

امہات المؤمنین میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت

حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ: ’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس عالم میں سب سے بہترین عورتیں (حضرت) مریم بنت عمران اور (حضرت ) خدیجہ ہیں۔‘‘اس کے علاوہ بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ سب سے بہترین خاتون (حضرت) خدیجہ بنت خویلد ہیں۔
شیخ ولی الدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ :’’ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تمام امہات المؤمنین سے افضل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ :’’ فرمایا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ پچھلی امت کی عورتوں کے لیے بھلائی اور خیر (حضرت ) مریم بنت عمران ہیں اور اِس امت کے لیے بھلائی اور خیر (حضرت )خدیجہ بنت خویلد (رضی اللہ عنہن) ہیں۔ ‘‘
اسی طرح شیخ الاسلام زکریا انصاری علیہ الرحمہ نے بھی ’’شرح بہجۃ الحاوی ‘‘ میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرہ کے ذکر میں کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ ازواج میں افضل حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہن ہیں۔
علاوہ ازیں بعض محدثین اور شارحینِ حدیث نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر افضلیت دی ہے۔ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی ’’ نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری‘‘ میں اس سلسلے میں یوں لکھتے ہیں :
’’یہ( حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) تمام فضائل و کمالات میں جملہ ازواجِ مطہرات سے ممتاز ہوتے ہوئے تین ایسی خصوصیات رکھتی ہیں جو کسی میں نہ تھیں۔
(۱) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے ساتھ بہ نسبت دیگر ازواج کے سب سے زیادہ محبت تھی---
(۲) علم، اجتہاد میں سب سے زیادہ بڑھی ہوئی تھیں۔ حضرات خلفائے راشدین ( رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے عہد ہی سے فتویٰ دیتی تھیں ---
(۳) جتنی حدیثیں ان سے مروی ہیں، ازواجِ مطہرات میں سے کسی سے مروی نہیں ---
اسی وجہ سے ایک قول یہ ہے کہ دنیا کی تمام عورتوں سے مطلقاً حتیٰ کہ حضرت سیدہ اور خدیجہ (رضی اللہ عنہن) سے بھی افضل ہیں۔ ‘‘
اتنا بیان کرنے کے بعد حضرت شارح بخاری علیہ الرحمہ نے دوسرے مقام پر دوبارہ یوں لکھا ہے کہ :’’ اس باب میں توقف( خاموشی) اسلم (بہتر) ہے۔ ‘‘
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اللہ جل شانہٗ نے حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعہ اپنا سلام پہنچایا۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہااسلام کی وہ مقدس خاتون ہیں جنہوں نے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا اُس وقت ساتھ دیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتے داروں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے عالم میں ایمان لایا جب کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا شدت سے ا نکار کر رہے تھے۔ یہی وہ مقدس خاتون ہیں جنہوں نے دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اپنا مال لٹا دیا۔اس لحاظ سے انھیں بہت بڑی فضیلت حاصل ہے۔ لیکن یہ بھی جاننا چاہیے کہ مختلف اقوال میں حضرت سیدہ فاطمہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہن کی جو فضیلتیں وارد ہوئی ہیں وہ بھی حق اور صحیح ہیں۔ حضرت شارح بخاری علیہ الرحمہ کی تقلید کرتے ہوئے یہی کہنا بہتر ہے کہ اِن مقدس خواتین اسلام میں ہر کوئی اپنی اپنی جگہ عظمت و بزرگی سے معمور ہے۔ دنیا جہان کی تمام عورتوں سے حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہن افضل ہیں، ازواجِ مطہرات میں حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہن افضل ہیں اور رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ صاحب زادیوں میں حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا افضل ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی کثرت سے تعریف کرنا

کتابوں میں آتا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا محبت کے ساتھ بار بار تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت نقل کی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ:’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب (حضرت) خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرماتے تو اُن کی بہت زیادہ تعریف فرماتے۔ ایک دن مجھے غیرت آ گئی اور مَیں نے کہا :’ یارسول اللہ ! آپ کیوں اُس لال باچھوں والی عورت کا تذکرہ اتنی کثرت سے فرماتے ہیں ؟ جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو اُس سے بہتر بیوی عطا فرما دی ہے۔ ‘
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اُس سے بہتر بیوی عطا نہیں فرمائی۔خدیجہ کی شان تو یہ تھی کہ جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو خدیجہ نے میری تصدیق کی۔ جب لوگوں نے مجھے مال سے محروم کیا تو خدیجہ نے اپنے مال سے میری مدد کی، اور جب ساری عورتوں کی اولاد نے مجھے محروم کیا تو اللہ تعالیٰ نے خدیجہ کے ذریعہ مجھے اولاد عنایت فرمائی۔ ‘‘
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میری یہ بات سُن کر جلال آگیا۔ چناں چہ مَیں نے دل میں یہ پکا ارادہ کر دیا کہ آج کے بعد کبھی بھی (حضرت) خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر بُرے انداز میں نہیں کروں گی۔ ‘‘
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:’’  نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم (حضرت) خدیجہ رضی اللہ عنہا کا کثرت کے ساتھ ذکر فرمایا کرتے تھے، مَیں نے کہا یارسول اللہ ! آپ قریش کی اُس لال باچھوں والی بوڑھی عورت کو کیوں اتنا زیادہ یاد فرماتے ہیں ؟ جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اُس سے اچھی بیوی عطا فرما دی ہے، یہ سُن کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس قدر جلال آگیا کہ آپ کے چہرۂ انور کا رنگ بدل گیا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’ ایسا رنگ وحی نازل ہونے کے وقت آپ کے مبارک چہرے پر ہوا کرتا تھا۔‘‘
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ:’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب (حضرت) خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرماتے تو خدیجہ کی تعریف کرتے کرتے نہ تھکتے تھے، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی انداز میں دوبارہ (حضرت) خدیجہ کا ذکر کیا تو مجھے غیرت آ گئی اور مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اُس بڑھیا سے بڑھ کر اچھی عورت آپ کے نکاح میں دے دی ہے۔ ‘
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’ یہ سُن کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا جلال آیا کہ مجھے خود اپنی بات پر شرمندگی ہونے لگی اور مَیں نے دل ہی دل میں یہ دُعا کی کہ اے اللہ! آج تیرے رسول کا غضب ٹھنڈا ہو جائے تو مَیں زندگی بھر کبھی بھی(حضرت ) خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر بُرے انداز سے نہ کروں گی۔ ‘
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آگے فرماتی ہیں کہ:’جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شرمندگی دیکھی تو فرمایا،  عائشہ ! تم نے کس طرح یہ بات کہی ہے؟تمہیں علم ہے؟ جب سارے لوگ مجھ پر ایمان لانے سے منکر ہو گئے تو خدیجہ رضی اللہ عنہا نے مجھ پر ایمان لایا، اور جب سارے لوگ مجھے چھوڑ گئے تو خدیجہ مجھ سے قریب ہوئیں۔ اور جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو خدیجہ نے میری تصدیق کی۔ اور جب تم لوگوں نے مجھے اولاد سے محروم کیا تو خدیجہ نے مجھے اولادسے مالامال کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ایک مہینے تک مجھ سے قریب نہ ہوئے۔ ‘‘
ان احادیث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر محبت فرمایا کرتے تھے۔ اور یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اسلام کی اِس مقدس خاتون کے دینِ اسلام پر جو احسانات ہیں وہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ان ہی مراتب کی وجہ سے آپ کو امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن میں تو افضلیت حاصل ہوئی ہی ساتھ میں نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دنیا کی افضل عورتوں میں شمار فرمایا ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے بعد بھی ہمیشہ یاد فرماتے تھے اور بار بار ذکر کرتے اور ان کی تعریف کثرت کے ساتھ فرمایا کرتے تھے۔

نبیِ کریمﷺ  کا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں سے حُسنِ سلوک

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں سے بڑاحُسنِ سلوک فرمایا کرتے تھے۔ جب اُن کی وفات ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواجِ مطہرات کے سامنے اُن کے احسانات کا بار بار ذکر فرماتے تھے اور جب کوئی بکری وغیرہ ذبح فرماتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو اُس کا گوشت بھجواتے۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ :’’ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سب سے زیادہ غیرت مجھے (حضرت) خدیجہ رضی اللہ عنہا پر آتی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کا ذکر بار بار فرماتے تھے اور کبھی کوئی بکری وغیرہ ذبح کرواتے تو اُس کا گوشت (حضرت) خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو بھی بھیجا کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر مَیں آپ سے کہا کرتی، یارسول اللہ ! ایسا معلوم ہوتا ہے دنیا میں خدیجہ کے علاوہ کوئی عورت ہی نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے ’ وہ تو تھی اور تھی۔‘‘
امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ:’’ جب کوئی بکری ذبح کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اِس گوشت کا تھوڑا سا حصہ خدیجہ کی سہیلیوں کو بھی بھیج دو،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غضب ناک کر دیا، تو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’ مجھے اُس کی محبت عطا کی گئی ہے۔‘‘
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے وہ فرماتی ہیں کہ :’’ایک دن (حضرت)خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے (حجرے کے)اندر آنے کی اجازت طلب کی تو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (حضرت) خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انداز یا د آگیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا سکون محسوس ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ہالہ ہی ہوسکتی ہے۔‘‘
حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ مَیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سب سے زیادہ غیرت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں کھاتی تھی، جب کہ مَیں نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کا زمانہ بھی نہ پایا تھا البتہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کثرت کے ساتھ اُن کا تذکرہ فرماتے تھے اور جب کوئی گوشت وغیرہ کا موقع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی سہیلیوں کو بھی بھیجا کرتے تھے۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ:’’ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کو ئی چیز بہ طور ہدیہ آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اس کو خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کی فلاں سہیلی کے گھر لے جاؤ کہ وہ خدیجہ (رضی اللہ عنہا ) سے بڑی محبت کرتی تھیں۔ ‘‘

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا وصال

ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پچیس سال تک رہیں پندرہ سال اعلانِ نبوت سے پہلے اور دس سال اعلانِ نبوت کے بعد، آپ نے مکۂ مکرمہ میں ہجرت کے تین سال پہلے ۱۰؍ رمضان المبارک کو وفات پائی۔ اس وقت اُن کی عمر شریف ۶۵؍ سال تھی۔ جس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی نمازِ جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ اُن کی قبر میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اترے تھے۔ انھیں حجون میں دفن کیا گیا۔ جسے اب ’’ جنت المعلیٰ‘‘ کہا جاتا ہے۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی مقدس زندگی سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے کہ انھوں نے کیسے مشکل، صبر آزما اور کٹھن حالات میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا اور سینہ سپر ہو کر تمام مصیبتوں اور سختیوں کا مقابلہ کیا۔ پہاڑ کی طرح اپنے ایمان و عمل پر مضبوطی کے ساتھ جمی رہیں۔ مصائب و آلام کے طوفان میں نہایت جاں نثاری اور خلوص و محبت اور عقیدت کے ساتھ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جوئی اور قلبی سکون کا سامان کرتی رہیں۔ حضرت خدیجہ اہلِ اسلام کی وہ مقد س اوّلین ماں ہیں جن کو اِن ہی بے مثال قربانیوں کا دنیا ہی میں ایسا بدلہ ملا کہ اللہ رب العزت جل شانہٗ کا سلام اُن کے لیے لے کر حضر ت جبریل امین علیہ السلام نازل ہوا کرتے تھے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ان اعمال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشکلات اور پریشانیوں میں اپنے شوہر کو تسلی دینے اور دل جوئی کرنے کی عادت اللہ رب العزت کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ بات ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل ہمیں اپنے بزرگوں کے حالات جاننے اور اُن کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق بخشے (آمین)
٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے ان پیج فائل فراہم کی


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔