ہفتہ، 2 مئی، 2015

داستان مجاہد قسط نمبر3

0 comments

دوسرا راستہ


شہر بصرہ میں داخل ہوتے ہی نعیم کو اس کا ایک ہم مکتب ملا جس کا نا م طلحہ تھا۔ اس کی زبانی نعیم کو معلوم ہوا کہ شہر کی مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد ابن عامر کی صدارت میں ایک زبردست جلسہ ہونے والا ہے۔ مسلمان سندھ پر حملہ کرنے والے ہیں اور افواج کی قیادت محمد بن قاسم کے سپرد کی گئی ہے۔حجاج بن یوسف بصرہ کے لوگوں کو جہاد کی طرف مائل کرنے کا فرض ابن عامر کے سپرد کر کے خود کوفہ کے لوگوں کو فوج میں بھرتی کرنے کی غرض سے روانہ ہو چکا ہے۔ بصرہ کے لوگوں کو ابن عامر کی تقریر سے نہایت امید افزا حالات پیدا ہو جانے کی توقع ہے لیکن شہر میں ابن صادق، ایک نام نہاد درویش آیا ہوا ہے اور اس کی شر پسند جماعت کے چند آدمی خفیہ خفیہ سندھ کے خلاف اعلان جہاد کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بصرہ میں یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ جلس میں شریک ہو کر کوئی خطرناک صورتحال پیدا نہ کر دیں۔
نعیم طلحہ کے ساتھ باتیں کرتا ہوا اس کے گھر تک پہنچا اور گھوڑے کو وہاں چھوڑ کر دونوں مسجد کی طرف روانہ ہوئے۔ مسجد میں اس دن معمول سے زیادہ رونق تھی۔
نماز کے بعد ابن عامر تقریر کے لیے ممبر پر کھڑا ہو گیا۔ابھی وہ کچھ کہنے نہ پایا تھا کہ باہر سے دو ہزار آدمیوں کی ایک جماعت شور مچاتی ہوئی داخل ہوئی۔ ان کے آگے آگے ایک جسیم شخص سیاہ رنگ کا جبہ پہنے ہوئے تھا۔ اس کے سرپر سفید عمامہ اور گلے میں موتیوں کا بیش قیمت ہار لٹک رہا تھا۔ طلحہ نے نووارد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’ دیکھیے۔ وہ ابن صادق ہے، مجھے ڈر ہے کہ وہ جلسے میں ضرور کوئی ہنگامہ پیدا کرے گا۔‘‘
ابن صادق نعیم سے چند گز کے فاصلے پر بیٹھ گیا اور اس کی دیکھا دیکھی پیچھے آنے والی جماعت بھی ادھر ادھر دیکھ کر بیٹھ گئی۔
ابن عامر نے ان لوگوں کے خاموشی سے بیٹھ جانے کا انتظار کیا اور بالآخر اپنی تقریر شروع کی:
’’فدایانِ رسولﷺ کے غیور بیٹوں ! دنیا گذشتہ اسی یا نوے برس میں ہمارے آباؤ اجداد کی غیرت و شجاعت، صبر و استقلال، جبر و سطوت کا امتحان کر چکی ہے۔اس زمانے میں ہم نے بڑی سے بڑی طاقتوں کا مقابلہ کیا ہے۔ بڑے بڑے جابر اور مغرور بادشاہوں کو نیچا دکھایا۔ ہمارے اقبال کی داستانیں اس وقت سے شروع ہوتی ہیں جبکہ کفر کی آندھیاں شمع رسالت کے پروانوں کو فنا کر دینے کی نیت سے مدینہ کی چار دیواری کی طرف بڑھ رہی تھیں اور وہ تین سو تیرہ فدایانِ رسولﷺ نخل اسلام کو اپنے مقدس خون سے شاداب کرنے کی نیت سے کفار کیے تیروں، نیزوں اور تلواروں کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو گئے تھے۔ اس عظیم فتح کے بعد ہم توحید کا پرچم اٹھا کر کفر کے تعاقب میں نکلے اور دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیل گئے۔ لیکن ابھی تک اس وسیع زمین پر بہت سے خطے ایسے ہیں جہاں ابھی تک خدا کا آخری پیغام نہیں پہنچا۔ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے آقا و مولا کا پیغام دنیا کے ہر ملک میں پہنچا اور جو قانون وہ اپنے ساتھ لائے تھے، دنیا کے تمام انسانوں پر نافذ کر دیں، کیونکہ یہی وہ قانون ہے جس کی بدولت دنیا کی کمزور اور طاقت ور اقوام مساوات کے ایک وسیع دائرہ میں لائی جا سکتی ہیں۔ جس کی بدولت مظلوم و بے کس انسان اپنے کھوئے ہوئے حقوق واپس لے سکتے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ آج تک دنیا میں جو طاقتیں عظیم الشان اور عالم گیر قانون کے مقابلے میں اٹھیں، کچل دی گئیں۔ مسلمانو! میں حیران ہوں کہ سندھ کے راجہ کو ہماری غیرت کے امتحان کی جرات کیونکہ ہوئی؟ اس نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ مسلمان خانہ جنگیوں کے باعث اس قدر کمزور ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی بہو بیٹیوں کی توہین خاموشی سے برداشت کر لیں گے۔
مجاہدو! یہ تمہاری غیرت کے امتحان کا وقت ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم اپنے دل میں انتقام کا جذبہ لے کر اٹھو۔ ہم سندھ کے راجہ کو معاف کر سکتے ہیں لیکن ہم اسلامی مساوات کے علم بردار ہو کر ہندوستان کی مظلوم قوموں پر اس کی استبدادی حکومت گوارا نہیں کر سکتے۔ راجہ داہر نے چند مسلمانوں کو قید کر کے ہمیں سندھ کے لاکھوں انسانوں کو اس کے آہنی استبداد سے نجات دلانے کی دعوت دی ہے۔
مجاہدو اٹھو اور فتح و نصرت کے نقارے بجاتے ہوئے ہندوستان کی آخری حدود تک پہنچ جاؤ!‘‘
ابن عامر کی تقریر ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ابن صادق اپنی جگہ سے اٹھا اور بلند آواز میں پکارا:
’’مسلمانو! میں ابن عامر کو اپنا بزرگ خیال کرتا ہوں۔ مجھے ان کے خلوص پر بھی کوئی شبہ نہیں لیکن میں اس بات پر افسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ایسا نیک سیرت انسان بھی حجاج بن یوسف جیسے ہوس پرست انسان کا آلہ کار بن کر تمہارے سامنے امن عالم تہہ و بالا کرنے کی خطر ناک تجاویز پیش کر رہا ہے۔‘‘
حجاج بن یوسف کے گذشتہ مظالم کی وجہ سے اہل بصرہ کی اکثریت اس کے خلاف تھی وہ مدت سے کسی ایسے شخص کے متلاشی تھی جس میں علی الاعلان اس کے خلاف کچھ کہنے کی جرات ہو۔ وہ حیران ہو کر ابن صادق کی طرف دیکھنے لگے۔
ابن عامر کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن ابن صادق کی بلند آواز کے سامنے اس کی نحیف آواز دب کر رہ گئی۔
لوگو! ان فتوحات پر حکومتیں تمہیں ملک گیری اور مال غنیمت کی اس ہوس کے باعث کتنی جانیں قربان کی گئیں، کتنے بچے یتیم اور کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ترکستان کے میدانوں میں تمہارے نوجوان بھائیوں، بیٹوں کی ہزاروں لاشیں بے گور و کفن پڑی دیکھی ہیں۔میں نے اپنی آنکھوں سے ترکستان کے میدانوں میں تمہارے نوجوان بھائیوں، بیٹوں کی ہزاروں لاشیں بے گور و کفن پڑی دیکھی ہیں۔ میں نے زخمیوں کو تڑپتے اور سر پٹختے دیکھا ہے۔ یہ عبرتناک مناظر دیکھنے کے بعد میں یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ مسلمانوں کا خون اس قدر ارزاں نہیں کہ حجاج بن یوسف کے نام کی شہرت کے لیے اسے بے دریغ بہایا جائے۔
مسلمانو! میں جہاد کی مخالفت نہیں کرتا۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ابتدا میں ہمیں جہاد کی اس لیے ضرورت تھی کہ ہم کمزور تھے اور کفار ہمیں مٹا دینے پر کمر بستہ تھے۔ اب ہم طاقتور ہیں۔ ہمیں کسی دشمن کا خطرہ نہیں۔ اب ہمیں دنیا کو امن کا گھر بنانے کی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔
مسلمانو! جو جنگیں حجاج بن یوسف کی ہوس ملک گیری کے تحت لڑی جا رہی ہیں انہیں لفظ جہاد کے ساتھ دور کا لگاؤ بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘
حاضرین کو ابن صادق کے الفاظ سے متاثر ہوتے دیکھ کر ابن عامر نے بلند آواز میں کہا:
’’مسلمانو! مجھے معلوم نہ تھا کہ ہم میں ابھی تک ایسے فتنہ پرداز لوگ موجود ہیں جو....‘‘
ابن صادق نے ابن عامر کا فقرہ پورا نہ ہونے دیا اور بلند آواز سے کہا:
’’لوگو! مجھے یہ بات کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ ابن عامر جیسا معزز شخص بھی حجاج بن یوسف کے جاسوسوں میں شامل ہے۔‘‘
’’حجاج کے جاسوس کو باہر نکال دو!‘‘ ابن صادق کے ایک ساتھی نے کہا۔
ابن صادق کا یہ حربہ کامیاب ثابت ہوا۔ بعض لوگوں نے ’’حجاج کا جاسوس، حجاج کا جاسوس‘‘ کہہ کر چلانا شروع کر دیا اور ابن عامر پر توہین آمیز آوازے کسنے لگے۔ ابن عامر کا ایک شاگرد ضبط نہ کر سکا اور اس نے ایک شخص کے منہ سے شفیق استاد کے متعلق توہین آمیز الفاظ سن کر اسے تھپڑ دے مارا۔ اس پر مسجد میں ہنگامہ ہو گیا۔ لوگ ایک دوسرے کے گتھم گتھا ہو گئے۔
محمد بن قاسم سخت اضطراب کی حالت میں تھا، اس کا ہاتھ بار بار تلوار کے قبضے تک جاتا لیکن استاد کے اشارے اور مسجد کے احترام سے خاموش رہا۔
اس نازک صورتحال میں نعیم ہجوم کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور اس نے منبر پر کھڑے ہو کر بلند اور شیریں آواز میں قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دی۔ قرآن کے الفاظ نے لوگوں کے دلوں پر سحر طاری کر دیا اور وہ ایک دوسرے کو خاموشی کی تلقین کرنے لگے۔ ابن صادق، جو اس جلسہ کو نا کام بنانے کا ارادہ کر کے آیا تھا، چاہتا تھا کہ ایک بار پھر ہنگامہ برپا ہو جائے، لیکن قرآن کی تلاوت پر عوام کے جذبات کا لحاظ اور اپنی جان کے خطرے سے خاموش رہا۔ نعیم نے لوگوں کے خاموش ہو جانے پر تقریر شروع کی:
’’بصرہ کے بدقسمت انسانو! خدا کے قہر سے ڈرو اور سوچو کہ تم کہاں کھڑے ہو اور کیا کر رہے ہو۔ افسوس! جن مساجد کی تعمیر کے لیے تمہارے آباؤ اجداد خون اور ہڈیاں پیش کرتے تھے، آج تم ان کے اندر داخل ہو کر بھی فتنے پیدا کرنے سے باز نہیں آتے۔‘‘
نعیم کے الفاظ نے مسجد میں سکون پیدا کر دیا۔ اس نے آواز کو ذرا مغموم بناتے ہوئے کہا:
’’یہ وہ جگہ ہے جہاں تمہارے آباؤ اجداد قدم رکھتے ہی خوف خدا سے کانپ اٹھا کر تے تھے۔ جہاں داخل ہونے سے پہلے وہ دنیا کی تمام آلائشوں سے کنارہ کش ہو جایا کرتے تھے۔ آج میں حیران ہوں کہ تمہاری ذہنیت میں اتنا زبردست انقلاب کیونکر آ گیا۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ تمہارا ایمان اتنا کمزور ہو چکا ہے۔ تم خدا اور رسولﷺ کے عشق میں جان کی بازی لگا دینے والے مجاہدوں کی اولاد ہو۔ تمہارے دل میں اس بات کا احساس کہ کسی دن اپنے آباؤ اجداد کو منہ دکھانا ہے، تمہیں ایسی ذلیل حرکات کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ تم میں یہ جرات پیدا کرنے والا کوئی اور ہے۔‘‘
ابن صادق چوکنا ہو گیا۔ لوگ اس کی طرف مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے۔ اس نے وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے سامعین کے دلوں سے نعیم کے الفاظ کا اثر زائل کرنا چاہا۔ وہ چلایا:
’’لوگو! یہ بھی حجاج کا جاسوس ہے۔ اسے باہر نکال دو!‘‘
وہ آگے کچھ کہنا چاہتا تھا کہ نعیم نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز بلند کی:
’’میں حجاج کا جاسوس سہی، لیکن اسلام کا غدار نہیں۔ بصرہ کے بد نصیب لوگو! تم نے اس شخص کی زبان سے سنا کہ ہمیں جہاد کی اس وقت ضرورت تھی جب ہم کمزور تھے لیکن تمہارا خون جوش میں نہ آیا۔ تم میں سے کسی نے نہ سوچا کہ قرون اولیٰ کا ہر مسلمان طاقت، صبر و استقلال کے لحاظ سے ہمارے زمانے کے تمام مسلمانوں پر فوقیت رکھتا ہے۔
وہ کیا تھے اور کیا کر گئے؟ تمہیں معلوم نہیں کہ ان کے پاس کیا کچھ تھا؟ ان کے ساتھ صدیق اکبرؓ  کا خلوص، عمر فاروقؓ کا جلال، عثمانؓ کا غنا، علی مرتضیٰؓ کی شجاعت اور زمین و آسمان کے مالک کے محبوب ترین پیغمبرﷺ کی دعائیں شامل تھیں۔ تمہیں یاد ہے جب وہ تین سو تیرہ کفر و اسلام کی پہلی جنگ میں تیغ و کفن باندھ کر نکلے تھے تو آقائے دو جہاں نے یہ فرمایا تھا کہ آج پورا اسلام پورے کفر کے مقابلے کے لیے جا رہا ہے لیکن آج ایک ذلیل انسان تمہارے منہ پرا کر یہ کہہ رہا ہے کہ وہ نعوذ باللہ ہم سے کمزور تھے!‘‘
نعیم کے الفاظ سے لوگ بہت متاثر ہوئے۔ کسی نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور دوسروں نے اس کی تقلید کی۔ بعض نے مڑ مڑ کر ابن صادق کی طرف دیکھا اور دبی زبان سے ملامت شروع کر دی۔ نعیم نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’دوستو اور بزرگو! خدا کی راہ میں جان و مال اور دنیا کی تمام آسائشیں قربان کر دینے والے مجاہدوں پر ملک گیری اور مال غنیمت کی ہوس کا الزام لگانا نا انصافی ہے۔اگر انہیں دنیا کی ہوس ہوتی تو تم سرفروشی کا وہ جذبہ نہ دیکھتے جو مٹھی بھر بے سر و سامان مجاہدوں کو کفار کی لاتعداد افواج کے سامنے سینہ سپر ہونے پر آمادہ کر دیتا تھا۔ اگر وہ حکومت کے بھوکے ہوتے تو مفتوح قوموں کو مساوی حقوق نہ دیتے اور آج بھی ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو جہاد پر شہادت کی بجائے مال غنیمت کا ارادہ لے کر جا تا ہے۔ مجاہد حکومت سے بے نیاز ہے لیکن خدا کی راہ میں سب کچھ قربان کر دینے والوں کے لیے دنیا میں ہر لحاظ سے سربلند رہنا، تعجب خیز نہیں۔ سلطنت مجاہد کے فقر کا جزو لازم ہے۔
مسلمانو! ہمارے ماضی کی تاریخ کے صفحات اگر صدیق اکبرؓ کے ایمان اور خلوص کے تبصروں سے لبریز ہیں جو عبد اللہ بن ابی کی منافقت کی داستان سے بھی خالی نہیں۔ صدیقؓ کے نقش قدم پر چلنے والوں کی زندگی کا مقصد ہمیشہ اسلام کی سربلندی تھا اور عبد اللہ بن ابی کے جانشین ہمیشہ اسلام کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ میں عبد اللہ بن ابی کے اس جانشین سے پوچھتا ہوں ؟‘‘
ابن صادق کی حالت اس گیڈر کی سی تھی جسے چاروں طرف سے شکاریوں نے گھیر رکھا ہو۔ اس کو یقین ہو چکا تھا کہ یہ جادو بیاں نوجوان چند اور الفاظ کے بعد تمام مجمع کو اس کے خلاف مشتعل کر دے گا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا اور لوگوں کی حوصلہ شکن نگاہیں دیکھ کر پیچھے کھسکنے لگا۔ کسی نے کہا۔ ’’منافق جاتا ہے پکڑو!‘‘ اور کئی نوجوان ’’پکڑو  پکڑو‘‘ کہتے ہوئے اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس کے ساتھیوں نے اسے چھڑانے کی کوشش کی لیکن ہجوم کے آگے بس نہ چلا۔ کسی نے اسے دھکا دیا اور کسی نے تھپڑ رسید کیا۔ محمد بن قاسم نے بھاگ کر لوگوں کو ادھر ادھر ہٹایا اور بڑی مشکل سے اس کی جان چھڑائی۔
ابن صادق اپنے مداحوں کے دست شفقت سے آزاد ہوتے ہی سرپر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ چند من چلے نوجوانوں نے شکار جاتا دیکھ کر اس کا تعاقب کرنا چاہا لیکن محمد بن قاسم نے انہیں روک لیا۔ابن صادق کی جماعت کے آدمی یکے بعد دیگرے مسجد سے باہر نکل گئے۔ لوگ پھر خاموش ہو کر نعیم کی طرف متوجہ ہوئے اور اس نے تقریر شروع کی:
’’اس دنیا میں جہاں ہر ذرے کو اپنے قیام کے لیے دوسرے ذروں کی ٹھوکروں کا جواب دینا پڑتا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے جہاد ایک اہم ترین فرض ہے۔ دنیا کو امن کا گھر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کفر کا آتش کدہ ٹھنڈا کر دیا جائے۔
بدرو حنین، قادسیہ، یرموک اور اجنادین کی رزمگاہوں میں ہمارے اسلاف کی تکبیریں کفر کی آگ میں جلتے ہوئے بے بس انسانوں کی چیخوں کا جواب تھیں اور آج ستم رسیدہ انسانیت سندھ کے میدانوں میں ہماری تلواروں کی جھنکار سننے کے لیے بے قرار ہے۔ مسلمانو! تم اپنی قوم کی اس بیٹی کی فریاد سن چکے ہو جو سندھ کے راجہ کی قید میں ہے۔ میں تمہیں سندھ کی فتح کی بشارت دیتا ہوں۔
مجاہد کی تلوار خدا کی تلوار ہے جو گردن اس کے سامنے اکڑے گی، کٹ کر رہ جائے گی۔سندھ کے مغرور راجہ نے تمہیں اپنی تلوار کی تیزی اور بازو کی قوت آزمانے کی دعوت ہے۔
مجاہدو! اٹھو، اور ثابت کر دو کہ ابھی تمہاری رگوں میں شہسواران عرب کا خون منجمد نہیں ہوا۔ ایک طرف خداوند کریم تمہارے جذبہ جہاد اور دوسری طرف دنیا تمہاری غیرت کا امتحان لینا چاہتی ہے، کیا تم اس امتحان کے لیے تیار ہو؟‘‘
’’ہم تیار ہیں، ہم تیار ہیں۔‘‘ بوڑھے اور جوان فلک شگاف نعروں سے کم سن مجاہد کی آواز پر لبیک کہہ رہے تھے۔
نعیم نے بوڑھے استاد کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں مسرت کے آنسو چھلک رہے تھے۔ ابن عامر نے دوبارہ اٹھ کر مختصر سی تقریر کے بعد بھرتی کے لیے نام پیش کرنے والوں کو ضروری ہدایات دیں اور یہ جلسہ برخاست ہوا۔

)۲)

رات کے وقت محمد بن قاسم کے ہاں ابن عامر، سعید، نعیم اور شہر کے چند معززین دن کے واقعات پر تبصرہ کر رہے تھے۔ نعیم اس دن نہ صرف بصرہ کے نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنا چکا تھا بلکہ عمر رسیدہ لوگ بھی اس کی جرات کی داد دے رہے تھے۔ ابن عامر اپنے ہونہار شاگرد کو اچھی طرح جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے دل میں خطرناک سے خطرناک حادثات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے کا جوہر بدرجہ اتم موجود ہے لیکن آج جو کچھ نعیم نے کیا وہ اس کی توقعات سے کہیں زیادہ تھا۔ سعید کی خوشی کا بھی کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ وہ بار بار نوجوان بھانجے کی طرف دیکھتا اور ہر بار اس کے منہ سے نعیم کے لیے درازی عمر کی دعائیں نکلتیں۔ تقریر کے بعد اس نے نعیم کی حوصلہ افزائی کے لیے سب سے پہلے اپنا نام پیش کیا تھا اور مکتب میں اس کی۔   اشد ضرورت کے باوجود ابن عامر اسے لشکر کا ساتھ دینے کی اجازت دیے چکا تھا۔ بذات خود ابن عامر کے نحیف بازوؤں میں تلوار اٹھانے کی طاقت نہ تھی۔ تاہم اس نے اپنے ہونہار شاگرد محمد بن قاسم اور نعیم کا ساتھ دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ لیکن بصرہ کے لوگوں نے اس بات کی مخالفت کی اور یک زبان ہو کر کہا۔’’مدرسہ میں آپ کی خدمات کی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ اہل بصرہ سعید کو بھی روکنا چاہتے تھے لیکن محمد بن قاسم نے ہراول کی قیادت کے لیے ایک تجربہ کار جرنیل کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ شامل کر لیا۔
نعیم کو ہر لمحہ ایک منزل سے قریب اور ایک منزل سے دور لے جا رہا تھا۔ وہ سر جھکائے حاضرین مجلس کی گفتگو سن رہا تھا۔ ابن عامر حسب عادت قرون اولیٰ میں کفر و اسلام کی زبردست جنگوں کے واقعات بیان کر رہے تھے۔
کسی نے باہر سے دستک دی۔ محمد بن قاسم کے غلام نے دروازہ کھولا۔ ایک عمر رسیدہ عرب جس کی بھویں تک سفید ہو چکی تھیں۔ ایک ہاتھ میں گٹھڑی اٹھائے اور دوسرے میں عصا تھامے اندر داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر پرانے زخموں کے نشانات ظاہر کر رہے تھے کہ وہ کسی زمانے میں تلواروں اور نیزوں سے کھیل چکا ہے۔ ابن عامر اسے پہچان کر اٹھا اور ایک قدم آگے بڑھ کر اس سے مصافحہ کیا۔ بوڑھے نے کمزور آواز میں کہا۔’’میں مکتب میں آپ کو تلاش کرتا رہا، وہاں آپ سے پتہ چلا کہ آپ یہاں آئے ہوئے ہیں۔‘‘
’’آپ نے بہت تکلیف اٹھائی، بیٹھئے!‘‘
بوڑھا ابن عامر کے قریب بیٹھ گیا۔
ابن عامر نے کہا۔’’بڑی مدت کے بعد آپ کی زیارت نصیب ہوئی۔ کہیے کیسے آنا ہوا؟‘‘
بوڑھے نے کہا۔ مجھے آج کسی نے مسجد کے واقعات بتائے تھے۔ میں اس نوجوان کا متلاشی ہوں جس کی ہمت کے گیت آج بصرہ کے بچے اور بوڑھے سب گا رہے ہیں۔ مجھے یہ پتہ چلا تھا کہ وہ عبدالرحمن کا بیٹا ہے۔ عبد الرحمن کا باپ میرا دوست تھا۔ اگر آپ کو وہ لڑکا ملے تو میری طرف سے اسے یہ چند چیزیں پیش کر دیں !‘‘
بوڑھے نے یہ کہہ کر گٹھڑی کھولی اور کہا۔’’پرسوں ترکستان سے خبر آئی تھی کہ عبیدہ شہید ہو چکا ہے۔‘‘
’’عبیدہ کون! آپ کا پوتا؟ ابن عامر نے سوال کیا۔
’’ہاں وہی! گھر پر اس کی یہ تلوار اور زرہ فالتو پڑی تھیں۔ اب میرے گھرانے میں ان چیزوں کا حق ادا کرنے والا کوئی نہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ یہ کسی مجاہد کی نذر کر دی جائیں۔‘‘
ابن عامر نے نعیم کی طرف دیکھا۔ وہ اس کا مطلب سمجھ کر اٹھا اور بوڑھے کے قریب آ کر بیٹھتے ہوئے بولا: ’’میں آپ کی قدر شناسی کا ممنون ہوں۔ اگر مجھ سے ہو سکا تو آپ کے اس تحفے کا بہترین استعمال کروں گا۔ آپ میرے لیے دعا کریں !‘‘
آدھی رات کے قریب یہ مجلس ختم ہوئی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔ نعیم نے اپنے ماموں کے ساتھ جانا چاہا لیکن محمد بن قاسم نے اسے روک لیا۔
محمد بن قاسم کے اصرار پر سعید نے نعیم کو وہیں ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔ ابن عامر اور ابن سعید کو رخصت کرنے کے لیے نعیم اور محمد بن قاسم گھر سے باہر نکلے اور کچھ دور ان کے ساتھ گئے۔سعید کو ابھی تک نعیم کے ساتھ گھرکے متعلق کوئی بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اس نے چلتے چلتے رک کر سوال کیا:
’’نعیم! گھر پر خیریت ہے؟‘‘
’’ہاں ماموں جان، وہ تمام بخیریت ہیں۔ امی جان....!‘‘ نعیم آگے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اس نے خط نکالنے کے خیال سے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ لیکن کچھ سوچ کر خالی ہاتھ جیب سے نکال لیا۔
  ’’ہاں ہمشیرہ کیا کہتی تھیں ؟‘‘
’’وہ آپ کو سلام کہتی تھیں ماموں جان!‘‘
باقی رات نعیم نے بستر پر کروٹیں گزارتے گزار دی۔ صبح سے کچھ دیر پہلے آنکھ لگ گئی۔ خواب میں اس نے دیکھا کہ وہ بستی کے نخلستانوں کی دلفریب فضاؤں میں محبت کے نغمے بیدار کرنے والی محبوبہ سے کوسوں دور سندھ کے وسیع میدانوں میں جنگ کے بھیانک مناظر کے سامنے کھڑا ہے۔
اگلے دن نعیم فوج کے ساتھ ایک سالار کی حیثیت سے روانہ ہو گیا۔ وہ ہر قدم پر آرزوؤں کی پرانی بستی کو روندتا اور امنگوں کی نئی دنیا بیدار کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ شام سے کچھ دیر پہلے یہ لشکر ایک اونچے ٹیلے پر سے گزر رہا تھا۔ اس مقام سے وہ نخلستان جس کی چھاؤں میں وہ زندگی کے بہترین سانس لے چکا تھا، نظر آنے لگا۔ اس کی جوان اور معصوم امیدوں کی بستی راستے سے فقط دو کوس کے فاصلہ پر ایک طرف کو تھی۔ جی میں آیا کہ گھوڑے کو سرپٹ چھوڑ کر ایک بار اس صحرائی حور سے چند الوداعی ملاقاتیں کہہ سن آئے۔ لیکن مجاہد کا ضمیر ان لطیف خیالات پر غالب آیا۔ اس نے جیب سے خط نکالا، پڑھا اور پھر جیب میں ڈال لیا۔

)۳)

گھر میں عبد اللہ اور نعیم کی آخری گفتگو سن لینے کے بعد عذرا کی خوشی کا اندازہ کرنا ذرا مشکل تھا۔ اس کی روح مسرت کے ساتویں آسمان پر رقص کر رہی تھی۔ ساری رات جاگنے کے باوجود اس کا چہرہ معمول سے زیادہ بشاش تھا۔ مایوسی کی آگ میں جلنے کے بعد نخل امید کا یکایک سرسبز ہو جنا قدرت کا سب بڑا احسان تھا۔
عذرا آج عبد اللہ کے احسان کے بوجھ تلے دبی جا رہی تھی اور اگر اس مسرت میں کوئی خیال رخنہ اندازی کر رہا تھا تو یہ تھا کہ یہ خوشی عبد اللہ کی شرمندہ احسان تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ عبد اللہ کا یہ ایثار فقط نعیم کے لیے نہ تھا بلکہ ان دونوں کے لیے تھا۔ اس کی محبت کس قدر بے لوث تھی۔ اس کے دل کو کس قدر صدمہ پہنچا ہو گا۔ کاش وہ اسے یہ صدمہ نہ پہنچاتی۔ کاش اسے نعیم سے اس قدر محبت نہ ہوتی اور وہ عبد اللہ کا دل نہ توڑتی۔ ایسے خیالات سے اچھلتا ہوا دل بیٹھ جاتا لیکن دل کے ساز پر غم کی یہ ہلکی ہلکی تانیں مسرت کے راگ کے زیر و بم میں دب کر رہ جاتیں۔
عذرا کا خیال تھا کہ نعیم شام سے پہلے واپسا جائے گا۔ اس نے انتظار کا دن بڑی مشکل سے کاٹا۔ شام ہوئی لیکن نعیم واپس نہ آیا۔ جب شام کا  دھندلکا شب کی تاریکی میں تبدیل ہونے لگا اور آسمان کی ردائے سیاہ پر تاروں کے موتی جگمگانے لگے۔ عذرا کی بے چینی بڑھنے لگی۔ آدھی رات گزر گئی تو عذرا شب غم کو صبح امید کا سہارا دے کر کروٹیں لیتی ہوئی سو گئی۔دوسرا دن اس نے زیادہ بے چینی سے گزارا اور آنے والی رات گذشتہ رات سے زیادہ طویل نظر آئی۔
صبح گزری، شام آئی، لیکن نعیم واپس نہ آیا۔ شام کے وقت عذرا گھر سے نکلی اور کچھ فاصلے پر ایک ٹیلے پر چڑھ کر نعیم کی راہ دیکھنے لگی۔ بصرہ کے راستے پر ہر بار تھوڑی بہت گرد اڑنے پر نعیم کی آمد کا شک ہوتا لیکن ہر بار یہ وہم غلط ثابت ہونے پر وہ دھڑکتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھ کر رہ جاتی۔ اونٹوں اور گھوڑوں پر کئی سوار گزرے۔ ہر سوار دور سے اسے نعیم نظر آتا لیکن قریب سے دیکھنے پر وہ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی۔ شام کی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، چرواہے اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے۔ عذرا گھر کی طرف لوٹنے کا ارادہ ظاہر کر رہی تھی کہ پیچھے سے کسی کے پاؤں کی آہٹ سنا ئی دی۔ مڑ کر دیکھا تو عبد اللہ آ رہا تھا۔ عذرا نے حیاء اور ندامت سے آنکھیں جھکا لیں۔
عبد اللہ چند قدم آگے بڑھا اور بولا:
’’عذرا اب گھر چلو، فکر نہ کرو وہ جلد آ جائے گا۔ بصرہ میں کئی بڑے آدمی اس کے دوست ہیں کسی نے اسے زبردستی روک لیا ہو گا۔‘‘
عذرا کچھ کہے بغیر گھر کی طرف چل دی۔ اگلے دن بصرہ سے ایک آدمی آیا اور اس کی زبانی معلوم ہوا کہ نعیم سندھ کی طرف روانہ ہو چکا ہے
   یہ خبر موصول ہونے پر صابرہ، عبد اللہ اور عذرا کے دل میں کئی خیالات پیدا ہوئے۔ صابرہ اور عبد اللہ کو شک گزرا کہ اس کی خود داری نے بھائی کا احسان مند ہونا گوارا نہیں کیا۔ عذرا کے شکوک ان سے مختلف تھے۔ عبد اللہ کے یہ الفاظ کہ بصرہ میں کئی بڑے بڑے آدمی اس کے دوست ہیں۔ کسی نے زبردستی روک لیا ہو گا۔ اس کے دل پر گہرا اثر کر چکے تھے۔ وہ بار بار اپنے دل سے یہ کہتی۔ ’’نعیم کے حسن اور بہادری کی شہرت نے بڑے بڑے آدمی اس کے دوست ہیں۔ کسی نے زبردستی روک لیا ہو گا۔ اس کے دل پر گہرا اثر پیدا کر چکے تھے۔ وہ بار بار اپنے دل سے یہ کہتی ’’نعیم کے حسن اور بہادری کی شہرت نے بڑے بڑے آدمیوں کو اس کا گرویدہ بنا لیا ہو گا۔ وہ اس سے تعلقات پیدا کرنا اپنے لیے باعث فخر خیال کرتے ہوں گے۔ بصرہ میں شاید ہزاروں حسین اور عالی نسب لڑکیاں اس پر فدا ہوں گی۔ آخر مجھ میں ایسی کون سی بات ہے جو اسے کسی اور کا ہو جانے سے منع کر سکتی ہے۔اگر اسے ضرور جہاد پر جانا تھا تو مجھ سے مل کر کیوں نہ گیا! آخر گھر میں کون تھا جو اسے اس کار خیر سے روکتا۔ شاید بستی میں اس کے پریشان رہنے کی وجہ میں نہ تھی۔ ہو سکتا ہے وہ کسی اور کے ساتھ رشتہ محبت جوڑ چکا ہو.... لیکن نہیں ! یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ نعیم میرا نعیم....ایسا نہیں۔ وہ مجھے دھوکہ نہیں دے سکتا اور اگر دے بھی تو مجھے گلہ کرنے کا کیا حق ہے؟
)۴)
اس زمانے میں دیبل سندھ کا ایک مشہور شہر تھا۔ سندھ کے راجہ کو شہر کی چار دیواری پر اتنا بھروسہ تھا کہ میدان میں نکل کر مقابلہ کرنے کی بجائے اپنی بے شمار افواج کے ساتھ شہر کے اندر پناہ گزین ہو گیا۔ محمد بن قاسمؓ نے شہر کا محاصرہ کر کے منجیق سے پتھر برسانے شروع کیے لیکن کئی دنوں کی سخت محنت کے باوجود مسلمان شہر پناہ توڑنے میں کامیاب نہ ہوئے۔آخر ایک دن ایک بھاری پتھر بدھ کے ایک مندر پرا گرا اور اس کا سنہری گنبد ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیچے گر پڑا اور اس کے ساتھ ہی بدھ کا ایک قدیم مجسمہ چکنا چور ہو گیا۔ اس بت کے ٹوٹ جانے کو راجہ داہر اپنے لیے برا شگون خیال کرتے ہوئے بدحواس ہو گیا اور رات کے وقت اپنی فوج کے ساتھ بھاگ نکلا اور برہمن آباد پہنچ کر دم لیا۔
دیبل کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نیرون کی طرف بڑھا۔ نیرون کے باشندوں نے لڑائی سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دئیے۔
نیرون پر قبضہ کرنے کے بعد محمدؒبن قاسم نے بھروچ اور سیوستان کے مشہور قلعے فتح کیے۔ راجہ داہر نے برہمن آباد پہنچ کر چاروں طرف ہرکارے دوڑائے اور باقی ہندوستان کے راجوں مہاراجوں سے مدد طلب کی۔ اس کی اپیل پر دو سو ہاتھیوں کے علاوہ تقریباً پچاس ہزار سوار اور کئی پیادہ دستے مزید جمع ہو گئے۔ راجہ داہر اس لشکر جرار کے ساتھ برہمن آباد سے باہر نکلا اور دریائے سندھ کے کنارے ایک وسیع میدان میں پڑاؤ ڈال کر محمد  بن قاسم کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔
محمدؒ بن قاسم نے کشتیوں کا پل بنا کر دریائے سندھ کو عبور کیا اور ۹۱ جون ۲۱۷ئ کی شام محمدؒ بن قاسم کی فوج نے راجہ کی قیام گاہ سے دو کوس کے فاصلے پر پڑاؤ ڈالا۔ علی الصباح ایک طرف سے ناقوس اور گھنٹوں کی آواز اور دوسری طرف سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی اور دونوں لشکر اپنے اپنے ملک کے جنگی قواعد کے مطابق منظم ہو کر ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔
محمدؒ بن قاسم نے فوج کو پانچ پانچ سو کے دستوں میں تقسیم کر کے پیش قدمی کا حکم دیا۔ ادھر سندھ کی فوج کے ہراول میں دو سو ہاتھی چنگھاڑتے ہوئے آگے بڑھے اور مسلمانوں کے گھوڑے بدک کر پیچھے ہٹنے لگے۔محمدؒ بن قاسم نے یہ دیکھ کر فوج کو تیر برسانے کا حکم دیا۔ ایک ہاتھی مسلمانوں کی صفیں روندتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ محمدؒ بن قاسم نے اس کے مقابلے کے لیے آگے بڑھنا چاہا لیکن اس کے گھوڑے نے اس مہیب جانور کے قریب جانے سے انکار کر دیا۔ محمدؒ بن قاسم مجبور ہو کر گھوڑے سے اترا اور آگے بڑھ کر ہاتھ یکی سونڈ کاٹ ڈالی۔ نعیم اور سعید نے اس کی تقلید کی اور دو اور ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹ ڈالیں۔ زخم خوردہ ہاتھی واپس مڑے اور اپنی فوجوں کو روندتے ہوئے نکل گئے۔ باقی ہاتھی تیروں کی بارش میں آگے نہ بڑھ سکے اور زخمی ہو ہو کر سندھ کی لشکر کی صفیں درہم برہم کرنے لگے۔ اس موقع کو غنیمت جان کر محمدؒ بن قاسم نے اگلی صفوں کو آگے بڑھنے اور پچھلے دستوں کو چکر کاٹ کر دشمن کو تین اطراف سے گھیر لینے کا حکم دیا۔ مسلمانوں کے جان توڑ حملے نے دشمن کی فوج کے پاؤں اکھاڑ دئیے۔
  سعید چند جاں فروشوں کے ساتھ حریف کی صفیں توڑتا ہوا قلب لشکر تک جا پہنچا۔ نعیم نے اپنے بہادر ماموں سے پیچھے رہنا گوارا نہ کیا اور وہ بھی نیزے سے اپنا راستہ صاف کرتا ہوا ماموں کے قریب جا پہنچا۔راجہ داہر نوجوان رانیوں کے درمیان ایک ہاتھی پر سنہری ہودج میں بیٹھا ہوا لڑائی کا تماشا دیکھ رہا تھا۔ اس کے آگے چند پجاری ایک بت اٹھائے بھجن گا رہے تھے۔ سعید نے کہا ’’یہ بت انکا آخری سہارا ہے، اسے توڑ ڈالو!‘‘
نعیم نے ایک پجاری کے سینے پر تیرا مارا اور وہ کلیجے پر ہاتھ رکھ کر نیچے گر پڑا۔ دوسرا تیر ایک اور پجاری کو لگا اور وہ بت کو میدان میں چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے۔ یہ بت واقعی ان کا آخری سہارا ثابت ہوا۔ تمام فوج میں ہلچل مچ گئی۔ سعید سخت زخمی ہونے کے باوجود آگے بڑھتا گیا۔ اس نے راجہ داہر کے ہاتھی پر حملہ کیا لیکن راجہ داہر کے جاں نثار اس کے ساتھ اردگرد جمع ہو گئے اور سعید ان کے نرغے میں آگیا۔ سعید کو اس طرح گھرا ہوا دیکھ کر نعیم نے بھوکے شیر کی طرح حملہ کیا اور دشمن کی صفیں درہم برہم کر ڈالیں۔ ایک لمحے کے لیے اس نے سعید کی جستجو میں چاروں طرف نگاہ دوڑائی لیکن وہ نظر نہ آیا۔ اچانک اس کا خالی گھوڑا ادھر ادھر بھاگتا دکھائی دیا۔ نعیم نے نیچے لاشوں کے ڈھیر کی طرف دیکھا۔ سعید دشمن کی کئی لاشوں کے اوپر منہ کے بل پڑا ہوا تھا۔نعیم نے گھوڑے سے اتر کر ماموں کے سر سہارا دے کر اوپر کیا۔ ’’ماموں جان! ‘‘ کہہ کا پکارا لیکن اس نے آنکھیں نہ کھولیں۔ نعیم ’’انا للہ و اناا لیہ راجعون‘‘ کہہ کر پھر گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ راجہ داہر کا ہاتھی اس سے زیادہ دور نہ تھا۔ لیکن ابھی تک غیر منظم سپاہیوں کا ایک گروہ اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے کھڑا تھا۔
نعیم نے ایک بار پھر کمان اٹھائی اور راجہ کی طرف تیر برسانے لگا۔ ایک تیر راجہ کے سینے میں لگا اور اس نے نیم بسمل ہو کر اپنا سر ایک رانی کی گود میں رکھ دیا۔راجہ کے قتل کی خبر مشہور ہوتے ہی سندھ کا لشکر میدان جنگ میں لاشوں کے انبار چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ ان شکست خوردہ سپاہیوں میں سے بعض نے برہمن آباد اور بعض نے اردر کا رخ کیا۔
اس عظیم فتح کے بعد مسلمان زخمیوں کی مر ہم پٹی اور شہیدوں کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہو گئے۔ سعید کی نعش پر زخموں کے بیس سے زیادہ نشانات تھے۔ جس اسے لحد میں رکھا گیا تو نعیم نے اپنی جیب سے بھائی کا خط نکالا اور لحد کے اندر پھینک دیا۔
محمد بن قاسم نے حیران ہو کر پوچھا۔’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’ایک خط۔‘‘ نعیم نے مغموم لہجے میں کہا۔
’’کیسا خط؟‘‘
’’مجھے عبد اللہ نے دیا تھا۔ میں انہیں یہ خط پہنچانے کا وعدہ کر کے آیا تھا لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ میں اپنا وعدہ پورا کر سکتا۔‘‘
’’میں اسے دیکھ سکتا ہوں ؟‘‘ محمدؒ بن قاسم نے پوچھا۔
’’اس میں کوئی خاص بات نہیں۔‘‘
محمدؒ بن قاسم نے جھک کر لحد سے خط نکالا۔ پڑھا اور نعیم کو واپس کرتے ہوئے کہا:
’’اسے اپنے پاس رکھو۔ شہیدوں کی نگاہ سے دنیا اور آخرت کی کوئی بات پوشیدہ نہیں ہوتی۔‘‘ محمدؒ بن قاسم سے نعیم کی زندگی کا کوئی راز پوشیدہ نہ تھا۔ نعیم کے لیے عبداللہ کا ایثار اور خدا کی راہ میں نعیم کی یہ شاندار قربانی دیکھ کر اس کے دل میں ان دونوں بھائیوں کے لیے پہلے سے زیادہ گہری محبت پیدا ہو گئی۔
رات کے وقت محمدؒ بن قاسم نے سونے سے پہلے نعیم کو اپنے خیمے میں بلایا اور ادھر ادھر کی چند باتوں کے بعد کہا۔ ’’اب ہم چند دنوں تک برہمن آباد فتح کر کے ملتان کا رخ کریں گے۔ وہاں شاید ہمیں زیادہ افواج کی ضرورت پڑے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ تمہیں واپس بصرہ بھیج دیا جائے۔ وہاں تم زیادہ افواج مہیا کرنے کے لیے تقریریں کرو۔ راستے میں اپنے گھر سے بھی ہو تے جانا اور انہیں تسلی دینا!‘‘
’’جہاں تک ان کی تسلی کا تعلق ہے۔ میں سے جہاد سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ رہا مزید بھرتی کا سوال، تو آج کے معرکے نے ثابت کر دیا ہے کہ  سندھ کے لیے مزید افواج کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’لیکن میرا ارادہ فقط سندھ کی فتح کرنے تک محدود نہیں۔‘‘
’’لیکن ایک دوست کی حیثیت میں مجھ پر آپ کا یہ احسان غیر ضروری ہو گا۔‘‘
’’کیسا احسان؟‘‘ محمدؒ بن قاسم نے پوچھا۔
’’آپ مجھے بصرہ بھیجنے کے بہانے گھر جانے کا موقع دینا چاہتے ہیں اور میں اسے ایک احسان سمجھتا ہوں۔‘‘
محمدؒ بن قاسم نے کہا۔ ’’اگر یہ احسان میرے یا تمہارے فرائض سے ٹکر کھاتا ہو تو میں تمہیں کبھی اجازت نہ دوں۔ لیکن فی الحال تمہاری اس جگہ کوئی ضرورت نہیں کیونکہ برہمن آباد فتح کرنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس کے بعد ادھر ادھر کی معمولی ریاستوں کی سرکوبی کے بعد ہم ملتان کا رخ کریں گے۔ تم اس وقت تک آسانی سے واپسا جاؤ گے اور تمہارے ساتھ آنے والے تھوڑے بہت سپاہی ہماری طاقت میں کافی اضافہ کر سکیں گے۔‘‘
’’اچھا! پھر مجھے کب جانا چاہیے؟‘‘
’’جس قدر جلدی ہو سکے۔ اگر تمہارے زخم تمہیں سفر کی اجازت دے سکیں تو کل ہی روانہ ہو جاؤ!‘‘
محمدؒ بن قاسم کے ان الفاظ کے بعد نعیم بظاہر وہیں بیٹھا تھا لیکن اس کے خیالات اسے سندھ کی سرزمین سے ہزاروں میل دور لے جا چکے تھے۔
علی الصباح و بصرہ کا رخ کر رہا تھا۔

)۵)

سندھ میں مسلمانوں کی فتوحات کے حالات سے حجاج بن یوسف کو ہر وقت با خبر رکھنے کے لیے محمدؒ بن قاسم نے سندھ سے لے کر بصرہ تک دس دس کوس کے فاصلے پر سپاہیوں کی چوکیاں مقرر کر دی تھیں۔ ان چوکیوں پر ڈاک رسانی کی غرض سے نہایت تیز رفتار گھوڑے رکھے گئے تھے۔
نعیم علی الصباح سندھ سے بصرہ کی طرف روانہ ہوا۔ وہ ہر چوکی پر گھوڑا بدلتا ہوا دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر رہا تھا۔رات کے وقت اس نے ایک چوکی پر قیام کیا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے اسے بہت جلد نیند آ گئی۔ آدھی رات کے قریب سندھ کی طرف سے ایک اور سوار کی آمد نے نعیم اور چوکی کے سپاہیوں کو جگا دیا۔ سوار لباس سے ایک مسلمان سپاہی معلوم ہوتا تھا۔ وہ چوکی پر پہنچتے ہی اپنے گھوڑے سے اترا اور کہنے لگا:
’’میں بصرہ میں ایک نہایت ضروری خبر لے کر جا رہا ہوں، دوسرا گھوڑا فوراً تیار کرو!‘‘
نعیم کو سندھ کو ہر معاملے سے دلچسپی تھی۔ اس نے اٹھ کر مشعل کی روشنی میں نووارد کو دیکھا۔ وہ گندمی رنگ کا ایک قوی ہیکل نوجوان تھا۔
’’تم محمدؒ بن قاسم کا پیغام لے کر جا رہے ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کیا پیغام ہے؟‘‘
’’مجھے کسی کو بتانے کی اجازت نہیں۔‘‘
’’مجھے جانتے ہو؟‘‘
’’ہاں ! آپ ہماری فوج کے ایک سالار ہیں لیکن معاف کیجئے گا اگر آپ کو بتانے میں کوئی حرج نہیں تاہم مجھے سپہ سالار کا حکم ہے کہ حجاج بن یوسف کے سوا یہ پیغام کسی کو نہ دیا جائے !‘‘
’’میں تمہاری اس فرض شناسی کی قدر کرتا ہوں۔‘‘ نعیم نے کہا۔
  اتنی دیر میں دوسرا گھوڑا تیار ہو گیا اور نووارد اس پر سوار ہو کر آن کی آن کی میں رات کی تاریکی میں غائب ہو گیا۔
چند دنوں کے بعد نعیم اپنے سفر کا تین چوتھائی حصہ طے کر کے ایک دل کش وادی میں سے گزر رہا تھا۔ اسے راستے میں پھر وہی سوار نظر آیا۔ نعیم نے اسے غور سے دیکھنے پر پہچان لیا۔ اس نے نعیم کے قریب آنے پر گھوڑا روک لیا اور کہا:
’’آپ بہت تیز رفتار سے آئے۔ میرا خیال تھا کہ آپ بہت پیچھے رہ جائیں گے!‘‘
’’ہاں ! میں نے راستے میں زیادہ دیر آرام نہیں کیا۔‘‘
’’آپ بھی بصرہ جا رہے ہیں ؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ نعیم نے جواب دیا۔ ’’اگر تم اس دن تھوڑی دیر کے لیے میرا انتظار کر لیتے تو سارا سفر اکٹھے رہتے۔‘‘
’’میرا خیال تھا کہ آپ ذرا آرام سے سفر کریں گے، اب میں آپ کے ساتھ رہوں گا چلیے!‘‘
’’میرا خیال ہے کہ تم ان راستوں سے زیادہ واقف ہو؟‘‘
’’ہاں ! میں اس ملک میں بہت دیر رہ چکا ہوں۔‘‘
’’چلو پھر آگے تم چلو!‘‘
اجنبی نے گھوڑا آگے کر کے سرپٹ چھوڑ دیا اور نعیم نے بھی اس کی تقلید کی۔
کچھ دیر کے بعد نعیم نے سوال کیا ’’ہم دوسری چوکی پر ابھی تک کیوں نہیں پہنچے؟ کہیں ہم راستہ تو نہیں بھول گئے؟‘‘
نعیم کے ساتھی نے گھوڑا روکا اور پریشان سا ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ آخر اس نے کہا ’’ میرا بھی یہی خیال ہے لیکن آپ فکر نہ کریں۔ ہم اس وادی کو عبور کرنے کے بعد صحیح راستہ معلوم کریں گے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ چند کوس اور طے کرنے کے بعد اجنبی نے گھوڑا پھر روک لیا اور کہا۔‘‘ شاید ہم صحیح راستے سے بہت دور ایک طرف نکل آئے ہیں۔ میرے خیال میں یہ راستہ شیراز کی طرف جاتا ہے۔ ہمیں اب بائیں طرف مڑنا چاہیے۔ لیکن گھوڑے بہت تھک گئے ہیں۔ یہاں تھوڑی دیر آرام کر لیں تو بہتر ہو گا۔‘‘ یہ سر سبز اور شاداب خطہ کچھ ایسا جاذب نگاہ تھا کہ نعیم کے تھکے ہوئے جسم نے بے اختیار تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے اجنبی کی تائید کی۔ دونوں سوار نیچے اترے۔ گھوڑوں کو ایک چشمہ سے پانی پلا کر درخت کے ساتھ باندھ دیا اور سرسبز گھاس پر بیٹھ گئے۔
اجنبی نے اپنا تھیلا کھولتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو بھوک تو ضرور ہو گی؟ میں نے تو پچھلی چوکی سے پیٹ بھر لیا تھا۔ یہ تھوڑا سا کھانا شاید آپ کے لیے بچ گیا تھا۔‘‘
اجنبی کے اصرار پر نعیم نے روٹی اور پنیر کے چند ٹکڑے کھائے اور چشمہ سے پانی پی کر گھوڑے پر سوار ہونا چاہا لیکن دماغ میں غنودگی سی محسوس کرنے کے بعد گھاس پر لیٹ گیا۔
’’میرا سر چکرا رہا ہے!‘‘ اس نے کہا۔
اجنبی نے کہا۔’’آپ بہت تھکے ہوئے ہیں۔ تھوڑی دیر آرام کر لیں !‘‘
’’نہیں دیر ہو جائے گی۔ ہمیں چلنا چاہیے!‘‘ نعیم یہ کہہ کر اٹھا لیکن ڈگمگاتے ہوئے چند قدم چلنے کے بعد پھر زمین پر بیٹھ گیا۔
اجنبی نے اس کی طرف دیکھ کر ایک مہیب قہقہہ لگایا۔ نعیم کے دل میں فوراً یہ خیال آیا کہ اسے کھانے میں کوئی نشہ آور شے دی گئی ہے۔ ساتھ ہی اسے یہ محسوس ہوا کہ وہ کسی خطر ناک مصیبت میں گرفتار ہونے والا ہے۔ اس نے ایک بار پھر اٹھنا چاہا لیکن ہاتھ پاؤں جواب دے چکے تھے۔ اس کے دماغ پر گہری نیند کی کیفیت طاری ہو رہی تھی۔ اس نے نیم بے ہوشی کی کی حالت میں محسوس کیا کہ چند آدمی اس کے ہاتھ پاؤں باندھ رہے ہیں۔ اس نے ان کی آہنی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے لیکن اس کی جدوجہد بے سود تھی۔ وہ قریباً بے ہوش ہو چکا تھا۔
   اس کے بعد اس بات کا معمولی سا ہوش تھا کہ چند آدمی اسے اٹھا کر کسی طرف لے جا رہے ہیں۔اگلے دن نعیم کو ہوش آیا تو اپنے آپ کو ایک تنگ کوٹھڑ میں پایا اور وہی اجنبی جو اسے فریب دے کر یہاں تک لایا تھا، اس کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ نعیم نے ادھر ادھر دیکھنے کے اس کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں اور سوال کیا۔ ’’مجھے یہاں لانے سے تمہارا کیا مقصد ہے اور میں کس کی قید میں ہوں ؟‘‘
’’وقت آنے پر تمہیں تمام سوالات کا جواب مل جائے گا۔‘‘
اجنبی یہ کہہ کر باہر نکل گیا اور کوٹھڑی کا دروازہ بند کر دیا گیا۔

)۶)

نعیم کو قید ہوئے تین ماہ گزر گئے۔ اس کی مایوسی قید خانے کی کوٹھڑی کی بھیانک تاریکی میں اضافہ کر رہی تھی۔ اس ناگفتہ بہ حالت میں اس کے لیے فقط یہ خیال تسلی بخش تھا کہ خدا کو اس ے صبر کا امتحان مقصود ہے۔ ہر صبح و شام ایک شخص آتا اور قید خانہ کی دیوار میں ایک چھوٹے سے سوراخ کے راتے کھانا دے کر چلا جاتا۔
نعیم کئی بار پوچھتا ’’مجھے قید کرنے والا کون ہے؟ مجھے کس لیے قید کیا گیا ہے؟‘‘
لیکن ان سوالات کا کوئی جواب نہ ملتا۔ تین مہینے گزر جانے کے بعد نعیم، ایک صبح بارگاہ الہی میں سر بسجود دعا مانگ رہا تھا کہ کوٹھڑی کا دروازہ کھلا اور وہی اجنبی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ نمودار ہوا۔ اس نے نعیم سے مخاطب ہو کر کہا:
’’اٹھو اور ہمارے ساتھ چلو!‘‘
’’کہاں ؟ نعیم نے سوال کیا۔
’’کوئی تمہیں دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔۔
نعیم ننگی تلواروں کے سایہ میں ان کے ساتھ ہو لیا۔
قلعہ کے ایک خوشنما کمرے میں ایک ایرانی قا لین پر چند نوجوانوں کے درمیان ایک عمر رسیدہ شخص بیٹھا تھا۔ نعیم نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا۔ یہ ابن صادق تھا۔


اسیری



  ابن صادق کی گذشتہ زندگی ناکامیوں کی ایک طویل داستان تھی۔ وہ یروشلم کے ایک متمول یہودی گھرانے میں پیدا ہوا۔ذہین ہونے کے باعث اس نے سولہ برس کی عمر میں ہی عربی، فارسی، یونانی اور لاطینی میں غیر معمولی استعداد پیدا کر لی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اسے ایک عیسائی لڑکی مریم سے محبت ہو گئی اور وہ اس کے والدین کو شادی پر رضا مند کرنے کے لیے عیسا ئی ہو گیا۔ لیکن مریم کچھ عرصہ ابن صادق کی دلجوئی کرنے کے بعد اس کے چچا زاد بھائی الیاس پر فریفتہ ہو کراس سے نفرت کرنے لگی۔ ابن صادق نے بہت کوششوں کے بعد مریم کے والدین کو شادی پر رضا مند کیا۔ لیکن وہ ایک موقع پا کر اپنے نئے عاشق کے ساتھ فرار ہو گئی اور دمشق پہنچ کر اس سے شادی کر لی۔ مریم کی محبت اور اخلاق سے متاثر ہو کر الیاس نے بھی عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔
الیاس ایک بلند پایہ معمار تھا۔ اس نے دمشق میں معقول آمدنی کی صورت پیدا کر لی اور وہیں مکان بنا کر زندگی کے دن گزارنے لگا۔ ایک سال کے بعد الیاس کے گھر ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ اس کا نام زلیخا رکھا گیا۔
ابن صادق کو سخت جستجو کے بعد ان کا پتہ چلا۔ وہ دمشق پہنچا۔ وہاں محبوبہ اور بھائی کو عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے دیکھ کر اس کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی۔ چند دن وہ دمشق کے گلی گوچوں کی خاک چھانتا رہا۔ بالآخر اسلام قبول کر کے دربار خلافت میں حاضر ہوا۔ مریم پر اپنے حقوق جتا کر درخواست کی کہ وہ الیاس سے چھین کر اسے دلائی جائے۔ وہاں سے حکم ملا کہ یہودی اور عیسائی ہماری امان میں ہیں۔ چونکہ مریم نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اس لیے اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہ قسمت کا مارا نہ یہودی تھا، نہ عیسائی نہ مسلمان۔ چاروں طرف کی مایوسی دل میں انتقام کی آگ کو ٹھنڈا نہ کر سکی۔ دمشق کی خاک چھاننے کے بعد یہ کوفہ میں حجاج بن یوسف کے پاس پہنچا اور اسے اپنی سرگزشت سنا کر مدد کی درخواست کی۔حجاج نے خاموشی سے اس سرگزشت سنی۔ ابن صادق نے اس کی خاموشی سے فائدہ اٹھا کر اس کی تعریف کی اور دربار خلافت کی مذمت میں چند فقرے کہہ ڈالے۔
اس نے کہا ’’اگر آپ میرے دل سے پوچھیں تو میں کہوں گا کہ ذاتی قابلیت کے اعتبار سے آپ مسند خلافت کے زیادہ حقدار ہیں۔ ابھی ابن صادق کے فقرے کے آخری الفاظ ختم بھی نہ ہوئے تھے کہ حجاج نے ایک سپاہی کو آواز دی اور حکم دیا کہ اسے دھکے دے کر شہر سے نکال دو اور ابن صادق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔’’تمہاری سزا قتل تھی لیکن میں اسلیے درگزر کرتا ہوں کہ تم میرے ہاں ایک مہمان کی حیثیت سے آئے ہو۔‘‘
ابن صادق شام کے وقت شہر سے نکلا اور رات ایک راہب کے جھونپڑے میں پناہ لے کر علی الصباح خطرناک عزائم کے ساتھ یروشلم کی طرف روانہ ہوا۔ وہ یروشلم میں بھی زیادہ دیر نہ ٹھہر سکا۔ چند سال تک وہ اپنے بھائی اور محبوبہ کے علاوہ تمام دنیا کے خلاف جذبہ انتقام لیے مارا مارا پھرتا رہا۔ بالآخر اس نے اپنے ساتھ شرپسندوں کی ایک خطرناک جماعت پیدا کر لی اور ایک زبردست سازش کے ارادے سے انہیں تمام ملک میں پھیلا دیا۔ وہ اس مختصر جماعت کا روحانی پیشوا بن بیٹھا۔ ایک دن اسے اپنے چچا زاد بھائی سے انتقام لینے کا موقع ملا اور وہ اس کی اکلوتی بیٹی زلیخا کو اغوا کرلایا۔ زلیخا کی عمر اس وقت آٹھ سال تھی۔ ابن صادق اسے لے کر ایران کی طرف بھاگا اور مدائن میں اپنی جماعت کے اسحق نامی ایک شخص کے سپرد  کر کے پھر سے اپنے تخریبی مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہو گیا۔ دو ماہ بعد اس کی جماعت کے خفیہ کارکنوں نے الیاس اور مریم کو قتل کر ڈالا۔ اس نے اس سفاکانہ قتل کے بعد بھی بس نہ کی اور اپنی بقیہ زندگی کو تمام دنیا کے لیے خطرناک بنا نے کی ٹھان لی۔عالم اسلام میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی نیت سے وہ حکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو گیا۔ چند خارجیوں اور اسلام کے دشمنوں نے اس کے ساتھ بے پناہ عقیدت کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے مقاصد کی تکمیل کے راستے میں ما لی مشکلات حائل تھیں۔ اس کے ذہن میں ایک تدبیر آئی اور وہ دو مہینوں کا سفر ہفتوں میں طے کرتا ہوا قیصر روم کے دربار میں حاضر ہوا۔
قیصر اگر مشرق میں اپنا کھویا ہوا اقتدار دوبارہ حاصل کرنا چاہتا تھا تاہم ابھی تک اس کے دل میں اپنے آباء و  اجداد کی شکستوں کی یاد تازہ تھی۔ اس نے ابن صادق کے ساتھ کھلے طور پر شریک عمل ہونے کی جرات نہ کی لیکن مسلمانوں کے اس حد تک خطرناک دشمن کی حوصلہ افزائی ضروری خیال کی۔ اس نے ابن صادق سے کہا۔ ’’ہم تمہاری ہر ممکن طریقے سے مدد کریں گے لیکن جب تک مسلمان ایک ہیں، ہم ان پر حملہ کرنا خلاف مصلحت سمجھتے ہیں۔ تم واپس جا کر اپنا کام جاری رکھو، ہم تمہاری خدمات کا خیال رکھیں گے۔‘‘
ابن صادق وہاں سے سونا چاندی اور جواہرات کے گراں بہا تحائف لے کر واپس آیا اور کوفہ و بصرہ کے درمیان ایک گمنام مقام کو اپنی قیام گاہ بنا کر اپنا تخریبی کام شروع کر دیا۔ حجاج کے خوف سے اس نے کئی سال تک اپنے خیالات کے اعلان کی جرات نہ کی اور تمام کوششوں کو اس کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے ہر ممکن احتیاط سے کام لیا۔ چند برس کی سر توڑ کوشش اور محنت سے اس نے ایک ہزار اشخاص کی جماعت تیار کر لی۔ اس جماعت کے اکثر افراد ایسے تھے جن کا ضمیر وہ سونے اور چاندی کے عوض خرید چکا تھا۔ وہ قیصر روم کو اپنی خدمات سے با خبر رکھتا اور وہاں سے حسب ضرورت مدد منگوا لیتا۔ جب اس نے محسوس کیا کہ اس کی جماعت قدرے طاقتور ہو گئی ہے اور کوفہ و بصرہ کے اکثر لوگ حجاج سے نفرت کرتے ہیں تو اپنے مد مقابل پر آخری ضرب لگانے کے لیے تیار ہو بیٹھا۔ ایک دن اس کے جاسوسوں نے اسے خبر دی کہ آج حجاج کوفہ میں گیا ہے اور ابن عامر فوجی بھرتی کے لیے تقریر کرنے والا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ بصرہ کے اکثر لوگ فوج میں بھرتی ہونے سے کتراتے ہیں۔ ابن صادق نے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہا اور پہلی مرتبہ اپنے گوشے سے نکل کر اہل بصرہ کے عام جلسے میں حصہ لینے کی جرات کی۔ اسے یقین تھا کہ وہ بصرہ کے غیر مطمئن لوگوں کو اپنی جادو بیانی سے مشتعل کرنے میں کامیاب ہو گا لیکن اس یہ وہم غلط ثابت ہوا۔ نعیم نے اچانک نمودار ہو کر اس کا بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔‘‘
ابن صادق بصرہ سے دم دبا کر بھاگا اور رملہ جا کر خلیفہ کے بھائی سلیمان کے پاس پناہ گزین ہوا۔ ایک ہزار کی جماعت میں سے صرف چند آدمیوں نے اس کا ساتھ دیا۔
چونکہ حجاج بن یوسف، سلیمان کو ولی عہدی سے معزول کرنے میں خلیفہ کا ہم خیال تھا، اس لیے سلیمان حجاج اور اس کے ساتھیوں کو اپنے بدترین دشمن اور حجاج کے دشمنوں کو اپنا دوست خیال کرتا تھا۔ حجاج بن یوسف نے ابن صادق کی فتنہ پردازی سے واقف ہوتے ہی اس کے تعاقب میں سپاہی روانہ کیے۔ جب اسے معلوم ہوا کہ سلیمان رملہ میں اسے پناہ دے چکا ہے تو خلیفہ کو تمام حالات سے آگاہ کیا۔ دربارِ خلافت سے سلیمان کے نام یہ حکم صادر ہوا کہ ابن صادق اور اس کے ساتھیوں کو پا بہ زنجیر حجاج بن یوسف کے پاس روانہ کیا جائے! سلیمان، ابن صادق کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا چکا تھا اور اس کی جان بچانا چاہتا تھا۔ اس نے ابن صادق کو اصفہان کی طرف بھگا دیا اور دربار خلافت کو لکھ بھیجا ابن صادق رملہ سے فرار ہو گیا ہے۔ چند روز اصفہان کی خاک چھاننے کے بعد ابن صادق نے شیراز کا رخ کیا۔ شیراز سے پچاس کوس کے فاصلہ پر جنوب مشرق کی طرف پہاڑوں کے درمیان پرانے زمانے کا ایک غیر آباد قلعہ تھا۔ ابن صادق نے اسے قلعے میں پہنچ کر اطمینان کا سانس لیا اور اپنی تازہ مصیبتوں کی ذمہ داری نعیم پر عائد کرتے ہوئے اسے ایک عبرتناک سزا دینے کے منصوبے باندھنے لگا۔
  نعیم، ابن صادق کے سامنے خاموشی سے کھڑا تھا۔ ایک سپاہی نے اچانک اسے دھکا دے منہ کر بل زمین پر گرا دیا اور کہا۔’’بیوقوف! یہ بصرہ کی مسجد نہیں۔ اس وقت تم ہمارے امیر کے دربار میں کھڑے ہو۔ یہاں گستاخوں کے سر قلم کیے جاتے ہیں۔‘‘
ابن صادق نے اس حرکت پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔’’بیوقوف ہو تم، بہادروں کو بہادروں کے ساتھ اس طرح پیش نہیں آنا چاہیے!‘‘
یہ کہہ کر ابن صادق اپنی جگہ سے اٹھا اور نعیم کو بازو کا سہارا دے کر کھڑا کیا۔ فرش پر گرنے سے نعیم کی ناک سے خون بہ رہا تھا۔ ابن صادق نے اپنے رومال سے اس کا منہ پونچھا اور اس کی طرف ایک حقارت آمیز تبسم کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ میں نے سنا ہے آپ اپنے میزبان کا نام نہایت بے قراری سے پوچھتے رہے ہیں۔ افسوس آپ کو بہت انتظار کرنا پڑا۔ میری بھی خواہش تھی کہ بہت جلد آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی زیارت کروں لیکن فرصت نہ ملی۔ آج آپ سے مل کر جو مسرت میرے دل کو ہوئی ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بھی اپنے پرانے دوست سے مل کر بہت خوش ہوئے ہوں گے۔ کہیے طبیعت کیسی ہے؟ آپ کا رنگ بہت زرد ہو رہا ہے۔ میرے خیال میں اس کوٹھڑی کی تنگی اور تاریکی میں آپ کی مجاہدانہ طبیعت بہت پریشان ہوئی ہو گی لیکن آپ شاید نہیں جانتے کہ اس چھوٹے سے قلعے میں کوئی بڑی کوٹھڑی نہیں، اس لیے میرے آدمی آپ کو وہیں رکھنے پر مجبور تھے۔ آج میں نے تھوڑی دیر کے لیے آپ کو اس لیے باہر نکالا ہے کہ آپ روشنی اور تاریکی میں امتیاز کرنے والی حس سے عاری نہ ہو جائیں۔ لیکن آپ تو میری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے میں کوئی اجنبی ہوں۔ پہچانتے نہیں آپ مجھے؟ آپ سے میرا تعارف بصرہ میں ہوا تھا۔ اگر چہ ہماری پہلی ملاقات نہایت نا خوشگوار حالات میں ہوئی تھی تاہم ہمارے تعلقات اس دن سے کچھ ایسے نہیں کہ ایک دوسرے کو بھول سکیں۔ مجھے بڑی مشکل سے آپ کی اس تقریر کی داد دینے کا موقع ملا ہے اور مجھے آپ جیسے غیور مجاہد کو عبد اللہ ابن ابی کے جانشین کے سامنے اس طرح کھڑے دیکھ کر بہت رحم آتا ہے، بتائیے، آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟‘‘
ابن صادق کا ہر لفظ نعیم کے دل پر تیر و نشتر کا کام کر رہا تھا۔ اس نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا ’’ مجھے اسیر ہونے کا غم نہیں۔ لیکن اس بات کا افسوس ہے کہ میں تم جیسے بزدل اور کمینے شخص کی قید میں ہوں۔ اب جو تمہارے جی میں آئے کرو۔ لیکن یہ یاد رکھو کہ میری زندگی اور موت دونوں تمہارے لیے خطرناک ہیں۔ اس وقت میرے ہاتھ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں مگر اسیری مجاہد کو بزدل نہیں بنا سکتی۔‘‘
ابن صادق نے نعیم کے سخت الفاظ سے بے پروائی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔’’تم بہادر ہونے کے ساتھ بیوقوف بھی ہو۔تم نہیں جانتے کہ تمہارا سر اس وقت ایک اژدہا کے منہ میں ہے۔ تمہیں نگل جانا یا چھوڑ دینا اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ میری قید سے آزاد ہونے کا خیال بھی دل سے نکال دو۔ اس قلعہ میں دو سو سپاہی ہر وقت ننگی تلواروں کے ساتھ تمہاری نگرانی کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ یہ کہہ کر ابن صادق نے تا لی بجائی اور قلعے کے مختلف گوشوں سے کئی سپاہی ننگی تلواریں لیے نمودار ہوئے۔ نعیم کو ان میں ہر ایک کا چہرہ ابن صادق کی طرح سفاک نظر آتا تھا۔
نعیم نے کہا۔ ’’تم جانتے ہو کہ میں بزدل نہیں ہوں۔ تم سے رحم کی درخواست نہیں کروں گا۔ تمہارا مقصد اگر میری جان لینا ہے تو میں تیار ہوں !‘‘
ابن صادق نے کہا۔ ’’تم یہ سمجھتے ہو کہ دنیا کی سب سے بڑی سزا موت ہے لیکن میں تم پر یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں بہت سی سزائیں موت سے زیادہ بھیانک ہیں۔ میں تمہیں وہ سزا دے سکتا ہوں جس کو برداشت کرنے کی تم میں ہمت نہ ہو۔ میں تمہاری زندگی کو اس درجہ تلخ بنا سکتا ہوں کہ تمہیں ہر لمحہ موت سے زیادہ تاریک دکھائی جے لیکن میں تمہارا دشمن نہیں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم زندہ رہو۔ میں تمہیں ایک ایسی زندگی کا راستہ بتانا چاہتا ہوں جو تمہاری عاقبت کے تصور سے بھی زیادہ حسین ہے، تم جنگوں کے مصائب اس لیے برداشت کرتے ہو کہ تم زندگی کے عیش و آرام سے واقف نہیں ہو۔ تم بے لوث اس لیے ہو کہ خود نمائی کی لذت سے نا آشنا ہو۔ یہ چند سالہ زندگی خدا نے تمہیں اس دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے دی ہے۔ تم اس کی قدر و قیمت نہیں جانتے۔ تم بہادر ہو لیکن تمہاری بہادری تمہیں اس کے سوا اور کیا سکھاتی ہے کہ تم ایسے مقاصد کے لیے اپنی جان گنوا آؤ
  جن کا تمہاری ذات سے کوئی تعلق نہیں۔ تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم راہ خدا میں قربان ہو رہے ہو لیکن خدا کو تمہاری قربانیوں کی ضرورت نہیں۔ تمہاری قربانی سے اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو خلیفہ اور حجاج کو، جو گھر بیٹھے فتوحات کی شہرت حاصل کر رہے ہیں۔ تم اپنے آپ کو فریب دے رہے ہو۔
تمہاری جوانی اور تمہاری شکل و صورت سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم خاک و خون میں لوٹنے کے لیے نہیں بنائے گئے۔ تم ایک شہزادہ معلوم ہوتے ہو۔ تمہارے لیے ایک خونخوار بھیڑیے کی زندگی بسر کرنا زیبا نہیں۔ تمہیں ایک شہزادے کی سی زندگی بسر کرنی چاہیے۔تم ایک حسین شہزادی کی آنکھوں کا نور اور دل کا قرار بن سکتے ہو۔ تم اپنی زندگی کو ایک رنگین خواب بنا سکتے ہو۔ تم اگر چاہو تو نا ہموار زمین، پتھروں اور چٹانوں پر سونے کی بجائے اپنے لیے پھولوں کی سیج مہیا کر سکتے ہو۔ دنیا کا بہت سا عیش و آرام دولت سے خریدا جا سکتا ہے۔ تم اگر چاہو تو دنیا بھر کے خزانے اکٹھے کر سکتے ہو۔ دنیا کی حسین سے حسین لڑکیوں کو اپنی خواب گاہ کی زینت بنا سکتے ہو۔ لیکن تم ابھی انجان ہو۔ تم نے کسی کے گیسوؤں کی مہک سے سرشار ہو کر جینا نہیں سیکھا۔ تم اپنے بے غرضی پر اس لیے خوش ہو کہ تم نے دنیا کی جاہ و حشمت نہیں دیکھی۔ نوجوان! میں تمہارے لیے بہت کچھ کر سکتا ہوں۔ کاش! تم میرے شریک کار بن جاؤ۔ ہم بنو امیہ کی حکومت ختم کر کے ایک نیا نظام قائم کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمیں خلیفہ اور حجاج کا مغرور سر کچل دینے میں کامیابی ہو گی۔ شاید تم یہ خیال کرتے ہوے کہ میں وہی ابن صادق ہوں جس کے ساتھ تمہیں بصرہ کے عام اجلاس میں واسطہ پڑا تھا لیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں اتنا حقیر نہیں ہوں جتنا کہ تم مجھے خیال کرتے ہو۔ تمہارے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ میری پشت پر قیصرِ روم جیسے آدمی موجود ہیں۔ عرب و عجم میں ایک زبردست انقلاب پیدا کرنے کے لیے وقت کا انتظار کر رہا ہوں، میں مدت سے تمہارے جیسے جادو بیان نوجوان کی تلاش میں تھا۔ تمہارے سامنے وہ میدان عمل پیش کرنا چاہتا ہوں جس میں تم اپنے خداداد جوہر کا پورا استعمال کر سکو گے۔ تمہارے جیسے نوجوان کو ایک معمولی سپاہی کے عہدے پر قناعت کرنے کی بجائے خلافت کا دعویدار بننا چاہیے۔‘‘
نعیم کو خاموش دیکھ کر ابن صادق نے خیال کیا کہ وہ اس کے دام فریب میں آ چکا ہے۔ اس نے لہجے کو ذرا نرم کرتے ہوئے کہا۔’’اگر تم میرے ساتھ وفاداری کا عہد کرو تو میں ابھی تمہاری زنجیریں کھلوا دیتا ہوں۔ بتاؤ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ تمہارے لیے زندگی بسر کرنے کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ کہو! تم زندگی کی نعمتوں سے مالا مال ہونا چاہتے ہو یا اسی تاریک کوٹھڑی میں زندگی کے باقی دن گزار نا پسند کرتے ہو؟‘‘
نعیم نے گردن اوپر اٹھائی۔ اس کے آنکھیں غیر معمولی کرب کا اظہار کر رہی تھیں۔ اس نے جوش میں آ کر جواب دیا۔ ’’تمہاری باتیں میرے لیے ایک زخمی کتے کی چیخ و پکار سے زیادہ معنی نہیں رکھتیں۔ تم نہیں جانتے کہ میں اس آقا کا غلام ہوں جس نے زمین کے ذروں سے آسمان کے ستاروں تک کا مالک ہونے کے باوجود اپنے پیٹ پر تین تین دن پتھر باندھے تھے۔ تم مجھے دولت کا لالچ دینا چاہتے ہو، میں دنیا کے تمام خزانوں کو اپنی خاک پا سے زیادہ حقیر سمجھتا ہوں، تم کہتے ہو زندگی عیش و آرام کا نا م ہے لیکن وہ عیش و آرام جو تلواروں کے سائے میں آزادی کا سانس لینے والوں کو نصیب ہوتا ہے تم جیسے رذیل انسانوں کے تخیل سے بھی بلند ہے۔ تم مجھے خدا کے راستے سے ہٹا کر اپنے ذلیل مقاصد کی تکمیل کا آلہ کار بنانا چاہتے ہو۔ لیکن اپنے ذاتی مقاصد کے لیے خون کی ندیاں بہانے سے احتراز نہیں کرتے۔ تمہیں جس قیصر کی طاقت پرنا زہے، اس کے آباؤ اجداد کئی معرکوں میں ہماری تلواروں کے جوہر آزما چکے ہیں۔ بے شک میں اس وقت تمہارے قبضے میں ہوں لیکن قید یا موت کا خوف مجھے بے حس یا ضمیر نہیں بنا سکتا۔ تم مجھ سے کسی ایسے کام کی توقع نہ رکھو جو ایک مجاہد کے شایان شان نہ ہو!‘‘
ابن صادق نے کھسیانا ہو کر جواب دیا۔’’تم چند روز میں ایسے کام پر آمادہ ہو جاؤ گے جسے دیکھ کر شیطان بھی شرما جائے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اپنے حاشیہ نشینوں کی طرف دیکھا اور ایک شخص کو اسحاق کے نام سے آواز دی۔ اس آواز پر وہی قوی ہیکل جوان نے نعیم کو فریب دے کر گرفتار کیا تھا، آگے بڑھا۔ نعیم کو پہلی بار معلوم ہوا کہ اس کا نا م اسحاق ہے۔
ابن صادق نے کہا ’’اسحاق! اس کا دماغ درست کرو!‘‘
ابن صادق کے حکم سے نعیم کو برآمدے کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر نعیم کی قمیص پھاڑ ڈالی اور اس کا سینہ   اور بازو عریاں کرتے ہوئے اسحاق کی طرف اشارہ کیا۔ اسحاق ایک خونخوار بھیڑے کی طرح آگے بڑھا اور نعیم پر کوڑے برسانے لگا۔ نعیم نے اف تک نہ کی اور پتھر کی ایک مضبوط چٹان کی طرح کوڑے کھاتا رہا۔ سامنے کے ایک کمرے سے ایک لڑکی نمودار ہوئی اور سہم سہم کر قدم اٹھاتی ہوئی ابن صادق کے قریب آ کھڑی ہوئی۔ وہ کبھی بیقرار سی ہو کر نعیم کی طرف دیکھتی اور کبھی سراپا احتجاج بن کر ابن صادق کی طرف دیکھتی۔ اس کا نازک دل اس سفاکانہ کھیل کو دیر تک برداشت نہ کر سکا۔ اس نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے ابن صادق کی طرف دیکھا اور کہا۔’’چچا! وہ بے ہوش ہو رہا ہے!‘‘
’’ہونے دو۔ وہ اپنے آپ کو اللہ کی تلوار سمجھتا ہے۔ میں اس کی تیزی کا خاتمہ کر کے چھوڑوں گا۔‘‘
’’چچا!‘‘
ابن صادق نے برہم ہو کر کہا۔ ’’تم خاموش رہو زلیخا! یہاں کیا کرتی ہو۔ جاؤ!‘‘
زلیخا سر جھکائے واپس ہوئی۔ اس نے دو مرتبہ نعیم کی طرف مڑ کر دیکھا۔ اپنی مجبوری اور بے بسی کا اظہار کیا اور ایک کمرے میں روپوش ہو گئی۔ جب نعیم نے مار کی شدت سے بے ہوش ہو کر گردن ڈھیلی چھوڑ دی تو اسے پھر قید خانے میں پھینک دیا گیا۔
نعیم کو کئی بار کوٹھڑی سے باہر نکال کر کوڑے لگائے گئے۔ جب یہ سزا کارگر نہ ہوئی تو ابن صادق نے حکم دیا کہ اسے چند دن بھوکا رکھا جائے۔مختلف جسمانی اذیتیں اٹھانے کے بعد نعیم ایک غیر معمولی قوت برداشت پیدا کر چکا تھا۔ وہ بھوک اور پیاس کی حالت میں رات کے سونے کی کوشش کر رہا تھا کہ کسی نے کوٹھڑی کے سوراخ میں سے آواز دی اور چند سیب اور انگور اندر پھینک دیے۔
نعیم حیران ہو کر اٹھا اور سوراخ سے باہر جھانک کر دیکھا۔ چند قدم کے فاصلے پر کوئی رات کی تاریکی میں غائب ہوتا دکھائی دیا۔ نعیم نے اس کے لباس اور چال سے اندازہ لگایا کہ وہ کوئی عورت ہے۔ نعیم کے لیے اپنے محسن کو پہچاننا مشکل نہ تھا۔ اس نے کئی بار کوڑے کھاتے وقت ایک نوجوان لڑکی کے بے قرار ہوتے دیکھا تھا۔ اس کے معصوم اور حسین چہرے پر مظلومیت اور بے بسی کے آثار نعیم کے دل پر نقش ہو چکے تھے۔’’لیکن وہ کون تھی؟ اس بھیانک جگہ پر کیونکر لائی گئی؟ نعیم یہ سوچتے ہوئے ایک سیب اٹھا کر کھانے لگا۔

)۳)

نعیم کی محسنہ کا نام زلیخا تھا۔ وہ اپنی عمر کے سولہ سال انتہائی مصائب میں گزارنے کے باوجود نسوانی حسن کا ایک کامل نمونہ تھی۔ زلیخا کو ہر انسان سے غایت درجہ نفرت تھی۔ وہ ایک مدت سے ابن صادق کے ساتھ زندگی کے تلخ لمحات گزار رہی تھی۔ اور اسے ہمیشہ انسانیت کی بدترین مثالوں سے واسطہ پڑا تھا۔ وہ ہر انسان کو ابن صادق کی طرح عیار، خود غرض، سفاک اور کمینہ خیال کرتی تھی۔ جب نعیم اس قلعہ میں پا بہ زنجیر لایا گیا تو اس نے یہی خیال کیا کہ ایک خود غرض انسان دوسرے خود انسان کے قبضے میں ہے لیکن جب اس نے نعیم کو ابن صادق کا ساتھی بننے سے انکار کرتے دیکھا تو اسکے پرانے خیالات بدل گئے۔ اس نے محسوس کیا کہ یہ نوجوان اس دنیا کا  باشندہ نہیں جس میں اس نے زندگی کے بے کیف دن اور بھیانک راتیں گزاری ہیں وہ اسکے ایمان اور عزم پر حیران تھی۔ شروع شروع میں اسے مظلوم سمجھ کر قابل رحم خیال کرتی تھی لیکن چند دنوں میں وہ اسے قابل ستائش نظر آنے لگا۔
زلیخا اپنے والدین کے دردناک انجام سے واقف نہ تھی اور ان سے ملنے کی دعائیں کرنے کے بعد وہ مایوس ہو چکی تھی۔ اس کے لیے دنیا ایک بے حقیقت خواب اور عاقبت محض ایک وہم تھا۔ ابن صادق کے تشدد کے خلاف بغاوت کا طوفان اس کے زخم خوردہ دل میں بار بار اٹھنے کے بعد قریباً ہو چکا تھا۔ وہ منزل سے بھٹکے ہوئے اور ساحل سے مایوس ملاح کی طرح مدت تک موجوں کے تھپیڑے کھانے کے بعد تیرنے یا ڈوبنے سے بے پروا ہو چکی تھی اور اپنی ناؤ پر آنکھیں بنے کیے بے خوف و خطر مصائب کے طوفان میں بہی جا رہی تھی۔ اسے کبھی کبھی آنکھیں کھولنے اور چپو ہلانے کا خیال آتا لیکن پھر مایوسی اپنا رنگ جما لیتی۔ اس بے خانماں ملاح کو ساحل یا منزل کی طرف سے کسی آواز دینے والے کی ضرورت تھی۔ فطرت کا یہ کام نعیم سے لینا چاہتی تھی، نعیم کے ساتھ معمولی لگاؤ نے زلیخا کے دل میں خوابیدہ طوفان پھر بیدار کر دیے اور بن صادق کے پنجے سے رہائی پا کر نعیم کی دنیا میں اطمینان کا سانس لینے کی تمنا اس کے دل میں چٹکیاں لینے لگی۔
زلیخا ہر شب کسی نہ کسی وقت آتی اور کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ نعیم کی تاریک کوٹھڑی میں امید کی کرن چھوڑ کر چلی جاتی۔
چار دن کے بعد نعیم کو پھر ابن صادق کے سامنے پیش کیا گیا۔ ابن صادق اس کی جسمانی حالت میں کوئی تغیر نہ پا کر حیران ہوا اور بولا۔’’تم بہت سخت جان ہو۔ شاید تمہارے خدا کو یہی منظور ہے کہ تم زندہ رہو۔ لیکن تم اپنے ہاتھوں اپنی موت خرید رہے ہو۔ میں اب بھی تمہیں سوچنے کا موقع دیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ تمہارے مقدر کا ستارہ بہت بلند ہے۔ تم کسی بڑے کام کی تکمیل کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ میں تمہیں اس بلند مقام تک پہنچانے کا وعدہ کرتا ہوں جہاں تمام اسلامی دنیا میں کوئی تمہارا مد مقابل نہ ہو۔ میں تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں اور یہ آخری موقع ہے اگر تم نے اس وقت بھی میرے خلوص کو ٹھکرا دیا تو پچھتاؤ گے!‘‘
نعیم نے کہا ’’ذلیل کتے! تم مجھے بار بار کیوں تنگ کرتے ہو؟‘‘
’’اس ذلیل کتے کا کاٹا کبھی اچھا نہیں ہو گا اور اب وقت آ پہنچا ہے کہ یہ ذلیل کتا تمہیں کاٹنے کے لیے اپنا منہ کھول دے۔ عاقبت نا اندیش انسان، ذرا آنکھیں کھول اور دیکھ کہ دنیا کس قدر حسین ہے۔ دیکھ وہ سامنے پہاڑوں کے مناظر کیسے دلکش ہیں۔ تجھے جس چیز کے دیکھنے کی ہوش ہے۔ آج اچھی طرح دیکھ لے اور اپنے دل پر ان تمام تصاویر کو اچھی طرح نقش کر لے کیونکہ کل سورج نکلنے سے پہلے تیری آنکھیں نکال دی جائیں گی اور تیرے کان بھی سننے کی قوت سے محروم کر دیے جائیں گے۔ آج جو کچھ دیکھنا چاہتا ہے دیکھ لے اور جو کچھ سننا چاہتا ہے، سن لے!‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا اور انہوں نے نعیم کو ستون کے ساتھ باندھ دیا۔
’’ہاں اب یہ بتاؤ کہ آنکھوں سے محروم ہو جانے سے پہلے کوئی ایسی چیز ہے جسے تم دیکھنا چاہتے ہو؟‘‘
نعیم خاموش رہا۔
ابن صادق نے کہا ’’تم یہ جانتے ہو کہ میرا فیصلہ اٹل ہے۔ تمہیں آج کا سارا دن یہیں گزارنے کی مہلت دی جاتی ہے۔ اس وقت سے فائدہ اٹھاؤ اور جو چیز تمہاری آنکھوں کے سامنے آئے اسے اچھی طرح دیکھ لو اور جو نغمے تمہارے سامنے گائے جائیں۔ انہیں اچھی طرح سن لو!‘‘ یہ کہہ کر ابن صادق نے تا لی بجائی اور چند آدمی طاؤس و رباب اور دیگر قسم کے ساز لیے حاضر ہوا اور ابن صادق کے اشارہ سے ایک طرف بیٹھ گئے۔
آہستہ آہستہ نغمے کی صدا بلند ہوئی۔ اس کے بعد چند عورتیں مختلف رنگوں کے لباس میں ملبوس ایک کونے سے نمودار ہوئیں اور نعیم کے سامنےا کر رقص کرنے لگیں۔ نعیم سرجھکائے اپنے پاؤں کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے خیالات یہاں سے کوسوں دور ایک چھوٹی سی بستی کی طرف پرواز کر رہے تھے۔
اس مجلس کو منعقد ہوئے چند ساعتیں گزر رہی تھیں کہ چند تیز رفتار گھوڑوں کی ٹاپ کی آواز سے حاضرین مجلس چونک اٹھے۔ ابن صادق اٹھ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ ایک حبشی غلام نے آ کر اطلاع دی کہ اسحاق آ پہنچا ہے۔
ابن صادق نے نعیم کو مخاطب کر کے کہا۔’’نوجوان! شاید تم ایک نہایت دلچسپ خبر سنو۔‘‘
تھوڑی دیر بعد اسحاق ایک طشتری اٹھائے ہوئے حاضر ہوا اور ابن صادق کو آداب بجا لانے کے بعد طشتری کے سامنے رکھ دی۔ طشتری میں کوئی گول مول شے رومال میں لپیٹ کر رکھی ہوئی تھی۔ ابن صادق نے طشتری پر سے رومال اتارا۔نعیم نے دیکھا کہ طشتری میں کسی آدمی کا سر رکھا ہوا ہے۔
’’شاید آپ اسے دیکھ کر خوش ہوں !‘‘ یہ کہہ کہ ابن صادق نے ایک حبشی کو اشارہ کیا۔ حبشی نے طشتری اٹھا ئی اور نعیم کے قریب لا کر زمین پر رکھ دی۔ طشتری میں رکھے ہوئے سر کو پہچان کر نعیم کے دل میں ایک چرکا لگایا۔ یہ ابن عامر کا سرتھا۔ سوکھے ہوئے چہرے پر اب بھی ایک تبسم کھیل رہا تھا۔ نعیم نے اشک آلو آنکھوں کو بند کر لیا۔ زلیخا ابن صادق کے پیچھے کھڑی یہ دردناک منظر دیکھ رہی تھی اس عزم و استقلال کے مجسمہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس کا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔  ابن صادق اپنی جگہ سے اٹھا۔ اسحاق کو قریب بلا کر تھپکی دی اور کہا۔’’اسحاق! اب فقط ایک شرط باقی ہے۔ میں محمدؒ بن قاسم کا سر اس نوجوان کے ساتھ دفن کرنا چاہتا ہوں۔ میں اگر تم اس مہم میں کامیاب ہو گئے کہ زلیخا کو تمہارے جیسے بہادر نوجوان کو اپنا شریک حیات منتخب کرنے میں کوئی عذر نہ ہو گا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے ابن صادق نے زلیخا کی طرف مڑ کر دیکھا۔ وہ آنسو بہاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔ ابن صادق نعیم کے پاس کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا۔
’’مجھے معلوم ہے تمہیں ابنؒقاسم سے محبت ہے۔ اگر تم اس کا سر یہاں پہنچنے تک زندہ نہ رہ سکے گا تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کا سر تمہارے ساتھ دفن کیا جائے گا۔‘‘
یہ کہہ کر ابن صادق نے سپاہیوں کو حکم دیا اور وہ نعیم کو قید خانہ میں چھوڑ آئے۔

)۴)

رات کے وقت نعیم دیر تک بے قراری کے ساتھ قید خانہ کی چار دیوار میں چکر لگاتا رہا، اس کا دل ایک طویل مدت تک روحانی اور جسمانی کلفتیں اٹھانے کے بعد کسی قدرے بے حس ہو چکا تھا لیکن اس پر آنکھوں اور کانوں سے محروم ہو جانے کا تصور کوئی معمولی بات نہ تھی۔ ہر لمحہ اس کی بیقرار میں اضافہ ہو رہا تھا۔ کبھی وہ چاہتا تھا کہ یہ رات قیامت کی رات کی طرح طویل ہو جائے اور کبھی اس کے منہ سے یہ دعا نکلتی کہ ابھی صبح ہو جائے اور انتظار کی مدت ختم ہو۔ وہ ٹہلتے ٹہلتے تھک کر لیٹ گیا۔ کچھ دیر کروٹیں بدلنے کے بعد مجاہد کو نیند آ گئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ صبح ہونے والی ہے اور اسے کوٹھڑی سے نکال کر ایک درخت کے ساتھ جکڑ دیا گیا ہے۔ ابن صادق اپنے ہاتھ میں خنجر لیے آتا ہے اور اس کی آنکھیں نکال دیتا ہے۔ اس کے ارد گرد تاریکی چھا جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کے کانوں میں کوئی دوائی ڈالی جاتی ہے جس سے اس کے کان سائیں سائیں کرنے لگتے ہیں کچھ سنائی نہیں دیتا۔ ابن صادق کے سپاہی اسے وہاں سے لا کر پھر کوٹھڑی میں پھینک جاتے ہیں۔ وہ سننے اور دیکھنے کی قوت سے محروم ہو کر کوٹھڑی کی دیواروں سے ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے اور وہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ سپاہی پھر ایک بار آتے ہیں اور اسے کوٹھڑی سے گھسیٹتے ہوئے باہر لے جاتے ہیں اور کہیں دور چھوڑ آتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے محسوس کیا کہ اس کے کانوں کے پردے یک لخت کھل گئے ہیں اور وہ پرندوں کے چہچہے اور ہوا کی سائیں سائیں سن رہا ہے۔ عذرا اسے دور سے نعیم نعیم! کہہ کر پکار رہی ہے۔ وہ اٹھتا ہے اور جس طرف سے آواز آتی ہے، اس طرح قدم اٹھاتا ہے لیکن چند قدم چلنے کے بعد اس کا پاؤں ڈگمگاتا ہے اور وہ زمین پر گر پڑتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں اچانک بینائی آ جاتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ عذرا اس کے سامنے کھڑی ہے۔ وہ پھر ایک بار اٹھتا ہے اور ہاتھ پھیلا کر عذرا عذرا! کہتا ہوا اس کی طرف بڑھتا ہے لیکن اس کے قریب پہنچ کر غور سے دیکھنے کے بعد وہ ٹھٹھک کر رہ جاتا ہے۔ عذرا کی بجائے اس کوٹھڑی میں اس سے ملتی جلتی حسن و جمال کی ایک تصویر کھڑی تھی۔ دیوار کے روزن میں سے چاند کی روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بغور دیکھنے کے بعد اس نے پہچان لیا کہ وہ زلیخا ہے لیکن وہ دیر تک پریشانی کی حالت میں کھڑا یہی محسوس کرتا رہا کہ وہ ایک خواب دیکھ رہا ہے۔ رفتہ رفتہ وہم غلط ثابت ہونے لگا اور اس نے چند بار آنکھیں ملنے اور جسم ٹٹولنے کے بعد یقین کر لیا کہ یہ خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔
’’نعیم نے سوال کیا۔’’تم کون ہوں ؟ کیا یہ ایک خواب نہیں ؟‘‘
زلیخا نے جواب دیا۔’’نہیں یہ خواب نہیں۔ آپ گر کیوں پڑے تھے؟‘‘
’’کب؟‘‘
’’ابھی جب میں نے آ کر آپ کو آواز دی تھی۔ آپ گھبرا کر اٹھے اور پھر گر پڑے تھے۔‘‘
’’اف! میں ایک خواب دیکھ رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں اندھا ہو چکا ہوں۔ عذرا مجھے بلا رہی ہے اور میں اس کی طرف جاتے ہوئے کسی سے ٹھوکر کھا کر گر پڑا ہوں۔ لیکن آپ یہاں ؟‘‘
زلیخا نے کہا۔’’آپ آہستہ بولیں۔ اگر چہ اس وقت وہ سب سو رہے ہیں لیکن پھر بھی اگر کسی کے کان میں آپ کی آواز پہنچ گئی تو بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ میں نے پہریداروں کو اپنا سارا زیور دے کر بڑی مشکل سے اس کوٹھڑی کا دروازہ کھلوایا ہے۔ انہوں نے ہمارے لیے دو گھوڑے مہیا کرنے اور قلعہ کا دروازہ کھول دینے کا وعدہ کیا ہے۔ آپ اٹھیں اور میرے ساتھ احتیاط سے چلیں !‘‘
’’دو گھوڑے! وہ کس لیے؟‘‘
’’میں آپ کے ساتھ چلوں گی۔‘‘
’’میرے ساتھ؟‘‘ نعیم نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ہاں آپ کے ساتھ۔ مجھے امید ہے کہ آپ میر حفاظت کریں گے۔ میرے والدین کا گھر دمشق میں ہے۔ آپ مجھے وہاں تک پہنچا دیں گے۔‘‘
’’آپ اس قلعہ میں کیونکر آئیں ؟‘‘
زلیخا نے کہا ’’باتوں کا وقت نہیں۔ میں بھی آپ کی طرح ایک بد نصیب ہوں۔‘‘
نعیم نے ذرا تامل سے کہا۔’’اس وقت آپ کا میرے ساتھ جانا مناسب نہیں۔ آپ تسلی رکھیں۔ میں آپ کو چند دن کے اندر اس شخص کے ہاتھوں سے چھڑا لے جاؤں گا۔‘‘
’’نہیں نہیں۔ خدا کے لیے مجھے مایوس نہ کرو!‘‘ زلیخا نے روتے ہوئے کہا۔‘‘ میں آپ کے ساتھ جاؤں گی۔ آپ کے بعد اگر اسے معلوم ہو گیا کہ آپ کو آزاد کرانے میں میرا ہاتھ ہے تو وہ مجھے قتل کیے بغیر نہ چھوڑے گا اور اگر اسے نہ بھی معلوم ہوا تو بھی وہ آپ کے جاتے ہی آپ کی طرف سے خوف زدہ ہو کر اس قلعے کو چھوڑ کر کسی اور جگہ روپوش ہو جائے گا اور مجھے کسی ایسے پنجرے میں قید کرے گا جس تک پہنچنا آپ کی طاقت سے بعید ہو گا۔ آپ کو معلوم نہیں کہ یہ شخص میری شادی زبردستی اسحاق سے کرنا چاہتا ہے اور اس نے اس کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ محمدؒ بن قاسم کو قتل کر آئے تو مجھے اس کے حوالے کر دے گا۔ خدا کے لیے مجھے اس ظالم بھیڑے کے ہاتھوں سے بچائیے!‘‘ اس نے یہ کہہ کر نعیم کا دامن پکڑ لیا اور سسکیاں لینے لگی۔
’’آپ گھوڑے پر سواری کر سکیں گی؟‘‘ نعیم نے پوچھا۔
زلیخا نے پر امید ہو کر جواب دیا۔ میں اس ظالم کے ساتھ گھوڑے پر قریباً نصف دنیا کا چکر لگا چکی ہوں۔ اب آپ وقت ضائع نہ کریں۔ میں نے آپ کے ہتھیار بھی قلعے سے باہر بھجوا دیے ہیں۔ اب جلدی کیجئے!‘‘
نعیم زلیخا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے کوٹھڑی کے دروازے کی طرف بڑھا تو اسے باہر کسی کے پاؤں کی آہٹ سنائی دی۔ اس نے رک کر کہا۔ ’’کوئی اس طرفا رہا ہے!‘‘
زلیخا نے کہا۔’’اس کوٹھڑی کے دونوں پہرے دار میں نے قلعے کے دروازے پر بھیج دیے ہیں۔ یہ کوئی اور ہے۔ اب کیا ہو گا؟‘‘
نعیم نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر ایک دیوار کی طرف دھکیل دیا اور خود دروازے سے باہر جھانکنے لگا۔ پاؤں کی آہٹ کے ساتھ اس کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہو رہی تھیں۔
ایک پہرے دار دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا دروازے کے قریب پہنچا تو ایک ثانیہ کے لیے مبہوت سے ہو کر رہ گیا۔ اس کے ساتھ ہی نعیم نے ایک جست لگائی اور پہرے دار کی گردن اس کے ہاتھوں کی آہنی گرفت میں تھی۔ نعیم نے اسے چند جھٹکے دینے کے بعد  بیہوشی کی حالت میں کوٹھڑی کے اندر دھکیل دیا اور زلیخا کو ہاتھ سے پکڑ کر باہر نکالنے کے بعد دروازہ بند کر دیا۔
قلعہ کے دروازہ پر ایک سپاہی اور نظر آیا۔اس نے زلیخا کو دیکھ کر دروازہ کھول دیا۔ دوسرا سپاہی قلعہ کے باہر دو گھوڑے اور نعیم کے ہتھیار لیے کھڑا تھا۔ نعیم نے ہتھیار باندھ دے اور زلیخا کو ایک گھوڑے پر سوار کر کے خود دوسرے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ لیکن چند قدم چلنے کے بعد اس نے گھوڑے کی باگ موڑ لی اور پہرے دار سے جو ابھی تک وہیں کھڑا تھا، سوال کیا۔‘‘ تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ ہماری وجہ سے تمہاری جان خطرہ میں نہیں پڑے گی؟‘‘
پہرے دار نے جواب دیا۔ ’’آپ ہماری فکر نہ کریں، وہ دیکھیے! ‘‘ اس نے ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہم بھی پو پھٹنے سے پہلے یہاں سے کوسوں دور ہوں گے، اس بھیڑیے سے بہت تنگ آ چکے ہیں۔‘‘ نعیم نے دیکھا کہ ایک درخت کے ساتھ دو اور گھوڑے بندھے ہوئے ہیں۔
نعیم پہاڑیوں کے ان دشوار گزار راستوں سے واقف نہیں تھا لیکن ستاروں سے سمت کا انداز لگاتا ہوا زلیخا کے ساتھ چلا جا رہا تھا۔ چند کوس گھنے درختوں سے گزرنے کے بعد ایک وسیع میدان نظر آیا۔ اس نے کوئی مہینوں کے بعد کھلی ہوا میں آسمان کے جگمگاتے ہوئے ستاروں کو دیکھا تھا۔ اس سناٹے میں کبھی کبھی گیدڑوں کی آواز آتی تھی۔ چاند کی دلفریب روشنی درختوں کے پتوں میں چھپ چھپ کر چمکنے والے جگنو، ہلکی ہلکی ٹھنڈی اور مہکتی ہوئی ہوا۔ غرض اس رات کی ہر چیز نعیم کو معمول سے زیادہ خوشنما نظر آتی تھی۔ کچھ دیر بعد صبح کی روشنی رات کی ردائے سیاہ کو چاک کرنے لگی اور تاریکی اور روشنی کی آمیزش نے نعیم کی آنکھوں کے سامنے ایک طرف پہاڑ اور دوسری طرف میدان کا ایک دھندلا سا منظر پیش کیا۔ اس نے زلیخا کی طرف دیکھا، اس کی شکل و صورت اس دھندلے سے منظر کی جاذبیت میں اضافہ کر رہی تھی۔ وہ نعیم کو قدرت کے مناظر کا ایک جزو معلوم ہوتی تھی۔ زلیخا نے بھی اپنے ساتھی کی طرف دیکھا اور حیا سے گردن جھکا لی۔ نعیم نے اس سے پوچھا کہ وہ ابن صادق کے پنجے میں کیوں آئی؟ اس کے جواب میں زلیخا نے شروع سے آخر تک اپنی المناک داستان کہہ سنائی۔ اپنی کہانی ختم کرنے سے پہلے وہ کئی بار بے اختیار رو پڑی۔ نعیم نے اسے بار بار تسلی دے کر اس کے آنسو خشک کیے۔
جب روشنی اور زیادہ ہوئی تو انہوں نے گھوڑوں کی کی رفتار تیز کر دی۔ نعیم نے یہ دیکھ کر زلیخا کی سواری میں اچھی خاصی دسترس رکھتی ہے، اپنے گھوڑے کو سرپٹ چھوڑ دیا۔ کوئی دو کوس چلنے کے بعد نعیم کو یک لخت ایک خیال آیا اور اس نے اپنا گھوڑا روک لیا۔ زلیخا نے بھی اس کی تقلید میں اپنا گھوڑا کھڑا کر دیا۔ نعیم نے زلیخا سے پوچھا۔’’آپ کو یقین ہے کہ اسحاق محمدؒ بن قاسم کو قتل کرنے کے ارادے سے روانہ ہو چکا ہے؟‘‘ زلیخا نے جواب دیا۔’’ہاں وہ آج شام کے وقت روانہ ہو گیا تھا۔‘‘
تو وہ زیادہ دور نہیں گیا ہو گا۔‘‘یہ کہہ کر نعیم نے گھوڑے کی باگیں بائیں طرف موڑیں اور ایڑ لگا دی۔ زلیخا نے بھی کچھ پوچھ بغیر اپنا گھوڑا اس کے پیچھے چھوڑ دیا۔
سورج نکلنے سے کچھ دیر بعد نعیم ایک چوکی پر پہنچا۔اس چوکی پر پہاڑی حملوں کے پیش نظر تیس سپاہی متعین تھے۔ نعیم گھوڑے سے اترا اور ایک بوڑھا سپاہی ’’نعیم نعیم‘‘ کہتا ہوا آگے بڑھا اور اسے گلے لگا لیا۔ سپاہی نعیم کی بستی کے قریب ہی ایک بستی کا رہنے والا تھا۔ اس نے جوش مسرت سے نعیم کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا۔’’الحمد للہ آپ سلامت ہیں۔ آپ اتنی دیر کہاں رہے ہیں ؟ ہم نے آپ کو دنیا کے ہر کونے میں تلاش کیا۔ آپ کا بھائی بھی آپ کی تلاش میں سندھ گیا تھا۔ آپ کے دوست محمدؒ بن قاسم نے بھی آپ کا پتہ لگانے والے کے لیے پانچ ہزار اشرفی انعام مقرر کیا ہے۔
نعیم نے جواب دیا۔ ’’ان سوالات کا جواب دینے کے لیے وقت کی ضرورت ہے۔ بس اس وقت بہت جلدی میں ہوں۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آج رات یا صبح کے وقت ایک جسیم آدمی ادھر سے گزارا ہے یا نہیں ؟‘‘
سپاہی نے جواب دیا۔ ’’ہاں ! سورج نکلنے سے کچھ دیر پہلے ایک آدمی یہاں سے گزرا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ خلیفة المسلمین نے اسے دمشق سے  ایک خاص پیغام دے کر محمدؒ بن قاسم کی طرف سندھ روانہ کیا ہے۔اس نے یہاں سے گھوڑا بھی تبدیل کیا تھا۔‘‘
’’اس کا رنگ گندمی تھا۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔
’’بہت اچھا۔‘‘ نعیم نے کہا۔’’تم میں سے ایک آدمی سیدھا شمال کی طرف جائے چند کوس دور ایک پہاڑی پر درختوں میں چھپا ہوا ایک قلعہ نظر آئے۔ تم میں سے ہر جو شخص جائے وہاں قریب جا کر دیکھے کہ اس قلعہ کے رہنے والے اسے چھوڑ کر چلے تو نہیں گئے؟ میرا خیال ہے کہ تمہارے جانے سے پہلے وہ قلعہ چھوڑ کر بھاگ گئے ہوں گے لیکن مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کس طرح جاتے ہیں۔ اس کام کے لیے ایک ہوشیار آدم کی ضرورت ہے؟‘‘
ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر کہا۔’’میں جاتا ہوں۔‘‘
نعیم نے کہا ’’ہاں جاؤ۔ اگر وہ تمہارے جانے سے پہلے قلعہ چھوڑ کر چلے گئے ہوں تو واپسا جانا، ورنہ ان کی نقل و حرکت کا خیال رکھنا۔‘‘
نوجوان گھوڑے پر سوار ہو کر چل دیا۔
نعیم نے باقی سپاہیوں میں سے بیس نوجوان منتخب کر کے انہیں حکم دیا کہ ’’تم اس معزز خاتون کے ساتھ بصرہ تک جاؤ اور وہاں پہنچ کر گورنر کو میری طرف سے کہو کہ انہیں عزت اور احترام سے دمشق تک پہنچایا جائے اور راستے میں آنے والی چوکیوں سے جتنے سپاہی فراہم ہو سکیں، اپنے ساتھ شامل کرتے جاؤ۔شاید ایک ذلیل دشمن ان کا تعاقب کرے۔ والی بصرہ سے کہنا کہ وہاں سے کم از کم سو سپاہی ان کے ساتھ ضرور روانہ کرے۔ تم بھی ہوشیار رہنا۔ اگر ان کے دشمن سے مقابلے کی نوبت آئے تو تمہارا سب سے پہلا فرض ان کی جان بچانا ہو گا۔ راستہ میں انہیں کوئی تکلیف نہ ہو!‘‘ سپاہی یہ سن کر گھوڑوں پر زین ڈالنے میں مصروف ہو گئے۔ نعیم نے گھوڑے سے اتر کر ایک خط حجاج بن یوسف کے نام لکھا اور اپنے لیے زلیخا کی قربانی کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے نہایت عزت و احترام سے دمشق پہنچا دینے کی درخواست کی۔ یہ خط ایک سپاہی کے حوالے کرنے کے بعد وہ زلیخا کے قریب آ کھڑا ہوا۔ زلیخا ابھی تک گھوڑے پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔ نعیم نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔’’ آپ مغموم نظر آتی ہیں۔ فکر نہ کریں۔ میں نے آپ کی حفاظت کا پورا بندوبست کیا ہے۔ آپ کو راستہ میں کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ میں بھی آپ کے ساتھ بصرہ تک جاتا، لیکن میں مجبور ہوں۔‘‘
’’آپ کہاں جائیں گے؟‘‘ زلیخا نے پوچھا۔
’’مجھے ایک دوست کی جان بچانا ہے۔‘‘
’’آپ اسحاق کے تعاقب میں جا رہے ہیں ؟‘‘
’’ہاں۔ امید ہے میں اسے بہت جلد پکڑ لوں گا۔‘‘
زلیخا نے پرنم آنکھوں سے رومال کو چھپاتے ہوئے کہا۔’’آپ احتیاط سے کام لیں، وہ بہادر بھی ہے اور مکار بھی۔‘‘
’’آپ فکر نہ کریں۔ آپ کے ساتھی تیار ہو گئے ہیں اور مجھے بھی دیر ہو رہی ہے۔ اچھا خدا حافظ!‘‘
نعیم چلنے کو تیار تھا۔ زلیخا نے اشک آلود آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے مغموم آواز میں کہا۔’’ میں ایک بات آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’ہاں پوچھیے!‘‘
زلیخا کوشش کے باوجود کچھ نہ کہہ سکی۔ اس کی سیاہ آنکھوں سے چمکتے ہوئے آنسوؤں کے قطرے نکل کر گالوں پر بہتے ہوئے گر پڑے!‘‘
زلیخا کوشش کے باوجود بھی کچھ نہ کہہ سکی۔ اس کی سیاہ آنکھوں سے چمکتے ہوئے آنسوؤں کے قطرے نکل کر گالوں پر بہتے ہوئے گر پڑے۔‘‘
’’پوچھیے!‘‘ نعیم نے کہا۔’’آپ مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتی تھیں۔ میں آپ کے آنسوؤں کی قدر و قیمت جانتا ہوں لیکن آپ میری مجبوریوں سے واقف نہیں۔‘‘
  ’’میں جانتی ہوں۔‘‘ زلیخا نے گھٹی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
’’ہاں مجھے دیر ہو رہی ہے۔ آپ کیا پوچھنا چاہتی تھیں ؟‘‘
زلیخا نے کہا۔’’میں آپ سے پوچھنا چاہتی تھی کہ جب میں نے قید خانہ میں آپ کو آواز دی تھی تو آپ عذرا عذرا کہتے ہوئے اٹھے تھے اور پھر گر پڑے تھے۔‘‘
’’ہاں مجھے یاد ہے۔‘‘ نعیم نے کہا۔
’’میں پوچھ سکتی ہوں وہ خوش نصیب کون ہے؟‘‘ زلیخا نے جھجکتے ہوئے سوال کیا:
’’آپ غلطی پر ہیں۔ شاید وہ اس قدر خوش نصیب نہ ہو۔‘‘
’’وہ زندہ؟‘‘
’’شاید۔‘‘
’’خدا کرے کہ وہ زندہ ہو۔ وہ کہاں ہے؟ اگر وہ میرے راستے سے بہت دور نہ ہو تو میں چاہتی ہوں کہ میں اسے دیکھتی جاؤں۔ کیا آپ میری درخواست قبول کریں گے؟‘‘
’’آپ واقعی وہاں جانا چاہتی ہیں ؟‘‘
’’اگر آپ کو نا گوار نہ ہو تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔‘‘
’’بہت اچھا۔ یہ سپاہی آپ کو ہمارے گھر تک پہنچا دیں گے۔ میرے آنے تک آپ وہیں ٹھہریں گی۔ اگر کسی وجہ سے دیر نہ ہو گئی تو ممکن ہے کہ میں آپ کو راستے میں ہی آملوں۔‘‘
’’وہ آپ کی والدہ کے پاس ہیں ؟ آپ کی شادی ہو چکی ہے؟‘‘
’’نہیں، لیکن اس کی پرورش ہمارے گھر میں ہوئی ہے۔‘‘
یہ کہہ کر نعیم سپاہیوں کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں حکم دیا کہ وہ زلیخا کو بصرہ پہنچانے کی بجائے اس کے گھر تک پہنچا دیں۔
نعیم خدا حافظ کہہ کر جانے کو تھا کہ زلیخا کی ملتجی نگاہوں نے اسے ایک بار پھر ٹھہرا لیا۔
زلیخا نے آنکھیں نیچی کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ سے ایک خنجر نعیم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
’’آپ کے ہتھیاروں میں سے یہ خنجر میں نے نیک شگون سمجھ کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ شاید آپ کو اس کی ضرورت ہو۔‘‘ اگر آپ اسے نیک شگون خیال کرتی ہیں تو میں خوشی سے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ آپ اسے اپنے پاس ہمیشہ رکھیں !‘‘
شکریہ! میں اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گی۔ شاید کبھی یہ میرے کام آئے۔ نعیم اس وقت تو اس فقرے پر توجہ دیے بغیر گھوڑے پر سوار ہو گیا لیکن بعد میں یہ الفاظ اس کے کانوں میں گونجتے رہے۔

)۵)

زلیخا کو اس مختصر سے قافلے کے ساتھ بھیج کر نعیم اسحاق کے تعاقب میں روانہ ہوا۔ وہ ہر چوکی پر گھوڑا بدلتا ہوا اور اسحاق کا سراغ لگاتا ہوا نہایت تیزی سے جا رہا تھا۔ دوپہر کے وقت ایک سوار آگے جاتا دکھائی دیا۔ نعیم نے اپنے گھوڑے کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز کر دی۔ آگے جانے والے سوار نے دور سے مڑ کر نعیم کی طرف دیکھا تو اس نے اپنے گھوڑے کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں لیکن جب اس نے محسوس کیا کہ پیچھے آنے والے سوار کا گھوڑا نہایت تیزی سےا رہا ہے تو اس نے کسی خیال سے اپنے گھوڑے کی رفتار کم کر دی۔ نعیم نے خاصی دور سے ہی پہچان لیا کہ وہ اسحاق ہے۔ اس نے اپنے خود کو نیچے سرکا کر چہرہ ڈھانپ لیا۔نعیم نے دور سے ہی پہچان لیا کہ وہ اسحاق ہے۔
  اس نے اپنے خود کو نیچے سرکا کر چہرہ ڈھانپ لیا۔ نعیم کو قریب آتا دیکھ کر اسحاق راستے چند قدم ہٹ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ نعیم نے بھی اس کے قریب پہنچ کر گھوڑا ٹھہرا لیا۔ دونوں سوار ایک لمحہ کے لیے ایک دوسرے کے سامنے خاموش کھڑے رہے۔ بالآخر اسحاق نے سوال کیا:
’’آپ کون ہیں اور کہاں جانے کا ارادہ ہے؟
’’یہی سوال میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں !‘‘ نعیم نے کہا۔
نعیم کے لہجے میں سختی سے اسحاق قدرے پریشان ہوا لیکن فوراً ہی اپنی پریشان پر قابو پاتے ہوئے بولا۔’’آپ نے میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے ایک اور سوال کر دیا۔‘‘
نعیم نے کہا ’’میری طرف غور سے دیکھو! تمہیں دونوں سوالوں کا جواب مل جائے گا۔‘‘
یہ کہہ کہ نعیم نے ایک ہاتھ اپنے چہرے کا نقاب الٹ دیا۔
’’تم .... نعیم؟‘‘ اسحاق کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’ہاں میں .... نعیم نے خود دوبارہ نیچے سرکاتے ہوئے کہا۔
اسحاق نے اپنی سراسیمگی پر قابو پا کر اچانک گھوڑے کی باگیں اور دوسرے ہاتھ میں نیزہ سنبھال کر تیار ہو چکا تھا۔دونوں ایک دوسرے کے حملے کا انتظار کر رہے تھے۔ اچانک اسحاق نے نیزہ بلند کیا اور گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ اسحاق کے گھوڑے کی ایک ہی جست میں نعیم اس کی زد میں آ چکا تھا۔ لیکن وہ برق کی سی پھرتی سے ایک جھگا اور اسحاق کا نیزہ اس کی ران پر ایک ہلکا سا زخم لگاتا ہوا آگے نکل گیا۔ نعیم نے فوراً اپنا گھوڑا موڑ کر اسے پیچھے لگا دیا۔ اتنی دیر میں اسحاق اپنے گھوڑے کو چھوٹا سا چکر دے کر پھر ایک بار نعیم کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ دونوں سوار بیک وقت اپنے اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگا کر نیزے سنبھالتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔ نعیم نے پھر ایک بار اپنے آپ کو اسحاق کے وار سے بچایا لیکن اس دفعہ نعیم کا نیزہ اسحاق کے سینے آر پار چکا تھا۔ اسحاق کو خاک و خون میں تڑپتا چھوڑ کر نعیم واپس مڑا۔ اگلی چوکی پر ظہر کی نماز ادا کی گھوڑا تبدیل کیا اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر آگے چل دیا۔ جب نعیم اس چوکی پر پہنچا جہاں سے وہ زلیخا کو رخصت کر کے اسحاق کے تعاقب میں روانہ ہوا تھا تو وہاں اسے معلوم ہوا کہ ابن صادق اور اسکی جماعت قلعے کو خالی چھوڑ کر کہیں جا چکے ہیں۔ نعیم نے ان کا تعاقب کرنا بے سود خیال کیا۔ ابھی شام ہونے میں کچھ دیر تھی۔ نعیم نے ایک سپاہی کو کاغذ، قلم لانے کا حکم دیا اور ایک خط محمدؒ بن قاسم کے نام لکھا اور اس خط میں اس نے سندھ سے رخصت ہو کر ابن صادق کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے حالات مختصر طور پر لکھے اور اسے ابن صادق کی سازشوں سے باخبر رہنے کی تاکید کی اور دوسرا خط اس نے حجاج بن یوسف کے نام لکھا اور اسے ابن صادق کی گرفتاری کے لیے فوری تدابیر عمل میں لانے کی تاکید کی۔ نعیم نے یہ خط چوکی والوں کے سپرد کیے اور انہیں بہت جلد پہنچا دینے کی تاکید کر کے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔
نعیم کو اس بات کا خدشہ تھا کہ ابن صادق شاید زلیخا کا تعاقب کرے۔ وہ ہر چوکی سے اس مختصر قافلے کے متعلق پوچھتا جاتا تھا۔ اسے معلوم ہوا کہ دوسری چوکیوں پر سپاہیوں کی قلت کی وجہ سے زلیخا کے ساتھ دس سے زیادہ سپاہی نہیں جا سکے۔ نعیم زلیخا کی حفاظت کے خیال سے فوراً اس قافلے میں شامل ہو جانا چاہتا تھا اور گھوڑے کو تیز سے تیز رفتار چلا رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ چودھویں کا چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ کائنات پر سیمیں تاروں کا جال بچھا رہا تھا۔ نعیم پہاڑوں اور میدانوں سے گزر کر ایک صحرائی خطہ عبور کر رہا تھا۔ راستے میں ایک عجیب و غریب منظر دیکھ کر اس کے خون کا ہر قطرہ منجمد ہو گیا۔ ریت پر چند گھوڑوں اور انسانوں کی لاشیں پر پڑی ہوئی تھیں۔ ان میں بعض ابھی تک تڑپ رہے تھے۔ نعیم نے گھوڑے سے اتر کر دیکھا تو معلوم ہوا ان میں سے بعض وہ تھے جنہیں اس نے زلیخا کے ساتھ روانہ کیا تھا۔ اس وقت نعیم کے دل میں سب سے پہلا خیال زلیخا کا تھا۔ اس نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ ایک زخمی نوجوان نے نعیم سے پانی مانگا۔ نعیم نے جلدی سے گھوڑے پر سے چھاگل کھول کو پانی پلایا۔
  وہ اپنے دھڑکتے دل کو ایک ہاتھ سے دبائے کچھ پوچھنے کو تھا کہ زخمی نے ایک طرف ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا:
’’ہمیں افسوس ہے کہ ہم اپنا فرض پورا نہ کر سکے۔ ہم آپ کے حکم کے مطابق اپنی جانیں بچانے کی بجائے ان کی حفاظت کے لیے آخر دم تک لڑتے رہے لیکن وہ بہت زیادہ تھے۔ آپ ان خبر لیں !‘‘
یہ کہہ کر اس نے پھر اپنے ہاتھ سے ایک طرف اشارہ کیا۔ نعیم جلدی سے اس طرف بڑھا۔ چند لاشوں کے درمیان زلیخا کو دیکھ کر اس کا دل کانپنے لگا۔ کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ وہ مجاہد جو آج تک نازک سے نازک صورت حال کا مقابلہ نہایت خندہ پیشانی سے کرنے کا عادی تھا۔ یہ ہیبت ناک منظر دیکھ کر کانپ اٹھا۔
’’زلیخا! زلیخا! تم....!‘‘
زلیخا میں ابھی کچھ سانس باقی تھے۔ ’’آپا گئے؟‘‘ اس نے نحیف آواز میں کہا۔
نعیم نے آگے بڑھ کر ایک ہاتھ سے زلیخا کے سر کو سہارا دے کر اوپر کیا اور پانی پلایا۔ زلیخا کے سینے میں ایک خنجر پیوست تھا۔ نعیم نے کانپتے ہوئے ہاتھ سے اس کا دستہ پکڑا اور اسے کھینچ کر باہر نکالنا چاہا لیکن زلیخا نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور کہا۔’’اب اسے نکالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ اپنا کام کر چکا ہے اور میں آخری وقت آپ کی اس نشانی سے جدا نہیں ہو نا چاہتی۔‘‘
نعیم نے حیران ہو کر کہا۔’’میری نشانی!‘‘
’’ہاں ! یہ خنجر آپ کا ہے۔ ظالم چچا مجھے گرفتار کر کے لے جانا چاہتا تھا۔ میں ایسی زندگی سے مر جانا بہتر خیال کرتی تھی۔ میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ کا دیا ہوا خنجر میرے کام آیا۔‘‘
’’زلیخا! زلیخا! تم نے خود کشی کر لی؟‘‘
میں ہر روز کی روحانی موت کی بجائے ایک دن کی جسمانی موت کو بہتر خیال کرتی تھی۔ خدا کے لیے آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں۔ آخر میں کیا کر سکتی تھی؟ اپنی بگڑی ہوئی تقدیر کو بنا لینا میرے اختیار میں نہ تھا اور اس آخری مایوسی کو میں جیتے جی برداشت نہ کر سکتی تھی۔‘‘
نعیم نے کہا۔’’زلیخا! میں بے حد شرمسار ہوں لیکن میں مجبور تھا۔‘‘
زلیخا نے نعیم کے چہرے پر ایک محبت بھری نگاہ ڈالی اور کہا ’’آپ افسوس نہ کریں، قدرت کو یہی منظور تھا اور قدرت سے میں اس سے زیادہ توقع بھی نہیں رکھتی تھی۔ میری خوش بختی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ آخری وقت میں آپ مجھے سہارا دیے ہوئے ہیں۔‘‘ زلیخا نے یہ کہہ کر ضعف اور درد کی شدت سے آنکھیں بند کر لیں۔ نعیم نے اس خیال سے کہ یہ ٹمٹماتا ہوا چراغ بجھ نہ گیا ہو۔ بیتابی کے ساتھ ’’زلیخا زلیخا!‘‘ کہہ کر اس کا سر ہلایا۔ زلیخا نے آنکھیں کھول کر نعیم کی طرف دیکھا اور اپنے خشک گلے پر ہاتھ رکھ کر پانی مانگا۔ نعیم نے پانی پلایا۔ کچھ دیر دونوں خاموش رہے۔ اس خاموشی میں نعیم کے دل کی دھڑکن تیز اور زلیخا کے دل کی حرکت کم ہو رہی تھی۔ وہ مرجھائی ہوئی نگاہیں اس کے چہرے پر نثار کر رہی تھی اور وہ بے قرار نگاہوں سے اس کے سینے میں چبھے ہوئے خنجر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بالآخر زلیخا نے ایک سسکی لے کر نعیم کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا۔’’میں آپ کے گھر جا کر اسے دیکھنا چاہتی تھی۔ میری یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔ آپ وہاں جا کر اسے میرا سلام کہیں۔‘‘ یہاں تک کہ زلیخا خاموش ہو گئی اور پھر کچھ سوچنے کے بعد بولی:’’ اب میں ایک لمبے سفر پر جا رہی ہوں اور آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں، وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں جہاں میرا جاننے والا کوئی نہ ہو گا، جہاں شاید میرے والدین بھی مجھے پہچان نہ سکیں کیونکہ میں بہت چھوٹی تھی جب کہ میرا ظالم چچا مجھے اٹھا لایا تھا، میں یہ توقع رکھ سکتی ہوں کہ آپ اس دنیا میں مجھے ایک بار ضرور ملیں گے؟آخر وہاں کوئی تو ہو جسے میں اپنا کہہ سکوں۔ میں آپ کو اپنا سمجھتی ہوں لیکن آپ مجھ سے نزدیک بھی ہیں اور دور بھی۔‘‘
’’زلیخا کے یہ الفاظ نعیم کے دل میں اتر گئے۔ اس کی آنکھیں پرنم ہو گئیں۔ اس نے کہا ’’زلیخا! اگر تم مجھے اپنا بنانا چاہتی ہو تو اسکا ایک ہی طریقہ ہے۔‘‘
  زلیخا کا ملول چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ مایوسی کی تاریکی میں مرجھائے ہوئے پھول میں امید کی روشنی کے تصور نے تر و تازگی پیدا کر دی۔ اس نے بے قرار ہو کر پوچھا:
’’بتائیے وہ کونسا ہے راستہ ہے؟‘‘
’’زلیخا ! میرے آقا کی غلامی قبول کر لو۔ پھر تم میں اور مجھ میں کوئی فاصلہ نہیں رہے گا۔‘‘
’’میں تیار ہوں آپ کا آقا مجھے اپنی غلامی میں لے لے گا؟‘‘
’’ہاں وہ بہت رحیم ہے۔‘‘
’’لیکن میں تو چند لمحات کے لیے زندہ ہوں۔‘‘
’’اس بات کے لیے طویل مدت کی ضرورت نہیں۔ زلیخا کہو!‘‘
’’کیا کہو؟‘‘ زلیخا نے آنسو بہاتے ہوئے کہا۔
نعیم نے کلمہ شہادت پڑھا اور زلیخا نے اس کے الفاظ دہرائے۔ زلیخا نے ایک بار پھر پانی مانگا اور پینے کے بعد کہا۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے دل سے ایک بوجھ اتر چکا ہے۔‘‘
نعیم نے کہا۔’’یہاں سے چند کوس کے فاصلے پر ایک چوکی ہے۔ اگر تم گھوڑے پر سوار ہو سکتیں تو میں تمہیں وہاں لے جاتا۔ چونکہ اس حالت میں تمہارا گھوڑے پر بیٹھنا نا ممکن ہے تم تھوڑی دیر کے لیے مجھے اجازت دو۔ میں بہت جلد وہاں سے سپاہی بلا لاتا ہوں شاید وہ آس پاس کی بستی سے کوئی طبیب ڈھونڈ لائیں۔‘‘
نعیم زلیخا کا سر زمین پر رکھ کر اٹھنے کو تھا لیکن اس نے اپنے کمزور ہاتھوں سے نعیم کا دامن پکڑ لیا اور روتے ہوئے کہا۔’’خدا کے لیے آپ کہیں نہ جائیں۔ آپ واپسا کر مجھے زندہ نہ پائیں گے۔ میں مرتے وقت آپ کے ہاتھوں کے سہارے سے محروم نہیں ہو نا چاہتی۔‘‘
نعیم زلیخا کی اس دردمندانہ درخواست کو رد نہ کر سکا۔ وہ پھر اسی طرح بیٹھ گیا۔ زلیخا نے اطمینان سے آنکھیں بند کر لیں اور دیر تک بے حس و حرکت پڑی رہی۔ وہ کبھی کبھی آنکھیں کھول کر نعیم کو دیکھ لیتی۔ رات کے تین پہر گزر چکے تھے۔ صبح کے آثار نمودار ہو رہے تھے، زلیخا کی طاقت جواب دے چکی تھی۔ اس کے تمام اعضا ڈھیلے پڑنے لگے اور سانس اکھڑ اکھڑ کر آنے لگا۔
’’زلیخا! نعیم نے بے قرار ہو کر پکارا۔
زلیخا نے آخری بار آنکھیں کھولیں اور ایک لمبا سانس لینے کے بعد دائمی نیند کی آغوش میں سو گئی۔ نعیم نے ’’انا للہ و اناا لیہ راجعون‘‘ کہہ کر سر جھکا دیا۔ اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہ نکلے اور زلیخا کے چہرے پر گر پڑے۔ زلیخا کی بے زبانی یہ کہہ رہی تھی:
’’اے مقدس ہستی! میرے تیرے آنسوؤں کی قیمت ادا کر چکی ہوں۔‘‘
نعیم اٹھ کر گھوڑے پر سوار ہوا اور قریب کی چوکی پر پہنچ کر چند سپاہیوں کو ساتھ لیے آیا۔ قرب و جوار کی چند بستیوں کے کچھ لوگ بھی جمع ہو گئے۔ نعیم نے نماز جنازہ پڑھائی اور زلیخا اور اس کے ساتھیوں کو سپرد خاک کرنے کے بعد گھر کی طرف کوچ کیا۔


اجنبی


  نعیم ایک وسیع صحرا عبور کر رہا تھا۔ وہ زلیخا کی موت کا غم، ۔ سفر کی کلفتوں اور طرح طرح کی پریشانیوں سے نڈھال سا ہو کر آہستہ آہستہ منزل مقصود کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس ویرانے میں کبھی کبھی بھیڑیوں اور گیدڑوں کی آوازیں سنائی دیتیں لیکن پھر خاموشی اپنا رنگ جما لیتی۔ تھوڑی دیر بعد افق مشرق سے چاند نمودار ہوا۔ تاریکی کا طلسم ٹوٹنے لگا اور ستاروں کی چمک ماند پڑنے لگی۔ بڑھتی ہوئی روشنی میں نعیم کو دور دور کے ٹیلے، جھاڑیاں اور درخت نظر آنے لگے۔ وہ منزل مقصود کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اسے اپنی بستی کے گرد و نواح کے نخلستانوں کی خفیف سی جھلک نظر آ رہی تھی۔ وہ بستی جو اس کے رنگین خوابوں کا مرکز تھی اور جس کے ہر ذرے کے ساتھ اس کے دل کے ٹکڑے پیوست ہو چکے تھے۔ وہ بستی اب اس قدر قریب تھی کہ وہ گھوڑے کو ایک بار سرپٹ چھوڑ کر وہاں پہنچ سکتا تھا لیکن اس کے باوجود اس کے تصورات بار بار اس مقام سے کوسوں دور زلیخا کی آخری گھر کے آخری گھر کی طرف لے جا رہے تھے۔ زلیخا کی موت کا دردناک منظر بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے پھر رہا تھا۔ اس کے آخری الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس دردناک کہانی کو تھوڑی دیر کے لیے بھول جائے لیکن وہ محسوس کرتا تھا کہ ساری کائنات مظلومیت کے اس شاہکار کی آہوں اور آنسوؤں سے لبریز ہے۔ گھر کے متعلق بھی اسے ہزاروں توہمات پریشان کر رہے تھے۔ وہ اپنی زندگی کے امیدوں کے مرکز کی طرف جا رہا تھا۔ اس کے دل میں ایک نوجوان کا سا ذوق و شوق اور ولولہ نام کو نہ تھا۔ وہ اپنی گذشتہ زندگی میں گھوڑے پر اس طرح ڈھیلا ہو کر کبھی نہیں بیٹھا تھا۔ وہ خیالات ہجوم میں میں دبا جا رہا تھا کہ اچانک اسے بستی کی طرف سے چند آوازیں سنا ئی دیں۔ وہ چوکنا ہو کر سننے لگا۔ بستی کی لڑکیاں دف بجا کر گا رہی تھیں۔ یہ عرب کے وہ سیدھے سادے راگ تھے جو اکثر شادی کے موقع پر گائے جاتے تھے۔ نعیم کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ وہ چاہتا تھا کہ اڑ کر گھر پہنچ جائے لیکن تھوڑی دور اور چلنے کے بعد اس کے اٹھتے ہوئے ولولے سرد ہو کر رہے گئے۔ وہ اس گھر کی چار دیواری کے قریب پہنچ چکا تھا جہاں سے گانے کی آواز آ رہی تھی.... اور یہ اس کا اپنا گھر تھا۔ کھلے دروازے کے سامنے پہنچ کراس نے گھوڑا روکا لیکن کسی خیال نے اسے آگے بڑھنے سے روک لیا۔صحن کے اندر مشعلیں روشن تھیں اور بستی کے لوگ کھانا کھانے میں مشغول تھے۔ چند عورتیں مکان کی چھت پر جمع تھیں۔ عبد اللہ مہمانوں کی آؤ بھگت میں مشغول تھا۔ وہ دل میں مہمانوں کے اکٹھے ہونے کی وجہ سوچنے لگا۔ اچانک اسے خیال آیا کہ شاید خدا عذرا کی قسمت کا فیصلہ کر چکا ہے اور اس خیال کے آتے ہی اسے اپنے گھر کی جنت اپنی آرزوؤں کا مدفن نظر آنے لگی۔ اس نے نیچے اتر کر گھوڑے کو دروازے سے چند قدم دور ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا اور سائے میں کھڑا ہو گیا۔
بستی کا ایک لڑکا گھر سے بھاگ کر باہر نکلا۔ نعیم نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روک لیا اور پوچھا۔’’یہ کیسی دعوت ہے؟‘‘
لڑکے نے سہم کر نعیم کی طرف دیکھا لیکن ایک تو درخت کا سایہ تھا اور دوسرے نعیم کا نصف چہرہ خود میں چھپا ہوا تھا، وہ پہچان نہ سکا۔
اس نے جواب دیا۔’’یہاں شادی ہے۔‘‘
’’کس کی؟‘‘
’’عبد اللہ کی شادی ہو رہی ہے۔ آپ شاید اجنبی ہیں۔چلیے آپ بھی دعوت میں شریک ہو جائیں !‘‘۔
لڑکا یہ کہہ کر بھاگنے کو تھا کہ نعیم نے پھر اسے بازو سے پکڑ کر ٹھہرا لیا۔
لڑکے نے پریشان ہو کر کہا ’’مجھے چھوڑیے میں قاضی کو بلانے جا رہا ہوں۔‘‘
اگرچہ نعیم کا دل اس سوال کا جواب دے چکا تھا لیکن محبت نے ناکامی اور مایوسی کا آخری منظر دیکھنے کے باوجود امید کا سہارا نہ چھوڑا اور اس نے کانپتی ہوئی آوا زمیں پوچھا:
’’عبد اللہ کی شادی کس کے ساتھ ہونے والی ہے؟‘‘
’’عذرا کے ساتھ۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
’’عبد اللہ کی والدہ کیسی ہیں ؟‘‘ نعیم نے اپنے خشک گلے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’عبد اللہ کی والدہ! انہیں تو فوت ہوئے بھی تین چار مہینے ہو گئے۔‘‘ یہ کہہ کر لڑکا بھاگ گیا۔
نعیم درخت کا سہارا لے کر کھڑا ہو گیا۔ ’’امی ! امی!‘‘ کہہ کر چند سسکیاں لیں۔
آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک دریا امڈ آیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے وہی لڑکا اور قاضی اندر جاتے ہوئے دکھائی دیے۔ دل میں دو مختلف آرزوئیں پیدا ہوئیں۔ ایک یہ تھی کہ اب بھی تیری تقدیر تیرے ہاتھ میں ہے۔ اگر چاہے تو عذرا تجھ سے دور نہیں۔ اگر عبد اللہ کو تیرے زندہ واپس آنے کا حال معلوم ہو جائے تو وہ تیرے دل کی اجڑی ہوئی بستی کو آباد کرنے کے لیے اپنی زندگی کی تمام راحتیں بخوشی قربان کر دے گا۔ ابھی وقت ہے۔‘‘
دوسری آواز یہ تھی کہ ’’اب تیرے ایثار اور صبر کا امتحان ہے۔ عذرا کے ساتھ تیرے بھائی کی محبت کم نہیں اور قدرت کو یہی منظور ہے کہ عذرا اور عبد اللہ اکٹھے رہیں۔ جاں نثار بھائی تجھ پر اپنی خوشی قربان کرنے کے لیے تیار ہو گا۔ لیکن یہ زیادتی ہو گی۔ اب اگر تو نے عبد اللہ سے قربانی کا مطالبہ کیا تو تو تیرا ضمیر کبھی مطمئن نہیں ہو گا۔ وہ تجھے سندھ تک تلاش کرتا پھرا اور اب شاید تیرے زندہ واپس آنے سے مایوس ہو کر عذرا سے شادی کر رہا ہے، تو بہادر ہے، مجاہد ہے، ضبط سے کام لے۔ عذرا کی فکر مت کر۔ وقت آہستہ آہستہ اس کے دل سے تیرا نقش مٹا دے گا، آخر تجھ میں کونسی ایسی خوبی ہے جو عبد اللہ میں نہیں ؟‘‘
ضمیر کی دوسری آواز نعیم کو کسی حد تک بھلی معلوم ہوئی۔ اس نے محسوس کیا کہ ایک ناقابل برداشت بوجھ اس کے دل سے اتر رہا ہے۔ چند لمحات میں نعیم کی دنیا تبدیل ہو چکی تھی۔


)۲)

جس وقت گھر میں عبد اللہ اور عذرا کا نکاح پڑھایا جا رہا ہے۔ نعیم گھر سے باہر درخت کے نیچے سر بسجود یہ دعا مانگ رہا تھا:
’’اے کائنات کے مالک اس شادی میں برکت دے۔ عذرا اور عبد اللہ تمام عمر خوش خرم رہیں اور ایک دوسرے پر دل و جان سے نثار رہیں۔ اے مالک حقیقی! میرے حصے کی تمام خوشی انکو عطا کر دے!‘‘
نعیم بہت دیر تک سر بسجود پڑا رہا۔ اٹھا تو معلوم ہوا کہ گھر کے تمام مہمان جا چکے ہیں۔ جی میں آئی کہ بھائی کو مبارکباد دے لیکن اور خیال آگے بڑھنے کی جرات نہ ہوئی۔ اس نے سوچا۔ بے شک بھائی مجھے دیکھ کر خوش ہو گا لیکن شاید اسے ندامت بھی ہو، اور عذرا پر تو یہ بھی ظاہر نہیں ہونا چاہیے کہ میں زندہ ہوں۔ وہ صبر و قرار جو عذرا نے میری واپسی سے مایوس ہو کر حاصل کیا ہو گا جاتا رہے گا۔ اگر انہوں نے یہ سمجھ کر شادی کی ہے کہ میں مر چکا ہوں تو ان کی تمام زندگی بے کیف ہو جائے گا۔ وہ مجھے دیکھ کر نادم ہوں گے۔ عذرا کے پرانے زخم تازہ ہو جائیں گے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ میں ان سے دور رہوں اور اپنی سیاہ بختی میں انہیں حصہ دار نہ بناؤں۔ ضمیر نے ان خیالات کی تائید کی۔ ایک لمحہ کے اندر اندر مجاہد کے خیال نے عزم اور عزم نے یقین کی صورت اختیار کر لی۔ نعیم نے واپس مڑنے سے پہلے چند قدم گھر کی طرف اٹھائے اور پھاٹک کے قریب ہو کر اپنی امیدوں کے   آخری مدفن کی طرف حسرت بھری نگاہیں ڈالیں۔ وہ واپس ہونے کو تھا کہ صحن میں کسی کے پاؤں کی آہٹ نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ عبد اللہ اور عذرا یک کمرے سے نکلے اور صحن میں آ کھڑے ہوئے اس نے چاہا کہ منہ پھیر لے لیکن یہ دیکھ کر عبد اللہ اب شادی کے لباس کی بجائے زرہ بکتر پہنے ہوئے ہے اور عذرا اس کی کمر میں تلوار باندھ رہی ہے۔ وہ قدرے حیران ہوا اور دروازے کی آڑ میں کھڑا ہو گیا۔ اس نے فوراً تاڑ لیا کہ عبد اللہ جہاد پر رخصت ہو رہا ہے۔ نعیم زیادہ حیران بھی نہ ہوا۔ اسے اپنے بھائی سے یہی توقع تھی۔
عبداللہ ہتھیار پہن کر اصطبل کی طرف گیا اور وہاں سے گھوڑا ساتھ لیے پھر عذرا کے پاسا کھڑا ہوا۔
’’عذرا! تم غمگین تو نہیں ؟‘‘ عبد اللہ نے اس کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ عذرا نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔ میں تو چاہتی ہوں کہ میں بھی اسی طرح زرہ پہن کر میدان میں جاؤں۔‘‘
’’عذرا! میں جانتا ہوں کہ تم بہادر ہو لیکن آج میں تمہیں سارا دن دیکھتا رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے دل پر ابھی تک ایک بوجھ ہے جسے تم مجھ سے چھپا نا چاہتی ہو، لیکن میں جانتا ہوں، نعیم کوئی بھول جانے والی ہستی نہیں۔ عذرا! ہم سب اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے۔ اگر وہ زندہ ہوتا تو ضرور واپس آتا۔ یہ خیال نہ کرنا کہ وہ مجھے کم عزیز تھا۔ اگر آج بھی میری جان تک کی قربانی اسے واپس لا سکے تو میں خوشی سے جان پر کھیل جاؤں گا۔ کاش تم سوچو کہ تمہاری طرح میں بھی اس دنیا میں اکیلا ہوں۔ والدہ اور نعیم کے داغ مفارقت دے جانے کے بعد میرا بھی اس دنیا میں کوئی نہیں۔ ہم اگر کوشش کریں تو ایک  دوسرے کو خوش رکھ سکتے ہیں۔‘‘
عذرا نے جواب دیا۔’’میں کوشش کروں گی۔‘‘
’’میرے متعلق زیادہ فکر نہ کرنا کیونکہ اب سپین میں مجھے کسی خطرناک مہم پر نہیں جانا پڑے گا۔ وہ ملک قریباً فتح ہو چکا ہے۔ چند علاقے باقی ہیں اور ان میں مقابلے کی طاقت نہیں ہے۔میں بہت جلد آؤں گا اور تمہیں بھی ساتھ لے جاؤں گا۔ مجھے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ لگیں گے۔‘‘
عبداللہ خدا حافظ کہہ کر گھوڑے پر سوار ہوا۔ نعیم اسے باہر نکلتے دیکھ کر دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر ایک کھجور کی آڑ میں کھڑا ہو گیا۔دروازے سے باہر نکل کر عبد اللہ نے ایک بار عذرا کو مڑ کر دیکھا اور پھر گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔


)۳)

صبح کے آثار نمودار ہو رہے تھے۔عبد اللہ گھوڑا بھگائے جا رہا تھا۔ اس نے اپنے پیچھے ایک اور گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سنی۔ مڑ کر دیکھا کہ ایک سوار اسے سے زیادہ تیزی کے ساتھا رہا ہے۔ عبد اللہ گھوڑا روک کر اپنے پیچھے آنے والے سوار کو غور سے دیکھنے لگا۔ پیچھے آنے والا سوار اپنا چہرہ خود میں چھپائے ہوئے تھا۔ عبداللہ کو اس کے متعلق تشویش ہوئی اور اس نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکنا چاہا۔ لیکن اس نے عبد اللہ کے اشارے کی کوئی پرواہ نہ کی۔ اور بدستور گھوڑا دوڑاتا آگے نکل گیا۔ عبد اللہ کو اور بھی تشویش ہوئی اور اس نے اپنا گھوڑا اس کے تعاقب میں چھوڑ دیا۔ عبد اللہ کا گھوڑا تازہ دم تھا۔ اس لیے دوسرا شخص جو بظاہر ایک شہسوار معلوم ہوتا تھا عبداللہ نے اس کے قریب پہنچ کر اپنا نیزہ بلند کیا اور کہا:
’’اگر تم دوست ہو تو ٹھہرو۔ اگر دشمن ہو تو مقابلے کے لیے تیار ہو جاؤ!‘‘
دوسرے سوار نے اپنا گھوڑا روک لیا۔
’’مجھے معاف کیجئے گا ‘‘ عبد اللہ نے کہا ’’میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کون ہیں ؟ میرا ایک بھائی بالکل آپ کی طرح گھوڑے پر بیٹھا کرتا تھا اور گھوڑے کی باگ بھی بالکل آپ کی طرح پکڑا کرتا تھا۔ اس کا قدو قامت بھی بالکل آپ جیسا تھا۔ میں آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں ؟‘‘
سوار خاموش رہا۔
’’آپ بولنا نہیں چاہتے؟.... میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کا نام کیا ہے؟ .... آپ نہیں بتائیں گے؟‘‘
سوار پھر خاموش رہا۔
  ’’میں آپ کی شکل دیکھ سکتا ہوں ؟ سنتے نہیں آپ؟‘‘
سوار اس پر بھی خاموش رہا۔
’’معاف کیجئے گا اگر کسی صدمہ کی وجہ سے بولنا نہیں چاہتے تو آپ کو کم از کم اپنی شکل دکھانے میں تو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ کسی ملک کے جاسوس ہیں تو بھی میں آپ کو دیکھے بغیر آگے نہ جانے دوں گا۔‘‘ عبد اللہ نے یہ کہہ کر اپنا گھوڑا اجنبی کے گھوڑے کے قریب کیا اور اچانک نیزے کی نوک سے اجنبی کا خود اتار دیا۔ اجنبی کے چہرے پر نگاہ پڑتے ہی عبد اللہ نے بے اختیار ایک ہلکی سی چیخ کے ساتھ نعیم! نعیم کہا۔ نعیم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
دونوں بھائی گھوڑوں سے اتر کر ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ گئے۔
’’بہت بیوقوف ہو تم! ‘‘ عبد اللہ نے نعیم کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔‘‘ کم بخت اتنی خود داری؟ اور یہ خود داری بھی تو نہ تھی۔ تم نے تھوڑی بہت عقل سے کام لیا ہوتا اور یہ سوچا ہوتا کہ گھر میں والدہ انتظار کر رہی ہوں گی۔ تمہارا بھائی تمہیں دنیا بھر میں تلاش کرتا پھرتا ہو گا اور عذرا بھی ہر روز بستی کے اونچے اونچے ٹیلوں پر چڑ کر تمہاری راہ دیکھتی ہو گی لیکن تم نے کسی کی پرواہ نہ کی۔ خدا جانے کہاں روپوش رہے نعیم! تم نے یہ کیا کیا؟‘‘
نعیم کو ئی جواب دینے کی بجائے بھائی کے سامنے خاموش کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں اس کے دل کی کیفیت کی آئینہ دار تھیں۔ عبد اللہ اس کی خاموشی سے متاثر ہوا۔ نعیم کو ایک بار پھر سینے سے لگا لیا اور کہا ’’تم بولتے نہیں۔ تم مجھ سے اتنے ہی متنفر تھے کہ منہ چھپا کر میرے قریب سے گزر گئے۔ نعیم! خدا کے لیے کچھ منہ سے بولو! تم کہاں سے آئے اور کدھر جا رہے ہو؟ میں نے سندھ جا کر تمہاری تلاش کی لیکن وہاں بھی تمہارا پتہ نہ چلا۔ تم گھر کیوں نہ پہنچے؟
نعیم نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہا۔’’ بھائی خدا کو میرا گھر پہنچنا منظور نہ تھا۔‘‘
’’آخر تم رہے کہاں ؟‘‘ عبد اللہ نے پوچھا۔
نعیم نے اس کے جواب میں اپنی سرگزشت مختصر طور پر بیان کی لیکن اس میں اس نے زلیخا کا تذکرہ نہ کیا اور نہ ہی بتایا کہ وہ گذشتہ رات گھرکی چاردیواری کے باہر کھڑا تھا۔ جب نعیم نے اپنی سرگزشت ختم کی تو دونوں بھائی دیر تک ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
عبد اللہ نے پوچھا۔ ’’تم قید سے رہا ہونے کے بعد گھر کیوں نہ آئے؟‘‘
نعیم کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس نے پھر خاموشی اختیار کر لی۔
’’اب گھر جانے کی بجائے کہاں جا رہے ہو؟‘‘ عبد اللہ نے سوال کیا۔
’’بھائی میں ابن صادق کو گرفتار کرنے کے لیے بصرہ سے کچھ سپاہی لینے جا رہا ہوں۔‘‘
عبد اللہ نے کہا۔ ’’میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں اور امید ہے کہ تم جھوٹ نہ بولے گے۔‘‘
’’پوچھیے!‘‘
’’تم یہ بتاؤ کہ قید سے رہا ہونے کے بعد تمہیں کس نے بتایا تھا کہ عذرا کی شادی ہونے والی ہے؟‘‘
نعیم نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’ اب تمہیں معلوم ہو چکا ہے کہ عذرا کی شادی میرے ساتھ ہو چکی ہے؟‘‘
’’ہاں ! میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔‘‘
’’تم بستی سے ہو کر آئے ہو؟‘‘ عبد اللہ نے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘ نعیم نے جواب دیا۔
  ’’گھر گئے تھے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں ؟....اس خیال سے کہ میں نے تم پر ظلم کیا ہے؟‘‘
نعیم بولا:
’’آپ کا خیال غلط ہے۔ میں اس لیے گھر نہیں گیا کہ میں آپ پر اور عذرا پر ظلم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ میرے گھر آنے کے متعلق مایوس ہو چکے تھے اور آپ نے محسوس کیا کہ عذرا دنیا میں اکیلی ہے اور اسے آپ کی ضرورت ہے۔ گھر جا کر پھر ایک بار پرانے زخموں کو تازہ کر کے عذرا کی زندگی کو تلخ نہیں بنانا چاہتا تھا۔ فطرت کے اشارات مجھ پر کئی بار ظاہر کر چکے تھے کہ عذرا میرے لیے نہیں۔ تقدیر آپ کو اس امانت کا محافظ منتخب کر چکی ہے میں تقدیر کے خلاف جنگ نہیں کر نا چاہتا تھا۔ بھائی میں خوش ہوں، بیحد خوش ہوں کیونکہ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ عذرا آپ کو اور آپ عذرا کو خوش رکھ سکیں گے اور آپ دونوں کی خوشی سے زیادہ مجھے کسی چیز کی تمنا نہیں۔ آپ مجھ پر اور عذرا پر ایک احسان کریں اور وہ یہ ہے کہ آپ عذرا کے دل میں کبھی یہ خیال نہ آنے دیں کہ میں زندہ ہوں۔ آپ اسے یہ نہ بتائیں کہ میں آپ کو ملا تھا۔‘‘
’’نعیم تم مجھ سے کیا چھپانا چاہتے ہو؟ یہ کوئی ایسا معمہ نہیں جسے میں نہ سمجھ سکوں۔ تمہاری آنکھیں تمہاری شکل و صورت اور تمہارا لہجہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ تم ایک زبردست بوجھ کے نیچے دبے جا رہے ہو۔ عذرا نے میرا دل رکھنے کے لیے قربانی دی ہے اور وہ بھی اس خیال سے کہ شاید....!‘‘
’’کہ شاید میں مر چکا ہوں ‘‘ نعیم نے کہا۔
’’اف نعیم مجھے شرمسار نہ کر۔ میں نے تمہیں بہت تلاش کیا....!‘‘
’’خدا کو یہی منظور تھا۔‘‘ نعیم نے عبد اللہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’نعیم! نعیم تم یہ خیال کرتے ہو کہ میں .... ‘‘ عبد اللہ آگے کچھ نہ کہہ سکا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ بھائی کے سامنے ایک بے گناہ مجرم کی طرح کھڑا تھا۔
نعیم نے کہا۔’’بھائی ! تم ایک معمولی بات کو اس قدر اہمیت کیوں دے رہے ہو؟‘‘
عبد اللہ نے جواب دیا۔’’کاش یہ ایک معمولی بات ہوتی۔ نعیم یہ والدہ کی وصیت تھی کہ عذرا کو اکیلی نہ چھوڑنا۔ لیکن وہ تمہیں بھولی نہیں۔ وہ تمہاری ہے۔ میں تمہاری اور عذرا کی خوشی کے لیے اسے طلاق دے دوں گا۔ تم دونوں کے اجڑے ہوئے گھر کو بسا کر جو اطمینان مجھے حاصل ہو گا، وہ میں ہی جانتا ہوں۔‘‘
’’بھائی خدا کے لیے ایسا نہ ہو۔ ایسا کرنے سے ہم تینوں کی زندگی تلخ ہو جائے گی۔ میں خود اپنی نظروں میں پست ہو جاؤں گا۔ ہمیں اب تقدیر پر شاکر رہنا چاہیے۔‘‘
’’لیکن میرا ضمیر مجھے کیا کہے گا؟‘‘
نعیم نے اپنے چہرے پر ایک تسلی آمیز مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا:
’’آپ کی شادی میں میری مرضی بھی شامل تھی۔‘‘
’’تمہاری مرضی! وہ کیسے؟‘‘‘
’’گذشتہ رات میں وہیں تھا۔‘‘
’’کس وقت؟‘‘
’’آپ کے نکاح سے کچھ دیر پہلے میں نے مکان سے باہر ٹھہر کر تمام حالات معلوم کر لیے تھے۔‘‘
  ’’تم گھرکیوں نہ آئے۔‘‘
نعیم خاموش رہا۔
’’اس لیے کہ تم خود غرض بھائی کا منہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے؟‘‘
’’نہیں۔ واللہ اس لیے نہیں بلکہ میں اپنے بے غرض بھائی کے سامنے اپنی خود غرضی کا اظہار کرنا کم ظرفی سمجھتا تھا۔ آپ کا سکھلایا ہوا ایک سبق میرے دل پر نقش تھا۔‘‘
’’میرا سبق؟‘‘
’’ہاں۔ مجھے آپ یہ سبق دے چکے تھے کہ وہ انس جو ایثار کے جذبے سے خالی ہو، محبت کہلانے کا مستحق نہیں۔‘‘
میں حیران ہوں کہ تمہاری طبیعت میں یہ انقلاب کیونکر آگیا۔ سچ بتاؤ کہ تمہارے دل سے عذرا کی جگہ کسی اور کے تصور نے تو نہیں چھین لی۔ اگر چہ مجھے یہ شبہ نہیں لیکن عذرا شروع شروع میں والدہ سے ایسے شکوک ظاہر کیا کرتی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ جہاد کے لیے ایک غیر معمولی جذبہ تمہیں سندھ کی طرف لے اڑا تھا لیکن پھر بھی کبھی کبھی یہ شک ہوتا تھا کہ تم جان بوجھ کر شاید شادی سے پہلو تہی کرنا چاہتے تھے۔ اگر تمہارے گھر نہ آنے کی وجہ یہ تھی تو بھی تم نے اچھا نہیں کیا!‘‘
نعیم خاموش رہا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ کیا جواب دے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بچپن کا وہ واقعہ پھر رہا تھا جب وہ عذرا کو پانی میں لے کودا تھا او ر عبداللہ نے کی خاطر ایک نا کردہ خطا کا بوجھ اپنے سر لے کر اسے سزا سے بچایا تھا۔ وہ بھی ایک نہ کیے ہوئے جرم کا اقرار کر کے بھائی کو ایک گونہ اطمینان دلا سکتا تھا۔
نعیم کی خاموشی سے عبداللہ کے شکوک اور پختہ ہو گئے۔ اس نے نعیم کا بازو پکڑ کر ہلاتے ہوئے کہا ’’بتاؤ نعیم!‘‘
نعیم نے چونک کر عبد اللہ کے چہرے پر نگاہ ڈالی۔ مسکرایا اور کہا:
’’ہاں بھائی! میں اپنے دل میں کسی اور کو جگہ دے چکا ہوں۔‘‘
عبد اللہ نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔’’اب مجھے بتاؤ کہ تم اس سے شادی کر چکے ہو یا نہیں ؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اس معاملے میں کوئی مشکل حائل ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
شادی کب کرو گے؟‘‘
’’عنقریب۔‘‘
’’گھر کب جاؤ گے؟‘‘
’’ابن صادق کی گرفتاری کے بعد۔‘‘
’’اچھا میں زیادہ نہیں پوچھتا۔ اگر مجھے بہت جلد اندلس پہنچ جانے کا حکم نہ ہوتا تو میں تمہاری شادی دیکھ کر جاتا۔ واپس آنے تک یہ توقع رکھوں گا کہ تم ابن صادق کو گرفتار کرنے کے بعد گھر پہنچ جاؤ گے؟‘‘
’’انشاء اللہ!‘‘
دونوں بھائی ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور گھوڑوں پر سوار ہو گئے۔ نعیم بظاہر عبداللہ کی تشفی کر چکا تھا لیکن اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ وہ عبد اللہ کے مزید سوالات سے گھبراتا تھا۔ وہ تمام راستہ بھائی سے اندلس کے حالات کے متعلق سوالات کرتا رہا۔
  کوئی دو کوس فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک چوراہے سے ان دونوں کے راستے جدا ہوتے تھے۔ اس چوراہے کے قریب پہنچ کر نعیم نے مصافحہ کرنے کی نیت سے اپنا ہاتھ عبداللہ کی طرف بڑھا دیا اور اجازت طلب کی۔
عبد اللہ نے نعیم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا۔’’ نعیم تم نے جو کچھ مجھ سے کہا ہے سچ ہے یا میرا دل رکھنے کی باتیں تھیں ؟‘‘
’’آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں ؟‘‘
’’مجھے تم پر اعتبار ہے۔‘‘
’’اچھا خدا حافظ!‘‘ عبداللہ نے نعیم کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ نعیم نے ایک لمحہ تامل کے بغیر گھوڑے کی باگ موڑ لی اور سرپٹ دوڑا دیا۔جب تک اس کے گھوڑے کی آخری جھلک نظر آتی رہی، عبد اللہ وہیں کھڑا اس کی باتوں پر غور کرتا رہا اور جب وہ نظروں سے غائب ہو گیا تو اس نے ہاتھ پھیلا کر دعا کی:’’ اے جزا و سزا کے مالک! اگر تجھے یہی منظور تھا کہ عذرا میری رفیق حیات بنے تو مجھے تیری تقدیر سے شکایت نہیں۔ اے مولی! جو کچھ نعیم نے کہا ہے وہ سچ ہو۔ اگر اس کی باتیں سچی نہ بھی تھیں تو بھی انہیں سچا کر دکھا۔ اسے چاہنے والی ایسی ہو کہ عذرا کو بھول جائے۔ اے رحیم! اس کے دل کی اجڑی ہوئی بستی کو ایک بار پھر آباد کر دے۔ اگر میری کوئی نیکی تیری رحمت کی حق دار ہے تو اس کے عوض نعیم کو دنیا اور آخرت میں مالا مال کر دے!‘‘
نعیم کے بصرہ پہنچنے سے پہلے ہی ابن صادق کو گرفتار کرنے کی کوشش ہو رہی تھی لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا تھا۔ نعیم نے والی بصرہ سے ملاقات کی۔ اپنی سرگزشت سنائی اور واپس سندھ جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔
والی بصرہ نے نعیم کے زندہ واپسا جانے پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ ’’سندھ کی فتح کے لیے اب صرف محمدؒ بن قاسم کافی ہے۔ وہ ایک طوفان کی طرح راجوں اور مہاراجوں کی ٹڈی دل افواج کو روندتا ہوا سندھ کے طول و عرض میں اسلامی جھنڈے نصب کر رہا ہے۔ اب ترکستان کے وسیع ملک کی پوری تسخیر کے لیے جانباز سپاہیوں کی ضرورت ہے۔ قتیبہ نے بخارا پر حملہ کیا ہے لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ کوفہ اور بصرہ سے مزید افواج جا رہی ہیں۔ پرسوں اس جگہ سے پانچ سو سپاہی روانہ ہوئے ہیں، اگر آپ کوشش کریں تو انہیں راستے میں مل سکتے ہیں، اس میں شک نہیں کہ سندھ میں محمدؒ بن قاسم آپ کا دوست ہے لیکن قتیبہ بن مسلم جیسا جرنیل بھی مردم شناسی کے جوہر سے خالی نہیں۔ وہ آپ کی بہت قدر کرے گا۔ میں اس کے نام خط لکھ دیتا ہوں۔‘‘
نعیم نے بے پروائی سے جواب دیا۔’’ میں جہاد پر اس لیے نہیں جا رہا کہ کوئی میری قدر کرے میرا مقصد خدا کا کم بجا لانا ہے۔ میں آج ہی یہاں سے روانہ ہو جاؤں گا۔ آپ ابن صادق کا خیال رکھیں۔ اس کا وجود اس دنیا کے لیے بہت خطرناک ہے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔ میں اس کا خاتمہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا، دربار خلافت سے اس کی گرفتاری کے احکام جاری ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اس کی طرف سے آپ بھی ہوشیار رہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ترکستان کی طرف ہی بھاگ گیا ہو!‘‘
نعیم بصرہ سے رخصت ہوا۔ وہ زندگی کے غیر معمولی حادثات سے دوچار ہو چکا تھا لیکن مجاہد کے گھوڑے کی رفتار وہی تھی اور شوقِ شہادت بھی وہی تھا۔


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔