جمعرات، 7 مئی، 2015

’’حجاز کی آندھی‘‘ پارٹ ٹو

0 comments


عاصمہ جس کام کیلئے آئی تھی وہ کر کے چلی گئی ۔ اس شخص نے ایک گھوڑا خریدا اور اصطبل سے نکل گیا۔باہر اس کا گھوڑا کھڑا تھا۔ اس نے نئے گھوڑے کی رسی اپنے گھوڑے کی پچھاڑی سے باندھی اور سوار ہو کر چلا گیا، وہ اِدھر اُدھر مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتا جا رہا تھا۔ جیسے وہ کسی کی تلاش میں ہو ۔ گھوڑے کی ر فتار بہت ہی آہستہ تھی۔

وہ شہر سے نکل گیا۔ اب وہ بار بار پیچھے دیکھتا تھااور گھوڑا چلا جا رہا تھا۔ تفصیل  سے پڑھئے

’’ابنِ داؤد!‘‘ اسے ایک نسوانی آواز سنائی دی۔

اس نے اُدھر دیکھا ۔ کھجور کے تین درخت ایک دوسرے سے ملے کھڑے تھے۔ان کے ساتھ ہی ریتیلی مٹی کی ڈھیری تھی۔ وہاں ایک عورت کھڑی تھی۔

’’عاصمہ! ‘‘ابنِ داؤد گھوڑے سے کود کر اُترا اور عاصمہ کے قریب جا کر کہنے لگا۔’’ میں تمہیں دیکھتا آرہا تھا…… تم یہاں کیسے؟ مسلمان ہو گئی ہو؟ گھوڑوں کے اس سوداگر کی بیوی بن گئی ہو؟‘‘

’’بیوی نہیں لونڈی۔‘‘ عاصمہ نے افسردہ سے لہجے میں جواب دیا۔’’ غلامی کی زندگی بسر کر رہی ہوں۔ مسلمان نہیں ہوتی نہ ہوں گی۔‘‘

’’تو چلو میرے ساتھ! ‘‘ابن ِداؤد نے کہا۔’’ تمہارے آقا کو پتا چلنے تک اتنی دور پہنچا دوں گا جہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘

’’بیٹی کو چھوڑ کر کیسے چلی جاؤں۔‘‘ عاصمہ نے کہا۔’’وہ بھی میرے ساتھ ہے……کیا تم نہیں جانتے کہ میرا خاوند اور دو بھائی لڑائی میں مارے گئے ہیں……ہم نے بہت بری شکست کھائی ہے ابنِ داؤد! ہم نے جو مقصد حاصل کرنا چاہا تھا وہ نہ کر سکے ۔ میں نے سنا تھا کہ بنی اسرائیل کے دانشور جو منصوبہ بناتے ہیں وہ کبھی ناکام نہیں ہوا کرتا لیکن تمہاری قوم کا یہ منصوبہ ایسا ناکام ہوا کہ ہم لوگ ساری عمر اٹھنے کے قابل نہیں رہے۔‘‘

’’اس ناکامی کی ذمہ داری نہ تم پر عائد ہوتی ہے نہ مجھ پر۔‘‘ ابن ِداؤد نے کہا۔’’ منصوبہ ہر لحاظ سے کارآمد اور مکمل تھا۔ لیکن لڑنے والوں نے ہمت ہار کر اتنا اچھا منصوبہ خاک میں ملا دیا ۔ جانی نقصان تو ہونا ہی تھا سب سے بڑا نقصان یہ ہو اہے کہ اسلام کی جڑیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہیں۔‘‘

’’لیکن میں ابھی ہاری نہیں۔‘‘ عاصمہ نے کہا۔’’ میں نے اپنے بھائیوں اور اپنے خاوند کے خون کا انتقام لینا ہے ۔کبھی تو جی میں آتی ہے کہ اپنے اس آقا ابو زبیر کو قتل کر دوں یہ بھی ہمارے خلاف لڑا تھا ۔لیکن تمہاری بات یاد آتی ہے کہ کسی ایک آدمی کو قتل کرنے سے ہمارا اتنا بڑا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا ۔بلکہ اسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘

’’میری دوسری باتیں بھی یاد رکھنا جو تمہیں بتا رہا ہوں۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ کتنا اچھا ہوا ہے کہ تم یہاں مل گئی ہو۔ ہم نے تم سے بہت کام لینا ہے ۔تمہاری بیٹی جوان ہو گئی ہے۔ اس سے بھی کام لینا ہے۔‘‘

’’میں اس کی تربیت اپنے نظریات اور اپنے منصوبے کے مطابق کر رہی ہوں۔ اس کے دل میں اسلام کی نفرت پیدا کر دی ہے۔‘‘

’ؔ’تم نے اصل ہدایت دی ہی نہیں ہو گی۔ ‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔

’’میں جان گئی ہوں تم کس ہدایت کی بات کر رہے ہو ۔‘‘ عاصمہ نے کہا۔’’میں نے اسے اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ قبیلوں کے سرکردہ افراد کے بیٹوں کو محبت کے جال میں پھانس کر اُنہیں آپس میں لڑانا ہے۔وفاداری کا حلفیہ وعدہ ہر کسی کے ساتھ کرنا ہے لیکن کسی ایک کے ساتھ بھی وفاداری نہیں کرنی۔‘‘

عاصمہ وہاں زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکتی تھی۔ ابنِ داؤد نے اس سے پھر ملنے کا وعدہ کیا اور چلا گیا۔

تاریخ جو حقائق ہم تک اپنے دامن میں لیے پہنچی ہے وہ اس راز کو بے نقاب کرتے ہیں کہ فتنہ ارتداد کے پس پردہ بھی یہودی تھے اور مرتدین میں سے جنہوں نے نبوت کے دعوے کیے تھے وہ یہودیوں کے پروردہ تھے۔

٭

عاصمہ کے ساتھ ابو داؤد کی یہ ملاقات اس وقت سے ایک سال پہلے ہوئی تھی جب حبیب بن کعب بنت ِیامین کے ساتھ شادی کر کے اسے مدینہ لایا تھا اور کچھ دنوں بعد ابنِ داؤد ان کے پاس پہنچ گیا تھا۔ اس ایک سال میں ابنِ داؤد اور عاصمہ کی متعدد ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ عاصمہ بنت ِیامین سے بھی ملی لیکن یہ کوئی لمبی ملاقات نہیں تھی۔

اس ایک سال میں عاصمہ نے ابو زبیر پر اپنا ایسا تاثر پیدا کر لیا تھا کہ ابو زبیر کی نگاہوں میں عاصمہ کی حیثیت ایک لونڈی جیسی رہی ہی نہیں تھی۔ابو زبیر کی بیویاں بھی عاصمہ کو لونڈی نہیں سمجھتی تھیں۔

عاصمہ نے اپنی شارعیہ بنت عقیل کو اپنے حسن و جمال کے استعمال کے طریقے عملاً ازبر کر دیئے تھے اور اسے یہ اصول ذہن نشین کرایا تھا کہ اپنے جسم کومرد کے ہاتھ میں کھلونا نہیں بننے دینا اور جسے دام محبت میں لو اس کیلئے بڑاہی دل کش اور صحرا کی رات جیسا ٹھنڈا سراب بنے رہنااور جب وہ تھک کر مایوس ہو کر رکنے لگے تو اسے بازوؤں سے تھا م لینا اور اپنے ان ریشم جیسے نرم و ملائم بالوں اور پھول کی پتیوں جیسے گالوں کے لمس سے اس کے وجود میں نئی روح پھونک کر اسے تروتازہ کر دینا۔

شارعیہ کے بال بھی ریشم کی طرح نرم و ملائم تھے اور گال بھی پھول کی پتیوں جیسے تھے۔ وہ عرب کے حسن کا شاہکار تھی، اور اس نے اپنے حسن و جمال کے دام میں جسے پھانسا تھاوہ اس کے آقا کا ایک نوجوان بیٹا سلمان تھا۔ ابو زبیر نے اپنے بیٹوں کو سختی سے کہہ رکھا تھا کہ وہ عاصمہ اور اس کی بیٹی شارعیہ کے ساتھ بے تکلفانہ مراسم پیدا نہ کریں۔ ابو زبیر شارعیہ کی جوانی اور اس کے حسن کو دیکھ کر خطر ہ محسوس کرتا رہتاتھاکہ اس کا کوئی بیٹا کوئی الٹی سیدھی حرکت کر بیٹھے گا۔ یہ خطرہ صرف اسی صورت میں ختم ہو سکتا تھا کہ عاصمہ اور شارعیہ اسلام قبول کر لیں اور ابو زبیر اپنے کسی ایک بیٹے کی شادی شارعیہ کے ساتھ کردے ۔لیکن عاصمہ اسلام قبول کرنے سے صاف انکار کر چکی تھی۔

ابو زبیر کو معلوم نہیں تھاکہ جب وہ رات کو گہری نیند سویا ہوا ہوتاہے ،اس وقت اس کا بیٹا سلمان اصطبل سے ملحق نوکروں کے کمرے میں شارعیہ کے پاس ہوتا ہے،اور عاصمہ کچھ دیر کیلئے باہر چلی جاتی ہے۔

عاصمہ نے شارعیہ کو کہنا شروع کر دیاتھا کہ اب وہ زبیر کے ہی کسی بیٹے کو یا باہر کے کسی آدمی کو سلمان کا رقیب بنا دے اور ان میں ایسی دشمنی پیدا کر دے کہ مسلمانوں کے دو قبیلے نہیں تو دو خاندان آپس میں ٹکرا جائیں ۔ شارعیہ ماں کو یقین دلا رہی تھی کہ وہ ابو زبیر کے خاندان سے ہٹ کر ایک اور خاندان کو دیکھ رہی ہے۔

٭

حضرت عمر ؓکے ایک حکم نے اس خطرے کو ختم کر دیا۔ لیکن خطرے میں اضافہ کا امکان بھی تھا ۔ حکم یہ تھا کہ مرتدین کے جن افراد کوغلام اور لونڈیاں بنایا گیا تھا ، انہیں آزاد کرکے ان کے رشتے دروں کے حوالے کر دیا جائے۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس حکم پر ان لوگوں نے اعتراض کیا تھا جن کے پاس غلام اور لونڈیاں تھیں۔ اس کی اجازت خلیفہ اول ابو بکرؓ نے دی تھی۔ لیکن خلیفہ دوم ؓکی سیاست کچھ اور تھی ۔ سالار مثنیٰ بن حارثہ نے بھی)تاریخی روایات کے مطابق( عمر ؓکو مشورہ دیا تھا کہ مرتدین میں بہت سے لوگ تائب ہو چکے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ انہیں اعتماد میں لے لیا جائے اور ان کے عزیز رشتے دار واپس کر دیئے جائیں۔ عمرؓ نے خود بھی یہی سو چا تھا مرتدین اب سچے دل سے مسلمان ہوئے تھے ۔ یہ اسلام کی عسکری طاقت تھے۔

عمر ؓنے غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔

ابو زبیر نے عاصمہ اور اس کی بیٹی شارعیہ کو اپنے پاس بلایا۔

’’آج سے تم اس گھر کی لونڈیاں نہیں ہو۔‘‘ ابو زبیر نے ا’نہیں کہا۔’’ تم نے خلیفہ کا حکم سن لیا ہے۔ لیکن میں تمہیں گھر سے نہیں نکال سکتا ۔تم یہ بتاؤ کہ میں تمہیں کس کے حوالے کروں؟ اپنا کوئی قریبی رشتے دار بتاؤ ، میں تمہیں وہاں چھوڑ آؤں گا۔‘‘

’’میں ایک دو روز بعد بتا سکوں گی۔‘‘ عاصمہ نے کہا۔’’ میرا دور کا ایک رشتے دار مدینہ میں ہے ۔ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے اور اس نے کچھ عرصہ پہلے یہاں سے ایک گھوڑا بھی خریدا تھا۔‘‘

عاصمہ اسی روز ابنِ داؤد سے ملی۔ ابنِ داؤد ابھی مدینہ میں ہی تھا۔ اب وہ حبیب بن کعب کے گھر نہیں بلکہ ایک دوست کے گھر رہتا تھا۔ اس کا یہ دوست دراصل یہودی تھا۔ جس نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رکھا تھا ۔وہ بڑھئی کا کام کرتا تھا۔ وہ مدینہ کا رہنے والا نہیں تھا۔ کوئی دور دراز کا گاؤں بتاتا تھا جہاں سے وہ روزی کمانے کیلئے مدینہ آیا اور یہیں آباد ہو گیا تھا۔

شارعیہ کی ملاقاتیں عاصمہ نے ابنِ داؤد سے بھی کرائی تھیں ۔ ابنِ داؤد نے شارعیہ کو بتایا تھا کہ اس نے مسلمانوں سے اپنے باپ اور دو ماموؤں کے خون کا انتقام لینا ہے اور اسلام کو تخریب کاری سے تباہ کرنا ہے۔ ابنِ داؤد نے اس لڑکی کو تخریب کاری کے بہت سے طریقے بتائے اور یہ بھی بتایا کہ بنتِ یامین مسلمان نہیں یہودی ہے۔

’’کیا ابو زبیر کے بیٹے سلمان کے ساتھ عشق و محبت کا ناٹک ٹھیک چل رہا ہے؟‘‘ ابنِ داؤد نے اس سے پوچھا۔

’’وہ تو میرے عشق میں پاگل ہوا جا رہاہے۔‘‘ شارعیہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔’’ لیکن اس کے باپ نے حکم دے رکھا ہے کہ میرے ساتھ اس کا کوئی بیٹا شادی نہیں کر سکتا۔ سلمان کہتا ہے کہ باپ نے شادی کی اجازت نہ دی تو وہ مجھے ساتھ لے کر مدینہ سے ہمیشہ کیلئے نکل جائے گا ۔میں بتا نہیں سکتی کہ اس کی حالت کیا ہو رہی ہے۔‘‘

’’اب ایسے ہی ایک اور نوجوان کو پاگل کردو۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ میں تمہیں بتاتا ہوں وہ کون ہے۔ ‘‘ابنِ داؤد نے اسے ایک نوجوان کا نام اور خاندان بتا کر کہا تھا ۔ ’’اسے سلمان سے ٹکرا دو ‘پھر سلمان کے باپ کے کان میں ڈال دو کہ اس خاندان کے اس لڑکے نے تم پر دست درازی کی ہے۔‘‘ ابنِ داؤد نے اسے کچھ اور ہدایات بھی دی تھیں۔

’’تم دیکھتے چلو ابن ِداؤد!‘‘شارعیہ نے کہا تھا ۔’’ میں گھر کی دیواروں کے اندر رہ کر مدینہ میں خون کی ندیاں بہا دوں گی۔‘‘

’’ذہن میں ایک سوچ اور مقصد رکھو۔‘‘ ابنِ داؤد نے کہا۔’’ مقصد یہ ہے کہ ان مسلمانوں کو جاہلیت کے ان ہی اندھیروں میں واپس دھکیلنا ہے جہاں سے انہیں محمد )ﷺ(نے نکالا تھا، ان کے آپس میں اختلافات موجود ہیں۔ ہم نے ان اختلافات کو دشمنی کا رنگ دینا اور انہیں آپس میں ٹکرانا ہے تاکہ یہ ایک دوسرے کا خون بہا بہا کر ختم ہو جائیں ۔ ہم کئی اور طریقے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘

’’میں جانتی ہوں ۔‘‘ شارعیہ نے کہا۔’’ ماں نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔‘‘

اس کے بعد شارعیہ اور بنت ِیامین کی بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ بنت ِیامین نے شارعیہ کو بتایا تھا کہ اس نے حبیب بن کعب کو اپنی مٹھی میں لے کر اس کا دماغ خراب کرنا شروع کر دیا ہے۔

٭

یہودی اسلام میں نظریاتی اور دیگر طریقوں سے تخریب کاری میں لگے ہی رہتے تھے۔ لیکن خیبر کی شکست نے انہیں سانپ اور بچھو بنا دیا تھا ۔ ان کے تین قبیلے بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع ، رسول اﷲﷺ کے ہاتھوں شکست کھا کر منتشر ہو گئے تھے ۔مگر درپردہ اکٹھے ہو کر انہوں نے مسلمانوں کے خلاف زمین دوز کارروائیاں شروع کر دیں بلکہ پہلے سے زیادہ خطرناک اور زیادہ تیز کر دی تھیں۔ انہوں نے تو غزوۂ خیبرکے فوراً بعد ایک یہودن کے ہاتھوں رسولﷺ کو زہر تک دے دیا تھا۔

عاصمہ اور شارعیہ کو ابو زبیر نے آزاد کر کے ابنِ داؤد کے حوالے کر دیا۔ ابن ِداؤد اُنہیں اپنے بڑھئی دوست کے گھر لے گیا ۔ ابو زبیر کا بیٹا سلمان وہاں بھی شارعیہ سے تین چار روز ملتا رہا۔

ان تین چار دنوں میں عاصمہ اور شارعیہ کو ابنِ داؤد نے ابو سلمیٰ ، اسحاق وغیرہ کے متعلق بتایا کہ اس تخریب کاری کی کمان اور ہدایت کاری ان دونوں کے ہاتھ ہے اور وہ فلاں سمت ایک نخلستان میں ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ ابنِ داؤد عاصمہ اور شارعیہ کو ایک دو دنوں کیلئے وہاں لے جانا چاہتا تھا۔

ابنِ داؤد نے حبیب بن کعب کو یہ بتا رکھا تھا کہ وہ بنت ِیامین کا باپ ہے۔ بنتِ یامین ایک دو دنوں سے حبیب سے کہہ رہی تھی کہ وہ دو چار دنوں کیلئے اپنے گاؤں جانا چاہتی ہے۔ حبیب پر تو وہ جادو بن کر غالب آگئی تھی ۔وہ کہتی تھی کہ اپنے باپ کے ساتھ جائے گی اور اسی کے ساتھ واپس آجائے گی ۔ ابنِ داؤد نے حبیب سے بھی التجا کی کہ وہ اپنی بیٹی کو دو تین دنوں کیلئے گاؤں لے جانا چاہتا ہے۔ حبیب نے اجازت دے دی۔

اگلی صبح ابنِ داؤد دو گھوڑے لے آیا۔ ایک پر خود سوار ہوا دوسرے پر بنتِ یامین سوار ہوئی اور وہ روانہ ہو گئے۔

٭

’’اب گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگا دو۔‘‘ شہر سے کچھ دور جا کر ابنِ داؤد نے بنت ِیامین سے کہا۔’’وہ کچھ دیر پہلے نکل گئے ہیں‘ ہم ان تک پہنچ جائیں گے۔‘‘

دونوں گھوڑوں کی رفتار تیز ہو گئی۔

اُفق سے سورج ابھر رہا تھاجب انہیں ڈیڑھ ایک میل دور تین گھوڑ سوار جاتے دکھائی دیئے ۔ ان کے ساتھ ایک اونٹ بھی تھا جس کی مہار ایک گھوڑے کے پیچھے بندھی ہوئی تھی ۔ ایک پر عاصمہ سوار تھی دوسرے پر شارعیہ اور تیسرا گھوڑسوار ابن ِداؤد کا بڑھئی دوست تھا ۔ اونٹ پر کھانے پینے کا اور کچھ دیگر سامان لدا ہوا تھا۔ ابنِ داؤد اور بنت ِیامین نے گھوڑے دوڑا دیئے اور اُن تک پہنچ گئے۔یہ سب ابو سلمیٰ کے پاس جا رہے تھے ۔ان کی منزل دو دنوں کی مسافت پر تھی۔

انہوں نے شام کو ایک پڑاؤ کیا اور صبح صادق کے وقت چل پڑے۔

اگلی شام اسی جگہ ایک اور قافلہ خیمہ زن ہو رہا تھا کہ ابنِ داؤد کا قافلہ اپنی منزل پر پہنچ گیا۔

منزل وہی تھی جو اس داستان کے آغاز میں بیان ہو چکی ہے۔ مدینہ کے شمال مشرق میں تیس پینتیس میل دور ایک ہرا بھرا نخلستان‘ چھوٹی سی ایک جھیل ‘اس کے ارد گرد کھجور کے پیڑوں کے جھنڈ اور صحرائی پودے ، یہ نخلستان جو تپتے ہوئے صحرا میں دہکتے ہوئے انگاروں پر کھلے ہوئے پھول کی طرح لگتا تھا ، ایسے دشوار گزار اور بھیانک علاقے میں تھا کہ اس علاقے میں کوئی مسافر داخل ہی نہیں ہوتا تھا اور کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس خوفناک علاقے میں اتنا خوبصورت اور ٹھنڈا نخلستان ہو گا۔

اس نخلستان میں ابو سلمیٰ یہودی نے خیموں کی ایک حسین دنیا آباد کر رکھی تھی۔

جس رات ابنِ داؤد اپنے مختصر سے قافلے کے ساتھ یہاں پہنچا۔اس رات انہوں نے آرام کیا۔ اگلی رات ابو سلمیٰ نے ان کے اعزاز میں نشاط کی محفل منعقد کی۔ شراب کی صراحیاں کھل گئیں اور جام حرکت میں آگئے۔ ایک رقاصہ سازوں کی لَے پر بل کھانے لگی۔

وہ قافلہ جو ابنِ داؤد کے چھوڑے ہوئے پڑاؤ والی جگہ پر گذشتہ شام خیمہ زن ہو ارتھا۔ وہ اگلی صبح وہاں سے چل پڑا تھا اور وہ ابنِ داؤد کے قافلے کے نقوش پا پر جا رہا تھا۔

رات جب ابو سلمیٰ کے چوکور اور محل کے کمرے جیسے بڑے خیمے میں رقص و شراب اور سازوآواز کی محفل گرم تھی تو کسی نے کہا ’’ایسے لگتا ہے جیسے میں نے گھوڑوں کے ٹاپ سنے ہوں۔‘‘

’’تھوڑی سی اور پی لو۔‘‘ ابو سلمیٰ کے ساتھی اسحاق نے کہا۔’’ تمہارے کان بجنے بند ہو جائیں گے۔‘‘

’’کون ہو؟‘‘ باہر سے کسی کی آواز سنائی دی۔

’’خاموش !‘‘ کسی اور کی آواز آئی‘اس کے ساتھ ہی کسی نے بلند آواز میں کہا۔’’ جہاں ہو وہیں رہو ، تم سب گھیرے میں ہو۔‘‘

بڑے خیمے کے اندر ساز اور دف خاموش ہو گئے۔ رقاصہ جہاں تھی وہیں بت بن گئی۔ ڈراؤنا سا سناٹا طاری ہو گیا۔

’’صحرائی قزاق!‘‘ابو سلمیٰ نے آہستہ سے کہا۔

اس کمرے جیسے خیمے کے دو دروازے تھے ۔ دونوں طرف سے آدمی اندر آنے لگے۔ہر ایک کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی۔ان میں ایک ابو زبیر، ایک اس کا بیٹا سلمان اور تین اور بیٹے تھے۔ حبیب بن کعب تھا اور چار اس کے دوست تھے۔

’’بنتِ یامین! ‘‘حبیب نے اپنی بیوی سے پوچھا۔’’ تم تو اپنے گاؤں جانا چاہتی تھیں، یہاں کیسے آگئیں؟ کیا ابن ِداؤد تمہارا باپ ہے؟ کیا تم مسلمان ہو؟‘‘

بنت ِیامین کا منہ حیرت اور خوف سے کھل گیا تھا ۔ وہ کچھ نہ بول سکی۔حبیب کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ وہ آہستہ آہستہ بنت ِیامین کے قریب گیا۔ فانوسوں کی روشنی میں حبیب کی تلوار آسمانی بجلی کی طرح چمکی اور دوسرے لمحے بنت ِیامین کا سر فرش پر گرا اور دھڑ الگ گرا۔رقاصہ اور اس کی ساتھی لڑکیوں کی چیخیں نکل گئیں۔

’’شارعیہ! ‘‘ابو زبیر نے کہا۔’’ تم ان سے الگ ہٹ جاؤ……اِدھر آجاؤ۔‘‘

شارعیہ تیز تیز چلتی ابو زبیر کے ساتھ جا کھڑی ہوئی۔

’’بد طینت لڑکی! ‘‘ابنِ داؤد نے دانت پیستے ہوئے شارعیہ سے کہا۔’’ اِنہیں تو یہاں لائی ہے؟ یہ کرتوت تیری ہی ہو سکتی ہے۔‘‘

’’کیا یہ سچ ہے؟ ‘‘عاصمہ نے شارعیہ سے پوچھا۔’’ کیا تو نے مخبری کی ہے؟کیا تو نے اپنی ماں کو بھی دھوکا دیا ہے……غدار!‘‘وہ درندوں کی طرح پنجے آگے کر کے اور غصے سے دانت نکال کر شارعیہ کی طرف بڑھی۔’’ میں تیرا گلا گھونٹ دوں گی۔‘‘

وہ شارعیہ پر جھپٹنے ہی لگی تھی کہ ابو زبیر کی تلوار کے بھرپور وار نے اس کے سر اور جسم کا رشتہ کاٹ دیا۔

’’باقی سب سن لو۔ ‘‘شارعیہ نے کہا۔’’ ان سب کو میں یہاں لائی ہوں۔ ابن ِداؤد نے سارا راز مجھے دے دیا تھا۔‘‘

’’تم بد قسمت ہو لڑکی!‘‘ابنِ داؤد نے کہا۔’’ تمہیں جو دولت ہم سے ملنی تھی وہ تمہیں ان لوگوں سے نہیں مل سکتی۔‘‘

’’مجھے جو دولت ان لوگوں سے ملی ہے وہ تم نہیں دے سکتے تھے۔ ‘‘شارعیہ نے کہا۔’’ میری ماں ان کی لونڈی تھی ، میں ان کی لونڈی تھی۔ ابو زبیر اور اس کے بیٹے ہمارے ساتھ جو سلوک کرنا چاہتے کر سکتے تھے۔لیکن انہوں نے ہمیں حقیر نہ جانا‘ بلکہ اپنے گھر کے افراد جیسی عزت دی۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ غلاموں کے ساتھ آقا کیا سلوک کرتے ہیں؟……مجھ جیسے خوبصورت اور جوان لونڈی کو نہ ابو زبیر نے نہ اس کے بیٹوں نے بری نظر سے دیکھا۔ یہ سلمان کھڑا ہے ‘میں اِسے چاہنے لگی۔ ہم راتوں کو ملتے رہے ۔میرا جسم تو غلام تھا ہی ‘میرا دل بھی اس کا غلام ہو گیا۔ لیکن اس نے میرے جسم کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں رکھی ۔یہ کہتا تھا کہ مسلمان ہو جاؤ‘ پھر میں باپ سے اجازت لے کر تمہارے ساتھ شادی کروں گا۔‘‘

شارعیہ جو ش و خروش سے بولے جا رہی تھی اور سب خاموشی سے سن ہے تھے۔ صحرا کی خنک رات گزرتی جا رہی تھی۔

’’اور ایک تم ہو جو میرے حسن و جوانی سے اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتے ہو۔‘‘ شارعیہ کہہ رہی تھی۔’’ ابنِ داؤد کو میں اپنا باپ سمجھتی تھی…… اس نے دو بار مجھے ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن میں نے اسے ٹال دیا۔ میں بہت دن پہلے مسلمان ہو چکی ہوتی مگر میری ماں نے مجھے کسی اور راستے پر چلانے کی باتیں شروع کر دیں اورابنِ داؤد نے مجھے سبق دینے شروع کر دیئے۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ ان سے سارے راز لے لوں پھر کچھ کر کے دکھاؤں گی اور اسلام قبول کرکے سلمان کی بیوی بن جاؤں گی۔ میں نے راز لے لیا۔اس جگہ کا فاصلہ معلوم کر لیا سمت پوچھ لی اور سلمان کو بتایا ۔ سلمان نے اپنے باپ کو بتایا پھر حبیب کو بتایا کہ وہ جال میں آیا ہوا ہے ۔‘‘ اس نے ابو زبیر کی طرف دیکھا اور بولی ۔’’ اب تمہیں میری وفا کا یقین ہوا؟……میں مسلمان ہوں۔ میرے دل نے اسلام قبول کر لیا ہے۔‘‘

’’ختم کرو اِنہیں ۔‘‘ ابو زبیر نے کہا۔’’ اپنے دین کے دشمنوں کو جلا کر راکھ کر دو۔‘‘

صحرا کی رات میں کچھ شوروغل ہوا۔ دو تین نسوانی چیخیں اٹھیں اور رات پھر خاموش ہو گئی۔

ان خیموں میں جوکوئی بھی تھا، اسے قتل کر دیا گیا۔ سب کی لاشیں بڑے خیمے میں ایک جگہ ڈھیر کی گئیں۔ ان پر شراب انڈیل کر آگ لگا دی گئی۔ تمام خیموں کو آگ لگائی گئی۔ ان کے اونٹ اور گھوڑے ساتھ لے کر ابو زبیر کا قافلہ مدینہ کو چل پڑا۔ شارعیہ ان کے ساتھ تھی ۔اس قافلے میں سب سے زیادہ قابل ِاحترام حیثیت شارعیہ کی تھی۔

ڈیڑھ دو میل دور جا کر ابو زبیر نے گھوڑا روک کر پیچھے دیکھا ۔ نخلستان کی سمت آسمان کا رنگ قرمزی ہو اجا رہا رتھا۔ صحرا کی رات دور دور تک روشن تھی اور اس کی روشنی میں سپیدی مائل دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔

’’کفر جل رہا ہے۔‘‘ حبیب ابنِ کعب نے کہا۔

’’نہیں ابنِ کعب!‘‘ ابو زبیر نے کہا۔’’چند ایک کفار جل رہے ہیں۔ کفر کو جلا کر راکھ کر نے کیلئے بہت قربانیاں دینی پڑیں گی ۔ کفر صرف میدانِ جنگ میں فتح حاصل کرلینے سے ختم نہیں ہو سکتا۔اس کیلئے تو بہت سے محاذوں پر جہاد کی ضرورت ہے۔ معاشرے کا محاذ ہے ، گھر بھی ایک محاذ ہے اور فرداً فرداً ذاتی محاذ پر کفر کی شکست و ریخت کی جدوجہد کی جا سکتی ہے ۔جس طرح اس لڑکی شارعیہ نے کی ہے ۔ اس نے اپنی ماں کو قربان کر دیا ہے۔

’’تم یہاں پڑاؤ کرنے کی تو نہیں سوچ رہے!‘‘ کسی نے پیچھے مڑ کر ابو زبیر اور حبیب کو رکا ہوا دیکھ کر کہا۔

’’نہیں بھائی نہیں۔ ‘‘ابو زبیر نے بلند آواز سے جواب دیا۔’’ جہنم کی اس آگ کو دیکھ رہے ہیں جو شارعیہ نے بھڑکا کر جنت میں اپنا گھر بنا لیا ہے……چلتے چلو، ہم آرہے ہیں، اس خوفناک علاقے سے نکل کر کہیں آرام کیلئے رکیں گے۔‘‘

آدھی رات کے بہت بعد یہ قافلہ رُکا اور سب آرام کیلئے لیٹے اور سو گئے۔

٭

اگلے روز یہ قافلہ فاتحانہ چال سے مدینہ کی سمت چلا جا رہا تھا ۔ شام تک انہیں مدینہ پہنچ جا نا تھا۔ سورج سر پر آگیا تھا ۔ چھوٹا سا ایک نخلستان قریب آگیا جس سے یہ سب واقف تھے۔ قافلہ کھانے پینے کیلئے رُک گیا۔ ابو زبیر کا بیٹا سلمان حبیب بن کعب کے پاس جا بیٹھا۔

’’ابنِ کعب!‘‘ سلمان نے حبیب سے کہا۔’’راستے میں شارعیہ مجھے تین بار کہہ چکی ہے کہ وہ مدینہ پہنچتے ہی اسلام میں داخل ہو جائے گی۔ یہ پوچھتی ہے کہ اسلام قبول کرنے کا کوئی خاص طریقہ ہے یا اس کا یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ آج سے وہ مسلمان ہے؟‘‘

’’کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام کی قبولیت کا طریقہ کیا ہے؟‘‘ حبیب نے کہا۔’’ اگر یہ لڑکی اتنی بیتاب ہے تو یہ کام یہیں ہو سکتاہے۔‘‘حبیب اُٹھ کھڑا ہوا اور قافلے سے مخاطب ہو کر پوچھا۔’’اس قافلے کا امیر کون ہے؟‘‘

’’اس کی کیا ضرورت آپڑی ہے؟‘‘ ایک آدمی نے پوچھا۔

’’یہ لڑکی اسلام قبول کرنے کو بیتاب ہے۔‘‘ حبیب نے جواب دیا۔’’ یہ کارِ خیر امیرِ کارواں ہی کر سکتا ہے۔‘‘

تقریباً سب کی نظریں ابو زبیر کی طرف اٹھیں۔

’’خدا کی قسم !‘‘ حبیب کے ایک دوست نے کہا۔’’جس قافلے میں ابو زبیر ہو وہاں اورکون کارواں کی امارت کا دعویٰ کر سکتا ہے؟‘‘

’’اور یہاں شاید کوئی بھی نہیں جو ابو زبیر کی امارت کی مخالفت کرے گا۔‘‘ کسی اور نے کہا۔

سب نے فرداً فرداً ابو زبیر کو قافلے کا امیر تسلیم کر لیا۔ حبیب بن کعب نے شارعیہ کو اس کے سامنے بٹھا کر کہا کہ اسے مسلمان کر لیں۔ امیرامام بھی ہوتا تھا‘ نماز با جماعت کی امامت کے فرائض اس کے ذمے ہوتے تھے۔

’’شارعیہ !‘‘ابو زبیر نے پوچھا۔ ’’کیا تو اپنی مرضی سے اسلام قبول کر رہی ہے؟‘‘

’’اپنی رضا و رغبت سے! ‘‘شارعیہ نے جوا ب دیا۔

’’کیا اﷲ کے سوا تجھ پر کسی انسان کا خوف طاری ہے؟‘‘ ابو زبیر نے پوچھا۔’’ کسی مسلمان نے تجھ پر تشدد تو نہیں کیا؟……کسی نے کوئی لالچ تو نہیں دیا؟‘‘

’’نہیں!‘‘

ابو زبیر نے اس وقت کے طریقے کے مطابق شارعیہ کو حلقہ بگوش اسلام کر لیا۔

’’امیر ِکارواں نکاح بھی پڑھا سکتا ہے۔‘‘ ابو زبیر نے کہا۔

’’بیشک! بیشک! ‘‘کئی آوازیں اٹھیں۔

ابو زبیر نے اپنے بیٹے سلمان کو بلا کر شارعیہ کے پاس بٹھایا اور ان کا نکاح پڑھا دیا۔

٭

اس وقت دو گھوڑ سوار مدینہ سے عراق کے محاذ کو جا رہے تھے ۔ تاریخوں میں ان کے نام محمیہ بن زنیم اور شدّاد بن اوس لکھے ہیں۔ وہ خلیفہ حضرت عمر ؓکا ایک انتہائی ضروری پیغام ابو عبیدہ کے نام لے جا رہے تھے ۔ اس وقت ابو عبیدہ ؓشام کے محاذ پر سالار تھے اور سپہ سالار خالدؓ بن ولید تھے ۔پیغام کے الفاظ جو تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں، وہ یہ ہیں:

’’خلیفہ عمر بن الخطاب کی طرف سے ابو عبیدہ کے نام:

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

میں تجھے اﷲ سے ڈرتے رہنے کی نصیحت کرتا ہوں ۔ اﷲ لا زوال ہے اور اﷲ ہی ہے جو ہمیں گمراہی سے بچاتا ہے اور اندھیرے میں روشنی دکھاتا ہے۔ میں تجھے خالد بن ولید کی جگہ وہاں کے تمام لشکر کا سپہ سالار مقرر کرتا ہوں ۔ فوراً اپنی جگہ سنبھالو……ذاتی مفاد کیلئے مومنین کو کسی مشکل میں نہ ڈالنا۔ انہیں اس پڑاؤ میں نہ ٹھہرانا جس کے متعلق تو نے پہلے دیکھ بھال نہ کر لی ہو۔ کسی بھی لڑائی میں دستوں کو اس وقت بھیجنا جب وہ پوری طرح منظم ہوں اور کوئی فیصلہ ایسا نہ کرنا جس سے مومنین کا جانی نقصان ہو ۔ اﷲ نے تجھے میری آزمائش اور مجھے تیری آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے۔ دنیاوی لالچوں سے بچے رہنا۔ دنیا کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لوورنہ یہ تجھے بھی اسی طرح ہلاک کر دے گی جس طرح تجھ سے پہلے کے لوگوں کو ہلاک کیا ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح تجھ سے پہلے کے لوگ تباہ ہوئے ہیں ‘تو بھی طمع سے تباہ ہو جائے ۔ تو جانتا ہے وہ اپنے رُتبے سے کس طرح گرے ہیں۔‘‘

اس پیغام کا مطلب صاف تھا ۔ حضرت عمر ؓنے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی حضرت خالدؓ بن ولید کو سپہ سالاری سے معزول کر دیا تھا اور ابو عبیدہؓ کو جو خالدؓ بن ولید کے ماتحت سالار تھے، سپہ سالار بنا دیا تھا۔

اس پیغام سے چار پانچ روز پہلے عمرؓ کا ایک اور پیغام عراق کے محاذ کو جا رہا تھا۔ یہ خلیفہ اول ابو بکرؓ کی وفات کی اطلاع تھی جو ایک حبشی مسلمان یرفا لے جا رہا تھا۔ یرفا حضرت عمر ؓکا غلام ہوا کرتا تھا۔ عمرؓ غلامی کو پسند نہیں فرماتے تھے اس لیے انہوں نے یرفا کو آزاد کر دیا تھا۔

خالدؓ بن ولید کی معزولی کا پیغام لے جانے والے دو قاصد بہت کم پڑاؤ کرتے اور تیز رفتار سے چلے جا رہے تھے۔ اس لیے وہ چار پانچ دن بعد چلے ہوئے اس دن عراق کے محاذ پر پہنچے جس دن یرفا پہنچا۔ اس طرح ابو بکرؓ کی وفات کی اطلاع اور حضرت عمرؓ کا خالدؓ بن ولید کی معزولی کا حکم منزل پر اکٹھے پہنچے۔ چونکہ یہ پیغام ابو عبیدہؓ کے نام تھا اس لیے یہ ان ہی کو دیا گیا ۔انہوں نے دونوں پیغام پڑھے اور جیب میں ڈال کر قاصدوں کو رخصت کر دیا۔ ان دنوں خالدؓ بن ولید رومیوں کے خلاف لڑ رہے تھے اور اُنہوں نے دمشق کو محاصرے میں لے رکھا تھا۔

٭

اکتوبر ۶۳۴ء کے اوائل میں خالدؓ بن ولید نے بڑی ہی خونریز اور طویل لڑائی لڑ کر دمشق فتح کر لیا۔رومیوں نے ہتھیار ڈال دیئے‘ اور دمشق پر مسلمانوں کا قبضہ مستحکم ہو گیا۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے پہلا کام یہ کیا کہ خلیفہ اول ابو بکر صدیق ؓکے نام پیغام لکھوایا، اس میں دمشق کی فتح کی خوشخبری تھی اور اس جنگ کی تفصیل لکھوائی جو انہوں نے جانوں کی بے دریغ قربانیاں دے کر جیتی تھی۔مالِ غنیمت کی بھی تفصیل لکھوائی اور یہ بھی لکھوایا کہ مال ِغنیمت کا پانچواں حصہ خلافت کیلئے چند دنوں میں بھیج دیا جائے گا۔ پیغام لکھوا کر خالدؓ نے قاصد کو دیا اور اسے رخصت کر دیا۔

یہ پیغام ابو بکرؓ کے نام یکم اکتوبر ۶۳۴ء) ۲ شعبان ۱۳ ہجری (کے روز بھیجا جا رہا تھا ۔ ابو بکرؓ ایک مہینہ آٹھ روز پہلے ہی ۲۲ اگست ۶۳۴ء )۲۲ جمادی الثانیہ (کی شام فوت ہو چکے تھے۔

قاصد پیغام لے کر جا چکا تھا۔ ابو عبیدہؓ خالدؓ بن ولید کے خیمے میں داخل ہوئے ۔ خالدؓ فتح ونصرت کی خوشی سے اچھل کر اٹھے اور ’’دمشق مبارک ہو ‘‘کا نعرہ لگا کر ابو عبیدہؓ کے گلے لگ گئے۔ابو عبیدہؓ کا انداز اور رویہ سرد ساتھا ۔ خالد ؓپیچھے ہٹ گئے ۔ حضرت ابو عبیدہؓ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

’’واﷲ! یہ آنسو خوشی کے ہی ہو سکتے ہیں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔

’’نہیں ابن ِولید! ‘‘ابو عبیدہؓ نے غمناک لہجے میں کہا۔’’ خلیفۃ الرسول)ﷺ( ابو بکر فوت ہو گئے ہیں اور اب عمر الخطاب خلیفہ ہیں۔‘‘

’’ابو بکرکب فوت ہوئے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔

’’۲۲جمادی الثانی کی شام!‘‘

’’ہمیں اطلاع اتنے دنوں بعدکیوں دی گئی ؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’ کیا قاصد کو یہاں پہنچتے ایک مہینے سے……‘‘

’’قاصد تو جلد ہی آگیا تھا ۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’ قاصد آیا تھا تو اس نے دیکھا کہ ہم نے دمشق کو محاصرے میں لے رکھا ہے تو اس نے اس خیال سے یہ پیغام ہمیں نہ دیا کہ خلیفۃ الرسول)ﷺ( کی وفات کی اطلاع کا محاصرے پر بہت برا اثر پڑے گا۔ اس نے مجھے اتنا ہی پیغام دیا کہ مدینہ میں خیریت ہے اور کمک آرہی ہے۔ اس نے یہ مراسلہ مجھے دو روز بعد دیا۔ پھر میں نے یہ جانکاہ اطلاع روک لی کہ دمشق کا فیصلہ ہو جائے تو تجھے اور لشکر کو یہ خبر بد سناؤں گا۔‘‘

ؒخالد پر تو سکتے کی کیفیت طاری ہو گئی تھی جیسے وہ دنیا سے لا تعلق ہو گئے ہوں۔

’’خلیفہ عمر کا ایک حکم نامہ بھی آیا ہے۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے بوجھل سی آواز سے کہا۔’’ یہ بھی میں نے دمشق کی جنگ ختم ہونے کے بعد تجھ تک پہنچانا بہتر سمجھاتھا۔‘‘

ابو عبیدہؓ نے پیغام خالدؓ بن ولید کو دے دیا ۔ خالدؓ نے پیغام پڑھا اور ان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی ۔ اس مسکراہٹ میں مسرت نہیں تھی۔ یہ ملول اور رنجیدہ مسکراہٹ تھی۔

’’اﷲ کی رحمت ہو ابو بکر پر! ‘‘خالدؓ نے آہ بھر کر کہا۔’’ ابو بکر زندہ رہتے تو میں اس انجام کو نہ پہنچتا۔‘‘

٭

خالدؓ بن ولید کی معزولی حضرت عمرؓ کا ایک اور جرأت مندانہ فیصلہ تھا۔ اس سے قبل ان کاایک ایسا ہی فیصلہ تھا کہ مرتدین کے جن رشتے داروں کو غلام اور لونڈیاں بنا کر رکھا گیا ہے ، ان سب کو آزاد کر کے ان کے گھروں کو بھیج دیا جائے۔پہلے بیان ہو چکا ہے کہ غلام اور لونڈیاں خلیفہ اول ابو بکر صدیق ؓکے حکم کے مطابق رکھی گئی تھیں۔ لوگوں نے حضرت عمرؓ کے فیصلے پر اعتراض کیا تھا۔ بعض نے احتجاج بھی کیا تھا لیکن عمرؓ اس حکم پر بہت مضبوط دلائل رکھتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے اپنا فیصلہ منوا لیا۔

چند دنوں بعد ہی لوگوں نے دیکھ لیا کہ عمرؓ کے اس فیصلے کے کتنے خوشگوار نتائج سامنے آئے تھے۔ وہ اس طرح کہ سالار مثنیٰ بن حارثہ عراق کے محاذ پرمجاہدین کی کمی پوری کرنے کیلئے کمک لینے مدینہ ا ٓئے تھے مگر ہر کوئی جانے سے ہچکچا رہا تھا ۔آخر ابو عبید اٹھے اور محاذ پر جانے کا اعلان کیا ۔ ان کے بعد رضاکار سامنے آنے لگے تو دیکھتے ہی دیکھتے ان کی تعداد ایک ہزر ہو گئی۔ یہ تعداد کافی نہیں تھی۔ آگے چل کر تفصیل سے ذکر ہو گاکہ جن مرتدین کے عزیزوں کو غلامی سے آزاد کرایا گیا تھا وہ حضرت عمرؓ کے اس فیصلے سے اتنے متاثر ہوئے کہ وہ بھی سچے دل سے مسلمان ہو کر کمک میں شامل ہو گئے اور محاذ پر چلے گئے۔ تب مسلمانوں کو احساس ہوا کہ حضرت عمرؓ کا فیصلہ کس قدر دور رس نتائج کا حامل تھا۔

خالدؓ بن ولید کی معزولی کا فیصلہ ایسا تھا کہ بیشتر لوگوں نے اسے پسند نہ کیا۔ سب جانتے تھے کہ خالدؓ بن ولید کو سیف اﷲ کا خطاب رسول اﷲﷺ نے دیاتھا اور آپ ﷺنے یہ خطاب بلا جواز نہیں دیا تھا۔ خالدؓ واقعی اﷲ کی تلوار تھے۔ رومیوں کو ہر میدان میں شکست دینے والے خالد ؓہی تھے۔ حضرت عمرؓبھی تسلیم کرتے تھے کہ خالد ؓنہ ہوتے تو رومیوں کو جو اس وقت بہت بڑی قوت تھے شکست نہ دی جا سکتی۔ اس کے ساتھ یہ مشکل بھی پیدا ہو گئی کہ محاذ پر مسلمانوں کی پوزیشن کمزور ہو گئی۔ اس صورتِ حال کو سنبھالنے کی اہلیت خالدؓ بن ولید میں ہی تھی ۔ یہ کمزوری ابو عبیدہؓ کی ایک غلطی سے پیدا ہوئی تھی لیکن حضرت عمرؓ نے خالد ؓبن ولید کو اس طرح سپہ سالاری سے معزول کیا کہ اُنہیں اُن کے ایک ماتحت سالار ابو عبیدہؓ کو سپہ سالار بنا کر خالد ؓکو ان کے ماتحت کر دیا۔

زیادہ تر لوگ یہ رائے دیتے تھے کہ خالدؓ کی پیہم فتوحات اور لوگوں میں اُن کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے عمر ؓخدشہ محسوس کرنے لگے تھے کہ خالدؓ بن ولید مفتوحہ علاقوں کے حکمران نہ بن بیٹھیں۔

لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ عمرؓ اور خالدؓ کے درمیان پرانے اختلافات موجود تھے ۔ ایک واقعہ تو سب کو یاد تھا ۔ مرتدین کے خلاف جنگ میں خالدؓ بن ولید نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی تھیں ۔ ان کا ایک معرکہ مرتدین کے ایک سردار مالک بن نویرہ سے ہوا۔ مرتدین نے جم کر مقابلہ کیا لیکن خالدؓ کی جارحانہ قیادت اور مجاہدین کی بے جگری کے سامنے مرتدین ٹھہر نہ سکے۔ ان کا سردار اور سالار مالک بن نویرہ گرفتار ہوا۔ خالد ؓنے اُسے قتل کروادیا۔ مالک بن نویرہ کی ایک بیوی جوان اور غیر معمولی طور پر حسین تھی۔ خالدؓ نے اُس کے ساتھ شادی کرلی۔ اس جوان عورت کانام لیلیٰ تھا۔

اس شادی کی خبر مدینہ پہنچی تو حضرت عمر ؓکو بہت غصہ آیا۔ اس وقت خلیفہ ابو بکرؓ تھے۔ مدینہ میں خبر پہنچی تھی کہ خالد ؓنے مالک بن نویرہ کو اس کی حسین و جمیل بیوی لیلیٰ کے ساتھ شادی کرنے کیلئے قتل کیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے خلیفہ ابو بکرؓ سے کہا کہ خالدؓ کو معزول کرکے واپس مدینہ بلا لیا جائے۔ ابو بکرؓ نہیں مانے تھے ۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ اس وقت یہ دیکھیں کہ خالد ؓنے میدانِ جنگ میں کتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور یہ بھی دیکھیں کہ یہ جنگ کیسی ہے۔ یہ فتنہ ارتداد کی سرکوبی کی جنگ ہے ۔ان مرتدین نے مسلمان ہو کر اسلام سے انحراف کیا اور انہوں نے اپنے نبی کھڑے کر دیئے۔ خالد ؓنے اس جہاد میں ایسی کامیابیاں حاصل کی ہیں کہ اس نے ایک شادی کر لی ہے تو اسے معاف کیا جا سکتا ہے۔حضرت عمر ؓکی تشفی نہ ہوئی۔ وہ خاموش تو ہو گئے لیکن ان کے دل میں خالدؓ کے خلاف ناراضگی قائم رہی ۔حقیقت یہ تھی کہ مالک بن نویرہ نے اسلام قبول کر لیا تھا وہ اپنے قبیلے کا سردار تھا۔ یہ تمام قبیلہ مسلمان ہو گیا تھا۔ رسول اﷲﷺ رحلت فرما گئے تو مالک بن نویرہ نے لوگوں سے وصول کی ہوئی زکوٰۃ اور محصولات کی رقم مدینہ بھیجنے کے بجائے لوگوں کو واپس کر دی اور سب کو اسلام کے خالف بغاوت پر آمادہ کر لیا۔

اس کے علاوہ مرتدین میں سے ایک عورت نے نبوت کا دعویٰ کیاتو مالک بن نویرہ نے نا صرف یہ کہ اس کی نبوت کو تسلیم کیا بلکہ اپنے قبیلے اور اپنے زیرِ اثر دوسرے قبیلوں سے کہا کہ وہ سجاع کو نبی تسلیم کریں۔ یہ عورت عراق کے رہنے والے الحارث کی بیٹی تھی۔ اسے اُم سادرہ بھی کہا جاتا تھا۔

مالک بن نویرہ کا سب سے بڑا جرم تو یہ تھا کہ اس کے علاقے میں مسلمانوں کی جو بستیاں تھیں ۔اُنہیں نذرِ آتش کر دیا تھا۔ مؤرخوں کے مطابق خالدؓ بن ولید نے اسے شکست دے کر گرفتار کیا اور اس کے یہ تمام جرائم اس کے آگے رکھے۔ اُس نے ان جرائم کا اعتراف کیا۔تب خالدؓ نے اسے کہا کہ وہ ایسے آدمی کو معاف نہیں کر سکتے جس نے مسلمانوں کو قتل کیا اور ان کی بستیاں جلائی ہوں۔

مالک بن نویرہ کو قتل کر کے خالدؓ نے اس کی بیوی لیلیٰ کو لونڈی بنانے کے بجائے اسے بیوی بنا لیا۔ خلیفہ ابو بکرؓ نے تو خالدؓ کی اس شادی کو جرم نہیں سمجھا لیکن عمر ؓنے اُنہیں معاف نہیں کیا۔ یہ شادی دسمبر ۶۳۲میں ہوئی تھی۔ اب اگست ۶۳۴ء کے آخری دنوں میں عمرؓ اُنہیں معزول کر رہے تھے ۔ مبصر لکھتے ہیں کہ تسلیم نہیں کیا جا سکتاکہ دو سال پرانے ایک واقعہ کو جواز بنا کر عمرؓ جیسے مدبر اور دور اندیش خلیفہ نے حضرت خالد ؓبن ولید جیسے تاریخ ساز جرنیل کو معزول کر دیا ہو۔

حقیقت یہ تھی کہ خالدؓ اپنے قبیلے کے سردارکے فرزند تھے۔ یہ امیر کبیر خاندان تھا۔ وہ خوش ذوق ‘خوش طبع اور زندہ مزاج تھے۔ خالدؓ نے غربت نہیں خوشحالی دیکھی تھی۔ انعام و اکرام دینے میں ان کی کشادہ ظرفی اور سخاوت مشہور تھی اور یہی ایک وجہ تھی جس کی وجہ سے عمرؓ خالد ؓسے شاکی رہتے تھے۔ خالدؓ کی معزولی پر بہت لوگوں نے اعتراض کیے تھے۔ حضرت عمرؓ نے آخر اپنے ایک خطبے میں اپنے فیصلے کی وضاحت ان الفاظ میں کی۔یہ وضاحت تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے:

’’میں اﷲ اور امت رسول)ﷺ( کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دہ ہوں۔ میں نے خالد بن ولید کو ذاتی رنجش یا کسی بے بنیاد الزام پر معزول نہیں کیا۔ خالد امیر خاندان کا فرد ہے۔ اس نے امیرانہ ماحول میں پرورش پائی ہے۔ اس لیے ابھی تک اس کی عادتیں امیروں جیسی ہیں۔ وہ شاعروں کو انعام دیتا ہے۔ رقمیں ضائع کرتا ہے۔ یہ رقمیں بیت المال میں آنی چاہئیں یا حاجت مند گھروں میں جانی چاہئیں ۔وہ پہلوانوں ‘شہسواروں اور تیغ زنوں کو بھی انعام دیتاہے۔ مجھے ابو بکر کے دورِ خلافت میں بتایا گیا تھا کہ خالد نے ایک شاعر اشعث بن قیس کو دس ہزار درہم انعام دیا ہے۔ اگر اس نے یہ رقم مالِ غنیمت سے دی ہے تو یہ مجرمانہ خیانت ہے اور اگر اس نے اپنے حصے میں سے یہ انعام دیا ہے تو یہ مجرمانہ اسراف ہے ۔ کیا اسلام اس اسراف کی اجازت دیتا ہے؟…… میں خلیفۃ الرسول)ﷺ( ابو بکر کو جو مشورے دیا کرتا تھا ان پر میں خود عمل کیوں نہ کروں؟‘‘

خالدؓ کی معزولی کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط۔ یہ ایک الگ بحث ہے۔ اس فیصلے سے عمرؓ کی اخلاقی جرأت اور اصول پسندی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔عمرؓ نے بڑے ہی نازک وقت میں بہت بڑا خطرہ مول لے لیا تھا۔محاذوں پر لڑنے والے مجاہدین میں غم و غصہ پیداہو سکتا تھا اور ہوا بھی۔ لشکروں میں خالد ؓکی مقبولیت پیر و مرشد جیسی تھی ۔ مجاہدین کے لڑنے کا جذبہ متاثر ہو سکتا تھا ۔اس کا انحصار اس پر تھاکہ خالد ؓکا رد عمل کیا تھا۔ مجاہدین خالدؓ کا رد عمل دیکھنے کے منتظر تھے۔

٭

سب سے زیادہ پریشان ابو عبیدہؓ بن الجراح تھے۔ جنہیں خالد ؓبن ولید کی جگہ سپہ سالار بنایا گیا تھا۔ رومیوں کے خلاف جنگ کی صورتِ حال تھی تو سالاروں کے قابو میں ، رومیوں کو ہر میدان اور ہر محاذ پر شکست دی جا چکی تھی۔دمشق فتح ہو چکا تھا۔ لیکن رومی کوئی معمولی جنگجو نہیں تھے کہ وہ ان چند ایک شکستوں سے دلبرداشتہ ہو کر اپنے مقبوضات مسلمانوں کے حوالے کر کے بھاگ جاتے۔ وہ اس دور کی ایک ہیبت ناک جنگی طاقت تھے۔ وہ اپنی فوج کو اکٹھا کر کے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کیلئے تیار تھے۔

سب جانتے تھے کہ رومیوں کے پاؤں اکھاڑنے کی جو اہلیت خالدؓ بن ولید میں ہے وہ دوسرے سالاروں میں نہیں۔ یہ برابر کے مقابلے کی جنگ نہیں تھی۔ مسلمان جذبے کے زور پر لڑ رہے تھے اور ان کے مدِمقابل ہتھیاربہتر تھے ۔گھوڑے کئی گنا زیادہ تھے اور نفری کہیں پانچ گنا زیادہ تھی اور کہیں آٹھ گنا بھی۔ یہ جذبے اور جنگی طاقت کا مقابلہ تھا۔ قلیل نفری سے کثیر تعداد دشمن سے لڑنے اور اس کے پاؤں اکھاڑنے کی صلاحیت خالدؓ میں ہی تھی۔ تمام سالار اور مجاہدین یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے کہ خالد ؓاپنی معزولی کے خلاف احتجاجاً محاذ سے نکل گئے تو مسلمانوں کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ محاذ پہلے ہی کمک کی ضرورت محسوس کر رہا تھا اور مثنیٰ بن حارثہ کمک لینے مدینہ روانہ ہو گئے تھے۔

ابو عبیدہؓ تجربہ کار سالار تھے۔ زاہد اور پارسا تھے۔ انہیں امین الامت کہا جاتا تھا۔ جنگ کے میدان میں ان کی جارحیت اور قیادت قابل ِداد تھی۔ دشمن کو وہ مصیبت میں ڈال دیا کرتے تھے لیکن سپہ سالاری کے جو جوہر خالدؓ میں تھے وہ ابو عبیدہؓ میں ذرا کم تھے۔

خالدؓ کا رد عمل معلوم کرنے کیلئے ایک واقعہ کا بیان کافی ہو گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کی فہم و فراست میں کچھ فرق تھا یا نہیں۔

واقعہ یوں ہے کہ دمشق کی فتح کے بعد نئے سپہ سالار ابو عبیدہؓ نے مجاہدین کے لشکر کو کچھ دن آرام دینا چاہا۔ رومی جوابی حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ خالد ؓکی معزولی کے چھ سات روز بعد ایک اجنبی ابو عبیدہ ؓسے ملنے آیااور اپنے متعلق بتایا کہ وہ عیسائی ہے اور راز کی ایک بات بتانے آیا ہے ۔ابو عبیدہؓ نے اسے بٹھا لیا۔

’’یہاں سے کچھ دور ایک قصبہ ابو القدس ہے۔ ‘‘اجنبی عیسائی نے کہا۔’’ وہاں ہر سال ایک میلہ لگا کرتا ہے ، دو تین روز بعد میلہ لگے گا ۔دور دور کے تاجر اپنامال بیچنے کیلئے لائیں گے ۔اس مال میں سونے چاندی کے زیورات بھی ہوں گے۔ ہیرے جواہرات اور قیمتی پتھر بھی ہوں گے ۔اس کے علاوہ جن اشیاء کی دکانیں لگیں گی وہ بہت ہی قیمتی اشیاء ہوں گی ۔میلے میں جو خریدار آئیں گے وہ ہر سال کی طرح بڑے ہی دولت مند لوگ ہوں گے ۔ یہ رومیوں کا میلہ ہے اور رومیوں سے آپ کی دشمنی اور جنگ ہے۔ تین چار روز بعد آپ اچانک میلے میں چھاپہ مار دیں اور یہ سب مال و دولت آپ کا مال غنیمت ہو گا۔ اتنا قیمتی مالِ غنیمت آپ کو دس قلعوں سے بھی نہیں مل سکتا۔

ابو عبیدہؓ نے اسے کہا کہ وہ خود عیسائی ہے ‘اور رومی بھی عیسائی ہیں ‘اور اس میلے میں عیسائی ہی آئیں گے یا یہودی تاجر ہوں گے۔ پھر وہ اپنے مذہب کے لوگوں کو کیوں کٹوانا چاہتا ہے؟

’’میں کٹر عیسائی ہوں۔‘‘ اس عیسائی نے کہا۔ ’’کیا آپ نہیں جانتے کہ رومی جب عیسائی نہیں ہوا کرتے تھے تو ان کے ایک بادشاہ نے زندہ عیسائیوں کو شیروں کے آگے ڈالا تھا اور شیر انہیں چیر پھاڑ کر کھا گئے تھے؟ یہ تو آپ کو معلوم ہو گا کہ حضرت عیسیٰؑ کو صلیب پر لٹکانے والے رومی ہی تھے۔ اس کے ایک زمانے بعد انہوں نے عیسائیت قبول کر لی تو کیا ہوا‘ یہ رومی اب بھی ویسے ہی بادشاہ ہیں جیسے عیسائی ہونے سے پہلے تھے ۔یہ لوگ رعایا کو انسانیت کا درجہ دیتے ہی نہیں۔ آپ نے جوعلاقے فتح کیے ہیں میں نے وہاں جا کے دیکھا ہے۔ آپ عیسائیوں اور دوسرے مذہب کے لوگوں کو کمتر رعایا نہیں بلکہ اپنے جیسا انسان سمجھتے ہیں ۔میں رومیوں کے ظلم و ستم کا کچلا ہوا انسان ہوں۔ میں اگر مسلمان نہیں تو کیا ہوا، میں عربی تو ہوں۔ میں رومیوں کی غلامی تسلیم نہیں کرتا۔‘‘

مختصر یہ کہ اس عیسائی نے ابو عبیدہ ؓکو قائل کرلیاکہ انہیں ا س میلے میں چھاپہ مارنا چاہیے۔

’’میں آپ کو یہ بھی بتا دوں۔‘‘ عیسائی نے کہا۔’’ ابو القدس کے اردگرد اور دور دور تک رومی فوج کا نام و نشان نہیں۔ آپ کیلئے کوئی خطرہ نہیں ، رومی فوج کے کچھ دستے طرابلس میں ہیں۔ وہاں سے وہ بروقت ابوالقدس نہیں پہنچ سکتے۔ انہیں اطلاع دینے والا کوئی نہیں ہو گا۔‘‘

٭

اس عیسائی کے جانے کے بعد ابو عبیدہؓ نے اپنے سالاروں کو بتایا کہ ایک عیسائی عرب اُنہیں کس موٹے اور آسان شکار کی خبر دے کر گیاہے۔

’’ابو القدس رومیوں کے علاقے میں ہے۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ اور رومیوں سے ہم بر سرِ پیکار ہیں۔ اس لیے اس میلے میں چھاپہ مارنے کے ہم حق بجانب ہیں ‘کوئی خطرہ بھی نہیں۔ رومی فوج وہاں سے بہت دور ہے……میں تم میں سے کسی کو حکماً نہیں بھیجوں گا ۔ جوکوئی اس چھاپے کی کمان لینا چاہتاہے وہ آگے آجائے اور پانچ سو گھوڑ سوار منتخب کرلے۔‘‘

ابو عبیدہؓ نے سالاروں کو باری باری دیکھا اور ان کی نظریں خالدؓ بن ولید پر ٹھہر گئیں۔ انہیں توقع تھی کہ خالدؓ اس چھاپہ کیلئے فوراً تیار ہو جائیں گے لیکن خالدؓ کا چہرہ بے تاثر تھا اور وہ چپ چاپ بیٹھے ہوئے تھے ۔ ابوعبیدہؓ کی نظریں ان کے چہرے پر جمی رہیں۔ خالدؓ نے منہ پھیر لیا۔ ظاہر ہے کہ یہ سپہ سالاری سے معزولی کا رد عمل تھا۔

خالدؓ کا چھاپہ مار دستے کے ساتھ نہ جانا الگ بات تھی ۔ انہوں نے ابو عبیدہ ؓسے اتنا بھی نہ کہا کہ انہیں ا س میلے میں چھاپہ مارنا چاہیے بھی یا نہیں۔

سب سالار خاموش رہے۔

’’میں جاؤں گا۔‘‘ ایک آواز اُٹھی۔

سب نے ا’دھر دیکھا۔ وہ ایک نوجوان تھا۔ جس کے چہرے پر داڑھی ابھی آئی ہی تھی۔

’’تو ابھی کم سن اور ناتجربے کار ہے ابن ِجعفر!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔

ابو عبیدہ ؓنے ایک بارپھر خالدؓ کی طرف دیکھا۔ لیکن وہ یوں چپ چاپ بیٹھے تھے جیسے اس کام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔

’’میں گھر سے یہاں سیر و تفریح کیلئے تو نہیں آیا۔‘‘ اس نوجوان نے کہا۔’’ مجھ پر اپنے شہید باپ کا قرض ہے۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ میرا باپ کس لڑائی میں شہید ہوا تھا ۔میں نے اس کے خون کاقرض اُتارنا ہے۔ میں کم عمر تو ہو ں ‘خدا کی قسم بزدل نہیں ہوں‘اور میں تجربہ کار نہیں مگر اناڑی بھی نہیں۔ میرا حوصلہ نہ توڑیں ۔ میں بہت کچھ دیکھ کر آیاہوں ۔ آپ کہتے ہیں کہ وہاں رومی فوج ہے ہی نہیں تو میرے لیے آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

’’ہاں ابنِ جعفر!‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ میں تیرا حوصلہ نہیں توڑوں گا۔ میں تجھے پانچ سو چنے ہوئے سوار دیتا ہوں۔ ان کی کمان تیرے ہاتھ میں ہوگی۔‘‘

ایک نوجوان کو پانچ سو گھوڑ سواروں کی کمان دینا بظاہر دانشمندی نہیں تھی ۔لیکن یہ نوجوان کوئی عام سا نوجوان نہیں تھا ۔ اس کا نام عبداﷲ بن جعفر تھا اوروہ رسولﷺ کے چچا زاد بھائی جعفرؓ کا بیٹا تھا۔ جعفرؓ موتہ کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے۔

عبد اﷲ بن جعفر ابو القدس جانیکی تیاری کرنے لگا۔ چھاپہ تین چارروز بعد مارنا تھا۔

٭

تین چار روز بعد نوجوان عبداﷲ پانچ سو چنے ہوئے گھوڑ سواروں کے ساتھ ابوا لقدس کو رخصت ہوا۔ اس کے ساتھ مشہور و معروف جانبازمجاہد اور رسالت کے شیدائی حضرت ابو ذر غفاریؓ بھی تھے۔

یہ دستہ ۱۴ اکتوبر ۶۳۴ء کی رات روانہ ہوا تھا۔ شعبان کی پندرہ تاریخ تھی۔ چاند پوراتھا ۔صحرا کی چاندنی بڑی ہی شفاف تھی۔

اس چھاپہ مار دستے نے رات ہی سفر طے کر لیا۔ صبح طلوع ہو رہی تھی۔ جب یہ دستہ ابو القدس کے مضافات میں پہنچ گیا۔ عبداﷲ اور ابو ذرغفاریؓ نے دستے کو اس انتظارمیں ذرا دور ہی روک لیا کہ میلے کی دکانیں کھل جائیں۔

میلہ تو خیموں ، شامیانوں ،قناتوں کا ایک خوبصورت گاؤں تھا۔دکانیں کھلیں تو اندازہ ہوا کہ مال کس قدر قیمتی ہے ۔سورج ذرا اوپرآنے تک میلہ انسانوں سے بھر گیا۔

عبداﷲ بن جعفر نے سواروں کو حکم دیاکہ میلے کو گھیرے میں لے لیا جائے۔

پانچ سو سواروں نے گھوڑوں کو ایڑیں لگا دیں اور میلے کو نرغے میں لینے لگے۔ اچانک کم و بیش پانچ ہزار رومی سوار کہیں سے نکل آئے۔ وہ صحرائی آندھی کی مانند آئے اور پھیل کر مسلمان سواروں کو گھیر ے میں لے لیا ۔ کہاں پانچ ہزار اور کہاں پانچ سو۔ وہ بھی گھیرے میں آئے ہوئے۔

مجاہدین گھیرے سے نکلنے کیلئے گھوڑے اِدھر ُادھر دوڑانے لگے لیکن ہر طرف رومی سواروں کی تہ در تہ دیوار کھڑی تھی جو اُنہیں روک لیتی۔ مسلمان ہر محاذ پر قلیل تعدا دمیں لڑے ہیں۔ دس ہزار مجاہدین نے ایک لاکھ کفار کا مقابلہ کیا ہے لیکن اس صورت میں کہ وہ جنگی ترتیب میں سالاروں کی ہدایات پر لڑے تھے۔ مگر یہاں وہ اچانک اور غیر متوقع گھیرے میں آگئے ۔مؤرخ واقدی اور بلاذری لکھتے ہیں کہ ان پانچ سو مجاہدین نے بھاگنے کی کوشش ترک کرکے دو بدو مقابلہ شروع کر دیا۔

مجاہدین انفرادی طور پر لڑ رہے تھے۔ یہ تو زندگی اور موت کا معرکہ تھا ۔مجاہدین بے جگری سے لڑے مگر یہ نا ممکن تھا کہ ایک ایک سوار دس دس کا مقابلہ کرتا اور زندہ نکل آتا ۔ مقابلہ تو انہوں نے کیا اور خوب کیا اور رومیوں کی تلواروں اور برچھیوں سے کٹتے چلے گئے۔مجاہدین پھیل ک گئے اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے رہے۔

٭

ایک مجاہد نہیں معلوم کس طرح معرکہ شروع ہونے سے قبل ہی نکل گیا تھا۔ فاصلہ کوئی ایسا زیادہ نہیں تھا۔ یہ مجاہد گھوڑا دوڑاتا اپنے لشکر میں پہنچا اور سپہ سالار ابو عبیدہؓ بن الجراح کو بتایا کہ ابو القدس میں کیا ہوا ہے۔

’’میں نے یہ نہیں دیکھا کہ رومیوں کا گھیرا مکمل ہونے سے پہلے ہمارے سوار وہاں سے نکل سکے تھے یا نہیں۔‘‘ اس سوار نے کہا۔’’ اگر نہیں نکل سکے تو ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا ہو گا۔‘‘

ابو عبیدہؓ کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا ۔ انہیں اب احساس ہوا کہ یہ تو جال تھا جو رومیوں نے بچھایا تھا اور اس عیسائی کو اس لیے بھیجا گیا تھا کہ مسلمانوں کو اس جال میں لائے ۔ میلے کو جال میں دانے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔

ابو عبیدہؓ نے اس عیسائی پر اعتبار کرنے کے علاوہ ایک بھیانک غلطی یہ کی کہ ایک نو عمر آدمی کو جسے ذرا سا بھی عملی تجربہ حاصل نہیں تھا ، پانچ سو سوارون کی کمان دے کر ایک مشکوک مہم پر بھیج دیا تھا۔ اس مہم کے خطرناک ہونے کے امکانات موجود تھے کیونکہ ابو القدس دشمن کے علاقے میں تھا۔

ابو عبیدہؓ کو جب اطلاع ملی تو اس وقت تقریباً تمام سالار ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔سب پر سناٹا طاری ہو گیا۔ سب کی نظریں ابو عبیدہؓ پر جم گئیں اور ابو عبیدہؓ کی نگاہیں خالدؓ بن ولید پر لگی ہوئی تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ ان پانچ سو فریب خوردہ سواروں کو خالدؓ ہی بچا سکتے ہیں لیکن خالد ؓخاموش بیٹھے ہوئے تھے ، البتہ ان کے چہرے پر پریشانی کا تاثر نمایاں تھا۔

ابو عبیدہ ؓاور دیگر سالاروں کا خیال تھا کہ خالدؓ بن ولید معزولی کے رد عمل کے تحت اس کام میں دلچسپی نہیں لیں گے۔

’’ابو سلیمان!‘‘ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کو دوسرے نا م سے مخاطب کرکے التجا کے لہجے میں کہا۔’’ اﷲ کے نام پر ابو سلیمان! تو ہی ان کی مدد کو پہنچ سکتا ہے۔ تو ہی ان کو گھیرے سے نکال سکتا ہے ۔ ایک لمحہ ضائع نہ کر۔‘‘

’’اﷲ کی مدد سے میں ہی انہیں گھیرے سے نکالوں گا۔‘‘ خالدؓ نے اُٹھتے ہوئے کہا۔’’ میں تیرے حکم کا منتظر تھا امین الامت!‘‘

’’معلوم نہیں کیا سوچ کر میں نے تجھے حکم نہ دیا۔‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’ یہ تو میں جانتا ہوں کہ معزولی نے تیرے دل پر کوئی اچھا اثر نہیں کیا۔‘‘

’’خدا کی قسم امین الامت! ‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ مجھ پر کسی بچے کو بھی سپہ سالار مقرر کر دیا جائے تو میں اس کا بھی ہر حکم مانوں گا ۔ کیا میں ایسی جرأت کر سکتا ہوں کہ جسے رسول اﷲ)ﷺ( نے امین الامت کہا ہے اس کا حکم نہ مانوں؟…… اور بتا دے سب کو کہ ابو سلیمان ابن الولید نے اپنی زندگی اسلام کیلئے وقف کر دی ہے۔‘‘

مؤرخ واقدی اور طبری نے لکھا ہے کہ ابو عبیدہؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

’’اﷲ کی رحمت ہو تجھے پر!‘‘ ابو عبیدہؓ نے جذبات سے بوجھل آواز میں کہا۔’’ جا‘ اپنے گھرے ہوئے بھائیوں کی مدد کو پہنچ۔‘‘

کسی بھی مؤرخ نے یہ نہیں لکھا کہ خالدؓ اپنے ساتھ سواروں کی کتنی تعداد لے کر گئے تھے ۔یہ تو ظاہر ہے کہ ان کے ساتھ سوار ہی گئے ہوں گے ۔پیادے ابو القدس تک بروقت نہیں پہنچ سکتے تھے۔ البتہ تاریخ میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ خالدؓ کے ساتھ ضرارؓ بن الازور بھی تھے جو برہنہ مجاہد کے نام سے مشہور تھے۔ اس خطاب کی وجہ یہ تھی کہ ضرارؓ قمیض اتار کر اور سر ننگا کر کے لڑا کر تے تھے ۔

یہ مجاہدین بڑی تیز رفتار سے گھوڑے دوڑاتے چلے جارہے تھے ۔وہ تو چلے گئے، پیچھے ابو عبیدہ ؓکی جذباتی حالت بگڑنے لگی۔ وہ اﷲ کے حضور آہ و زاری کرنے لگے کہ خلیفہ عمر ؓنے اُنہیں پیغام بھیجا تھا کہ مالِ غنیمت کی خاطر مجاہدین کی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالنا اور ہر فیصلہ سوچ بچار کر کے اور اپنے رفیقوں سے مشورہ کرکے کرنا۔نئی زمین پر جا کر دیکھ بھال ضرور کرنا۔

ابو عبیدہؓ رو رو کراﷲ سے اپنی لغزش کی بخشش مانگ رہے تھے کہ انہوں نے اپنے خلیفہ کی ہدایات کو نظر انداز کرکے ایک عیسائی کی بات کو صحیح مان لیا اور پھر ایک ناتجربہ کار نوجوان کو پانچ سو سواروں کی قیادت دے دی۔

٭

خالد ؓبن ولید اور برہنہ مجاہد ضرارؓ بن الازور سوار دستے کے ساتھ سر پٹ گھوڑے دوڑاتے ابو القدس پہنچ گئے۔ رومیوں کے گھیرے میں آئے ہوئے مجاہدین لڑ تو رہے تھے لیکن کٹ کٹ کر گر رہے تھے ۔

’’تکبیرکے نعرے لگاؤ۔‘‘ خالدؓ نے اپنے سواروں کو حکم دیا۔

ابو القدس اور اس کے میدانِ جنگ کی فضا اﷲ اکبر کے گرجدار نعروں سے گونجنے گرجنے لگی۔نعرے لگوانے سے خالدؓ کا مقصد یہ تھاکہ گھیرے میں آئے ہوئے مجاہدین کو پتا چل جائے کہ مدد آگئی ہے۔ اس کے علاوہ رومیوں کو دہشت ذدہ کرنا بھی مقصود تھا۔ ان نعروں کی گھن گرج میں خالدؓ بن ولید نے اپنا مخصوص نعرہ لگایا۔

انا فارس الضدید ‘انا خالد بن الولید

رومیوں نے یہ نعرہ پہلے بھی سنا تھا ۔ خالدؓ حملہ کرتے تو یہ نعرہ لگایا کرتے تھے ۔رومیوں نے مسلمانوں سے مختلف میدانوں میں لڑ کر دیکھا تھا۔ خالدؓ کے اس نعرے کے ساتھ ہی رومیوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی تھی۔ خالد ؓکا یہ نعرہ مجاہدین میں نئی روح پھونک دیا کرتا تھا۔

ابو القدس کے کارزار میں تکبیر کے نعروں کے ساتھ رومیوں نے انا خالد بن الولید کی للکار سنی تو ان کی توجہ گھیرے میں لیے ہوئے مجاہدین کی طرف سے ہٹ گئی۔ خالدؓ نے اپنے سواروں کو میدان کار زار کے اردگرد پھیلا دیا اور اتنا تیز حملہ کر وایا کہ رومیوں کو سنبھل کر اپنی ترتیب بدلنے کی مہلت ہی نہ ملی۔ وہ اب خود گھیرے میں آگئے تھے ۔اس وقت تک وہ بہت سے مجاہدین کو شہید اور بیشمار کو شدید زخمی کر چکے تھے۔ بچے کچھے مجاہدین کوخالد ؓبن ولید کی مدد ملی تو ان کے حوصلوں میں نئی جان آگئی۔

رومی سوار معرکے سے نکل کر بھاگنے لگے اور وہ بھاگ بھی گئے۔ لیکن اپنے مرے ہوئے اور شدید زخمی ساتھی جو چھوڑ گئے ، ان کی تعداد زیادہ تھی ۔ مسلمان سواروں کا جانی نقصان بھی معمولی نہ تھا۔ یہ معرکہ اتنا خونریز تھا کہ خالدؓ بن ولید بھی بری طرح زخمی ہو ئے تھے۔ انہوں نے شہیدوں کی لاشیں اکٹھی کرنے اور شدید زخمیوں کو اٹھانے کا حکم دیا اور دوسرا حکم یہ دیا کہ میلے کی تمام دکانوں کا سامان مالِ غنیمت کے طور پر اُٹھا لیا جائے۔

خالدؓ واپس دمشق پہنچے تو ان کے ساتھ بہت زیادہ اور بہت ہی قیمتی مال ِغنیمت تھا۔ رومیوں کے سینکڑوں گھوڑے اور ہتھیار بھی مال غنیمت میں شامل تھے ۔

خالدؓ نے اپنے جسم پر کئی زخم کھا کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ سپہ سالاری سے معزولی اُنہیں ان کے فرائض سے ہٹا نہیں سکتی۔

سپہ سالار ابو عبیدہؓ نے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ خلافت یعنی بیت المال کیلئے مدینہ بھیجا‘اور ساتھ حضرت عمر ؓکے نام پیغام میں تفصیل سے لکھوایا کہ ان کی غلطی سے کیا صورت پیدا ہو گئی تھی اور کس طرح خالدؓ بن ولید نے اس صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔

ابو عبیدہؓ نے اپنے اس پیغام میں خالد ؓکی شجاعت اور فرض شناسی کو دل کھول کر خراج تحسین پیش کیا تھا۔

٭

ابو عبیدہؓ نے خالد ؓبن ولید کے ابو القدس کے کارنامے پر بے تحاشا خراج تحسین ہی پیش نہیں کیا بلکہ اپنی اس بھیانک لغزش کا بھی اعتراف کیا۔ مبصر لکھتے ہیں کہ ابو عبیدہؓ کا مقصد یہ تھا کہ خلیفہ عمر ؓخالدؓ کو سپہ سالاری پر بحال کر دیں لیکن حضرت عمر ؓکے فیصلے اٹل ہوا کرتے تھے۔ ان کے فیصلے جذبات کے زیرِ اثر نہیں بلکہ عقل و دانش اور گہری سوچ بچار کا نتیجہ ہوتے تھے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ خالد ؓبن ولید عظیم سالار اور مردِ مومن ہیں لیکن انہیں بحال نہ کیا۔

حضرت عمرؓ بڑے سخت باپ کے فرزند تھے۔ طبقات ابن سعد میں لکھا ہے کہ عمر ؓلڑکپن کی عمر کو پہنچے تو ان کے والد خطاب نے انہیں اونٹوں کو باہر لے جا کر چرانے اور پانی پلانے کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس زمانے میں اس کام کو گھٹیا نہیں سمجھا جاتا تھا ۔لیکن والد عمرؓ کے ساتھ بہت سختی سے پیش آتے تھے ۔عمرؓ تھک کر باہر ہی کہیں لیٹ جاتے اور والد دیکھ لیتے تو عمر ؓکی پٹائی کر دیتے۔

اس مقام کا نام ضبحنان تھا جہاں عمر ؓاپنے اونٹ لے جایا کرتے تھے ۔یہ مقام مکہ مکرمہ کے نزدیک ہی ہے۔ عمرؓ کو اﷲ نے خلافت عطا کی تو ایک روز اس مقام کے قریب سے گزرے تو رُک گئے، چند لمحے اس جگہ کو دیکھتے رہے ۔پھر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

’’اﷲ اکبر‘ اﷲ اکبر۔‘‘ حضرت عمرؓ نے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہا۔’’ میں نمدے کا کرتا پہنے یہاں اونٹ چرایا کرتا تھا۔ میں تھک کر بیٹھ یا لیٹ جاتاتو باپ مجھے مارا پیٹا کرتا تھا اور آج اﷲ کے سوا میرے اوپر کوئی اور حاکم نہیں۔‘‘

حضرت عمرؓ کے ان الفاظ میں تکبر اور غرور نہیں بلکہ اﷲ کا خوف تھا کہ خلافت جیسی عظیم اور نازک ذمہ داری میں کوئی کوتاہی یا لغزش ہو گئی تو اﷲ کو کیا جواب دیں گے؟ان کے قول و فعل میں بال برابر بھی تضاد نہیں تھا۔ خلافت کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے جو خطبے دیئے۔ اُن سے اِن کی فطرت اور عظمت کا پتا چلتاہے۔ ایک خطبے میں عمر ؓنے کہا:

’’میں مسلمان ہوں اور ایک کمزور بندہ ہوں۔ اﷲ کی مدد اور رہنمائی کا طلب گار ہوں۔ خلافت میری فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گی ۔ عظمت صرف اﷲ تعالیٰ کیلئے ہے۔ کسی بندے کا اس عظمت میں کوئی حصہ نہیں۔ تم میں سے کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ عمر خلیفہ بن کر بدل گیا ہے۔ اپنے دل کی ہر بات کھول کر تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔ اگر کسی کی کوئی ضرورت پوری نہ ہوئی ہو‘ یا کسی پر ظلم و ستم ہوا ہو‘ یا کسی کو میرے مزاج سے دُکھ پہنچا ہو تو وہ مجھے پکڑے ۔میں بھی تم جیسا ایک انسان ہوں۔‘‘

ایک اور خطبے میں عمر ؓنے کہا:

’’مجھے اپنی امانت اور اپنی ذمہ داریوں کا پورا احساس ہے۔ میرے سامنے جو بھی مسئلہ ہو گا اسے انشا ء اﷲ خود ہی حل کروں گا۔ کسی دوسرے کے سپرد نہیں کروں گا ۔ مجھے دیانت دار اور مخلص رفقائے کار کی ضرورت ہے ۔‘‘

٭

حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ تو خاص طور پر جرأت مندانہ تھا کہ جن مرتدین کو غلام اور ان کی جن عورتوں کو لونڈیاں بنا کر رکھا گیا ہے انہیں آزاد کر دیا جائے ۔ان دنوں خلافت کے کسی بھی حکم پر اعتراض کیا جا سکتا تھا اور اعتراض کرنے والا آدمی بھری محفل میں خلیفہ کے رو برو اعتراض پیش کرتاتھا اور خلیفہ اس حکم کی وضاحت کرتا تھا ۔لیکن حکم عدولی کی جرأت کسی میں نہیں تھی۔ جرأت نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ لوگ سزا سے ڈرتے تھے بلکہ یہ تھی کہ لوگوں کا ایمان اور کردارمضبوط تھا۔ ان میں ڈسپلن تھا ۔امیر کی اطاعت کو وہ فرض سمجھتے تھے ۔

مرتدین کے غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرنے کے حکم پر بہت لے دے ہوئی۔ غلام اور لونڈیاں ہر کوئی تو نہیں رکھ سکتا تھا۔ ان کے آقا متمول خاندانوں کے لوگ تھے۔ جن میں زیادہ تر قبیلوں کے سردار تھے۔ باقی تاجر تھے ۔ان افراد کے پاس بھی غلام یا لونڈیاں تھیں جو مرتدین کے خلاف لڑے تھے۔ ان کا سب سے بڑا اعتراض تو یہ تھا کہ انہوں نے خلیفۃ الرسول )ﷺ(ابو بکرؓ کے حکم سے ان مرتد ین کو غلام اور لونڈیاں بنایا تھا۔ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ بعض نے غلاموں اور لونڈیوں کو خریدا تھا۔

’’اﷲ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔‘‘ حضرت عمرؓ کا جواب تھا ۔’’ اﷲ کا کوئی بندہ اﷲ کے کسی بندے کا غلام نہیں ہو سکتا ۔‘‘

یہ تو وہ استدلال تھا جو عمرؓ لوگوں کو دیتے تھے۔ لیکن انہوں نے اور سالار مثنیٰ بن حارثہ نے کچھ اور ہی سوچا تھا۔ ان کی اس سوچ کے نتائج بھی جلد ہی سامنے آگئے۔

ناصرہ بنت جبار کو کوئی ایسی بوڑھی عورت نہیں تھی کہ اس کی کمر دوہری اور سر کے اتنے زیادہ بال سفید ہو جاتے ۔ اس کی یہ حالت صرف ایک سال میں ہو گئی تھی کہ پینتالیس سال کی عمر میں وہ ستر بہتر سال کی بڑھیا لگتی تھی ۔یہ دو جوان بیٹوں کی جدائی کے اثرات تھے۔ اس کے دونوں بیٹے مسلمانوں کے خلاف ارتداد کی جنگ لڑے اور دونوں زخمی ہو کر پکڑے گئے تھے۔ ان کا باپ مارا گیا تھا۔ مسلمان خلیفۃ الرسول)ﷺ( ابو بکرؓ کے مطابق دونوں بھائیوں کو اٹھا کر اپنے ساتھ مدینہ لے گئے تھے۔ پھر ان کی بستی کو آگ لگا دی گئی تھی۔

یہ بنوفرازہ کاایک خاندان تھا۔ جو بستی بطاح میں رہتا تھا۔ اس قبیلے نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ رسول اﷲﷺ رحلت فرماگئے تو ایک شخص طلیحہ نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ اس قبیلے کے لوگوں نے اسے نبی تسلیم کر لیا۔ اسی قبیلے نے نہیں دو تین اور قبیلوں نے بھی اسے نبی مان لیا۔ مدینہ اطلاع پہنچی تو مجاہدین کے لشکر ارتداد کو ختم کرنے کیلئے چل پڑے ۔ایک لشکر کے سالار خالدؓ بن ولید تھے۔

مجاہدین کے سالار اس توقع کے ساتھ مرتدین کے علاقوں میں گئے تھے کہ ان قبیلوں کو چند دنوں میں مطیع کر لیں گے لیکن وہاں پہنچے تو پتا چلا کہ ان کا سامنا تو ایک منظم اور پر عزم لشکر سے ہے جو آسانی سے ہتھیار نہیں ڈالے گا۔

’’میں ان مرتدین کو صرف ختم ہی نہیں کروں گا۔‘‘ خالدؓ بن ولید نے کہا۔’’ میں انہیں اسلام کے دائرے میں ایک بار پھر لا کر انہیں ایساپکا مسلمان بناؤں گا کہ کبھی اسلام سے انحراف کا نام نہیں لیں گے۔ ‘‘

خالد ؓنے اپنا یہ عہد پورا کر کے بھی دکھا دیا۔ لیکن جانوں اور لہو کے بے دریغ نذرانے دے کر۔ مرتدین کی عورتیں بھی لڑائیوں میں شامل تھیں اور بعض مرتد قبیلوں کی قیادت بھی عورتوں کے ہی پاس تھی ۔

یہاں ذکر بنو فرازہ کا ہو رہا ہے اس لیے ہم اس قبیلے تک محدود رہیں گے۔ اس قبیلے ایک سردار طلیحہ نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ وہ پیش گوئیاں کیا کرتا تھا۔ مسلمانوں کا لشکر آیا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ اب کیا ہو گا؟ اس نے کہا وحی نازل ہونے والی ہے۔ خالد ؓنے ان قبیلوں کے لشکر پر تابڑ توڑ حملے کیے ۔بڑے ہی خونریز معرکے لڑے گئے۔ مرتدین کے قدم اکھڑ گئے ۔ان کا جانی نقصان اتنا زیادہ ہوا کہ وہ بوکھلا گئے۔ لوگ خوفزدگی کے عالم میں طلیحہ کے پاس جاکر پوچھتے تھے کہ وحی کب نازل ہو گی؟ اور خدا کی مدد کب آئے گی؟

اس وقت طلیحہ اپنے خیمے میں دُبکا ہو ابیٹھاتھا۔ اس وقت اتنا زیادہ کشت و خون ہو چکا تھا کہ طلیحہ کو نبی ماننے والوں کی آنکھیں کھل چکی تھیں اور اس کے اپنے لوگوں کی آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔

’’طلیحہ کذاب ہے۔‘‘

’’لوگو! مت جانیں گنواؤاس جھوٹے آدمی پر۔‘‘

’’بھاگو‘ اپنی جانیں بچاؤ۔‘‘

’’ہم دھوکے میں مارے جا رہے ہیں۔‘‘

بنو فرازہ کے جو آدمی بچ گئے تھے وہ بھاگ اٹھے۔ ناصرہ بنت ِجبار لڑائی کے میدان میں اپنے خاوند اور اپنے دونوں بیٹوں کو پکارتی اور پاگلوں کی طرح دوڑتی پھر رہی تھی۔ اُسے اپنے خاوند کی لاش نظر آگئی جو خون میں نہائی ہوئی تھی۔ وہ خاوند کی لاش کے قریب بیٹھ کر سینہ کوبی کرنے لگی۔

’’تو حق پر اپنی جان دیتا تو میں آج اپنا سر نہ پیٹ رہی ہوتی ۔‘‘ناصرہ کہہ رہی تھی۔’’ تو ایک جھوٹے آدمی کے فریب میں آکر اپنی جان اور میرا سہاگ گنوا بیٹھا۔ اپنے دونوں بیٹوں کو بھی تو اپنے ساتھ لیے جا رہا ہے۔ میں رونے اور چلّانے کیلئے اکیلی رہ گئی ہوں۔‘‘

اس نے اپنے بیٹوں کو نہ ڈھونڈا ۔اپنے خاوند کی لاش او ردور دور تک بکھری ہوئی لاشیں دیکھ کر اسے یقین ہو گیا کہ اس کے بیٹے بھی مارے گئے ۔وہ کچھ دیر اپنے خاوند کی لاش پر روتی بین کرتی اور سینہ کوبی کرتی رہی۔ وہ اچانک چپ ہو گئی اور خلا میں گھورنے لگی۔ اس کے دانت پس رہے تھے۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور طلیحہ کے خیمے کی طرف دوڑ پڑی۔

’’طلیحہ کذاب ہے۔‘‘ وہ چلّاتی جا رہی تھی۔’’ طلیحہ نبی نہیں ہے۔ کہاں ہے جھوٹا نبی؟ میں اس کا منہ نوچ لوں گی۔ اس کی کھال اُدھیڑ دوں گی۔ اپنے دو جوان بیٹوں اور ان کے باپ کے خون کا انتقام لوں گی۔‘‘

طلیحہ اپنے خیمے میں تھا۔ اس کی بیوی نوار اس کے ساتھ تھی۔ خیمے کے باہر ایک گھوڑا اور ایک اونٹ بندھا ہو اتھا۔ دونوں سواری کیلئے تیار کھڑے تھے ۔خیمے کے اردگرد وہ آدمی جمع ہو کر شوروغل بپا کر رہے تھے جو مسلمانوں کے ہاتھوں کٹنے سے بچ گئے تھے۔

’’طلیحہ باہر آؤ‘ سچے ہو تو معجزہ دکھاؤ۔‘‘

’’ہمیں بتاؤ‘ ہم کیاکریں ۔‘‘

’’سچے نبی ہو تو ڈرتے کیوں ہو؟ باہر آؤ۔‘‘

یہ لوگوں کی پکار تھی۔ ان کی آوازیں آپس میں گڈ مڈ ہو رہی تھیں اور شور بڑھتا جا رہا تھا۔

طلیحہ اپنی بیوی کے ساتھ باہر نکلا ۔اس نے اونٹ کو بٹھایا اور اس پر اپنی بیوی کو سوار کرا کے اونٹ کو اٹھا دیا۔ پھر گھوڑے پر سوار ہوا۔

’’تم پوچھتے ہو اب کیاکریں۔‘‘ طلیحہ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا۔’’ میں بتاتا ہوں ‘جن کے پاس گھوڑے اور اونٹ ہیں وہ میری طرح ان پر خود بھی سوار ہوں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی سوار کرائیں اور بھاگ جائیں۔‘‘

’’ٹھہر جا جھوٹے نبی!‘‘یہ ناصرہ کی آواز تھی۔ وہ دوڑی آرہی تھی۔’’ میں تیرا گلا گھونٹ دوں گی ۔‘‘

طلیحہ نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور اس کی بیوی نے اونٹ دوڑا دیا۔ گھوڑا اور اونٹ لوگوں کے ہجوم کو چیرتے نکل گئے اور کچھ دور جا کر نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

اس دن کے بعد طلیحہ کسی کو نظر نہ آیا۔

یہ اُن دنوں کا واقعہ ہے جب ابو بکرؓ خلیفہ تھے ۔

کسریٰ پرویز چار پانچ دنوں بعد واپس آیا۔ اس عرصے میں ازدیبا دو بار شیرویہ سے ملی۔ اس نے اپنے دل کش جسم اور قیامت خیز شباب کی حرارت سے اور زبان کے جادو سے شیرویہ کو باپ کا جانی دشمن بنا دیا۔

اس دوران جرنیل اور چار پانچ اعلیٰ افسر شیرویہ سے ملتے رہے اور اسکے دماغ پر نقش کر دیا کہ کسریٰ فارس وہی ہے۔ اس کا باپ سلطنت کو تباہ کر دے گا۔

کسریٰ پرویز واپس آگیا ۔ایک دو دنوں بعد وہ ازدیبا کو ساتھ لیے تختِ طاؤس پر بیٹھا تھا۔شیرویہ بھی دربار میں موجود تھا۔ رسول ﷺکا ایلچی پیغام لے کر آگیا جو کسریٰ پرویز نے پھاڑ کر اس کے ٹکڑے بکھیر دیئے ۔اس کے ساتھ ہی اس نے حاکم یمن کو حکم بھیجا کہ محمد )ﷺ(کو گرفتار کر کے ہمارے دربار میں پیش کرو۔ شیرویہ یہ دیکھ دیکھ کر آگ بگولہ ہو رہا تھاکہ پرویز ازدیباکے بالوں ،گالوں اور ہاتھوں سے کھیل رہا تھا۔

اِدھر مسلمانوں کا لشکر عراق میں داخل ہو گیا۔ سلطنت ِفارس کی فوج کے مقابلے میں مجاہدین کی نفری آدھی بھی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ فارس کی فوج نیم زرہ پوش تھی۔ اس کے باوجود مجاہدینِ اسلام نے فارس کی فوج کو ہر میدان میں پسپا کیا اور ان کے ہر قلعے پر اسلام کا پرچم لہرایا اور فارسی اپنے زخمیوں اور لاشوں کو چھوڑ کرپسپا ہوتے چلے گئے۔ مجاہدین کے سپہ سالار خالدؓ بن ولید اور ان کے دستِ راست مثنیٰ بن حارثہ تھے۔

مجاہدینِ اسلام نے دریائے فرات کے کنارے پر بیشتر شہر اور قصبے فتح کر لیے اور اب وہ مدائن کی طرف بڑھ رہے تھے ۔جو سلطنت ِفارس کا دارالحکومت تھا۔

مدائن محلات کا شہر تھا۔ یہ فارس کے بادشاہوں کی گدّی تھی۔ یہ ایک ہنستا مسکراتا بارونق شہر تھا۔ لیکن اس شہر کی مسکراہٹیں غائب ہو گئیں اور سارے شہر پر خوف و ہراس طاری ہو گیا۔ مسلمانوں کے راستے میں آنے والے شہروں سے بھاگے ہوئے لوگ مدائن پہنچ رہے تھے۔ ان مین زرتشت کے پجاری اور عیسائی تاجربھی تھے ۔ ان کے پاس مال و دولت تھا۔ جسے مسلمانوں سے بچانے کی خاطر وہ بھاگتے اور پناہیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے ۔قلعوں اور میدانِ جنگ سے بھاگے ہوئے افسر، عہدیدار اور سپاہی بھی مدائن پہنچ رہے تھے ۔شہری بھی خاصی تعداد میں پہنچے تھے۔ انہوں نے مدائن میں مسلمانوں کی دہشت پھیلا دی۔

ایک روز فارس کے امراء و وزرا اور کئی زعماء اکٹھے ہوئے۔

’’کیا تم سب سلطنت ِفارس کی یہ ذلت و رسوائی برداشت کر رہے ہو؟‘‘ ان میں سے سب سے زیادہ معمر امیر نے کہا۔

’’ذلت و رسوائی نہیں تباہی کہیں۔‘‘ ایک اور امیر بولا۔ ’’آدھے سے زیادہ عراق پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ ہماری وہ فوج جس نے روم کے ہرقل کو شکست دی تھی ،اب عرب کے پسماندہ بدوؤں کے آگے پسپا ہوتی اور ہتھیار ڈالتی چلی آرہی ہے۔ زرتشت کی لعنت ہو ہم پر کہ ہم مدائن بھی مسلمانوں کے حوالے کرکے چلتے بنیں……اب آپ بولیں محترم بزرگ……‘‘

’’میں نے جو کہنا تھا وہ تم نے کہہ دیاہے۔‘‘ معمر بزرگ نے کہا۔’’تم سب جانتے ہو کہ اس تباہی کی وجہ کیا ہے……خانہ جنگی……یہ بھی ایک قسم کی خانہ جنگی ہے۔ ایک گروہ ایک آدمی کو تخت پر بٹھاتا ہے تو دوسرا گروہ اُسے قتل کرکے اپنے آدمی کو تخت پر بٹھا دیتا ہے۔ یہ تمام بادشاہ قتل ہونے کے ہی قابل تھے۔اگر ہم یہ خونی کھیل تماشائیوں کی طرح دیکھتے رہے تو سلطنت ِفارس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ خود ہم لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں ایک دوسرے کے حق میں مخلص نہیں۔ ہم اندر سے ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ ذرا سوچو کہ سلطنت ِفارس ہی نہ رہی تو کیا مسلمان یا رومی تمہیں یہ حیثیتیں یہ رتبے دیں گے جو ہمیں حاصل ہیں؟ہم غلام ہوں گے ۔ ہماری بیٹیاں لونڈیاں بنا لی جائیں گی……اور تم جانتے ہو کہ اور کیا کچھ ہو جائے گا۔‘‘

’’وہ ہم جانتے ہیں۔ ‘‘ایک نے کہا۔ ’’یہ بتائیں کہ اب ہمیں کرنا کیا چاہیے۔ ہمارے پاس باتوں کا وقت نہیں۔‘‘

’’میں نے پہلے سوچا تھا کہ مسلمانوں کو دولت شراب اور انتہائی حسین لڑکیوں کے ذریعے کمزور کر دیاجائے۔‘‘ معمر بزرگ نے کہا۔’’ یہودی ہمارے ساتھ ہیں۔ عیسائی ہمارے ساتھ ہیں۔خود فارس میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین لڑکی موجود ہے۔ دولت کی ہمارے پاس کمی نہیں۔ ہم یہ حربے بھی آزماچکے ہیں لیکن مسلمان اس جال میں آنے والی قوم نہیں ۔ یہودی لڑکیوں کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمان قبیلوں کے بعض سرداروں کی بیویاں بنایا گیاتھا۔ ان لڑکیوں میں سے تین تو مسلمانوں کے اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کرلیا اور باقی قتل ہو گئیں۔ کیونکہ ان کی اصلیت ظاہر ہو گئی تھی۔‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’وہ اس طرح کہ انہیں یہ کام دیا گیا تھا کہ مسلمان عورتوں میں فارس کی فوج کی دہشت پھیلائیں۔ ‘‘معمر دانشور نے کہا۔’’ اور اپنے خاوندوں کو بھی ڈراتی رہیں کہ فارس کی فوج میں ہاتھی ہیں جو دشمن کی فوج کو کچل دیتے ہیں۔ ان لڑکیوں کو بتایا گیا تھا کہ اپنے خاوندوں کے ساتھ ایسی محبت کا اظہار کریں کہ وہ پاگل ہو جائیں۔ لیکن مسلمان صرف جذبہ جہاد سے پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ اس طرح ان لڑکیوں کی اصلیت کھل گئی اور وہ قتل ہو گئیں……

باقی رہی دولت……قلعے جو مسلمانوں نے فتح کر لیے ہیں، سونے چاندی سے بھرے ہوئے تھے۔ ان کے سپہ سالار نے مالِ غنیمت اپنے لشکر میں تقسیم کرکے باقی اپنے خلیفہ کو بھیج دیا۔ مجھے توقع تھی کہ یہ سالار اتنا زیادہ مال و دولت دیکھ کر خود مختاری کا اعلان کر دیں گے اور مفتوحہ علاقوں میں اپنی بادشاہی قائم کر لیں گے۔ لیکن یہ لوگ اپنے خلیفہ اور اپنے مرکز کو دھوکہ نہیں دیتے۔‘‘

’’ان کی فتح کی وجہ بھی یہی ہے۔‘‘ ایک وزیر نے کہا۔

’’سب سے بڑی وجہ ایک اور ہے۔ ‘‘معمر بزرگ نے کہا۔’’ ان مسلمانوں میں خوشامد پسندی کی لعنت نہیں۔میں نے معلوم کروایا ہے۔ کوئی آدمی اپنے خلیفہ کی، اپنے امیر کی، اور اپنے سالار کی خوشامد نہیں کرتا۔ ان کے ہاں شاہی دربار نامی کوئی چیز نہیں۔ خلیفہ مسجد میں بیٹھ کر حکم جاری کرتاہے اور جس کسی کو کوئی اعتراض ہو تو وہ بے دھڑک اعتراض کرتا ہے۔ فارس کی شہنشاہی کو خوشامدی دیمک کی طرح کھا رہے ہیں۔ تخت پر قتل و غارت خوشامدیوں نے کرائی ہے۔خوشامدی کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ اور خوشامد ایسامیٹھا زہر ہے جو پتھر کو بھی پگھلا دیتا ہے……

اب میں اصل بات پر آتا ہوں ‘عہد کرو کہ ہم میں کوئی بھی خوشامد نہیں کرے گا۔ اور نہ کسی سے خوشامد کی توقع رکھے گا۔ خوشامد کو جرم قرار دے دیا جائے۔ اب ہمارا بادشاہ اردشیر ہو گا۔ اردشیر میں یہ خوبی ہے کہ مردِ میدان ہے اور جنگی قیادت کا ماہر ہے۔ ہمیں اس وقت بادشاہ کی نہیں بلکہ لڑنے اور لڑانے والے قائد کی ضرورت ہے……اگر کسی کو اعتراض ہے تو بولے۔‘‘

سب نے تائید کی اور اردشیر کو بلایا گیا۔ اردشیر نوشیرواں عادل کا پوتا تھا ۔ اسے ان امراء وغیرہ نے تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ وہ سلطنت ِفارس کو سنبھالے۔

’’آپ اتنی بڑی ذمہ داری مجھے سونپ رہے ہیں۔‘‘ اردشیر نے کہا۔’’ تو کیا میں اسے قبول نہیں کروں گا؟……ہماری فوج کی شکست و پسپائی کی وجہ آپس کی دشمنی اور خون خرابہ ہے۔ اس کی ذمہ داری آپ لیں۔ میں تخت پر نہیں بیٹھوں گا۔ میں وہاں جاؤں گا، جہاں مسلمان فتح پر فتح حاصل کر رہے ہیں ۔ خالدؓ بن ولید کو مسلمانوں نے آسمان سے اترا ہوا فرشتہ بنا رکھا ہے۔ میں اسے زندہ پکڑ کر لاؤں گا۔‘‘

اور وہ محا ذپر چلا گیا۔

٭

اُردشیر اب صرف جرنیل ہی نہیں تھا بلکہ شہنشاہِ فارس بھی تھا۔ وہ بگولے کی طرح محاذ پر گیا۔ اس نے اپنی فوج کے افسروں کو برا بھلا کہا۔ چھوٹے کمانڈروں کو گالم گلوچ کی‘ فوج سے خطاب کیا۔ سپاہیوں کو شرم دلائی اور اعلان کیا کہ بھگوڑوں کو گھوڑوں کے سموں تلے روند دیا جائے گا اور پسپا ہونے والے افسروں اور عہدیداروں کو ان جھیلوں میں زندہ پھینک دیاجائے گا جن میں مگر مچھ رہتے ہیں۔

’’عرب کے ان بدوؤں کو عراق سے نکال دو۔‘‘

’’خالد بن ولید کو زندہ یا مردہ میرے سامنے لاؤ۔‘‘

’’ان کے سالاروں کو زندہ پکڑ لاؤ۔‘‘

’’میں تمہیں مدینہ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

وہ دھماکوں جیسی آواز میں بول رہا تھا۔ اس کی آواز پر عزم تھی، وہ بڑ نہیں ہانک رہا تھا۔فارس کی فوج اس وقت کی زبردست فوج تھی۔ جس کے مقابلے میں مسلمانوں کے لشکر کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے تھے۔ یہ تو ممولے اور شہباز کی لڑائی تھی۔ لیکن فارس کی فوج پسپا ہوتی ہی چلی جا رہی تھی اور اردشیر بھی اپنی فوج کی اس پسپائی کو روک نہ سکا۔

مسلمانوں میں وہ کون سی طاقت تھی جس کے آگے فارس کی فوج پسپا ہوتی چلی جا رہی تھی؟……اس سوال کا جواب اس ایک واقعہ سے ملتا ہے۔ خالدؓ بن ولید کی قیادت میں مجاہدینِ اسلام کا لشکر ایک شہر امینشیا تک پہنچا۔ سلطنتِ فارس کے اس شہر کو دولت مندوں کا شہر کہاجاتا تھا۔ وہاں امیر کبیر تاجر‘ جاگیر دار اور شاہی خاندان کے پروردہ لوگ رہتے تھے۔

خالدؓ بن ولید اپنے لشکر کے ساتھ اس قلعہ بند شہر کو محاصرے میں لینے لگے تو دیکھا کہ شہر کے تمام دروازے کھلے پڑے ہیں اور شہر کی دیوار پر ایک بھی سپاہی نظر نہیں آتا ۔ اسے دھوکا سمجھا گیا۔ خالد ؓبن ولید نے خطرہ مول لیا، اور سوار دستے کو شہر میں بھیجا،۔کچھ بھی نہ ہوا۔ سوا روں کے پیچھے مزید سواروں اور پیادوں کو اندر بھیجا گیا۔

خالد ؓبھی اندر چلے گئے۔

شہر میں خاموشی تھی۔ لوگوں کے گھروں کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ اگر کوئی جاندار نظر آتا تو وہ بلیاں ‘کتے اور پرندے تھے۔ خالدؓ بن ولید نے حکم دیا کہ گھروں میں داخل ہو جاؤ اور تلاشی لو۔ کسی بھی گھر میں کوئی انسان نہیں تھا۔ لوگ اپنا سامان اور قیمتی چیزیں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ۔ وہ ایسی گھبراہٹ میں بھاگے تھے کہ رقمیں اور سونے کے زیورات بھی ساتھ نہ لے جا سکے۔

ایک مکان میں ایک ضعیف العمر بوڑھا پڑا اونگھ رہاتھا۔ اس نے بتایا کہ اس شہر پر مسلمانوں کی دہشت اتنی زیادہ طاری تھی کہ یہاں خبر پہنچی کہ مسلمانوں کا لشکر ادھر آرہا ہے تو سب سے پہلے فوج کے افسر شہر سے بھاگے پھر فوج بھی نکل گئی۔ لوگوں کو فوج پر ہی بھروسہ تھا ۔وہ بھی بھاگ گئی تو لوگ بھی اٹھ دوڑے۔

خالدؓ نے حکم دیا کہ تمام گھروں سے قیمتی اشیاء باہر لاکر ایک جگہ اکٹھی کر لی جائیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ریشمی کپڑوں اور قیمتی اشیاء کا بہت بڑا ڈھیر لگ گیا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ مجاہدین یہ سامان دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ انسان کی عیش و عشرت کیلئے اتنا قیمتی سامان بھی ہوتا ہے ۔خالد ؓنے دیکھ لیا کہ اکثر مجاہدین خوش ہو رہے تھے کہ انہیں یہ قیمتی سامان ملے گا۔

’’آگ لگا دو اس سامان کو۔‘‘ خالد ؓبن ولید نے حکم دیا۔’’ یہ عیش و عشرت کا وہ سامان ہے جس نے فارسیوں کو اتنا بزدل بنا دیا ہے کہ ہماری پیشقدمی کی اطلاع پر ہی بھاگ گئے ۔ان کے مکان اور محل دیکھ لو۔ اﷲ جسے تباہ کرنا چاہتا ہے اسے عیش و عشرت میں ڈال دیتا ہے۔‘‘

اس سامان کو آگ لگا دی گئی۔ سونا ہیرے جواہرات اور رقمیں الگ کر لی گئیں ۔ان کا پانچواں حصہ مدینہ خلیفہ ابو بکر ؓکو بھیج کر باقی تمام مال لشکر میں تقسیم کردیا گیا۔

یہ تھا مسلمانوں کا کردار، اور یہی مسلمانوں کی وہ طاقت تھی جس نے فارس جیسی طاقتور فوج کو پسپائی بلکہ بھگدڑ پر مجبور کر دیا تھا۔

٭

اُردشیر جب خالدؓ بن ولید اور مثنیٰ بن حارثہ کی طوفانی پیشقدمی کے آگے ناقابل ِتسخیر چٹان بننے کیلئے نکلا تھا تو اس کے کانوں میں یہی ایک آواز پڑی تھی ۔مسلمانوں نے فلاں شہر بھی لے لیا ہے اور فا رس کی فوج حوصلے جذبے ہارے بھاگی چلی آرہی ہے۔ اسے جب یہ اطلاع ملی کہ حیرہ شہر میں بھی مسلمان داخل ہو گئے ہیں تو اُردشیر بیمار پڑ گیا۔ حیرہ اتنا بڑا اور خوبصورت شہر تھاکہ اسے سلطنت ِفارس کا ہیرا کہا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے یہ شہر بغیر مقابلے کے لے لیا تھا۔

فرات کے کنارے جو لڑائیاں ہوئیں وہ فارس کی فوج کی پسپائی پر ختم ہوتی رہیں ۔ حضرت خالدؓ نے اپنے سالاروں کوصلاح و مشورے کیلئے بلایا ۔

’’کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ فارسی ہمیں تھکا رہے ہیں؟……‘‘خالد ؓنے کہا۔’’یہ ایک جگہ سے بھاگ کر اگلے شہر یا علاقے کی فوج میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ وہاں ہمیں پہلے سے زیادہ لڑنا اور نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ آخر یہ فوج کسی قلعے یا میدان میں ہمارے مقابلے میں قدم جما لے گی۔ ہم تھکے ہوئے ہوں گے اور یہ فوج بڑی آسانی سے ہمیں نا صرف شکست دے گی بلکہ ہمارا قتل عام کرے گی۔ کیا میرایہ حکم ظالمانہ ہوگا کہ اگلی لڑائی میں فارس کے کسی فوجی کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔ خواہ وہ جنگی قیدی ہی ہو؟‘‘

’’نہیں ابن ولید!‘‘ دو تین سالاروں نے بیک زبان کہا‘اور ان میں سے ایک نے کہا،۔’’اس سے پہلے کہ ہمارا قتل ِعام ہو‘ ہم ان کا قتلِ عام کریں گے۔ جو ان لڑائیوں میں ہمارے ہزاروں ساتھیوں کو شہید کر چکے ہیں۔‘‘

تمام سالاروں نے خالدؓ بن ولید کے فیصلے کی تائید کی۔

اگلی لڑائی زیادہ خونریز تھی۔ اس لڑائی کی تفصیلات سنانے کا یہ موقع نہیں۔ آخر میں یوں ہوا کہ فارس کی فوج جس کی نفری مسلمانوں کے مقابلے میں تقریباً پانچ گنا تھی پسپا ہونے لگی۔ خالدؓ نے حکم دیا کہ انہیں پسپا نہ ہونے دیا جائے اور انہیں زندہ پکڑا جائے۔

گھوڑ سوارمجاہدین نے بھاگتے ہوئے فوجیوں کا تعاقب کیا اور انہیں گھیر گھیر کر پیچھے لانے لگے ۔خالدؓ کے حکم سے انہیں دریائے خسیف کے کنارے لاکر اس طرح قتل کیا جانے لگا کہ ان کے سر دریا میں گرتے اورجسم کنارے پر۔ فارس کی فوج میں تقریباً آدھی نفری عیسائیوں کی تھی۔ مسلسل تین دن فارس کی فوج کے آتش پرستوں اور عیسائیوں کو قتل کیا جاتا رہا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فارس کی فوج کے ستر ہزار افرادکو قتل کیا گیا۔ ان کا خون دریا میں گرتاتھا ۔دریا کا پانی لال ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخوں میں اس دریا کو دریائے خون لکھا گیا ہے۔

غیر مسلم مؤرخوں نے خالدؓ کے اس قتلِ عام کو ظالمانہ کہا ہے ۔لیکن خالدؓ کا خیال کچھ اور تھا۔ انہوں نے کہا۔ ’’میں نے اﷲ سے عہد کیا تھا کہ کفار کے خون کا دریا بہاؤں گا۔ میں نے اپنا عہد پورا کیا ہے۔‘‘

اس عہد کے علاوہ خالدؓ نے دشمن کی ستر ہزار فوج کو جہنم واصل کرکے اپنے راستے کی رکاوٹ اور مزاحمت کو ختم کر دیا تھا۔

جب یہ خبر اردشیر تک پہنچی تو اس کی حالت بگڑنے لگی۔ اس پر خاموشی طاری ہو گئی‘ اورکوئی پراسرار روگ اسے اندر ہی اندر کھانے لگا۔ اس کی بھوک اور نیند ختم ہو گئی۔ شاہی طبیب اسے صحت یاب کرنے کی سرتوڑکوششیں کرتے رہے۔ لیکن اردشیر جو اپنے دور کا فرعون تھا۔ گھلتا اور پگھلتا ہی چلاگیا۔ آخر طبیب اس کا روگ سمجھ گئے۔ انہوں نے محل میں سختی سے یہ حکم جاری کرادیا کہ اردشیر تک اپنی فوج کی شکست اور پسپائی کی خبر تک نہ پہنچنے پائے۔

اردشیر کو پے در پے شکستوں کا صدمہ لے بیٹھا تھا۔

طبیبوں نے یہ طریقہ بھی آزمایا کہ اردشیرکو فارس کی فتح کی جھوٹی خبریں سنائی جانے لگیں ۔لیکن اردشیرایسا حقیقت پسند تھا کہ ان خبروں کو سچ نہیں مانتا تھا۔ آخر ایک روز اس صدمے نے اس کی جان لے لی۔

٭

حضرت عمرؓ فاروق کے دورِ خلافت میں واپس آنے سے پہلے ہم فارس کی شہنشاہی کی داستان سنادینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس شہنشاہی کے تخت پر بیٹھے ہوئے ایک شہنشاہ نے رسول اﷲﷺ کے پیغام کی ہی توہین نہیں کی تھی بلکہ حضور ﷺکو گرفتار کرکے اس کے دربار میں پیش کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ کسریٰ کی سلطنت ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ کسریٰ کے محل پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺکی توہین کی پاداش میں کس طرح قہر نازل کیا۔

اُردشیر مر گیا تو فارس کی شہنشاہی نے زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے۔ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ تخت کی وراثت پر ایک بار پھر شاہی خاندان میں خون خرابہ شروع ہو جائے گا ۔ وطن اور قوم پرست امراء وزراء نے اردشیرکی بیٹی آزرمیدخت کو تخت پر بٹھا دیا۔

آزرمیدخت جواں سال لڑکی تھی، اور بہت حسین تھی،۔شہسوار اور تیغ زن تھی، اور امورِ سلطنت کو بڑی اچھی طرح سمجھتی تھی۔ اس میں کچھ ایسے ہی جوہر دیکھ کر اسے تخت پر بٹھایا گیا تھا۔ لیکن اس نے کچھ اور ہی جوہر دکھانے شروع کر دیئے۔ ملکۂ فارس بننے سے پہلے وہ شہزادی تھی۔ شہزادوں اور شہزادیوں کو ہر گناہ کی کھلی چھٹی ہوتی تھی ۔لیکن ملکہ بن کر اس شہزادی پر پوری سلطنت کی ذمہ داری آپڑی۔ سلطنت کی حالت یہ تھی کہ عراق کا بیشتر حصہ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا تھا اور مسلما ن اس طاقتور سلطنت کو روندتے چلے آرہے تھے۔ اس صورتِ حال میں فارس کا تخت پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بچھونا بن گیا تھا۔

وہاں سیادخش نام کا ایک جوان آدمی تھا۔ جو شاہی خاندان کے دور پار کے رشتے داروں میں سے تھا۔ محل کی دنیا کے باسی جانتے تھے کہ آزرمیدخت سیادخش میں جو دلچسپی لیتی ہے وہ عام قسم کی دلچسپی نہیں۔ اُنہیں محل کے باہر جنگل میں بھی اکٹھے دیکھا گیا تھا۔ لیکن کسی نے کبھی اعتراض نہیں کیاتھا۔شہزادی شکار کھیلنے جایا کرتی تھی تو سیادخش بظاہر اتفاق سے اُدھر جا نکلتا تھا ۔یہ شہزادی تخت پر بیٹھی تو اس نے اپنے آپ کو سیاہ و سفید کا مالک سمجھ لیا۔ اس نے پہلا کام یہ کیا کہ سیادخش کو بیشمار جاگیر عطا کر دی اور اسے حکومت میں ایک اونچا رتبہ دے دیا۔ پھر اس نے سیادخش کے خاندان پر نوازشات کا مینہ برسا دیا۔

’’ملکہ عالیہ! ‘‘ایک روز بوڑھے وزیر نے اسے کہا۔’’آپ کو تخت پر اس لیے نہیں بٹھایا گیاتھا کہ تخت خالی نہیں رہنا چاہیے۔ نہ ہی یہ تخت آپ کو ورثے میں ملاہے۔ ہم نے آپ میں کچھ خوبیاں دیکھی تھیں۔ سلطنت کی حالت دیکھیں اور ا س کے مطابق حکم جاری کریں۔سلطنت کو مسلمانوں سے بچانا ہے مگر آپ نے انعام و اکرام کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔‘‘

’’کیا میں خود آگے جا کر لڑوں؟‘‘آزرمیدخت نے طنزیہ لہجے میں کہا۔’’ ہم نے اتنی بڑی فوج کیوں رکھی ہوئی ہے؟آدھا خزانہ تویہ فوج کھا جاتی ہے۔ آج سے یہ میراحکم ہے کہ قلعے میں یا کسی میدانِ جنگ میں ہماری فوج شکست کھا جائے تو اس کے جرنیل کو یہاں بلا کر قتل کر دیا جائے۔ ہم بزدلوں کا وجود برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘

’’ملکہ عالیہ!‘‘ وزیر نے کہا۔’’اگر ہم شکست کھانے کے جرم میں جرنیلوں کو سزائے موت دینے لگتے تو اس وقت تک ہم آدھے سے زیادہ جرنیلوں سے محروم ہو چکے ہوتے……ملکہ عالیہ! جنگ ایک کی جیت اور دوسرے کی ہار پر ختم ہو اکرتی ہے۔ ایک بار ہارا ہو اجرنیل دوبارہ نہیں ہارا کرتا۔ ہمارے جرنیلوں نے رومیوں کو شکستیں دی ہیں۔ آپ کے اس حکم کو کوئی بھی پسند نہیں کرے گا۔ ایک جرنیل کو سزائے موت دینے سے ساری فوج میں بغاوت پھیل سکتی ہے ……آپ جنگ کی صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کریں۔‘‘

’’آپ وزیر ہیں۔‘‘ آزرمیدخت نے کہا۔’’ جنگ کی صورتحال پر آپ نظر رکھیں اور جو فیصلہ آپ سے نہیں ہو سکتا وہ مجھ سے کروائیں۔‘‘

٭

اُدھر مسلمان بڑھے آرہے تھے اِدھر آزرمیدخت سیادخش کے ساتھ عشق و محبت کا کھیل کھیل رہی تھی۔ وہ جوانی کے جذبات سے سرشار ضیافتوں اور شکار کی رسیا ہوتی چلی گئی۔ سیادخش کو اس نے اتنا اونچا رتبہ دے دیا تھا کہ وہ الٹے پلٹے حکم جاری کرنے لگا۔

ایک رات ملکہ ٔعالیہ اکیلی باہر نکل گئی۔ اس کے محافظ دستے کے کمانڈر نے وزیر کے گھر جا کر اسے بتایا کہ وہ ملکۂ عالیہ کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتا ۔ وہ اکیلی باہر چلی گئی ہے۔

وزیر گھر سے نکلا۔ اس نے شاہی خاندان کے دو تین آدمیوں کو ساتھ لیا اور اس طرف چلا گیا جس طرف ملکہ عالیہ گئی تھی۔ محل کے قریب ہی ایک بڑی خوبصورت ہری بھری جگہ تھی۔ گھاس مخمل جیسی ملائم تھی۔ چاندنی بڑی شفاف تھی۔ تھوڑی ہی دور سے نسوانی قہقہے سنائی دینے لگے۔

وزیر اور اس کے ساتھی دبے پاؤں جھاڑ پات اور درختوں کی اوٹ میں آگے گئے۔ انہوں نے ملکہ ٔعالیہ اور سیادخش کو فحش حرکات کرتے دیکھا ۔ان سب نے آگے بڑھ کر انہیں گھیرے میں لے لیا۔

’’یہ کیا بد تمیزی ہے؟‘‘آزرمیدخت نے ان سب کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔’’ تمہیں ملکہ کی تنہائی میں مخل ہونے کی جرأت کیسے ہوئی؟‘‘

’’اس وقت سے تم ملکہ نہیں ہو۔‘‘ شاہی خاندان کے ایک فرد نے کہا۔’’ اُدھر سلطنت ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے اِدھر تم بد کاری میں مگن ہو۔ واپس چلو۔‘‘

’’اگر میں تمہارا حکم نہ مانوں تو……‘‘

’’تو تمہارے ساتھ تمہاری تنہائی کے اس ساتھی سیادخش کو بھی قید میں ڈال دیا جائے گا ۔‘‘وزیر نے کہا۔’’ خاموشی سے تخت سے دستبردار ہو جاؤ ورنہ تم دونوں کا انجام بہت برا ہو گا۔‘‘

سیادخش وہاں سے کھسک گیا اور آزرمیدخت ان سب کے ساتھ چل پڑی۔

اگلے روز اس خاندان کے ایک اور فرد شاہ پور کو تخت پر بٹھا دیا گیا۔ شاہ پور کو پہلے بھی تخت پر بٹھایا جا سکتا تھا۔ لیکن وہ آگے جا کر لڑنا چاہتا تھا۔ اب آزرمیدخت کے روےّے کو دیکھتے ہوئے تخت نشینی قبول کرلی۔ اس نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے ایک معتمد اور دانشمند فرخ زاد کو وزیر بنا دیا۔

’’آزرمیدخت! ‘‘ایک روز شاہ پور نے آزرمیدخت کو بلا کر حکم دیا۔’’ تمہاری شادی نئے وزیر فرخ زاد سے کی جا رہی ہے۔ اگر تمہاری شادی بہت پہلے ہو جاتی تو تم سیادخش جیسے عام سے آدمی کے ساتھ عشق و محبت کا یہ شرمناک کھیل نہ کھیلتیں۔ اب میں تمہیں آزاد نہیں رہنے دوں گا۔‘‘

’’فرخ زاد میری رعایا میں سے ہے۔ ‘‘آزرمیدخت نے کہا۔ ’’وہ میرا ملازم ہے۔ میرا غلام ہے۔‘‘

’’اچھی طرح سن لے شہزادی!‘‘شاہ پور نے کہا۔ ’’تمہاری شادی فرخ زاد سے ہو رہی ہے۔ حکم عدولی کی جرأت تمہیں بڑے بھیانک انجام کو پہنچائے گی۔‘‘

دو چار دنوں کے بعد آزرمیدخت کو فرخ زاد کے ساتھ بیاہ دیا گیا۔

فرخ زاد کوئی جوان آدمی نہیں تھا۔ اس کی عمر ساٹھ سال سے کچھ کم تھی اور وہ تاریخ کے ایک مشہور جرنیل رستم کا باپ تھا۔

شادی کی پہلی رات فرخ زاد حجلۂ عروسی میں داخل ہوا اور آزرمیدخت کی طرف بڑھا جو دلہن بنی بیٹھی تھی۔

’’میرے قریب نہ آنا۔‘‘ آزرمیدخت نے اسے کہا۔’’ جہاں کھڑے ہو وہیں کھڑے رہو۔‘‘

’’کیا تم ابھی تم اپنے آپ کو ملکہ سمجھ رہی ہو۔ ‘‘فرخ زاد نے کہا۔’’ کم عقل لڑکی!آج سے تم میری بیوی ہو۔‘‘

فرخ زاد آگے بڑھ ہی رہاتھا کہ کمرے کے اندر سے ہی سیادخش جو کہیں چھپا ہوا تھا نکلا۔ وہ عقب سے دبے پاؤں آیا اور فرخ زاد کو کمر سے دبوچ لیا، پھر اسے اٹھا کر پلنگ پر پھینکا۔ اس نے اور آزرمیدخت نے فرخ زاد کو پیٹھ کے بل کرکے ایک تکیہ اس کے منہ پر رکھ کر او پر سے دبا لیا۔ فرخ زاد بڑھاپے میں داخل ہو چکا تھا۔ سیادخش ابھی جوانی کی عمر میں تھا ۔فرخ زاد سانس رکنے سے تڑپا اور کچھ دیر تڑپ تڑپ کر بے حس ہو گیا۔

سیادخش وہاں سے چلا گیا اور آزرمیدخت نے شاہ پور کو اطلاع بھجوائی کہ فرخ زاد حجلۂ عروسی میں مر گیا ہے۔ محل میں ہنگامہ بپا ہو گیا۔ شاہ پور کے پیچھے طبیب دوڑے آئے ۔اس دور میں اس قسم کی موت کا باعث معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، طبیبوں نے کہا کہ فرخ زاد حرکت ِقلب اچانک بند ہونے سے مرا ہے۔ انہوں نے اس کی وجہ بڑھاپا بتائی۔

دو ہی دنوں بعد فارس کا شہنشاہ شاہ پور بھی اسی طرح پراسرار موت کاشکار ہو گیا اور آزرمیدخت نے اپنی تخت نشینی کا اعلان کر دیا اور اس نے یہ اعلان بھی کیا کہ تخت کا کوئی وارث سامنے آئے تو وہ شاہ پور جیسے انجام کو پہنچے گا۔ تب یہ شک ابھرا کہ شاہ پور کو قتل کیا گیا تھا۔

آزرمیدخت نے سیادخش کو وزیر سے بھی اونچا رتبہ دے دیا۔ اس حسین اور عیار عورت نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں سیادخش کے خاندان کو اعلیٰ عہدوں، رتبوں اور جاگیروں سے نوازا تھا، اس خاندان کے کچھ لوگ فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ انہوں نے مدائن میں مقیم فوج کو اپنے زیرِ اثر کر لیا اور فوج کو سر سبز باغ دکھا کر سلطنتِ فارس کے بجائے آزرمیدخت اور سیادخش کا وفادار بنا دیا۔ مدائن فارس کا دارالحکومت تھا۔

چند دنوں میں مدائن کی فوج صرف مدائن کی ہو کر رہ گئی۔ اس میں ہزار ہا عیسائیوں کی جبری بھرتی کے ذریعے اضافہ کرلیا گیا۔

٭

پوران دخت ایک اور شہزادی تھی۔ جسے تاریخوں میں اُردشیر کی بیٹی لکھا گیا ہے۔ اس نے فارس کے شاہی خاندان کے درمیان اختلافات اورامراء کی آپس کی عداوت اورتفرقہ بازی ختم کرنے کیلئے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ چونکہ وہ نیک طینت عورت تھی اور وہ مفاد پرست نہیں تھی۔ اس لیے ہر کوئی اس کی بات مان لیتا تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ اُدھر مسلمان فتح پر فتح حاصل کرتے آرہے ہیں اور مدائن تک کو محاصرے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور اِدھرآزرمیدخت نے سلطنت کی تباہی سے نظریں پھیر کر اپنی ذاتی حکومت بنا لی ہے تو وہ آزرمیدخت کے پاس گئی۔

پوران شہزادی نے اسے سمجھانے کیلئے بہت کچھ کہا۔ جو وہ خاموشی سے سنتی رہی۔

’’کیا تم یہ چاہتی ہو کہ میں تخت سے دستبردار ہو جاؤں؟‘‘ آزرمیدخت نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔’’ کیا اب تم فارس کی ملکہ بننا چاہتی ہو؟کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اس تخت نے کتنی جانیں لے لی ہیں؟‘‘

’’نہیں ملکۂ فارس!‘‘ پوران نے کہا۔’’ سوال تخت کا نہیں، اب تو سلطنتِ فارس کی بقا اور سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ تخت پر آپ ہی بیٹھی رہیں لیکن اہم امور کے فیصلے تجربہ کار مشیروں اور امراء کو کرنے دیں۔‘‘

’’میری بات غور سے سن لو پوران!‘‘ آزرمیدخت نے کہا۔’’ آج کے بعد میرے سامنے نہ آنا……میں ملکہ ہوں۔ سلطنت کے بھلے برے کو میں تم سے زیادہ بہتر سمجھتی ہوں۔ تم جن کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہو انہیں میں اچھی طرح جانتی ہوں ۔اس پندو نصیحت سے باز آجاؤ۔‘‘

’’میں پندونصیحت سے باز آجاؤں گی۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ لیکن سلطنتِ فارس کو خطرے سے بچانے کیلئے نہ جانے کیا کر گزروں گی ۔ میں ایک بار پھر کہتی ہوں کہ اس تخت نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی، اور یہ بھی سوچ لو کہ فارس ہی نہ رہا تو کیا مسلمان آپ کو تخت پر بٹھائیں گے؟‘‘

’’مسلمان مدائن کو فتح نہیں کر سکتے۔‘‘ آزرمیدخت نے کہا۔’’ اور کوئی مجھے اس تخت سے اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتا۔‘‘

’’ایسے جرأت مند لوگ موجود ہیں ملکہ!‘‘پوران نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

’’مجھے ایک بار تخت سے اُٹھا کر شاہ پور کو بٹھایا گیا تھا ۔‘‘ آزرمیدخت نے کہا۔ ’’کہاں ہے شاہ پور؟……مجھے مجبور اور بے بس کرنے کیلئے فرخ زاد کی بیوی بنا دیا گیا تھا۔ فرخ زاد کسریٰ کے خاندان کا فرد نہیں تھا، وہ شاہی خاندان کا ملازم تھا۔ میں اسے اپنا غلام سمجھتی تھی۔ میں اپنے غلام کی بیوی کیسے بن جاتی؟ میں نے شادی کی پہلی ہی رات اس کو اس کی زندگی کی آخری رات بنا دیا……اس تختِ طاؤس پر جو کوئی ہاتھ ڈالے گا وہ ان دونوں کے انجام کو پہنچے گا۔‘‘

پوران کو پہلے ہی شک تھا کہ فرخ زاد حرکت قلب بند ہونے سے نہیں مرا بلکہ اسے قتل کیا گیا ہے۔ اب آزرمیدخت کی باتوں سے یہ شک یقین میں بدل گیا۔

٭

فارس کا مشہور و معروف جرنیل رستم فرخ زاد کا بیٹا تھا۔ اسے یہی بتایا گیا تھا کہ اس کے باپ کی موت حرکتِ قلب بند ہونے سے واقع ہوئی تھی۔ وہ اس کو سچ مانتا رہا ۔وہ اس وقت خراسان کی سرحد پر تھا۔ ایک روز مدائن کا ایک گھوڑ سوار اس کے پاس سرحد پر پہنچا اور اسے پوران کا تحریری پیغام دیا۔ اس میں پوران نے مدائن کے حالات اور آزرمیدخت کی فرعونیت کی تفصیل لکھی اور پھر لکھا:

’’……آپ کے والد فرخ زاد کی موت طبعی نہیں تھی۔ میں نے محل کے ملازموں سے جو سراغ حاصل کیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے والد کو آزرمیدخت اور سیادخش نے شادی کی پہلی رات ان کا سانس روک کر قتل کیا تھا اور شاہ پور کو بھی ان دونوں نے قتل کیا تھا۔ آزرمیدخت نے مجھے کہا ہے کہ اس کے تخت پر جو کوئی بھی ہاتھ ڈالے گا، وہ ان دونوں کے انجام کو پہنچے گا……آپ پر دو فرائض عائد ہوتے ہیں۔ایک یہ کہ اپنے والد کے قتل کا انتقام لینا ہے اور دوسرا فرض سلطنت ِفارس کی عظمت کا تحفظ کرنا ہے۔ میں بتا چکی ہوں کہ آزرمیدخت اور سیادخش نے اپنا لشکر تیار کر رکھا ہے۔ جب بھی آئیں اکیلے نہ آئیں۔ پوری فوج ساتھ لائیں۔ آپ کو لڑائی لڑنی پڑے گی۔‘‘

رستم نے جب یہ پیغام پڑھا تو بگولے کی طرح اُٹھا ۔اس نے کچھ سوار دستے منتخب کئے اور کہا:

’’باہر کے دشمن کی نسبت اندر کا دشمن زیادہ خطرناک ہوا کرتا ہے ۔ خطرہ جو اپنے گھر سے اٹھتا ہے وہ باہر کے خطرے سے زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔ حکمرانی کے ہوس کار اپنے ہی ملک کو تباہ کر دیا کرتے ہیں۔ ہم اپنے ان ساتھیوں اور بھائیوں سے لڑنے جا رہے ہیں جو فارس کی اتنی بڑی شہنشاہی کیلئے خطرہ بن گئے ہیں ۔ تمہیں اپنی ہی فوج کے خلاف لڑنا ہو گا۔‘‘

رستم ان دستوں کو ساتھ لے کر چل پڑا۔ اس کی پیش قدمی بہت ہی تیز تھی ۔ کسی ذریعے سے آزرمیدخت اور سیادخش کو پتا چل گیا کہ رستم ان کے خلاف فوج لا رہا ہے۔ آزرمیدخت نے مدائن کی فوج کے چند دستے رستم کو روکنے کیلئے مدائن سے کچھ دور بھیج دیئے۔ رستم تیز و تند آندھی کی طرح آرہا تھا۔اس نے اپنے دستوں سے کہا کہ مدائن کی فوج کا ایک بھی آدمی واپس نہ جائے۔

رستم نے اپنے دستوں کو پہلے ہی مشتعل کر رکھا تھا ۔ ان سوار دستوں نے پھیل کر مدائن کی فوج کو گھیرے میں لے لیا۔رستم نامور اور تجربہ کار جرنیل تھا ۔ اس کی جارحانہ قیادت نے آزرمیدخت کے دستوں کو بے بس کر دیا۔ معرکے میں بہت خونریزی ہوئی ۔ آخر رستم کی فوج نے آزرمیدخت کی فوج کو کاٹ کر ڈھیر کر دیا۔

پھر رستم نے مدائن کو محاصرے میں لے لیا۔ مدائن کی فوج نے محاصرہ توڑنے کی بہت کوشش کی لیکن محاصرہ کرنے والوں کا قائد رستم تھا۔ شہر کے اندر پوران شہزادی موجود تھی اور آزرمیدخت اور سیادخش کے مخالف امراء بھی موجود تھے۔ انہوں نے کوئی ایسا خفیہ انتظام کیا کہ ایک دروازہ کھول دیا گیا۔ رستم کے دستوں کیلئے یہی کافی تھا۔ سوار اس دروازے سے شہر میں داخل ہو گئے اور ایک اور دروازہ کھل گیا۔

شہر کے اندر لڑائی شروع ہوئی تو پوران اور ا س کے حامی امراء گھوڑوں پر سوار ہو کر شہر میں بھاگنے دوڑنے لگے ۔رستم بھی اندر آگیا۔ یہ سب چلّا چلّا کر کہہ رہے تھے:

’’آپس میں نہ لڑو۔‘‘

’’تم بھائی بھائی ہو، ایک دوسرے کا خون نہ بہاؤ۔‘‘

’’انہیں قتل کروجو تمہیں لڑا رہے ہیں۔‘‘

’’تباہ ہو جاؤ گے ۔اپنی بہنوں کو بیوہ نہ کرو۔‘‘

اس طرح اعلان کر کر کے اس خانہ جنگی پر قابو پا لیا گیا۔ آزرمیدخت اور سیادخش کو اس وقت پکڑ لیا گیا جب وہ بھاگے کی کوشش کر رہے تھے۔ رستم نے تمام فوج کو ایک جگہ اکٹھا کر کے آزرمیدخت اور سیادخش کو ایک چبوترے پر کھڑا کیا اور فوج کے دونوں دھڑوں کو بتایا کہ ان دونوں نے کس طرح تخت و تاج کے لالچ میں بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا تھا۔

رستم نے ساری روداد سنا کر سیادخش کو آگے کیا اور اپنی تلوار سے اس کا سر تن سے جدا کر دیا پھر جلّاد کو بلا کر کہا گیا کہ آزرمیدخت کی آنکھیں نکال کر اسے شہر سے نکال دیا جائے۔

دو سپاہیوں نے آزرمیدخت کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور جلّاد نے خنجر کی نوک سے اس کی دونوں آنکھیں نکال دیں۔ اس کے بعد وہ تاریخ سے ہمیشہ کیلئے غائب ہو گئی۔

رستم نے امراء سے صلاح مشورہ کرکے اسی وقت اعلان کر دیا کہ آج سے پوران ملکہ فارس ہے۔ وہیں تاج پوشی کی مختصر سی رسم ادا کرکے پوران نے اسی وقت شاہی فرمان جاری کر دیا کہ آج سے رستم ہی وزیر ہے اوررستم ہی تمام افواج کا کمانڈر انچیف ہے اور سلطنت کے اہم امور کے فیصلے رستم ہی کیا کرے گا ۔ پوران نے یہ بھی کہا کہ یہ فرمان رعایا کے ہر گھر اور ہر فرد تک پہنچا دیاجائے کہ فارس کے ہر فرد پر رستم کی اطاعت فرض کر دی گئی ہے اور ہر فرد و بشر پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ سلطنتِ فارس کو مسلمانوں سے بچانے کیلئے اپنے مال اور اپنی جانیں قربان کر دے۔

٭

جس وقت آزرمیدخت نے فرخ زاد اور شاہ پور کو قتل کرکے تخت پر قبضہ کر لیااور مدائن میں خانہ جنگی کے حالات پیدا کر دیئے گئے تھے۔ اس وقت تاریخِ اسلام کے مشہور سالار مثنیٰ بن حارثہ فارس کے ایک بڑے شہر حیرہ میں تھے۔ جاسوسوں نے انہیں فارس کے دارالحکومت کے یہ حالات سنائے۔ وہ خلیفہ اول حضرت ابو بکرؓ کا دور تھا ۔ سالار مثنیٰ مدینہ گئے اور حضرت ابو بکرؓ کو فارس کی اندرونی تفرقہ بازی کی تفصیل سناکر فارس پر حملے کی اجازت طلب کی۔

وہ حضرت ابو بکرؓ کی زندگی کے آخری دن تھے۔ انہوں نے خالد ؓبن ولید کو عراق سے شام بھیج دیا کیونکہ وہاں کے محاذ پر مسلمانوں کی پوزیشن کچھ کمزور ہو گئی تھی ۔ ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ مثنیٰ کو زیادہ سے زیادہ آدمی اکٹھے کر کے دو۔ اس کے فوراً بعد ابو بکرؓ انتقال فرما گئے‘ اور حضرت عمر ؓخلیفہ بنے۔

اس داستان کے ابتدائی ابواب میں بیان ہو چکا ہے کہ حضرت عمر ؓاور مثنیٰ بن حارثہ نے کس طرح لوگوں کو عراقی محاذ پر جانے کو کہا تھا اور لوگوں کا رد عمل کتنا سرد سا تھا ۔آخر ابو عبید اٹھے اور کہا کہ وہ مثنیٰ کے ساتھ جائیں گے ۔اس کے بعد رضا کار اپنے آپ کو پیش کرنے لگے اور جب مثنیٰ بن حارثہ مدینہ سے محاذ کو چلے تو ان کے ساتھ ایک ہزار رضاکار مجاہدین تھے۔ راستے میں رضاکار ان کے ساتھ ملتے رہے اور تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی۔ جب مثنیٰ محاذ پر پہنچے تو ان کے ساتھ جو مجاہدین تھے ان کی تعداد دس ہزار تھی۔

پوران کے تخت نشین ہوتے ہی رستم نے فارس کے تمام امراء اور سارے ملک کے بڑے بڑے جاگیرداروں کو مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز پیغام بھیجے ۔اس نے سب کو لکھا کہ اپنی جاگیروں کو اپنی بیٹیوں کی عصمتوں کو بچانا چاہتے ہو تو لڑنے والے جس قدر آدمی اکٹھے کر سکتے ہو اُنہیں فوج میں لاؤ اور مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دو۔

مؤرخ لکھتے ہیں کہ رستم کے اس پیغام نے فارس کے دور دراز کونوں کھدروں سے بھی لوگوں میں قومی غیرت مندی کو آگ لگا دی۔ لڑنے والے آدمی ٹولیوں کی شکل میں مدائن میں پہنچنے لگے۔ رستم مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس نے مدائن سے مسلمانوں کے خلاف دو لشکر بھیجے۔ ایک کا کمانڈر جابان تھا ۔اسے رستم نے کہا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے کنارے جائے اور حیرہ پہنچے جو اس وقت مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔

دوسرے لشکر کا کمانڈر نرسی تھا ۔اسے حکم دیا گیا تھا کہ فرات اور دجلہ کے درمیانی علاقے کے ایک مقام کسکر جاکر اگلے حکم کا انتظار کرے۔

اس وقت ابو عبید دس ہزار مجاہدین کے ساتھ ایک مقام خفان تک پہنچ گئے۔ انہیں اطلاع دی تھی کہ فارسیوں کا ایک لشکر فرات کے کنارے کنارے حیرہ کی طرف آ رہا ہے۔ ابو عبید نے اپنے مجاہدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیشتر اس کے کہ دشمن حیرہ تک پہنچے ہم اسے راستے میں ہی روک لیں گے۔ ابو عبید نے بڑی جوشیلی تقریر کی اور دس ہزار مجاہدین کو لے کر چل پڑے۔

حیرہ اور قادسیہ کے درمیان ایک مقام غارق کے قریب مجاہدین نے جابان کے لشکر کو روک لیا۔ یہ ایک خونریز لڑائی تھی۔ ابو عبید کو جنگی قیادت کا اتنا تجربہ تو نہ تھا لیکن اس نے ذرا سی بھی گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کیا اور اپنے دس ہزار کے لشکر کو ایسی اچھی طرح تقسیم کرکے لڑایا کہ فارسیوں کے قدم اکھڑ گئے۔ فارسیوں میں مسلمانوں کی دہشت تو پہلے ہی موجود تھی۔ مجاہدین ایسی بے جگری سے لڑے کہ دشمن غیر منظم ہو کر پسپا ہونے لگا۔

رستم کا یہ لشکر اپنی بے شمار لاشیں اور تڑپتے ہوئے زخمی پیچھے چھوڑ کر ایسا بکھرا کہ مجاہدین نے فارسی کمانڈر جابان اور ا س کے نائب مروان شاہ کو پکڑ لیا۔ مروان شاہ نے بھاگنے کی کوشش کی تو اسے گرفتار کرنے والے نے وہیں قتل کر دیا۔

جس مجاہد نے جابان کو پکڑا تھا۔ اُسے معلوم نہیں تھا کہ یہ فارس کی فوج کا جرنیل ہے۔

’’میرے عرب دوست!‘‘ جابان نے مجاہد سے کہا۔’’ مجھے پکڑ کر کیا کرو گے۔ میں بوڑھا آدمی ہوں۔ آؤ‘ میں تمہیں دو جوان جنگی قیدی دوں گا۔ یہ دو بڑے قیمتی غلام ہوں گے اور میں تمہیں کچھ قیمتی چیزیں دوں گا۔‘‘

’’غلام اور قیمتی چیزیں کہاں ہیں؟‘‘ مجاہد نے پوچھا۔

’’میں یہ تمہارے حوالے کروں گا تو مجھے آزاد کرنا۔‘‘ جابان نے کہا۔’’ لیکن وعدہ کرو کہ غلام اور قیمتی اشیاء لے کر مجھے آزاد کر دو گے۔‘‘

’’میں عرب ہوں اور مسلمان ہوں۔‘‘ مجاہد نے کہا۔’’ میں وعدہ خلافی نہیں کر سکتا۔ میرے سپہ سالار کے پاس چل کر میرے ساتھ معاملہ طے کر لو۔‘‘

جابان مان گیا۔مجاہد اسے ابو عبیدکے پاس لے گیا، اور بتایا کہ یہ قیدی اپنی رہائی کے عوض کیا پیش کررہا ہے۔

’’یہ کوئی سپاہی نہیں۔‘‘ ایک مجاہد نے اسے پہچانتے ہوئے کہا۔’’ یہ فارسی فوج کا سپہ سالار ہے ۔ میں اسے قتل کرنے گیا تھا لیکن یہ بچ نکلا۔ اسے قتل کر دو۔‘‘

’’ٹھہرو!‘‘ابو عبید نے کہااور جابان کو پکڑنے والے مجاہد سے پوچھا۔ ’’کیا تو نے اسے دو جوان جنگی قیدیوں اور کچھ قیمتی اشیاء کے عوض آزاد کر دینے کا وعدہ کیا تھا؟‘‘

’’ہاں سپہ سالار!‘‘ مجاہد نے جواب دیا۔’’ِؒمیں نے وعدہ کیا تھا۔‘‘

’’پھر اسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ابو عبید نے کہا۔’’ ایک مسلمان اس کی جان بخشی کر چکا ہے……اسے لے جاؤ۔ اس سے اپنا عوضانہ لو اور اسے آزاد کر دو۔ مسلمان کو اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے۔‘‘

اس طرح فارس کا ایک تجربہ کار جرنیل آزاد ہو گیا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔