پیر، 16 مارچ، 2015

0 comments

دربار شاہی لگا ہوا تھا۔ سلطان محمود غزنویؒ تشریف لائے۔ 
تمام وزراء اور امراء بھی حاضر خدمت ہیں بادشاہ سلامت کے ہاتھ میں ایک موتی تھا۔ اس نے وہ ہیرا وزیرِ دربار کو دکھا کر پوچھا: اس موتی کی قیمت کیا ہو گی؟ وزیر اچھی طرح دیکھ بھال کر عرض کی حضور نہایت قیمتی چیز ہے۔ غلام کی رائے میں ایک من سونے کے برابر اس کی مالیت ہو گی۔ 
سلطان نے کہا: بہت خوب، ہمارا اندازہ بھی یہی تھا۔ سلطان نے حکم دیا اسے توڑ ڈالو۔ وزیر نے حیرت سے ہاتھ باندھ کر کہا: حضور اس قیمتی موتی کو کیسے توڑ دوں میں تو آپ کے مال کا نگران اور خیر خواہ ہوں۔ 
سلطان نے کہا ہم آپ کی اس خیر خواہی سے خوش ہوئے۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد سلطان نے وہ موتی نائب وزیر کو دیا اور اس کی قیمت دریافت کی۔ وزیر نے عرض کی حضور میں اس کی قیمت کا اندازہ لگانے سے قاصر ہوں۔ سلطان نے کہا اسے توڑ دو۔ وہ عرض کرنے لگا حضور ایسے بیش بہا موتی کو میں کیسے توڑ سکتا ہوں جس کا ثانی ملنا محال ہے اور جس کی چمک دمک ایسی کہ سورج کی روشنی مانند پڑ جائے۔ سلطان نے اس کی فہم و فراست کی تعریف فرمائی۔ پھر چند لمحوں کے بعد وہی موتی امیر الامرا کو دیا اور کہا اسے توڑ ڈالئیے۔ اس نے بھی عذر پیش کیا اور توڑنے اسے معزرت کی۔ بادشاہ نے سب کو انعام و اکرام دیا اور ان کی وفا شعاری اور اخلاص کی تعریف کی، بادشاہ جوں جوں درباریوں کی تعریف کر کے ان کا مرتبہ بڑھاتا گیا توں توں وہ ادنٰی درجے کے لوگ صراط مستقیم سے بھٹک کر اندھے کنوئیں میں گرتے گئے۔ وزیر دربار کی دیکھا دیکھی امیروں اور وزیروں نے ظاہر کیا کہ وہ دولت شاہی کے وفادار اور نگران ہیں۔ 
”آزمائیش اور امتحان کے لمحوں میں تقلید کرنے والا ذلیل و خوار ہوتا ہے۔“
سلطان نے تمام درباریوں اور خیر خواہان دولت کی آزمائش کر لی۔ آخر سلطان نے وہ موتی ایاز کو دیا اور فرمایا: اے نگہ باز! اب تیری باری ہے بتا اس موتی کی کیا قیمت ہو گی۔ ایاز نے عرض کیا اے آقا! میرے ہر قیاس سے اس کی قیمت زیادہ ہے۔ سلطان نے کہا: اچھا ہمارا حکم ہے تو اسے توڑ دے۔ ایاز نے فوراً اس ہیرے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ وہ غلام آقا کے طریق امتحان سے آگاہ تھا۔ اس لئے اس دھوکہ میں نہ آیا۔ موتی کا ٹوٹنا تھا کہ سب درباری چلا اٹھے اور کہا ارے بیوقوف تیری یہ جرات کہ ایسا قیمتی اور نادر موتی توڑ ڈالا۔ ان کا واویلا سن کر ایاز نے کہا: اے صاحبو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ اس موتی کی قیمت زیادہ تھی یا حکم شاہی کی؟ تمھاری نگاہ میں سلطانی فرمان زیادہ وقعت رکھتا ہے یا حقیر موتی، تم نے ہیرے کو دیکھا اس کی قیمت اور چمک کو دیکھا مگر اس حکم دینے والے کو نہ دیکھا۔ وہ روح ناپاک اور بد حصلت ہے جو ایک حقیر پتھر کو نگاہ میں رکھے اور فرمان شاہی کو نظر انداز کر دے۔ جب ایاز نے یہ راز کھولا تو تو درباریوں کی آنکھیں کھُل گئیں اور ذلت و ندامت سے گردنیں جھک گئیں۔ سلطان نے کہا معمولی پتھر کے مقابلے میں تم میرا حکم توڑنا ضروری سمجھتے ہو۔ یہ کہہ کر شاہی جلاد کو سب کی گردنیں اڑانے کا حکم دے دیا۔ سب نافرمان تھر تھر کانپنے لگے۔ ایاز کو ان کی بے بسی پر رحم آیا بادشاہ سے کہا کہ ان کی نافرمانی کا سبب محض آپ کا کرم اور صفتِ عفو کی زیادتی ہے۔ بے شک یہ بازی ہار گئے مگر اتنا تو ہوا کہ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اس لئے انھیں معاف کر دیجئے۔ بادشاہ نے ایاز کی سفارش قبول کی اور سب کو معاف کر دیا۔ 
(حکایات رومیؒ)
جب انسان اللہ کے احکام کو بھول کر دولت و شہرت کے پیچھے بھاگتا ہے تو ذلت و خواری اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ ایاز مزاج شاہی کا رمز شناس تھا اس نے ہیرے کی ظاہری چمک دمک سے آگے دیکھا اور حکمِ شاہی کو ہیرے پر ترجیح دی اس سبب سے وہ مقرب ٹھہرا۔ اسی لئے اگر ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کریں گے تو دنیا و آخرت کی بھلائی ہمارے قدموں میں آ پڑے گی، اور اگر رو گردانی کی تو ذلت و خواری کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ 

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔