ہفتہ، 16 دسمبر، 2017

احساس اگر ہو تو

0 comments
احساس اگر ہو تو

افسانہ
(رائٹر.فائزہ شاہ

زینت نے ایسے گھر میں آنکھ کھولی جہاں بھوک افلاس معاشی تنگی نے پہلے ہی ڈیرے ڈالے ہوے تھے - زینت سے پہلے ہی چھ بہن بھائی موجود تھے - زینت سب سے چھوٹی تھی - اس کی اماں جب ایک تھال میں کھانا دیتی سب بہن بھائیوں کو وہ سب ایک منٹ میں چٹ کر کے کھڑے ہو جاتے - زینت اپنے چھوٹے چھوٹے ھاتھوں سے تھالی میں چاول چنتی رہ جاتی - پل کے نیچے جھگیوں کی بستی میں اس کا گھر تھا - گھر تو نام کا تھا بس ایک پھٹی پرانی جھگی تھی جہاں  موسموں کی سرد و گرم روکے نا رکتی تھی - اس کا ابا خیرو بھیک مانگتا تھا - اور بچوں کو بھی یہی سکھاتاتھا - کہ بھیک مانگوں یہی ہمارہ پیشہ ہے - بڑے بھائی اور بہن بھی یہی کام کرتے تھے - سڑکوں پے ٹریفک سگنل پے بازاروں میں بھیک مانگنے کے ٹھکانے بنائے ہوے تھے - شام کو جب وہ گھر لوٹتے تو ان کے کشکول نوٹوں سے بھرے ہوے ہوتے - جنہیں خیرو اپنے قبضے میں لے لیتا - گھر میں سب یہی کام کرتے تھے - زینت کی اماں جمیلہ بھی صبح نکل جاتی بھیک مانگنے - کبھی زینت کو ساتھ لے جاتی کبھی گھر پر ہی چھوڑ دیتی - خیرو روز رات کو نوٹوں کی گڈیاں گنتا تھا - پھر بھی ہمارے حالات کیوں نہیں بدلتے اچھا گھر اچھے کپڑے اچھے اسکول میں پڑھنا - زینت اپنی پھٹی ہوئی رضائی سے چپکے چپکے دیکھ کر سوچتی - زینت کو یہ کام پسند نہیں تھا - وہ اسکول جانا چاہتی تھی پڑھنا چاہتی تھی - اب زینت آٹھ سال کی ہوگئی تھی - جمیلہ اسے ساتھ لے جانے لگی تھی - تاکہ زینت کام سیکھے - آج بھی زینت اپنی اماں کے ساتھ آئی تھی - جمیلہ کے دوپٹے کا پلو پکڑ کر ان کے پیچھے چلے جا رہی تھی - بہت رش تھا یہاں ٹریفک بھی بہت تھی -  جمیلہ نے بھیک میں ملے کچھ پیسے زینت کو دے دیے تھے تاکہ اس کا دل لگا رہے - ایک فٹ پاتھ پر رک کر جمیلہ بیٹھ گئی شاید تھک گئی تھی - زینت بھی اسکے پاس بیٹھ گئی - گاڑیاں زن زن کرتی گزر رہی تھی - اچانک زینت کو ایک دکان نظر آئی - وہ کوئی فوڈ کارنر تھا جہاں کئی لوگ اپنے بچوں کے ساتھ کھانے اور خوش گپوں میں مصروف تھے - وہ اماں کا پلو چھوڑ کر اس دکان کے باہر لگے شیشے کے پاس آگئی - شیشے سے چپک کر دیکھا اندر کا منظر خوابوں جیسا تھا - بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ لاڈ کرتے اور ہنستے مسکراتےکھانا کھا رہے تھے - زینت کو بہت بھوک لگ رہی تھی وہ کب سے نکلی تھی اماں کے ساتھ - اپنے ہاتھوں میں نوٹ دیکھے اور  ہمت کر کے زینت شیشے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی - وہ تو بس اس خوابناک منظر کو دیکھے جا رہی تھی - کونسی دنیا تھی یہ چلتے ہوے وہ ایک ٹیبل کے قریب پہنچ گئی - وہاں پڑے انواع و اقسام کے کھانے دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل رہی تھی - کوئی چلایا ویٹر کون ہے یہ بھکاری نکالو اسے یہاں سے - زینت حیرت سے اس سوٹڈ بوٹڈ شخص کو دیکھنے لگی کہ ویٹر بھاگتا ہوا آیا اور زینت کو ایک جھانپڑرسید کر کے  بازو سے دبوچ کر گھسیٹتا ہوا دکان کے دروازے تک لایا اور دروازہ کھول کر باہر نکل کر روڈکی طرف دھکیل دیا - زینت اس اچانک حملے کے لیے تیار نا تھی اسکا ناتواں سا وجود کٹی ہوئی پتنگ کی طرح لہراتا ہوا سڑک کے بیچوں بیچ جا گرا اور  ایک سوزوکی پک اسکے وجود پر سے گزر گئی - جمیلہ دوڑ کر ائی اور رو نے لگی بین کرنے لگی - یہاں وہاں کی دکانوں ٹھیلوں سے لوگ جمع ہونے لگے - فوڈ کارنر سے بھی لوگ باہر آگئے اتنا رش دیکھ کر -  وہ سوٹڈ بوٹڈ شخص بھی آیا باہر کس منظر دیکھا - کچھ نوٹ نکالے والٹ سے اور باہر کھڑے فوڈکارنر کے مالک کو دیتے ہوے بولا کچھ غریبوں کو کھانا کھلا دینا اس معصوم بچی کے نام پر - کتنے دریا دل ہیں آپ سر دکان کا مالک متاثر ہو کر بولا - اورسڑک کے درمیان زینت کا خون میں لت پت بے جان وجود ایک سولیہ نشان بن گیا

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔