جمعہ، 17 اپریل، 2015

تصوف کیا ہے

0 comments
نحمدہ و نصلی ونسلم علی رسولہ الکریم
طریقت یا تصوف سے کیا مراد ہے؟
قرآن و حدیث اور صوفیا کرام کے ارشادات کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔
سورہ بقرہ میں اﷲ تعالیٰ جل جلالہ کا فرمان عالی شان ہے‘ ’’جیسا ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا‘‘
(آیت ۱۵۱‘ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن از اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ)
اس آیت مقدسہ میں اﷲ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے پانچ فرائض نبوت کا ذکر فرمایا ہے۔
۱۔ اﷲ تعالیٰ کی آیات تلاوت کرنا
۲۔ کتاب اﷲ کی تعلیم دینا
۳۔ حکمت کی تعلیم دینا
۴۔ مومنوں کو پاک کرنا
۵۔ باطنی علم سکھانا
ایک بات جو اس آیت مبارکہ سے بالکل واضح ہے وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سرکار دوعالمﷺ کو ظاہری و باطنی علوم کے ساتھ ساتھ لوگوں کو پاک کرنے کا اختیار بھی عطا فرمایا ہے۔ ظاہر ہے کہ پاک کرنے والا ان کی مثل کیسے ہوسکتا ہے جو پاک نہیں ہیں؟ علم سکھانے والا ان کی مثل کیونکر ہوسکتا ہے جو کچھ نہیں جانتے۔ پس ثابت ہوا کہ نبی کریمﷺ بے مثل بشر ہیں۔
اب ہم اس آیت مقدسہ کے ترجمہ پر غور کرتے ہیں‘ تلاوت آیات اور تعلیم کتاب و حکمت کے متعلق تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ اس سے مراد قرآن پاک اور شریعت مطہرہ کی مکمل تعلیم ہے۔ تزکیہ سے مراد نبی کریمﷺکا لوگوں کے قلوب کو روحانی پاکیزگی عطا کرنا ہے۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ الامن واعلیٰ میں تفسیر بیضاوی اور تفسیر معالم التنزیل کے حوالے سے سورہ جمعہ آیت ۳ کے تحت فرماتے ہیں کہ ’’نبی کریمﷺ کا عطا فرمانا‘ گناہوں سے پاک کرنا‘ ستھرا بنانا صرف صحابہ کرامعلیہم الرضوان  سے خاص نہیں بلکہ قیامت قائم ہونے تک تمام امت کو حضورﷺ پاکی عطا فرماتے ہیں‘‘
ولی کامل مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں…
چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
میرا دل بھی چمکادے چمکانے والے
تو زندہ ہے واﷲ تو زندہ ہے واﷲ
میرے چشم عالم سے چھپ جانے والے
آخر الذکر کے متعلق قاضی ثناء اﷲ پانی پتی تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں ’’یعلم کا فعل دوبارہ ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تعلیم‘ کتاب و حکمت کی تعلیم سے جدا نوعیت کی ہے‘ شاید اس سے مراد علم لدنی ہے جو قرآن کے باطن اور نبی کریمﷺ کے سینہ مبارکہ سے حاصل ہوتا ہے اور اس کا حصول صرف انعکاس کے ذریعہ ممکن ہے‘‘
یعنی یہ علم کتابوں سے نہیں ملتا بلکہ نور مجسمﷺ کے سینہ پرانوار سے علم لدنی کے تجلیات و انوار‘ اولیائے کرام کے قلوب پر منعکس ہوتے ہیں اور پھر سینہ بہ سینہ یہ اسرار و معارف اہل اﷲ حاصل کرکے تشنگان معرفت کے دلوں پر نقش کرتے ہیں۔ اسی باطنی علم کو علم لدنی یا علم طریقت و تصوف کہا جاتا ہے۔
سورہ کہف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور اسے (یعنی خضر علیہ السلام کو) اپنا علم لدنی عطا کیا‘‘ (آیت ۶۵)
مفسرین فرماتے ہیں کہ علم لدنی سے مراد وہ باطنی علم ہے جو بغیر الفاظ و عبارت کے محض اﷲ تعالیٰ کی تعلیم سے (بطریق الہام جس کو وحی خفی) بھی کہاجاتا ہے) حاصل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کے پاس حکم الٰہی سے تشریف لے گئے تو انہوں نے فرمایا ’’اے موسیٰ! میں اﷲ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم میں سے ایک علم پر ہوں جو اس نے مجھے سکھایا ہے۔ اس علم کو آپ نہیں جانتے اور آپ اﷲ تعالیٰ کے عطا کردہ ایسے علم پر ہیں جو اس نے آپ کو سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا‘‘
اور سورہ کہف میں یوں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا ’’آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے اور اس بات پر کیونکر صبر کریں گے جسے آپ کا علم محیط نہیں (حضرت موسیٰ علیہ السلام نے) کہا عنقریب اﷲ چاہے تو تم مجھے صابر پائو گے اور میں تمہارے کسی حکم کے خلاف نہ کروں گا (حضرت خضر علیہ السلام نے) کہا اگر آپ میرے ساتھ رہتے ہیں تو مجھ سے کسی بات کو نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں‘‘ (کنز الایمان)
صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں ’’مفسرین و محدثین کہتے ہیں کہ جو علم حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے لئے خاص فرمایا وہ علم باطن و مکاشفہ ہے اور یہ اہل کمال کے لئے باعث فضل ہے۔‘‘ اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام ایک کشتی میں سوار ہوئے تو آپ نے اس کا تختہ توڑ کر شگاف کردیا لیکن اس کے باوجود کشتی میں پانی نہ آیا۔ پھر آپ نے ایک بستی میں ایک لڑکے کو قتل کردیا پھر آپ ایک گائوں پہنچے وہاں کے لوگوں نے آپ کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے باوجود آپ نے وہاں ایک دیوار کی مرمت کی جوکہ گرنے کے قریب تھی۔ ان تینوں کاموں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعتراضات کئے۔ آخرکار حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ اب ہمیں جدا ہونا پڑے گا۔ البتہ میں آپ کو ان کاموں کا راز بتاتا ہوں جنہیں بظاہر شرع دیکھ کر آپ نے اعتراضات کئے۔ میں نے وہ کشتی میں اس لئے عیب دار کردی کہ دریا کے پار ایک ظالم بادشاہ صحیح سلامت کشتیاں چھین لیتا تھا اس طرح ان غریبوں کی کشتی ظالم بادشاہ سے محفوظ رہ گئی۔ وہ لڑکا جسے میں نے قتل کیا‘ کافر تھا اور اس کے والدین مسلمان۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر یہ زندہ رہا تو اس کے والدین اس کی محبت میں کافر نہ ہوجائیں۔ اس کے عوض اﷲ تعالیٰ انہیں نیک اولاد عطا کرے گا۔
پھر آپ نے فرمایا ’’رہی وہ دیوار وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں‘ آپ کے رب کی رحمت سے‘ اور یہ کچھ میں نے اپنے حکم سے نہ کیا۔ یہ بھید ہے ان باتوں کا جن پرآپ سے صبر نہ ہوسکا‘‘ (کہف ۸۲ ‘ کنزالایمان)
اس واقعہ سے مفسرین نے جو نکات اخذ کئے‘ ان کاخلاصہ یہ ہے کہ:
۱۔ ہر خوبی اور کمال کو محض اﷲ تعالیٰ کی عطا سمجھنا چاہئے۔
۲۔ ہر عیب کی نسبت اپنی طرف کرنی چاہئے رب تعالیٰ کی طرف نہیں۔
۳۔ حصول علم کے لئے سفر کرنا انبیاء کرام کی سنت ہے۔
۴۔ کتنا ہی علم حاصل ہوجائے مزید علم کی جستجو کرنی چاہئے۔
۵۔ اپنے سے کم مرتبہ والے سے بھی علم سیکھنے میں مضائقہ نہیں۔
۶۔ علم سیکھنے کے لئے استاد کے پاس جانا چاہئے۔
۷۔ کامل شیخ یا استاد کا ادب اور خدمت ضرور کرنی چاہئے۔
۸۔ مرشد یا استاد کے افعال پر اعتراض کرنا بے ادبی ہے۔ منتظر رہے کہ وہ خود ہی اس کی حکمت ظاہر فرمائیں۔
۹۔ مرشد کامل یا استاد پر اعتراض کرنے سے اکتساب فیض کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔
۱۰۔ باطنی علم کامل شیخ کی محبت اور اس کی نگاہ کیمیا گر سے حاصل ہوتا ہے۔
۱۱۔ بعض اولیاء کرام کو لوگوں کے باطن اور ان کے انجام کی بھی خبر ہوتی ہے۔
۱۲۔ اہل اﷲ کی توجہ سے سوراخ والی کشتی بھی ڈوبنے سے بچ جاتی ہے۔
۱۳۔ اﷲ تعالیٰ بندے کی نیکی سے اس کی اولاد‘ خاندان اور اہل محلہ کو حفاظت میں رکھتا ہے۔
۱۴۔ تقدیر پر راضی رہنے میں ہی انسان کی بھلائی ہے۔
۱۵۔ سورہ کہف کی آیت نمبر ۸۲ سے معلوم ہوا کہ ایک شخص کا نیک ہونا اس کی میراث کی حفاظت کا وسیلہ بن گیا۔ اگر باغ فدک حضورﷺ کی میراث ہوتا تو یقینا اﷲ تعالیٰ اسے حقداروں تک پہنچانے کے لئے انتظام فرماتا۔ ثابت ہوا کہ باغ فدک میراث نہیں بلکہ وقف تھا۔
سورہ عنکبوت میں ارشاد ہوا ’’اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بے شک اﷲ نیکوں کے ساتھ ہے‘‘ (آیت ۶۹‘ کنزالایمان)
اس آیت میں جاہدوا سے مراد مجاہدہ نفس ہے جوکہ تصوف کا اہم ترین جزو ہے کیونکہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی جبکہ کافروں سے جہاد ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں فرض ہوا (تفسیر صاوی)
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی (یعنی مجاہدہ کیا) تو ہم انہیں ثواب کی راہ دیں گے۔ حضرت جنید بغدادی نے فرمایا‘ جو توبہ میں کوشش کریں گے ‘انہیں اخلاص کی راہ دیں گے حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا جو طلب علم میں کوشش کریں گے۔ انہیں ہم عمل کی راہ دیں گے۔ حضرت سعد بن عبداﷲ نے فرمایا جو اقامت سنت میں کوشش کریں گے ہم انہیں جنت کی راہ دکھائیں گے (تفسیر خزائن العرفان)
تفاسیر کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ اس آیت میں جاہدوا سے مراد مجاہدہ نفس ہے اس لئے حدیث شریف میں نفس کے ساتھ جہاد کرنے کو ’’جہاد اکبر‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ اسی جہاد اکبر کے نتیجے میں تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب حاصل ہوتا ہے اور پھر بندہ مومن اپنے قلب کے آئینے میں انوار و تجلیات الٰہی کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور یہی طریقت و تصوف کی اصل روح ہے۔
قاضی ثناء اﷲ مجددی قدس سرہ تفسیر مظہری میں سورہ اعلیٰ کی آیات ۱۴‘ ۱۵ کے تحت فرماتے ہیں کہ ان آیات میں مدارج سلوک کی طرف اشارہ ہے۔
قد افلح من تزکی (بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہو)
اس میں توبہ اور تزکیہ کی طرف اشارہ ہے و ذکر اسم ربہ (اور اپنے رب کا ذکر کیا) اس میں زبانی‘ قلبی‘ روحی اور سری ذکر کی پابندی کی طرف اشارہ ہے اور فصلی (نماز پڑھی) اس میں مشاہدہ کے دوام کی طرف اشارہ ہے کیونکہ نماز مومنوں کی معراج ہے اور نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ (احمد‘ نسائی‘ حاکم‘ بہیقی)
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز رحمت عالمﷺ کی خدمت اقدس میں ایک شخص آیا جس کے کپڑے بہت سفید اور بال بہت سیاہ تھے اس پر سفر کے آثار بھی ظاہر نہ تھے اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا۔ وہ آقاﷺ کے بالکل قریب بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھ اپنے زانوں پر رکھ کر عرض گزار ہوا۔ یارسول اﷲﷺ! مجھے اسلام کے متعلق بتایئے۔ آپ نے فرمایا… اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو اور اگر استطاعت ہو تو حج بھی کرو۔ اس نے عرض کی آپ نے سچ فرمایا ’’ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق بھی کرتا ہے۔ گویا کہ جانتا ہے پھر عرض کی مجھے ایمان کے متعلق بتایئے فرمایا کہ تم اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور آخرت کے دن اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائو۔ عرض کی آپ نے سچ فرمایا پھر عرض کی مجھے احسان کے متعلق بتایئے۔ آپ نے فرمایا۔ ان تعبداﷲ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک یعنی اﷲ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر یہ نہ ہوسکے تو یہ ضرور یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھتا ہی ہے (بخاری و مسلم)
’’احسان‘‘ بھی تصوف ہی کا ایک نام ہے۔ جس طرح توحید‘ سلوک‘ طریقت‘ معرفت‘ حقیقت‘ اخلاص‘ کشف‘ اسرار و معارف وغیرہ سب تصوف ہی کے مختلف نام ہیں جو تصوف کی کتب میں جا بجا مذکور ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش قدس سرہ اپنی مایہ ناز کتاب کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا من سمع صوت اہل التصوف فلا یومن علی رعایتہم کتب عنداﷲ من الغافلین جس نے اہل تصوف کی آواز سنی اور اسے نہ مانا وہ بارگاہ الٰہی میں غافلوں میں شمار کیا گیا ’’گویا لفظ تصوف نبی کریمﷺ کا بیان فرمایا ہوا ہے ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ تصوف کا آغاز کیسے ہوا؟ دراصل نور مجسم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ظاہری حیات میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم براہ راست نبی کریمﷺ کی ذات بابرکات سے اکتساب فیض کرتے۔ انہیں علم شریعت کے ساتھ تزکیہ باطن بھی حاصل تھا اور یہ تزکیہ انہیں نگاہ مصطفیﷺ کے صدقے میں نصیب ہوا۔ بعض صحابہ کرام بعض مخصوص اعمال کی وجہ سے جماعت صحابہ میں نمایاں ہوئے جیسے کہ اصحاب صفہ ترک دنیا اور زہد و تقویٰ میں مشہور ہوئے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر (۷۰) صفہ والے صحابہ کو دیکھا کہ ان میں سے کسی کے پاس چادر یا کرتا نہیں تھا‘ بلکہ صرف تہبند تھا یا کمبل جسے وہ اپنی گردنوں میں باندھ لیتے تھے جن میں سے بعض تہبند یا کمبل ایسے تھے جو آدمی کی پنڈلی تک پہنچتے تھے اور بعض ٹخنوں تک پہنچتے تھے اور وہ لوگ اسے اپنے ہاتھ سے پکڑے رہتے‘ اس خوف سے کہ کہیں ان کا ستر نہ ظاہر ہوجائے (بخاری)
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہ حضورﷺ کے رازدار صحابی کے طور پر معروف ہیں۔ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ ان رازوں کو جانتے ہیں جنہیں اور کوئی نہیں جانتا۔ (بخاری)
حضرت علی کرم اﷲ وجہ فرماتے ہیں کہ غیب بتانے والے آقا و مولیٰﷺ نے مجھے علم کے ستر (۷۰) ابواب سکھائے اور میرے سوا یہ علم کسی کو نہ دیا۔ (کتاب اللمع)
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ بھی باطنی علوم کے حصول میں نمایاں مقام کے حامل ہیں۔ آپ فرماتے ہیں میں نے غیب بتانے والے آقا و مولیٰﷺ سے علم کے دو برتن محفوظ کئے۔ ایک تو تم لوگوں میں پھیلا دیا۔ لیکن اگر دوسرا پھیلائوں تو میری شہ رگ کاٹ دی جائے (بخاری)
علامہ عینی شارح بخاری نے اس حدیث کے تحت فرمایا۔ غالبا پہلے علم سے مراد علم احکام و اخلاق ہے اور دوسرے علم سے مراد علم الاسرار ہے جو نااہلوں سے محفوظ ہے اور اہل معرفت علماء ربانیین کے لئے مخصوص ہے‘‘ (مرقاۃ)
بعض علماء فرماتے ہیں کہ صوفی لفظ ’’صوف‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی اون کے ہیں یعنی یہ لوگ کمبل یا موٹے اونیٰ کپڑے پہننے کی وجہ سے صوفی کہلائے۔ بعض نے کہا کہ صوفی لفظ ’’صوف‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ایک طرف ہونا۔ یعنی یہ لوگ دنیا ترک کرکے اﷲ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنے کی وجہ سے صوفی کہلائے۔ بعض کے نزدیک صوفی دین کی اول صف میں ہونے کی وجہ سے صوفی کہلاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اصحاب صفہ کی محبت و پیروی کرنے والوں کو صوفی کہا جاتا ہے۔ علامہ قشیری کے نزدیک عربی قواعد کی رو سے ’’صوفی‘‘ کی وجہ سے تسمیہ ثابت نہیں اس لئے یہ لفظ ان لوگوں کے لئے لقب کے طور پر ہے (رسالہ قشیریہ)
شیخ عمر بن شہاب الدین سہروردی صوفی کے نام کی ابتداء کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’یہ نام رسول اﷲﷺ کے زمانے میں نہیں رکھا گیا ‘ کہا جاتا ہے کہ یہ نام تابعین کے زمانے میں رکھا گیا۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا ’’میں نے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے ایک صوفی کو دیکھا‘‘ اس روایت کی تائید حضرت سفیان ثوری کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ ’’اگر ابو ہاشم صوفی نہ ہوتے تو میں ریاکاری سے متعلق دقیق باتوں سے واقف نہیں ہوتا‘‘ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ نام قدیم زمانہ سے مشہور ہے‘‘ (عوارف المعارف)
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اﷲ علیہ نے صوفی کی تعریف ’’اہل صفا‘‘ سے کی ہے آپ فرماتے ہیں ’’اشیاء کے لطیف حصے کا نام ’’صفا‘‘ اور کثیف کا نام ’’میل‘‘ ہے چونکہ اہل صوف اپنے اخلاق اور معاملات کو صاف اور پاکیزہ رکھتے ہیں اور ہوائے نفس سے بری ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیںصوفی کہا جاتا ہے… صفا اصل بھی ہے اور فرع بھی۔ اصل یہ ہے کہ دل غیر اﷲ سے خالی اور فرع یہ ہے کہ دل اس دھوکہ باز دنیا سے پاک ہو۔ یہ دونوں باتیں حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی صفات ہیں میں جوکہ اہل طریقت کے امام ہیں‘‘
آپ مزید فرماتے ہیں کہ ’’صفاایسی حضوری کا نام ہے جو کبھی ختم نہ ہو اور ایسے وجود کا جو بغیر اسباب کے ہو۔ جب یہ مقام نصیب ہوجائے تو بندہ دنیا اور آخرت کے لئے فنا ہوکر صفات ربانی کا مظہر ہوجاتا ہے۔ سونا اور خاک اس کی نظر میں برابر ہوجاتے ہیں اور وہ معاملات جو دوسروں کے لئے دشوار ہوں اس کے لئے آسان ہوجاتے ہیں۔
جیسا کہ حدیث پاک میں حضرت زید رضی اﷲ عنہ کا واقعہ مذکور ہے کہ آپ سے نبی کریمﷺ نے فرمایا‘اے زید تونے کس حال میں صبح کی؟ عرض کی کہ میں نے اس حال میں صبح کی کہ میں سچا مومن ہوں۔ فرمایا‘ ہر شے کی ایک حقیقت ہوتی ہے تیرے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ عرض کی‘ میں نے دنیا سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو پہچانا پس اس کا سونا چاندی اور مٹی کنکر میری نظر میں برابر ہوگئے۔ میں ساری رات بیدار رہا اور سارا دن پیاسا رہا (یعنی روزہ دار رہا) یہاں تک کہ مجھے محسوس ہوا کہ میں اپنے رب تعالیٰ کا عرش دیکھ رہا ہوں اور میں اہل جنت کو دیکھ رہا ہوں کہ ایک دوسرے سے ملاقات کررہے ہیں اور کہ ایک دوسرے سے ملاقات کررہے ہیں اور اہل جہنم کو بھی دیکھ رہا ہوں کہ ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’اے زید! تیرے قلب کو اﷲ تعالیٰ نے روشن کردیا اور تجھے معرفت حاصل ہوگئی اس پر قائم رہ‘‘ آپ نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی۔ (کشف المحجوب)
پس معلوم ہوا کہ قلب و روح کی صفائی کے بعد معرفت الٰہی کا حاصل ہوجانا تصوف کی روح ہے۔ حصول برکت کے لئے اکابر اولیاء کرام کے چند اقوال مزید عرض کرتا ہوں۔ حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں کہ صوفی وہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے تمام کائنات میں صرف اﷲ تعالیٰ کو پسند کیا ہے۔ حضرت سہل بن عبداﷲ تستری کے نزدیک صوفیہ وہ ہیں جن کی روح بشریت کی کدورت سے خالی اور تفکر سے پر ہو‘ قرب خدا میں لوگوں سے دور رہیں اور ان کی نظروں میں مٹی اور سونا برابر ہو۔
شیخ ابو علی قزوینی فرماتے ہیں کہ تصوف اچھے اخلاق کو کہتے ہیں۔ شیخ ابو الحسن نوری کے نزدیک خواہشات نفس سے آزادی‘ جوانمردی‘ رسمی تکلفات سے دستبرداری‘ سخاوت اور ترک دنیا کا نام تصوف ہے۔ حضرت شبلی فرماتے ہیں۔ صوفی وہ ہے جو دوجہاں میں ذات الٰہی کے سوا کچھ نہ دیکھے۔ شیخ عبدالواحد کا قول ہے کہ صوفی وہ ہے جو اپنی عقل کے مطابق سنت نبویﷺ پر قائم رہیں اور اپنے دل کے ساتھ اس کی طرف متوجہ رہیں اور اپنے نفس کی شرارتوں سے بچنے کے لئے مرشد کامل کا دامن تھامے رہیں۔
حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں‘ مخلوق کی موافقت سے دل کو پاک رکھنا‘ تمام بری صفات سے دور رہنا‘ نفسانی خواہشات سے اجتناب کرنا‘ روحانی لوگوں سے دوستی رکھنا‘ علوم حقیقی سے تعلق رکھنا‘ اعلیٰ کاموں کو اختیار کرنا‘ امت مسلمہ کی بھلائی چاہنا‘ اﷲ تعالیٰ کی کامل بندگی اور حضورﷺ کی شریعت پر عمل کرنا تصوف ہے۔ عارف ربانی امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ نے ’’مقال عرفاء باعزاز شرع و علمائ‘‘ میں امام شعرانی کی کتاب طبقات الکبریٰ کے حوالے سے یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’تصوف یہ ہے کہ دل صاف کیا جائے اور شریعت میں نبیﷺ کی پیروی ہو‘‘
سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کے نزدیک دل کو ہر قسم کی آلائش سے پاک کرنا تصوف اور دل و جان سے صرف اﷲ تعالیٰ کا ہوجانا توحید ہے۔
ان تمام آیات و احادیث اور اقوال صوفیہ (رحمہم اﷲ تعالیٰ) کا خلاصہ یہی سامنے آتا ہے کہ شریعت مطہرہ کی پابندی کرتے ہوئے تزکیہ باطن اور تصفیہ قلب کے ساتھ تجلیات ربانی کا مشاہدہ کرنا تصوف و طریقت و معرفت ہے۔
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں تو باطنی علم اور معرفت حاصل ہے۔ اس لئے ہمیں شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ فرمایئے کہ کیا طریقت شریعت سے جدا کوئی راستہ ہے۔
جواب: اعلیٰ حضرت مجدد برحق امام احمد رضا خاں قادری بریلوی علیہ الرحمہ القوی اپنی تصنیف مقال عرفاء باعزاز شرع و علماء میں فرماتے ہیں کہ ’’شریعت منبع ہے اور طریقت اس میں سے نکلا ہوا ایک دریا‘ عموما کسی منبع سیدریا بہتا ہو تو اسے زمینوں کو سیراب کرنے میں منبع کی حاجت نہیں ہوتی لیکن شریعت وہ منبع ہے کہ اسے سے نکلے ہوئے دریا یعنی طریقت کو ہر آن اس کی حاجت ہے۔ اگر شریعت کے منبع سے طریقت کے دریا کا تعلق ٹوٹ جائے تو صرف یہی نہیں کہ آئندہ کے لئے اس میں پانی نہیں آئے گا بلکہ یہ تعلق ٹوٹتے ہی دریائے طریقت فورا فنا ہوجائے گا‘‘
پھر فرماتے ہیں کہ شریعت و طریقت تو منبع و دریا کی مثال سے بھی اعلیٰ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شریعت مطہرہ ربانی نور کا ایک فانوس ہے کہ دین کی دنیا میں اس کے سوا کوئی روشنی نہیں اور اس کی روشنی بڑھنے کی کوئی حد نہیں۔ اس روشنی کی زیادتی و افزائش چاہنے کا نام طریقت ہے یہ روشنی بڑھ کر صبح اور پھر آفتاب اور پھر اس سے بھی غیر متناہی درجوں تک ترقی کرتی ہے‘ جس سے حقائق اشیاء کا انکشاف ہوتا ہے اور نور الٰہی تجلی فرماتا ہے۔ یہ مرتبہ علم میں معرفت اور مرتبہ تحقیق میں حقیقت ہے درحقیقت شریعت ہی ہے کہ مختلف مراتب کے لحاظ سے اس کے مختلف نام رکھے جاتے ہیں۔ جب یہ نور بڑھ کر صبح روشن کی مثل ہوجاتا ہے تو ابلیس لعین خیر خواہ بن کر آتا ہے اور اس سے کہتا ہے‘ چراغ بجھا دے اب تو صبح خوب روشن ہوگئی ہے۔ آدمی دھوکے میں نہ آئے اور نور بڑھ کر دن کی مثل ہوجائے تو شیطان پھر کہتا ہے دن اتنا روشن ہے کیا اب بھی چراغ نہیں بجھائے گا۔ اﷲ تعالیٰ بندہ کی مدد فرمائے تو بندہ لاحول پڑھتا ہے اور کہتا ہے اے لعین! یہ اس فانوس ہی کا تو نور ہے‘ اسے بجھا دیا تو روشنی کہاں سے آئے گی پس وہ ملعون دفع ہوجاتا ہے اور بندہ نور حقیقی تک پہنچ جاتا ہے جیسا کہ سورہ نور میں فرمایا گیا ہے۔ نور علی نور یعنی ’’نور پر نور‘‘ ہے۔ اﷲ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے‘‘ (النور ۳۵)
اگر آدمی شیطان کے دھوکے میں آگیا اور سمجھا کہ دن تو ہوگیا اب مجھے چراغ کی کیا حاجت‘ پھر جیسے ہی اس نے چراغ بجھایا‘ گھپ اندھیرا ہوگیا کہ ہاتھ سے ہاتھ سوجھائی نہیںدیتا جیسا کہ قرآن عظیم میں ارشاد ہوا ’’ایک پر ایک اندھیرے ہیں‘ جب اپنا ہاتھ نکالے تو کچھ نہ سوجھائی دے اور جسے اﷲ نور نہ دے اس کے لئے کہیں نور نہیں‘‘ (النور ۴۰)
یہ ہیں وہ کہ طریقت بلکہ حقیقت تک پہنچ کر اپنے آپ کو مستثنیٰ سمجھے اور ابلیس کے فریب میں آکر اس ربانی فانوس کو بجھا بیٹھے۔ کاش ان کو اس کی خبر ہوتی تو شاید توبہ کرتے لیکن ستم تو یہ ہے کہ شیطان ملعون نے جہاں فانوس بجھوایا۔ اس کے ساتھ ہی فورا اپنی سازشی بتی جلا کر ان کے ہاتھ میں دے دی۔ یہ اسے نور سمجھ رہے ہیں اور وہ حقیقتا نار ہے۔ یہ مگن ہیں کہ شریعت والوں کے پاس کیا ہے۔ ایک چراغ ہے ہمارا نور تو آفتاب کو شرما رہا ہے لیکن انہیں خبر نہیں کہ اہل شریعت کے پاس ہی اصل نور ہے اور ان کے پاس صرف دھوکا۔
مزید فرمایا‘ شریعت کی حاجت ہر مسلمان کو ایک ایک سانس ایک ایک پل ایک ایک لمحہ پر مرتے دم تک ہے اور طریقت میں قدم رکھنے والوں کو اور زیادہ کہ راہ جس قدر باریک اسی قدر ہادی کی زیادہ حاجت۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’بغیر فقہ کے عبادت کرنے والا ایسا ہے جیسا چکی کھینچنے والا گدھا کہ مشقت جھیلے اور نفع کچھ نہیں‘‘ (ابو نعیم فی الحلیہ) پھر عارف باﷲ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمتہ طریقت و شریعت کے درمیان تعلق کو ایک اور مثال کے ذریعے یوں واضح کرتے ہیں کہ شریعت ایک عمارت ہے اس کا اعتقاد بنیاد اور عمل چنائی ہے پھر ظاہری اعمال وہ دیوار ہیں کہ اس بنیاد پر ہوا میں چنے گئے اور جب یہ تعمیر اوپر بڑھ کر آسمان تک پہنچی وہ طریقت ہے۔ دیوار جتنی اونچی ہوگی نیو (یعنی بنیاد) کی زیادہ محتاج ہوگی اور نہ صرف بنیاد بلکہ اعلیٰ حصہ نچلے حصے کا بھی محتاج ہے اگر دیوار نیچے سے خالی کردی جائے اوپر سے بھی گر پڑے گی۔ احمق وہ ہے جس پر شیطان نے نظربندی کرکے اس کی چنائی آسمانوں تک دکھائی اور دل میں ڈالا کہ اب تو ہم زمین کے دائرے سے اونچے گزر گئے۔ ہمیں اس سے تعلق کی کیا حاجت ہے۔ پس بنیاد سے دیوار جدا کرلی اور نتیجہ وہ ہوا جو قرآن عظیم نے فرمایا کہ ’’اس کی عمارت اسے لے کر جہنم میں گر پڑی‘‘ اسی لئے اولیاء کرام فرماتے ہیں ’’جاہل صوفی شیطان کا مسخرہ ہے‘‘ اور حضور سید عالمﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ ’’ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے‘‘ (ترمذی ابن ماجہ)
امام اہلسنت نے اپنی اس تصنیف میں چالیس اولیاء کرام کے اسی ۸۰ ارشادات عالیہ بھی بیان فرمائے ہیں جن میں سے چند اقوال پیش خدمت ہیں تاکہ اس مسئلہ میں اولیاء کرام کا مسلک واضح ہوجائے۔ امام مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ’’علم باطن نہ جانے گا مگر وہ علم ظاہر جانتا ہے‘‘ امام شافعی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ’’اﷲ تعالیٰ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا‘‘ یعنی ولی بنانا چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا۔ اس کے بعد ولی کیا۔ حضور غوث اعظم قطب الاقطاب سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ’’اگر حدود شریعت میں سے کسی حد میں خلل آئے تو جان لے کہ تو فتنہ میں مبتلا ہے (طریقت میں نہیں) بے شک شیطان تیرے ساتھ کھیل رہا ہے تو فورا حکم شریعت کی طرف پلٹ آ اور اس سے لپٹ جا اور اپنی نفسانی خواہش چھوڑ اس لئے کہ جس حقیقت کی شریعت تصدیق نہ فرمائے وہ حقیقت باطل ہے‘‘ (طبقات اولیاء از امام شعرانی)
حضرت جنید بغدادی رضی اﷲ عنہ سے عرض کی گئی کہ کچھ لوگ زعم کرتے ہیں کہ احکام شریعت تو وصول کا وسیلہ تھے اور ہم واصل ہوگئے یعنی اب ہمیں شریعت کی کیا حاجت؟ فرمایا‘ وہ سچ کہتے ہیں وہ واصل ضرور ہوئے مگر کہاں تک جہنم تک۔ چور اور زانی ایسے برے عقیدے والوں سے بہتر ہیں۔ میںاگر ہزار برس جیوں تو فرائض و واجبات تو بڑی چیز ہیں جو نوافل و مستحباب مقرر کرلئے ہیں بے عزر شرعی ان میں سے کچھ کم نہ کروں (الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الاکابر)
حضرت ابو یزید بسطامی رضی اﷲ عنہ ایک شخص سے ملنے گئے جو زہد و ولایت کا مدعی تھا۔ آپ کے سامنے اس نے قبلہ کی طرف تھوکا۔ آپ اس سے ملے بغیر واپس آگئے اور فرمایا ’’یہ شخص شریعت کے ایک ادب پر تو امین ہے نہیں‘ اسرار الٰہی پر کیونکر امین ہوگا‘‘ (رسالہ قشیریہ)
حضرت ابو قاسم نصرآبادی فرماتے ہیں ‘ تصوف کی جڑ یہ ہے کہ کتاب و سنت کو لازم پکڑے رہے (طبقات کبریٰ) شیخ شہاب الدین سہروردی فرماتے ہیں… جس حقیقت کو شریعت رد فرمائے وہ حقیقت نہیں بے دینی ہے (عوارف المعارف)
امام عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ فرماتے ہیں ’’تصوف کیا ہے بس احکام شریعت پر بندہ کے عمل کا خلاصہ ہے‘‘ مزید فرمایا ’’علم تصوف شریعت کے چشمہ سے نکلی ہوئی جھیل ہے‘‘ (طبقات کبریٰ)
ان دلائل سے ثابت ہوگیا کہ شریعت اور طریقت لازم و ملزوم ہیں۔ آج کل بعض جہلا طریقت کو شریعت سے الگ راہ اس لئے بتاتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے عقیدت مندوں کو اپنے غیر اسلامی افعال کے جواز کا اطمینان دلاسکیں۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اﷲ عنہ کشف المحجوب میں تصوف کے باب میں فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ اور سلف رحمہم اﷲ کے زمانے میں تصوف کا نام نہیں تھا بلکہ ایک حقیقت تھی جو سب پر طاری تھی۔ آج کل صرف نام باقی ہے اور حقیقت غائب۔ یعنی پہلے معاملہ معروف تھا اور ظاہر داری غائب اور اب معاملہ یعنی تصوف کی حقیقت غائب ہے اور ظاہر داری معروف‘‘
مزید فرمایا کہ جب عام لوگ ظاہر پرستوں کو ناچتے گاتے دیکھتے ہیں جوکہ صوفیہ ہونے کے مدعی ہیں تو وہ تمام اولیاء سے بدظن ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’یہ ہے تصوف اور اس کے اصول؟ پہلے زمانے کے صوفیا بھی اسی قسم کے ہوں گے‘‘  حالانکہ ان کہنے والوں نے یہ سمجھنے کی کوشش نہ کی کہ وقت فتنہ ہے اور فتنوں کی کثرت ہے۔ حرص بادشاہ کو ظلم پرآمادہ کرتا ہے لالچ عالم کو بدکاری میں مبتلا کردیتا ہے اور ریاکاری زاہد کو منافقت کی طرف لے جاتی ہے۔ اسی طرح ہوائے نفس اور لالچ بعض صوفیا کو رقص و سرور میں مبتلا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے اہل طریقت برباد ہوجاتے ہیں۔ طریقت برباد نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر کچھ لوگ لغویات و خرافات کو پاک و صاف چیزوں میں شامل کردیں تو پاک و صاف چیزیں خرافات نہیں بن جاتیں البتہ ایسے لوگ ضرور دنیاوآخرت میں نقصان اٹھاتے ہیں‘‘
اب میں اس تمام گفتگو کاخلاصہ امام مالک رضی اﷲ عنہ کے الفاظ میں پیش کردیتا ہوں جسے محدث علی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں ’’جس نے علم فقہ حاصل کیا اور تصوف کو نظر انداز کردیا وہ فاسق ہوا اور جس  نے تصوف کو اپنالیا مگر فقہ کو چھوڑ دیا وہ زندیق ہوا اور جس نے شریعت و تصوف دونوں کو جمع کیا اس نے حق کو پالیا‘‘

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔