مادی جسم کے اندر موجود باطنی انسان ایک جیتا جاگتا وجود ہے جو انسان کی توجہ کا طالب ہے۔ جس طرح مادی جسم کی تندرستی کے لیے صحیح غذا ضروری ہے اسی طرح باطنی وجود کی بھی غذا ہے جس سے وہ سکون محسوس کرتا ہے' تندرست و توانا ہوتا اور قوت حاصل کرتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: بے شک ''ذکر
یعنی اللہ کے اسم کے ذکر سے انسانی قلب یا روح کو سکون حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہی اس کی غذا اور قوت کا باعث ہے۔ جو انسان اس ذکر سے روگردانی کرتا ہے اس کی روح کو غذا اور رزق نہیں ملتا جو اس کی زندگی اور قوت کے لیے ضروری ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
|
ترجمہ: ''بے شک جو ہمارے ذکر سے اعراض کرتا ہے ہم اس کی (باطنی) روزی تنگ کر دیتے ہیں اور قیامت کے روز اسے اندھا اٹھائیں گے۔''
اس آیت مبارکہ میں رزق سے مراد یقیناًباطنی رزق ہے کیونکہ ظاہری رزق تو اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کو بھی بہت دیاہے جو اللہ کا قطعاً ذکر نہیں کرتے۔
دنیا و آخرت میں انسان کے خسارے کی وجہ اس کی ذکر |
ترجمہ:اے ایمان والوں تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو ذکرh سے غافل نہ کر دیں جو لوگ ایسا کریں گے وہی خسارہ پانے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اللہ کے مختلف ناموں کی تسبیح و ذکر کر رہی ہے جیسا کہ وہ قرآن میں فرماتا ہے:
|
ترجمہ:ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ اس میں ہے سبھی اس ( |
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے ذاتی اسم
کا ذکر دیا ہے کیونکہ یہ اس کی تمام صفات کا احاطہ کرتا ہے اور اس کے تمام اسماء میں سب سے قوت والا اسم ہے۔ اللہ کا یہ اسم اس قدر قوت کا حامل ہے کہ اگر ترازو کے ایک پلڑے میں اسم ''
'' رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں پوری کائنات' جنت و جہنم رکھ دیئے جائیں تو اسم
ذات والا پلڑا بھاری ہوگا۔ اسم
ذات کے ذکر سے روح کو وہ نورِ بصیرت حاصل ہوتا ہے جو دیدارِ الٰہی کے لیے لازم ہے۔ روح اس قدر قوی ہوجاتی ہے کہ جسم و جان کے تمام حجابات توڑ کر جسمانی موت سے قبل ہی اللہ کا وصال' دیدار اور معرفت حاصل کر سکتی ہے۔ چونکہ ذکرِ ''
'' ہی انسانی مقصدِ حیات یعنی معرفتِ الٰہی کے حصول کی بنیاد ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہلی وحی اور سب سے پہلا حکم اللہ کے ذاتی نام کے ذکر کا تھا۔
ترجمہ:پڑھ اپنے ربّ کے نام (اسم
تمام عبادات کی فرضیت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت اور پیروکاروں کو اسم
|
ترجمہ: (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) اپنے رَبِّ عظیم کے نام (اسم |
ترجمہ:( اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم )اپنے رب کے نام (اسمِ |
ترجمہ: (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) اپنے رب کے نام (اسمِ |
ترجمہ: میرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو۔ پھر یہ ذکر کرنے کا طریقہ بھی سمجھا دیا۔ |
ترجمہ:اور صبح و شام ذکر کرو اپنے ربّ کا دل میں' سانسوں کے ذریعے' بغیر آواز نکالے' خفیہ طریقے سے' عاجزی کے ساتھ اور غافلین میں سے مت بنو۔ |
ترجمہ:اپنے رب کا ذکر کرو خفیہ طریقے سے' عاجزی کے ساتھ بیشک اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
ذکر کا حکم خفیہ طریقے سے کرنے کا مطلب بغیر آواز کے ذکر کرنا ہے اور سانسوں کے ذریعے ذکر کا حکم اس لیے ہے کہ سانس کا تعلق روح سے ہے۔ جیسے ہی روح جسم میں داخل ہوتی ہے جسم سانس لینا شروع کردیتا ہے اور جیسے ہی روح جسم سے نکل جاتی ہے' جسم سانس لینا بند کر دیتا ہے۔ چنانچہ سانسوں کے ذریعے اسم
|
ترجمہ:''سانس گنتی کے ہیں اور جو سانس اللہ کے ذکر کے بغیر نکلے وہ مردہ ہے۔''
یعنی جس سانس میں اللہ کا ذکر کیا جائے وہ روح کی زندگی کا باعث ہے۔اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
|
''جو شخص ذکر |
ذکر
کرنے والے کی روح زندہ اور نہ کرنے والے کی روح مردہ ہے۔ آج کل لوگوں کی اکثریت تو ذکر
کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتی اور نماز روزوں پر اکتفا کیے بیٹھی ہے اور جو لوگ ذکر
کرتے بھی ہیں تو زبانی ذکر کرتے ہیں ۔ جو لوگ قلبی ذکر کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے نزدیک قلب سے مراد سینے کے بائیں جانب رکھا گوشت کا لوتھڑا (دِل)ہے اور وہ حبسِ دم کر کے زور زور سے
کا ذکر کر کے اسی لوتھڑے کو چلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جب یہ مادی دل پھڑکنے لگ جائے تو سمجھ لیتے ہیں کہ ان کی روح زندہ ہوگئی۔ حالانکہ جسم میں رکھے اس دل کا کام صرف خون کی ترسیل ہے۔ یہ بھی باقی جسمانی اعضاء کی طرح ایک عضو ہے جس کو باقی جسم کے ساتھ اسی دنیا میں رہ کر مٹی کا حصہ بن جانا ہے۔ روح غیر مادی ہے' اس کی قوت سانسوں کے ذریعے خفیہ طور پر عاجزی کے ساتھ' مسلسل اسم
ذات کا ذکر کرنے میں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ترجمہ: پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو کھڑے بیٹھے اور کروٹوں کے بل لیٹے ہوئے ذکر
اس آیت مبارکہ میں کروٹوں کے بل لیٹنے سے مراد سونا ہے اور سوتے وقت صرف سانسوں کے ذریعے ذکر ممکن ہے۔
جو لوگ مادی دل کو ''قلب'' مان کر اس کا تعلق سانسوں سے جوڑتے ہیں اور پھر مخصوص اوقات مقرر کر کے صرف اسی میں ذکرِ |
وہ لوگ کتنے احمق ہیں جو دل' نفس' روح اور باطن کا علم نہیں رکھتے اور گوشت کے ایک لوتھڑے کو دل کے مقام سے بند کر کے تفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ذکر قلبی ہے اور گوشت کے اس لوتھڑے کی دھڑکن کو دم کے ساتھ ملا کر سینے میں لاتے ہیں ا ور کہتے ہیں کہ یہ ذکر قربانی ہے اور گوشت کے اس لوتھڑے کو تفکر کی آنکھ کے سامنے رکھ کر کہتے ہیں کہ یہ ذکر نور حضور ہے اور اسی گوشت کے لوتھڑے کو تفکر سے مغزِ سر میں لے جاتے ہیں اور اسی کا نام ذکر سلطانی روحانی رکھتے ہیں۔ یہ تمام لوگ غلطی پر ہیں۔ یہ تمام وساوس اور خطراتِ شیطانی ہیں(جو اللہ کی اصل راہ اور قرب سے دور کر دیتے ہیں)۔ (کلید التوحید کلاں) | |
دل یہ نہیں جس کی جنبش تجھے شکم کے بائیں طرف معلوم ہوتی ہے بدن میں یہ حیوانی دل تو کفار' منافق و مسلم سب کے پاس موجود ہے۔ (عین الفقر) | |
میں حیران ہوتا ہوں اُن احمق اور سنگ دل لوگوں پر جو رات دن بلند آواز میں '' |
مادی دل سے ذکر کرنا باقی عبادات کی طرح جسم کی عبادت ہے' روح کی زندگی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اللہ کا قرب جسم نے نہیں بلکہ روح نے حاصل کرنا ہے گوشت کے لوتھڑے کا ذکر روح کوکوئی تقویت نہیں پہنچا سکتا کیونکہ روح جسم سے بہت بالا تر ہے۔ البتہ روح کا عروج جسمانی اعمال کی درستی کا باعث ہے چنانچہ جسمانی دِل کا یہ ذکر نہ بندے کو ربّ سے ملاتا ہے' نہ اس کا دیدار اور معرفت عطا کرتا ہے۔ لہٰذا بالکل بے فائدہ ہے۔ اصل ذکر سانسوں کے ذریعے کیا جانے والا ذکرِ اسمِ
ذات ہی ہے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک سو چالیس کُتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہر تصنیف اسمِ
ذات کی شرح و تفسیر ہے۔ اسمِ
ذات کے اِسرار و رموز کو کھول کر جتناآپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تصنیفات میں بیان فرمایا ہے اس سے پہلے کوئی بھی ایسا نہ کر سکا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ترجمہ: تجھ پر اس قدر کتابیں پڑھنے کی دُھن کیوں سوار رہتی ہے اگر تُو صاحبِ فہم ہے تو تیرے لیے علمِ الف (اسمِ |
ترجمہ: اسمِ |
ترجمہ:اسمِ |
اسمِ | |
تصورِ ''اسمِ | |
سن! توریت، زبور، انجیل اور اُم الکتب یعنی فرقان یہ چاروں کتابیں محض اسمِ ''
|
ترجمہ: جس نے اسمِ j کے ساتھ قرار پکڑا وہ غیر اللہ کے ہر تعلق سے نجات پا گیا۔ (عین الفقر) |
سُن! اسمائے صفات کے ذکر سے استدراج پیدا ہوتا ہے لیکن اسمِ |
فرمانِ حق تعالیٰ ہے : |
ترجمہ: ''اللہ'' (اسمِ |
فرمانِ حق تعالیٰ ہے : |
ترجمہ: نہیں ہے کوئی معبود سوائے '' |
قرآنِ مجید میں چار ہزار مرتبہ اسمِ '' |
ترجمہ: ''آسمان اُس کا اپنا بنایا ہوا ہے وہ اسے سمیٹ لے گا لیکن اسمِ '' |
اسمِ
ذات کے ذکر کی چار منازل ہیں
اسمِ
ذات اپنے مسمّٰی ہی کی طرح یکتا ' بے مثل اوراپنی حیرت انگیز معنویت وکمال کی وجہ سے ایک منفرد اسم ہے۔اس اسم کی لفظی خصوصیت یہ ہے کہ اگر اس کے حروف کو بتدریج علیحدہ کردیا جائے تو پھر بھی اس کے معنی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اورہر صورت میں اسمِ
ذات ہی رہتا ہے ۔ اسم
کے شروع سے پہلا حرف اہٹا دیں تو
رہ جاتا ہے اور اس کے معنی ہیں''
کے لئے'' اور یہ بھی اسمِ ذات ہے قرآن مجید میں ہے:
ترجمہ: ''اﷲ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے''۔
اور اگر اس اسم پاک کا پہلا ''
|
ترجمہ: ''اسی کے لیے بادشاہت اور حمد وستائش ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے''۔ اور اگر دوسرا '' |
ترجمہ: وہی اﷲ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر ھُو (ذاتِ حق تعالیٰ)۔ فقراء اور عارفین نے '' |
امام رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں '' | |
شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فتوحاتِ مکیہ جلد دوم میں فرماتے ہیں: '' | |
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس کو عارفین کا آخری اور انتہائی ذکر قرار دیا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: | |
ترجمہ: ذکرِ | |
ذکرِ |
ترجمہ: باھُوؒ ، |
ترجمہ:جو شخص باھُوؒ سے ذکرِ ''یاھُو'' حاصل کر لیتا ہے اُسے ہر کبوتراورہر فاختہ کی زبان سے ذکرِ ''یاھُو'' سنائی دیتا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے ظاہری وصال کے بعد یہ ذکر ان کے روحانی وارث اور امانتِ الٰہیہ کے حامل سروری قادری مشائخ عطا فرماتے ہیں۔
|
ترجمہ: باھُوؒ تو '' |
ترجمہ: باھُوؒ '' |
ترجمہ: جس شخص کے وجود میں ذکرِ |
ترجمہ: اسمِ اعظم |
ترجمہ: باھُو ؒ '' |
ترجمہ: اسمِ یاھُو نے باھُوؒ کا راہبر اور پیشوا بن کر اُسے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری سے مشرف کر دیا ہے۔ |
ترجمہ: ابتدا بھی '' |
ترجمہ:باھُوؒ کی زبان پر ہر وقت اسمِ |
اگر تُو '' | |
جس کے وجود میں ذکر اسمِ '' | |
جب کوئی دل کے ورق سے اسمِ '' |
گزشتہ ادوار میں اسمِ
ذات مندرجہ بالا چار منازل
میں طالبانِ مولیٰ کو عطا کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے سلطان الاذکار ''
'' جو حقیقتاً طالب کو بارگاہِ الٰہی میں لے جاکر ذاتِ حق تعالیٰ کی پہچان عطا کرتا ہے، تک پہنچنے کے لیے بہت وقت درکار ہوتا تھا، اور عموماً کمزور طالبانِ مولیٰ کی رسائی کبھی ''
'' تک ہو ہی نہ پاتی تھی۔ لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور مرشد کامل اکمل خادم سلطان الفقر حضرت سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس کے فیضِ بے بہا اور بے پناہ روحانی قوت کی وجہ سے طالبانِ مولیٰ کو بیعت کے فوراً بعد سلطان الاذکار ''
'' عطا کر دیا جاتا ہے اور تصور کے لیے سنہری اسمِ
ذات عطا کیا جاتا ہے۔
سانسوں کے ساتھ اسمِ
کے ذکر کے ساتھ ساتھ تصورِ اسمِ
ذات بھی اللہ کی پہچان و معرفت حاصل کرنے کے لیے بہت ضروری ہے ۔کیونکہ کسی بھی چیز کی پہچان کا سب سے عمدہ اور اعلیٰ ذریعہ آنکھ اور بصارت ہے۔دیگر حواس اشیاء کی شناخت کے ناقص آلے ہیں۔جبکہ ''دیکھنے '' سے کسی بھی چیز کی پوری پوری پہچان ہو جایا کرتی ہے اس لیے آنکھ سے کیا جانے والا تصور اور پاس انفاس(سانس کے ذریعے) سے کیا جانے والا ذکر سب سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ صرف یہی ذریعۂ معرفت اور وسیلۂ دیدارِ پروردِگار ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ذکر کے ساتھ ساتھ تصورِ اسمِ
کا حکم بھی دیتا ہے:
ترجمہ: (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) اپنے رب کے نام (اسمِ |
آیت کے پہلے حصے میں ذکر کا حکم ہے اور دوسرے حصے میں تصور کا۔ ''سب سے ٹوٹ کر اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ'' میں ''متوجہ'' ہونے سے مراد قلب و ذہن سے ہر شے کا خیال نکال کر صرف اللہ کی ذات کا تصور آنکھوں کے ذریعے دِل میں بسانا ہے۔تصور سے اسمِ
ذات کو اپنے دِل پر نقش کرنے سے یہ انسان کی باطنی شخصیت پر اثر انداز ہوکر اسے زندہ اور بیدار کرتا ہے اور اس طرح انسان کی ''باطنی آنکھ'' کھل جاتی ہے جس سے اسے نورِ بصیرت حاصل ہو جاتا ہے جس سے اللہ کی پہچان اور معرفت حاصل ہوتی ہے۔
ذکر اور تصور کا باہمی رشتہ ایک تانے بانے کی مانند ہے اور ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا ذہن ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے۔ کسی نہ کسی چیز کے خیال میں محو رہتا ہے۔ ایک لمحہ بھی خالی نہیں رہ سکتا ۔ یہ ذکر کی قسم ہے اور جن چیزوں کے متعلق ہمارا دِل سوچتا ہے تو ان کی شکلیں ہمارے سامنے آجاتی ہیں ۔ اگر بیوی بچوں کے متعلق سوچتا ہے تو وہ آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں اور گھر کے بارے میں سوچتا ہے تو گھر ہمارے سامنے آجاتا ہے اسے ''تصور'' کہتے ہیں۔ ذکر و تصور کا یہ سلسلہ مسلسل اور لگا تار جاری رہتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیا کے لوگوں اور اشیاء سے ہماری محبت اور رشتہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ یہی تعلق اور لگاؤ ذکر اور تصور ہے۔ صوفیاء کرامؒ ذکر اور تصور کے اس دنیاوی رُخ کو رُوحانی رُخ کی طرف موڑ کر واصل باللہ ہونے کا طریقہ ذکر اور تصورِ اسمِ
ذات کی صورت میں بتاتے ہیں۔ جس طرح لوہے کو لو ہا کاٹتا ہے اور پانی کی بہتات سے پَژ مُردہ فصل پانی ہی سے ہری بھری ہوجاتی ہے اسی طرح ذکر کو ذکر اور تصور کو تصور کاٹتا ہے۔ ضرورت صرف ذِکر اور تصور کے رُخ کو بدلنے کی ہے' اگر ہم دنیا اور اس کی فانی اشیاء اور اشکال کی بجائے اسمِ
ذات کا ذِکر اور تصور کریں تو ہمارا اس دنیا اور اس کی اشیاء سے لگاؤ اور محبت ٹوٹ کر اللہ سے عشق و محبت پیدا ہو جاتا ہے اور انسان کے قلب میں پوشیدہ امانتِ حق تعالیٰ ظاہر ہوجاتی ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ مشق تصورِ اسمِ | |
مشق تصورِ اسم | |
تصورِ اسم | |
ہر قفل کی ایک کنجی ہوتی ہے اور انسان کے (باطنی) وجود کی کنجی تصورِ اسم | |
وہ کون سا علم ہے کہ جس کے پڑھنے سے طالب ایک ہی دم میں بغیر کسی ریاضت و مجاہدہ کے اپنے نفس سے جُدا ہو جائے۔ وہ علم ''تصورِ اسمِ | |
جملہ قرآنی علوم' نص و حدیث اور تمام علوم جو لوحِ محفوظ اور عرش و کرسی پر لکھے ہوئے ہیں، ماہ سے ماہی تک ساری مملکتِ خداوندی کے غیبی علوم اور اللہ تعالیٰ کے سارے بھید اور توریت، زبور، انجیل و قرآن کے جتنے علوم ہیں اور تمام حکم احکام اور ظاہری و باطنی نفسی، قلبی، روحی، سِرّی امور اور جو حکمتیں تمام عالمِ مخلوقات کے درمیان جاری ہیں سب کے سب اسی ''تصورِ اسمِ | |
کُل سلک سلوک اور باطن کا صحیح راستہ جس میں کسی قسم کی غلطی، سلب اور رجعت کا خطرہ نہ ہو یہ ہے کہ طالبِ مولیٰ ایسے مرتبے کو پہنچ جائے کہ جس وقت چاہے اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہو اور جس وقت چاہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں حاضر ہو اور جس وقت چاہے جملہ انبیاء و اولیاء سے ملاقات کرے اور ان کا ہم مجلس ہو جائے۔ یہ توفیق صرف تصورِ اسمِ | |
''تصورِ اسم | |
حشر کے روز آدمیوں کی نیکیوں اور بَدیوں کا حساب ہوگا تو جس شخص کے دل پر اسمِ | |
اسمِ | |
فقہ کا ایک مسئلہ سیکھنا ایک سال کی بے ریا عبادت سے افضل اور تصورِ اسمِ |
ایسا اس لیے ہے کہ تصورِ اسمِ
ذات سے نفسِ امّارہ قتل ہو جاتا ہے اور دل زندہ ہو جاتا ہے جس سے حضورئ قلب (دل کی توجہ ) حاصل ہوتی ہے۔ جسے حضورئ قلب حاصل ہو اس کی ہر عبادت مقبول ہوتی ہے اور جسے حضورئ قلب حاصل نہ ہو اس کی ہر عبادت ریا کا درجہ رکھتی ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا فرمان ہے کہ : |
ترجمہ: ''حضورئ دل کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔''
جس دل کے اندر اسمِ
|
ترجمہ: ''قیامت کا دن ایسا دن ہے کہ اس دن نہ مال نفع دے گا اور نہ اولاد کام آئے گی بلکہ وہاں کامیابی اس کی ہوگی جس نے قلبِ سلیم پیش کیا۔'' |
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: | |
جب فقیر فنا فی اللہ بقا باللہ تصورِ اسمِ | |
فقیر کے مغزوپوست میں اسمِ | |
عارف باللہ تصورِ اسمِ | |
تصورِ اسمِ | |
تصورِ اسمِ | |
تصورِ اسمِ | |
اعمالِ ظاہر سے دل ہرگز پاک نہیں ہوتا اور نہ ہی دل سے نفاق جاتا ہے جب تک کہ دل کو مشق تصورِ اسمِ | |
جو شخص چاہے کہ زرّیں و اطلس کا لباس پہنے اور عمدہ خوراک کھانے کے باوجود اُس کا نفس مطیع و فرمانبردار رہے، حادثاتِ دنیا سے مامون رہے، معصیّتِ شیطانی سے محفوظ رہے اور اُس کے وجود سے خناس، خرطوم و وسوسہ و ہمات و خطرات خاک وخاکستر ہو کر نیست و نابود ہو جائیں تو اُسے چاہیے کہ مشقِ تصور سے اپنے دل پر اسمِ |
مشقِ مرقومِ وجودیہ میں انگشتِ شہادت سے نقش اسمِ
ذات کو سامنے رکھ کر تفکر سے وجود کے مختلف اعضاء پر اسمِ
ذات لکھا جاتا ہے جس سے روح نورِ الٰہی سے تقویت و تجلیات پاتی ہے۔حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ مشقِ مرقومِ وجودیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
کُل و جز کے جملہ مراتب حاصل کرنا اور واصل بحق ہونا مشقِ مرقومِ وجودیہ ہی سے ممکن ہے۔ مشقِ مرقومِ وجودیہ میں وجود پر بذریعہ تفکر (مخصوص طریقہ سے)اسمِ | |
وہ کونسی راہ ہے اور وہ کونسا علم ہے کہ جس سے طالبِ اللہ، آفاتِ شیطانی' بلیاتِ نفسانی اور حادثاتِ دنیائے پریشانی سے بچ کر قربِ ربّانی میں پہنچ جاتا ہے اور فنا فی اللہ ہو کر ہمیشہ غرقِ نور اور مشرفِ وصال رہتا ہے۔ اُسے وصال لازوال حاصل رہتا ہے وہ قیل وقال کو چھوڑ دیتا ہے اور دیدارِجمال کے مشاہدے کی لذّت حاصل کرتا رہتا ہے۔ وہ علم و راہ ''مشقِ مرقومِ وجودیہ'' ہے کہ جس سے اسمِ | |
طالبِ مولیٰ جب تصور سے مشقِ مرقومِ وجودیہ کرتاہے تو سر سے قدم تک اس کے ساتوں اندام نور کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور طالب مولیٰ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتاہے جس طرح کہ بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت پاک ہو تا ہے۔ مشقِ وجودیہ اسم |
اسمِ
ذات کے منکر کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''اسمِ | |
جو اسم | |
جسے اسمِ |
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔