طالبان کیسے بنتا ہے



میرے ناول "سرفروش سپاہی" کا ایک پیرگراف
مصنف مدثرحسین
سب بکواس ہے۔۔۔۔۔۔۔ دوقومی نظریہ سب بکواس ہے۔۔ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر ہندوستان کے مسلمانوں کو گمراه کیا گیا حالانکہ پاکستان اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن خود محمد علی جناح تھے۔۔۔۔ اس نے مسلمانوں کیلۓ پاکستان حاصل نہیں بلکہ ھم سب انگریز کے ہاتھوں بیچا تھا۔۔ طالبان کمانڈر اسدالله بیگ نے گرج کر کہا اور وہاں پر موجود سب نوجوان طالب علم سہم کر خاموش ہوگۓ۔ سوال پوچھنے والے طالبعلم کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔۔ یہ وه طالب علم تھے جن میں جذبہ حب الوطنی اور شوق شہادت عام طالبعلوں کی نسبت زیاده تھا یہ مختلف مدارس سے طالبان کے مرکز پہنچاۓ گۓ تھے اور انہیں یہ بتایاگیا تھا کہ اگر وه ملک و قوم اور اسلام کیلۓ کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیناچاہتے ہیں تو اس کیلۓ تیار ہو جائیں انہیں جلد ہی کفار کے ساتھ لڑنے کیلۓ ٹریننگ پر بھیجا جاۓ گا اس کے بعد وه کفار سے لڑ کر اسلام کی راه میں بڑے بڑے کام سرانجام دیں سکیں گے ہو سکتا ہے کہ تمہیں شہادة جیسے عظیم رتبہ پر فائض ہونے کا موقع مل جاۓ اور تم لوگ شہید ہو کر بارگاه الہی میں ہمیشہ کیلۓ امر ہو جاؤ اور جنت کے باغوں کے مالک ٹھہرو۔ شوق شہادت کیلۓ یہ سب طالب علم اس بات پر تیار ہو گۓ تھے اور انہیں مختلف علاقوں سے طالبان کے مرکز پہنچا دیا گیا جو کہ انہیں خود نہیں پتا تھا کہ یہ کہاں پر ہے۔ کیونکہ دوران سفر ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی تھی کئی دن کے سفر کے بعد وه مرکز پہنچے تھے۔ یہاں ان کی پچھلے کئی دنوں سے برین واشنگ کی جا رہی تھی ان کے خیالات اور افکار کو بدلہ جا رہا تھا  انہیں پاکستان کا دشمن اور اسلام کا حامی بنایا جا رہاتھا جسے عرف عام میں طالبان کہا جاتا ہے۔
اگر یہ بات نہ ہوتی تو قائداعظم کو انگریز کی جنانب سے پاکستان کا پہلا گورنر جنرل کیوں بنایا تھا۔ قائداعظم مسلمانوں کو نہیں بلکہ انگریزوں کا گورنر تھا جو انگریزوں کی جانب سے پاکستان کے مسلمان عوام پر مسلط کیا گیا تھا۔ کمانڈر نے مزید بولتے ہو کہا پاکستان کا بن جانا انگریز ہی کی اک سازش تھی انگریز ہندوستان کے مسلمانوں کو ہمیشہ اپنا غلام دیکھنا چاہتا تھا کیونکہ انگریز جان چکے تھے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد ان کے ہندوستان پر مزید قدم جمانے مشکل ہوجائیں گے اور انہیں یہاں سے شدید نقصان اٹھانا پڑے گا جو جانی بھی ہوگا اور مالی بھی۔
اس لیۓ ایک سازش کے تحت پاکستان کا وجود انڈیا کے بننے سے پہلے قیام عمل میں آیا اور قائداعظم انگریز کی جانب سے ھم پر گورنر مقرر ہوا تاکہ پاکستان کے عوام کو انگریز کا غلام رکھا جا سکے۔ کمانڈر نے خاموش ہو کر ایک نگاه سب پر ڈالی اور کہنے لگا۔ کیا پاکستان کی موجود حکومت نے انگریز کا ترز حکمرانی نہیں اپنا رکھا اگر پاکستان اسلام کیلۓ بنا ہوتا تو یہاں جمہوریت کی بجاۓ خلافت ہوتی مگر کہاں ہے وه خلافت۔۔۔۔۔؟
کمانڈر سب کی آنکھوں میں جھانکنے لگا اور انہیں خاموش پاکر کہنے یہ بات بھی جھوٹ ہے کہ پاکستان کبھی اسلام کےلیے بنا تھا پاکستان انگریز کی اک کڑی سازش ہے پاکستان کا وجود ہی اسلام کے نام پر ایک بدنما دھبا ہے جسے ھم سب کو مل کر مٹانا ہوگا تاکہ عالم اسلام پاکستان جیسے ناپاک وجود سے پاک ہوسکے ھم سب کو پاکستان کی عوام کے ساتھ جہاد کرنا ہے پاکستان کے لوگ منافق اور منافقوں کا قتل اسلام میں جائز ہے اگر تم اسلام کی خاطر کچھ کرنا چاہتے ہو تو تم لوگوں کو دنیا سے پاکستان کا نام و نشان مٹانا ہوگا۔ الله تم کو اس کا اجرعظیم دے گا اگر تم اس کے الٹ چلے تو تمہیں اس دنیامیں بھی ابرت ناک سزا ملے گی اور آخرت میں۔ پاکستان کے عوام نے ہندوستان کے مسلمانوں سےغداری کی اسی لیۓ بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوا تھا کیونکہ بنگلہ دیش کے عوام کو پاکستانیوں کی غداری اور ان کی غلط بیانی کی احساس ہو گیا تھا انہیں اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ پاکستانیوں اور خاص کر قائداعظم نے اسلام کے نام پر ان سے غلط بیانی کی ہے اور اسلام کے نام پر دھوکہ دیا گیا ہے۔ کمانڈر کے یہ الفاظ گویا ایک ایٹم بم تھے جو ان سب طالبعلموں کے دل و دماغ پر بجلی بن کر گر رہے تھے پچھلے کئی دنوں سے وه اسی قسم کی باتیں سن رہے تھے ان کے ذہن آۓ دن دو سوچوں کا شکار ہو جاتے ایک پاکستان سے محبت اور دوسری نفرت ان کے ذہن تذبذب کا شکار ہو چکے تھے انہیں یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ پاک آرمی صرف اور صرف ڈالر کیلۓ اور امریکہ کی خوشنودی کیلۓ معصوم بچوں اور لوگوں کا قتل عام کر رہی ہے اور انہیں مسلسل اس قسم کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھائی جاتیں جس میں پاک آرمی کو ظالم اور طالبان کو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ سوچوں کی اس تذبدب میں ان کے ذہن آہستہ آہستہ طالبان کی سوچ کا شکار ہونے لگے تھے انہیں کبھی کبھی اپنے ملک و قوم اور فوج سے شدید نفرت محسوس ہوتی اور کبھی ان پر بیحد پیار آتا مگر یہ پیار طالبان کمانڈرز کی باتیں سن کر ایک بار پھر نفرت میں بدل جاتا تھا۔ ان کے ذہن ایک مثبت اور منفی کشمکش کا شکار ہو چکے تھے وه اپنی قوت فیصلہ کھو چکے تھے۔ ایسے میں اگر ان کے ذہن میں کوئی نئی سوچ مسلسل ٹھونسی جاتی تو ان کے دماغوں نے وه سوچ قبول کرکے اسے اپنا لینا ہے اور وه اسی کو سچ ماننے لگتے جو ان دیکھا یا سنایا جار رہا ھوتا ہے اور اسی سوچ پر چلے گا جس پر اس کو ڈالا گیا ہے خواه وه راستہ نیکی کا ھو یا بدی کا۔ وه اس ڈگر اس سوچ سے نہیں ہٹے گا خواه اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جاۓ۔ اسی کا نام برین واشنگ ہے۔ کسی کی سوچ کو اتھل پتھل کرے اس کو اپنی سوچ پر چلانا ہی برین واشنگ ہے۔
اور طالبان کسی کو طالبان بنانے کیلۓ یہی طریقہ کار اختیار کرکے ان نیۓ ذہنوں کو ورغلاتے ہیں اور ان کے ذہنوں کو طالبان بننے پر مجبور کر دیا جاتا ہے

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔