جمعہ، 17 اپریل، 2015

شمشیربے نیام از عنایت اللہ چوتھا حصہ

0 comments
شمشیر بے نیام۔خالد بن ولید رضی اللہ عنہ-الله کی  تلوار-پارٹ4
اب ایک ہی ماہ بعد طائف کا حسن اداس تھا ۔بستی کے ماحول پر خوف و ہراس طاری تھا۔ اپنے دیوتا لات کی اشیرباد سے اور کاہن کی یقین دہانی سے ثقیف ،ہوازن اور دیگر قبائل کا جو لشکر مکہ پر حملہ کرنے گیا تھا وہ مکہ سے دور حنین کے مقام پر مسلمانوں کے ہاتھوں پٹ کر اور تتر بتر ہوکر واپس آ رہاتھا۔ بھاگ کے آنے والوں میں پیش پیش اس متحدہ لشکر کا سالارِ اعلیٰ جواں سال اور جوشیلا سردار مالک بن عوف تھا۔ وہ سب سے پہلے اسی لیے طائف پہنچا تھا کہ شہر کے دفاع کو مضبوط بنا سکے ۔مسلمان رسولِ اکرمﷺ کی قیادت میں طائف کی طرف بڑھے آ رہے تھے۔ ’’طائف کے لوگو!‘‘ طائف کی گلیوں میں گھبرائی گھبرائی سی آوازیں اٹھ رہی تھیں ۔’’مسلمان آ رہے ہیں ۔ تفصیل سے پڑھئے
شہر کا محاصرہ ہو گا ،تیار ہو جاؤ۔اناج اور کھجوریں اکھٹی کرلو۔پانی جمع کر لو۔‘‘سب سے زیادہ گھبراہٹ مالک بن عوف پر طاری تھی۔ اسے طائف ہاتھ سے جاتا نظر آ رہا تھا۔اسے شکست اور پسپائی کی چوٹ تو پڑی ہی تھی، سب سے بڑی چوٹ اس پر یہ پڑی کہ وہ جب شہر میں داخل ہوا تو عورتوں نے اس کی بہادری اور فتح کے گیت گانے کی بجائے اسے نفرت کی نگاہوں سے دیکھا تھا اور اس کے لشکریوں کو بعض عورتوں نے طعنے بھی دیئے تھے۔’’بیویاں اور بیٹیاں کہاں ہیں جنہیں تم ساتھ لے گئے تھے؟‘‘عورتیں ،لشکریوں سے طنزیہ لہجے میں پوچھ رہی تھیں۔’’بچے بھی مسلمانوں کو دے آئے ہو؟‘‘یہ بھی ایک طعنہ تھا جو عورتیں انہیں دے رہی تھیں۔مالک بن عوف نے اپنے سامنے اپنے نائب سالاروں اور کمانداروں کو بٹھارکھا تھا اور انہیں بڑی تیز تیز بولتے ہوئے کہہ رہا تھاکہ’’ دوسرے قبیلوں کو بھی شہر میں لے آؤ۔مسلمان آ رہے ہیں ۔‘‘مالک بن عوف نے ذرا سا بھی آرام نہ کیا۔آتے ہی طائف کا دفاع مضبوط کرنے میں لگ گیا۔اس کے نائب کماندار اور قاصد پسپا ہو کر آنے والوں کو اکھٹا کرنے میں لگے ہوئے تھے۔آدھی رات تک وہ تھک کر چور ہو چکا تھا ۔اس نے اپنی سب سے زیادہ حسین اور چہیتی بیوی کو اپنے پاس بلایا ،وہ آگئی۔’’ کیاآپ نے حلف نہیں اٹھایا تھا کہ محمد )ﷺ(اور ا س کے تمام پیروکاروں کو جنہوں نے مکہ کے بت توڑ ڈالے ہیں ختم کرکے اپنی عورتوں کو منہ دکھائیں گے۔‘‘بیوی نے اسے کہا۔’’آپ فتح کی بجائے ماتھے پر شکست کا داغ لے کر آئے ہیں۔ آپ کے حلف اور عہد کے مطابق میرا وجود آپ پر حرام ہے۔‘‘’’تم میری بیوی ہو۔‘‘مالک بن عوف نے غصے سے کہا۔’’میری حکم عدولی کی جرات نہ کرو۔میں بہت تھکا ہوا ہوں اور میں بہت پریشان ہوں۔مجھے اس وقت تمہاری ضرورت ہے۔تم میری سب سے پیاری بیوی ہو۔‘‘
’’آپ کو میری ضرورت ہے ۔‘‘بیوی نے کہا۔’’لیکن مجھے ایک غیرت مند مرد کی ضرورت ہے۔مجھے اس مالک بن عوف کی ضرورت ہے جو یہاں سے عہد کرکے نکلا تھا کہ مسلمانوں کو مکہ کے اندر ہی ختم کرکے واپس آئے گا۔کہاں ہے وہ مالک بن عوف؟وہ میرے لیے مر گیا ہے ۔اس مالک بن عوف کو میں نہیں جانتی جو اپنے قبیلے اور اپنے دوست قبیلوں کی ہزاروں عورتوں اور ہزاروں بچے اپنے دشمن کے حوالے کرکے اپنی خواب گاہ میں آ بیٹھا ہے۔ وہ ایک عورت سے کہہ رہا ہے کہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔‘‘اس حسین عورت کی آواز بلند ہو کر جذبات کی شدت سے کانپنے لگی۔وہ مالک بن عوف کے پلنگ سے ا ٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی ۔’’آج رات تمہاری کوئی بیوی تمہارے پاس نہیں آئے گی۔آج رات تمہاری کسی بیوی کو ان عورتوں کی آہیں اور فریادیں چَین سے سونے نہیں دیں گی جو مسلمانوں کے قبضے میں ہیں ۔ذار سوچ،تصور میں لا ان عورتوں کو ۔ان نو خیز لڑکیوں کو جنہیں تو مسلمانوں کے حوالے کرآیا ہے ۔وہ اب مسلمانوں کے بچے پیدا کریں گی ،بچے جو ان کے قبضے میں ہیں وہ مسلمان ہو جائیں گے۔‘‘مالک بن عوف توخطروں میں کود جانے والا خود سر آدمی تھا، اس نے اپنے بزرگ اور میدانِ جنگ کے منجھے ہوئے استاد دُرید بن الصّمہ کی پندونصیحت کو ٹھکرا دیا تھا کہ وہ عقل و ہوش سے کام لے اور جوانی کے جوش و خروش پر قابو پائے۔اب وہی مالک بن عوف اپنی بیوی کے سامنے یوں سر جھکائے بیٹھا تھا جیسے دہکتے ہوئے انگاروں پر کسی نے پانی چھڑک دیا ہو۔اس کی مردانگی ختم ہو چکی تھی ۔’’تمام مسلمانوں کو ختم کرنے گئے تھے مالک؟‘‘بیوی اب اس طرح بولنے لگی جیسے اس کی نگاہوں میں اتنے جرّی اور بہادر شوہر کا احترام ختم ہو چکا ہو۔وہ کہہ رہی تھی ’’مسلمانوں کو ختم کرتے کرتے تم مسلمانوں کی تعدا دمیں اضافہ کرآئے ہو۔‘‘’’کاہن نے کہا تھا کہ……‘‘’’کون کاہن؟‘‘بیوی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’وہ جو مندر میں بیٹھا فالیں نکالتا رہتا ہے؟تم جیسے آدمی اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتے ہیں اور اپنی قسمت اپنے ہاتھوں بنایا اور بگاڑا کرتے ہیں۔ تم نے کاہن سے پوچھا نہیں کہ اس کی فال نے جھوٹ کیوں بولا ہے؟‘‘مالک بن عوف اٹھ کھڑا ہوا۔اس کی سانسیں تیزی سے چلنے لگیں ۔اس کی آنکھوں میں خون اترنے لگا۔اس نے دیوارکے ساتھ لٹکتی ہوئی تلوار اتاری اور بیوی سے کچھ کہے بغیر باہر نکل گیا۔
طائف میں رات توآئی تھی لیکن وہاں کی سرگرمیاں اور بھاگ دوڑ دیکھ کر دن کا گمان ہوتا تھا ۔باہرسے خبریں آ رہی تھیں کہ مسلمان طائف کی طرف بڑی تیزی سے بڑھے چلے آ رہے ہیں ۔لوگ دفاعی تیاریوں میں مصروف تھے ۔سب سے بڑا مسئلہ خوراک اور پانی کا تھا ۔بہت سے لوگ پانی جمع کرنے کیلئے حوض بنا رہے تھے۔مالک بن عوف ان سرگرمیوں کے شوروغل میں سے گزرتا چلا جا رہا تھا۔ لوگ اتنے مصروف تھے کہ کسی کو پتا ہی نہ چلا کہ ان کے درمیان سے ان کاسالارِ اعلیٰ گزر گیا ہے۔عبادت گاہ میں وہ کاہن جس نے کہا تھاکہ ثقیف اورہوازن مسلمانوں کو مکہ میں بے خبری میں جالیں گے۔گہری نیند سویا ہوا تھا۔اسے جگانے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا تھا۔وہ عبادت گاہ کے کسی اندرونی حصے میں سویا ہوا تھا۔ عبادت گاہ کے مجاور بیرونی کمرے میں سوئے ہوئے تھے۔انہیں کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔یہ ان کے فرائض میں شامل تھا کہ کاہن کے کمرے تک کسی کو نہ پہنچنے دیں۔دو تین مجاور اٹھ کر باہر آ گئے۔ایک کے ہاتھ میں مشعل تھی ۔’’مالک بن عوف ۔‘‘ایک مجاور نے مالک کے راستے میں آ کر کہا۔’’کیا قبیلے کا سردار نہیں جانتا کہ اس سے آگے کوئی نہیں جا سکتا ؟ہم سے بات کر مالک بن عوف۔‘‘’’اور کیا تم نہیں جانتے ایک سردار کا راستہ روکنے کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟‘‘ مالک بن عوف نے تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’میں کاہن کے پاس جا رہا ہوں۔‘‘’’کاہن کے قہر کو سمجھ مالک۔‘‘ایک اور مجاور نے کہا۔’’کاہن جو اس وقت تمہیں سویا ہوا نظر آئے گا ،وہ لات کے حضور گیا ہوا ہے۔اس حالت میں اس کے پاس جاؤ گے تو……‘‘مالک بن عوف ایسی ذہنی کیفیت میں تھا جس نے اس کے دل سے کاہن کاتقدس اور خوف نکال دیا تھا۔ایک تو وہ بہت بری شکست کھا کر آیا تھا دوسرے اس کی اس بیوی نے اسے دھتکار دیا تھا جسے وہ دل وجان سے چاہتا تھا ۔اس نے مجاور کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے مشعل کے ڈنڈے پر ہاتھ مارا اور اس کے ہاتھ سے مشعل چھین کر کاہن کے کمرے کی طرف چلا گیا ۔مجاور اس کے پیچھے دوڑالیکن وہ کاہن کے کمرے میں داخل ہو گیا۔کاہن مجاوروں کے شور سے جاگ اٹھا تھا۔اپنے کمرے میں مشعل کی روشنی دیکھ کر اُٹھ بیٹھا۔مالک بن عوف نے مشعل دیوار میں اس جگہ لگا دی جو اسی مقصد کیلئے دیوار میں بنائی گئی تھی۔’’مقدس کاہن! ‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’میں پوچھنے آیا ہوں کہ ……‘‘’’کہ تمہاری شکست کا سبب کیا ہوا؟‘‘کاہن نے اس کی بات پوری کرتے ہوئے کہا۔’’کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ ایک حام کی قربانی دو۔‘‘
’’اورمقدس کاہن۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’تم نے یہ بھی کہا تھاکہ حام نہ ملے تو اپنے قبیلے سے کہو کہ اپنے خون کی اور اپنی جانوں کی قربانی دیں۔تم نے کہاتھا کہ حام کی تلاش میں وقت ضائع نہ کرنا ۔تم نے کہاتھاکہ مسلمان لڑنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔‘‘
’’کیاتو اپنے دیوتا سے باز پرس کرنے آیا ہے کہ دشمن نے تمہیں شکست کیوں دی ہے؟‘‘کاہن نے پوچھا۔’’میں نے کہا تھاکہ پیٹھ نہ دکھانا ۔کیا تیرے لشکر نے پیٹھ نہیں دکھائی ۔تیرے لشکر میں تو اتنی سی بھی غیرت نہیں تھی کہ اپنی عورتوں ا ور بچوں کی حفاظت کرتا۔‘‘ ’’میں پوچھتا ہوں تم نے کیا کیا؟‘‘مالک بن عوف نے پوچھا۔’’اگر سب کچھ ہمیں ہی کرنا تھاتو تم نے کیا کمال دکھایا؟تم نے کیوں کہا تھا کہ مسلمانوں کو اس وقت پتا چلے گا جب تمہاری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں گی۔کیا تم نے ہمیں دھوکانہیں دیا؟کیا یہ درست نہیں کہ محمد)ﷺ( سچا ہے؟جس نے تمہاری فال کو جھٹلا دیا ہے۔اگر تم کاہن نہ ہوتے تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔اب طائف پر بہت بڑا خطرہ آ رہا ہے۔ کیا تم اپنے دیوتا کی بستی کو بچا سکتے ہو ؟کیا تم مسلمانوں پر قہر نازل کرسکتے ہو؟‘‘’’پہلی بات یہ سن لے عوف کے بیٹے ! ‘‘کاہن نے کہا۔’’کاہن کو دنیا کی کوئی طاقت قتل نہیں کر سکتی۔کاہن کی جب عمر ختم ہوتی ہے تو وہ دیوتا لات کے وجود میں تحلیل ہو جاتا ہے۔تو مجھ پر تلوار اٹھا کر دیکھ لے اور دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان طائف تک پہنچ سکتے ہیں ۔یہاں سے زندہ واپس نہیں جا سکتے۔‘‘جس وقت مالک بن عوف کاہن کے کمرے میں داخل ہوا تھا، اس وقت کسی انسان کی شکل کا ایک سایہ عبادت گاہ کی عقبی دیوار پر رینگ رہاتھا۔ وہ جو کوئی بھی تھا وہ اپنی جان کا خطرہ مول لے رہا تھا۔ مالک بن عوف ہی تھا جو سرداری کے رعب میں رات کے وقت کاہن کے کمرے تک پہنچ گیا تھا۔یہ عبادت گاہ صدیوں پرانی تھی۔ عقبی دیوار میں چھوٹا سا شگاف تھا ۔وہ انسان جس کا سایہ دیوارپر رینگ رہا تھا اس شگاف میں داخل ہو گیا ۔آگے اونچی گھاس اور جھاڑیاں تھیں۔ وہ انسان گھاس اورجھاڑیوں میں سے یوں گزرنے لگا کہ اس کے قدموں کی آہٹ یا ہلکی سی سرسراہٹ بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔
وہ گھاس اور جھاڑیوں میں سے گزر کر اس چبوترے پر جا چڑھا، جس پر عبادت گاہ کی عمارت کھڑی تھی۔اس طرف کے دروازے کے کواڑ دیمک خوردہ تھے۔وہ انسا ن کھائے ہوئے ان کواڑوں میں سے گزر کر عبادت گاہ میں داخل ہو گیا۔ آگے تاریک غلام گردش تھی۔ اس انسان نے جوتے اتار دیئے اور دبے پاؤں آگے بڑھتا گیا۔اس گھپ اندھیرے میں وہ یوں چلا جا رہا تھا جیسے پہلے بھی یہاں آیا ہو۔وہ غلام گردش کی بھول بھلیوں میں سے گزرتا کاہن کے کمرے کے نزدیک پہنچ گیا۔ اسے کاہن کی اور کسی اور کی باتیں سنائی دیں۔ وہ مالک بن عوف تھا جو کاہن کے ساتھ باتیں کر رہاتھا، یہ انسان رک گیا اسے کاہن کے کمرے سے آتی ہوئی مشعل کی روشنی نظر آرہی تھی۔
مالک بن عوف کاہن سے اتنا مرعوب ہوا کہ وہ سر جھکائے ہوئے وہاں سے نکل گیا۔یہ انسان جو قریب ہی کہیں چھپ گیا تھا آگے بڑھا۔ کاہن دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا ۔اس کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں کیونکہ اس کے سامنے یک جوان سال لڑکی کھڑی تھی۔اس لڑکی کو وہ پہچانتا تھا۔ یہ وہی یہودی لڑکی تھی جسے ایک ضعیف العمر یہودی کاہن کے پاس تحفے کے طور پر لایاتھااور اس لڑکی کے ساتھ اس نے سونے کے دو ٹکڑے کاہن کی نظر کیے تھے۔یہ کاہن کا انعام یا معاوضہ تھا۔ کاہن نے اسے یقین دلایا تھا کہ ثقیف اور ہوازن کے قبیلے مسلمانوں کو مکہ میں ہمیشہ کیلئے ختم کر دیں گے۔ اس نے اس بوڑھے یہودی سے کہا تھا ۔’’دیوتا لات کا اشارہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔‘‘بوڑھا یہودی اس یہودی لڑکی کو کاہن کے پاس ایک رات کیلئے چھوڑ کر چلا گیا تھا ۔طائف میں وہ اس خوش خبری کامنتظر بیٹھا تھا کہ ثقیف ہوازن اور ان کے دوست قبیلوں نے اسلام کو مسلمانوں کے خون میں ڈبو دیا ہے لیکن ہوا یہ کہ مالک بن عوف سر جھکائے ہوئے طائف میں داخل ہوا۔پھر اس کے لشکری قدم گھسیٹتے ہوئے دو دو چار چار کی ٹولیوں میں طائف میں آنے لگے۔بوڑھے یہودی کی کمر عمر نے پہلے ہی دوہری کر رکھی تھی۔ مالک بن عوف کو شکست خوردگی کی حالت میں واپس آتے دیکھ کر اس کی کمر جیسے ٹوٹ ہی گئی ہو۔ اس کی کمر پر آخری تنکا اس یہودی لڑکی نے رکھ دیا۔جسے وہ انعام کے طورپر کاہن کے حوالے کر آیا تھا۔’’میں حیران ہوں کہ تم جیسے جہاندیدہ بزرگ نے دھوکا کھایا۔‘‘لڑکی نے اسے کہاتھا۔’’مجھے اس مکروہ کاہن کے کسی ایک لفظ پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں نے تمہارے حکم سے اپنی عصمت قربان کردی۔‘‘’’میرے حکم سے نہیں۔‘‘بوڑھے یہودی نے کہاتھا ۔’’خدائے یہودہ کے حکم سے۔ تمہاری عصمت کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔‘‘یہودیوں میں یہ رواج عام تھا جو ابھی تک چلا آ رہا ہے کہ میدانِ جنگ میں آنے سے گریز کرتے تھے ۔وہ ایسی چال چلتے تھے کہ اپنے دشمنوں کو آپس میں لڑا دیا کرتے تھے۔ اس کیلئے وہ دولت کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹیوں کی عصمت بھی ایک کامیاب حربے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔یہودیوں کے معاشرے اور مذہب میں عصمت اور آبروکی کوئی قدروقیمت نہیں تھی۔لیکن یہ لڑکی اپنی قوم سے بہت ہی مختلف ثابت ہوئی ۔وہ بوڑھے یہودی پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتی تھی اور کہتی تھی کہ مسلمانوں کا قلع قمع ہوجاتا تووہ فخر سے کہتی کہ اس نے اس مقصد کیلئے اپنی عصمت کی قربانی دی ہے اور وہ یہ بھی کہتی تھی کہ کاہن نے انہیں دھوکا دیا ہے۔رات کو جب بوڑھایہودی گہری نیند سویا ہوا تھا ،یہ لڑکی اٹھی۔ اس نے خنجر اپنے تکیے کے نیچے رکھا ہوا تھا۔ اس نے خنجر نکالا اوراپنے کپڑوں کے اندر چھپا لیا۔وہ دبے پاؤں باہر نکل گئی۔
’’ہم جانتے تھے کہ ہمارا جادو تمہیں ایک بار پھر ہمارے پاس لے آئے گا۔‘‘کاہن اس لڑکی سے کہہ رہا تھا۔’’ آؤ…… دروازے پر کھڑی کیا کر رہی ہو؟‘‘لڑکی آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور کاہن کے قریب جا رکی۔’’جادو نہیں انتقام کہو۔‘‘لڑکی نے اپنی دھیمی آواز میں کہا۔اس میں قہر او رغضب چھپا ہواتھا ۔’’مجھے انتقام کاجادو یہاں تک لے آیا ہے۔‘‘’’کیا کہہ رہی ہو لڑکی؟‘‘کاہن نے حیرت ذدہ مسکراہٹ سے کہا۔’’تم مالک بن عوف سے انتقام لینا چاہتی ہو ؟وہ جاچکا ہے۔ وہ مجھے قتل کرنے آیا تھا۔کیا کوئی انسان اتنی جرات کرسکتا ہے کہ لات کے کاہن کو قتل کردے؟‘‘’’ہاں!‘‘لڑکی نے کہا۔’’ ایک انسان ہے جو لات کے کاہن کو قتل کر سکتا ہے ۔وہ لات کا پجاری نہیں ،وہ میں ہوں ۔خدائے یہودہ کی پجارن۔‘‘لڑکی نے پلک جھپکتے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا اور کاہن کے دل میں اتار دیا۔اس کے ساتھ ہی لڑکی نے کاہن کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا کہ اس کی اونچی آواز نہ نکل سکے۔لڑکی نے خنجر نکالا اور کاہن کی شہہ رگ کاٹ دی۔وہ بڑے اطمینان سے کاہن کے کمرے سے نکل آئی اور اس رستے جس رستے سے وہ آئی تھی عبادت گاہ کے احاطے سے نکل گئی۔ مالک بن عوف اپنی خواب گاہ میں سر جھکائے بیٹھا تھا ۔اس کی چہیتی بیوی اس کے پاس بیٹھی تھی ۔غلام نے اطلاع دی کہ ایک اجنبی جوان عورت آئی ہے جس کے کپڑے خون سے لال ہیں اور اس کے ہاتھ میں خون آلود خنجر ہے۔مالک بن عوف جو نیم مردہ نظر آرہا تھا، اچھل پڑا اوربولا کہ اسے اندر لے آؤ۔اس کی اور اس کی بیوی کی نظریں دروازے پر جم گئیں۔ وہ جوان عورت دروازے میں آن کھڑی ہوئی اور بولی۔’’جوکام تم نہیں کر سکے تھے وہ میں کر آئی ہوں۔میں نے کاہن کو قتل کر دیا ہے۔‘‘ مالک بن عوف پر سناٹا طاری ہو گیا۔ اس کے چہرے پر خوف کی پرچھائیاں نظر آنے لگیں۔اس نے لپک کر تلوار اٹھائی اور نیام پرے پھینک کرلڑکی کی طرف بڑھا۔اس کی بیوی راستے میں آگئی۔’’اس لڑکی نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے ۔‘‘بیوی نے اسے کہا۔’’تمہیں جھوٹے سہارے اور جھوٹے اشارے دینے والا مر گیا ہے۔ اچھا ہوا ہے۔‘‘’’تم نہیں جانتیں ہم پرکیا قہر نازل ہونے والا ہے ۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’تم پر کوئی قہر نازل نہیں ہوگا۔‘‘یہودی لڑکی نے کہا۔’’کیا کاہن نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ کاہن کو کوئی قتل نہیں کر سکتا اور کاہن کی جب عمر پوری ہو جاتی ہے تو وہ دیوتا لات کے وجود میں تحلیل ہو جاتا ہے ۔اگر تم میں جرات ہے تو لات کے مجاوروں سے کہو کہ اپنے کاہن کی لاش لات کے وجود میں تحلیل کردیں۔اس کی لاش کو باہر رکھ دو پھر دیکھو گدھ اور کتے کس طرح کھاتے ہیں ۔‘‘
مالک بن عوف کی بیوی نے مالک کے ہاتھ سے تلوار لے لی اور پلنگ پر پھینک دی۔’’ہوش میں آ عوف کے بیٹے! ‘‘بیوی نے اسے کہا۔’’اپنی قسمت اس شخص کے ہاتھ میں نہ دے جو ایک لڑکی کے خنجر سے قتل ہو گیا ہے۔‘‘اس نے غلام کو بلایا اور اسے کہا ۔’’یہ لڑکی ہماری مہمان ہے۔ اس کے غسل اور آرام کا انتظام کرو۔‘‘مالک بن عوف کے چہرے سے خوف کا تاثر دھلنے لگا،بیوی نے اس کے خیالوں میں انقلاب برپاکر دیا۔صبح طلوع ہو رہی تھی۔ جب شکست اور غم کے مارے ہوئے مالک بن عوف کو دو اطلاعیں ملیں ۔ایک یہ کہ رات کو کاہن قتل ہو گیا ہے اور مجاوریہ کہہ رہے ہیں کہ رات مالک بن عوف کے سوا کاہن کے کمرے میں اور کوئی نہیں گیاتھااور نہ رات کے وقت کسی کو وہاں تک جانے کی جرات ہو سکتی ہے۔مجاوروں نے یہ مشہورکر دیا تھا کہ کاہن کو مالک بن عوف نے خود قتل کیا ہے یا قتل کروایا ہے۔مالک بن عوف کو دوسری خبر یہ ملی کہ مسلمان جو طائف کی طرف بڑھے چلے آرہے تھے ،معلوم نہیں کدھرچلے گئے ہیں ۔یہ خبر ایسی تھی جس نے مالک بن عوف کے حوصلے میں کچھ جان پیدا کردی۔اس نے تیز رفتار گھوڑوں پر دو تین قاصد اس راستے کی طر ف دوڑادیئے جو حنین سے طائف کی طرف آتا تھا۔اس کے بعد وہ عبادت گاہ کی طرف چلا گیا ۔اس نے لوگوں کو بڑی مشکل سے یقین دلایاکہ وہ مقدس کاہن کو قتل کرنے کی جرات نہیں کرسکتا ۔لوگ پوچھتے تھے کہ پھرقاتل کون ہے؟مالک بن عوف نے کہا کہ وہ قاتل کا سراغ جلد ہی لگا لے گا۔ وہ یہودی لڑکی کو سامنے نہیں لانا چاہتا تھا ۔اس نے لوگوں کی توجہ ادھر سے ہٹا کر مسلمانوں کی طرف کر دی ۔جو طائف کو محاصرے میں لینے کیلئے بڑھے آ رہے تھے ۔وہ عبادت گاہ کے اندر چلا گیا ۔اس نے مجاوروں کے ساتھ کسی طرح معاملہ طے کر لیا۔’’لات کے پجاریوں!‘‘ ایک بوڑھے مجاور نے باہرآکر لوگوں کے ہراساں ہجوم سے کہا۔’’ہمارے مقدس کاہن کو کسی نے قتل نہیں کیا۔وہ دیوتا لات کے وجود میں گھل مل گیا ہے۔ دیوتا لات کے حکم سے اب میں کاہن ہوں ۔جاؤ اپنی بستی کو اس دشمن سے بچاؤ جو بڑھا چلا آ رہا ہے۔ ‘‘مالک بن عوف جب اپنے گھر پہنچا تو کچھ دیر بعد اس کے بھیجے ہوئے قاصد واپس آ گئے۔ انہوں نے اسے بتایا کہ اس راستے پر جو طائف کی طرف آتا ہے اس پہ مسلمانوں کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔مالک بن عوف نے اپنے آپ کو دھوکے میں نہ رکھا اس نے اپنے قبیلے کے سرداروں سے کہا کہ’’ محمد)ﷺ( اپنے دشمن کو بخشنے والا نہیں ۔وہ کسی نہ کسی طرف سے جوابی وار ضرور کرے گا۔ ‘‘اس نے اعلان کیا کہ شہر کے دفاعی انتظامات میں کوئی کمی نہ رہنے دی جائے۔
قاصدوں نے مالک بن عوف کو بالکل صحیح اطلاع دی تھی کہ طائف کے راستے پر مسلمانوں کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔لیکن مسلمان سیلاب کی طرح طائف کی طرف بڑھے چلے آ رہے تھے۔ انہوں نے رسولِ اکرمﷺکے حکم سے راستہ بدل لیا تھا ۔بدلا ہوا راستہ بہت لمبا تھا لیکن رسولِ کریمﷺ نے اتنا لمبا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ چھوٹا راستہ پہاڑیوں اور چٹانوں میں سے گزرتا تھا۔کھڈنالے بھی تھے ۔رسولِ کریمﷺ نے اپنے سالاروں سے کہا تھا کہ حنین کے پہلے تجربے کو نہ بھولو،مالک بن عوف بڑا جنگجو ہے ۔آپﷺ نے فرمایا کہ طائف تک کا تمام علاقہ گھات کیلئے موزوں ہے ۔مالک بن عوف ایسی ہی گھات لگا سکتا ہے جیسی گھات میں اس نے خالدؓ بن ولید کو تیروں سے چھلنی کر دیا تھا۔ سولِ اکرمﷺ نے جو راستہ طائف تک پہنچنے کیلئے اختیار کیا تھا وہ وادی الملیح سے گزرتا تھااور وادی القرن میں داخل ہو جاتا تھا۔آپﷺ اپنے لشکر کو وادی القرن میں سے گزارنے کی بجائے طائف کے شمال مغرب میں سات میل دور نکل گئے اور نخِب اور صاویرا کے علاقے میں داخل ہو گئے۔یہ علاقہ نشیب و فراز کا تھا۔ اس میں پہاڑیاں اور چٹانیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔مجاہدین کا یہ لشکر ۵ فروری ۶۳۰ء )۱۵ شوال ۸ ہجری(کے روز طائف کے گردونواح میں اس سمت سے پہنچا جو طائف والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔مجاہدینِ اسلام کا کوچ بڑا ہی تیز تھا ۔ہراول میں بنو سلیم تھے جن کے کماندار خالدؓ بن ولید تھے۔توقعات کے عین مطابق طائف تک دشمن کہیں بھی نظر نہ آیا۔ا سکی وجہ یہ تھی کہ )جیساکہ مؤرخین نے لکھا ہے(کہ مالک بن عوف اب کھلے میدان میں لڑنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔حنین کے معرکے میں زیادہ تر نقصان بنو ہوازن کا ہوا تھا۔ققبیلہ ثقیف لڑا تھا لیکن جو ٹکر بنو ہوازن نے لی تھی وہ بنو ثقیف کو لینے کا موقع نہیں ملاتھا۔پھر بھی ثقیف پسپا ہو آئے تھے۔رسولِ کریمﷺ اس خطرے سے بے خبر نہیں تھے کہ اہلِ ثقیف تازہ دم ہیں اور وہ اپنے شہر کے دفاع میں لمبے عرصے تک لڑیں گے۔معلوم نہیں یہ کس کی غلطی تھی کہ مسلمان شہر کی دیوار کے خطرناک حد تک قریب جا رکے۔وہاں وہ پڑاؤ کرنا چاہتے تھے۔اچانک اہلِ ثقیف دیواروں پر نمودار ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں پر تیروں کا مینہ برسا دیا۔بہت سے مسلمان زخمی اور بہت سے شہید ہو گئے۔مسلمان پیچھے ہٹ آئے۔رسولِ کریمﷺ نے ابو بکر صدیقؓ کو محاصرے کا کمانڈر مقررکیا۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بڑی تیزی سے شہر کا محاصرہ مکمل کر لیا۔انہوں نے ان راستوں پر زیادہ نفری کے دستے رکھے جن راستوں سے دشمن کا فرار ممکن تھا۔
شہر کا دفاع بڑا مضبوط تھا۔قبیلۂ ثقیف پوری طرح تیارتھا۔مسلمان تیر اندازی کے سوا اور کوئی کارروائی نہیں کر سکتے تھے۔مجاہدین نے یہاں تک بے خوفی کے مظاہرے کیے کہ شہر کی دیوار کے قریب جا کر اہلِ ثقیف کے ان تیر اندازوں پر تیر پھینکے جو دیواروں پر تھے۔چونکہ وہ دیواروں پر تھے اور انہیں اوٹ بھی میسر تھی۔اس لیے ان کے تیر مسلمانوں کا زیادہ نقصان کرتے تھے۔مسلمان تیر اندازوں کے جَیش آگے بڑھتے اور پیچھے ہٹ آتے تھے۔مسلمانوں کے زخمیوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہاتھا۔محاصرے کے کمانڈرابو بکر صدیقؓ کے اپنے بیٹے عبداﷲ ؓ بنو ثقیف کے تیروں سے شہید ہو گئے۔پانچ دن اسی طرح گزر گئے ۔تاریخ ِ اسلام کی مشہور و معروف شخصیت سلمان فارسیؓ لشکر کے ساتھ تھے۔جنگِ خندق میں مدینہ کے دفاع کیلئے جو خندق کھودی گئی تھی وہ سلمان فارسیؓ کی جنگی دانش کا کمال تھا۔اس سے پہلے عرب خندق کے طریقۂ دفاع سے ناواقف تھے۔اب سلمان فارسیؓ نے دیکھا کہ محاصرہ کامیاب نہیں ہو رہا تو انہوں نے شہر پر پتھر پھینکنے کیلئے ایک منجنیق تیار کروائی لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکی۔سلمان فارسیؓ نے ایک دبابہ تیار کروائی ۔یہ لکڑی یا چمڑے کی بہت بڑی ڈھال ہوتی تھی جسے چند آدمی پکڑ کر آگے آگے چلتے تھے۔خود اس کی اوٹ میں رہتے تھے اور اس کی اوٹ میں بہت سے آدمی قلعے کے اندر چلے جاتے تھے۔سلمان فارسیؓ نے جو دبابہ تیار کروائی وہ گائے کی کھال کی بنی ہوئی تھی۔ایک جَیش اس دبابہ کی اوٹ میں شہر کے بڑے دروازے تک پہنچا،اوپر سے آنے والے تیروں کی تمام بوچھاڑیں دبابہ میں لگتی رہیں لیکن دبابہ جب اپنی اوٹ میں جَیش کو لے کر دروازے کے قریب پہنچی تو دشمن نے اوپر سے دہکتے ہوئے انگارے اور لوہے کے لال سرخ ٹکڑے دبابہ پر اتنے پھینکے کہ کھال کی دبابہ تیر روکنے کے قابل نہ رہی، کیونکہ یہ کئی جگہوں سے جل گئی تھی۔دبابہ چونکہ عربوں کیلئے ایک نئی چیز تھی جو پہلے ہی استعمال میں بے کار ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ اسے وہیں پھینک کر پیچھے دوڑے۔اہلِ ثقیف نے ان کے اوپر تیر برسائے جس سے کئی ایک مجاہدین زخمی ہو گئے۔دس دن اور گزر گئے ۔محاصرے اور دفاع کی صورت یہی رہی کہ مسلمان تیر برساتے ہوئے آگے بڑھتے تھے اور تیر کھا کر پیچھے ہٹ آتے تھے۔ بنو ثقیف پر ا س کا اثر یہ ہو اکہ ان پر مسلمانوں کی بے جگری اور بے خوفی کی دہشت طاری ہو گئی۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کسی طرف سے باہر آکر مسلمانوں پر حملہ کرنے کی کوشش نہ کی۔آخر ایک روز رسول اﷲﷺ نے اپنے سالاروں کو اکھٹا کیااور بتایا کہ محاصرے کی کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔آپﷺ نے سالاروں سے مشورہ طلب کیا کہ کیا کیا جائے؟
حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓنے کہا کہ محاصرہ اٹھالیا جائے اور مکہ کو کوچ کاحکم دیا جائے۔خود رسولِ کریمﷺ محاصرہ اٹھانے کے حق میں تھے ،جس کی وجہ یہ تھی کہ مکہ کے انتظامات آپﷺ کی توجہ کے محتاج تھے۔مکہ چند ہی دن پہلے فتح کیاگیا تھا۔ خطرہ تھا کہ طائف کامحاصرہ طول پکڑ گیا تو مکہ میں دشمن کو سر اٹھا نے کا موقع مل جائے گا۔۲۳ فروری ۶۳۰ء )۴ذیعقد ۸ ہجری(کے روز محاصرہ اٹھا لیا گیا۔محاصرہ اٹھانے کا اثر اہلِ ثقیف پر کچھ اور ہونا چاہیے تھا لیکن ان پر اس قسم کا خوف طاری ہو گیاکہ مسلمان جو‘اب جا رہے ہیں ،معلوم نہیں کہ کس وقت لوٹ آئیں اور شہر پر یلغار کرکے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں ۔خود مالک بن عوف کی سوچ میں انقلاب آ چکا تھا۔کاہن کی جھوٹی پیش گوئی اور معرکۂ حنین میں مسلمانوں کی ضرب کاری نے اسے اپنے عقیدوں پر نظرِ ثانی کیلئے مجبور کر دیا تھا۔مسلمان ۲۶ فروری کے روز جعرانہ کے مقام پر پہنچے جہاں رسول ِکریمﷺ نے مالِ غنیمت اکھٹا کرنے کا حکم دیاتھا۔اس مالِ غنیمت میں چھ ہزار عورتیں اور بچے تھے،اورہزار ہا اونٹ اور بھیڑ بکریاں بھی تھیں۔فوجی سازوسامان کاانبار تھا۔رسولِ کریمﷺ نے دشمن کی عورتوں ،بچوں اور جانوروں کو اپنے لشکر میں تقسیم کر دیا۔مجاہدین کا لشکر جُعرانہ سے ابھی چلا نہ تھا کہ قبیلہ ہوازن کے چند ایک سردار رسولِ کریمﷺ کے حضور پہنچے اور یہ اعلان کیا کہ ہوازن کے تمام تر قبیلے نے اسلام قبول کرلیا ہے۔اس کے ساتھ ہی ان سرداروں نے رسولِ کریمﷺ سے درخواست کی کہ ان کا مالِ غنیمت انہیں واپس کر دیا جائے۔ رسولِ کریمﷺ نے ان سے پوچھا کہ انہیں مالِ غنیمت میں سے کون سی چیز سب سے زیادہ عزیز ہے؟اہل وعیال یا اموال؟سرداروں نے کہا کہ ان کی عورتیں اور بچے انہیں واپس کردیئے جائیں اور باقی مالِ غنیمت مسلمان اپنے پاس رکھ لیں۔رسولِ کریمﷺ نے مجاہدین کے لشکر سے کہاکہ بنو ہوازن کو ان کی عورتیں اور بچے واپس کر دیئے جائیں۔تمام لشکر نے عورتیں اور بچے واپس کر دیئے۔بنو ہوازن کو توقع نہیں تھی کہ رسولِ کریمﷺ اس قدر فیاضی کا مظاہرہ کریں گے یا مجاہدین کا لشکر اپنے حصے میں آیا ہوا مالِ غنیمت واپس کر دیں گے۔مسلمانوں کی اس فیاضی کا اثر یہ ہواکہ قبیلۂ ہوازن نے اسلام کو دل و جان سے قبول کر لیا۔ہوازن کے سردار اپنے اہل و عیال کواپنے ساتھ لے کر چلے گئے۔مسلمانوں کی فیاضی کے اثرات طائف تک پہنچ گئے ۔مسلمان ابھی جُعرانہ میں ہی تھے کہ ایک روز مالک بن عوف مسلمانوں کی خیمہ گاہ میں آیا اور رسولِ کریمﷺ کے حضور پہنچ کر اسلام قبو ل کرلیا۔دیوتا لات کی خدائی ہمیشہ کیلئے ختم ہو گئی-
مسلمان ایک عظیم جنگی طاقت بن گئے تھے لیکن اسلام کا فروغ اس جنگی طاقت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اسلام میں ایسی کشش تھی کہ جو کوئی بھی اﷲ کا یہ پیغام سنتا تھا وہ اسلام قبول کرلیتا تھا۔ مسلمانوں نے اپنے جاسوس دوردور تک پھیلا رکھے تھے ۔۶۳۰ء میں جاسوسوں نے مدینہ آ کر رسولِ اکرمﷺ کو اطلاع دی کہ رومی شام میں فوج کا بہت بڑا اجتماع کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے ٹکر لینا چاہ رہے ہیں ۔اس کے بعد یہ اطلاع ملی کہ رومیوں نے اپنی فوج کے کچھ دستے اردن بھیج دیئے ہیں۔ اکتوبر۶۳۰ء بڑا ہی گرم مہینہ تھا۔ جھلسا دینے والی لُو ہر وقت چلتی رہتی تھی اور دن کے وقت دھوپ میں ذرا سی دیر ٹھہرنا بھی محال تھا۔اس موسم میں رسولِ کریمﷺ نے حکم دیا کہ پیش تر اس کے کہ رومی ہم پر یلغار کریں ہم ان کے کوچ سے پہلے ہی ان کاراستہ روک لیں ۔رسولِ کریمﷺ کے اس حکم پر مدینہ کے اسلام دشمن عناصر حرکت میں آگئے۔ ان میں وہ مسلمان بھی شامل تھے جنہوں نے اسلام تو قبول کر لیا تھا لیکن اندر سے وہ کافر تھے۔ ان منافقین نے درپردہ ان مسلمانوں کو جو جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے تھے ورغلانہ اور ڈرانا شروع کر دیا کہ اس موسم میں انہوں نے کوچ کیا تو گرمی کی شدت اور پانی کی قلت سے وہ راستے میں ہی مر جائیں گے ،ان مخالفانہ سرگرمیوں میں یہودی پیش پیش تھے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت نے رسولِ اکرمﷺ کے حکم پر لبیک کہی۔رسولِ خدا ﷺ نے تیاریوں میں زیادہ وقت ضائع نہ کیا۔ اکتوبر کے آخر میں جو فوج رسولِ خداﷺ کی قیادت مین کوچ کیلئے تیار ہوئی اس کی تعداد تیس ہزار تھی۔جس میں دس ہزار سوار شامل تھے۔مجاہدین کے اس لشکر میں مدینہ کے علاوہ مکہ کے اور ان قبائل کے افراد بھی شامل تھے جنہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کیا تھا۔ مجاہدین کا مقابلہ اس زمانے کے مشہور جنگجو بازنطینی شہنشاہ ہرقل کے ساتھ تھا۔مجاہدین اسلام کا یہ عظیم لشکر اکتوبر۶۳۰ ء کے آخری ہفتے میں رسولِ کریمﷺ کی قیادت میں شام کی طرف کوچ کر گیا۔تمازتِ آفتاب کا یہ عالم جیسے زمین شعلے اگل رہی ہو۔ریت اتنی گرم کہ گھوڑے اور اونٹوں کے پاؤں جلتے تھے۔ اس سال قحط کی کیفیت بھی پیدا ہو گئی تھی۔اس لیے مجاہدین کے پاس خوراک کی کمی تھی ۔مجاہدین اس جھلسا دینے والی گرمی میں پانی نہیں پیتے تھے کہ معلوم نہیں آگے کتنی دور جا کر پانی ملے،تھوڑی ہی دور جا کر مجاہدین کے ہونٹ خشک ہو گئے اور ان کے حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے۔لیکن ان کی زبان پر اﷲ کا نام تھا اور وہ ایسے عزم سے سرشار تھے جس کا اجر خدا کے سوا اور کوئی نہیں دے سکتا تھا۔
ایک لگن تھی ایک جذبہ تھا کہ مجاہدین زمین و آسمان کے اگلے ہوئے شعلوں کا منہ چڑاتے چلے جارہے تھے۔تقریباً چودہ روز بعد یہ لشکر شام کی سرحدکے ساتھ تبوک کے مقام پر پہنچ گیا۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ اچھے اور خوش گوار موسم میں مدینہ سے تبوک کا سفر چودہ دنوں کا تھا جسے اس وقت کے مسافروں کی زبان میں چودہ منزل کہا جاتا تھا۔بعض مؤرخین نے چودہ منزل کو چودہ دن کہا ہے۔تبوک میں ایک جاسوس نے اطلاع دی کہ رومیوں کے جو دستے اردن میں آئے تھے وہ اس وقت دمشق میں ہیں۔رسولِ کریمﷺ نے لشکر کو تبوک میں خیمہ زن ہونے کا حکم دیا اور تمام سالاروں کو صلاح و مشورے کیلئے طلب کیا ۔سب کو یہی توقع تھی کہ تبوک سے کوچ کا حکم ملے گا اور دمشق میں یا دمشق سے کچھ ادھررومیوں کے ساتھ فیصلہ کن معرکہ ہو گا۔رسولِ کریمﷺ نے اپنے اصول کے مطابق سب سے مشورے طلب کیے ۔ہر سالار نے یہ ذہن میں رکھ کے کہ رومیوں سے جنگ ہو گی مشورے دیئے لیکن رسول ِکریمﷺ نے یہ کہہ کر سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ تبوک سے آگے کوچ نہیں ہو گا۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ رسولِ خداﷺ کے اس فیصلے میں کہ آگے نہیں بڑھا جائے گا بہت بڑی جنگی دانش تھی۔آپﷺ نے مدینہ میں ہی کہہ دیا تھا کہ رومیوں کا راستہ روکا جائے گا۔آپﷺ مستقر سے اتنی دور اور اتنی شدید گرمی میں لڑنا نہیں چاہتے تھے ،اس کی بجائے آپﷺ ہرقل کو اشتعال دلا رہے تھے کہ وہ اپنی مستقر سے دور تبوک میں آ کر لڑے۔مجاہدین لڑنے کیلئے گئے تھے ان کے دلوں میں کوئی وہم اور کوئی خوف نہیں تھا لیکن جنگ میں ایک خاص قسم کی عقل و دانش کی ضرورت ہوتی ہے ۔رسولِ کریمﷺ نے عقل و دانش کو استعمال کیا اور مدینہ کی طرف رومیوں کا راستہ روکنے کا یہ اہتمام کیا کہ اس علاقے میں جو قبائل رومیوں کے زیرِ اثر تھے انہیں اپنے اثر میں لانے کی مہمات تیار کیں۔ان میں چار مقامات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں جہاں ان مہمات کو بھیجا جانا تھا ان میں ایک تو عقبہ تھا ۔جو اس دور میں ایلہ کہلاتا تھا۔ دوسرا مقام مقننہ تیسرا ازرُح اور چوتھا جربہ تھا۔رسولِ کریمﷺ نے ان تمام قبائل کے ساتھ جنگ کرنے کے بجائے دوستی کے معاہدے کی شرائط بھیجیں جن میں ایک یہ تھیں کہ ان قبائل کے جو لوگ اسلام قبول نہیں کریں گے انہیں ان کی مرضی کے خلاف جنگ میں نہیں لے جایا جائے گا۔دوسری شرط یہ تھی کہ ان پر کوئی بھی حملہ کرے گا تو مسلمان ان کے دفاع کو اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔ اس کے بدلے میں اسلا می حکومت ان سے جذیہ وصول کرے گی۔
سب سے پہلے ایلہ کے فرمانرواں یوحنّا نے خود آ کر رسولِ کریمﷺ کی دوستی کی پیش کش قبول کی اور جزیہ کی باقاعدہ ادائیگی کی شرط بھی قبول کرلی ۔اس کے فوراً بعد دو اور طاقتور قبیلوں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کر لیا۔اور جزیہ کی شرط بھی مان لی۔الجوف ایک مقام ہے جو اس دور میں دومۃ الجندل کہلاتا تھا ۔یہ بڑے ہی خوفناک صحرا میں واقع تھا، اس زمانے کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ اس مقام کے اردگرد ایسے ریتیلے ٹیلے اور نشیب تھے کہ انہیں ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ دومۃ الجندل کا حکمران اُکیدر بن مالک تھا۔چونکہ اس کی بادشاہی انتہائی دشوار گزار علاقے میں تھی اس لیے وہ اپنے علاقے کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا ۔رسولِ کریمﷺ نے جو وفد اُکیدر بن مالک کے پاس بھیجا تھا وہ یہ جواب لے کر آیاکہ اُکیدر نے نہ دوستی قبو ل کی ہے نہ وہ جزیہ دینے پا آمادہ ہوا ہے۔بلکہ اس نے اعلانیہ کہا ہے کہ مسلمانوں کو وہ اپنا دشمن سمجھتا ہے اور وہ اسلام کی بیخ کنی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گا۔رسولِ کریمﷺ نے خالد ؓ بن ولید کو بلایا اور انہیں کہاکہ وہ چار سو سوار اپنے ساتھ لیں اور اُکیدر بن مالک کو زندہ پکڑ لائیں۔اُکیدر بن مالک اپنے دربار میں اونچی مسند پر بیٹھا تھا ۔اس کے پیچھے دو نیم برہنہ لڑکیاں کھڑی مور چھل ہلا رہی تھیں ۔اُکیدر بن مالک کے چہرے پر وہی رعونت تھی جو روائتی بادشاہوں کے چہروں پر ہوا کرتی ہیں۔’’اے ابنِ مالک!‘‘ اس کے بوڑھے وزیر نے جو اس کی فوج کاسالار بھی تھا اٹھ کر کہا۔’’تیری بادشاہی کو کبھی زوال نہ آئے۔ کیا تجھے پتا نہیں چلا کہ ایلہ ،جربہ ازرُح اور مقننہ کے قبیلوں نے مدینہ کے مسلمانوں کی دوستی قبول کرلی ہے ،آج دوستی قبول کی ہے تو کل قبیلۂ قریش کے محمد)ﷺ( کے مذہب کو بھی قبول کر لیں گے۔‘‘’’کیا ہمارا بزرگ وزیر ہمیں یہ مشورہ دینا چاہتا ہے کہ ہم بھی مسلمانوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیں ؟‘‘اُکیدر بن مالک نے کہا۔’’ہم ایساکوئی مشورہ قبول نہیں کریں گے۔‘‘’’نہیں ابن ِمالک! ‘‘بوڑھے وزیر نے کہا۔’’میری عمر نے جو مجھے دکھایا ہے وہ تو نے ابھی نہیں دیکھا ہے ۔میں مانتاہوں کہ تو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تو اپنے دشمن کو اتنا حقیر سمجھ رہا ہے کہ تو یہ بھی نہیں سوچ رہا کہ مسلمانوں نے حملہ کر دیا تو ہم تمہاری بادشاہی کو کس طرح بچائیں گے؟‘‘’’ صلیبِ مقدس کی قسم!‘‘ اکیدر بن مالک نے کہا ۔’’ہمارے اردگرد کا جو علاقہ ہے وہ ہماری بادشاہی کو بچائے گا ۔میرے اس خوفناک صحرا کی ریت مسلمانوں کا خون چوس لے گی۔ریت اور مٹی کے جو ٹیلے دومۃ الجندل کے اردگرد کھڑے ہیں یہ خدا نے میرے سنتری کھڑے کررکھے ہیں۔ہم پر کوئی فتح نہیں پا سکتا ۔‘‘
اس وقت خالدؓ بن ولید اپنے چارسو سواروں کے ساتھ آدھا راستہ طے کر چکے تھے ۔اگلے روز وہ اس صحرا میں داخل ہو گئے جسے مؤرخوں نے بھی ناقابلِ تسخیر لکھا ہے۔مجاہدین کے چہرے ریت کی مانند خشک ہو گئے تھے ۔گھوڑوں کی چال بتا رہی تھی کہ یہ مسافت اور پیاس ان کی برداشت سے باہر ہوئی جا رہی ہے۔لیکن خالدؓ بن ولید کی قیادت مجاہدین کے دلوں میں نئی روح پھونک رہی تھی۔دومۃ الجندل اچھا خاصہ شہر تھا۔ اس کے ارد گرد دیوار تھی ۔خالد ؓ بن ولید اس کے قریب پہنچ گئے اور اپنے سواروں کو ایک وسیع نشیب میں چھپا دیا ،مجاہدین کی جسمانی کیفیت ایسی تھی کہ انہیں کم از کم ایک دن اور ایک رات آرام کرنے کی ضرورت تھی۔لیکن خالدؓ نے اپنے سواروں کو تیاری کی حالت میں رکھا۔سورج غروب ہو گیا پھر رات گہری ہونے لگی ۔چاند پوری آب و تاب سے چمکنے لگا۔صحرا کی چاندنی بڑی شفاف ہو گئی۔خالدؓ بن ولید اپنے ایک آدمی کو ساتھ لے کر شہر کی دیوار کی طرف چل پڑے ۔وہ جائزہ لینا چاہتے تھے کہ شہر کا محاصرہ کیا جائے جس کیلئے چار سو سوار کافی نہیں تھے۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا تھا کہ شہر کی ناکہ بندی کر دی جائے۔دوسری صورت یلغار کی تھی ۔خالدؓ دیوار کے دروازے سے خاصہ پیچھے ایک اوٹ میں بیٹھ گئے ۔چاندنی اتنی صاف تھی کہ دیوار کے اوپر سے خالد ؓ نظر آ سکتے تھے۔شہرکابڑا دروازہ کھلا ۔خالدؓ سمجھے کہ اُکیدر فوج لے کر باہرآ رہا ہے اور وہ ان پر حملہ کرے گا لیکن اکیدر کے پیچھے پیچھے چند سوار باہر نکلے اور دروازہ بند ہو گیا۔ خالد کو یاد آیا کہ تبوک سے روانگی کے وقت رسولِ کریمﷺ نے انہیں کہا تھا اکیدر تمہیں شاید شکار کھیلتا ہوا ملے گا۔اُکیدر بن مالک کے متعلق مشہور تھا کہ وہ جیسے شکار کھیلنے کیلئے ہی پیدا ہوا تھا۔صحرا میں شکار رات کو ملتا تھا کیونکہ دن کے وقت جانور دبکے چھپے رہتے تھے۔پورے چاند کی رات بڑے شکار کیلئے موزوں سمجھی جاتی تھی۔یہ رسولِ اکرمﷺ کی انٹیلی جنس کا کمال تھا کہ آپﷺ نے دشمن کی عادات کو اورخصلتوں کابھی پتا چلا لیا تھا اور آپﷺ نے خالدؓکو اکیدر کے متعلق پوری معلومات دے دی تھیں ۔
خالدؓ نے جب دیکھا کہ اکیدر بن مالک چند ایک سواروں کے ساتھ باہر آیا ہے تو انہوں نے اس کے انداز کا پوری طرح جائزہ لیا ۔خالد ؓسمجھ گئے کہ اکیدر کو معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ چار سو مسلمان سوار اس کے شہر کے قریب پہنچ گئے ہیں اور وہ شکار کھیلنے جا رہا ہے۔خالدؓ اپنے آدمی کے ساتھ رینگتے سرکتے پیچھے آئے۔ جب اکیدر اپنے سواروں کے ساتھ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو خالدؓ دوڑ کر اپنے سواروں تک پہنچ گئے ۔انہی نے کچھ سوار منتخب کیے اپنے تمام سواروں کو انہوں نے تیاری کی حالت میں رکھا ہوا تھا ۔وہ سواروں کے ایک جیش کو اپنی قیادت میں اس طرف لے گئے جدھر اکیدر گیا تھا۔خالد ؓنے یہ خیال رکھا کہ اکیدر شہر سے اتنا آگے چلا جائے کہ جب اس پر حملہ ہوتو شہر تک اس کی آواز بھی نہ پہنچ سکے۔
رات کے سنّاٹے میں اتنے زیادہ گھوڑوں کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا تھا۔ اکیدر اور اس کے ساتھیوں کو پتا چل گیا تھا کہ ان کے پیچھے گھوڑ سوار آ رہے ہیں ۔اکیدر کا بھائی حسان بھی اس کے ساتھ تھا۔اس نے کہا کہ وہ جا کہ دیکھتا ہے کہ یہ کون ہیں ۔اس نے اپنا گھوڑا پیچھے کو موڑا ہی تھا کہ خالد ؓنے اپنے سواروں کو ہلّہ بولنے کا حکم دے دیا۔اکیدر کو خالدؓ اور ان کے سواروں کی للکار سے پتا چلا کہ یہ مسلمان ہیں ۔حسان نے برچھی سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن مارا گیا۔اکیدر اپنے سواروں سے ذر االگ تھا۔ خالدؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اوررخ اکیدر کی طرف کر لیا۔ اکیدر ایسابوکھلایا کہ خالدؓ پر وار کرنے کے بجائے اس نے راستے سے ہٹنے کی کوشش کی۔خالدؓ نے اس پر کسی ہتھیار سے وار نہ کیانہ گھوڑے کی رفتار کم کی۔انہوں نے گھوڑا اکیدر کے گھوڑے کے قریب سے گزارااور بازو اکیدر کی کمر میں ڈال کر اسے اس کے گھوڑے سے اٹھا کر اپنے ساتھ ہی لے گئے۔اکیدر بن مالک کے شکاری ساتھیوں اور محافظوں نے دیکھا کہ ان کا فرمانرواں پکڑا گیا اور اس کا بھائی مارا گیا ہے تو انہوں نے خالد ؓکے سواروں کا مقابلہ کرنے کے بجائے بھاگ نکلنے کا راستہ دیکھا۔وہ زمین ایسی تھی کہ چھپ کرنکل جانے کیلئے نشیب کھڈ اور ٹیلے بہت تھے۔ان میں سے کچھ زخمی ہوئے لیکن نکل گئے۔شہر میں داخل ہو کر انہوں نے دروازہ بند کر لیا۔خالدؓ بن ولید نے اکیدر کو پکڑے رکھا اور کچھ دور جا کر گھوڑا روکا ۔اکیدر سے کہا کہ اس کے بھاگ نکلنے کی کوئی صورت نہیں۔انہوں نے اسے گھوڑے سے اتارا اور خود بھی اترے۔’’کیا تم اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’ہاں!میںاپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا۔‘‘اکیدر بن مالک نے کہا۔’’لیکن تو نے مجھے اپنا نام نہیں بتایا۔‘‘’’خالد۔­خالد بن ولید!‘‘’’ہاں!‘‘اکیدر نے کہا ۔’’میں نے یہ نام سنا ہے……یہاں تک خالد ہی پہنچ سکتا تھا۔‘‘’’نہیں اکیدر!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہاں تک ہر وہ انسان پہنچ سکتا ہے جس کے دل میں اﷲ کا نام ہے اوروہ محمدﷺ کو اﷲ کا رسول مانتا ہے۔‘‘’’میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟‘‘اکیدر نے پوچھا۔’’تیرے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو گا جو تو نے ہمارے رسولﷺ کے ایلچی کے ساتھ کیا تھا۔‘‘خالد ؓنے کہا۔’’ہم سے اچھے سلوک کی توقع رکھ ابنِ مالک! اگر ہم رومی ہوتے اور ہرقل کے بھیجے ہوئے ہوتے تو ہم کہتے کہ اپنا خزانہ اور اپنے شہر کی بہت ہی خوبصورت لڑکیاں اور شراب کے مٹکے ہمارے حوالے کردے۔پہلے ہم عیش و عشرت کرتے پھر ہرقل کے حکم کی تعمیل کرتے۔‘‘
’’ہاں!‘‘ اکیدر نے کہا۔’’رومی ہوتے تو ایسا ہی کرتے اور وہ ایسا کر رہے ہیں۔وہ کون سا تحفہ ہے جو میں ہرقل کو نہیں بھیجتا۔ولید کے بیٹے! مجھ پر لازم ہے کہ رومیوں کو خوش رکھوں۔‘‘’’کہاں ہیں رومی؟‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کیا تو انہیں مدد کیلئے بلا سکتا ہے ؟ہم تیری مدد کو آئیں گے۔میں تجھے قیدی بنا کر نہیں معزز مہمان بنا کر اﷲ کے رسولﷺ کے پاس لے جا رہا ہوں۔تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔جبر نہیں ہوگا۔ہم دشمنی کا نہیں دوستی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ہمارے رسولﷺ کے سامنے جاکر تجھے تاسف ہو گا کہ جس کا تو دشمن رہا ہے وہ تو دوستی کے قابل ہے۔‘‘اکیدر بن مالک کی جیسے زبان گنگ ہو گئی ہو۔اس نے کچھ بھی نہ کہا۔اس کا گھوڑا وہیں کہیں آوارہ پھر رہاتھا۔خالدؓ نے اپنے سواروں سے کہا کہ اکیدر کے گھوڑے کو پکڑ لائیں۔سوار گھوڑے کو پکڑ لائے ۔خالدؓ نے اکیدر کو گھوڑے پر سوار کیا اور تبوک واپسی کا حکم دے دیا۔تبوک پہنچ کر خالدؓ نے اکیدر بن مالک کو رسولِ خداﷺ کے حضورپیش کیا۔آپﷺ نے اس کے آگے اپنی شرطیں رکھیں لیکن ایسی شرط کا اشارہ تک نہ کیا کہ وہ اسلام قبول کرلے۔اس کے ساتھ مہمانوں جیسا سلوک کیا گیا۔اس پر کوئی خوف طاری نہ کیا گیا۔ اسے یہی ایک شرط بہت اچھی لگی کہ مسلمان اس کی حفاظت کریں گے ۔اس نے جزیہ دینے کی شرط مان لی اور دوستی کا معاہدہ کر لیا۔’’بے شک صرف مسلمان ہیں جو میری مدد کو پہنچ سکتے ہیں ۔‘‘معاہدہ کر کے اس نے کہا تھا ۔جب اکیدر بن مالک نے بھی دوستی کا معاہدہ کرکے مسلمانوں کو جزیہ دینا قبول کر لیا تو کئی اور چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے سردار تبوک میں رسولِ کریمﷺکے پاس آ گئے اور اطاعت قبول کرلی۔اس طرح دور دور تک کے علاقے مسلمانوں کے زیرِ اثر آ گئے۔اور تمام قبائلی مسلمانوں کے اتحادی بن گئے۔ان میں متعددقبائل نے اسلام قبول کرلیا۔اب رومیوں سے جنگ کی ضرورت نہیں رہی تھی ۔ان کی پیش قدمی کا رستہ رک گیا تھا بلکہ ہرقل کیلئے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ مسلمانوں سے ٹکر لینے کو آگے بڑھا تو راستے کے تمام قبائل اسے اپنے علاقے میں ہی ختم کردیں گے۔رسولِ اکرمﷺ نے مجاہدین کے لشکر کو مدینہ کو واپسی کا حکم دے دیا۔یہ لشکر دسمبر ۶۳۰ء میں مدینہ پہنچ گیا۔اسلام عقیدے کے لحاظ سے اور عسکری لحاظ سے بھی ایک ایسی طاقت بن چکا تھا کہ رسولِ کریمﷺ کے بھیجے ہوئے ایلچی کہیں بھی چلے جاتے انہیں شاہی مہمان سمجھا جاتا اور ان کا پیغام احترام سے سنا جاتا ۔رسولِ کریمﷺ نے دور دراز کے قبیلوں اور چھوٹی بڑی حکومتوں کو قبولِ اسلام کے دعوت نامے بھیجنے شروع کر دیئے۔ ان میں بعض سردار سرکش ،خود سر اور کم فہم تھے۔ان کی طرف رسولِ کریمﷺ کا پیغام اس قسم کا ہوتا تھا کہ قبولِ اسلام کے بجائے اگر وہ اپنی جنگی طاقت آزمانا چاہتے ہیں تو آزما لیں،اور یہ سوچ لیں کہ شکست کی صورت میں انہیں مسلمانوں کا مکمل طور پر مطیع ہونا پڑے گا اور ان کی کوئی شرط قبول نہیں کی جائے گی-
رسولِ کریمﷺ نے ایسی ایک مہم خالدؓ بن ولید کی زیرِکمان یمن کے شمالمیں نجران بھیجی۔وہاں قبیلہ بنو حارثہ بن کعب آباد تھا۔ان لوگوں نے رسولِ کریمﷺ کے پیغام کا مذاق اڑایا تھا ۔خالدؓ مجاہدین کے ایک سوار دستے کو جس کی تعداد چار سو تھی ساتھ لے کر جولائی ۶۳۱ء میں یمن کو روانہ ہوئے۔ مشہور مؤرخ ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ رسول اﷲﷺ نے خالدؓ سے کہاکہ’’ انہیں حملے کیلئے نہیں بھیجا جا رہا بلکہ وہ پیغام لے کر جا رہے ہیں ۔چونکہ بنو حارثہ سرکش ذہنیت کی وجہ سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں اس لیے خالدؓ انہیں تین بار کہیں کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔اگر وہ سرکشی سے باز نہ آئیں اور خونریزی کو پسند کریں تو انہیں خونریزی کیلئے للکارا جائے۔‘‘خالدؓ جس جارحانہ انداز سے وہاں پہنچے اور جس اندازسے انہوں نے بنو حارثہ بن کعب کو قبولِ اسلام کی دعوت دی اس نے مطلوبہ اثر دکھایا ۔اس قبیلے نے بلاحیل و حجت اسلام قبول کرلیا۔خالدؓواپسآنے کے بجائے وہیں رُکے رہے اور انہیں اسلام کے اصول اور ارکان سمجھاتے رہے۔خالدؓبن ولید جنہیں تاریخ نے فنِ حرب و ضرب کا ماہر اور صفِ اول کا سالار تسلیم کیا ہے ۔نجران میں چھ مہینے مبلغ اور معلم بنے رہے۔انہوں نے جب دیکھاکہ اسلام ان لوگوں کے دلوں میں اُتر گیا ہے تو خالدؓ جنوری ۶۳۲ء میں واپس آ گئے۔ ان کے ساتھ بنو حارثہ کے چند ایک سرکردہ افراد تھے جنہوں نے رسولِ کریم ﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کی ۔رسولِ خداﷺ نے ان میں سے ایک کوامیر مقرر کیا۔اسلام کے دشمنوں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں شکست دینا ممکن نہیں رہا اور یہ بھی دیکھا کہ ا سلام لوگوں کے دلوں میں اتر گیا ہے تو انہوں نے اسلام کو نقصان پہنچانے کا ایک اور طریقہ اختیار کیا۔ یہ تھا رسالت اور نبوت کا دعویٰ۔متعدد افراد نے نبوت کا دعویٰ کیا جن میں بنی اسد کا طلیحہ ،بنی حنیفہ کا مسیلمہ،اور یمن کا اسود عنسی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔اُس کا نام عقیلہ بن کعب تھا۔ کیونکہ اس کا رنگ کالا تھا اس لئے وہ اسود کے نام سے مشہورہوا۔اسود عربی میں کالے کو کہتے ہیں ۔وہ یمن کے مغربی علاقے کے ایک قبیلے عنس کا سردار تھا اس لئے اسے اسود العنسی کہتے تھے۔تاریخ میں اس کا یہی نام آیا ہے۔وہ عبادت گاہ کا کاہن بھی رہ چکا تھا ۔بالکل سیاہ رنگت کے باوجود اس میں ایسی کشش تھی کہ لوگ اس کے ہلکے سے اشارے کا بھی اثر قبول کر لیتے تھے ۔اس میں مقناطیس جیسی قوت تھی کہ عورتیں اس کے کالے چہرے کو نا پسند کرنے کے بجائے اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتی تھیں۔اس نے یہ پراسراریت عبادت گاہ میں حاصل کی تھی۔کاہن کو لوگ دیوتاؤں کا منظورِنظر اور ایلچی سمجھتے تھے۔
اس علاقے کے زیادہ تر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ۔اسود کے اپنے قبیلے میں اسلام داخل ہو چکاتھا لیکن اسود نے ان کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی تھی۔جیسے ان لوگوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ خود بھی مسلمان ہو گیا تھا۔اس وقت یمن کا حکمران بازان نام کا ایک ایرانی تھا۔ایران کا شہنشاہ خسرو پرویز)کسریٰ(تھا۔رسولِ کریمﷺ نے دور کے ملکوں کے جن بادشاہوں کو قبولِ اسلام کے خطوط لکھے تھے ان میں شہنشاہِ ایران بھی تھا،اسے خط دینے کیلئے رسول اﷲﷺنے عبداﷲ بن حذافہ کو بھیجا تھا۔عبداﷲ ؓنے خسرو پرویز کے دربارمیں اسے خط دیا۔ اس نے خط کسی اور کو دے کر کہاکہ اسے اس کا ترجمہ سنایا جائے۔ اسے جب خط اس کی زبان میں سنایا گیا تو وہ آگ بگولہ ہو گیا۔اس نے غصے سے باؤلا ہو کر خط کو بری طرح پھاڑ کر اس کے پرزے پھینک دیئے اور عبداﷲ ؓبن حذافہ کو دربار سے نکال دیا۔عبداﷲ ؓاتنی دور کی مسافت سے آئے اور رسول اﷲﷺ کے حضور بتایا کہ شہنشاہِ ایران نے خط پھاڑ ڈالا ہے۔خسرو پرویز کا غصہ خط پھاڑنے سے ٹھنڈ انہیں ہوا تھا۔ یمن پر ایران کی حکمرانی تھی اور بازان وہاں کا گورنر تھا۔شہنشاہ ایران نے اپنے گورنر بازان کو خط بھیجا کہ حجاز میں محمد)ﷺ( نام کاایک آدمی ہے جس نے؂نبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ اس نے لکھا کہ رسولِ کریمﷺ کو زندہ پکڑ کر یا آپﷺ کا سرکاٹ کر اس کے دربار )ایران(میں پیش کیا جائے۔بازان نے یہ خط اپنے دو آدمیوں کو دے کر مدینہ بھیج دیا ،مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض لکھتے ہیں کہ بازان نے ان آدمیوں کو رسول اﷲﷺ کو پکڑ لانے یا قتل کرکے آپﷺ کا سر لانے کیلئے بھیجا تھا اور کچھ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ بازان نے اسلام تو قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ حضورﷺسے اتنا متاثر تھا کہ آپ ﷺ کو اپنے شہنشاہ کے ارادے سے خبردار کرنا چاہتا تھا،بہرحال مؤرخ اس واقعے پر متفق ہیں کہ بازان کے بھیجے ہوئے دو آدمی رسول اﷲﷺ کے یہاں گئے تھے اور خسرو پرویز نے جو خط بازان کو لکھا تھا وہ آپﷺ کے حضور پیش کیا تھا۔رسولِ خداﷺ نے خط دیکھااور آپﷺ نے مسکرا کر کہا کہ شہنشاہِ ایران گذشتہ رات اپنے بیٹے شیرویہ کے ہاتھوں قتل ہو گیا ہے اور آج صبح سے ایران کا شہنشاہ شیرویہ ہے۔’’گذشتہ رات کے قتل کی خبر مدینہ میں اتنی جلدی کیسے پہنچ گئی؟‘‘بازان کے ایک آدمی نے پوچھا اور کہنے لگا ’’کیا یہ ہمارے شہنشاہ کی توہین نہیں کہ یہ غلط خبر پھیلا دی جائے ،کہ اسے اس کے بیٹے نے قتل کر دیا ہے۔‘‘’’مجھے میرے اﷲ نے بتایا ہے ۔‘‘رسولِ کریمﷺ نے کہا۔’’ جاؤ !بازان کو بتا دو کہ اس کا شہنشاہ اب خسرو نہیں شیرویہ ہے۔‘‘رسولِ خداﷺ کو یہ خبر بذریعہ الہام ملی تھی۔
بازان کے آدمی واپس گئے اور اسے بتایا کہ رسول اﷲﷺ نے کیا کہا ہے ۔تین چار دنوں بعد بازان کو اپنے نئے شہنشاہ شیرویہ کا خط ملا ۔اس میں تحریر تھا کہ خسرو پرویز کو فلاں رات ختم کر دیا گیاہے ۔یہ وہی رات تھی جو حضورﷺ نے بتائی تھی۔کچھ دنوں بعد بازان کو رسولِ کریمﷺ کا خط ملا کہ وہ اسلام قبول کرلے۔بازان پہلے ہی آپﷺ سے متاثر تھا ۔الہام نے اسے اور زیادہ متاثر کیا۔ رسول اﷲﷺ نے اسے یہ بھی لکھا تھا کہ اسلام قبول کرلینے کی صورت میں وہ بدستور یمن کا حاکم رہے گا اور اس کی حکمرانی کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہو گی۔بازان نے اسلام قبول کرلیا اور وہ حاکم ِ یمن رہا۔تھوڑے ہی عرصے بعد فوت ہو گیا۔ رسولِ اکرمﷺ نے یمن کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا اور ہر حصے کا الگ حاکم مقررکیا۔بازان کا بیٹاجس کانام’’ شہر ‘‘تھا۔رسولِ کریمﷺ نے اسے صنعاء اور اس کے گردونواح کے علاقے کا حاکم بنایا۔یہ خبر اُڑی تھی کہ اسود عنسی یمن کے علاقہ مذحج میں چلا گیا ہے اور ایک غار میں رہتاہے جس کانام خبان ہے ۔اچانک یہ خبر ہواکی طرح سارے یمن میں پھیل گئی کہ اسود غار سے نکل آیا ہے اور اسے خدا نے نبوت عطا کی ہے اور اب وہ اسود عنسی نہیں ،’’رحمٰن الیمن ‘‘ہے۔خبر سنانے والے کسی شک کا
ا ظہار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ مصدقہ خبر سناتے تھے کہ اسود کو نبوت مل گئی ہے۔انہوں نے اسے نبی تسلیم کرلیا تھا۔’’جاکر دیکھو!‘‘ خبر سنانے والے کہتے پھرتے تھے۔’’ مذحج جا کر دیکھو ،رحمٰن الیمن مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ آگ کے شعلوں کو پھول بنا دیتاہے ۔چلو لوگوں چلو، اپنی روح کی نجات کیلئے چلو۔‘‘جن لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا وہ بھی مذحج کو اٹھ دوڑے۔اسود چونکہ کاہن رہ چکا تھا اس لئے لوگ پہلے ہی تسلیم کرتے تھے کہ دیوتاؤں نے اسے کوئی پراسرار طاقت دے رکھی ہے۔اب اس نے نبوت کادعویٰ کیا تو لوگوں نے فوراً اس دعویٰ کو تسلیم کرلیا۔غارِ خبان کے سامنے ہر لمحہ لوگوں کا ہجوم رہنے لگا۔ وہ اسود کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب رہتے تھے۔ وہ دن کو تھوڑے سے وقت کیلئے باہر نکلتا تھا اور غار کے قریب ایک اونچی جگہ کھڑے ہوکر لوگوں کو قرآن کی آیات کی طرز کے جملے سناتا اورکہتا تھا کہ’’ اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے جو اسے ہر روز خدا کی طرف سے ایک آیت اور راز کی ایک دو باتیں بتا جاتا ہے ۔‘‘
وہ لوگوں کو اپنے معجزے بھی دِکھایا کرتاتھا مثلاً جلتی ہوئی مشعل اپنے منہ میں ڈال لیا کرتا اور جب مشعل اس کے منہ سے نکلتی تو وہ جل رہی ہوتی تھی۔اس نے ایک لڑکی کو ہوا میں معلق کرکے بھی دکھایا ۔ایسے ہی چند اور شعبدے تھے جو وہ لوگوں کو دکھاتاتھا اور لوگ انہیں معجزے کہتے تھے۔ایک تو وہ چرب زبان تھا ،دوسرے وہ خوش الحان تھا ۔اس کے بولنے کا انداز پرکشش تھا۔اس نے یمن والوں کو یہ نعرہ دے کر ’’یمن! یمن والوں کا ہے‘‘ ۔انکے دل موہ لیے تھے۔یمنی بڑی لمبی مدت سے ایرانیوں کے زیرِ نگیں چلے آ رہے تھے۔ ایرانی تسلط بازان کے قبولِ اسلام کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تو حجاز کے مسلمان آ گئے۔اس کے علاوہ وہاں یہودی ،نصرانی اور مجوسی بھی موجود تھے۔ یہ سب اسلام کی بیخ کنی چاہتے تھے۔ انہوں نے اسود عنسی کی نبوت کے قدم جمانے میں در پردہ بہت کام کیا۔اسود اپنی نبوت کی صداقت ایک گدھے کے ذریعے ثابت کیا کرتا تھا ۔اس کے سامنے ایک گدھا لایا جاتا وہ گدھے کو کہتا بیٹھ جا۔گدھا بیٹھ جاتا ۔پھر کہتا میرے آگے سر جھکا ،گدھا سجدے کے اندازسے سر جھکا دیتا،گدھے کیلئے اس کا تیسراحکم ہوتا، میرے آگے گھٹنے ٹیک دے۔گدھا اس کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا۔دیکھتے ہی دیکھتے اسود عنسی کو یمن کے لوگوں نے نبی مان لیا،اسود نے ان لوگوں کو ایک فوج کی صورت میں منظم کرلیا،اس نے سب سے پہلے نجران کا رخ کیا۔وہاں رسول ِکریمﷺ کے مقررکیے ہوئے دو مسلمان حاکم تھے ۔خالد ؓبن سعید اور عمروؓ بن حزم۔اسود کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا جو نجران میں داخل ہوا تو وہاں کے باشندے بھی اس کے ساتھ مل گئے ۔ دونوں مسلمان حاکموں کیلئے پسپائی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔اسود عنسی اس پہلی فتح سے سرشار ہو گیا اوراس کے لشکر کی تعدا دبھی زیادہ ہو گئی۔اس نے نجران میں اپنی حکومت قائم کرکے صنعاء کی طرف پیش قدمی کی۔وہاں بازان کا بیٹا شہر حکمران تھا۔ اس کے پاس فوج تھوڑی تھی پھر بھی وہ مقابلے میں ڈٹ گیا ۔اس کی للکار نے اپنی فوج کے قدم اکھڑنے نہ دیئے ۔لیکن شہر بن بازان چونکہ اپنی فوج کا حوصلہ قائم رکھنے کیلئے سپاہیوں کی طرح لڑ رہا تھا، اس لئے شہید ہو گیا۔ اِس سے اُس کی فوج کا حوصلہ ٹوٹ گیا۔اسود کے خلاف لڑنے والے وہ یمنی بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن شکست کی صورت میں جان کا خطرہ مسلمانوں کو تھا۔ انہیں اسود کے لشکر کے ہاتھوں قتل ہونا تھا ۔اسود کسی مسلمان کو نہیں بخشتا تھا چنانچہ مسلمان جانیں بچا کر نکل گئے اور مدینہ جا پہنچے۔
اسود عنسی جو اب’’ رحمٰن الیمن ‘‘کہلاتا تھا ،حضرموت ،بحرین ،احسا ء اور عدن تک کے تمام علاقوں پر بھی قبضہ کرکے تمام یمن کا بادشاہ بن گیا۔اسلام کیلئے یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔شمال کی طرف سے رومیوں کے حملے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا تھا۔ اس خطرے کو ختم کرنے کیلئے رسولِ خداﷺ نے ایک لشکر رومیوں پر حملے کیلئے تیار کیا تھا،جس کے سالارِ اعلیٰ بائیس سالہ نوجوان اسامہؓ تھے ۔جو رسولِ کریمﷺ کے آزادکیے ہوئے غلام زیدؓ بن حارثہ کے بیٹے تھے۔زیدؓ بھی سالار تھے اور وہ موتہ کے معرکے میں شہید ہو گئے تھے۔یمن کو ایک خودساختہ نبی سے نجات دلانے کیلئے بہت بڑے لشکر کی ضرورت تھی ۔لیکن لشکر رومیوں کے خلاف لڑنے کیلئے جا رہا تھا،اگر رومیوں پر حملے ملتوی کرکے اس لشکر کو یمن بھیج دیا جاتا تو رومی یہ فائدہ اٹھاسکتے تھے کہ مدینہ پر حملہ کر دیتے۔ یہ خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا تھا۔رسولِ اکرمﷺ نے دوسری صورت یہ سوچی کہ یمن میں جو مسلمان مجبوری کے تحت رہ گئے ہیں اور جنہوں نے اسود عنسی کی اطاعت قبول کرلی ہے انہیں اسود کا تختہ الٹنے کیلئے استعمال کیاجائے۔اس طریقۂ کار کو حضورﷺ کے تمام سالاروں نے پسند کیا۔اس مقصد کیلئے چند ذہین قسم کے افراد کو یمن بھیجناتھا۔رسولِاکرمﷺ کی نظرِ انتخاب ’’قیس بن ہبیرہ‘‘ پر پڑی۔آپﷺ نے انہیں بلا کر یمن جانے کا مقصد سمجھایا اور پوری طرح ذہن نشین کرایا کہ’’ اُنہیں اپنے آپ کو چھپا کر وہاں کے مسلمانوں سے ملنا ملانا ہے اور ایک زمین دوز جماعت تیار کرنی ہے جو اس جھوٹے نبی اور عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے خود ساختہ بادشاہ کا تختہ الٹے ۔‘‘آپﷺ نے قیس بن ہبیرہ سے یہ بھی کہا کہ وہ مدینہ سے اپنی روانگی کو بھی خفیہ رکھیں اور یمن تک اس طرح پہنچیں کہ انہیں کوئی دیکھ نہ سکے۔اس پُرخطر مہم کو اور زیادہ مستحکم کرنے کیلئے رسولِ کریمﷺ نے دبر بن یحنس کو یک خط دے کر یہ کہا کہ یمن میں کچھ مسلمان سردار موجود ہیں جنہوں نے مجبوری کے تحت اسود کی اطاعت قبول کرلی ہے ۔یہ خط انہیں پڑھواکر ضائع کر دیناہے اور باقی کام قیس بن ہبیرہ کریں گے۔اسودعنسی نے جب صنعاء پر حملہ کیاتھا تو وہاں کے حاکم ’’شہر بن بازان ‘‘نے مقابلہ کیا۔ لیکن وہ شہید ہو گیا تھا۔ اسکی جواں سال بیوی جس کا نام آزاد تھا، اسود کے ہاتھ چڑھ گئی۔ آزاد غیر معمولی طور پر حسین ایرانی عورت تھی،اس نے اسود کو قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن اسود نے اسے جبراً اپنی بیوی بنا لیا تھا ۔آزاد اب اس شخص کی اسیر تھی جس سے وہ انتہا درجے کی نفرت کرتی تھی ۔اکیلی عورت کر بھی کیا سکتی تھی،اس کی خوش نصیبی صرف اتنی تھی کہ اسود عورتوں کا دلدادہ تھا ،اس نے اپنے حرم میں بیسیوں عورتیں رکھی ہوئی تھیں ۔اسے تحفے میں بھی نوجوان لڑکیاں ملا کرتی تھیں ۔وہ ہر وقت عورت اور شراب کے نشے میں بد مست رہتا تھا۔رسولِ اکرمﷺ کے بھیجے ہوئے قیس بن ہبیرہ چوری چھپے سفر کرکے اور بھیس بدل کر صنعاء پہنچے۔ اسود نے صنعاء کو اپنا دارالحکومت بنالیا تھا۔ادھر دبر بن یحنس ایک مسلمان سردارکے ہاں خط لے کر پہنچ گئے ۔اس مسلمان سردار نے یہ یقین تو دلا دیا کہ وہ ایسے چند ایک مسلمان سرداروں کو اکھٹا کر لے گا جنہوں نے دل سے اسود کی اطاعت قبول نہیں کی ۔لیکن اسود کا تختہ الٹنا ممکن نظر نہیں آتا تھا کیونکہ وہ صرف بادشاہ ہی نہیں ،یمن کے باشندے اسے اپنا نبی مانتے تھے۔
قیس بن ہبیرہ ایک ایسے ٹھکانے پر پہنچ گئے جہاں رسولِ کریمﷺ کے شیدائی مسلمان موجود تھے۔ان مسلمانوں نے بھی وہی بات کہی جو مسلمان سردار نے کہی تھی لیکن ان مسلمانوں نے ایسی کوئی بات نہ کہی کہ وہ اس زمین دوز تحریک میں شامل نہیں ہوں گے۔انہوں نے پر عزم لہجے میں کہا کہ وہ خفیہ طریقہ سے وفادار مسلمانوں کو اکھٹا کرلیں گے۔’’ہم اس جھوٹے نبی کو ختم کرنے کیلئے زیادہ انتظار نہیں کرسکتے۔‘‘ایک مسلمان نے کہا۔’’جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔کیا تم لوگ یہ نہیں سوچ سکتے کہ اس شخص کو قتل کر دیاجائے۔‘‘’’قتلکون کرے گا؟‘‘ایک اور مسلمان نے پوچھا۔’’اور اسے کہاں قتل کیا جائے گا۔وہ محل کے باہر نکلتا ہی نہیں ۔یہ بھی معلوم ہو اہے کہ محل کے اردگرد محافظوں کا بڑا سخت پہرہ ہوتا ہے ۔کیا ہم میں کوئی ایساآدمی نہیں جو اسلام کے نام پر اپنی جان قربان کردے؟‘‘قتل کا مشورہ دینے والے مسلمان نے پوچھا۔’’اس طرح جان دینے سے کیا حاصل کہ جسے قتل کرنا ہے اس تک پہنچ ہی نہ سکیں ؟‘‘اس مسلمان نے کہا۔’’بہرحال ہمیں خفیہ طریقے سے یہ تحریک چلا نی ہے کہ کم از کم مسلمان بغاوت کیلئے تیار ہو جائیں ۔‘‘اسود عنسی نے یمن پر قبضہ کر کے پہلا کام یہ کیا تھا کہ ایران کے شاہی اور دیگر اعلیٰ خاندانوں کے جو ایرانی ا سکے ہاتھ چڑھ گئے تھے انہیں اس نے مختلف طریقوں سے ذلیل وخوار کر کے رکھ دیا تھا ۔ان کی حالت زر خرید غلاموں سے بدتر کر دی گئی تھی۔لیکن اسود کی حکومت میں سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ اس کے پاس نہ کوئی تجربہ کار سالار تھا نہ کوئی کاروبارِ حکومت چلانے والا قابل آدمی تھا۔ یہ خطرہ تو وہ ہر لمحہ محسوس کرتا تھا کہ مسلمان اس پر حملہ کریں گے ۔وہ خود عسکری ذہن نہیں رکھتا تھا اس کمی کو پورا کرنے کیلئے اسے ایرانیوں کا ہی تعاون حاصل کرنا پڑا۔اس کے سامنے تین نام آئے۔ان میں ایک ایرانی کا نام’’ قیس بن عبدیغوث ‘‘تھا۔جو بازان کے وقتوں کا مانا ہوا سالار تھا۔دوسرے دو حکومت چلانے میں مہارت رکھتے تھے۔ ایک تھا فیروز اور دوسرا داذویہ۔فیروز نے اسلام قبول کرلیا تھا اور وہ صحیح معنوں میں اور سچے دل سے مسلمان تھا۔ اسود نے قیس بن عبدیغوث کو سالارِاعلیٰ بنا دیا اورفیروز اور داذویہ کو وزیر مقررکیا۔تینوں نے اسود کی وفاداری کا حلف اٹھایا اور اسے یقین دلایا کہ وہ ہر حالت میں اس کے وفا دار ہوں گے۔
ایک روز فیروز باہر کہیں گھوم پھر رہاتھا کہ ایک گداگر نے اس کا راستہ روک لیا اور ہاتھ پھیلایا۔’’تو مجھے معذور نظر نہیں آتا۔‘‘فیروز نےاسے کہا ۔’’اگر تو معذور ہے تو تیری معذوری یہی ہے کہ تجھ میں غیرت اور خودداری نہیں۔‘‘’’تو نے ٹھیک پہچانا ہے ۔‘‘گداگر نے اپنا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا۔’’میری معذوری یہی ہے کہ میری غیرت مجھ سے چھن گئی ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تیری بھی یہی معذوری ہے ۔میں نے بھیک کیلئے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ میں اپنی غیرت واپس مانگ رہاہوں ۔‘‘’’اگر تو پاگل نہیں ہو گیا تو مجھے بتا کہ تیرے دل میں کیا ہے؟‘‘ فیروز نے گداگر سے پوچھا۔’’میرے دل میں اﷲ کے اس رسول کا نام ہے جس کا تو شیدائی ہے۔‘‘گداگر نے فیروز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہا۔’’اگر اسود عنسی کی شراب تیری رگوں میں چلی نہیں گئی تومیں جھوٹ نہیں کہہ رہا کہ تو نے دل پر پتھر رکھ کر اسود کی وزارت قبول کی ہے ۔‘‘فیروز نے اِدھر اُدھردیکھا ۔وہ سمجھ گیا کہ یہ مدینہ کا مسلمان ہے لیکن اسے یہ بھی خطرہ محسوس ہوا کہ یہ اسود کاکوئی مخبر بھی ہو سکتا ہے ۔’’مت گھبرا فیروز۔‘‘گداگر نے کہا ۔’’میں تجھ پر اعتبار کرتا ہوں تو مجھ پر اعتبار کر۔میں تجھ کو اپنا نام بتا دیتا ہوں قیس بن ہبیرہ۔مجھے رسول اﷲﷺ نے بھیجا ہے۔‘‘’’کیا تو سچ کہتاہے کہ رسول اﷲﷺ نے تجھے میرے پاس بھیجا ہے؟‘‘ فیروز نے اشتیاق سے پوچھا۔’’نہیں !‘‘قیس نے کہا۔’’رسول اﷲﷺ نے یہ کہا تھا کہ وہاں چلے جاؤ ۔اﷲ کے سچے بندے مل جائیں گے۔‘‘’’تجھے کس نے بتایا ہے کہ میں سچا مسلمان ہوں ۔‘‘فیروز نے پوچھا۔’’اپنے رسول ﷺ کا نام سن کر رسالت کے شیدائیوں کی آنکھوں میں جو چمک پیدا ہو جاتی ہے وہ میں نے تیری آنکھوں میں دیکھی ہے ۔‘‘قیس نے کہا ۔’’تیری آنکھوں میں چمک کچھ زیادہ ہی آگئی ہے۔‘‘فیروز نے قیس سے کہا کہ وہ چلا جائے ۔اس نے قیس کو ایک اور جگہ بتا کر کہا کہ کل سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے وہ وہاں بیٹھا گداگری کی صداس لگاتا رہے۔اگلی شام فیروز اس جگہ سے گزرا جو اس نے قیس بن ہبیرہ کو بتائی تھی۔فیروزکے اشارے پر قیس گداگروں کے انداز سے اٹھ کر فیروز کے پیچھے پیچھے ہاتھ پھیلا کر چل پڑا۔’’رسولِ خداﷺ تک پیغام پہنچا دینا کہ آپﷺ کے نام پر جان قربان کرنے والا ایک آدمی اسود عنسی کے سائے میں بیٹھا ہے ۔‘‘فیروز نے چلتے چلتے ادھر ادھر دیکھے بغیر دھیمی سی آوا زمیں کہا۔’’اور میں حیران ہوں کہ اتنی جنگی طاقت کے باوجود رسول اﷲﷺ نے یمن پرحملہ کیوں نہیں کیا۔‘‘’’ہرقل کا لشکر ارد ن میں ہمارے سر پر کھڑا ہے ۔‘‘قیس نے کہا ۔’’ہمارا لشکر رومیوں پر حملہ کرنے جا رہا ہے ۔کیا ہم دو آدمی پورے لشکر کا کام نہیں کر سکیں گے؟‘‘’’کیا تو نے یہ سوچاہے کہ دو آدمی کیاکر سکتے ہیں ؟‘‘فیروز نے پوچھا۔’’قتل!‘‘قیس نے جواب دیا اور کہنے لگا۔’’ مجھ سے یہ نہ پوچھناکہ اسود کو کس طرح قتل کیا جا سکتا ہے ؟کیا تو نے اپنے چچاکی بیٹی آزاد کو دل سے اتار دیا ہے ؟‘‘فیروز چلتے چلتے رک گیا۔ اس کے چہرے پر کچھ اور ہی طرح کی رونق آ گئی جیسے خون اچانک ابل پڑا ہو۔
’’تو نے مجھے روشنی دِکھا دی ہے۔‘‘اس نے کہا ۔’’قتل کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ،میری چچا زاد بہن کا نام لے کر تو نے میرا کام آسان کردیا ہے۔یہ کام میں کروں گا۔تو اپناکام کرتا رہ۔جا قیس !زندہ رہے تو ملیں گے۔‘‘مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فیروز کے دل میں اسود کی جو نفرت دبی ہوئی تھی وہ ابھر کر سامنے آگئی۔ اس نے اسود عنسی کے ایرانی سالار قیس بن عبدیغوث اور داذویہ کو اپنا ہم راز بنا لیا،اسود کا قتل ایک وزیر کیلئے بھی آسان نہیں تھا جو اس کے ساتھ رہتا تھا۔اسود کے محافظ اسے ہر وقت اپنے نرغے میں رکھتے تھے ۔سوچ سوچ کران تینوں ایرانیوں نے یہ فیصلہ کیاکہ آزاد کو اس کام میں شریک کیا جائے۔لیکن قتل آزاد کے ہاتھوں نہ کرایا جائے۔آزاد تک رسائی آسان نہیں تھی۔اسود کو شک ہو گیا تھا کہ تینوں ایرانی اسے دل سے پسند نہیں کرتے ۔اُس نے اِن پر بھروسہ کم کر دیا تھا۔آزاد اور فیروز کی ویسے بھی کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔آزاد تک پیغام پہنچانے کیلئے عورت کی ہی ضرورت تھی۔ایک وزیر کیلئے ایسی عورت کا حصول مشکل نہ تھا۔فیروز نے محل کی ایک ادھیڑ عمر عورت کو اپنے پاس بلایا۔ وہ بھی مسلمان تھی۔فیروز نے اسے کہا کہ وہ اسے اپنے گھر میں رکھنا چاہتا ہے۔ اگر وہ پسند کرے تو وہ اسے اپنے ہاں لا سکتا ہے ۔فیروز نے اسے کچھ لالچ دیا۔ ایک یہ تھا کہ اس سے اتنا زیادہ کام نہیں لیا جائے گا ،جتنا اب لیا جاتا ہے ۔وہ عورت مان گئی۔فیروز نے اسی روز اسے اپنے ہاں بلالیا۔ایک روز آزاد اکیلی بیٹھی تھی۔ وہ ہر وقت جلتی اور کڑھتی رہتی تھی ۔اسے کوئی راہِ فرار نظر نہیں آتی تھی،اس کیفیت میں فیروز کی وہی خادمہ اس کے پاس آئی ۔’’میں کسی کام کے بہانے آئی ہوں۔‘‘ خادمہ نے کہا۔’’لیکن میں آئی دراصل تیرے پاس ہوں ،کیا تو اپنے چچا زاد بھائی سے کبھی ملی ہے۔جو رحمٰن الیمن کا وزیر ہے؟‘‘’’کیا تو جاسوسی کرنے آئی ہے؟‘‘آزاد نے غصیلی آواز میں کہا۔’’نہیں۔‘‘خا­دمہ نے کہا۔’’مجھ پر یہ شک نہ کر کہ میں اس جھوٹے نبی کی مخبر ہوں۔میرے دل میں بھی اسود کی اتنی ہی نفرت ہے جتنی تیرے دل میں ہے ۔‘‘’’میں نہیں سمجھ سکتی کہ تو میرے پاس کیوں آئی ہے۔‘‘آزاد نے کہا۔’’فیروز وزیر نے بھیجا ہے ۔‘‘خادمہ نے کہا۔’’میں فیروز کا نام بھی نہیں سننا چاہتی ۔‘‘آزاد نے کہا۔’’ اگر ا س میں غیرت ہوتی تو وہ اس شخص کا وزیر نہ بنتا جس نے اس کی چچا زاد بہن کو بیوہ کیا اور اسے جبراً اپنی بیوی بنا لیا۔‘‘آزاد شاہی خاندان کی عورت تھی۔ وہ اِن لونڈیوں اورباندیوں کو اچھی طرح سمجھتی تھی۔ اس نے اندازہ کرلیا کہ یہ عورت مخبری کرنے نہیں آئی۔ اس نے خادمہ سے پوچھاکہ فیروز نے اس کیلئے کیا پیغام بھیجا ہے۔خادمہ نے بتایا کہ وہ اس سے ملنا چاہتا ہے۔ آزاد نے اسے ایک جگہ بتا کر کہا کہ فیروز وہیں رات کو آجائے۔لیکن ہمارے درمیان ایک دیوار حائل ہو گی۔
آزاد نے کہا۔’’ اس میں ایک جگہ ایک دریچہ ہے جس میں سلاخیں لگی ہوئی ہیں۔فیروز سلاخوں کے دوسری طرف کھڑا ہوکر بات کر سکتا ہے ۔‘‘خادمہ نے آزادکا پیغام فیروز کو دے دیا۔اسی رات فیروز محل کے اردگرد کھڑی دیوار کے اس مقام پر پہنچ گیا جہاں سلاخوں والا چھوٹا سا دریچہ تھا۔آزاد اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔’’تیری خادمہ پہ مجھے اعتبار آگیا ہے۔‘‘آزاد نے کہا۔’’تجھ پر میں کیسے اعتبار کروں ؟میں نہیں مانوں گی کہ تو مجھے اس وحشی سے آزاد کرانے کی سوچ رہا ہے ۔‘‘’’کیا تو اس وحشی کے ساتھ خوش ہے ؟‘‘فیروز نے پوچھا۔’’اس سے زیادہ قابلِ نفرت آدمی میں نے کوئی اور نہیں دیکھا۔‘‘آزاد نے کہا۔’’تیرا یہاں زیادہ دیر کھڑے رہنا ٹھیک نہیں ۔فوراً بتا تجھے اتنے عرصے بعد میرا کیوں خیال آگیاہے؟‘‘’’کیااس وقت اسود کے ادھر نکل آنے کا خطرہ ہے؟‘‘فیروز نے پوچھا۔’’یا ابھی وہ تمہیں……‘‘’’نہیں!‘‘آزاد نے کہا ۔’’پہرہ داروں کاخطرہ ہے۔اسود اس وقت شراب کے نشے میں بے سدھ پڑا ہے۔ اس کے پاس عورتو ں کی کمی نہیں ہے ۔‘‘’’میں صرف تجھے نہیں پورے یمن کو آزاد کراؤں گا۔‘‘فیروز نے کہا ۔’’لیکن تیری مدد کے بغیر میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘‘’’مجھے بتا فیروز !‘‘آزاد نے پوچھا۔’’میں کیا کر سکتی ہوں؟‘‘’’کسی رات مجھے اسود تک پہنچا دے۔‘‘ فیروزنے کہا۔’’اگلے روز وہاں سے اس کی لاش اٹھائی جائے گی۔کیا تو یہ کام کر سکتی ہے؟‘‘’’کل رات اس وقت کے کچھ بعد اس دیوار کے باہر اس جگہ آ جانا جو میں تمہیں بتاؤں گی۔‘‘آزاد نے کہا۔’’میرا کمرہ اس دیوارکے بالکل ساتھ ہے ۔تم دیوار کسی اور طریقے سے پھلانگ نہیں سکو گے۔کمند پھینکنی پڑے گی۔رسّا لیتے آنا۔اسے دیوار کے اوپر سے اندر کو پھینکنا۔میں اسے کہیں باندھ دوں گی۔تم رسّے سے اوپر آجانا۔‘‘اگلی رات فیروز اس طرح چھپتا چھپاتا اس دیوار کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا کہ اسے پہرہ دار کے گزر جانے تک چھپنا پڑتا تھا۔وہ اس جگہ پہنچ گیا جو اسے آزاد نے بتائی تھی ۔اس نے دیوار پر رسّا پھینکا جس کا اگلا سرا دوسری طرف نیچے تک چلا گیا۔آزاد موجود تھی، اس نے رسّا پکڑ لیااور کہیں باندھ دیا۔فیروز رسّے کوپکڑ کر اور پاؤں دیوار کے ساتھ جماتا دیوار پر چڑھ گیا ۔اس نے رسّا دیوار پر باندھ دیااور اس کی مددسے نیچے اتر گیا۔آزاد اسے اپنے کمرے میں لے گئی اور آدھی رات کے بعد تک اسے کمرے میں ہی رکھا کیونکہ اسود کے بیدار ہونے کا خطرہ تھا۔’’آدھی رات کے بعد وہ بے ہوش اور بے سدھ ہو جاتا تھا۔‘‘ آزاد نے کہا۔’’یہ شخص انسانوں کے روپ میں دیو ہے،ایسا دیو جو شراب پیتا او رعورتوں کو کھاتا ہے۔تم نے اس کی جسامت دیکھی ہے ؟اتنا لمبا اور چوڑا جسم تلوار کے ایک دو وار کو شراب کی طرح پی جائے گا۔اسے ہلاک کرناآسان نہیں ہو گا۔‘‘
’’اسے ہلاک کرنا ہے خواہ میں خود ہلاک ہو جاؤں۔‘‘فیروز نے کہا۔
آزاد نے کمرے کا دروازہ ذرا کھولا اور باہر دیکھا ۔اس غلام گردش کے اگلے سرے پرایک پہرہ دار کھڑا رہتا تھا۔ وہ سائے کی طرح کھڑا نظر آ رہا تھا۔صاف پتا چلتا تھا کہ اس طرف اس کی پیٹھ ہے۔ آزاد اپنے کمرے سے نکلی اور دبے پاؤں اسود کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ہلکی روشنی والا ایک فانوس جل رہا تھا۔اسود پیٹھ کے بل بستر پر پڑا خراٹے لے رہا تھا۔مؤرخ بلاذری نے اس دور کی تحریروں کے دو حوالے دے کر لکھا ہے کہ جب آزاد اسود کو دیکھ کر واپس آئی تو اس کاانداز ایسا تھا،جیسے ایک شعلہ آیا ہو۔یہ انتقام اور نفرت کا شعلہ تھا۔’’آؤ فیروز !‘‘اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’وہ بے ہوش پڑا ہے۔‘‘فیروز آزاد کے ساتھ کمرے سے نکل گیا اور دبے پاؤں آزاد کے پیچھے اسود کے کمرے میں داخل ہوا۔اسود جنگلی سانڈ جیسا انسان تھا ۔کمرے میں شراب اور گناہوں کا تعفن تھا۔جانے ایسے کیوں ہوا ،اسود بیدار ہو گیا۔ اپنے وزیر اور اپنی حسین ایرانی بیوی کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا ۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ آزاد کو وہ قابلِ اعتماد سمجھتا تھا۔فیروز کو دیکھ کر اسے کچھ شک ہوا ہو گا۔’’اس وقت کیا مصیبت آ گئی ہے؟‘‘اسود نے نشے سے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں پوچھا۔فیروز نے ایک لمحہ ضائع نہ کیا۔تلوار کھینچی اور پوری طاقت سے اسود کی گردن پر وار کیا۔اسود نے گردن بچا لی اور تلوار ا اس کے ننگے سر پر لگی۔اسود کے منہ سے چیخ نما آوازیں نکلیں اور بستر سے لڑھک کر دوسری طرف گرا۔غلام گردش میں دوڑتے قدموں کی دھمک سنائی دی۔ آزاد تیزی سے باہر نکلی اور دروازہ بند کر لیا۔پہرہ دار دوڑا آ رہا تھا۔آزاد نے تیزی سے آگے بڑھ کرپہر دار کو روک لیا ۔کمرے سے اسود کی ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں ۔’’واپس اپنی جگہ چلے جاؤ۔‘‘آزاد نے پہرہ دار کو تحکمانہ لہجے میں کہا۔’’رحمٰن الیمن کے پاس فرشتہ آیا ہوا ہے۔وحی نازل ہو رہی ہے ۔جاؤ ادھر نہ آنا۔‘‘
مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ پہرہ دار نے احترام سے سر جھکا لیا اور چلا گیا۔آزاد اندر آئی تو دیکھا کہ اسود فرش سے اٹھ کر بستر پر گر رہا ہے ،اور فیروز دوسرے وار کیلئے آگے بڑھ رہا ہے ۔اسود بستر پرگر پڑا ۔اس کا سر پلنگ کے بازوپر تھااور سانڈوں کی طرح ڈکار رہا تھا۔’’تم اسے مار نہیں سکو گے فیروز ۔‘‘آزاد نے آگے بڑھ کر کہااور اسود کے بال جو لمبے تھے۔ہاتھوں سے پکڑ کر نیچے کو کھینچے اور وہ خود فرش پر بیٹھ گئی۔’’ اب فیروز، گردن کاٹ دو۔‘‘فیروز نے ایک ہی وار سے اسود کی گردن صاف کاٹ کر سر جسم سے الگ کر دیا۔فیروز کے ساتھیوں قیس عبدیغوث اور داذویہ کو معلوم تھا کہ آج رات کیا ہونے والا ہے۔فیروز نے اسود کا سر اٹھایا اور ان دونوں کے ہاں جا پہنچا۔محافظوں اور پہرہ داروں کو رحمٰن الیمن کے قتل کی خبر ملی تو انہوں نے محل کو محاصرے میں لے لیا۔آزاد فیروز کے ساتھ رہی۔ محل میں بھگدڑ مچ گئی۔حرم کی عورتوں کا ہجوم چیختا چلاتا باہر کو بھاگا۔
ادھر رسول اﷲﷺ کے بھیجے ہوئے قیس بن ہبیرہ اور دبر بن یحنس سرکردہ مسلمانوں کو بغاوت پر آمادہ کر چکے تھے اور دن رات زمین دوز سرگرمیوں سے مسلمانوں کے حوصلے بحال کر چکے تھے۔اگلی صبح صادق میں کچھ وقت باقی تھا ۔محل کی چھت سے اذا ن کی آواز بلند ہوئی ۔لوگ حیران ہوئے کہ محل میں اذان؟لوگ محل کی طرف دوڑے ۔اسود کی فوج حکم کی منتظر تھی لیکن حکم دینے والا قیس عبدیغوث تھا۔وہی سپہ سالار تھا ۔اس نے فوج کو باہر نہ آنے دیا۔اسود کا سر محل کے باہر لٹکا دیا گیا ۔محل کی چھتوں سے للکار بلند ہو رہی تھی ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں اوراسود عنسی کذاب ہے ۔‘‘اسود کے پیروکاروں پر خوف طاری ہو گیا اور مسلمان مسلح ہو کر نکل آئے اور انہوں نے یمنیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔مصر کے مشہور صحافی اور سابق وزیرِ معارف محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب’’ ابو بکرؓ۔ صدیق اکبرؓ‘‘میں فیروز کی زبانی ایک روایت پیش کی ہے۔ فیروز نے کہا تھا۔’’اسود کو قتل کر کے ہم نے وہاں کا انتظام پہلے کی طرح رہنے دیا۔ یعنی جس طرح اسود کے تسلط سے پہلے تھا ۔ہم نے قتل کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ معاذؓ بن جبل کو بلایا کہ وہ ہمیں با جماعت نما زپڑھائیں ۔ہم بے انتہا خوش تھے کہ ہم نے اسلام کے اتنے بڑے دشمن کو ختم کر دیا ہے ۔لیکن اچانک اطلاع ملی کہ رسولِ خداﷺ وصال فرما گئے ہیں ۔اس خبر سے یمن میں ابتری سی پھیل گئی۔‘‘فیروز کو مسلمانوں نے صنعاء کا حاکم مقررکردیا۔ یہ واقعہ مئی ۶۳۲ء کا ہے۔قیس بن ہبیرہ اور دبر بن یحنس جون ۶۳۲ء کے دوسرے ہفتے میں یہ خوشخبری لے کر مدینہ پہنچے کہ جھوٹا نبی اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے اور یمن پر اسلامی پرچم لہرا دیا گیا ہے لیکن مدینہ سوگوار تھا ۔۵ جون ۶۳۲ء )۱۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری( رسولِ خداﷺ وصال فرما گئے تھے۔رسول اﷲﷺ کے وصال کی خبر جوں جوں پھیلتی گئی،یہ جنگل کی آگ ہی ثابت ہوئی۔جہاں پہنچی وہاں شعلے اٹھنے لگے۔یہ شعلے بغاوت کے تھے۔ایک تو اسلام کے دشمن تھے جنہوں نے اپنی تخریبی سرگرمیاں تیز کردیں۔دوسرے وہ قبائل تھے جنہوں نے صرف اس لئے اسلام قبول کیا تھا کہ ان کے سردار مسلمان ہو گئے تھے۔ایسے قبیلے اتنے زیادہ نہیں تھے جنہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کر لیا تھا۔باقی تمام قبیلے اسلام سے نہ صرف منحرف ہو گئے بلکہ انہوں نے مدینہ کے خلاف عَلَمِ بغاوت بلند کر دیا اور مدینہ پر حملہ کی باتیں کرنے لگے۔
خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ نے باغی قبیلوں کو پیغام بھیجے کہ وہ اسلام کو نہ چھوڑیں ۔قاصد جہاں بھی گئے وہاں سے انہیں جواب ملا کہ ہمارا قبولِ اسلام صرف ایک شخص)رسولِ کریمﷺ(کے ساتھ معاہدہ تھا۔وہ شخص نہیں رہا تو معاہدہ بھی نہیں رہا۔اب ہم آزاد ہیں اور ہم اپنا راستہ اختیار کریں گے۔تیسرا اور سب سے خطرناک فتنہ جھوٹے مدعیان نبوت کا تھا۔رسولِ کریمﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہو گئے تھے۔ان کی پشت پناہی رومی،ایرانی اور یہودی کر رہے تھے۔ان جھوٹے نبیوں میں ایک خوبی مشترک تھی ۔وہ شعبدے باز اور جادوگر تھے۔شعبدے بازی اور جادو گری میں یہودی ماہر تھے۔اَسوَد عنسی کا ذکر ہو چکا ہے۔وہ بھی شعبدہ باز تھا۔نبوت کے دوسرے دو دعویدار طلیحہ اور مسیلمہ تھے۔مسیلمہ خاص طور پر شعبدے بازی میں مہارت رکھتا تھا۔ایسے شعبدے پہلے کوئی نہ دکھا سکا تھا۔مثلاًوہ پرندے کے پر اس کے جسم سے الگ کر کے دکھاتا پھر پرندے اور پروں کو اکھٹے ہاتھوں میں لے کر اوپر پھینکتا تو پر پرندے کے ساتھ ہوتے اور وہ پرندہ اڑ جاتا۔مسیلمہ بد صورت انسان تھا۔اس کے چہرے پر ایسا تاثر تھا جیسے یہ انسان کا نہیں حیوان کا چہرہ ہو۔خدوخال بھی حیوانوں جیسے تھے۔اس کا قد چھوٹا تھا۔چہرے کا رنگ زرد تھا لیکن اس کے جسم میں غیر معمولی طاقت تھی۔اس کی آنکھیں غیر قدرتی طور پر چھوٹی اور ناک چپٹی تھی۔یہ ایک بھدے آدمی کی تصویر ہے جسے کوئی بد صورت انسان بھی پسند نہیں کر سکتا۔مگر جو عورت خواہ وہ کتنی ہی حسین اور سرکش کیوں نہ ہوتی ،اس کے قریب جاتی تو اس کی گرویدہ ہو جاتی اور اس کے اشاروں پر ناچنے لگتی تھی۔مسیلمہ نے رسول اﷲﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کا دعویٰ کیا تھا،اور دو قاصدوں کے ہاتھ ایک خط ان الفاظ میں لکھا تھا:’’مسیلمہ رسول اﷲ کی جانب سے،محمدرسول اﷲ کے نام! آپ پر سلامتی ہو۔بعدہٗ واضح ہو کہ میں رسالت میں آپ کا شریک بنایا گیا ہوں ۔لہٰذہ نصف زمین میری ہے اور نصف قریش کی ۔مگر قریش انصاف نہیں کر رہے۔‘‘رسول اکرمﷺ نے خط پڑھا اور قاصدوں سے پوچھا کہ مسیلمہ کے اس عجیب و غریب پیغام کے متعلق ان کی کیا رائے ہے؟’’ہم وہی کہتے ہیں جو خط میں لکھا ہے۔‘‘ایک قاصد نے جواب دیا۔’’خداکی قسم!‘‘رسول اﷲﷺ نے کہا۔’’اگر قاصدوں کے قتل کو میں روا سمجھتا تو تم دونوں کے سر تن سے جدا کر دیتا۔‘‘
آپﷺ نے مسیلمہ کو اس خط کے جواب میں لکھوایا:’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم!محمد رسول اﷲﷺ کی جانب سے ،مسیلمہ کذاب کے نام۔زمین اﷲ کی ہے،وہ اپنے متقی بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔‘‘اس کے بعد مسیلمہ کو سب’’ کذاب‘‘ کہنے لگے اور اسلام کی تاریخ نے بھی اسے ’’مسیلمہ کذاب‘‘ ہی کہا ہے۔رسولِ خداﷺ ان دنوں بسترِ علالت پہ تھے۔آپﷺ نے ضروری سمجھا کہ جس شخص نے یہ جسارت کی ہے کہ رسولِ کریمﷺ سے زمین کا مطالبہ کر دیا ہے ،اس کی سرگرمیوں اور لوگوں پراس کے اثرات کو فوراً ختم کیا جائے۔آپﷺ کی نگاہ ایک شخص نہاراً الرّجال پر پڑی۔اس شخص نے اسلام قبول کرکے دین کی تعلیم حاصل کی تھی۔قرآن کی آیات پر اسے عبور حاصل تھااور وہ عالم و فاضل کہلانے کے قابل تھا۔رسولِ مقبولﷺ نے اسے بلا کر ہدایات دیں کہ وہ یمامہ جائے اور لوگوں کو اسلامی تعلیم دے۔آپﷺ نے الرّجال کو اچھی طرح سمجھایا کہ مسیلمہ کے اثرات زائل کرنے ہیں تاکہ خون خرابے کے بغیر ہی یہ شخص گمنام اور اس کا دعویٰ بے اثر ہو جائے۔رسول اﷲﷺ کے حکم کی تعمیل میں الرّجال روانہ ہو گیا۔مسیلمہ بن حبیب جو مسیلمہ کذاب کے نام سے مشہور ہوا تھا۔رات کو اپنے دربار میں بیٹھاتھا۔شراب کا دور چل رہا تھا۔دربار میں اس کے قبیلے کے سرکردہ افراد بیٹھے ہوئے تھے۔وہ سب اسے اﷲ کا رسول مانتے تھے۔اس نے اپنے مذہب کو اسلام ہی کہا تھا۔لیکن کچھ پابندیاں ہٹا دی تھیں مثلاً اس نے اپنی ایک آیت گھڑ کر اپنے پیروکاروں کو سنائی کہ اس پر وحی نازل ہو ئی ہے کہ شراب حلال ہے ۔دیگر عیش و عشرت کو بھی اس نے حلال قرار دے دیا ہے۔اس کا دربار جنت کا منظر پیش کر رہا تھا۔نہایت حسین اور جوان لڑکیاں اس کے دائیں بائیں بیٹھی تھیں اور دو اس کے پیچھے کھڑی تھیں اور دو اس کے پیچھے کھڑی تھیں۔مسیلمہ کسی لڑکی کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اور کسی کے گالوں کو تھپک کر بات کرتا تھا۔ایک آدمی دربار میں آیا ،وہ بیٹھا نہیں کھڑا رہا۔سب نے اس کی طرف دیکھا ۔مسیلمہ نے جیسے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی نہ سمجھی ہو ۔اسے معلوم تھا کہ وہ کسی کے کہے بغیر بیٹھ جائے گا مگر وہ کھڑا رہا۔’’کیاتو ہم پر پہرہ دینے آیا ہے؟‘‘مسیلمہ نے اسے کہا۔’’یا تو اﷲ کے رسول کے حکم کے بغیربیٹھ جانا بد تہذیبی سمجھتا ہے۔‘‘’’اﷲ کے رسول!‘‘ اس آدمی نے کہا۔’’ایک خبر لایا ہوں……مدینہ سے ایک آدمی آیا ہے۔وہ بہت دنوں سے یہاں ہے اور وہ ان لوگوں کو جنہوں نے کبھی اسلام قبول کیا تھا،بتاتا پھر رہا ہے کہ سچا رسول محمدﷺ ہے اور باقی سب کذاب ہیں ۔میں نے خود اس کی باتیں سنی ہیں ۔اس کا نام نہاراً الرّجال ہے۔‘‘
’’نہاراً الرّجال؟‘‘دربارمیں بیٹھے ہوئے دو آدمی بیک وقت بولے پھر ایک نے کہا۔’’وہ مسلمانوں کے رسولﷺ کا منظورِ نظر ہے ۔میں اسے جانتا ہوں ۔اس کے پاس علم ہے۔‘‘’’ایسے شخص کو زندہ نہ چھوڑیں ۔‘‘دربار میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے گرج کر کہا۔’’اے خدا کے رسول! ‘‘ایک اور آدمی نے اٹھ کر کہا۔’’کیا تو مجھے اجازت نہیں دے گا کہ میں اس بد بخت کا سر کاٹ کر تیرے قدموں میں رکھ دوں؟‘‘’’نہیں۔‘‘مسیلمہ کذاب نے کہا ۔’’اگروہ عالم ہے اور اس نے محمد)ﷺ( کے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہے تو میں اسے کہوں گا کہ میرے دربار میں آئے اور مجھے جھوٹا ثابت کرے۔میں اسے قتل نہیں ہونے دوں گا ……اسے کل رات میرے پاس لے آنا۔اسے یقین دلانا کہ اسے قتل نہیں کی جائے گا۔‘‘الرّجال کو مسیلمہ کے ایک آدمی نے کہا کہ اسے اﷲ کے رسول مسیلمہ بن حبیب نے اپنے ہاں مدعو کیا ہے۔’’کیا وہ میرے قتل کا انتظام یہیں نہیں کر سکتا تھا؟‘‘الرّجال نے کہا۔’’میں اسے اﷲ کا رسول نہیں مانتا ۔مجھ پہ یہ لازم نہیں کہ میں اس کا حکم مانوں۔‘‘’’وہ جہاں چاہے تمہیں قتل کرا سکتا ہے۔‘‘مسیلمہ کے ایلچی نے کہا۔’’اس میں یہ طاقت بھی ہے کہ پھونک مار دے تو تیرا جسم مردہ ہو جائے ۔وہ تجھے زندہ دیکھنا اور رخصت کرنا چاہتا ہے۔‘‘مسلمانوں نے الرجال سے کہا کہ وہ اس کذاب کے ہاں نہ جائے۔
’’یہ میری زندگی اور موت کا سوال نہیں۔‘‘الرجال نے کہا۔’’یہ صداقت اور کذاب کا سوال ہے۔اگر ایک کذاب کو صدق سے بہرہ ور کرنے میں میری جان چلی جاتی ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں۔‘‘’’میں آؤں گا۔‘‘الرجال نے کہا۔’’آج ہی رات آؤں گا۔مسیلمہ سے کہنا کہ تواگر سچا نبی ہے تو اپنے وعدے سے پھر نہ جانا۔‘‘ایلچی نے مسیلمہ کذاب کو الرجال کا جواب بتایا۔الرجال یمامہ کے قلعے میں رہتا تھا۔مشہور مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ مسیلمہ اپنے خاص مہمانوں کیلئے بڑا خوشنما خیمہ نصب کرایا کرتا تھا۔جس کی ساخت مکان جیسی ہوتی تھی ۔یہ خیمہ اندر سے بڑے دلفریب طریقوں اور کپڑوں سے سجایا جاتا تھا۔صحرا کی راتیں سرد ہوتی تھیں۔اس لیے مسیلمہ خیمہ میں بڑا خوبصورت آتشدان رکھوادیا کرتا تھا۔اس آتشدان میں وہ کوئی چیز یا ایسی جڑی بوٹی رکھ دیا کرتا تھا،جس کی خوشبو عطر کی طرح کی ہوتی تھی،لیکن یہ خوشبو اس پر ایسا اثر کرتی تھی جیسے اس خیمے میں سونے والے کو ہپناٹائز کرلیاگیا ہو۔مسیلمہ کا شکار بے ہوش یا بے خبر نہیں ہوتا تھا،بلکہ وہ مسیلمہ کے اشاروں پر ناچنے لگتا تھا۔خود مسیلمہ پر اس کا یہ اثر نہیں ہوتا تھا۔مسیلمہ کذاب کو جب یہ اطلاع ملی کہ الرجال آ رہا ہے تو اس نے اپنا مخصوص خیمہ نصب کرایا اور اس میں وہ تمام انتظامات کرا دیئے جو وہ کرایا کرتا تھا۔اس نے رات کیلئے آتش دان بھی رکھوادیا۔
الرجال آیا تومسیلمہ نے باہر آ کر اس کا استقبال کیا۔’’تم ایک رسول کے بھیجے ہوئے آدمی ہو۔‘‘مسیلمہ نے کہا۔’’اور میں بھی رسول ہوں۔اس لیے تمہارا احترام میرا فرض ہے۔‘‘’’میں صرف اسے رسول مانتا ہوں جس نے مجھے یہاں بھیجا ہے۔‘‘الرجال نے کہا۔’’اور میں تمہیں یہ کہتے ہوے نہیں ڈروں گا کہ تم کذاب ہو۔‘‘مسیلمہ مسکرایا اور الرجال کو خیمے میں لے گیا۔
تاریخ میں اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ خیمے میں مسیلمہ اور الرجال کے درمیان کیا باتیں ہوئیں۔کیسی سودے بازی یا کیسا شعبدہ یا جادو تھا کہ اگلی صبح جب الرجال خیمے سے نکلا تو تو اس کے منہ سے پہلی بات یہ نکلی کہ’’ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسیلمہ اﷲ کا سچا رسول ہے،اور اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔‘‘اس نے یہ بھی کہا ’’میں نے محمد)ﷺ( کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا ہے کہ مسیلمہ سچا نبی ہے۔‘‘الرجال کی حیثیت صحابی کی سی تھی اس لیے مسلمانوں نے اس پر اعتبار کیا،الرجال بنو حنیفہ سے تعلق رکھتا تھا ۔الرجال کا اعلان سن کر بنو حنیفہ کے لوگ جوق در جوق مسیلمہ کو اﷲ کارسول مان کر اس کی بیعت کو آگئے۔؁مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسیلمہ نے یہ سوچ کر الرجال کو قتل نہیں کرایا تھا کہ وہ عالم ہے اور صحابی کا درجہ رکھتا ہے ۔اگر اسے ہاتھ میں لے لیا جائے تو بیعت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔چنانچہ اس شخص کو ہاتھ میں لینے کیلئے آتشدان کا اور اپنی زبان کا جادو چلایا اور الرجال کو اپنا دستِ راست بنالیا۔الرجال نے مسیلمہ کی جھوٹی نبوت میں روح پھونک دی۔اکثر ماں باپ اپنے نوزائیدہ بچوں کو رسولِ کریمﷺ کے پاس لاتے اور آپﷺ بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا کرتے تھے۔الرجال نے مسیلمہ کذاب کو مشورہ دیا کہ وہ بھی نوزائیدہ بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرا کرے۔مسیلمہ کو یہ بات اچھی لگی،اس نے کئی نوزائیدہ بچوں اور بچیوں کے سروں پر ہاتھ پھیرا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ بچے جب سنِ بلوغت میں داخل ہوئے تو ان کے سروں کے بال اس طرح جھڑ گئے کہ کسی مرد یا عورت کے سر پر ایک بھی بال نہ رہا۔اس وقت تک مسیلمہ کو مرے ہوئے زمانہ گزر گیاتھا۔اس دوران ایک عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا۔اس کا نام سجاّع تھا۔وہ الحارث کی بیٹی تھی۔اسے اُمِ سادرہ بھی کہا جاتا تھا۔اس کی ماں عراق کے ایک قبیلے سے تھی اور باپ بنو یربوع سے تعلق رکھتا تھا۔الحارث اپنے قبیلے کا سردار تھا۔سجاع بچپن سے خودسر اورآزاد خیال تھی۔وہ چونکہ سرداروں کے خاندان میں جنی پلی تھی اس لئے دوسروں پر حکم چلانا اس کی سرشت میں شامل تھا۔وہ غیر معمولی طور پر ذہین اور عقلمند نکلی۔ایک دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ غیب دان بھی تھی اور وہ آنے والے وقت کو قبل از وقت جان لیتی تھی۔اس کے متعلق اختلافِ رائے بھی پایا جاتا ہے ۔لیکن یہ بات سب نے متفقہ طور پر کہی ہے کہ سجاع قدرتی طور پر شاعرہ تھی ہر بات منظوم کرتی تھی۔اس کی زبان میں چاشنی تھی ۔اس کی ماں کا قبیلہ عیسائی تھا اس لئے سجاع نے بھی عیسائیت کو ہی پسند کیا۔سجاع کے کانوں میں یہ خبریں پڑیں کہ طلیحہ اور مسیلمہ نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور لوگ ان کی بیعت کر رہے ہیں تو اس نے بھی نبوت کا دعویٰ کر دیا۔وہ جوان ہو چکی تھی۔خدا نے اسے دیگر اوصاف کے علاوہ حسن بھی دیاتھا۔اس کے سراپا اور چہرے پر ایسا تاثر تھا کہ لوگ اس سے مسحور ہو کر اسے نبی مان لیتے تھے۔بہت سے لوگ اس کی شاعری سے متاثر ہوئے۔وہ صرف نبی بن کے کہیں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی۔اس نے اپنے پیروکاروں کی ایک فوج تیار کرلی،اور بنی تمیم کے ہاں جا پہنچی،ان قبائل کے جو سردار تھے،وہ رسولِ اکرمﷺ کے مقرر کیے ہوئے تھے۔یہ تھے زبرقان بن بدر، قیس بن عاصم، وکیع بن مالک اور مالک بن نویرہ۔سجاع نے مالک بن نویرہ کو اپنے پاس بلایا اور اسے کہا کہ وہ مدینہ کو تہہ تیغ کرنے آئی ہے اور بنی تمیم اس کا ساتھ دیں-
مالک بن نویرہ نے اسے بتایا کہ کئی قبیلے اسے پسند نہیں کرتے۔پہلے انہیں زیر کرنا ضروری ہے۔سجاع زیرکرنے کا مطلب کچھ اور سمجھتی تھی۔اس کے پاس اچھا خاصا لشکر تھا۔مالک نے اس میں اپنی فوج شامل کردی اور قبیلوں کی بستیوں پر حملہ آور ہوئے۔قبیلے ان کے آگے ہتھیار ڈالتے چلے گئے لیکن سجاع نے انہیں یہ کہنے کے بجائے کہ اسے نبی مانیں ان کے گھر لوٹ لیے اور ان کے مویشی چھین لیے ۔اس مالِ غنیمت سے اس کا لشکر بہت خوش ہوا۔ اس کی لوٹ مار کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔سجاع ایک مقام نباج پہنچی اور اس علاقے کی بستیوں میں لوٹ مار شروع کر دی۔لیکن یہ قبیلے متحد ہو گئے اور سجاع کو شکست ہوئی۔وہ ایک اور حملہ کرنا چاہتی تھی لیکن اسے ایک مجبوری کا سامنا تھا۔اس کے لشکر کے کئی سرداروں کو نباج کے قبیلوں نے پکڑ کر قید میں ڈال دیا تھا۔سجاع نے اپنا ایلچی ان قیدیوں کی رہائی کیلئے بھیجا۔
’’پہلے اس علاقے سے کوچ کرو۔‘‘قبیلوں کے سرداروں نے ایلچی سے کہا۔’’تمہیں تمہارے قیدی مل جائیں گے۔‘‘سجاع نے یہ شرط قبول کرلی اور اپنے سرداروں کو آزاد کراکے اس علاقے سے نکل گئی۔اس کے سرداروں نے اس سے پوچھا کہ اب کدھر کا ارادہ ہے؟’’یمامہ۔‘‘سجاع نے کہا۔’’وہاں مسیلمہ بن حبیب کوئی شخص ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کررکھا ہے۔اسے تلوار کی نوک پر رکھنا ضروری ہے۔‘‘’’لیکن یمامہ کے لوگ جنگ و جدل میں بہت سخت ہیں۔‘‘ایک سردار نے اسے کہا۔’’اور مسیلمہ بڑا طاقتور ہے۔‘‘سجاع نے کچھ اشعار پڑھے جن میں اس نے اپنے لشکر سے کہا تھا کہ ہماری منزل یمامہ ہے۔مسیلمہ کذاب نے اپنے جاسوسوں کو دور دور تک پھیلایا ہوا تھا۔اسے یہ اطلاع دی گئی کہ ایک لشکر یمامہ کی طرف بڑھاآ رہا ہے۔مسیلمہ نے یہ معلوم کرا لیا کہ یہ سجاع کا لشکر ہے۔اس نے الرجا ل کو بلایا۔’’کیاتم نے سنا کہ سجاع کا لشکر آ رہا ہے الرجال؟‘‘مسیلمہنے کہا۔’’لیکن میں ان سے لڑنا نہیں چاہتا۔تم جانتے ہو کہ اس علاقے میں مسلمانوں کی فوج موجود ہے جس کا سالار عکرمہ ہے۔کیا ہمارے لیے یہ بہتر نہیں ہو گا کہ سجاع اور عکرمہ کی لڑائی ہو جائے اور جب دونوں لشکر آپس میں الجھے ہوئے ہوں ،اس وقت ہم اُس پر حملہ کر دیں؟‘‘’’اگر ان کی ٹکر نہ ہوئی تو تم کیا کرو گے؟‘‘الرجال نے کہا۔’’پھر میں سجاع کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کروں گا۔‘‘مسیلمہ نے کہا۔صورت وہی پیدا ہو گئی۔سجاع اور عکرمہ ؓکی فوجیں ایک دوسرے سے بے خبر رہیں اور سجاع یمامہ کے بالکل قریب آ گئی۔مسیلمہ نے اپنا ایک ایلچی سجاع کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ سجاع اس سے ملنے اس کے پاس آئے تاکہ دوستی کا معاہدہ کیا جا سکے۔سجاع نے جواب بھیجا کہ وہ آ رہی ہے۔لیکن مسیلمہ کو قبل از وقت اطلاع مل گئی کہ سجاع اپنے لشکر کو ساتھ لا رہی ہے۔اس نے سجاع کو پیغام بھیجا کہ کہ لشکر کو ساتھ لانے سے میں یہ سمجھوں گا کہ تم دوستی کی نیت سے نہیں آ رہیں۔زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہو کہ اپنے چند ایک محافظوں کوساتھ لے آؤ۔’’یا رسول !‘‘مسیلمہ کے ایک درباری نے اسے کہا۔’’سنا ہے کہ سجاع کا لشکر اتنا بڑا ہے کہ یمامہ کی وہ اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔‘‘’’اور یہ بھی سنا ہے۔‘‘اک اور نے کہا۔’’ وہ قتل و غارت کرکے اور لوٹ مار کرکے آگے چلی جاتی ہے۔اس سے وہی محفوظ رہتا ہے جو اس کی نبوت کو تسلیم کرلیتا ہے۔‘‘
’’کیا تم مجھے ڈرا رہے ہو؟‘‘مسیلمہ نے پوچھا۔’’کیا تم یہ مشورہ دینا چاہتے ہو کہ میں اپنی نبوت سے دستبردار ہو کر اس کی نبوت کو تسلیم کرلوں؟‘‘’’نہیں اﷲ کے رسول۔‘‘اسے جواب ملا۔’’ہمارا مطلب احتیاط سے ہے۔وہ کوئی اپنا ہاتھ نہ دکھا جائے۔‘‘مسیلمہ نے قہقہہ لگایا اور کہا۔’’تم شاید میری صورت دیکھ کر مشورہ دے رہے ہو۔کیا تم مجھے کوئی ایسی عورت دکھا سکتے ہو جو میرے پاس آئی ہو اور میری گرویدہ نہ ہو گئی ہو……سجاع کو آنے دو۔وہ آئے گی ۔جائے گی نہیں ……اور وہ زندہ بھی رہے گی۔‘‘وہ آ گئی اور وہ لشکر کے بغیر آئی۔یمامہ کے لوگوں نے اسے دیکھا اور آوازیں سنائی دیں۔’’اتنی خوبصورت اور طرحدار عورت پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی……اگر نبوت حسن پر ملتی ہے تو اس عورت کو نبوت مل سکتی ہے۔‘‘اس کے ساتھ چالیس محافظ تھے ۔جو اعلیٰ نسل کے گھوڑوں پر سوار تھے۔ایک سے ایک خوبصورت جوان تھا۔کمر سے تلواریں لٹک رہی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں۔سجاع جب قلعے کے دروازے پر پہنچی تودروازہ بند تھا۔اسے دیکھ کر بھی کسی نے دروازہ نہ کھولا۔’’کیا ایسا آدمی خدا کا رسول ہو سکتاہے جو مہمان کو بلا کر دروازہ بند رکھتا ہے؟‘‘سجاع نے بلند آواز سے کہا۔’’کیا وہ نہیں جانتا کہ وہ اس عورت کی توہین کر رہا ہے جسے خدا نے نبوت عطا کی ہے؟‘‘’’معزز مہمان!‘‘ قلعے کے اوپر سے آواز آئی۔’’تم پر سلامتی ہو۔ہمارے رسول نے کہا ہے کہ محافظ باہر رہیں اور مہمان اندر آ جائے۔‘‘’’دروازہکھول دو۔‘‘سجاع نے دلیری سے کہااور اپنے محافظوں سے کہا ۔’’تم سب قلعے سے دور چلے جاؤ۔‘‘’’لیکن ہم ایک اجنبی پر کیسے اعتبار کر سکتے ہیں؟‘‘محافظ دستے کے سردار نے کہا۔’’اگر سورج غروب ہونے تک میں واپس نہ آئی تو اس قلعہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دینا۔‘‘سجاع نے کہا۔’’اور اس شہر کے ایک بچے کو بھی زندہ نہ چھوڑنا۔میری لاش کو مسیلمہ اور اس کے خاندان کے خون سے نہلاکہ یہیں دفن کر دینا……لیکن مجھے یقین ہے کہ میں قلعہ سے کچھ لے کر نکلوں گی۔‘‘محافظ چلے گئے اور دروازہ کھل گیا۔مگر اس کے استقبال کیلئے مسیلمہ موجود نہیں تھا۔اس کے حکم پر دروازے پر کھڑے دو گھوڑ سوار اسے قلعے کے صحن میں لے گئے۔ جہاں ایک چوکور خیمہ نصب تھا۔اس کے اردگرد درخت اور پودے تھے اور نیچے گھاس تھی۔سجاع کو خیمے میں داخل کر دیا گیا۔اندر کی سجاوٹ نے اسے مسحور کر دیا مگر مسیلمہ وہاں نہیں تھا۔وہ بیٹھ گئی۔تھوڑی دیر بعد مسیلمہ خیمہ میں داخل ہوا۔سجاع نے اسے دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔اس مسکراہٹ میں تمسخر تھا۔سجاع نے اتنا بد صورت آدمی کبھی نہیں دیکھا تھا۔اتنے چھوٹے قد کا آدمی شاذونادر ہی کبھی نظر آتا تھا۔
’’کیا تم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟‘‘سجاع نے اس سے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔’’دعویٰ کرنا کچھ اور بات ہے۔‘‘مسیلمہ نے سجاع کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔’’یہ سچ ہے کہ میں خدا کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔میں محمد )ﷺ(کو رسول نہیں مانتا۔لیکن اس نے اپنی رسالت منوالی ہے۔لوگ اس لیے مان گئے ہیں کہ قبیلہ قریش کی تعداداور طاقت زیادہ ہے۔انہوں نے اب دوسروں کے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘طبری نے چند ایک حوالوں سے لکھا ہے کہ مسیلمہ نے سجاع کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔اس کے ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ تھی۔بہت عرصہ بعد سجاع نے کسی موقع پر کہا تھا کہ’’ اس نے اتنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں میری آنکھوں میں ڈالیں تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ٹھگنا سا یہ بد صورت آدمی پُراسرار سا ایک اثر بن کر آنکھوں کے راستے میرے وجود میں اتر رہا ہے۔مجھے اطمینان سا ہونے لگا کہ یہ شخص مجھے قتل نہیں کرے گا۔کچھ اور وقت گزرا تو اس احساس نے جیسے مجھے بے بس کر دیا کہ میں اس کے وجود میں سما جاؤں گی اور میرا وجود ختم ہو جائے گا۔‘‘’’اگر تم نبی ہو تو کوئی الہامی بات کرو۔‘‘سجاع نے کہا۔’’تم نے کبھی سوچا ہے کہ تم کس طرح پیدا ہوئی تھیں؟‘‘مسیلمہ نے ایسے انداز سے کہاجیسے شعر پڑھ رہا ہو۔’’تم نے شاید یہ بھی نہیں سوچا کہ جس طرح تم پیدا ہوئی تھیں اس طرح تم بھی انسانوں کو پیدا کرو گی مگر تنہا نہیں……مجھے خدا نے بتایا ہے۔اس نے قرآن کی آیات کی طرز کے الفاظ بولے۔وہ ایک زندہ وجود سے زندہ وجود پیدا کرتا ہے۔پیٹ سے ۔انتڑیوں سے۔خدا نے مجھے بتایا ہے کہ عورت مانند ظرف کے ہے جس میں کچھ ڈال کر نکالا جاتا ہے ورنہ ظرف بیکار ہے۔‘‘سجاع مسحور ہوتی چلی گئی۔مسیلمہ شاعروں کے لب و لہجے میں باتیں کرتا رہا۔سجاع نے محسوس ہی نہ کیا کہ مسیلمہ ا سکے جذبات کو مشتعل کر رہا ہے اور وہ یہ بھی محسوس نہ کر سکی کہ سورج غروب ہو چکا ہے۔’’مجھے یقین ہے کہ تم آج رات یہیں رہنا چاہو گی۔‘‘مسیلمہ نے کہا۔’’اگر چہرے دیکھنے ہیں تو تم دن ہو میں رات ہوں ،مگر تم نے اس پر بھی غور نہیں کیاہو گا کہ دن پر رات کیوں غالب آ جاتی ہے اور دن اپنا سورج رات کی تاریک گود میں کیوں ڈال دیتا ہے؟یہ ہر روز ہوتا ہے۔اس کا وقت مقررہے۔رات سورج کی چمک دمک کو کھا نہیں جاتی۔بڑ ے پیار سے اسے جگا کر دوسرے افق پر رکھ دیتی ہے۔‘‘’’ہاں مسیلمہ! ‘‘سجاع نے کہا۔’’میرا جی چاہتا ہے کہ میں مان لوں کہ تم سچے نبی ہو۔اتنا بد صورت آدمی اتنی خوبصورت باتیں نہیں کر سکتا۔کوئی غیبی طاقت ہے جو تم سے اتنی اچھی باتیں کرا رہی ہے۔‘‘وہ چونک پڑی اور بولی۔’’سورج غروب ہو گیا ہے ،اگر میں نے قلعے کی دیوار پر کھڑے ہو کر اپنے محافظوں کو یہ نہ بتایا کہ میں زندہ ہوں تو تمہاری بستیوں کی گلیوں میں خون بہنے لگے گا۔‘‘مسیلمہ نے اسے اپنے دو محافظوں کے ساتھ قلعے کی دیوار پر بھیج دیا اور خیمے میں رکھا ہوا آتش دان جلانے کا حکم دیا۔فانوس بھی روشن ہو گئے۔مسیلمہ نے آتش دان میں چھوٹی سی کوئی چیز رکھ دی۔کمرے میں خوشبو پھیلنے لگی۔
سجاع واپس خیمہ میں آئی تو اس پر خمار سا طاری ہونے کیا۔وہ عام سی عورتوں کی طرح رومان انگیز باتیں کرنے لگی۔’’کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ہم میاں بیوی بن جائیں؟‘‘مسیلمہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔’’اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی۔‘‘سجاع نے مخمور سی آواز میں جواب دیا۔صبح طلوع ہوئی تو سجاع اس انداز سے باہر نکلی جیسے دلہن اپنی پسند کے دولہا کے ساتھ ازدواجی زندگی کی پہلی رات گزار کر نکلی ہو۔قلعے میں شادیانے بجنے لگے۔سجاع کے لشکر تک یہ خبر پہنچی کہ سجاع نے مسیلمہ کے ساتھ شادی کرلی ہے۔یہ شادی اسلام کیلئے بہت بڑا خطرہ بن گئی۔ارتداد کے دو لشکر متحد ہو گئے لیکن یہ اتحاد جلدی بکھر گیا کیونکہ مسیلمہ نے سجاع کو دھوکا دیا اور وہ دل برداشتہ ہو کر عراق اپنے قبیلے چلی گئی۔مسیلمہ نے اپنے لیے ایک بہت بڑے خطرے کو ختم کر دیا تھا ۔سجاع کو اتنا صدمہ ہوا کہ وہ نبوت کے دعویٰ سے دستبردار ہو گئی۔بعد میں وہ مسلمان ہو گئی اور کوفہ چلی گئی تھی۔اس نے بڑی لمبی عمر پائی اور متقی اور پارسا مسلمان کی حیثیت سے مشہور رہی۔
رسولِ کریمﷺ کے وصال کے ساتھ ہی ہر طرف بغاوت اور عہد شکنی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ایک طوفان صحابہ ؓکے اپنے ہاں اٹھا۔یہ خلیفۂ اول کے انتخاب کا مسئلہ تھا۔انصا او ر مہاجرین کے درمیان کھچاؤ سا بھی پیدا ہو گیا۔ابو بکرؓ نے آخر یہ فیصلہ عمرؓ اور ابو عبیدہؓ پر چھوڑا اور کہا کہ یہ دونوں جسے پسند کریں اسے سب خلیفہ مان لیں۔’’آپ مہاجرین میں سب سے افضل ہیں۔‘‘عمرؓ نے فیصلہ ابو بکرؓ کے حق میں دیا اور ان سے کہا۔’’غار میں آپ رسول اﷲﷺکے رفیق اور نماز پڑھانے میں ان کے قائم مقام رہے ہیں۔دین کے احکام میں نماز سب سے افضل ہے۔ ہمیں ایسا کوئی شخص نظر نہیں آتاجو آپ سے برتر ہو ۔بلا شک آپ خلافت کے حقدار ہیں۔‘‘سب سے پہلے عمرؓ نے آگے بڑھ کر ابو بکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔اس کے بعد ابو عبیدہؓ اور بشیرؓ بن سعد نے بیعت کی۔جب اعلانِ عام ہوا کہ ابو بکرؓ خلیفہ رسولﷺ ہوں گے تو لوگ بیعت کیلئے دوڑے آئے۔مسجدِ نبویﷺ میں بیعت عام ہوئی۔ابو بکرؓ نے پہلا خطبۂ خلافت دیا:’’لوگو! خدا کی قسم‘میں نے خلافت کی خواہش کبھی نہیں کی تھی۔نہ کبھی دل میں نہ کبھی ظاہری طور پر اس کیلئے اﷲ سے دعا کی تھی۔لیکن اس ڈر سے یہ بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیا کہ اختلاف جھگڑے کی صورت اختیار نہ کر جائے۔ورنہ خلافت اور امارت میں مجھے کوئی راحت نظر نہیں آئی۔ایک بوجھ مجھ پر ڈال دیا گیا ہے جسے اٹھانے کی طاقت مجھ میں کم ہے ۔اﷲ کی مدد کے بغیر میں اس بوجھ کواٹھا نہیں سکوں گا۔مجھے تم نے اپنا امیر بنایا ہے ،میں تم سے بہتر اور برتر تو نہ تھا۔اگر میں کوئی اچھا کام کروں تو میری مدد کرو ۔کوئی غلطی کر گزروں تو مجھے روک دو۔تم میں سے جو کمزور ہے ،میں اسے طاقتور سمجھتا ہوں،میں اسے اس کا حق دلاؤں گا۔تم میں سے جو طاقتور ہے اسے میں کمزور سمجھوں گااور اسے اس حق سے محروم کردوں گا جس کا وہ حقدار نہیں ۔میں جب تک اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو۔اگرمیں انحراف کروں تو میری اطاعت چھوڑ دینا۔‘‘ خلیفۂ اول ابو بکر صدیقؓ نے سب سے پہلا حکم یہ دے کرکہ’’ اسامہؓکا لشکر رومیوں کے خلاف جائے گا‘‘،سب کو چونکا دیا۔یہ موقع کسی اور جنگی مہم کیلئے موزوں نہ تھا۔رومیوں پر حملہ بہت بڑی جنگ تھی جس میں مسلمانوں کی پوری جنگی طاقت کی ضرورت تھی لیکن دوسری طرف یہ صورت پیداہو گئی تھی کہ بیشتر قبیلوں نے نہ صرف بغاوت کر دی تھی بلکہ بعض نے مدینہ پر حملہ کیلئے متحد ہونا شروع کر دیا تھا۔یہودی اور نصرانی خاص طور پر مدینہ کے خلاف سرگرم ہو گئے۔اس کے علادہ جھوٹے پیغمبروں نے الگ محا ذ بنا لیے تھے۔طلیحہ اور خصوصاً مسیلمہ تو جنگی طاقت بن گئے تھے ۔اسلام بہت بڑے خطرے میں آگیا تھا۔ ابوبکرؓ کے حکم کا پسِ منظر یہ تھاکہ تبوک اور مُوتہ کے معرکوں کے بعد رسولِ اکرمﷺ نے یہ ضروری سمجھاتھاکہ رومیوں پر حملہ کرکے ان کا دم خم توڑا جائے۔تبوک اور موتہ کے معرکوں میں تو یہ کامیابی حاصل کی گئی تھی کہ ان قبیلوں کو مطیع کر لیا گیا تھا جن کا خطرہ تھا کہ وہ رومیوں کے ساتھ اتحاد کرلیں گے۔ان رومیوں کو ختم کرناضروری تھا۔یہ فیصلہ ملک گیری کی خاطر نہیں بلکہ نظریاتی دفاع کیلئے کیا گیا تھا۔یہودی اور نصرانی اسلام کے خلاف رومیوں کے کیمپ میں چلے گئے تھے۔رسول اﷲﷺ نے رومیوں پرحملہ کیلئے ایک لشکر تیار کیا تھا جس میں مہاجرین اور انصار کے سرکردہ افراد بھی شامل تھے۔اس لشکر کے سپہ سالار زیدؓ بن حارثہ کے بیٹے اسامہؓ تھے۔ان کی عمر بمشکل بیس سال تھی۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اسامہؓ کو رسول اﷲﷺ نے اس لئے سپہ سالار مقرر کیا تھا کہ نوجوانوں میں قیادت کا شوق پیدا ہو اور وہ اپنے آپ میں اسامہؓ جیسی صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اسامہؓ کو رسولِ کریمﷺ ویسے بھی بہت چاہتے تھے۔اسامہؓکے والد زیدؓ بن حارثہ جنگِ موتہ میں شہید ہو گئے تھے۔اسامہؓمیں لڑکپن میں ہی عسکری صلاحیتیں اور شجاعت پیدا ہو گئی تھی۔جنگِ احد کے وقت اسامہؓ بچے تھے اس لیے اس جنگ میں شریک نہ ہو سکے لیکن اسلامی لشکر مدینہ سے روانہ ہوا تو اسامہ ؓ رستے میں کہیں چھپ کر بیٹھ گئے۔جب لشکر ان کے قریب سے گزرا تو وہ لشکر میں شامل ہو گئے۔ان کی مراد پھر بھی پوری نہ ہوئی۔انہیں میدانِ جنگ میں دیکھ لیا گیا اور واپس بھیج دیا گیا ۔البتہ جنگِ حنین میں انہوں نے سب کو دکھا دیا کہ شجاعت کیا ہو تی ہے۔جب رسولِ مقبولﷺ نے اسامہؓ کو رومیوں پر حملہ کرنے والے لشکر کی سپہ سالاری سونپی تھی تو بعض لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ جس لشکر میں ابو بکرؓ اور عمرؓ جیسے اعلیٰ حیثیت اور تجربے کے بزرگ شامل ہیں ،اس لشکر کی سپہ سالاری کل کے بچے کو دینا مناسب نہیں۔یہ اعتراض رسول اﷲﷺ تک اس وقت پہنچا جب آپﷺ زندگی کے آخری بخار میں مبتلا تھے۔آپﷺ میں بولنے کی بھی سکت نہیں تھی۔آپﷺ نے بخار سے نجات پانے کیلئے اپنی ازواج سے کہا کہ آپﷺ کو غسل کرائیں۔آپﷺ پر پانی کے سات مشکیزے ڈالے گئے ۔اس سے بخار خاصا کم ہو گیا۔نقاہت زیادہ تھی۔پھر بھی آپﷺ مسجد میں چلے گئے جہاں بہت سے لوگ موجود تھے۔جن میں اعتراض کرنے والے سرکردہ افراد بھی تھے۔ ’’اے لوگو!‘‘رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔’’اسامہ کے لشکر کو کوچ کرنے دو۔تم نے اس کی سپہ سالاری پر اعتراض کیا ہے۔تم نے اس کے باپ کی سپہ سالاری پر بھی اعتراض کیا تھا۔میں اسامہ کو اس منصب کے قابل سمجھتا ہوں۔اس کے باپ کو بھی میں نے اس منصب کے قابل سمجھا تھااور تم نے دیکھا کہ میں نے سپہ سالاری اسے سونپ کر غلطی نہیں کی تھی۔‘‘اعتراض ختم ہو گیااور رومیوں کے خلاف لشکر کوچ کر گیا۔لیکن جرف کے مقام پر اطلاع ملی کہ رسولِ کریمﷺ کی بیماری تشویشناک صورت اختیار کر گئی ہے۔اسامہؓ میں نوجوانی میں ہی بزرگوں جیسی دوراندیشی پیدا ہو گئی تھی۔انہوں نے لشکر کو جرف کے مقام پر روک لیااور خود رسول اﷲﷺ کو دیکھنے مدینہ آئے۔ایک تحریر میں اسامہؓ کا بیان ان الفاظ میں ملتا ہے:’’اطلاع ملی کہ رسول اﷲﷺ کی حالت بگڑ گئی ہے تو میں اپنے چند ایک ساتھیوں کے ساتھ مدینہ آیا۔ہم سیدھے رسول اﷲﷺ کے حضور گئے۔آپﷺ پرنقاہت طاری تھی ،اتنی کہ بول بھی نہ سکتے تھے۔آپﷺ نے دو تین بارہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف کئے اور ہر بار ہاتھ میرے اوپر رکھ دیئے ،میں سمجھ گیا کہ حضورﷺ میرے لئے دعا کر رہے ہیں۔‘‘دوسرے روز اسامہؓ پھر آپﷺ کے حضور گئے اور کہا۔’’یا رسول اﷲﷺ!لشکر جرف میں میرا منتظر ہے۔اجازت فرمائیے۔‘‘رسول اﷲﷺ نے ہاتھ اوپر اٹھائے مگر ہاتھ زیادہ اوپر نہ اٹھ سکے۔ضعف بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔اسامہؓ دل پر غم کا بوجھ ،آنکھوں میں آنسو لے کرروانہ ہو گئے۔تھوڑی ہی دیر بعد رسول اﷲﷺ وصال فرماگئے۔قاصد اسامہؓ کے پیچھے دوڑا اور راستے میں جالیا۔اسامہؓ نے حضورﷺ کے وصال کی خبر سنی ۔گھوڑا سرپٹ دوڑایا اپنے لشکر تک پہنچے۔وصال کی خبر نے لشکر میں کہرام برپا کر دیا۔اسامہؓ لشکر کو مدینہ لے آئے۔خلیفۂ اول کی بیعت ہو چکی تھی۔انہوں نے اسامہؓ کو بلا کر پوچھا کہ رسول اﷲﷺ نے انہیں کیا حکم دیا تھا؟’’یہ حکم تو آپ کو بھی معلوم ہے۔‘‘اسامہؓ نے جواب دیا۔’’مجھ سے ہی سننا ہے تو سن لیں۔رسول اﷲﷺ نے حکم دیا تھا کہ میں فلسطین میں بلقاء اور دوام کی سرحد سے آگے جاکر رومیوں پر حملہ کروں لیکن وہاں تک لشکر اس طرح پہنچے کہ دشمن کو حملے تک لشکر کی آمد کی خبر تک نہ ہو سکے۔‘‘’’جاؤ اسامہ!‘‘ ابو بکرؓ نے کہا۔’’اپنالشکر لے جاؤ اور رسول اﷲﷺ کے حکم کی تعمیل کرو۔‘‘لشکر کو جب یہ حکم ملا تو ابو بکر ؓ پر اعتراض ہونے لگے۔سب کہتے تھے کہ جب ہر طرف سے خطروں کے طوفان نے گھیر لیا ہے ،اتنی بڑی جنگ اور وہ بھی اتنی دور ،شروع نہیں کرنی چاہیے۔اس لشکر کی ان فتنوں کی سرکوبی کیلئے ضرورت ہے جو بڑی تیزی سے اٹھ رہے ہیں۔’’قسم ہے اس اﷲ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’اگر مجھے جنگل کے درندے چیرنے پھاڑنے کیلئے آ جائیں تو بھی میں اسامہ کے لشکر کو نہیں روکوں گا۔میں اس حکم کی خلاف ورزی کس طرح کر سکتا ہوں جو رسول اﷲﷺ نے اپنی زندگی میں دیا تھا؟میں اگر مدینہ میں اکیلا رہ گیا تو بھی اس لشکر کو نہیں روکوں گا۔‘‘ ’’تم پر سلامتی ہوابو بکر!‘‘عمرؓ نے کہا۔’’اعتراض کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگرلشکر کو بھیجنا ہی ہے توسپہ سالاری اسامہ کے بجائے کسی تجربے کار آدمی کو دیں۔‘‘’’اے ابنِ خطاب!‘‘ابو بکرؓ نے جواب دیا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ اسامہ کو رسول اﷲﷺ نے سپہ سالار مقرر کیا تھا ؟کیا تم جرات کرو گے کہ رسول اﷲﷺ کے حکم کو منسوخ کردو؟‘‘’’میں ایسی جرات نہیں کروں گا۔‘‘عمرؓ نے کہا۔’’مجھ میں اتنی جرات نہیں۔‘‘’’میری سن ابنِ خطاب!‘‘ابو بکر ؓ نے کہا۔’’اپنی قوم کو دیکھ۔پوری قوم غم سے نڈھال ہے۔غم کے ساتھ ساتھ ایک خوف ہے جو ہر کسی کے دل میں اترتا جا رہا ہے۔یہ خوف ان بغاوتوں کا ہے جو ہمارے اردگرد اٹھ رہی ہیں،ہر روز ایک خبر آتی ہے کہ آج فلاں قبیلہ باغی ہو گیا ہے ۔بعض قبیلے اسلام سے منحرف ہو گئے ہیں ۔اسلام بھی خطرے میں آگیاہے اور مدینہ بھی۔یہودیوں اور نصرانیوں نے بڑی خوفناک افواہیں پھیلانی شروع کر دی ہیں ۔ان سے اور زیادہ خوف پھیل رہا ہے۔اگر ہم نے رومیوں پر حملہ روک لیا تو دو نقصان ہوں گے۔ایک یہ کہ قوم سمجھے گی کہ ہم کمزور ہو گئے ہیں۔دوسری یہ کہ رومی اور مجوسی ہم کو کمزور سمجھ کر ہم پر چڑھ دوڑیں گے۔میں قوم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم کمزور نہیں ہو گئے۔ہمارااﷲ ہمارے ساتھ ہے۔میں قوم کے حوصلے اور جذبے پہلے کی طرح مضبوط رکھنا چاہتا ہوں۔رسول اﷲﷺ کے نقشِ قدم پر چلنا میرا فرض ہے۔‘‘عمرؓ کو اس استدلا ل نے مطمئن کر دیا ۔ابو بکرؓ نے کوچ کاحکم دے دیا۔اسامہؓ کا لشکر روانہ ہوا تو ابوبکرؓ کچھ دور تک پیدل ہی ساتھ چل پڑے۔اسامہؓ گھوڑے پر سوار تھے۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک سپہ سالار اور وہ بھی نوجوان ،گھوڑے پر سوارتھااور خلیفہ اس کے ساتھ ساتھ پیدل جا رہے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ ؓہر کسی کو دِکھانا چاہتے تھے کہ سپہ سالار اسامہؓ تعظیم و تکریم کے قابل ہے۔’’اے خلیفۂ رسولﷺ !‘‘اسامہؓ نے کہا۔’’آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیں یا میں آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا۔‘‘’’نہ میں سوار ہوں گا اور نہ تم پیدل چلو گے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں روحانی تسکین محسوس کر رہا ہوں کہ اﷲ کی راہ کی گَرد میرے پاؤں پر بھی پڑ رہی ہے۔‘‘؁عمرؓ بھی اس لشکر میں شامل تھے۔ابو بکرؓ کو محسوس ہوا کہ مدینہ میں انہیں عمرؓ کی ضرورت ہو گی۔ ’’اسامہ!‘‘خلیفہنے سپہ سالار سے کہا۔’’اگر تم اجازت دو تو میں عمر ؓکو مدینہ میں رکھ لوں۔مجھے اس کی مددکی ضرورت ہو گی۔‘‘ اسامہؓ نے عمرؓ کو لشکر میں سے نکل کر واپس جانے کی اجازت دے دی۔ابو بکرؓ بہت بوڑھے تھے۔ایک جگہ رک گئے۔اسامہؓ نے لشکر کو روک لیا۔ابو بکرؓ نے ذرا بلند جگہ پر کھڑے ہو کر لشکر سے خطاب کیا۔’’اسلام کے مجاہدو!میں تمہیں دس نصیحتیں کرتا ہوں۔انہیں یاد رکھنا۔خیانت نہ کرنا،چوری نہ کرنا،دشمن کے لاشوں کے اعضاء نہ کاٹنا،بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا،کھجوروں اور پھلوں کے درخت نہ کاٹنا،کھانے کی غرض کے سوا کسی جانور کو ذبح نہ کرنا،تمہیں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں نظر آئیں گی جن مین تارک الدنیا لوگ بیٹھے ہوں گے انہیں پریشان نہ کرنا،کسی بستی کے لوگ برتنوں میں تمہارے لیے کھانا لائیں گے یہ کھانا اﷲ کا نام لے کر کھانا،تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہوں نے اپنے سروں میں شیطان کے گھونسلے بنا رکھے ہیں ۔ان کے سروں کے درمیان کا حصہ منڈھا ہوا ہو گااور باقی بال بہت لمبے لمبے ہوں گے،انہیں قتل کر دینا۔اپنی حفاظت اﷲکے نام سے کرنا،خدا حافظ مجاہدو!اﷲتمہیں شکست اور وبا سے دور رکھے۔‘‘لشکر کی مدینہ سے روانگی کی تاریخ ۲۴ جون ۶۳۲ء )یکم ربیع الثانی ۱۱ہجری(تھی۔یہ کہانی چونکہ شمشیرِ بے نیام کی ہے اس لئے ہم وہ واقعات بیان کریں گے جن کا تعلق خالدؓ بن ولید سے ہے۔رسول اﷲﷺ نے خالدؓ کو اﷲ کی تلوار کہاتھا۔اسامہؓکےلشکر کے متعلق اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ انہوں نے صرف چالیس دنوں میں ہی رومیوں کے خلاف وہ کامیابی حاصل کرلی جورسول ِکریمﷺ حاصل کرنا چاہتے تھے۔اسامہؓ سالاری کے ہر پہلو پر پورے اترے اور جب وہ فتح یاب ہو کر مدینہ میں آئے تو ان سب نے انہیں گلے لگایا جنہوں نے ان کی سپہ سالاری پر اعتراض کیے تھے۔دوسری بڑی جنگ مرتدین کے خلاف تھی۔ ابو بکرؓنے اپنی فوج کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصے کے سالار مقرر کیے اور ان کیلئے محاذ مقرر کر دیئے۔یعنی ہر سالار کو ایک ایک علاقہ بتا دیا گیا جہاں انہیں حملہ کرنا تھا۔اس تقسیم میں ابو بکرؓ نے خاص طور پر یہ خیال رکھا تھاکہ ہر دشمن کی طاقت اور لڑنے والی نفری دیکھ کر اس کے مطابق سالار مقرر کیے جائیں۔سب سے زیادہ طاقتور اور مکار دو مُرتد تھے۔ایک طلیحہ اور دوسرا مسیلمہ،ان دونوں نے نبوت کا دعویٰ کرکے ہزار ہا پیروکار پیدا کر لیے تھے۔خالدؓ بن ولید کو ابو بکرؓ نے حکم دیا کہ وہ طلیحہ کی بستیوں پر حملہ کریں اوراس سے فارغ ہوکر بطا ح کا رخ کریں۔جہاں بنی تمیم کے سردار مالک بن نویرہ نے بغاوت کر دی تھی۔
تمام سالار اپنے اپنے محاذوں اور مہموں کو روانہ ہو گئے۔خالدؓ اپنی مہم کے علاقے میں حسبِ عادت اتنی تیزی سے پہنچے کہ دشمن کو خبر تک نہ ہوئی۔انہوں نے کچھ بستیوں کو گھیرے میں لے لیا تو خالد ؓکے پاس کچھ آدمی آئے اور انہیں بتایا کہ بعض قبیلے طلیحہ کے فریب کا شکار ہیں۔ان کی خونریزی مناسب نہیں ہو گی۔اگر خالد ؓذرا انتظار کریں تو قبیلہ طئی کے کم و بیش پانچ سو آدمی خالد ؓکے دستے میں شامل ہو جائیں گے۔خالدؓ نے انتظار کیا اور یہ آدمی قبیلہ طئی کے پانچ سو آدمی لے آئے جو طلیحہ کے قبیلے اور اس کے زیرِ اثر قبیلوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ تھے۔وہ مسلح ہو کر آئے تھے۔اسی طرح قبیلہ جدیلہ بھی خالدؓ کے ساتھ مل گیا۔طلیحہ کو پتا چلا تو وہ بہت گھبرایا لیکن ایک شخص عُےَنیہ اس کے ساتھ تھا۔وہ بنی فرازہ کا سردار تھا۔اس کے دل میں مدینہ والوں کے خلاف اتنا عناد بھرا ہوا تھا کہ اس نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ مدینہ والوں کی حکومت کو کسی قیمت پر تسلیم نہیں کر سکتا۔غزوۂ احزاب میں جن تین لشکروں نے مدینہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ،ان میں سے ایک لشکر کا سالار یہی شخص عینیہ بن حصن تھا۔رسولِ کریمﷺ نے اپنے اس اصول کے مطابق کہ دشمن کو تیاری کی حالت میں پکڑو ،مدینہ سے نکل کر ان تینوں لشکروں پر حملہ کر دیا تھا ۔سب سے زیادہ نقصان عینیہ کے لشکر کو اٹھانا پڑا۔اس نے مجبور ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا لیکن اسلام کے خلاف سر گرم رہا۔خالدؓ کو پتا چلا کہ طلیحہ کے ساتھ عینیہ ہے تو انہوں نے عہد کیا کہ ان دونوں کو نہیں بخشیں گے۔خالدؓ نے پیش قدمی سے پہلے اپنے دو آدمیوں عکاشہ بن محصن اور ثابت بن اقرم انصاری کو لشکر سے آگے بھیج دیا کہ وہ دشمن کی نقل و حرکت یا کوئی اور بات دیکھیں جو لشکر کی پیش قدمی کے کام آ سکے تو پیچھے اطلاع دیں۔دونوں چلے گئے اور خالد ؓاپنے دستوں کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔بہت دور جا کر ان دونوں میں سے کوئی بھی واپس آ تا دکھائی نہ دیا۔کچھ دور گئے تو تین لاشیں پڑیں ملیں جو خون میں نہائی ہوئی تھیں۔ دو لاشیں انہی دو آدمیوں عکاشہ اور ثابت کی تھیں جنہیں خالد ؓنے آگے بھیجا تھا۔تیسری لاش کسی اجنبی کی تھی ۔بعد میں جو انکشاف ہوا )طبری اور قاموس کے مطابق(کہ یہ دونوں آگے جا رہے تھے ۔راستے میں انہیں ایک شخص حبال مل گیا۔ایک مؤرخ کامل ابنِ اثیر لکھتا ہے کہ حبال طلیحہ کا بھائی تھا لیکن طبری اور قاموس اسے طلیحہ کا بھتیجا لکھتے ہیں،عکاشہ اور ثابت نے اسے للکار کر قتل کر دیا۔ اس کی اطلاع طلیحہ کو مل گئی۔وہ اپنے بھائی سلمہ کو اپنے ساتھ لے کر آ گیا۔عکاشہ اور ثابت ابھی اور آگے جا رہے تھے ۔طلیحہ اور سلمہ نے گھات لگائی اور دونوں کو مقابلے کی مہلت دیئے بغیر ہی قتل کر دیا۔خالدؓ آگ بگولہ ہو گئے اور طلیحہ کی بستی پر جا دھمکے ۔عینیہ ،طلیحہ کی فوج کی کمان کر رہا تھا اور طلیحہ ایک خیمہ میں نبی بنا بیٹھا تھا۔عینیہ نے مسلمانوں کا قہر اور غضب دیکھا تو وہ اپنے لشکر کو لڑتا چھوڑ کر عینیہ کے پاس گیا ،وہ طلیحہ کو سچا نبی مانتا تھا۔’’یا نبی! ‘‘عینیہ نے طلیحہ سے پوچھا۔’’مشکل کا وقت آن پڑا ہے ،جبرئیل کوئی وحی لائے ہیں ؟‘‘’’ابھی نہیں۔‘‘طلیحہ نے کہا۔’’تم لڑائی جاری رکھو۔‘‘عینیہ دوڑتا گیا اور لڑائی میں شامل ہو گیا ۔مسلمانوں کا قہر اور بڑھ گیا تھا ۔خالدؓ کی چالیں جھوٹے نبی کے لشکر کے پاؤں اکھاڑ رہی تھیں۔عینیہ ایک بار پھر طلیحہ کے پاس گیا۔’’یا نبی!‘‘اس نے طلیحہ سے پوچھا۔’’کوئی وحی نازل ہوئی؟‘‘’’ابھی نہیں۔‘‘طلیحہ نے کہا۔’’تم لڑائی جاری رکھو۔‘‘’’وحی کب نازل ہو گی؟‘‘عینیہ نے جھنجھلا کر پوچھا۔’’تم کہا کرتے ہو کہ مشکل کے وقت وحی نازل ہوتی ہے۔‘‘’’خدا تک میری دعا پہنچ گئی ہے۔‘‘طلیحہ نے کہا۔’’وحی کا انتظا رہے۔‘‘عینیہ اپنے لشکر میں چلا گیا مگر اب اس کا لشکر خالد ؓکے گھیرے میں آ گیا تھا۔عینیہ گھبراہٹ کے عالم میں ایک بار پھر طلیحہ کے پاس گیا اور اسے اپنے لشکر کی کیفیت بتا کر پوچھا کہ وحی نازل ہوئی ہے یا نہیں۔’’ہاں!‘‘طلیحہ نے جواب دیا۔’’وحی نازل ہو چکی ہے۔‘‘’’کیا؟‘‘’’یہ کہ……‘‘طلیحہ نے جواب دیا۔’’مسلمان بھی جنگ لڑ رہے ہیں تم بھی جنگ لڑ رہے ہو ۔تم اس وقت کو کبھی نہ بھول سکو گے۔‘‘عینیہ کوکچھ اور توقع تھی ۔لیکن طلیحہ نے اسے مایو س کر دیا ۔اسے یہ بھی پتا چل گیا کہ طلیحہ جھوٹ بول رہا ہے ۔’’لا ریب ایسا ہی ہو گا۔‘‘عینیہ نے غصے سے کہا۔’’وہ وقت جلد ہی آ رہا ہے جسے تم ساری عمر نہیں بھول سکو گے۔‘‘عینیہ دوڑتا باہر گیا اور چلا چلا کر اپنے قبیلے سے کہنے لگا ۔’’اے بنو فرازہ! طلیحہ کذاب ہے ۔جھوٹے نبی کے پیچھے جانیں مت گنواؤ ۔بھاگو، اپنی جانیں بچاؤ۔‘‘بنو فرازہ تو بھاگ اٹھے ۔طلیحہ کے اپنے قبیلے کے لڑنے والے لوگ طلیحہ کے خیمہ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ خالدؓ تماشہ دیکھنے لگے۔طلیحہ کے خیمے کے ساتھ ایک گھوڑا اور ایک اونٹ تیار کھڑے تھے۔قبیلہ طلیحہ سے پوچھ رہا تھا کہ پھر اب کیا حکم ہے؟طلیحہ کی بیوی جس کا نام نوار تھا، اس کے ساتھ تھی۔طلیحہ گھوڑے پر سوار ہو گیا اور اس کی بیوی اونٹ پر چڑھ بیٹھی۔’’لوگو! ‘‘طلیحہ نے اپنے قبیلے سے کہا۔’’میری طرح جس کے پاس بھاگنے کا انتظام ہے۔وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر بھاگ جائے۔‘‘ اس طرح اس کذاب کا فتنہ ختم ہو گیا ۔عمرؓ کے دورِ خلافت میں طلیحہ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور مسلمان ہو گیاتھا۔خالدؓ نے اور کئی قبیلوں کو مطیع کیا اور انہیں ارتداد کی کڑی سزا دی۔ان پر اپنی شرائط عائد کیں،اسلام سے جو منحرف ہو گئے تھے انہیں دوبارہ حلقہ بگوش اسلام کیا۔طلیحہ کی نبوت کو بھی خالدؓ نے ختم کر دیا اور عینیہ جو یہودیوں سے بڑھ کر مسلمانوں کا دشمن تھا،ایسا بھاگا کہ اس نے عراق جا دم لیا،مگر اس کا زہر ابھی پیچھے رہ گیا تھا۔ یہ زہر ایک عورت کی شکل میں تھا جو سلمیٰ کہلاتی تھی۔اس کا پورا نام امِ زمل سلمیٰ بنت مالک تھا۔سلمیٰ بنو فرازہ کے سرداروں کے خاندان کی ایک مشہور عورت ام قرفہ کی بیٹی تھی۔رسولِ کریمﷺ کی زندگی کا واقعہ ہے کہ زید بن حارثہؓ)اسامہؓ کے والد(بنی فرازہ کے علاقے میں جا نکلے ۔یہ قبیلہ مسلمانوں کا جانی دشمن تھا۔وادی القراء میں زید ؓکا سامنا بنی فرازہ کے چند آدمیوں سے ہو گیا۔زیدؓ کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے۔بنی فرازہ کے ان آدمیوں نے ان سب کو قتل کر دیا اور زیدؓ کو گہرے زخم آئے۔وہ گرتے پڑتے مدینہ پہنچ گئے ۔جب ان کے زخم ٹھیک ہو گئے تو رسولِ اکرمﷺ نے انہیں باقاعدہ فوجی دستے دے کر بنو فرازہ پر حملہ کیلئے بھیجا تھا۔مسلمانوں نے بنی فرازہ کے بہت سے آدمیوں کو ہلاک اور کچھ کو قید کر لیا۔جھڑپ بڑی خونریز تھی ۔ان قیدیوں میں ام قرفہ فاطمہ بنت بدر بھی تھی۔اس عورت کی شہرت یہ تھی کہ اپنے قبیلے کے علاوہ دوسرے قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتی رہتی تھی۔اسے مدینہ لا کر سزائے موت دے دی گئے۔اس کے ساتھ اس کی کم سن بیٹی ام زمل سلمیٰ بھی تھی۔رسولِ کریمﷺ نے یہ لڑکی ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کے حوالے کر دی۔اسے پیار سے رکھا گیا مگر وہ ہر وقت اداس رہتی تھی۔عائشہ صدیقہؓ نے اس پر رحم کرتے ہوئے اس کو آزاد کر دیا۔بجائے اس کے کہ سلمیٰ مسلمانوں کی شکر گزار ہوتی کہ اسے لونڈی نہ رہنے دیا گیا اور اسے آزاد کر کے اونچی حیثیت میں واپس بھیج دیا گیا اس نے اپنے دل میں اپنی ماں کے قتل کا انتقام رکھ لیا اور جنگی تربیت حاصل کرنے لگی۔وہ سرداروں کے خاندان کی لڑکی تھی ۔اس میں قیادت کے جوہر بھی پیدا ہو گئے۔اس نے مسلمانوں کے خلاف ایک لشکر تیارکر لیا اور مدینہ پر حملے کیلئے پر تولنے لگی۔مگر مسلمان ایک جنگی قوت بن چکے تھے اس لیے سلمیٰ مدینہ کے قریب آنے کی جرات نہ کر سکی۔اب طلیحہ اور عینیہ کو شکست ہوئی تو سلمیٰ میدان میں آ گئی۔ اس کی ماں عینیہ کی چچازاد بہن تھی ،جن قبیلوں نے خالدؓ سے ٹکر لی تھی انہیں یہ لڑائی بڑی مہنگی پڑی تھی۔جو بچ گئے تھے وہ اِدھر اُدھر بھاگ گئے تھے۔ ان میں غطفان ،طئی ،بنو سلیم اور ہوازن کے بعض سرکردہ لوگ سلمیٰ کے ہاں جا پہنچے اور عہد کیا کہ سلمیٰ اگر ان کا ساتھ دے تو وہ مسلمانوں سے انتقام لینے کیلئے جانیں قربان کر دیں گے۔سلمیٰ تو موقع کی تلاش میں تھی وہ تیار ہو گئی اور چند دنوں میں اپنا لشکر تیار کرکے روانہ ہو گئی۔ اس وقت خالدؓ بزاخہ میں تھے جہاں انہوں نے طلیحہ کو شکست دی تھی۔ اُنہیں اطلاع ملی کہ بنو فرازہ کا لشکر آ رہا ہے ۔خالدؓ نے اپنے دستوں کو تیار کر لیا۔جس طرح سلمیٰ کی ماں اپنے جنگی اونٹ پر سوار ہو کر لشکر کے آگے آگے چلا کرتی تھی ،اسی طرح سلمیٰ بھی اپنے لشکر کے آگے آگے تھی۔اس کے ارد گرد ایک سو شتر سواروں کا گھیرا تھا جو تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے۔یہ لشکر جوش و خروش بلکہ قہر اور غضب  کے نعرے لگاتا آ رہا تھا ۔خالدؓ نے انتظار نہ کیاکہ دشمن اور قریب آئے۔ان کے ساتھ نفری تھوڑی تھی ،وہ دشمن کواتنی مہلت نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ حملہ کی ترتیب یا قلیل تعداد مسلمانوں کو نفری کی افراط کے بل بوتے پرگھیرے میں لینے کی پوزیشن میں آئے۔خالدؓنے ہلہ بولنے کے انداز سے حملہ کر دیا، انہیں معلوم تھا کہ دشمن کا لشکر سفر کا تھکا ہوا ہے۔ خالدؓ نے دشمن کی اس جسمانی کیفیت سے بھی فائدہ اٹھایا ۔سلمیٰ جو ایک سو جانباز شتر سواروں کے حفاظتی نرغے میں تھی ۔اشتعال انگیز الفاظ سے اپنے لشکر کے جوش و خروش میں جان ڈال رہی تھی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ بنو فرازہ نے خالدؓ کو بڑا ہی سخت مقابلہ دیا۔نفری تھوڑی ہونے کی وجہ سے خالدؓ مجبور ہوتے جا رہے تھے اور دشمن کے حوصلے بڑھتے جا رہے تھے۔سلمیٰ کی للکار اور الفاظ جلتی پر تیل کا کام کر رہے تھے ۔خالدؓ نے سوچا کہ صرف یہ عورت ماری جائے تو بنو فرازہ کے قدم اُکھڑ جائیں گے۔ انہوں نے اپنے چند ایک منتخب جانبازوں سے کہا کہ وہ سلمیٰ کا حفاظتی حصار توڑ کر اسے اونٹ سے گرا دیں ۔سلمیٰ کے محافظ بھی جانباز ہی تھے، وہ خالدؓ کے جانبازوں کو قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ ان جانبازوں نے یہ طریقہ اختیار کیاکہ ایک ایک محافظ شتر سواروں کو دوسروں سے الگ کر کے مارنا شروع کر دیا۔اس طرح جانبازوں نے گھیرا توڑ دیا لیکن کوئی جانباز سلمیٰ تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔زخمی ہو کر پیچھے آ جاتا تھا۔ آخر پورے ایک سو محافظ مارے گئے ۔خالدؓ کو اس کی بہت قیمت دینی پڑی ۔جانبازوں نے تلواروں سے سلمیٰ کے کچاوے کی رسیاں کاٹ دیں ۔کچاوہ سلمیٰ سمیت نیچے آ پڑا ۔جانبازوں نے خالدؓ کی طرف دیکھا کہ کیا حکم ہے، قیدی بنانا ہے یا قتل کرنا ہے؟خالدؓ نے ہاتھ سے اشارہ کیا ۔ایک جانباز نے تلوار کے ایک ہی وار سے سلمیٰ کا سر تن سے جدا کر دیا۔بنو فرازہ نے یہ منظر دیکھا تو ان میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ اپنی لاشوں اور زخمیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔مدینہ سے تقریباً دو سو پچھتر میل شمال مشرق میں بطاح نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں بدؤوں کے چند ایک کنبے آباد ہیں ۔اس گاؤں کو کوئی اہمیت کوئی حیثیت حاصل نہیں۔اگر وہاں اِدھر اُدھر غور سے دیکھیں تو ایسے آثار ملتے ہیں جیسے یہاں کبھی شہر آباد رہا ہو۔ چودہ صدیاں گزریں،یہاں ایک شہر آباد تھا ،اس کا نام بطاح تھا۔جو آج تک زندہ ہے مگر شہر سکڑ سمٹ کر چھوٹا سا گاؤں رہ گیا ہے۔ اس شہر میں خوبصورت لوگ آباد تھے ،وہ بہادر تھے نڈر تھے اور باتیں ایسے انداز سے کرتے تھے جیسے کوئی نظم سنا رہے ہوں۔ عورتیں حسین تھیں اور مرد وجیہہ تھے۔یہ ایک طاقت ور قبیلہ تھا جسے ’’بنی تمیم ‘‘کہتے تھے۔بنو یربوع بھی ایک قبیلہ تھا لیکن الگ تھلگ نہیں بلکہ بنی تمیم کا سب سے بڑا حصہ تھا۔اس کا سردار ’’مالک بن نویرہ‘‘ تھا۔بنی تمیم کا مذہب مشترک نہیں تھا ۔ان میں آتش پرست بھی تھے، قبر پرست بھی لیکن اکثریت بت پرست تھی۔بعض عیسائی ہو گئے تھے ،یہ لوگ سخاوت، مہمان نوازی اور شجاعت میں مشہور تھے ۔رسولِ اکرمﷺ نے ہر طرف قبولِ اسلام کے پیغام جن قبیلوں کو بھیجے تھے ان میں بنو تمیم خاص طور پر شامل تھے۔ اسلام کے فروغ اور استحکام کیلئے بنو تمیم جیسے طاقتور اور با اثر قبیلے کو ساتھ ملانا ضروری تھا۔یہ ایک الگ کہانی ہے کہ اس قبیلے نے اسلام کس طرح قبول کیا تھا، مختصر یہ کہ بنی تمیم کی غالب اکثریت نے اسلام قبول کرلیا ۔مالک بن نویرہ منفرد شخصیت اور حیثیت کا حامل تھا۔ وہ آسانی سے اپنے عقیدے بدلنے والا آدمی نہیں تھا۔لیکن اس نے دیکھا کہ بنو تمیم کے بیشتر قبائل مسلمان ہو گئے ہیں تو اس نے اپنی مقبولیت اور اپنی سرداری کو قائم رکھنے کیلئے اسلام قبول کرلیا ۔چونکہ یہی شخص زیادہ با رعب اور اثر و رسوخ والا تھا اس لئے رسولِ کریمﷺ نے اسے بطاح کا امیر مقرر کر دیا تھا۔زکوٰۃ ،عشر دیگر محصول اور واجبات وصول کرکے مدینہ بھجوانا اس کی ذمہ داری تھی ۔مشہور مؤرخ بلاذری اور محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں کہ مالک بن نویرہ بڑا وجیہہ اور خوبصورت آدمی تھا ۔اس کے قد کاٹھ میں عجیب سی کشش تھی ۔اسکے سر کے بال لمبے اور خوبصورت تھے ۔شہسوار ایسا کہ کوئی اس کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا تھا ۔اچھا خاصا شاعر تھا ۔آواز میں مٹھاس اور ترنم تھا اور اس میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہنس مکھ تھا۔ غم کے مارے ہوؤں کو ہنسا دیتا تھا۔ اس میں خرابی یہ تھی کہ اس میں غرور اور تکبر بہت تھا ۔اس کی ایک وجہ تو اس کی وہ حیثیت تھی جو اسے بنو تمیم میں اور خصوصاً اپنے قبیلے میں حاصل تھی دوسری وجہ اس کا مردانہ حسن اور دیگر مردانہ اوصاف تھے۔جو ایک طلسم کی طرح دوسروں پر حاوی ہو جاتے تھے ۔اس کا تعلق متعدد عورتوں کے ساتھ تھا۔ قبیلے کی جوان لڑکیاں اس کا قرب حاصل کرنے کی خواہاں اور کوشاں رہتی تھیں ۔لیکن وہ وقتی تعلق رکھتا اور کسی کو بیوی نہیں بناتا تھا۔کہتا تھا کہ اس طرح ایک عورت اس کے ہم پلہ ہو جائے گی حالانکہ اس وقت بیویوں کو یہ مقام حاصل نہیں تھا۔وہ قبیلے کی عورتوں کے دلوں میں بستا تھا۔اُس کے دِل کو مسخر کرنے والی عورت کا نام لیلیٰ تھا۔مالک بن نویرہ نے لیلیٰ سے شادی کر لی لیلیٰ کو قبیلے نے اُمّ تمیم کا نام دیا تھا۔ رسولِ کریمﷺ کے وصال کی خبر ملتے ہی مالک بن نویرہ نے مدینہ والوں سے نظریں پھیر لیں اور ظاہر کر دیا کہ اس نے اسلام قبول کیا تھا ایمان نہیں۔اس نے زکوٰ ۃ اور محصولات وصول کرکے اپنے گھر میں رکھے ہوئے تھے ۔چند دنوں تک اس نے یہ مال مدینہ کو بھیجنا تھا۔ اس نے قبیلے کے لوگوں کو اکھٹا کرکے انہیں زکوٰ ۃ اور محصولات واپس کردیئے۔’’اب تم آزاد ہو۔‘‘مالک نے کہا۔’’میں نے مدینہ کی زنجیر توڑ ڈالی ہے۔اب جو کچھ تم کماؤ گے وہ سب تمہارا ہو گا۔‘‘لوگو ں نے دادوتحسین کے نعرے بلندکیے ۔مالک بہت خوش تھا کہ مدینہ سے تعلق توڑ کر وہ اپنے قبیلے کا پھر خود مختار سردار بن گیا ہے مگر اس کی خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔دو تین قبیلوں کے سرکردہ آدمیوں نے مالک سے کہا کہ اس نے مدینہ سے تعلق توڑ کر اچھا نہیں کیا۔ مالک نے انہیں مدینہ کے خلاف کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اس کی زبان کا جادو نا چل سکا۔زکوٰۃ اور محصولات کی ادائیگی کے مسئلے پر بنو تمیم تین حصوں میں بٹ گئے۔ ایک وہ تھے جو زکوٰۃ وغیر ہ کی ادائیگی کرنا چاہتے تھے ۔دوسرے وہ جو مدینہ والوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے اور تیسرے وہ تھے جن کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ وہ کیا کریں۔ان سب کے اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ قبیلوں کی آپس میں خونریز لڑائیاں شروع ہو گئیں۔اتنے میں سجاع اپنا لشکر لے کر آ گئی ۔سجاع کا ذکر پہلے آ چکا ہے اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا ۔الحارث کی بیٹی سجاع اپنے لشکر کے ساتھ مالک بن نویرہ کے قبیلے بنو یربوع کے علاقے میں جا خیمہ زن ہوئی ۔اس نے مالک بن نویرہ کو بلاکر کہا کہ وہ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتی ہے۔’’اگر تم اپنے قبیلے کو میرے لشکر میں شامل کر دو توہم مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتے ہیں ۔‘‘سجاع نے کہا۔’’تمہیں معلوم ہو گا کہ میں بنو یربوع میں سے ہوں ۔‘‘’’خدا کی قسم!‘‘ مالک بن نویرہ نے کہا۔’’میں تمہارا دستِ راست بن جاؤں گا لیکن ایک شرط ہے جو دراصل ہماری ضرورت ہے۔ تم دیکھ رہی ہوکہ بنو تمیم کے قبیلوں میں دشمنی پیدا ہو چکی ہے۔ ان سب کو مصالحت کی دعوت دے کر انہیں مدینہ پر حملہ کیلئے تیار کریں گے ۔اگر یہ مصالحت پر آمادہ نہ ہوئے تو ہم انہیں تباہ و بربادکر دیں گے۔اگر تم نے انہیں ختم نہ کیا تو یہ سب مل کر تمہارے خلاف ہو جائیں گے۔ ان میں مدینہ کے وفادار بھی ہیں، انہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کرلیا ہے۔‘‘مالک بن نویرہ کی خواہش یہ تھی کہ سجاع کے لشکر کو ساتھ ملا کر بنی تمیم کے مسلمانوں کو اور اپنے دیگر مخالفین کو ختم کیاجائے ۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ سجاع ،مالک بن نویرہ کے مردانہ حسن و جلال سے متاثر ہو گئی تھی ۔اس نے مالک کی بات فوراً مان لی ۔دونوں نے تمام قبیلوں کے سرداروں کو مصالحت کے پیغامات بھیجے۔پیغام میں یہ بھی شامل تھا کہ مدینہ پر حملہ کیا جائے گا۔ صرف ایک قبیلے کا سردار’’ وکیع بن مالک‘‘ تھا جس نے ان سے مصالحت قبول کرلی۔باقی تمام قبیلوں نے انکار کر دیا۔اس کے نتیجے میں سجاع ،مالک اور وکیع کے متحدہ لشکر نے دوسرے قبیلوں پر حملہ کردیا۔بڑی خونریز لڑائیاں لڑی جانے لگیں۔بنو تمیم جو سخاوت، مہمان نوازی اور زبان کی چاشنی کیلئے مشہور تھے ۔ایک دوسرے کیلئے وحشی اور درندے بن گئے ۔بستیاں اجڑ گئیں ،خون بہہ گیا ،لاشیں بکھر گئیں ۔لیلیٰ کو اپنے دروازے پر عورتوں کی آہ و بکا سنائی دی۔کچھ عورتیں بَین کر رہی تھیں۔’’کیا میں بیوہ ہو گئی ہوں ؟‘‘لیلیٰ ننگے پاؤں باہر کو دوڑی ۔وہ کہہ رہی تھی۔’’ مالک بن نویرہ کی لاش لائے ہیں۔‘‘اس نے دروازہ کھولا تو باہر دس بارہ عورتیں کھڑی بَین کر رہی تھیں۔لیلیٰ کو دیکھ کر ان کی آہ و زاری اور زیادہ بلند ہو گئی ۔تین عورتوں نے اپنے بازوؤں پر ننھے ننھے بچوں کی لاشیں اٹھا رکھی تھیں ۔لاشوں پر جو کپڑے تھے وہ خون سے لال تھے۔’’لیلیٰ کیا تو عورت ہے؟‘‘ایک عورت اپنے بچے کی خون آلود لاش لیلیٰ کے آگے کرتے ہوئے چلائی ۔’’تو عورت ہوتی تو اپنے خاوند کا ہاتھ روکتی کہ بچوں کا خون نہ کر۔‘‘’’یہ دیکھ۔‘‘ایک اور عورت نے اپنے بچے کی لاش لیلیٰ کے آگے کرتے ہوئے کہا۔’’یہ بھی دیکھ۔‘‘ایک اور بچے کی لاش لیلیٰ کے آگے آگئی۔’’یہ دیکھ میرے بچے ۔‘‘ایک عورت نے اپنے دو بچے لیلیٰ کے سامنے کھڑے کرکے کہا۔’’یہ یتیم ہو گئے ہیں ۔‘‘لیلیٰ کو چکر آنے لگا۔عورتوں نے اسے گھیر لیا اور چیخنے چلانے لگیں۔’’تو ڈائن ہے۔‘‘’’تیرا خاوند جلاد ہے۔‘‘’’سجاع کو نبوت کس نے دی ہے؟‘‘’’سجاع تیرے خاوند کی داشتہ ہے۔‘‘’’سجاع تیری سوکن ہے۔‘‘’’تیرے گھر میں ہمارے گھروں کا لوٹا ہوا مال آ رہا ہے۔‘‘’’مالک بن نویرہ تجھے ہمارے بچوں کا خون پلا رہا ہے۔‘‘’’ہمارے تمام بچوں کو کاٹ کر پھینک دے ،ہم سجاع کی نبوت نہیں مانیں گی۔‘‘’’ہمارے نبی محمدﷺ ہیں ۔محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘بستی کے لوگ اکھٹے ہوگئے ۔ان میں عورتیں زیادہ تھیں۔ لیلیٰ نے اپنا حسین چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔اس کا جسم ڈولنے لگا۔دو عورتوں نے اسے تھام لیا۔اس نے اپنے سر کو زور زور سے جھٹکا اور وہ سنبھل گئی۔ اس نے عورتوں کی طرف دیکھا ۔’’میں تمہارے بچوں کے خون کی قیمت نہیں دے سکتی۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’میرا بچہ لے جاؤ اور اسے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔‘‘’’ہم چڑیلیں نہیں۔‘‘ایک شور اٹھا ۔’’ہم ڈائنیں نہیں۔لڑائی بند کراؤ۔لوٹ مار اور قتل و غارت بند کراؤ۔تمہارا خاوند وکیع بن مالک اور سجاع کے ساتھ مل کر لوٹ مار کر رہا ہے ۔‘‘’’لڑائی بند ہو جائے گی۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’بچوں کی لاشیں اندر لے آؤ۔‘‘مائیں اپنے بچوں کی لاشیں اندر لے گئیں۔ لیلیٰ نے تینوں لاشیں اس پلنگ پر رکھ دیں جس پر وہ اور مالک بن نویرہ سویا کرتے تھے۔
مالک بن نویرہ لیلیٰ کا پجاری تھا۔اس پر لیلیٰ کا حسن جادو کی طرح سوار تھا۔اس زمانے میں سردار اپنی بیویوں کو لڑائیوں میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔لیکن یہ لڑائی اس قسم کی تھی کہ مالک لیلیٰ کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا تھا۔لیلیٰ سے وہ زیادہ دیرتک دور بھی نہیں رہ سکتا تھا۔اگر کہیں قریب ہوتا تو رات کو لیلیٰ کے پاس آجایا کرتا تھا۔وہ اس رات آ گیا۔کیا اس پلنگ پر کوئی سویا ہوا ہے؟‘‘مالک بن نویرہ نے پوچھا۔’’نہیں۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’تمہارے لیے ایک تحفہ ڈھانپ کر رکھا ہوا ہے……تین پھول ہیں لیکن مرجھا گئے ہیں۔‘‘مالک نے لپک کر چادر ہٹائی اور یوں پیچھے ہٹ گیا جیسے پلنگ پہ سانپ کنڈلی مارے بیٹھاہو۔اس نے لیلیٰ کی طرف دیکھا۔’’خون پینے والے درندے کیلئے اس سے اچھا تحفہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘لیلیٰ نے کہا اور اسے سنایا کہ ان کی مائیں کس طرح آئی تھیں اور کیا کچھ کہہ گئی ہیں۔اس نے اپنا دودھ پیتا بچہ مالک کے آگے کر کے کہا۔’’جا!لے جا اسے اور اس کا بھی خون پی لے۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’کیا تو وہ مالک بن نویرہ ہے جسے لوگ ہنس مکھ کہتے ہیں؟کیایہ ہے تیری سخاوت اور شجاعت کہ تو ایک عورت کے جال میں آکر لوٹ مار کرتا پھر رہا ہے ؟اگر تو بہادر ہے تو مدینہ پر چڑھائی کر۔یہاں نہتے مسلمانوں کو قتل کرتا پھر رہا ہے۔‘‘مالک بن نویرہ معمولی آدمی نہیں تھا۔اس کی شخصیت میں انفرادیت تھی جودوسروں پر تاثر پیدا کرتی تھی۔اس نے طعنے کبھی نہیں سنے تھے۔اس کا سر کبھی جھکا نہیں تھا۔’’کیایہ ہے تیرا غرور؟‘‘لیلیٰ نے اسے خاموش کھڑا دیکھ کر کہا۔’’کیا تو ان معصوم بچوں کی لاشوں پر تکبر کرے گا؟……ایک عورت کی خاطر……ایک عورت نے تیرا غرور اور تکبر توڑ کر تجھے قاتل اور ڈاکو بنا دیا ہے۔میں اپنے بچے کو تیرے پاس چھوڑ کر جا رہی ہوں۔پیچھے سے ایک تیر میری پیٹھ میں اتار دینا۔‘‘ ’’لیلیٰ!‘‘مالک بن نویرہ گرج کربولا مگر بجھ کہ رہ گیااور مجرم سی آواز میں کہنے لگا۔’’میں کسی عورت کے جال میں نہیں آیا۔‘‘’’جھوٹ نہ بول مالک!‘‘ لیلیٰ نے کہا۔’’میں جا رہی ہوں۔سجاع کو لے آ یہاں ……یہ یاد رکھ لے۔تیری سرداری ،تیری خوبصورتی ،تیری شاعری اور تیری خونخواری تجھے ان مرے ہوئے بچوں کی ماؤں کی آہوں اور فریادوں سے بچا نہیں سکیں گی۔یہ تو صرف تین لاشیں ہیں ۔بستیوں کولوٹتے معلوم نہیں کتنے بچے تیرے گھوڑوں کے قدموں تلے کچلے گئے ہوں گے۔تو سزا سے نہیں بچ سکے گا ۔تیرا بھی خون بہے گا اور میں کسی اور کی بیوی ہوں گی۔‘‘ مالک بن نویرہ نے یوں چونک کر لیلیٰ کی طرف دیکھا جیسے اس نے اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا ہو ۔وہ آہستہ آہستہ چلتا باہر نکل گیا۔مالک رات بھر واپس نہ آیا۔صبح طلوع ہوئی ۔بطاح جو بارونق بستی تھی ،ایک ایسے مریض کی طرح دکھائی دے رہی تھی جو کبھی خوبرو جوان ہوا کرتا تھا۔اب اس کا چہرہ بے نور اور آنکھوں میں موت کا خوف رچا ہوا تھا۔بطاح کی عورتوں کے چہروں پر مُردنی چھائی ہوئی تھی۔یہ اس مار دھاڑ کا نتیجہ تھا جو بنو تمیم میں ہو رہی تھی۔سورج کی پہلی کرنیں آئیں تو بطاح کی گلیوں میں ڈری ڈری سی داخل ہوئیں۔اس وقت سورج کچھ اور اوپر اٹھ آیا تھا۔جب بطاح میں ہڑ بونگ مچ گئی۔بعض عورتیں بچوں کو اٹھا کر گھروں کو دوڑی گئیں اور اندر سے دروازے بند کر لیے۔کچھ عورتیں اپنی جوان بیٹیوں کو ساتھ لیے بستی سے نکل گئیں۔وہ کہیں چھپ جانے کو جا رہی تھیں۔بوڑھے آدمی کمانیں اور ترکش اٹھائے چھتوں پر چڑھ گئے۔بوڑھوں کے علاوہ جو آدمی بستی میں تھے۔انہوں نے برچھیاں اور تلواریں نکال لیں۔کسی نے بڑی بلند آواز سے کہہ دیا تھا کہ دشمن کا لشکر آ رہا ہے۔دور زمین سے جو گرد اٹھ رہی تھی وہ کسی لشکر کی ہی ہو سکتی تھی۔بطاح میں جوان آدمی کم ہی رہ گئے تھے۔سب مالک بن نویرہ کے ساتھ دوسرے قبیلوں کی لڑائی میں چلے گئے تھے ۔بطاح میں جو رہ گئے تھے ان پر خوف وہراس طاری ہو گیا تھا۔ لیلیٰ کے گھر میں پلنگ پر تین بچوں کی لاشیں پری تھیں اور وہ اپنے بچے کو سینے سے لگائے اپنے قلعہ نما مکان کی چھت پر کھڑی تھی۔وہ بار بار اپنے بچے کو دیکھتی اور چومتی تھی۔وہ شاید یہ سوچ رہی تھی کہ بچوں کے خون کا انتقام اس کے بچے سے لیا جائے گا۔زمین سے اٹھتی ہوئی گرد بہت قریب آ گئی تھی اور اس میں گھوڑے اور اونٹ ذرا ذرا دکھائی دینے لگے تھے۔’’ہوشیار بنو یربوع خبردار!‘‘بطاح میں کسی کی واز سنائی دی۔’’جانیں لڑا دو۔ ڈرنا نہیں۔‘‘لشکر گرد سے نکل آیااور قریب آ گیا۔بستی کے کئی ایک آدمی گھوڑوں پر سوار ،ہاتھوں میں برچھیاں اور تلواریں لیے آگے چلے گئے۔ان کا انجام ظاہر تھا لیکن انہیں اپنی طرف آتے دیکھ کر لشکر کی ترتیب میں کوئی فرق نہ آیا۔آگے جا کر وہ لشکر کا حصہ بن گئے۔’’اپنے ہیں۔‘‘انہوں نے نعرے لگائے۔’’اپنے ہیں……مالک بن نویرہ ہے ……لڑائی ختم ہو گئی ہے۔‘‘بطاح میں سے بھی نعرے گرجنے لگے۔لوگوں نے آگے بڑھ کر اپنے لشکر کااستقبال کیا۔مالک بن نویرہ کہیں بھی نہ رکا۔وہ سیدھا اپنے گھر کے دروازے پر آیااور گھوڑے سے کود کر اندر چلا گیا۔اسے لیلیٰ صحن میں کھڑی ملی۔اسکے دلکش چہرے پہ اداسی تھی اور اس کی وہ آنکھیں بجھی بجھی سی تھیں جن پر قبیلے کے جوان جانیں قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔’’میں نے تیرا حکم مانا ہے لیلیٰ! ‘‘’’لڑائی ختم کردی ہے۔ہم ایک دوسرے کے قیدی واپس کردیں گے۔میں نے سجاع سے تعلق توڑ لیا ہے۔اس پھول سے چہرے سے اداسی دھوڈالو۔‘‘ لیلیٰ اُداس بیٹھی رہی۔مالک نے اسے بہلانے کی بہت کوشش کی لیکن لیلیٰ کا چہرہ بجھا ہی رہا۔’’میرے دل پر ایک خوف بیٹھ گیا ہے۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’کیسا خوف؟‘‘مالک نے پوچھا۔’’کس کا خوف؟‘‘’’سزا کا۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’انتقام کا۔‘‘سجاع اکیلی رہ گئی۔وکیع بن مالک نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔مالک بن نویرہ نے وکیع سے کہا تھا کہ وہ ایک عورت کے جھانسے میں آکر اپنے قبیلے پر ٹوٹ پڑے تھے۔سجاع اپنے لشکر کو ساتھ لیے نباج کی طرف چلی گئی۔پہلے سنایا جا چکا ہے کہ وہ یمامہ پر حملہ کرنے گئی تھی لیکن مسیلمہ کے جال میں آگئی اور مسیلمہ نے اسے اپنی بیوی بنالیا۔مالک بن نویرہ کے گناہوں کی سزا شروع ہو چکی تھی۔وکیع بن مالک جو اس کا دستِ راست تھا اس کا ساتھ چھوڑ گیا اور مسلمانوں سے جا ملا۔مالک بن نویرہ نے اسے روکا تھا۔’’اگر ہم دونوں الگ ہو گئے تو مسلمان ہمیں کچل کہ رکھ دیں گے۔‘‘مالک نے وکیع سے کہا تھا۔’’ہم دونوں مل کر ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘‘’’ہمیں زندہ رہنا ہے مالک!‘‘وکیع نے کہا تھا۔’’مدینہ کی فوج کا مقابلہ کس نے کیا ہے؟غطفان ہار گئے،طئی ہار گئے،بنو سلیم،بنو اسد،ہوازن۔کوئی بھی مسلمانوں کے آگے ٹھہر نہ سکا۔پھر سب اکھٹے ہوئے اور ام زمل سلمیٰ کو بھی ساتھ ملا لیا۔‘‘’’کیا تم نہیں جانتے مالک! الولید کے بیٹے خالد نے انہیں کس طرح بھگا دیاہے؟سلمیٰ قتل کر دی گئی ہے۔مسلمان ہمیں مسلمانوں کا خون معاف نہیں کریں گے۔تمام قبیلوں کو شکست دینے والا خالد واپس مدینہ نہیں چلا گیا ۔وہ بزاخہ میں ہے ۔دوسری طرف مسلمانوں کامانا ہوا سپہ سالار اسامہ ہے۔ان دونوں میں سے کوئی بھی کسی بھی وقت یہاں کارخ کر سکتا ہے ۔ان سے خون معاف کرانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ میں ان کی اطاعت قبول کرکے انہیں اپنے قبیلے کی زکوٰۃ اور محصول ادا کرتا رہوں۔‘‘مالک بن نویرہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔خالد ؓبن ولید تک اطلاع پہنچ چکی تھی کہ مالک بن نویرہ کو رسول اﷲﷺنے امیر مقررکیا تھا مگر اس نے زکوٰۃ وغیرہ وصول کرکے مدینہ نہ بھیجی اور لوگوں کو واپس کر دی ہے۔جاسوسوں نے خالدؓ کو مالک کا ایک شعر بھی سنایا ۔اس میں اس نے رسولِ کریمﷺ کے وصال کے بعد اپنے قبیلے سے کہا تھا کہ:’’ اپنے مال کو اپنے پاس رکھو اور مت ڈرو کہ نہ جانے کیا ہو جائے۔اگر اسلامی حکومت کی طرف سے ہم پر کوئی مصیبت آئے گی تو ہم کہیں گے کہ ہم نے محمد )ﷺ( کے دین کو قبول کیاتھا ،ابو بکر کے دین کو نہیں۔‘‘مالک بن نویرہ نے سجاع کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا جو قتلِ عام کیا تھا ،اس کی بھی اطلاع خالدؓ کو مل گئی تھی۔خالدؓ نے اپنے دستوں کو بطاح کی طرف تیز کوچ کا حکم دیا ۔ان کے دستوں میں انصارِ مدینہ بھی تھے۔انہوں نے بطاح کی طرف پیش قدمی کی مخالفت کی۔ ’’خدا کی قسم!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں اپنی سپاہ میں پہلے آدمی دیکھ رہا ہوں جو اپنے امیر اور سالار کی حکم عدولی کر رہے ہیں۔‘‘’’اسے حکم عدولی سمجھیں یا جو کچھ بھی سمجھیں۔‘‘انصار کی نمائندگی کرنے والے نے کہا۔’’خلیفۃ المسلمین کا حکم یہ تھا کہ طلیحہ کو مطیع کر کے اس علاقے میں رسول اﷲﷺ کی قائم کی ہوئی عملداری کو بحال کریں اور جو جنگ پہ اتر آئے اس سے جنگ کریں اور بزاخہ میں اگلے حکم کا انتظار کریں۔ہم جانتے ہیں کہ مدینہ سے ایسا کوئی حکم نہیں آیا کہ ہم بطاح پر حملہ کیلئے جائیں۔‘‘’’کیا تم میں کوئی ہے جسے یہ معلوم نہ ہو کہ میں تمہارا امیر اورسپہ سالار ہوں؟‘‘خالد ؓبن ولید نے پوچھا اور سب کی طرف دیکھنے لگے۔انہیں کوئی جواب نہ ملا تو انہوں نے کہا۔’’میں نہیں جانتا کہ خلیفۃ المسلمین کے ساتھ تم کیا معاہدہ کرکے آئے ہو۔میں یہ جانتا ہوں کہ خلیفہ نے مجھے یہ حکم دیا تھا کہ جہاں بھی اسلام سے انحراف کی خبر ملے اور جہاں بھی مدینہ کے ساتھ کیے ہوئے معاہدوں کی خلاف ورزی نظر آئے ،وہاں تک جاؤ اور اسلام کا تحفظ کرو۔میں سپہ سالار ہوں۔اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے اگر مجھے کوئی ایسی کارروائی کرنی پڑے گی جوخلیفہ کے احکام میں شامل نہیں ہو گی تومیں وہ کارروائی ضرور کروں گا……خلافت کے احکام میرے پاس آتے ہیں ،تمہارے پاس نہیں۔‘‘’’ہم نے کوئی قاصد آتا نہیں دیکھا۔‘‘انصار میں سے کسی نے کہا۔’’میں اس کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا۔‘‘خالد ؓنے جھنجھلا کر کہا۔’’اور میں کسی ایسے آدمی کو اپنی سپاہ میں نہیں دیکھنا چاہتا جس کے دل میں ذرا سا بھی شک و شبہ ہو۔مجھے اﷲ کی خوشنودی چاہیے۔اگر تمہیں اپنی ذات کی خوشنودی چاہیے تو جاؤ ۔اپنے آپ کو خوش کرو۔میرے لیے مہاجرین کافی ہیں اور میرے ساتھ جو نو مسلم ہیں ،میں انہیں بھی کافی سمجھتا ہوں۔‘‘مشہور مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ ابو بکرؓ نے اپنے احکام میں یہ شامل کیا تھا کہ بنو اسد کے سردار طلیحہ کی سرکوبی کے بعد خالد ؓکے دستے بطاح تک جائیں گے جہاں کے امیر مالک بن نویرہ نے زکوٰ ۃ اور محصولات کی ادائیگی نہیں کی اور وہ اسلام سے منحرف ہو کر اسلام کادشمن بن گیا ہے۔طبری اور دیگر مؤرخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ انصار بزاخہ میں رہ گئے اور خالدؓ اپنے مجاہدین کو ان کے بغیر بطاح لے گئے۔جب یہ لشکر بزاخہ سے چلا تو انصار نے باہم صلاح مشورہ کیا۔وہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اتنی دور سے اکھٹے آئے تھے۔اکھٹے لڑائیاں لڑیں اور اب ہم میں پھوٹ پڑ گئی ہے ۔ہمیں پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا۔’’اور اس لئے بھی ہمیں پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا ۔‘‘انصار میں سے ایک نے کہا۔’’کہ مہاجرین اور نو مسلموں نے فتح حاصل کرلی تو اس میں ہمارا نام نہیں ہوگا۔ہمیں مدینہ جا کر شرمساری ہو گی۔‘‘ ’’اور اس لئے بھی۔‘‘ایک اور نے کہا۔’’کہ خالد بن ولید کو اگر کہیں شکست ہوئی تو مدینہ میں لوگ ہم پر لعنت بھیجیں گے کہ ہم نے مدینہ سے اتنی دور محاذ پر جا کر خالد کو اور اپنے ساتھیوں کو دھوکا دیا۔ہم ملعون کہلائیں گے۔‘‘ خالدؓ کے دستے بزاخہ سے دور نکل گئے۔ایک تیز رفتار گھوڑسوار پیچھے سے آن ملا اور خالدؓ کے پاس جا گھوڑ اروکا۔’’کیا تم انصار میں سے نہیں ہو جو پیچھے رہ گئے ہیں ؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’ہاں امیر لشکر!‘‘ سوار نے کہا۔’’میں اُنہی میں سے ہوں۔انہوں نے بھیجا ہے کہ میں آپ سے کہوں کہ ان کا انتظار کریں ۔وہ آ رہے ہیں۔‘‘خالدؓ بن ولید نے اپنے دستوں کو روک لیا۔کچھ دیر بعد تمام انصار آ گئے اور دستے بطاح کی طرف روانہ ہو گئے۔’’لیلیٰ !‘‘بطاح میں مالک بن نویرہ اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا۔’’تو نے مجھے محبت دی ہے ۔تیری ذات میرے شعروں میں نئی روح ڈالی ہے۔اب مجھے حوصلہ دو لیلیٰ!میرے دل میں خوف نے آشیانہ بنا لیا ہے۔‘‘’’میں نے تجھے پہلے دن کہا تھا غرور اور تکبر چھوڑ دے مالک!‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’لیکن تم اتنی دور نکل گئے کہ انسانوں کو چیونٹیاں سمجھ کر مسل ڈالا۔‘‘’’مت یاد دلا مجھے میرے گناہ لیلیٰ!‘‘مالک بن نویرہ نے کہا۔’’گناہوں نے میری بہادری کو ڈس لیا ہے۔‘‘’’آج کیا بات ہو گئی ہے کہ تم پر اتنا خوف طاری ہو گیا ہے؟‘‘’’بات پوچھتی ہو لیلیٰ؟‘‘مالک بن نویرہ نے کہا۔’’یہ موت کی بات ہے۔میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ میرا تیرا ساتھ ختم ہو رہا ہے……میں نے اپنے جاسوس بڑی دور دورتک بھیج رکھے ہیں ۔آج ایک جاسوس آیا ہے۔اس نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر بڑی تیزی سے ادھر آ رہا ہے۔اگر لشکر کی یہی رفتار رہی تو پرسوں شام تک یہاں پہنچ جائے گا۔‘‘’’پھر تیاری کرو۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’قبیلوں کو اکھٹا کرو۔‘‘’’کوئی میرا ساتھ نہیں دے گا۔‘‘مالک نے ڈرے ہوئے لہجے میں کہا۔’’میں نے وکیع اور سجاع کے ساتھ مل کر اپنے قبیلوں کا جو خون بہایا ہے وہ کوئی نہیں بخشے گا۔ان سے مصالحت تو کرلی تھی لیکن دل پھٹے ہوئے ہیں ۔میرے قبیلے کی مدد کو کوئی نہیں آئے گا۔‘‘’’پھر آگے بڑھواور مسلمانوں کے سپہ سالار سے کہو کہ تم نے اسلام ترک نہیں کیا۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’شاید وہ تمہیں بخش دیں۔‘‘’’نہیں بخشیں گے۔‘‘مالک نے کہا۔’’نہیں بخشیں گے۔انہوں نے کسی کو نہیں بخشا۔‘‘

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔