ہفتہ، 16 دسمبر، 2017

سیرتِ طیّبہ اور مسلم تہذیب - اقبالیاتی تناظر میں ایک مُطالعہ

0 comments



سیرتِ طیّبہ اور مسلم تہذیب
اقبالیاتی تناظر میں ایک مُطالعہ
سید عزیز اللہ شاہ ایڈووکیٹ


انسان کی فطرت میں اجتماعیت پنہاں ہے-یہی مطلب ہے حکماء کے اس قول کا کہ انسان مدنی الطبع ہے-

حوالہ:(تاریخ ابنِ خلدون، ج:1، ص:91)
یہ الفاظ مشہور مسلم مورخ علامہ عبد الرحمٰن ابن خلدون کی کتاب ’’تاریخ ابن خلدون‘‘ کے ہیں-اس کتاب کے مقدمے میں مزید فرماتے ہیں کہ اجتماع انسانی ضرورت ہے یعنی آدمی کا اپنے ابنائے جنس کے ساتھ مل جل کر رہنا-اسےحکما اپنی اصطلاح میں مدنیت اور ہم عمارتِ انسانی کہتے ہیں-یعنی بقول ابنِ خلدون معاشرتی زندگی کی ابتدا انسان کی زمین پر آمد اور آبادی سے ہوئی-
تہذیب، انسان کی مدنی اور اجتماعی زندگی کے لیے ایک فطری چیز ہے-چنانچہ مدنیت انسانی فطرت میں شامل ہے یوں انسانی معاشرے میں تہذیب ایک فطری عمل کے طور پر رونما ہوتی ہے اور جس سے یہ انسانی معاشرے کی اساس ٹھہرتی ہے-انسان اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے دیگر انسانوں کے تعاون کا محتاج ہے جس کیلئے ابنِ آدم معاشرتی زندگی گزارنے پر مجبور ہے- بالفاظ دیگر عقلی و طبعی طورپر انسانی معاشرتی زندگی تہذیب کے ارتقاء میں بطور ایک لازمی جز ٹھہرتی ہے-تہذیب لاطینی زبان کے لفظCivites” “سے ماخذ ہے
Ref: )The Socio-Intellectual Foundations of Malek Bennabi’s Approach to Civilization, By Badrane Benlahcene,P3(
جس کا مطلب ایک شہر ہے-لفظ تہذیب کا مطالعہ تاریخی پیرائے میں کیا جائے یا لغوی و معنوی نقطہ نظر سے،اس کا تعلق و واسطہ انسانی کی سماجی اور اجتماعی زندگی سے ہے-لغت عربی میں لفظ تہذیب کے لئے عام طور پر مدنیت اور حضارت کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں -
تہذیب و ثقافت کی اصطلاحیں علم عمرانیات(معاشرہ شناسی) کے موضوعات میں سے ہیں-ابھی تک ان اصطلاحات کی حتمی بنیادوں پر کوئی ایسی جامع تعریف وضع نہیں کی گئی،جو تہذیب کے تمام عناصر کو بیاں کرنے میں کامل و مکمل ہو-اس کی تکنیکی تعریف کے حتمی بیان میں سکالرز کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے-ذیل میں تہذیب کی مختلف تعریفات بیان کی گئی ہیں-
کیمبرج ڈکشنری کے مطابق ترقی یافتہ ادارے رکھنے والے لوگوں کے رہن سہن کے طریقہ حیات کو تہذیب کہتے ہیں:
“Human society with its well-developed social organizations, or the culture and way of life of a society or country at a particular period in time”.
Ref: )https://dictionary.cambridge.org(
’’منظم ترقی یافتہ سماج رکھنے والا انسانی گروہ، یا مخصوص وقت کے دوران انسانی ثقافت اور رہن سہن کا طریقہ‘‘-
رھائیمی زون(Rhymezone) کےمطابق قانونی، سیاسی اور مذہبی طور پر منظم معاشرے کو تہذیبی معاشرہ کہتے ہیں-جس کا اصل متن یہ ہے:
“A society in an advanced state of social development (e.g. with complex legal and political and religious organizations)”.
Ref:)http://www.rhymezone.com(
’’اعلیٰ سماجی ترقی کا حامل معاشرہ(مثال کے طور پر پیچیدہ باہمی قانونی،سیاسی اور مذہبی انتظام)‘‘-
پروفیسرمارک ایل نیپ’’Mark L. Knapp‘‘کی نظرمیں تہذیب سے مرادایک مخصوص نسل و گروہ کا مجموعی ضابطہ حیات ہے جیسا کہ وہ فرماتےہیں:
“The sum total of ways of living built up by a group of human beings and transmitted from one generation to another”.
Ref: )Interpersonal communication: edited by Mark L. Knapp P#300(
’’ایک گروہ کی صورت میں رہنے والے انسانوں سے تعمیر کردہ مجموعی ضابطہ حیات جوایک نسل سے دوسری میں منتقل ہو‘‘-
مشہور جرمن مذہبی سکالر البرٹ کی نظر میں تہذیب سے مراد ایسی ترقی ہےجو ہر عمل اور نقطہ نظر میں روحانی ترقی کی جانب مُمدو معاون ثابت ہو-
“It is the sum total of all progress made by man every sphere of action and from every point of view in so far as the progress helps towards the spiritual perfecting of individuals as the of all Progress”.
Ref: ( Philosophy of civilization by Albert Schweitzer P#20)
’’انسان کی طرف سے کی جانے والی تمام پیش رفت کی کارروائی جس کے ہر عمل اور ہر نقطہ نظر سے افراد کی روحانی ترقی کی طرف مدد ملتی ہے‘‘-
مشل ٹیلینگر(Michael Tellinger)کی بیان کردہ تعریف گوکہ جدید عہد کی تعریف ہے لیکن مختلف تہذیبوں کے تمام عناصر کو اپنے اندر سمونے سے یہ بھی قاصر ہے جیسا کہ وہ اپنی ایک مشہور کتاب میں لکھتے ہیں:
“civilization” means an advanced stage of human development marked by a high level of art, religion, science, and social and political organization”.
Ref: ( Slave Species of the Gods: by Michael Tellinger P#50)
’’تہذیب‘‘ کا مطلب انسانی ترقی کے ایک اعلیٰ درجے کا مرحلہ جس کو ایک اعلیٰ سطح کی آرٹ، مذہب، سائنس، سماجی اور سیاسی تنظیم سے نمایاں کیا گیا ہو‘‘-
Samuel P. Huntingtonاپنے مضامین” The Clash of Civilizations‘‘ میں تہذیب کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:
“Civilization as ‘the highest cultural grouping of people and the broadest level of cultural identity people have short of that which distinguishes humans from other species”.
Ref: ( The Clash of Civilizations by Samuel P. Huntington P#28.)
’’تہذیب ’لوگوں کی اعلیٰ سطح پر ثقافتی گروہ بندی اور وسیع پیمانے پر لوگوں کی ایسی ثقافتی شناخت ہے جو انسانوں کو دوسری انواع سے نمایاں کرے‘‘-
تہذیب کا موضوع اگرچہ بہت وسیع ہے جس کی کئی تعریفات کی گئی ہیں لیکن تہذیب کے مکمل معانی و مفہوم سے آگاہ کرنے والی کوئی ایسی آفاقی تعریف متعین نہیں جس پر عموماً اتفاق رائے موجود ہو-تعریفات پر اختلاف کی کئی وجوہات ہیں جن میں مختلف نظام ہائے کی موجودگی بھی ایک ہے-مندرجہ بالا تعریفات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تہذیب کسی گروہ کے عقائد و عوامل سے نمودار ہونے والی ایسی فطرتی چیز ہے جو ان کی اجتماعی نظامِ حیات متعین کرتی ہے-عام فہم الفاظ میں تہذیب سے مراد کسی شخص یا معاشرے کے اعتقادات کا مجموعہ ہے-ایک تہذیب اپنی بنیادی حیثیت میں تین عناصر پر مشتمل ہوتی ہے جو اعتقادات ،اقدار اور کردار کے مجموعے پر مبنی شمار کی جاتی ہے-
یہ بات طے ہے کہ لفظ تہذیب کا دائرہ کار انفرادی سطح پر نہیں بلکہ یہ معاشرے کے تمام انسانوں کے اطوار ، گفتار اور کردار پر محیط ہو تا ہے-تہذیب کی تاریخ وجودِ انسانی سے منسلک ہے - بالفاظ دیگر اس کی تاریخ اتنی ہی پرانی و قدیم ہے جتنی انسان کی زمین پر آمد کی- جب کبھی ہمارا ذہن دنیائے قدیم کی تہذیبوں کی عمیق وادیوں کی تخیلاتی دنیا میں جاتا ہے تو بہت سے سوال جنم لیتے ہیں - علم آثارِ قدیمہ(Archealogy) کے مطالعہ سے ہمیں ابتدائی ثقافتوں کے بارے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس عہد میں اور کہاں موجود تھیں-اسی علم سے ہمیں ان کےمذہبی تجربات،سیاسی نظام اور ان کےدوسروں کے ساتھ تعلقات کاپتہ چلتا ہے-
مشہور اور قدیم تہذیبوں میں سے چند بڑی اور مشہور تہذبیں عبرانی، یونانی، چینی، ہندی اور رومن وغیرہ شمار ہوتی ہیں-مغربی تہذیبوں میں عبرانیوں کی تہذیب کے زیادہ نمایاں عناصر عقائد اور اخلاقیات کی صورت میں ہمیں ملتے ہیں-یونانی تہذیبی رویوں میں فلسفہ اور عقلیت پر مبنی مباحث اور رومنز کے ہاں قانون اور حکومتی معاملات نظر آتے ہیں غرض کوئی تہذیب ایسی نہیں تھی جو معاشرتی سماج کے لئے تمام بنیادی تہذیبی عوامل رکھتی ہو-انسانی تہذیبوں کے مختلف ادوار کوبنیادی طور پرتین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جیسا کہ ’’Rev. Samuel Bakare‘‘لکھتے ہیں:
“Up to about the year 1860, man's history had been conveniently divided into three distinct epochs: ancient, medieval and modern. After 1860, however, a new expression came into general use to describe the cultures of the distant past. Pre-history was the name given to that period of man's history before written documents appeared. We can now study man's pre-history through the field of archeology”.
Ref: ( World Validators: Rev. Samuel Bakare P, 31)
’’1860ء تک،تاریخِ انسانی کوبنیادی طورپرتین بڑے ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے؛عہدقدیم، قرون وسطیٰ اور عہد جدید- تا ہم 1860ءکے بعد عہد قدیم کو بیان کرنے کے لئے ایک نئے تاثر نے جنم لیا- ایسے دور کو ’’ما قبلِ تاریخ‘‘ سے مخاطب کیا گیا جب کاغذی دستاویزات معرضِ وجود میں نہ آئی تھیں-ایسے علوم کامطالعہ ہم علم آثارِ قدیمہ(Archeology) سے کرتے ہیں‘‘-
ان تہذیبوں کی موجودگی کے باوجودکوئی ایسی تہذیب نہیں تھی جو آفاقی نوعیت کی ہو اور اپنی ہیئت میں اتنی کامل ہوتی کہ کوئی خارجی(بیرونی) عنصر اس کی موثریت کو زائل نہ کرپاتا-اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) اسی تہذیب کے بارے ایک جدید عالم کی زبانی دنیا کو یوں بیاں کرتے ہیں-
’’وہ تہذیب جس کے بننے میں چارہزار برس لگے انتشار کے دہانے پر پہنچ چکی تھی،انسانیت بربریت اپنی آخری حدود کو چھو رہی تھی ہر قبیلہ اور فرقہ ہر دوسرے قبیلے کے خون کا پیاسا بن چکا تھا-پرانے انداز حکمرانی بے سود ہو چکے تھے-عیسائیت کے نئے قواعد و ضوابط اتحاد اور منظم کرنے کی بجائے تقسیم در تقسیم اور بربادی کا باعث بن رہے تھے-یہ وہ وقت تھاجب آشوب اور المیےکے سواکچھ نہ تھا‘‘-
Ref: ( Reconstruction of religious thought in Islam P# 179)
حکیم الامت جہاں ان تہذبیوں کی ناکامی کا تذکرہ کرتے ہیں تو ساتھ ہی ایک پائیدار تہذیب اُسےقرار دیتے ہیں جوثقافت کے مثالی نظریات اور تصورات کے ساتھ عملی شکل میں موجود ہو جیسا کہ حضرت علامہ اپنے پہلے خطبے ’’علم اور مذہبی مشاہدہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
“The cultures of Asia and, in fact, of the whole ancient world failed, because they approached Reality exclusively from within and moved from within outwards. This procedure gave them theory without power, and on mere theory no durable civilization can be based”.
Ref:( Ibid P#30)
’’ایشیا کے،بلکہ در حقیقت تمام قدیم دنیا کے سارے تمدن اس لئے ناکام ہوئے کہ انہوں نے حقیقت کو خاص طور پر داخلی تصور کیا اور داخل سے خارج کی طرف رخ کیا-اس طریق عمل سے وہ ایسے تصور پر پہنچے جو طاقت سے محروم تھا اور طاقت سےمحروم کسی تصور پر کسی پائیدار تہذیب کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی‘‘-
مذاہب کی فلسفیانہ مباحث (Philosophy of Religion) میں تہذیبی ضرورت و اہمیت کے بارے میں علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ مذہب کی ضرورت انسانی معاشرے کو بہترین لائحہ عمل فراہم کرنے، سماج کی روحانی تعبیر و تشکیل کرنے، مادیت و روحانیت کی کشمکش کو ختم کرکے دونوں کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھ کر ایک معتدل اور پُر امن معاشرہ کو ترتیب دینے کے لئے در پیش آتی ہے جیسا کہ اپنے پہلے خطبے ’’علم اور مذہبی مشاہدے‘‘ میں فرماتے ہیں:
“The problem of Islam was really suggested by the mutual conflict, and at the same time mutual attraction, presented by the two forces of religion and civilization. The same problem confronted early Christianity. The great point in Christianity is the search for an independent content for spiritual life which, according to the insight of its founder, could be elevated, not by the forces of a world external to the soul of man, but by the revelation of a new world within his soul. Islam fully agrees with this insight and supplements it by the further insight that the illumination of the new world thus revealed is not something foreign to the world of matter but permeates it through and through”.
Ref: ( Ibid P#22)
’’حقیقت یہ ہےکہ اسلام کا مسئلہ مذہب اور تہذیب کی دو قوتوں کا پیدا کردہ ہےجو باہم کھچاؤ اور ساتھ ہی آپس میں لگاؤ رکھنے والی ہیں -اسی طرح کا مسئلہ مسیحیت کو بھی ابتدائی دور میں در پیش تھا - مسیحیت کا بنیادی سوال یہ تھا کہ روحانی زندگی کے لئے کسی ایسے مستقل اَساسی جوہر کو تلاش کیا جائے جو حضرت مسیح کی بصیرت کے مطابق بیرونی دنیا کی قوتوں کا آفریدہ نہیں بلکہ خود انسان کے اندر روح کے اپنے انکشافات سے عبارت ہے-اسلام کو اس بصیرت سے پورا اتفاق ہے مگر وہ اس میں اس قدر اضافہ کرتا ہے کہ اس نئے عالم کی دریافت مادہ سے بیگانہ نہیں بلکہ اس کے رگ و پے میں جاری و ساری ہے‘‘-
اقبال(رحمۃ اللہ علیہ) مذہب کو ایک تہذیبی ضرورت کے طور پر لیتے ہیں-آپ(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں وقت کوایسی تہذیب کی ضرورت تھی جواپنی نوعیت میں آفاقیت سے عبارت ہو جس تہذیب کے باشندوں کارشتہ ابدیت اور وحدت کی بنیادوں پراستور ہو-جس کو اقبال اپنے خطبہ ’’اسلام میں حرکت کا اصول‘‘ میں یوں فرماتے ہیں :
’’دنیا کو ایک نئی ثقافت کی احتیاج تھی جو ملوکانہ ثقافت کی جگہ لے سکے اور اس نظام کی جگہ لے جہاں وحدت کے سارے نظامات خونی رشتوں پر استوار تھے-یہ بہت حیران کن بات تھی کہ ایسی ثقافت عربوں کے ہاں نمودار ہوئی اور وہ بھی ایسے وقت میں جبکہ اس کی ضرورت بہت زیادہ تھی-تاہم اس میں تحیر کی کوئی بات نہیں کیونکہ روح عصر وہبی طور پر اپنی ضرورتوں کو خود جان لیتی ہے اور انتہائی کڑے لمحات میں اپنی سمت کا خود تعین کر لیتی ہے-یہی وہ چیز ہے جسے ہم مذہب کی زبان میں پیغمبرانہ وحی کہتے ہیں-یہ بالکل فطری بات ہےکہ اسلام نے انتہائی سادہ لوگوں کے شعور کو جلا بخشی جنہیں پرانی ثقافتوں میں سے کسی نے چھوا تک نہیں تھا اور جغرافیائی طور پر ایک ایسے مقام سے تعلق رکھتے تھےجہاں تین براعظم آپس میں ملتے ہیں-نئی ثقافت نے دنیا کی وحدت کی بنیاد اُصول توحید میں دریافت کی‘‘-
Ref: )Ibid P#180(
اقبال (رحمۃ اللہ علیہ)فرماتے ہیں کہ تاریخِ انسانی میں اللہ رب العزت کایہی قانون رہا ہے کہ جب بھی انسانی معاشرہ تاریکی و انحطاط کا شکار ہوا تو اس کا ازالہ مذہب سے کیا گیامطلب بذریعہ وحی انسانیت کی رہنمائی فرمائی-یعنی تاریکی میں ڈوبے معاشرے میں انبیاءمبعوث فرما کر انسانیت کو راہ ہدایت دِکھائی-انسانیت کو درپیش انہیں مسائل کا ازالہ کرنے اور راہ ہدایت سے روشناس کروانے کی خاطر دین اسلام کو پسند فرمایا-[حوالہ(آلِ عمران:19)]
وہی دینِ اسلام جسے فلسفیانہ مباحث میں ایک تہذیب کے طور پر نمودار ہونا تھا-یوں دین ِ اسلام(بطورتہذیب اسلامی)کی ضرورت حالات کے عین تقاضوں کے مطابق منظر عام پر آئی-اس تہذیب کے پنپنےکے لئے ایسے خطہ کا انتخاب فرمایا گیا جس پر کسی دوسری تہذیبی عنصر کا اثر تک نہ تھا جو کسی بیرونی یلغار کا آج تک شکارنہیں ہوا تھااورنہ ہی یہ خطہ کسی بڑی سلطنت کے زیر اثر رہا تھا-قبل از ظہورِ اسلام، عرب کےبدو تہذیب و تمدن سے واقف نہ تھے- یہ حقیقت ہے کہ اجتماعی زندگی اور ایک منظم حکومتی نظم و نسق عرب بدو ؤں کے خمیر میں ہی نہ تھااور وہاں قبائلی نظام کا دور دورا تھا- ایک عربی کےلئے اجتماعی زندگی کانظریہ اپنے قبیلے کی حمیّت تک ہی محدود تھا-
مذکورہ خطہِ زمیں سے ایسی تہذیب نے جنم لیا جو اپنی نوعیت میں کامل ہے- جو دوسری تہذیبوں کی مانندمحض تاریخی پس منظر میں قائم نہیں ہوئی اور نہ ہی فقط نظریاتی تصورات پر مبنی ہے بلکہ ایک اعتبارسے وحی،الہامی ذرائع اور ٹھوس تجربات کی روشنی میں ایک کامل و مکمل دین ہے-جس میں ہر شعبہ زندگی سےمتعلق واضح رہنمائی ملتی ہے-جن حالات و واقعات میں تہذیبِ اسلامی نمودار ہوئی اور اس نے کائنات میں مثبت اثرات چھوڑے اس صورتحال کے متعلق مشہور مسلم مؤرخ ابن خلدون نے کچھ یوں نقشہ کھینچا ہے:
’’عربوں کو ملکی سیاست میں جو مہارت ہوئی وہ اصلی طبیعت کے انقلاب اور مذہب کی وجہ سے ہوئی-جس نے ان کی عادتوں کو بالکل بدلا اور ان کو باہمی ظلم و عداوت سے روک کر ایک دوسرے کی حمایت و نصرت پر آمادہ کردیا-یہ حال ان کی ان سلطنتوں کا رہا جو شیوخ اسلام کے بعد قائم ہوئیں کیونکہ مذہب نے شریعت اور اس کے ان پر زور احکام سے جن میں مصالح ملکی و تمدنی کی پوری رعایت کی گئی ہے-سیاست کے ظاہر و باطن کو کامل طور پر محکم اور مضبوط کر دیا تھااور غلاموں نے ان کی پیروی کی- اس لیے ان کا ملک وسیع اور سلطنت قوی ہوئی-کہتے ہیں کہ جب رستم سپہ سالارِ ایران مسلمانوں کو نماز پڑھتے دیکھتا، کہتا کہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کس بلا کا آدمی ہے کہ عرب جیسے جاہلوں کو با ادب کر رہا ہے‘‘-
حوالہ:(تاریخ ابنِ خلدون، ج:1، ص:253)
یہ دینِ اسلام ہی ہے جس نے انسانوں کی زندگی میں انقلاب برپا کیا-پس مسلمانوں کیلئے دینِ اسلام زندگی کے ہر معاملہ میں اولین حیثیت رکھتا ہے اس لئے تہذیبِ اسلامی کی بنیاد و مرکز دین اسلام ہے-اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور رسول اللہ (ﷺ) کے احکامات کو عملاً اختیار کرتے ہوئے دنیاوی امور کو ترتیب دے کر جو مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے وہ اسلامی تہذیب ہے- اِس تہذیب کی بنیاد ایک لازوال نظریہ ’’لا الا اللہ محمد الرسول اللہ‘‘ہے- اس نظریے نے تاریخ انسانی کو ایک نئی سمت میں موڑا جس سے لوگ نابلد تھے-تہذیبِ اسلامی قرآنِ پاک، حدیث اور آقا علیہ الصلوٰ ۃ و السلام (ﷺ) کے اسوہء حسنہ سے تخلیق پا تی ہے اور ایک مثالی رہن سہن، لباس، فنِ تعمیر، فکرِ کائنات، جستجوِ علم اور دردِانسانی کو وجود فراہم کرتی ہے-
جیسا کہ مختلف تہذیبوں سےمتعلق تعریفات مذکور کی گئی ہیں جن سے ایک تہذیب کے مختلف عوامل کا پتہ چلتا ہے ایسے ہی اسلامی تہذیب مختلف عناصر رکھتی ہے-مگرمختصر اور جامع الفاظ میں یہ کَہ سکتے ہیں کہ امت مسلمہ کے عمومی اور بالترتیب عناصر جو افراد کی اجتماعی زندگی گزارنے میں بحیثیت مشترک باہمی عوامل کےطورپر کارفرما ہوتے ہیں-یہ عوامل ہی دراصل کسی مذہب کے وہ بنیادی عقائدہوتے ہیں جن کے پیچھے مذہب کے اصول کارفرما ہوتے ہیں-
اسلامی تہذیب قرآن مجید کےان اصول و نظریات سے اخذ کیے گئے ہیں، جواپنی ہیئت و ساخت میں انتہائی جامع ہیں-جیساکہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ)فرماتے ہیں :
منزل و مقصود قرآں دیگر است
رسم و آئین مسلماں دیگر است
’’قرآن پاک کی منزل و مقصود اور ہے(مگر آج کل کے) مسلمان کا طریقہ اور آئین مختلف ہے‘‘-
حوالہ:(جاوید نامہ)
اسلام نے ایک ایسی تہذیب کا بنیادی نمونہ پیش کیاجس نےانسانوں کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا-قرآن پاک نے دنیا کو اپنے حسین اندازِ تخاطب سے حیران و ششدر کر دیا اور لوگوں کے اقدار و اطوار بدل دیئے- اسلامی تہذیب کے عناصر کی قرآن مجید سے تعبیر و تشکیل سے متعلق امریکی فلسفی اور مؤرخ پاک کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
“Thanks to the Qur'an, the Muslims' conduct and culture developed. The Qur'an saved them from illusions, superstitions, oppression, and violence. It granted the people of the lower classes honor and esteem. Likewise, it made society replete with such justice and piety that no parallel can be found for it. At the same Time, the Qur'an urged them to make progress which led to making such a progress that was unique in history”.
Ref: ( The History of Civilization by Will Durant, p.52)
’’یہ قرآن کی مرہونِ منت ہے کہ مسلمانوں کا رویہ اور ان کا کلچر پروان چڑھا، قرآن نے انہیں خیالی دنیا، توہمات، ظلم اور تشدد سے بچایا اس نے ادنیٰ درجہ کے لوگوں کو عزت وعظمت سے نوازا- اسی طرح اس نے ایسے معاشرے کو وجود بخشا جو انصاف سے سرشار ہے جس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی، قرآن نے ساتھ ہی ایسی امنگ پیدا کی جو انہیں ایسی ترقی کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو تاریخ میں بالکل منفرد ہے‘‘-
اسلامی تہذیب کا اولین اور بنیادی عنصر ترکیبی عقیدہ توحید ہے- توحید ہی وہ بنیادی تعلیم ہے جو اسلام کا اولین مقصدِ ابلاغ ہے- نظریہ توحید سے ہی دنیاکی وحدت کا اساسی اصول دریافت ہوتا ہے جس سے مرکزی سمت کا تعین ہوتا ہے-
قرآنی تعلیمات کے مطابق اسلامی تہذیب محض ان مادی اسباب و عوامل کا نام نہیں جو کسی تہذیب کے تشکیل پانے کے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں اور نہ ہی اسلامی تہذیب کا تصورمحض مادی رویوں سے تشکیل پاتا ہے بلکہ مادی رویوں کے ساتھ ساتھ اس میں روحانی نظام اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر رہتا ہے-اسلامی تہذیب بنیادی طور پر دو پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہےایک طرف اسلامی ثقافت کے منفرد اور مثالی نظریات و تصورات ہیں اور دوسری طرف ان مذکورہ نظریات کے عملی نمونے و ظہور کے طور پر سیرت طیبہ موجود ہے-فطرت الٰہیہ کے مطابق مادی رویے جب روحانی نظام کے تابع ہوں تو زندگی کی صحیح ترین تعبیر ہاتھ آتی ہے-بصورت دیگر مادی نظام کی کارفرمائی سےفطرت کا حقیقی اور اصلی مدعا متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتا-انسانی زندگی اپنے مدار سے ہم آہنگ نہیں رہتی بلکہ بھٹک کر اپنے راستے سے ہٹ جاتی ہے-دوسرے الفاظ میں مادہ اور روح کے مابین توازن برقرار نہیں رہتا -
تہذیبِ اسلامی کا دوسرا بڑا اور اہم عنصرعظمتِ رِسالتِ مصطفےٰ (ﷺ) بالخصوص عقیدہ ختمِ نبوت ہے جس کو حکیم الامت ایک تہذیبی تناظر میں دیکھتے ہیں-اسلام میں نظریہ نبوت دیگر ادیان سےمختلف ہے بے شک آپ(ﷺ) سے پہلے معبوث کردہ رسل و پیغمبروں کو اﷲ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کی خاطر بھیجا لیکن اسلامی شریعت کے حامل نبی حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کی نبوت حتمی اور آخری ہے جس کے بعد نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا اور یہ نبوت کسی قبیلے، قوم، خاص نسب، طبقے، علاقے اور زبان تک نہیں بلکہ اپنے پیغام اور حقانیت میں عالمگیر، آفاقی، دائمی اور ابدی ہے- جیسا کہ آپ(ﷺ) کو عطا کردہ نبوت عالمگیر،آفاقی اور ابدی ہے آپ(ﷺ) کی حیاتِ طیبہ سے اخذ شدہ اسلامی تہذیب کاعملی نمونہ اور عمومی ضوابط اپنی ساخت میں اتنےآفاقی ہیں جو ہر نسل و قوم کے لئے یکساں کارگراور قابلِ عمل ہے- یوں کہنا مناسب ہو گا کہ آپ(ﷺ) کی سیرت کی روشنی میں اجتماعی طور پر تشکیل پانے والا معاشرہ ایک عالمگیر تہذیب ہے جو کسی خطے، جغرافیے یا تاریخ تک محدود نہیں-حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے رنگ، نسل، زبان اور جغرافیہ سے بالا تر عالمگیر تہذیب کا تصور پیش فرمایا-اسلام محض تصورات و نظریات پر مبنی دین نہیں بلکہ ان تصورات کی ٹھوس تجرباتی شکل کاعملی نمونہ حیاتِ طیبہ کی صورت میں ہمارے سامنے لایا ہے-جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نےفرمایا ہے کہ:
’’لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ‘‘
’’بیشک رسول اللہ(ﷺ)(کی ذاتِ گرامی اور زندگی) میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے‘‘-
حوالہ:(الاحزاب:21)
قرآن کریم کی اس آیت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ کرۂ ارض کا ہر وہ خطہ جہاں چند انسانوں نے مل کر معاشرہ تشکیل دیا ہے ان کے عمل کا نمونہ و معیار آپ (ﷺ)کی ذات مبارکہ ہونی چاہئے -
یہ ایک عالمگیر تہذیب ہے یہ کسی خطے، جغرافیے یا تاریخ تک محدود نہیں-
اس تہذیب کے مطابق:
1. انسان کو تمام مخلوق پر شرف حاصل ہے-
2. انسان کا ہر فعل انسانیت کی خوشنودی اور بھلائی کی خاطر ہونا چایئے-
3. جسم اور روح دونوں کے تقاضے مکمل کرتے ہوئے ایک معتدل اور پُرامن معاشرہ کو ترتیب دینا ہے-
اسلامی تہذیب کی داخلی اقدار میں یہ وصف شامل ہے کہ وہ اپنی حالت و صورت میں قائم و دائم اور ابدی ہیں مگر اسلامی تہذیب کے خارجی خدوخال ایسی صورتحال سے عبارت ہیں جو ہر آن تغیر پذیری کے عمل سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار ہے-جواپنی روح میں تبدیلی کا کوئی غم نہیں رکھتی اور اپنے باطنی صورت میں مستقل بنفس ہے لیکن ظاہر میں ایسی ساخت پر مشتمل ہے جو ہر لحظہ تازہ تر انقلاب سے عبارت ہے - اسی بات کو حضرت علامہ اپنی نظم ’’مدنیت اسلام‘‘میں یوں بیان کرتے ہیں کہ اسلامی تہذیب کے اندر وہ روح ہے جس کی اساس ابدی ہے-
بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے
یہ ہے نہایتِ اندیشہ و کمالِ جنوں!
نہ اس میں عصر رواں کی حیا سے بیزاری
نہ اس میں عہد کہن کے فسانہ و افسوس!
حقائقِ ابدی پر اساس ہے اس کی
یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسمِ افلاطوں!
عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوقِ جمال
عجم کا حسنِ طبیعت، عرب کا سوزِ دروں!
حوالہ:(ضربِ کلیم)
اسلام کے تصورِ زندگی ، تصورِ مدنیّت اور اسلامی تہذیب کی غالباً اس سے زیادہ جامع تصویر کشی ممکن نہ ہو جو حضرت اقبال نے فرمائی ہے-خاص کر ’’نہایتِ اندیشہ‘‘ اور ’’کمالِ جنون‘‘ کی اصطلاحات کا جواب نہیں- اوّل الذکر سے مُراد عقلِ استقرائی کا ظہور ہے اور مؤخر الذکر سے مُراد میخانۂ رومی کی در کُشائی ہے- ’’حقیقتِ ابدی‘‘ کی اصطلاح جب اقبال فرماتے ہیں تو اس کا اشارہ اُس اُصولِ کائنات کی جانب ہے کہ ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘- یہ تصور اقبال کے ہاں اسلامی تہذیب کی تشریح کے مستقل استعارہ کے طور پہ رہا ہے- اس کے بعد ’’طلسمِ افلاطون‘‘ کا ابطال اور زندگی کا اثبات بھی اِسی تاثر کو قوی کرتا ہے کہ اسلامی تہذیب زندگی کے مسلسل حرکت کے نظریے کی موجد و مبلغ ہے جو کہ مومن پہ طوفان کو حلال اور ساحل کو حرام ، بجلی کو حلال اور حاصل کو حرام قرار دیتی ہے - جس سے مومن جمود و تعطل سے نکل جاتا ہے اور مسلسل حرکت و تحرک پہ ایمان کی حد تک یقین رکھتا ہے -
بلکہ اپنے خطبے ’’اسلام کے اصول حرکت‘‘ میں اقبال اسلام کو بحیثیت ثقافتی تحریک دیکھتے ہیں جیسا کہ آپ(ﷺ) فرماتے ہیں:
’’اسلامی ایک ثقافتی تحریک کی حیثیت سے کائنات کے ساکن ہونے کے قدیم تصور کو مسترد کرتاہے‘‘-
اسلامی معاشرتی زندگی کی تاریخی اور نظریاتی ابتداء اور باقاعدہ تہذیبی آغاز شہرِ نبوی (ﷺ)مدینہ منورہ سے ہوتاہے-جس کا واضح ثبوت اس شہر کا نام یثرب سےمدینۃ الرسول بدل کر رکھنے سے ملتا ہے-جہاں پر دیگر اقلیتوں کے ساتھ کئے گئے معاہدے (میثاقِ مدینہ) سے تحریری دستور وجود میں آیا -
Ref: ( First written constitution of the world by Dr.Hamid Ullah)
اسلامی کیلنڈر کا آغاز بھی آپ(ﷺ) کی ہجرتِ مدینہ سے ہوا-
Ref: ( Studies in Islamic Civilization The Muslim Contribution to the Renaissance” written by Ahmed Essa & Othman Ali.)
یوں عہد انسانی میں ایک اور تاریخ (کیلنڈر) کا آغاز ہوا جو آج بھی مسلم دنیا میں رائج ہے-در حقیقت اسلامی تہذیب کا مآخذ و منبع حضور (ﷺ)، کی ذاتِ مقدسہ ہے-
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے عطا کردہ رہنما اصولوں کو دامن میں سمیٹ کر مسلمان فلاحِ انسانیت کی ترغیب، برائی سے روکنے اور خدا شناسی کا حکم کرتے ہوئے ایک نئے معاشرے کی تشکیل میں کامیاب ہوئے-جہاں انہوں نے نئے علوم و فنوں، آرٹ، لٹریچر، سائنس،فلسفہ، معاشرت، نظریات، ایجادات، طرزِ زندگی اور جدید اداروں کے قیام کو ممکن بنایا-معاشرتی طبقات بالخصوص امیر و غریب کے فرق کو مٹانے کا سہرا بھی تہذیب اسلامی کے سر ہے- جس نے واضح کیا کہ اخلاقیات اور انسانیت کے معیارات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کائنات کی نعمتوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے-
Ref:( Ibid.)
اسلامی تہذیب نئے علومِ و فنون کی تشکیل پر زور دیتی ہے- قرآن میں لفظ ’’علم‘‘ کا 750 بار آنا علم کی قدر و اہمیت کی جانب اشارہ ہے-
Ref: ( Ibid.)
آقا (ﷺ) نے مسلمانوں کو علم کی شمع سے روشنی حاصل کرنے کا درس دیا- آپ (ﷺ) کا فرمانِ ذیشان ہے:
’’محد سے لے کر لحد تک علم حاصل کرو‘‘
یعنی تمام عمر علم حاصل کرو-
آپ(ﷺ)اللہ پاک سے اپنے لیے بھی دعا مانگتے، اے میرے اللہ! مجھے اشیاء کی حقیقت کا علم عطا فرما-
تہذیب اسلامی کے پیروکاروں نے اُس گمشدہ علم کی از سرِ نو تجدید کی بصارت سے منسلک سائنس کے سب سے پہلے ماہر ابن الہیثم نے آنکھ کی ساخت، روشنی کی ہیت اور کام کرنے کے طریقہ کار پر عمدہ کام کیا-انہوں نے بتایا کہ کسی بھی چیز پر پڑنے والی روشنی جب ہماری آنکھ تک پہنچتی ہے تب ہمیں وہ چیز نظر آتی ہے نہ کہ ہماری آنکھوں میں سے کوئی روشنی نکل کر اس چیز پر پڑنے سے ہمیں وہ چیز نظر آتی ہے-
Ref: ( Dowidar Hanan, “How an ancient Muslim scientist cast his light into the 21 st century,” March 24, 2015, https://www.elsevier.com
میڈیکل سائنس کی ترقی میں مسلم تہذیب نے بہت اہم کردار ادا کیا- محمد ابن زکریا الراضی نے علومِ ادویات پر انسائیکلوپیڈیا مرتب کیا- ابو علی الحسین ابنِ سینا کی طب پر لکھی گئی کتب کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا- قرون وسطیٰ میں طب کے میدان میں سب سے زیادہ مستند کتب ابن سینا نے لکھیں- اُن میں تقریبا 750 ادویات کی تفصیل موجود تھی-12ویں صدی سے لے کر 17ویں صدی عیسوی تک یہ کتب مغرب میں ’’طب کی انجیل‘‘ (Medical Bible) کے طور پر معروف رہیں-
Ref: ( Baloch Qadar Bakhsh, “The Islamic Civilization,” The Dialouge, 37.)
کیمسٹری:642 عیسوی میں مسلمانوں نے اسکندریہ فتح کیا- وہاں مصریوں کے کیے گئے کیمسٹری کے کام سے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ اس میں اضافت بھی کی-بعد ازاں اہل مغرب نے عربی میں موجود کیمسٹری کے علم کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا اور یوں مسلمانوں کے ذریعہ کیمسٹری کا علم مصر سے یورپ پہنچا-بابائے کیمیاء ابو موسیٰ جابر بن حیان نے تبخیر(بخارات کا عمل)، بہاؤ اور عمل قلما و (Crystallization) کو بہتر بنایا- اہل مغرب نے ان کی کتب کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا-یوں جابر بن حیان نے کیمسٹری کے میدان میں یورپ پر گہرے اثرات مرتب کیے-
Ref: ( Ibid The Dialouge, 49)
آرٹ:سپین میں خوبصورت عمارتیں اسلامی فن تعمیر کی بہترین مثال ہیں-جن میں عظیم مسجدِ قرطبہ اور غرناطہ میں الحمرا جیسی تعمیرات ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں-یہ عمارتیں کشادہ، روشن، رنگیں، پروقار اور خطاطی سے مزین بہترین ڈیزائن اور جیومیٹری کا نمونہ ہیں-مؤرخین کے مطابق یہ توحید کی طاقت تھی کہ مسلمانوں نے گزشتہ تہذیبوں کے بت تراشنے کی روایت کو توڑا اور فنِ تعمیر میں جیومیٹری ، رنگ ، اور خطاطی کا اعلیٰ استعمال کیا-
یورپین سائنس، طب، فلسفہ اور ادب پر اسلامی معاشرے کے گہرے اثرات ثبت ہیں- یورپ میں طب کا کافی حد تک انحصار مسلم ادویات اور مسلمان طبیبوں پر ہے- مغربی طب نے کئی صدیاں اسلامی طریقِ علاج اور ادویات سے استفادہ کیا- زبانی انکار کے باوجود مغرب نے اسلام سے بہت کچھ سیکھا جس کی تصدیق شیکسپیر اور جیفری چوسر کے لٹریچر میں بھی ملتی ہے-
Ref: ( Studies in Islamic Civilization The Muslim Contribution to the Renaissance” written by Ahmed Essa & Othman Ali, p.22.)
اسلامی تہذیب سے علم و حکمت سپین کے ذریعے یورپ پہنچا- کئی غیرمسلموں نے اسلامی نام، کپڑے، رواج اور عربی زبان کو اختیار کیا- کئی یہودی اور عیسائی طلباء بالخصوص فرانس کے بادشاہ چارلس (Charlemagne) نے حصول علم کے لیے سپین میں مسلم درس گاہوں (یونیورسٹیز) کا رخ کیا-مغرب میں عربی کتب کا لاطینی زبان میں ترجمہ ہونا شروع ہوا- ان کتب میں زیادہ تر سائنس، طب اور فلسفہ شامل تھا-
امریکی مورخ ڈاکٹر گلن کوپر (Dr. Prof. Glen Cooper) کہتے ہیں جب کوئی شخص بہت بیمار اور قبل از مرگ ہوتا، جس کے زندہ بچ جانے کے آثار ختم ہو جاتےہیں تو اسے مرنے کے لیے ایک عمارت میں لے آیا جاتا جس عمارت کو مرگ خانہ (ہسپتال) کہا جاتا تھا - یہ عیسائیوں کی طرف سے قائم کردہ ایک خیراتی عمارت تھی-بعد ازاں مسلم طبیبوں نے ہسپتال میں آنے والے بیماروں کو موت کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کی بجائے ان پر تحقیق کا کام شروع کیا اور ان امراض کی وجوہات جاننے کے ساتھ ساتھ ان کے علاج کی سعی کی اور یوں ہسپتال میں مرنے کے لیے آنے والے، اب مسلم طبیبوں کے ہاتھوں علاج معالجہ سے صحت یاب ہو کر واپس گھروں کو جانے لگے-یوں اس ادارے کا مفہوم تک ہی تبدیل ہو گیا-
Ref: (Prof. Glen Cooper, “The West Owes a Debt to Islam: Interview with Prof Glen Cooper,” Muslim Heritage, http://www.muslimheritage.com/article/west-owes#transcript
اس انقلاب اور ترقی کا سہرا مسلم تہذیب کی تابندگی کے سر ہے-آج اگر ہم ہسپتال میں مرنے کی بجائے صحت یاب ہونے جاتے ہیں تو اس نظریے کے بانی ’’مسلمان‘‘ ہیں-اسلامی تہذیب نے ایسے انسان پیدا کئے جو انسانیت کے لئے ایک کیمیا گر ثابت ہوئے-یہاں پر مسلم تہذیب کی روح ’’ایمرسن‘‘کے بیان کردہ قول سے واضح جھلکتی ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ یہی اسلامی تہذیب کی مکمل تعریف ہے-
“The true test of civilization is, not the census, nor the size of the cities, nor the crops - no, but the kind of man the country turns out”.
Ref: ( Society and solitude By Ralph Waldo Emerson,P16)
’’کسی بھی ملک کی تہذیب کا صحیح معیار نہ تو مردم شماری کے اعداد ہیں نہ بڑے بڑے شہروں کا وجود،نہ غلے کی اِفراط اور نہ دولت کی کثرت بلکہ اس کا صحیح معیار صرف یہ ہے کہ وہ ملک اور قوم کس قسم کے انسان پیداکرتی ہے ‘‘-
اسلامی تہذیب کا مطالعہ تمام تر دھند لاہٹ کو دور کرکے سنہری دور تک پہنچنے کا تقاضہ کرتا ہے جس دور کو اکثر لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا یا پھر اسے متنازعہ بنا کر پیش کیا گیا-تعصب کی نظر ہو جانے والے کچھ مورخین نے لکھا کہ تہذیب اسلامی کے ماحاصل، کمالات اور ایجادات دوسری تہذیبوں سے چُرائے ہوئے ہیں-تاریخی حقائق کے مطابق، یورپ نے مسلمانوں سے، مسلمانوں نے یونان سے اور یونانیوں نے مصر سے بڑی حد تک علم حاصل کیا- لیکن ایک صریح چشم پوشی یہ بھی کی جاتی ہے کہ یورپ نے علم، عرب مسلمانوں کی بجائے براہِ راست یونان سے حاصل کیا-یونانیوں کے مصریوں سے علم حاصل کرنے کی تاریخ کو بھی اکثر ظاہر نہیں کیا جاتا- حقیقت یہ ہے کہ ہر تہذیب نے اپنے سے پہلی تہذیبوں سے کچھ چیزیں مستعار لیں اور انہیں اپنے نظریات اور خیالات کے اضافے سے نئی جہت بخشی، بعینہ یورپ کی ابھرتی تہذیب نے بھی مسلم تہذیب سے کئی علوم اور رہنما اصول حاصل کیے-تہذیب اسلامی اس ضمن میں منفرد اپنی ابدیت اور ہمہ گیریت کے سبب بھی ہے-
مسلم ثقافت کی بہترین شراکت کے بغیر یورپ کی نشاۃِ ثانیہ اور علوم و فنون کا احیاء بھی ناممکن تھا- کم و بیش ایک ہزار سال تک مسلم تہذیب دنیا کی معروف و سربراہ تہذیب رہی-
Ref:(Studies in Islamic Civilization The Muslim Contribution to the Renaissance” written by Ahmed Essa & Othman Ali, p.3.)
سائنس، فلسفہ، میڈیسن اور دیگر فنون کے علوم کا مرکز اسلامی تہذیب تھی-مسلمان مفکرین نے یورپی علم و حکمت کو جلا و بنیاد بخشی- سات سو سال تک دنیا میں سائنس کی بین الاقوامی زبان کا اعزاز ’’عربی زبان‘‘ کو حاصل رہا- آج بھی عربی زبان کی فصاحت و بلاغت اور وسعت کو دنیائے لسانیات میں برتری حاصل ہے- فارسی، اردو، انگریزی اور دیگر کئی زبانوں نے عربی سے کئی بار اپنی چاک دامنی رفو کی حتی کہ عبرانی زبان نے بھی ضرورت وسعت کے پیشِ نظر عربی گرائمر اور ذخیرہ الفاظ سے استفادہ کیا-
شہِ لولاک (ﷺ) کی ذات اسلامی تہذیب کا مرکز و محور ہیں یہی وجہ ہے کہ تہذیبِ اسلامی بڑے شفاف انداز میں دیگر مخلوق پر انسان کے شرف کو واضح کرتی ہے-انسان کی سوچ کو مثبت و تعمیری سوچ میں ڈھالنے کا اعجاز آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ذات گرامی سے منسلک ہے- جناب رسالتِ مآب(ﷺ)وجہِ ارتقائے تہذیبِ اسلامی ہیں-آپ(ﷺ) کے فکری اعجاز اور تربیت سے تخریب کا خاتمہ اور تعمیر کا آغاز ہوا-اسلامی تہذیب، مغربی اور دیگر تہذیبوں کے مقابلے میں اپنی اثر انگیزی، وسعت پذیری اور مقبولیت کے حوالے سے اپنے جوہر میں زیادہ موثر ہےکیونکہ ہر تہذیب کی بنیادیں اپنے جوہرپر انحصار کرتی ہیں-
تہذیب کی روح یا حقیقت اس کے مرکزی اور بنیادی نظام پر منحصر ہوتی ہے جس سے اس تہذیب کی پہچان بنتی ہےجیساکہ مغربی تہذیب کا مرکز مال و دولت (Georg Simmel’s theory)یا سائنسی تجربات(Max Weber’s view point) ہیں نتیجتاًدیگر اخلاقی اور ثقافتی اقدار کا تعین مال و دولت اور سائنس کی روشنی میں کیا جائے گا-
حضور رسالت مآب(ﷺ) کی شاہکارتہذیب اپنے باطن میں غیر متزلزل اور تغیر کے خوف سے آزاد عالمگیر اور آفاقی نوعیت کے عناصر سے عبارت ہےلیکن جس کا ظاہر ایسی ہیئت سےتشکیل کیا گیا ہے جو ہر زمان و مکاں سےہم آہنگی کی خصوصیات رکھتی ہے-اسلامی تہذیب حضور اکرم (ﷺ)کی حیات طیبہ سے اخذکردہ ایسےقواعد عامہ کی روشنی میں پروان چڑھتی ہے جو ہر نسل و قوم کے لئے یکساں کارگر ہے-الغرض تہذیبِ اسلامی ہی ہے جسے اختیار کر کے اقوام عالم مادی و روحانی دنیا میں ترقی کرنے کے ساتھ انسانیت کی صحیح معنوں میں خدمت کرسکتی ہے- اسلامی تہذیب ایسی تہذیب ہے جو صبغۃ اللہ (نظریہ توحید) سے مزین ہےجس میں خونی و زمینی رشتوں کی بجائے وحدت کادرس توحیدباری تعالیٰ کے بے مثال تصور سے وابستگی رکھتاہے-جس کے ہر عنصر کا ثبوت بلواسطہ اور بلا واسطہ حیات نبوی (ﷺ) سےہے-جس میں اقبال کے بقول: عجم کا حسنِ طبیعت،عرب کا سوزِدروں اور روح القدس کا ذوقِ جمال ہے-

احساس اگر ہو تو

0 comments
احساس اگر ہو تو

افسانہ
(رائٹر.فائزہ شاہ

زینت نے ایسے گھر میں آنکھ کھولی جہاں بھوک افلاس معاشی تنگی نے پہلے ہی ڈیرے ڈالے ہوے تھے - زینت سے پہلے ہی چھ بہن بھائی موجود تھے - زینت سب سے چھوٹی تھی - اس کی اماں جب ایک تھال میں کھانا دیتی سب بہن بھائیوں کو وہ سب ایک منٹ میں چٹ کر کے کھڑے ہو جاتے - زینت اپنے چھوٹے چھوٹے ھاتھوں سے تھالی میں چاول چنتی رہ جاتی - پل کے نیچے جھگیوں کی بستی میں اس کا گھر تھا - گھر تو نام کا تھا بس ایک پھٹی پرانی جھگی تھی جہاں  موسموں کی سرد و گرم روکے نا رکتی تھی - اس کا ابا خیرو بھیک مانگتا تھا - اور بچوں کو بھی یہی سکھاتاتھا - کہ بھیک مانگوں یہی ہمارہ پیشہ ہے - بڑے بھائی اور بہن بھی یہی کام کرتے تھے - سڑکوں پے ٹریفک سگنل پے بازاروں میں بھیک مانگنے کے ٹھکانے بنائے ہوے تھے - شام کو جب وہ گھر لوٹتے تو ان کے کشکول نوٹوں سے بھرے ہوے ہوتے - جنہیں خیرو اپنے قبضے میں لے لیتا - گھر میں سب یہی کام کرتے تھے - زینت کی اماں جمیلہ بھی صبح نکل جاتی بھیک مانگنے - کبھی زینت کو ساتھ لے جاتی کبھی گھر پر ہی چھوڑ دیتی - خیرو روز رات کو نوٹوں کی گڈیاں گنتا تھا - پھر بھی ہمارے حالات کیوں نہیں بدلتے اچھا گھر اچھے کپڑے اچھے اسکول میں پڑھنا - زینت اپنی پھٹی ہوئی رضائی سے چپکے چپکے دیکھ کر سوچتی - زینت کو یہ کام پسند نہیں تھا - وہ اسکول جانا چاہتی تھی پڑھنا چاہتی تھی - اب زینت آٹھ سال کی ہوگئی تھی - جمیلہ اسے ساتھ لے جانے لگی تھی - تاکہ زینت کام سیکھے - آج بھی زینت اپنی اماں کے ساتھ آئی تھی - جمیلہ کے دوپٹے کا پلو پکڑ کر ان کے پیچھے چلے جا رہی تھی - بہت رش تھا یہاں ٹریفک بھی بہت تھی -  جمیلہ نے بھیک میں ملے کچھ پیسے زینت کو دے دیے تھے تاکہ اس کا دل لگا رہے - ایک فٹ پاتھ پر رک کر جمیلہ بیٹھ گئی شاید تھک گئی تھی - زینت بھی اسکے پاس بیٹھ گئی - گاڑیاں زن زن کرتی گزر رہی تھی - اچانک زینت کو ایک دکان نظر آئی - وہ کوئی فوڈ کارنر تھا جہاں کئی لوگ اپنے بچوں کے ساتھ کھانے اور خوش گپوں میں مصروف تھے - وہ اماں کا پلو چھوڑ کر اس دکان کے باہر لگے شیشے کے پاس آگئی - شیشے سے چپک کر دیکھا اندر کا منظر خوابوں جیسا تھا - بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ لاڈ کرتے اور ہنستے مسکراتےکھانا کھا رہے تھے - زینت کو بہت بھوک لگ رہی تھی وہ کب سے نکلی تھی اماں کے ساتھ - اپنے ہاتھوں میں نوٹ دیکھے اور  ہمت کر کے زینت شیشے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی - وہ تو بس اس خوابناک منظر کو دیکھے جا رہی تھی - کونسی دنیا تھی یہ چلتے ہوے وہ ایک ٹیبل کے قریب پہنچ گئی - وہاں پڑے انواع و اقسام کے کھانے دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل رہی تھی - کوئی چلایا ویٹر کون ہے یہ بھکاری نکالو اسے یہاں سے - زینت حیرت سے اس سوٹڈ بوٹڈ شخص کو دیکھنے لگی کہ ویٹر بھاگتا ہوا آیا اور زینت کو ایک جھانپڑرسید کر کے  بازو سے دبوچ کر گھسیٹتا ہوا دکان کے دروازے تک لایا اور دروازہ کھول کر باہر نکل کر روڈکی طرف دھکیل دیا - زینت اس اچانک حملے کے لیے تیار نا تھی اسکا ناتواں سا وجود کٹی ہوئی پتنگ کی طرح لہراتا ہوا سڑک کے بیچوں بیچ جا گرا اور  ایک سوزوکی پک اسکے وجود پر سے گزر گئی - جمیلہ دوڑ کر ائی اور رو نے لگی بین کرنے لگی - یہاں وہاں کی دکانوں ٹھیلوں سے لوگ جمع ہونے لگے - فوڈ کارنر سے بھی لوگ باہر آگئے اتنا رش دیکھ کر -  وہ سوٹڈ بوٹڈ شخص بھی آیا باہر کس منظر دیکھا - کچھ نوٹ نکالے والٹ سے اور باہر کھڑے فوڈکارنر کے مالک کو دیتے ہوے بولا کچھ غریبوں کو کھانا کھلا دینا اس معصوم بچی کے نام پر - کتنے دریا دل ہیں آپ سر دکان کا مالک متاثر ہو کر بولا - اورسڑک کے درمیان زینت کا خون میں لت پت بے جان وجود ایک سولیہ نشان بن گیا

جمعہ، 20 اکتوبر، 2017

بدعت کسے کہتے ہیں اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

0 comments
بدعت کسے کہتے ہیں اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب:
’’بدعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’بَدَعَ‘‘ سے مشتق ہے۔ اس کا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ، اَصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا؛ یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’’اِبداع‘‘ کہتے ہیں۔
ابنِ حجر عسقلانی، بدعت کی لُغوی تعریف یوں کرتے ہیں :
البدعة أصلها : ما أحدث علی غير مثال سابق.
’’بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔‘‘
 ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253
قرآن مجید میں آنے والے بدعت کے مختلف مشتقات سے ان معانی کی توثیق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کو کسی مثال کے بغیر وجود عطا کیا تو لُغوی اعتبار سے یہ بھی ’’بدعت‘‘ کہلائی اور اس بدعت کا خالق خود اللہ تعالی ہے جو اپنی شانِ تخلیق بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتا ہے :
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُO
’’وہی آسمانوں اور زمین کو (عدم سے) وجود میں لانے والا ہے اور جب وہ کسی چیز (کی اِیجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے : تو ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہےo‘‘
البقره، 2 : 117
اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہو گیا کہ ہر وہ نئی چیز بدعت کہلاتی ہے جس کی مثل اور نظیر پہلے سے موجود نہ ہو۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی بھی کام (خواہ وہ نیک اور احسن ہی کیوں نہ ہو ) مثلاً اِیصال ثواب، میلاد اور دیگر سماجی، روحانی اور اخلاقی اُمور، اگر اُن پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ ہو تو بدعت اور مردود ہیں۔ یہ مفہوم سراسر غلط اور مبنی بر جہالت ہے کیونکہ اگر یہ معنی لیا جائے کہ جس کام کے کرنے کا حکم قرآن و سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر شریعت کے جملہ جائز امور کا حکم کیا ہوگا کیونکہ مباح تو کہتے ہی اسے ہیں جس کے کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور جس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل بھی دین میں نہ ہو اور کسی جہت سے بھی تعلیماتِ دین سے ثابت نہ ہو۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی بدعت کے گمراہی قرار پانے کے لئے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے :
1۔ دین میں اس کی سرے سے کوئی اصل، مثال یا دلیل موجود نہ ہو۔
2۔ نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور احکام سنت کو توڑے۔
بدعت کا اِصطلاحی مفہوم واضح کرتے ہوئے فقہاءِ اُمت اور ائمۂ حدیث نے اس کی مختلف تعریفات پیش کی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اﷲ علیہ بدعت کا اِصطلاحی مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
المحدثه والمراد بها ما أحدث، وليس له أصلٌ في الشرع ويسمي في عرف الشرع ’’بدعة‘‘، وما کان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة بخلاف اللّغة : فإن کل شيء أحدث علي غير مثال يسمي بدعة، سواء کان محمودًا أو مذمومًا
’’محدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو۔ اسی محدثہ کو اِصطلاحِ شرع میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں۔ لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو یا وہ اس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں لغوی بدعت کو نہیں۔ پس ہر وہ کام جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ۔‘‘
 ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 13 : 253
مذکورہ بالا تعریفات سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل، شرعی اصل، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو وہ ’’بدعت‘‘ ہے، لیکن ہر بدعت غیر پسندیدہ یا ناجائز و حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہی بدعت ناجائز ہوگی جو کتاب و سنت کے واضح احکامات سے متصادم ہو۔
اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے، معروف غیر ُمقلد عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں :
البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها، والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة، بل هی مباح الأصل.
’’بدعت ضلالہ جو کہ حرام ہے وہ ہے جس سے کوئی سنت چھوٹ جائے اور جس بدعت سے کوئی سنت نہ چھوٹے وہ بدعت نہیں ہے بلکہ اپنی اصل میں مباح ہے۔‘‘
 وحيد الزمان، هدية المهدی : 117

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

کیا مزار پر چادر چڑھانا اور اس کو چومنا شرک ہے؟

0 comments
مزارات مقدسہ پر چادریں چڑھانا اور ان کو چومنا شرک نہیں ہے۔ آج کل قرآن وحدیث سے بہت دور کچھ لوگ قرآن وحدیث کے نام پر غلط استدلال کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اس پر ایک جامع جواب درج ذیل ہے۔
بَابُ الصَّلٰوةِ عَلَی الشَّهِيْدِ
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ اَنَّ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ يَوْمًا فَصَلّٰی عَلٰی اَهْلِ اُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَی الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ اِلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ اِنِّيْ فَرَطٌ لَّکُمْ وَاَنَا شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ لَاَنْظُرُ اِلٰی حَوْضِی الْاٰنَ وَاِنِّيْ اُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَاءِنِ الْاَرْضِ اَوْ مَفَاتِيْحَ الْاَرْضِ وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ مَا اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوا بَعْدِيْ وَلٰکِنْ اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تَنَافَسُوْا فِيْهَا.
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن باہر نکلے اور احد میں شہید ہوجانے والوں پر نماز پڑھی جیسا کہ آپ میت پر نماز پڑھتے تھے پھر آپ منبر شریف کی طرف واپس تشریف لائے (اور منبر پر جلوہ افروز ہوکر) فرمایا میں تمہارے لئے (فرط) مقدم ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کو اب دیکھ رہا ہوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئی ہیں یا فرمایا زمین کی کنجیاں اور بے شک میں اللہ کی قسم تم پر شرک کرنے کا خوف نہیں رکھتا لیکن مجھے تم پر یہ خوف ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرنے لگ جاؤ گے‘‘۔
بخاری، الصحیح، 1 : 451، الرقم: 1279، دار اابن کثیر الیمامۃ بیروت

زیارتِ مزاراتِ اولیاء و شہداء اور عرس

حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال سے ایک سال قبل ہمیں ساتھ لیا اور احد کے شہداء کے مزارات پر گئے۔ شارحین حدیث نے علی التحقیق لکھا ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال والے سال کا واقعہ ہے، چونکہ یہ حدیث آگے بھی بخاری میں روایت کی گئی ہے جس میں صحابی کہتے ہیں کہ منبر پر خطاب کرتے ہوئے یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری منظر تھا جو ہم نے دیکھا۔ حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے نماز پڑھی جیسے الوداع کرنے والا پڑھتا ہے۔ اس پر محدثین نے کہا کہ یہ آخری سال کا واقعہ ہے گویا اس وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے مزارات پر تشریف لائے شہدائے احد کو آٹھ سال بیت چکے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام صحابہ کو ساتھ لیا اور ایک پورا اجتماع شہدائے احد کی زیارت کے لئے گیا۔
لہٰذا اجتماعی طور پر مزارات کی زیارت کو جانا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
آپ کے ساتھ سینکڑوں صحابہ تھے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب کیا۔
گویا سینکڑوں صحابہ کا اجتماع ہوا تو پھر مزار ولی اور مزار شہید پر سینکڑوں کا اجتماع اور زیارت کرنا یہ بھی سنت ہے اور اسی کو عرس کہتے ہیں۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائے احد کا عرس منایا تھا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے عرس کہاں سے ثابت ہے ؟ حدیث کا اگلا حصہ اس امر کو واضح کررہا ہے کہ جب آپ نے وہاں نماز پڑھ لی یا دعا فرما لی (شارحین حدیث کے ہاں دونوں معنیٰ آئے ہیں)
ثُمَّ انْصَرَفَ اِليَ الْمِنْبَر
 ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر کی طرف متوجہ ہوئے اور منبر پر قیام فرماکر خطاب کیا‘‘۔
چونکہ منبر پر کھڑے ہوکر خطاب کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کی تعداد کثیر تھی کیونکہ اگر تعداد کم ہوتی تو منبر پر قیام فرما کر خطاب کی ضرورت و حاجت نہ تھی۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کی کثیر تعداد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھی اور ان تمام کو ساتھ لے کر مزارات شہدائے احد پر آئے۔ شہدائے احد کی قبور میں منبر کی موجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ منبر ساتھ لے کر گئے تھے یا منگوایا گیا تھا۔ گویا جاتے ہوئے یہ ارادہ تھا کہ صرف زیارت ہی نہیں ہوگی بلکہ خطاب بھی ہوگا۔
معلوم ہوا جب مزار کی زیارت ہو، سینکڑوں کا اجتماع ہو، منبر لگے اور منبر پر خطاب ہو یہ تمام اجزاء مل جائیں تو اسی کو عرس کا نام دیا جاتا ہے۔
لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات سے قبل آداب سکھادیئے کہ شہداء، اولیاء، صالحین کے مزار پر جانا، ان کی اجتماعی زیارت کرنا، خطاب کرنا، ذکر و تذکیر اور وعظ و نصیحت کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
اس موقع پر خطاب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فضائل اور مناقب بیان کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احکام و شریعت میں سے کوئی مسئلہ بیان نہیں کیا بلکہ خطاب شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر تھا۔ فرمایا : لوگو! میں تم سے پہلے جارہا ہوں تاکہ آگے تمہاری بخشش کا انتظام کروں، میں وہاں تمہارا استقبال کروں گا۔
اِنِّيْ فَرَطٌ لَکُمْ وَفِيْ رَوايَة قَالَ حَيَاتِيْ خَيْرُلَّکُمْ وَمَمَاتِيْ خَيْرٌلَّکُمْ.
’’میں تمہاری خاطر آگے جانے والا ہوں اور ایک روایت میں ہے۔ میری زندگی بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور میرا وصال (بھی ) تمہارے لیے بہتر ہے‘‘
یعنی میں تم میں تھا تب بھی تمہیں فیض دیتا رہا، اب آگے جارہا ہوں، وفات بھی تمہارے لئے باعث فیض ہوگی، تمہیں بخشوانے کا سامان کرنے جارہا ہوں۔
ربط بین الالفاظ کے ذریعے حدیث کو پڑھیں۔ پہلا جز یہ تھا کہ اِنِّيْ فَرَطٌ لَّکُمْ اس میں اپنے وصال اور آخرت میں صحابہ و امت کی شفاعت کا اشارہ موجود ہے کہ تمہاری شفاعت کا بندوبست کرنے جارہا ہوں۔ اس کے بعد فرمایا وَاَنَا شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ اور یہ نہ سمجھنا کہ میں رخصت ہوگیا، نہیں میں پھر بھی تمہیں دیکھتا رہوں گا۔ تمہارے اوپر گواہ اور نگہبان رہوں گا۔ فَرَطٌ لَّکُمْ اورشَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ کے درمیان ایک معنوی ربط ہے۔ فَرَطٌ لَّکُمْ وصال کی خبر دے رہا ہے اور شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ اشارہ دے رہا ہے کہ کہیں یہ نہ سمجھنا کہ اب میں نہیں رہا بلکہ میں تم پر نگہبان رہوں گا، تمہارے اعمال اور درود و سلام مجھ پر پیش ہوتے رہیں گے میں تمہارے اعمال نیک و بد سے خوش و غمزدہ ہوتا رہوں گا اور ہر لمحہ تم سے باخبر رہوں گا۔ پھر فرمایا : وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ لَاَنْظُرُ اِلٰی حَوْضِی اَلْاٰن. اس تیسرے جملے میں خوشخبری دی کہ ایک حوض، حوض کوثر ہے اور میں اس وقت اس حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ حوض، جنت میں ہے مگر اس کا ظہور قیامت کے دن ہوگا اور یہ حقائق غیبیہ میں سے ہے۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کی سرزمین پر کھڑے ہوکر اسی لمحے اس حوض کوثر کا مشاہدہ بھی فرمارہے ہیں جو جنت میں ہے یا جو قیامت کے دن ظاہر ہونے والا ہے۔ گویا وہاں کھڑے ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت بھی دیکھ رہے ہیں اور جس دن قیامت برپا ہوگی اس دن کا منظر بھی دیکھ رہے ہیں پھر فرمایا :
وَاِنِّيْ اُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَائِن الْاَرْض اَوْ مَفَاتِيْحَ الْاَرْضِ.
’’اور زمین کے سب خزانوں کی ساری چابیاں مجھے عطا کردی گئی ہیں‘‘۔
’’مَفَاتِيْح‘‘ جمع منتہی الجموع ہے اور ’’خزائن‘‘ بھی جمع ہے۔ ’’مفاتیح‘‘ اور ’’خزائن‘‘ آپس میں مضاف اور مضاف الیہ ہیں، جب مضاف و مضاف الیہ دونوں جمع ہوں نیز مضاف جمع منتہی الجموع ہو یعنی جمع کی اضافت جمع پر ہو تو یہ استغراق کلی کا فائدہ دیتا ہے، کلیت پر دلالت کرتا ہے۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتا رہے ہیں کہ جتنی قِسموں کے خزانے ہیں اور ان کی جتنی چابیاں ہیں، رب نے مجھے عطا کردی ہیں۔ گویا خزانوں کے مالک بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور چابیوں کے مالک بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا :
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ.
’’اور غیب کی کنجیاں (یعنی وہ راستے جس سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اس کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں‘‘۔
الانعام، 6 : 59
غیروں کے لئے تالا ہوتا ہے اور اپنوں کے لئے چابیاں ہوتی ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی امت کے لئے اشارہ فرمادیا کہ زمین کے کل خزانوں کی کل چابیاں مجھے دی ہیں۔ اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ ’’تم میرے قدموں سے جڑ جاؤ، جس کو طلب ہوگی، صدق کا تعلق ہوگا اس کو خزانوں سے بھردوں گا‘‘۔
مَفَاتِيْحَ الْاَرْض میں مستقبل میں فتوحات اسلام کی طرف بھی اشارہ ہے نیز اس سے عرب کی سرزمین سے نکلنے والے تیل کی طرف بھی اشارہ ہے۔ یہ بات بغیر دلیل کے نہیں ہے، امام حجر عسقلانی بھی اس بابت ارشاد فرماتے ہیں کہ یہاں سرزمین عرب کے تیل و معدنیات کی طرف اشارہ ہے۔ تو پھر جو کچھ زمین سے نکلا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 1400 سال قبل بیان فرما دیا اور اب جس جس وقت میں جو کچھ بھی ظاہر ہوگا اور جو جو اس سے بہرہ مند ہو گا اور نفع اٹھائے گا وہ سب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا صدقہ ہو گا۔ مانے یا نہ مانے یہ الگ بات ہے مگر ہر کوئی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا صدقہ ہی کھائے گا۔

سوادِ اعظم پر شرک کے فتوے لگانے والوں کیلئے مقام غور !

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائے احد کی زیارت کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے آخری حصے میں فرمایا :
وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ مَا اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِی.
’’خدا کی قسم! مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں ہے کہ میرے بعد تم شرک کرو گے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو مشرک قرار دینے والے غور کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر شرک کا اتہام تہمت لگانے والوں کیلئے مقام غور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھائی کہ مجھے اس بات کا خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے۔
وَلٰکِنْ اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تَنَافَسُوْا فِيْهَا.
’’بلکہ اس بات کا خوف ہے کہ تم دنیا طلبی اور دنیا کی اغراض میں پھنس جاؤ گے‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا کہ دنیا کی وجہ سے ہلاکت میں چلے جاؤ گے‘‘۔
یہاں ایک جزئیہ سمجھنے والا ہے۔ بعض احباب یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرک کے خوف کا نہ ہونا یہ صرف صحابہ کرام کی طرف اشارہ ہے کہ وہ شرک سے مستثنیٰ اور مبراء تھے۔ اور ہمیں مبراء نہیں کیا کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی۔ ایک لمحہ کے لئے اس سوال کو اگر قبول کر لیا جائے تو اب اس کا جواب یہ ہے۔ ’’ولکن‘‘ (لیکن) کے آنے کی وجہ سے جملے کے دونوں اجزاء ایک ہی جملہ ہوں گے۔ مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ یہ خوف ہے کہ تم دنیا پرستی کرو گے۔ اس جملے کو صرف صحابہ کے دور تک محدود کرنے والے غور کریں کہ اگر صحابہ کے ساتھ شرک کے خوف کا نہ ہونا خاص کرنا ہے تو صرف شرک کے خوف کا نہ ہونا ہی صحابہ کے ساتھ خاص نہ ہوگا بلکہ پھر دنیا پرستی کا الزام بھی ان کے ساتھ خاص ہوگا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو باتیں کہیں۔
  1. عدم شرک
  2. دنیا پرستی
اب یہاں دو امکان ہیں کہ یہ بات یا تو جمیع امت کے لئے فرمائی ہے یا صرف صحابہ کرام کے لئے ہے۔ اگر جمیع امت کے لئے ہے تب بھی دونوں جزء ہیں، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا۔ اور اگر صرف صحابہ کے لئے ہے تب بھی دونوں جزء، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا۔ کیونکہ ’’ولکن‘‘ ’’لیکن‘‘ کے بغیر جملہ مکمل نہیں ہوگا۔ پس حدیث مبارکہ میں موجود شرک کے خوف کا نہ ہونا صرف صحابہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جمیع امت کے لئے ہے۔ پس معنی یہ ہوگا کہ اے میری امت مجھے تمہارے بارے شرک کا خوف تو نہیں مگر یہ خوف ہے کہ دنیا کی اغراض میں پھنس جاؤ گے۔ میں نے شرک کو جڑوں سے کاٹ کر اتنا ختم کردیا ہے کہ قیامت کے دن تک میری امت من حیث المجموع اب مشرک کبھی نہیں بنے گی۔ اور اگر خطرہ ہے تو صرف یہ کہ امت دنیا پرستی میں مبتلا ہوگی۔ آج ہم دنیا پرستی میں مبتلا ہیں۔ تو پھر جزء اول بھی حق ہوا اور جزء ثانی بھی حق ہوا۔ جب جزء ثانی امت کے بارے میں حق ہے کہ واقعتاً امت دنیا پرستی میں مبتلا ہے تو جزء اول بھی حق ہے کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک جزء لے لیا جائے اور ایک جزء چھوڑ دیا جائے۔
آج امت دنیا پرستی کا شکار ہے اور اسی کے باعث ذلت و رسوائی کا عذاب بھگت رہی ہے مگر بطور مجموعی امت مشرک نہیں ہوگی اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضمانت دے دی۔ لہٰذا اب امت کے سواد اعظم کو مشرک کہنا یا ان کے عقیدہ کو شرک تصور کرنا یہ سواد اعظم پر اعتراض نہیں بلکہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کو معاذ اللہ رد کرنا ہے۔
آپ لوگوں کو مبارک ہوکہ شرک کی تہمت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سب سے دفع فرمادیا۔ لہٰذا امت کو مشرک قرار دینے سے احتیاط کرنی چاہئے۔

اہل ایمان کے مزارات پر پھول چڑھانا اور چراغاں کرنا

فرمان باری تعالیٰ ہے کہ ہر چیز اﷲ تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہی ہے :
وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـكِن لاَّ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًاo
’’کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح (کی کیفیت) کو سمجھ نہیں سکتے، بے شک وہ بڑا بردبار بڑا بخشنے والا ہے‘‘۔
بنی اسرائیل 17 : 44
معلوم ہوا کہ کائنات کی ہر چیز اپنی زبان اور حال کے مطابق اﷲ تعالیٰ کی پاکی بولتی ہے ہاں مگر ہر چیز کی تسبیح کو ہر ایک نہیں سمجھتا۔ اہل ایمان کی قبروں پر جو سبزہ گھاس وغیرہ ہے وہ بھی اﷲ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل کرتا ہے اور اس کا ثواب قبر والے کو پہنچتا ہے نیک ہے تو اس کے درجات بلند کیے جاتے ہیں گناہگار ہے تو اس کی مغفرت ہوتی ہے اور عذاب میں تخفیف کا باعث ہے۔ قبروں اور مزارات پر لوگ پھول چڑھاتے ہیں اس کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ سبزہ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح و تکبیر و تہلیل کرے گا اور اہل قبور کو اس کا ثواب ملتا رہے گا جب تک ہرا ہے۔

حدیث مبارکہ کی روشنی میں

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اﷲُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ مَرَّ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي کَبِیرٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ فِي کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً فَقَالُوا يَا رَسُولَ اﷲِ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا فَقَالَ لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا.
’’حضرت ابن عباس ضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے جن کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ فرمایا کہ ان کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کبیرہ گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ ایک پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھایا کرتا تھا۔ پھر آپ نے ایک سبز ٹہنی لی اور اس کے دو حصے کیے۔ پھر ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! یہ کیوں کیا؟ فرمایا کہ شاید ان کے عذاب میں تخفیف رہے جب تک یہ سوکھ نہ جائیں‘‘۔
بخاری، الصحیح، 1 : 458، رقم : 1295

شرح حدیث

امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں :
أن المعنی فيه أنه يسبح مادام رطبا فيحصل التخفيف ببرکة التسبيح وعلی هذا فيطرد في کل ما فيه رطوبة من الأشجار وغيرها وکذلک فيما فيه برکة کالذکر وتلاوة القرآن من باب الأولی.
’’مطلب یہ کہ جب تک ٹہنیاں (پھول، پتیاں، گھاس) سر سبز رہیں گی، ان کی تسبیح کی برکت سے عذاب میں کمی ہوگی بنابریں درخت وغیرہ جس جس چیز میں تری ہے (گھاس، پھول وغیرہ) یونہی بابرکت چیز جیسے ذکر، تلاوت قرآن کریم، بطریق اولیٰ باعث برکت و تخفیف ہیں، وھو اولی ان ینتفع من غیرہ اس حدیث پاک کا زیادہ حق ہے کہ بجائے کسی اور کے اس کی پیروی کی جائے‘‘۔
عسقلانی، فتح الباری، 1 : 320، دار المعرفۃ بیروت
دیو بندی عالم شیخ انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں :
في ((الدر المختار)) اِنَّ اِنباتَ الشجرةِ مُسْتَحبٌّ ۔ ۔ ۔ وفي ((العالمگیریۃ)) أنَّ اِلقاءَ الرياحين أيضًا مُفِيْد.
’’در مختار میں ہے قبر پر درخت لگانا مستحب ہے۔۔۔ اور فتاوی عالمگیری میں قبر پر پھول چڑھانا، ڈالنا بھی ہے‘‘۔
انور شاہ کشمیری، فیض الباری شرح صحیح بخاری، 3 : 72، دار الکتب العلمیۃ بیروت۔ لبنان
دیوبندی عالم شیخ رشید احمد گنگوھی کا مؤقف درج زیل ہے :
ابن عابدین (شامی) نے فرمایا ہری جڑی بوٹیاں اور گھاس قبر سے کاٹنا مکروہ ہے خشک جائز ہے جیسا کہ البحر و الدرر اور شرح المنیہ میں ہے۔ الامداد میں اسکی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جب تک گھاس، پھول، پتے، ٹہنی سر سبز رہیں گے۔ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے اس سے میت مانوس ہوگا اور رحمت نازل ہوگی۔ اس کی دلیل وہ حدیث پاک ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر سبز ٹہنی لے کر اس کے دو ٹکڑے کیے اور جن دو قبروں کو عذاب ہو رہا تھا ایک ایک ٹہنی ان پر رکھ دی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ جب تک یہ خشک نہ ہونگی ان کی تسبیح کی برکت سے ان کے عذاب میں کمی رہے گی کیونکہ خشک کی تسبیح سے زیادہ کامل سرسبز کی تسبیح ہوتی ہے کہ ہری ٹہنی کی ایک خاص قسم کی زندگی ہے۔ اس ارشاد پاک کی پیروی کرتے ہوئے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ قبروں پر پھول، گھاس، اور سر سبز ٹہنیاں رکھنا مستحب ہے۔ اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے یہ جو ہمارے زمانہ میں قبروں پر تروتازہ خوشبودار پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ذکر کیا کہ حضرت بریدہ اسلمی رضی اﷲ عنہ نے اپنی قبر میں دو ٹہنیاں رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔
رشيد أحمد گنگوهی، لامع الدراری علی جامع البخاری، 4 : 380، المکتبة الإمدادية، باب العمرة. مکة المکرمة
ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اور امام طحاوی حاشیہ مراقی الفلاح میں فرمایا ہے :
أفتی بعض الأئمة من متأخري أصحابنا بأن ما اعتيد من وضع الريحان والجريد سنة لهذا الحديث.
’’ہمارے متاخرین ائمہ احناف نے فتوی دیا کہ قبروں پر جو پھول اور ٹہنیاں رکھنے کا دستور ہے اس حدیث پاک کی رو سے سنت ہے‘‘.
1۔ ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، 2 : 53، دار الکتب العلمیۃ لبنان۔ بیروت
2۔ طحاوی، حاشیۃ علی مراقي الفلاح، 1 : 415، المطبۃ الکبری الامیریۃ ببولاق مصر
امام طحاوی مذکورہ عبارت کے ساتھ مزید اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وإذا کان يرجی التخفيف عن الميت بتسبيح الجريدة فتلاوة القرآن أعظم برکة.
’’اورجب ٹہنیوں کی تسبیح کی برکت سے عذاب قبر میں تخفیف کی امید ہے تو تلاوت قرآن کی برکت تو اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے‘‘۔
ایضاً
امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں :
وذهب المحققون من المفسرين وغير هم إلی أنه علی عمومه... استحب العلماء قرأة القرآن عند القبر لهذا الحديث لأنه إذا کان يرجی التخفيف يتسبيح الجريد فبتلاوة القرآن أولی.
’’محققین، مفسرین اور دیگر ائمہ اس طرف گئے ہیں کہ یہ حدیث پاک عام ہے۔ ۔ ۔ علماء نے اس حدیث پاک کی روشنی میں قبر کے پاس تلاوت قرآن کو مستحب کہا ہے اس لیے کہ جب ٹہنی کی تسبیح سے تخفیف کی امید ہوسکتی ہے تو تلاوت قرآن سے بطریق اولیٰ امید کی جا سکتی ہے‘‘۔
نووی، شرح صحیح مسلم، 3 : 202، دار اِحیاء التراث العربي بیروت
فقہائے کرام
وضع الورود و الرياحين علی القبور حسن وإن تصدق بقيمة الورد کان أحسن.
گلاب کے یا دوسرے پھول قبروں پر رکھنا اچھا ہے اور ان پھولوں کی قیمت صدقہ کرنا زیادہ اچھا ہے‘‘۔
الشیخ نظام وجماعۃ من علماء الھند، الفتاوی الہندیۃ، 5 : 351، دار الفکر
یہ حقیقت تو بے غبار ہوگئی اور حق بات روشن ہوگئی کہ مسلمانوں کی قبروں پر پھول رکھنا، پتے، ٹہنیاں اور گھاس اگانا، رکھنا مسنون ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل ہے اور اس کی جو وجہ بتائی کہ صاحب قبر کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور یہ عمل عام ہے قیامت تک اس کو نسخ نہیں کیا جا سکتا، کوئی کلمہ گو اس کا انکار نہیں کر سکتا اور مزید کسی کی تائید کی ضرورت نہیں تاہم، ہم نے تبرعاً اکابر ائمہ اہل سنت کے اقوال پیش کر دئیے ہیں۔ اب بھی کوئی نہ سمجھے یا نہ سمجھنا چاہے تو اس کو اﷲ ہی سمجھائے۔ اہل ایمان کو اطمینان ہونا چاہیے کہ ان کا یہ عمل سنت نبوی ہے۔

زائرین حضرات کی فوری توجہ کے لیے

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم انتہاء پسند ہیں اعتدال و توازن جو اسلامی احکام و تعلیمات کا طرہ امتیاز ہے ہمارے ہاں مفقود ہے۔ ایک انتہا تو یہ ہے کہ سنت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا سوچے سمجھے آنکھیں بند کرکے بدعت اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر حرام کہدیا جو سراسر زیادتی اور احکام شرع کی خلاف ورزی ہے دوسری طرف جائز و مستحسن بلکہ سنت سمجھنے والوں نے اس سنت کے ساتھ اتنی بدعات جو ڑ دیں کہ الامان و الحفیظ۔

موم بتیاں اور چراغ روشن کرنا

ان کی اصل صرف یہ ہے کہ زائرین کسی وجہ سے دن کو زیارت قبور کے لیے نہیں آ سکتے رات کو وقت ملتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں قبرستان تک پہنچنے کے لیے اور صاحب مزار تک آرام سے پہنچنے کے لیے اور زائرین کی سہولت کے لیے رات کے وقت موم بتی یا چراغ وغیرہ کے ذریعہ روشنی کا انتظام کیا جاتا تھا تاکہ رات کو آنے جانے والوں، تدفین کرنے والوں اور زائرین کو تکلیف نہ ہو اور وہ روشنی میں بآسانی آ جا سکیں یہ چراغاں عام راستوں میں قبرستانوں اور مساجد وغیرہ میں ہوتا تھا اور آج بھی بوقت ضرورت ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے اور اس کے جواز بلکہ استحباب میں کوئی شبہ نہیں۔
علامہ امام شیخ عبد القادر الرافعی الفاروقی الحنفی تقریرات الرافعی علی حاشےۃ ابن عابدین میں لکھتے ہیں :
إن البدعة الحسنة الموافقة لمقصود الشرع تسمی سنة فبناء القباب علی قبور العلماء والأولياء والصلحاء ووضع الستور والعمائم والثياب علی قبورهم أمر جائز إذا کان القصد بذلک التعظيم فی أعين العامة حتی لا يحتقروا صاحب هذا القبر وکذا ايقاد القناديل والشمع عند قبور الاولياء والصلحاء من باب التعظيم والا جلال ايضاً للأولياء فالمقصد فيها مقصد حسن ونذر الزيت والشمع للأولياء يوقد عند قبورهم تعظيما لهم ومحبة فيهم جائز ايضاً لا ينبغی النهی عنه.
’’اچھی بدعت (نئی بات) جو مقصود شرع کے موافق ہو سنت کہلاتی ہے پس علماء اور اولیاء اور صلحاء کی قبروں پر گنبد بنانا، ان کی قبروں پر پردے، عمامے اور کپڑے ڈالنا جائز ہے جب کہ اس سے مقصد لوگوں کی نظروں میں ان کی عظمت کا اظہار کرنا ہوتا کہ وہ صاحب قبر کو حقیر نہ سمجھیں یونہی اولیاء و صلحاء کی قبر کے پاس قندیلیں اور شمعیں روشن کرنا تعظیم و اجلال کی بنا پر ہے سو اس میں ارادہ اچھا ہے۔ زیتون کے تیل اور موم بتیاں اولیاء اﷲ کی قبروں کے پاس روشن کی جاتی ہیں یہ بھی ان کی تعظیم و محبت ہے لہٰذا جائز ہے اس سے روکنا نہیں چاہیے‘‘۔
عبدالقادرالرافعی، تقریرات الرافعی علی حاشیہ ابن عابدین، 2 : 123
علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں :
بعض الفقهاء وضع الستور و العمائم و الثياب علی قبور الصالحين و الأولياء وقال في فتاوی الحجة و تکره الستور علی قبور.
ولکن نحن نقول الآن إذا قصد به التعظيم في عيون العامة حتی لا يحتقروا صاحب القبر ولجلب الخشوع والأدب للغافلين الزائرين فهوجائز لأن الأعمال بالنيات وإن کان بدعة.
’’بعض فقہاء نے صالحین و اولیاء کی قبروں پر غلاف اور کپڑے رکھنے کو مکروہ کہا ہے فتاویٰ الحجۃ میں کہاقبروں پر غلاف چڑھانا مکروہ ہے۔
لیکن اب ہم کہتے ہیں کہ عام لوگوں کی نظروں میں تعظیم و تکریم مقصود ہے تاکہ وہ قبر والے کو حقیر نہ سمجھیں اور تاکہ عاجزی و انکساری پیدا ہو اور غافل زائرین میں ادب پیدا ہو تو یہ امور جائز ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اگرچہ نئی چیز ہے‘‘۔
ابن عابدین شامي، ردالمحتار، 6 : 363، دار الفکر بیروت

خلاصۂ کلام

مسلمان کی قبر پر پھول چڑھانا بھی مسنون ہے اور زائرین کی سہولت کے لیے رات کو چراغ جلانا یا روشنی کرنا بھی کار خیر ہے اس سے لوگوں کو آرام اور صاحب قبر کی عزت و عظمت کا اظہار ہوتا ہے یونہی غلاف چڑھانا بھی مزارات و صاحبان مزارات کی تعظیم و تکریم کا اظہار کرنا ہے مگر آج کل بعض مزارات و مقابر پر جو جہالت، فضول خرچی، گمراہی اور ماحول کی پرا گندگی و تعفن پیدا کیا جاتا ہے وہ سراسر فضول، اسراف اور جہالت و گمراہی ہے۔

چراغاں

آپ موم بتی یا تیل کا چراغ اس نیت سے رکھیں کہ بجلی نہ ہونے کی صورت میں روشنی کا اہتمام کر کے عام ضرورت پوری کی جائے، اچھا ہے، اس کے ساتھ ایمرجنسی لائیٹ کا متبادل بھی آ گیا ہے۔ چراغوں اور موم بتیوں کی جگہ اسے استعمال کریں ان سے نہ دھواں، نہ گندگی اور نہ ہی بدبو پیدا ہوتی ہے آج کل مختلف مزارات پر حد سے زیادہ ہونے والا چراغاں جہالت، حماقت اور فضول خرچی ہے بجلی کی ٹیوبوں اور قمقموں کی دلفریب حسین روشنی کے ہوتے ہوئے بھی حد سے زیادہ چراغ جلانا، موم بتیاں روشن کرنا اور ان موم بتیوں کو آگ کے الاؤ میں ڈالنا، پگھلانا اور جلانا فضا کو زہر آلود کرتا ہے پورا ماحول گندا اور بدبودار ہوتا ہے لطافت و نظافت پسند شریف آدمی کو سانس لینا اور قدم رکھنا دشوار ہے ان پڑھ اور پڑھے لکھے جہلا خراج عقیدت پیش کر کے دین کی خدمت اور بزرگوں کی نیک نامی کو چار چاند لگا رہے ہیں یہ سب ولایت و تصوف کے نام پر ہو رہا ہے علماء و مشائخ دیکھ رہے ہیں سیاستدان اور حکمران دیکھ رہے ہیں صحافی اور دانشور تماشا دیکھ رہے ہیں اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ بلا ضرورت یہ موم بتیوں کا الاؤ اور چراغوں کا جلانا کونسی نیکی ہے؟ یہ سب قومی دولت کا ضیاع ہے شیطانی فضول خرچی ہے روحانی اور ستھرے ماحول کو زہریلے دھوؤں سے زہر آلود کرنا ہے پاؤں رکھو تو تیل اور موم، نہ بیٹھنا ممکن نہ چلنا، نہ سانس لینا، گرمی، بدبو، دھوئیں کی گندگی اور وہ بھی کہاں؟ داتا گنج بخش رحمۃاﷲ علیہ کے مزار اور مسجد میں، مادھولال حسین کے مزار اور مسجد میں یہاں سے زائرین تربیت لے کر اپنے علاقوں میں گندگی پھیلاتے ہیں۔
اے مسلمان بھائیو ! ان بیہودگیوں سے توبہ کرو مزارات و مساجد کی عزت و عظمت کو پامال نہ کرو فضول خرچیوں اور بد تمیزیوں سے شیطان کے بھائی نہ بنو ان مقدس مقامات کی بے حرمتی نہ کرو اولیاء اﷲ کے آستانوں کو گندگی کے ڈھیروں میں مت بدلو! دنیا کی نظروں میں اسلام اور تصوف کو بدنام نہ کرو۔ آج دنیا کی کوئی قوم کسی سے دور نہیں رہی دنیا ہماری ان حماقتوں کو دیکھ رہی ہے۔
بند کرو ! آگ کے یہ الاؤ نہ بدنام کرو ان اچھے ناموں اور خوبصورت آستانوں کو۔ ۔ صاف کردو اﷲ کے گھروں کو، رکوع، سجود اور اعتکاف کرنے والوں کے لیے۔ ۔ بحال کردو ان کی عظمت رفتہ کو۔ ۔ منالو ! اپنے روٹھے خدا کو۔ ۔ خوش کردو اپنے پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو۔ ۔ اپنی طرف مبذول کرلو تو جہات اولیاء کو۔
ختم کردو ! ان آستانوں سے جوا، نشہ، بے پردگی، بے ہودگی، بدمعاشی کو۔ ۔ مٹادو گندے دھوئیں، بدبو اور جملہ آلودگی کو۔ ۔ تاکہ تاریک دلوں کو جلا ملے، اندھی آنکھوں کو شرم و حیاء ملے، بیماردلوں کو دوا ملے، پورا ماحول رنگ و نور کے ماحول میں ڈوب جائے۔ ۔ بیقرار دلوں کو سکون اور پراگندہ طبیعتوں کو اطمینان و یقین کی دولت میسر ہو۔

بزرگوں کے ہاتھ اور ان کے مزارات کا بوسہ

عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه أَنَّهُ جَاءَ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ فَقَالَ إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس تشریف لائے، پھر اسے بوسہ دیا، پھر فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے(اس حیثیت سے ) نہ نقصان دہ نہ فائدہ مند۔ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے دیکھا نہ ہوتا، تجھے (کبھی) نہ چومتا‘‘۔
بخاری، الصحیح، 2 : 579، رقم : 1520
علامہ عینی نے امام شافعی کا یہ قول نقل کیا ہے :
أما تقبيل الأماکن الشريفة علی قصد التبرک وکذلک تقبيل أيدي الصالحين وأرجلهم فهو حسن محمود باعتبار القصد والنيه وقد سأل أبو هريرة الحسن رضی اﷲ تعالی عنه أن يکشف له المکان الذي قبله رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وهو سرته فقبله تبرکا بآثاره وذريته صلی الله عليه وآله وسلم وقد کان ثابت البناني لايدع يد أنس رضی اﷲ تعالی عنه حتی يقبلها ويقول يد مست يد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم. . . أن الامام أحمد سئل عن تقبيل قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم وتقبيل منبره فقال لا بأس بذلک قال فأريناه للشيخ تقی الدين بن تيمية فصار يتعجب من ذلک ويقول عجبت أحمد عندي جليل بقوله هذا کلامه أو معنی کلامه قال وأي عجب في ذلک وقد روينا عن الامام أحمد أنه غسل قميصا للشافعي وشرب الماء الذي غسله به واِذا کان هذا تعظيمه لأهل العلم فکيف بمقادير الصحابه وکيف بآثار الأنبياء عليهم الصلاة والسلام ولقد أحسن مجنون ليلی حيث يقول :
أمر علی الديار ديار ليلی
أقبل ذا الجدار وذا الجدارا
وما حب الديار شغفن قلبی
ولکن حبُّ من سکن الديارا
قال المحب الطبري يمکن أن يستنبط من تقبيل الحجر واستلام الأرکان جواز تقبيل ما في تقبيله تعظيم تعالی فانه ان لم يرد فيه خبر بالندب لم يرد بالکراهه.
’’حصول برکت کے ارادے سے مقامات مقدسہ کو چومنا، اسی طرح نیک لوگوں کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دینا، نیت و ارادہ کے اعتبار سے اچھا اور قابل تعریف کام ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ نے امام حسن مجتبی رضی اﷲ عنہ سے عرض کی کہ وہ اپنی ناف سے کپڑا اٹھائیں جس کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوسہ دیا تھا پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی اولاد کے آثار سے برکت حاصل کرنے کے لیے اسے بوسہ دیا۔ اور (امام) ثابت بنانی جب تک بوسہ نہ دیتے حضرت انس رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ نہ چھوڑتے اور فرمایا کرتے یہ وہ ہاتھ ہے جس نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک کو چھوا ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبل سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور منبر اقدس کو بوسہ دینے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ کہا کہ ہم نے یہ قول جب شیخ تقی الدین ابن تیمیہ کو دکھایا تو وہ اس پر تعجب کرنے لگے اور کہا مجھے تعجب ہے۔ میرے نزدیک تو امام احمد کی یہ بات یا اس سے ملتی جلتی بات عجیب سی لگتی ہے۔ (محب طبری نے ) کہا اس میں تعجب کس بات پر ؟ ہم نے تو امام احمد کی یہ بات سنی ہے کہ آپ نے امام شافعی کی قمیض دھو کر اس کا دھون پی لیا تھا تو جب وہ اہل علم کی اتنی تعظیم کرتے تھے تو پھر آثار صحابہ رضی اﷲ عنہ آثار انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام سے کتنی عزت و عظمت سے پیش آتے ہوں گے۔ لیلیٰ کے مجنوں (قیس عامری) نے کیا خوب کہا :
جب لیلیٰ کے شہر سے گزرتا ہوں
کبھی اس دیوار کو چومتا ہوں کبھی اس کو
مکانوں کی محبت نے میرا دل دیوانہ نہیں بنا رکھا
بلکہ ان میں بسنے والوں کی محبت نے یہ حال کر رکھا ہے
علامہ محب طبری نے فرمایا : یہ بھی ممکن ہے کہ حجر اسود اور ارکان کے بوسہ دینے سے ہر اس چیز کو چومنے کا مسئلہ نکالا جائے جس کے چومنے سے اﷲ تعالیٰ کی تعظیم ہے اگرچہ اس سلسلہ میں کوئی حدیث اس عموم استحباب پر مروی تو نہیں مگر اس کی کراہت پر بھی تو کوئی روایت نہیں‘‘۔
علامہ عینی کہتے ہیں : ’’میں نے اپنے دادا محمد بن ابو بکر کے بعض حواشی میں امام ابو عبد اﷲ محمد بن ابی الصیف کے حوالہ سے لکھا دیکھا ہے کہ کچھ آئمہ دین قرآن کو دیکھتے تو اسے بوسہ دیتے جب اجزائے حدیث کو دیکھتے تو ان کو بوسہ دیتے اور جب نیک لوگوں کی قبروں پر نظر پڑتی تو ان کو بوسہ دیتے فرمایا یہ کچھ بعید نہیں ‘‘۔
عینی، عمدۃ القاری، 9 : 241
عن داؤد بن أبي صالح قال أقبل مروان يوما فوجد رجلا واضعا وجهه علی القبر فقال أ تدري ماتصنع فأقبل عليه فاذا هو أبو أيوب فقال نعم جئت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ولم آت الحجر سمعت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقول لا تبکوا علی الدين إذا وليه أهله ولکن ابکوا عليه إذا وليه غير أهله.
’’داؤد بن ابی صالح کہتے ہیں ایک دن مروان آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے ہے۔ مروان نے کہا جانتے ہو کیا کر رہے ہو؟ وہ شخص مروان کی طرف متوجہ ہوئے تو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ تھے۔ فرمایا ہاں میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے جب دین کے معاملات اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو اس پر مت روؤ۔ ہاں جب امور دین نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو اس پر روؤ ‘‘۔
أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 422، الرقم : 23633، مؤسسة قرطبة مصر
مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہوگیا ہے کہ عرس منانا، مزارات پر حاضری دینا، چادر چڑھانا اور مقامات مقدسہ کو بوسہ دینا جائز ہے۔